قسط: 21
حسنال۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کیا ہوا ہے ۔۔۔۔! بتاؤ نہ۔۔۔۔۔کسی سے لڑائی تو نہیں ہوئی ۔۔۔ اس کی گرم سانسیں گردن کو جھلسا رہی تھی اس شخص کی قربت اس پر گراں گزرہی رہی تھی ۔۔۔
اس کا کوئی رسپونس نہ پاکر اس کے سر کو پیچھے کیا تھا۔۔۔۔
ٹوٹ گیا جوڑ دو مجھے ۔۔۔۔۔۔؟ اپنی سوجن زدہ آنکھیں اس پہ ٹکاتے ہارے سے لہجے میں بولا۔۔۔۔!
کک۔۔۔۔کیا ۔۔ہوا ہے ۔۔۔۔؟ بتاؤ تو۔۔۔۔مج۔۔۔۔مجھے کک۔۔۔کسی سے لڑائی ہوئی ہے ۔۔۔۔ چینل والوں نے کچھ کہا ہے ۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامتی اس کے درد میں شریک ہوتی بولی تھی۔۔۔۔!
میں قاتل بن گیا ہوں ۔۔۔۔منال۔۔۔۔میں بہت بڑا سنگدل ہوں میں نہیں بچا پایا اس کی زندگی اس کی آنکھوں میں مر گئی ۔۔۔اس کے باپ کا چہرہ مرجھا گیا ۔۔۔اس بچی کی ماں ایسے لگتا ہے جیسے مردہ لاش ہو ۔۔۔۔میں ان لوگوں کیا تسلی دیتا میں خود بے بس تھا۔۔
لوگ کہتے ہیں مرد نہیں روتا ۔۔۔ پر میں کہتا ہوں مرد ہر پل روتا ہے جب اس کی امیدیں ٹوٹتی ہیں ۔۔۔۔جب اس کے سامنے اس کا کوئی پیارا مر جاتا ہے ۔۔۔جب اس کے سامنے اسے غلط کہا جاتا ہے۔۔۔ضروری نہیں مرد محبت کی بیوفائی میں روئے مرد اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں اندر سے خالی ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔وہ وہ اپنے اندر اتنے غم چھپا لیتا ہے چہرے پر مسکراہٹ کی تہہ چڑھا لیتا ہے لیکن اس کا دل خون کے آنسوؤں روتا ہے۔۔۔۔
مجھے اتنا دکھ تو اشنال کے اصلیت کھلنے پر بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔اس کا نکاح بھائی سے ہوا تھا میں نے ضبط کیا تھا۔۔۔۔لیکن اتنا ظللم۔۔۔۔
وہ چھوٹی سی جب ہمارے گھر آئی تھی ڈری سہمی سی بچی۔۔۔۔میں نے اس کے ڈر کو دیکھ کر اسے ہنسنا سکھایا تھا ۔۔۔۔پتہ نہیں کب کیسے میں اسے پسند کرنے لگا۔۔۔۔پھر وہ میرے لیے اتنی اہم ہوگئی تھی ۔۔اس کی غلط حرکت کی وجہ سے بھی مجھ اسے نفرت نہیں ہوئی تھی وہ یہ کہہ کر بے بس دکھائی دینے لگا تھا۔۔۔۔
حسنال اٹھو تمھاری طبعیت خراب لگ رہی ہے ۔۔۔بیڈ پہ جا کہ لیٹ جاؤ۔۔۔ اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ۔۔۔وہ اس کی باتوں کو اگنور کرتی پہلے خود اٹھی تھی اور پھر اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا اور سہارا دے کر بیڈ تک لے کر آئی تھی ۔۔۔
اور اس کو بیڈ پہ بیٹھاتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔۔وہ اس کا ہاتھ پکڑے لیٹ گیا تھا۔۔۔
وہ اس کی حالت کو دیکھ کر اس کے سیاہ بالوں میں انگلیاں چلاتی رہی ۔۔۔۔حیرت کی بات تھی کہ وہ سوگیا تھا ۔۔۔
آج وہ پھر سے آسماں سے زمین پر گری تھی آج پھر اشنال بازی لے گئی تھی آج پھر وہ جیت گئی تھی آج پھر منال رشتوں کے بازی ہار گئی تھی وہ ساری رات اس کے سرہانے بیٹھی رہی ۔۔۔۔گم صم سی پریشان سی۔۔۔ اس کی ادھر کوئی جگہ نہیں تھی ۔۔۔وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ان کی زندگیوں میں بہت مس فٹ تھی ۔۔۔
