تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

وہ اتنی شدت سے رو رہی تھی رات والا منظر اس کی نگاہوں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا وہ زمین پر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ روشنال اس حد تک کیسے گر سکتا ہے ۔
اٹھو جلدی سے اپنا حلیہ صیح کرو اور نیچے آؤ کچھ دیرخونخوار نظروں سے اسے دیکھتا رہا لیکن اس سے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر وہ جنجھلایا کر رہ گیا تھا۔ اشنال نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اس کو گھورتا پاکر نظریں جھکاگئی تھی ایسے کیا گھور رہی ہو اٹھ جاؤ نہیں تو انجام کی ذمہ دار تم خود ہو گی وہ اس کی ڈھارتی آواز سے گرتی پڑھتی اپنے ٹوٹے وجود کو لے کر اٹھی اور واشروم میں بند ہوگئی تھی ۔۔۔
وہ نیچے آئی تو سب نے اسے دیکھا وہ کنفیوز ہوکر نظریں جھکا گئی تھی وہ کسی سے نظریں ملا نہیں پا رہی تھی ۔۔۔
چلو۔۔۔۔۔روشنال یہ کہہ کر سوٹ کیس لے کر جانے لگا تھا۔۔۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کہاں اس کی آواز گلے میں اٹکی تھی ۔۔۔۔
ہم کک کہاں جارہے ہیں ۔۔۔۔۔ جو میں کہہ رہا ہوں کرو زیادہ سوال جواب مت کرو ۔۔۔۔
ہنی مون پہ لے کے جانا ہوگا نہ تمھیں اتنی بھولی کیوں بن رہی میری بیٹی کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈال کر اس کے نصیب پر تو سیاہی مل دی ہے ۔۔۔پلی۔۔۔پلیز امی میں نے ایسا کچھ نہیں کریں آپ یقین کریں میرا ۔۔۔۔وہ گڑگڑانے لگی تھی میں نے آپی کی خوشیوں کے لیے ہمیشہ دعا کی ہے ۔۔۔۔نہیں ہو تم میری بیٹی تمھاری ماں مرگئی تھی میرے لیے پیدا کر کے مر گئی تھی اور تم نے بھی تو دکھا دیا کہ تم میری سویتلی ہو میں نے تمھاری پروا کی اور تم نے مجھے ڈس لیا ثمینہ بیگم سنگدلی کی ہر حد پار کر گئی تھیں ۔۔ پلیز ام۔۔امی مج۔۔۔وہ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں کہتی ان کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھ چکی تھی ۔۔۔۔دفع ہو جاؤ میری نظروں سے انہوں نے اسے زور دار دھکا دیا جو کہ روشنال کہ قدموں میں جا گری تھی ۔۔۔۔۔وہ اٹھی تائی امی آپ تو میری بات کا یقین کریں وہ اب تہمینہ بیگم کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔جاؤ وہ تمھیں شہر لے کہ جارہا ہے وہ اس کے آنسو پونچ کر گلے لگاتیں ہوئیں بولیں تھیں اس نے آغا جان کی طرف دیکھا جو کہ نگاہیں پھیر چکے تھے وہ شروع سے اسے نہیں بلاتے تھے ۔۔۔۔۔اشنال نے سب کی طرف رو کر دیکھا مگر کسی نے کسی نے کوئی رسپانس نہیں دیا منال کہہ کچھ نہیں رہی تھی لیکن وہ اپنی جگہ شرمندہ ہوگئی تھی ۔۔۔
اشنال صیح کہہ رہی ہے یہ اس کا بھی تو گھر ہے نا حسنال نے اس کی طرف داری کی لیکن آغا جان کی کڑی نظروں سےخاموش ہوگیا تھا سب کو خاموش دیکھ کر اس کو جھٹکا لگا کیا اس کی ذات اتنی عرزاں ہوگئی تھی کہ سب اس کو نکال رہے تھے ۔۔۔۔
وہ سب کی طرف دیکھ کر رونی لگی تھی ۔۔۔
تم اسے لے کہ جارہے ہو کہ نہیں ؟ ثمینہ بیگم نے سخت آواز میں روشنال کو دیکھ کر کہا تھا
ظہور سامان رکھو گاڑی میں ۔۔۔
چلو روشنال نے ملازم کو کہہ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر جانے لگا تھا پلیز مجھے نہ لے کر جائیں مم۔۔مجھے معاف کر دیں سب لیکن روشنال کان بند کر گیا تھا مم۔۔میں نے نہیں جانا آپ کے ساتھ آپ گندے ہیں وہ اس کا ہاتھ چھڑاونے لگی ۔۔۔روشنال نے دوسرا ہاتھ گھما کر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا تھا اور اسے گھیسٹا کار میں دھکا دے کر ڈور لاک کیا تھا اور خود دوسری طرف آکے بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
اب آپ سب خوش ہیں اب آگیا آپ کو چین یہ اس کے باپ کا بھی گھر تھا حسنال بظاہر ٹھنڈے مزاج کا مالک تھا پر اس کے آنسو دیکھ کر چپ نہیں رہ پایا تھا۔۔۔۔
وہ سارے راستے روتی آئی تھی روشنال نے اسے چپ نہیں کروایا
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کے رونے سے ۔۔۔وہ سنجیدگی سے ڈرائیور کرتا رہا تھا ۔۔۔۔گھنٹے بعد وہ فلیٹ میں پہنچے وہ اترا تو اشنال بھی اس کی پیروی میں باہر نکلا ۔۔۔چابی نکال کر اس نے فلیٹ کا دروازہ اندر داخل ہوا تھا ۔۔۔فلیٹ بالکل نیو اور فنیسی سا تھا سامان بھی نیا تھا صوفے بیڈ وغیرہ ہر چیز تھی چار کمرے امریکن طرز کا کچن تھا اور لاونج بھی بہت بڑا تھا یہ فلیٹ اس نے تقربیاً سال پہلے خریدا تھا جب وہ ایم۔ بی ۔اےکرکے پاکستان آیا تھا روشنال نے فلیٹ اس لیے خریدا اگر کبھی وہ آفس کے لیے لیٹ ہوجاتا تو رات یہ ہی رک جاتا تھا اور یہ فلیٹ اس نے کبیر صاحب کہ کہنے پر خریدا تھا وہ گبھرا گئی تھی فلیٹ کو دیکھ کر ۔۔۔۔
میں آفس جا رہا ہوں یہ سامان سیٹ کر دینا وہ اس کو ہکا بکا دیکھتے ہوئے بولا جو پھر سے رونے پر آئی تھی ۔۔۔۔۔۔
میں اک۔۔اکیلی کیسے رہوں گی مجھے ڈر لگتا ہے روشنال بچن سے جانتا کہ وہ اندھیرے سے کتنا ڈرتی ہے پھر بھی وہ اس یہ اذیت دینا چاہتا تھا ۔۔۔
جیسے اور رہتی ہیں اب روئی میں لحاظ نہیں کروں گا تھپڑ لگا دوں گا وہ رات سے اس کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔۔۔بند کر و یہ ڈرامہ جینا حرام کرکے رکھ دیا ہے تم نے میرا وہ اس کے رونے سے جنجھلا گیا تھا ۔۔۔۔۔مگر وہ اور بلند آواز میں رونے لگی روشنال کے غصے کا گراف اور بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔تمھارا رونا نہیں بند ہو رہا نا۔۔۔۔۔۔اوہ اب سمجھ آئی تمھاری خواہش ہے کہ میں تمھارے پاس رہوں وہ اسے بازو سے پکڑتا قریب کرگیا تھا۔۔۔۔۔جب کہ اشنال کو اپنا رونا بھول گیاوہ خوفزدہ سی ہوکر اسے دیکھنے لگی اپنے آپ کو اس کے بازوؤں سے چھڑانا چاہا وہ تڑپ کر اس کے حصار سے نکلی تھی اب کیا ہوا یہ ہی تو تم چاہتی تھی میں تمھارا ہوکر رہوں اور کسی کا کام کا نہ رہوں ۔۔۔ اسکی گھٹیا باتیں سن اسکا چہرہ اہانت سے لال ہوا تھا آنسو پھر سے نکل پڑے تھے ۔۔۔۔میرے واپس آنے تک یہ سامان سیٹ ہونا چاہیے وہ کچھ پل اسے روتا ہوا دیکھتا رہا اسے حکم دیتا نکل گیا تھا اس کے جانے کے بعد وہ پھر سے روئی تھی اس کی ایک غلطی اس کا آخری خیال رکھنے والا شخص بھی دور ہوگیا تھا وہ پچھتا رہی کہ کاش وہ منال کی باتوں میں نہ آتی اور نہ اسکا محافظ اتنا بدلا ہوا ہوتا اشنال بخت کو روشنال بخت کے رویے نے توڑ کر رکھ دیا تھا وہ مومی گڑیا اس مہربان کا لہجہ سہہ نہیں پار ہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سارا دن فلیٹ صاف کرتی رہی پہلے وہ کچھ دیر خوفزدہ رہی تھی لیکن پھر یہ سوچ کر اب اس نے دن تنہا ہی گزارنے ہیں اب سوٹ کیس جو کہ کافی بھاری وہ بامشکل کھینچ کہ لے کہ گئی تھی اور اس کے کپڑے نکال کے سیٹ کیے تھے یہ کام کرنے کے بعد کچن کا فرش دھویا ہر چیز کو صاف کیاتھا۔