ابھی تو حسنال کو پتہ نہیں تھا ۔۔۔۔کہ اشنال بے قصور ہے س دن اسے پتہ لگنا تھا اس دن منال کی اس گھر میں کیا حسنال کی زندگی میں بھی کوئی جگہ نہیں رہنی تھی ۔۔
اس نے اپنی بے عقلی کی وجہ سے اپنا بہت بڑا نقصان کرلیا تھا اس کی ایک ہی پانچ سے بائیس سالہ زندگی میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ اس نے اپنی بہن کو منہ کے بال گرانا ہے لیکن وہ خود اس میں جاگری تھی۔۔ اس کی ایک خواہش اسے کھاگئی تھیں ۔۔۔۔ وہ ایسی بہن تھی جس کو بہن کی خوشیوں میں کیا گیا حسد اسے کھا گیا تھا۔۔۔سب سے بڑھ کر اسکی خواہشیں اسے کھاگئییں تھیں۔۔۔
****
امام غزالی نے فرمایا جانوروں میں خواہش ہوتی ہے عقل نہیں ہوتی۔۔۔۔!
فرشتوں میں عقل ہوتی ہے مگر خواہش نہیں
انسان میں عقل اور خواہش دونوں ہوتی ہیں اگر عقل خواہش پر غالب آجائے تو انسان فرشتہ اور اگر خواہش عقل پر غالب آجائے تو انسان جانور۔۔۔۔۔۔
اور حقیقت تو یہ ہے انسان خواہشوں کی تکمیل میں بھاگتے ہیں وہ پوری زندگی خواہشوں میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ ان کی راہ میں انتظار کرتی زندگی بہترین کرنے کے عمل میں پیچھے رہ جاتی ہے ۔۔۔
انسان ہر چیز کی خواہش کرتے ہیں۔۔۔۔۔! اور موت بس ان کی خواہش کرتی ہے۔۔وہ لاحاصل چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جب موت ان کو حاصل کرنے کےلیے منڈلاتی رہتی ہے کسی بے رحم چیل کی طرح
******
لبے شرم لڑکی یہ تمھارے بیگ سے ہی نکلا ہے۔۔۔۔۔میم ثنا اس کے سر پہ کھڑی تشویش کر رہیں تھیں۔۔۔۔
اشنال کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔آج کلاس میں چیکنگ ہونی تھی پوری کلاس میں خاموشی تھی۔۔۔۔وہ جو سارا کے ساتھ بیٹھتی تھی آج سارہ کالج میں نہیں آئی تھی اس کی ننھا سا دل دھڑکنے لگ پڑا تھا وہ پہلے حیرانگی سے دیکھتی رہی سے سمجھ نہیں آیا تھا کیا ہوا ہے لیکن سفید کاغز پہ لکھے پہلے تو وہ صدمے میں چلی گئی تھی۔
۔۔مم۔۔۔میم ۔۔۔۔ی۔۔۔یہ مم۔۔۔میرا نہیں ہے۔۔۔یہ ۔۔۔ممم۔۔میں نہیں لکھا۔۔۔۔قسم سے میں سچ کہہ رہی ہوں وی ایک دم سے حرکت میں آئی تھی۔۔۔۔وہ آنکھوں کے آنسوؤں پونچھتے ہوئے بولی۔۔۔
جھوٹ بولتی ہو ۔۔۔۔بکواس کرتی ہو۔۔۔۔۔میم ثنا تھوڑی سی ایجنٹ تھیں۔۔۔۔۔اس کے بیگ سے نکلا کاغذ اور اس میں لکھی لائنیں پڑھ کہ انہیں پہلے ہی غصہ آیا ہوا تھا انہوں نے آؤ نہ دیکھا تاؤ ۔۔۔۔اس کے بالوں سے کھنیچ کے اس کے منہ پر تھپڑ مارے تھے۔۔۔
تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہے کو عزت کے نام پہ دھبہ ہوتی ہے ماں باپ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہو۔۔۔وہ جو ساری زندگی اپنی برباد کر دیتے ہیں تم لوگوں کی خوشیوں کی خاطر۔۔۔اور تم جیسی اولاد کو خیال نییں ہوتا۔۔
مم۔؟میم میں نے نہیں کیا۔۔۔۔بے شک آپ دیکھ لیں۔۔۔وہ رونے لگ پڑی تھی۔۔۔اس کی تذلیل پہ پوری کلاس کے چہروں پر تمسخر آمیز ہنسی تھی۔
روؤ مت تمھارے کالے کرتوت سب نے دیکھ لیے۔۔۔۔!
میم۔۔۔۔۔خبر دار ایک لفظ بھی اور میرے کردار کے بارے میں بھول جاؤں گی کہ آپ کا مقام کیا ہے۔۔۔۔
وہ ان کی فضول باتیں نڈر ہوتی بولی تھیں وہ آج پہلے والی اشنال نظر آئی لڑتی جھگڑتی اپنے حق میں بولنے والی۔۔۔۔
ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری۔۔۔۔یہ کاغذ تمھارے بیگ سے نکلا ہے پھر بھی مجھے جھٹلا رہی اور بدتمیزی بھی کر رہی ہو ۔۔۔۔!
وہ پھر سے اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مارتی ہوئی بولیں تھیں ۔۔۔
میم بدتمیزی پہ آپ نے مجھے مجبور کیا ہے۔۔۔۔۔ ! جب میں نے کہا تھا ۔۔۔کہ یہ میں نے ۔۔۔۔!
دفعہ ہو جاؤں کلاس سے باہر۔۔۔۔تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو ادارے اور ماں باپ کا نام خراب کرتی ہیں ۔۔۔لیکن میں تمھاری یہ حرکت تمھارے ماں باپ کو بتا کہ رہوں گی ۔۔۔۔!
تمھاری اس کی گئی شرمناک حرکت کا قصہ سر ناظم کے پاس جائیگا پھر سر ناظم بتائیں گے کہ تم جتنی سسی ساوتری بن رہی ہو اتنی ہو نہیں ۔۔۔۔! میں تمھارے گھر کال کرواؤں گی آخر کو تمھاری یہ بہیودہ حرکت تمھاری ماں باپ کو پتہ چلنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔!ان کی آنکھوں پر سے تو یقین کی پتی ہٹے نہ۔۔۔۔
وہ اس کالج کے پرنسپل کا حوالہ اور اس کو دھمکی دیتی جانے لگی تھی۔۔۔۔
میم ۔۔۔۔میم۔۔۔۔وہ ان کے پیچھے پریشان حال سی لپکی تھی ۔۔۔۔میم سوری۔۔۔۔وہ ڈور سے نکلیں اس نے اسے پکارا تھا۔۔۔۔
میم۔۔۔۔م۔۔پلیز کسی کو مت بتائیے گا میری عزت پہ حرف آئے گا میں سب کے سامنے بدنام ہوجائے گی ۔۔۔۔پلیز میم اللہ کی قسم ۔۔۔یہ ممم۔۔میں نے نہیں کیا۔۔۔
یہ سب کچھ کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اب بڑا بدنام ہونے سے ڈر رہء ہو ۔۔۔۔تمھاری بدتمیزیوں کا جواب تمھیں کل ملیں گاجب کل تمھارے گھر سے کوئی آئے گا۔۔۔!
وہ سنگدل عورت یہ کہہ کر چلی گئی تھی جبکہ پیچھے اشنال ان کی دوسری کلاس ہونے سے پہلے ان کے پیچھے گئی تھی اسے اپنے بے عزت ہونے کا ڈر تھا اگر روشنال کو پتہ چل گیا۔۔۔اس کے آگے ڈر سے وہ کچھ سوچ نہ سکی تھی ۔۔۔۔کیونکہ۔۔۔۔
اس کالج میں اس کے سرپرست تو روشنال تھا کیونکہ ایڈمیشن تو اس نے کروایا تھا اور ریکارڈ لسٹ میں فون نمبر بھی اسی کا تھا۔۔۔۔وہ روتی رہے گئی تھی اس شخص کو جب پتہ چلے گا وہ غلط تو اسے کہہ گا نہ۔۔۔۔۔یہ سوچ آتے وہ کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔وہ سوچتی رہ گئی یہ خط آیا کہاں سے ۔۔۔!
اس ظالم عورت کے بال کھنیچنے سے سر میں درد ہو رہا تھا۔۔۔۔وہ مرے مرے قدموں سے کلاس میں واپس آئی تھی جبکہ لڑکیاں اس کو آتا دیکھ کر ہنسنے لگی تھی ۔۔۔
وہ اپنی چئیر پہ پریشان بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔
*******
اس کو گھر آئے تین گھنٹے ہوگئے تھے ۔۔۔اس نے ابھی تک یونیفارم چینج نہیں کی تھا۔۔۔!
بس پریشان سی بیٹھی اپنی اگلی اور پچھلی زندگی کا موازنہ کر رہی تھی ۔۔۔
جہاں ماں باپ کی محبت سوچ کر اس کے چہرے پہ ہنسی آتی وہاں رشتوں کی تلخیاں اس کو رولا رہی تھیں ۔۔
وہ پریشان سی اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی ماں باپ کے مرنے اس کی زندگی میں روشنال کے علاوہ اس کو ایسی یاد نہیں دیا تھا اس کی زندگی میں کوئی لمحہ اچھا نہیں تھا۔۔۔۔
اور نکاح کے بعد جو دکھ اسے روشنال نے دیا وہ اس کے بارے میں سوچتی رہی لیکن وہ بھی اس رات اس کی ذات کو تار تار گیا تھا اس کی باتیں اس کے دل ، اس کے رویہ اسے بھولتا نہیں تھا کسی انی کی طرح اس کے دل میں چبھا ہوا تھا وہ بھول نہیں سکتی تھی
وہ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ تو تب کرتی نہ جب اس کادل مضبوط ہوتا۔۔۔۔
وہ اندر سے رشتوں کی خودغرضیوں میں نہائی تلخیوں سے بھرپور لڑکی تھی اس کی زندگی بس نام کی زندگی تھی۔۔۔۔
مغرب کی اذان ہوئی تو وہ ساری پرانی یادوں سے پیچھا چھڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی کیونکہ جو ہونا تھا وہ ہوکر رہنا تھا وہ اسے جھٹلا نہیں سکتی تھی اب بس اسے کل کالج میں جانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔
روشنال کی مار سے اس کے غصے سوچ کر وہ سہمی ہوئی تھی لیکن پھر کچھ سوچتی اپنے دھڑکتے دل کو سنھبالتی نماز کےلیے اٹھی تھی ۔۔۔
نماز پڑھ کے کچھ تسبیحات مکمل کرکے اٹھی اور نماز ادا کرکے کچن میں چلی آئی جو اس کی روز کی روٹین تھی
******
روشنال یار آجا کسی اچھے سے ڈھابے چائے پیتے ہیں ۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ بند کرکے بیگ میں ڈال رہا تھا گھر جانے کےلیے۔۔۔۔!
جب فرقان ضیاء نے ڈور ناک کرکے اسے پکارا تھا۔۔۔
اوکے چلتےہیں ۔۔۔یہ کہہ کر اس نے بیگ پیچھے اٹھایا تھا اور اس کے ساتھ نکلا تھا۔۔۔
وہ اس کے ساتھ نکلا تھا ۔۔۔اور پھر دونوں ڈھابے میں آکہ گھپ شپ لگانے لگے ساتھ میں چائے پینے لگے ۔۔۔
بھابی تیرے ساتھ خوش تو ہیں نہ ۔۔۔۔وہ اس پہ نگاہ ڈالتا مشکوک سا بولا تھا۔۔۔
ہوں۔وہ محض ہوں میں سر ہلاتا بولا تھا۔۔۔
بیٹا تیرے چہرے سے پتہ چل رہا ہیں وہ تو خوش ہیں پر تو خوش نہیں ہے۔۔۔۔وہ اس کے چہرے کے بگڑے تاثرات نوٹ کرتا طنزیہ لہجہ لیے بولا تھا ۔۔۔
یار وہ میرے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔۔۔میں اسکے پاس سے بھی گزروں تو اس کے لہجے میں حقارت ہوتی ہے ۔۔۔میں اس کی طرف دیکھوں بھی تو اس کا بس نہیں چلتا میری آنکھیں نکال لیں۔۔۔۔میں اس کی ذات کو ڈسکس نہیں کر رہا تیرے ساتھ ۔۔۔۔لیکن جگر صاف بتاؤں ۔۔۔۔۔
وہ اب مجھ سے کنارہ کشی کرنا چاہتی ہے۔۔۔!
میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔۔لیکن وہ میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ۔۔۔۔روشنال دھیما لہجہ لیے بولا تھا ۔
یہ بات تجھ سے خود بھابی نے کہہی ہے ۔۔۔وہ چائے کی آخری چسکی لیے بولا ۔۔۔۔!
اس کی آنکھوں نے بتائی ہے۔۔۔۔ وہ چائے کے کپ کے ساتھ ہلکے سی انگلی بجاتے اذیت ناک لہجے میں بولا ۔۔۔
جیسے اپنا درد چھپانا چا رہو ۔۔۔۔!
میرے سامنے تو تو رانجھا بن جاتا ہے۔۔۔۔ذرا یہ بے قراری بھابھی کو دکھا ۔۔۔۔۔وہ اس کو ڈانٹتا ہنس کر بولا تھا۔۔
یار میں ہوں ہی ایسا۔۔۔۔مجھ سے میٹھے لہجے میں بے قراری نہیں دکھائی جاتی اور یہ مٹھاس میری زندگی کا حصہ نہیں ہے۔۔۔وہ بے بس سا بولا تھا۔۔۔
تجھے پتہ ہے ۔۔۔۔۔! میری شادی کو گیارہ سال ہوگئے ہیں چھٹے سال میں ایک دن میں نے تیری بھابھی کو غصے میں تھپڑ مارا تھا اس ایک بدلے کے تھپڑ میں وہ پورا مہنیہ میکے رہی تھی ۔۔۔ میرے سالوں نے علحیدہ سے بے عزت کیا ۔۔۔سسر نے تو اتنی عزت کی کہ آج تک بھول نہیں سکتا ۔۔۔لیکن پھر بھی وہ اس تھپڑ کو نہیں بھولی۔۔۔!
وہ ابھی تک اس تھپڑ کے بدلے لیتی ہے۔۔۔۔وہ اس ایک تھپڑ کونہیں بھول پا رہی ۔۔۔۔حقیقت تو یہ ہے ان عورتوں کو نرمی سے پتھر پھول لگتا ہے اور غصے سے مارا گیا پھول بھی پتھر لگتا ہے وہ بھول نہیں سکتیں۔۔۔۔!
عورتیں میٹھے لہجوں کی محبوب ہوتی ہے ان کو نرمی سے چلانا پڑتا ہے سختی سے بات کرو تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں عورت اپنے شوہر پہ ہی غصہ کرتی ہے۔۔۔اس کے سامنے روتی ہے۔۔۔اپنا آپ اس سے منواتی ہے سچ بات میں تیری بھابی سے نہیں ڈرتا اس کی ناراضگی سے ڈرتا ہوں۔۔۔اور عورت بھی لڑ جھگڑ کر اپنا آپ منواتی ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کا شوہر اس کی بات سنے گا سمجھے گا ۔۔۔۔! کیونکہ اسے اس پر مان ہوتا ہے پر تُو میری بات نہیں سمجھے گا۔۔۔۔!
یار قسم سے تیری کہانی سن مجھے رونا آگیا ہے پر پہلے فون اٹھالے پھر مجھے لیکچر دے لینا۔۔۔۔۔اپنے اس لیکچر کے چکر میں یہ ہی بھول گیا کہ پچھلے پانچ منٹ سے تیرا فون بج رہا ہے۔۔۔
روشنال کو اس کی باتیں دل میں کبُھتی ہوئیں محسوس ہوئیں تھیں پر اس نے مذاق میں ٹال دیا تھا۔۔۔کچھ دیر میں وی اس کے ساتھ ہی گھر کےلیے نکلا تھا ۔۔۔۔
********
وہ آج نارمل موڈ میں گھر آیا تھا۔۔۔۔! لیپ ٹاپ کمرے میں رکھتا وہ باہر لاونج میں آکہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔
کچن میں سے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو آرہی تھی لیکن وہ کچن میں کہیں نہیں تھی ہمیشہ کی طرح غائب تھی ۔۔۔۔
اسے پتہ تھا وہ نمازِ عشا پڑھ رہی ہوگی۔۔۔! اس لیے خاموش سا صوفے پر اپنے بازؤں کو سر کہ پیچھے دے کر لیٹنے والا انداز میں بیٹھا اور آنکھیں موند لیں تھیں ۔۔۔
اس کی ایک جھلک دیکھنے کےلیے وہ باہر بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ تھی نکلنے کا آنے ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔۔
کچھ سوچتا وہ اٹھا تھا۔۔۔۔اور اس کے روم میں چلا آیا تھا۔۔۔جو نماز پڑھ کہ فارغ ہوئی تھی اس کو اندر آتا دیکھ کر بھنوئیں چڑا گئی تھی۔۔۔
آپ کو ناک کرکے آنا چاییے تھا ۔۔۔۔ایسے کسی کی اجازت کے بنا اندر نہیں آنا چاہیے ۔۔۔۔وہ نماز کو تہہ کرتے ہوئی سنجیدگی سے بولنے لگی تھی ۔۔
اوہ۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔محترمہ ۔۔۔۔کسی کا تو کہہ سکتا ہوں کہ ناک کرکے جانا چاہیے ۔۔۔لیکن تم میری بیوی ہو۔۔۔۔!
تم میری زندگی میں بنا دستک کہ گھس آئی ہو۔۔۔میں بڑی مشکل سے تمھیں قبول کر رہا ہوں۔۔۔۔ اسکے لہجہ میں شرارت تھی۔۔۔
تو دے دیں طلاق نہ کریں قبول۔۔۔۔۔وہ پھٹ پڑی تھی صبح کے واقعہ کو سوچ کر وہ پہلے ہی پریشان تھی اب اس کی اس بات پہ وہ برادشت نہیں کر پائی اور بول پڑی تھی اپنی ذات کی تزلیل پہ آنکھوں سے آنسو نکلے تھے۔۔۔
مذاق کر رہا ہوں یار۔۔۔۔۔ہر وقت خفا خفا کیوں رہتی ہو۔۔۔؟ وہ اس کے روئے روئے گلابی چہرے کو دیکھ کر مبہوت ہوکر رہ گیا تھا اور اس کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
آپ کےلیے کھانا بنا دوں۔۔۔۔۔بھوک لگ رہی ہوگی نا آپ کو۔۔۔؟
وہ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر یہ کہہ کر سنجیدگی سے باہر نکل گئی تھی ۔۔
جبکہ روشنال اس کے ایسے رویے پہ لب بھینچ کر رہ گیا تھا اور دروازے کی طرف دیکھنے پڑا تھا جہاں سے وہ گزر کے گئی تھی۔۔۔
*****
وہ فریش ہوکر کچن میں چلا آیا تھا اور آہستگی سے چلتا ٹیبل پہ بیٹھ گیا تھا روشنال اس کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔جس کا ڈوپٹہ تو ہر وقت اس کے چہرے پر ہوتا تھا۔۔۔اس نے ایک منٹ بھی اسے مڑ کر نہیں دیکھا تھا اس کی خاموشی اسے کھل رہی تھی۔۔وہ ایسی خاموش تو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔
وہ سالن اور چپاتی اس کے منہ کے آگے رکھتی ہٹ گئی تھی۔۔۔
یہ نئے سٹائل کا ڈوپٹہ کہاں سے سیکھا ہے ۔۔۔۔ایسے لگتا ہے جیسے کالج میں شوہروں سے پردہ کروانے کا طریقہ بتاتے رہیں آج۔۔وہ ایک طرف سے ڈھکے گال کو دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
اس کی خاموشی کو توڑنے کی خاطر لطیف سا طنز کرگیا تھا۔۔۔
وہ اس کے طنز پر کچھ نہیں بولی تھی اس نے گال اس لیے چھپایا تھا کہ وہ اس کے چہرے پر ٹھپڑوں کے نشان نہ دیکھ لے۔۔۔۔! کیونکہ میم ثنا نے اسے جنگلیوں کی طرح مارا تھا۔۔۔۔ان کے بیلز کے نشان اس کے گال پر تھے۔۔۔!
ادھر آکے کھانا کھاؤ میرے ساتھ۔۔وہ اس کو برتن سمیٹتا دیکھ کر اس سے بلوایا تھا۔۔
میں کھا چکی ہوں۔۔۔آپ کھالیں۔۔۔۔! وہ جھوٹ تو بول گئی تھی ۔۔۔کیونکہ اسے پتہ تھا وہ شخص زبردستی بھی اسے اپنے ساتھ بیٹھا کر کھلائے گا۔۔۔
اس کے بعد وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا اور اس نے ساس پین میں پانی رکھا تھا چائے بنانے کےلیے۔۔۔
اچھا بات سنو۔۔۔مجھے چائے میرے کمرے میں دے آنا میرا کام پینڈنگ پڑا ہوا ہے وہ کرنا ہے ۔۔۔۔!
وہ یہ کہہ کر چلا گیا تھا۔۔۔جبکہ پیچھے اشنال گہری سانس لیتی چائے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دس منٹ میں وہ چائے لے اور ناک کیا تھا اس کی اجازت پاکر وہ اندر آئی جو بہت ہی بزی دکھائی دے رہا تھا۔ چائے رکھ کر جانے لگی جب وہ بولا تھا۔۔۔
آج تمھارے کالج سے فون آیا تھا۔۔۔۔کل بلوایا ہے کالج میں کوئی میٹنگ وغیرہ تو نہیں ہے۔۔۔۔۔!
وہ اس پہ لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھا کر گھمبیر بھاری لہجے میں بولا تھا۔۔۔
ججج۔۔۔۔جی۔۔۔وہ حیرانگی سے کانپپتا دل لیے مڑی اور اسے دیکھا ۔۔۔۔
اشنال بخت کی بھاری مگر گھمبیر آواز سن کر اس کا ننھا سا دل خوف سے کانپا تھا۔۔
اس کا سر جو پہلے ہی گھوم رہا تھا۔۔۔۔! اس کی بات سن کر وہ اپنا سر ہاتھوں میں تھام گئی تھی اس سے پہلے وہ گرتی روشنال بخت جلدی سے بیڈ سے اٹھا ۔۔۔۔
اس کی اڑتی رنگت دیکھ کر اس نے اسے بازوؤں میں تھام لیا تھا۔۔۔!
اشنال۔۔۔۔اشن۔۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔
اس کے چہرے کو تھپکتا اسے بیڈ پہ بیٹھا گیا تھا وہ اس کی اڑی رنگت اسکا خوف سے پیلا پڑتا چہرہ دیکھ کر بوکھلا گیا تھا۔۔۔
اس کو پانی پلایا ۔۔۔۔۔۔تاکہ اس کے چہرے کی رنگت بحال ہو۔۔۔وہ سمجھ نہیں پار رہا تھا۔۔۔وہ ڈر کیوں رہی ہے۔۔۔
اب ٹھیک ہو۔۔۔۔اسکی تھوڑی سی بہتر حالت دیکھ کر وہ نرم لہجے میں بولنے لگا تھا۔۔
پلیز۔۔۔۔۔چھوڑیں مجھے ۔۔۔مم۔۔۔میں نے سونا ہے۔۔۔!۔۔۔۔وہ عجیب سا ہیجان لہجے لیے بولی تھی ۔۔
آج ادھر ہی سو جاؤ ۔۔۔میں صوفے پر سو جاؤں گا۔۔۔وہ اس کی تھکے چہرے پر نگاہیں ڈالتا بولا ۔۔۔۔
نن۔۔۔نہیں میں نے اپنے روم میں سونا ہے۔۔۔۔وہ کترا کر اس کی گرفت سے نکلنے کےلیے مچلی تھی۔۔۔
میں کیا بکواس کر رہا ہوں۔۔۔۔۔! نرمی کی زبان تو سمجھنا تم پہ گناہ ہے ۔۔۔لیٹ جاؤ سکون سے نہیں کہہ رہا کچھ تمھیں۔۔۔۔محافظ ہوں تمھارا لُیٹرا نہیں۔۔۔۔
اپنی سرد آنکھیں اس پہ جمائے اتنی سختی سے بولا اشنال کانپ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔
چلو سوجاؤ۔۔۔۔اس کو کانپتا دیکھ کر اب کی بار نرمی سے بولا اور اسے بیڈ پہ لٹاتا اس پہ کمفرٹ اڑا کہ خود صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ اشنال اس کے پل پل بدلتے لہجے کو دیکھ کر اندر سے بہت خوفزدہ تھی وہ لیمپ کی لائٹ کو آن کرتا اور کمرے کی لائٹ آف کرتا لیپ ٹاپ سنھبالتا صوفے پر لیٹ گیا تھا۔۔
اشنال پریشانی سے اس کو دیکھتی رہی تھی جس نے اپنی آنکھیں موندی ہوئییں تھیں۔۔۔جبکہ اسے پتہ تھا اس کی ساری رات بے چین گزرنی ہے وہ غلط نہیں تھی ارگرد ماحول میں بسنے والے لوگ غلط تھے۔۔۔ وہ پریشان تھی وہ شخص اس کے سامنے تو تھا لیکن اس کے پاس نہیں تھا اسے اس شخص کی ضرورت تھی لیکن وہ اپنی عزتِ نفس کو قائم رکھنے والی لڑکی تھی۔۔۔۔وہ کبھی اسے سے یہ نہیں کہہ سکتی تھی۔۔۔۔آؤ میری زندگی خزاں زندگی میں خزاں کے پھول لگاؤ۔۔۔۔حالانکہ اسے پتہ تھا اس شخص کی آنکھوں میں اسے محبت نظر آتی تھی۔۔۔
؎ بڑی بے اماں سی ہے زندگی
اسے بن کے کوئی پناہ ملے
کوئی چاند رکھ کر میری شام پر
میری شب کو مہکا کر گلاب کر
کوئی بدگماں سا وقت ہے۔۔۔۔

کوئی بدگماں سی دھوپ ہے
کسی سایہ دار سے لفظ سے
میرے جلتے دل کا حجاب کر

پورے دن سے سوچ سوچ کر اس کا دل گبھرایا جا رہا تھا
اس کا دل بند ہونے لگا تھا اس نے ڈوپٹہ اتار کہ ساتھ رکھ دیا تھا۔۔۔پھر بھی جلتے دل کو سکون نہیں آرہا تھا اسے بس یہ ہی خوف کھائے جارہا تھا کہ جب روشنال کو پتہ چلے گا وہ تو اسے جان سے مار ڈالے گا۔ ۔۔
وہ اضطرابی کی کیفیت میں اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔۔لیکن سکون نہیں ملا تو پھر لیٹ گئی تھی وہ بے چین تھی لیکن اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔۔وہ بار اٹھ کر بیٹھتی اور بار بار لیٹتی ۔۔
روشنال کی آنکھ کھلی تو اسے بے چین دیکھ کر وہ بے سکون ہوگیا تھا وہ مسلسل ایک گھنٹے سے لیٹتی اور بیٹھتی روشنال تب سے دیکھ رہا تھا اب وہ لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔اس سے سمجھ نہیں آرہی تھیں کہ اس کی بے چینی کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔اس نے جو بازوؤں آنکھوں پہ رکھے تھے وہ سینے پہ باندھ لیے اور اسے دیکھنے لگ پڑا ۔۔۔
اشنال جو اپنی سوچوں سے نکلی اس کی طرف دیکھا تو دیکھا تو دھک سے رہے گئی تھی وہ بھی اسی ہی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔
ایک لمحے میں دونوں کی نظریں چار ہوئیں تھیں ۔۔۔۔! اشنال کی نظر لمحے بھر کو اس کی نظروں سے ملی تھی۔۔
کرب۔۔۔نارسائی ، دکھ ، پریشانی ، بےبسی کیا کچھ نہیں تھا اس کی اُس ایک نظروں میں۔۔۔۔۔وہ اسے شروع سے جانتا تھا۔۔۔
اس کی نگاہوں سے تقاضوں سے خائف ہوتی وہ
فی الفور اپنی نظروں کو بدل گئی تھی اس کی ڈراج بروُان آنکھوں میں معنی خیز سی چمک تھی۔۔۔۔۔۔یکدم ہی جیسے اپنے اور اس کی بیچ رشتے کا احساس جاگا تھا۔۔۔
وہ اور مضطرب ہوتی نگاہیں پھیرگئی تھی ۔۔۔۔!
خاموشی کا گہرا احساس ان دونوں کے بیچ تھرتھرانےلگا۔۔
اس کی نگاہوں کو دیکھ کر اس کا دل خدشات کی زد میں آکہ دھک دھک کرنے لگا تھا۔۔۔