مغرب کی اذان ہوئی تو وضو کر کے نماز پڑھی اور سورہ یسن پڑھنے کے وہی بیڈ پہ سوگئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی رات کو گھر آیا ۔۔۔۔پورا فلیٹ صیح چمکا ہوا لگ رہا تھی ہر چیز ترتیب سے اور نفیس لگ رہی تھی اس نے کھانا کچن میں رکھا اور روم گیا جہاں وہ نماز والے سٹائل میں ڈوپٹہ لپیٹے سو رہی تھی کچھ پل تو وہ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا رہا وہ اس کے پاس بیٹھ جا بیٹھا اس وہ ابھی جھکتا ہی کہ اس کی آنکھ کھلی تھی روشنال سیدھا ہو کہ بیٹھ گیا۔۔۔۔جب کہ اشنال تھوڑی سی خائف ہوئی تھی اٹھو کھانا لگاؤ مجھے بھوک لگی ہوئی ہے اس کے سرد تاثرات دیکھ کر وہ اٹھا کھڑا ہوا تھا۔
وہ کچن میں آئی کھانا گرم کر کہ ٹیبل پر رکھا جب وہ اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتا ٹیبل پہ جا بیٹھا تھا اور کھانے لگا ۔۔۔۔کھانا کھا کر نیپکین سے ہاتھ صاف کرکے اٹھ کھڑا ہوا تھا کیبنٹ کے اوپر سامان پڑا ہوا ہے وہ نکال کر کافی بنا کر لاؤ میرے لیے ۔۔۔!اور ہاں کل میں سامان لے کر آؤں گا کھانا وغیرہ تم خود بناؤگی اگلا حکم صادر کرتا چلا گیا تھا جبکہ بےبے بسی کے احساس سء اشنال کی آنکھوں سے آنسو نکل گئے تھے وہ کبھی طبعیت کی خرابی کی وجہ سے کھانا نہیں کھاتی تو وہ اس کے روم میں لے آتا اس سے ٹبیلٹ دیتا لیکن اب وہ کل سے بھوکی تھی اس کو پرواہ نہیں تھی ۔۔۔
اس کےلیے کافی بنا کر لائی جو کمپوٹر پر کوئی کام کر رہا تھا اس کے آگے کافی کا کپ رکھا ۔۔۔
کھانا کھایا مصروف سے انداز ے پر بغیر نگاہیں ہٹائے اس سے پوچھا تھا اشنال تو خوش ہوگئی کہ اس سے پروا ہے۔
مجھے رزق کی بے حرمتی پسند نہیں ہے اور نہ میرے پاس حرام کا پیسہ ہے جو تم ضائع کرتی رہو اپنے حصے کا کھانا کھاؤ یہ نہ ہو کل میں ڈسٹ بن میں دیکھوں اگر ڈسٹ بن میں پڑا نظر آیا تو پھر اپنا حشر دیکھ لینا۔ اشنال کی ساری خوش فہمی اڑن چھو ہوئی تھی وہ روم سے نکل گئی تھی جب کہ پیچھےسے روشنال کافی کا سپ بھرتے ہوئے اپنے رویے پر غور کرنے لگا اس سے پتہ تھا کہ وہ کل سے بھوکی ہے صبح بھی وہ اسے جلدی میں لے آیا تھا دن بھر اس کی تھکن کا دیکھ کر اسے ڈائریکٹ کھانے کا نہیں کہہ سکا کیونکہ اس کی انا نے گوارا نہیں کیا تھا ۔۔۔۔
وہ کچن میں آئی اور زہر مار کر نوالے لینے لگی اور تھوڑی سی بچی ہوئی کافی پی کر برتن دھو کر لائٹ آف کرکے اندر چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ اندر آئی تو دیکھا کہ وہ چیئر پر سر رکھے سو رہا تھا وہ اس کے شوز اتارنے لگی ۔۔۔۔اسکی انگلیوں کے لمس پر اس کی آنکھ کھلی تھی ۔۔۔یہ کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔؟ وہ اپنے پاؤں جھٹکے سے پیچھے کر گیا تھا ۔۔۔
آپکے شوز اتار ۔۔۔۔
میں نے کہا تھا کرنے کو وہ اس کی بات کاٹتے زور دار سی ڈھارتھا اب ان اوچھی حرکتوں کیوں مجھے اپنی طرف متوجہ کرو گی ۔۔۔۔وہ پھر رونے لگی۔۔۔
دفع ہو جاؤ سر میں درد کر کے رکھ دیا ہے تم نے میرا وہ سہم کر پیچھے ہوئی۔۔۔وہ اپنے آنسو پہ قابو پاتی روم سے نکل کر لاونج میں آئی تھی ۔۔۔ وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ شوز اتار کر سوگیا تھا۔۔۔۔
رات کے دو بجے اسکی آنکھ کھلی تھی کروٹ بدل کر دیکھا تو تو کئی بھی نہیں تھی اس کو تشویش ہوئی سارے روم چیک کرنے کے بعد وہ پریشان ہوگیا تھا پر وہ کئی بھی نہیں تھی۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial