قسط: 23
وہ جب سے کالج سے آئی تھی ۔۔۔۔تب سے وہ ستمگر خاموش تھا وہ تب سے روم میں بند تھا ۔۔۔۔!
روشنال پلیز ڈور اوپن کریں۔۔۔۔! پہلے بھی وہ ناک کر کہ گئی تھی ۔
اس نے دو تین بار ناک کیا تھا اب کی بار وہ سسک پڑی تھی ۔۔۔۔!
ایشو۔۔۔۔پلیز چلی جاؤ ۔۔۔۔مجھے پہلے ہی بہت غصہ ہے خوامخواہ تم پہ نکل جائے گا۔۔۔!
وہ اپنے ہاتھوں کی مٹھیوں کو بھینچتے بولا۔۔۔۔۔!
غصہ چھوڑ کر بے شک مار لیں ۔۔۔۔پر ایسے ناراض تو مت ہوں۔۔۔۔! وہ سسکتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔!
میں تم پہ غصہ کروں ۔۔۔تب تمھیں مسئلہ ، میں خفا ہوں تب تمھیں مسئلہ ، میں ناراض ہوں تب تمھیں مسئلہ ، میں تمھاری ذات کو جاننے کی کوشش کروں تب تمھیں مسئلہ،میں تم سے لاتعلقی برتوں، تب تمھیں مسئلہ۔۔۔۔۔! بتا دو آخر چاہتی کیا ہو۔۔۔۔!
وہ دروازہ کھول کر اب کی بار اونچی آواز میں بولا۔۔۔!
سوری نا۔۔۔۔۔! مجھے لگا آپ میرا یقین نہیں کریں گے۔۔۔۔اور کالج میں سب کے سامنے میری بے عزتی کر دیں گے۔۔۔!
وہ اس کی سخت نظروں سے خائف ہوتی بولی تھی۔۔۔۔!
ہاں تمھیں لگا میں بے غیرت ہوں۔۔۔۔! جو تمھاری بے عزتی کرنے سے خوش ہو جاؤں گا۔۔۔۔! اس کی روئی روئی آنکھوں کو دیکھتا وہ مزید بولا۔۔۔۔!
اچھا نہ میں پھر سے سوری کرتی ہوں۔۔۔۔! وہ اس کے غصے کو کم کرنے کےلیے بولی تھی۔۔۔!
اس بارے میں بعد میں بات ہوگی رات کو شاید دیر ہوجائے ۔۔۔۔۔! میں فلحال آفس جارہا ہوں تم سوجاؤ ۔۔۔۔!
ساری رات تم نہیں سوئی ۔۔۔۔! وہ سنجیدگی سے کہتا بنا اس کی طرف دیکھے نکل گیا تھا۔۔۔!
جبکہ وہ اس کو خفا ہوتے دیکھ کر نمناک آنکھوں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔!
*********
مینو بچے۔۔۔۔حسنال آیا تھا گھر۔۔۔۔۔! وہ آغا جان کو رات کا کھانا دینے آئی تھی جب انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔!
ج۔۔۔جی آغا جان آئے تھے ۔۔۔۔۔! اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا تھا وہ آغا جان کے سامنے اس کو عزت دیتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔!
مجھے مل کر کیوں نہیں گیا۔۔۔۔۔!وہ تو عید کا چاند ہی ہوگیا ہے۔۔۔۔! پہلے تو اک منٹ بھی نہیں رہ سکتا تھا صبح سے فون پہ فون کیے جا رہا ہوں لیکن وہ ہے کہ اٹھا ہی نہہں رہا۔۔۔۔۔مجھے اس کی طرف سے بہت پریشانی ہوتی جا رہی ہے۔۔اپنی تو اس لڑکے کو پرواہ ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔!
آغا جان ۔۔۔۔۔! وہ ٹھیک تھے ان کی رات کو طبعیت خراب تھی۔۔۔۔۔! لیکن صبح تو وہ چلے گئے تھے اگر حسنال اس وقت یہاں ہوتا تو اس کے اتنے عزت دینے پر غش کھاکر گرپڑتا۔۔۔۔۔۔!
آغا جان میں آپ کو اشنال کے متعلق ایک بتانے آئی ہوں۔۔۔۔! پلیز یہ بات مما کو بالکل بھی پتہ نہیں چلنی چاہیے کہ میں نے آپ کو بتائی ہے وہ ان کے کمزور نحیف ہاتھوں کو ہاتھوں میں لیتے ہوئے راز داری سے بولی تھی۔۔۔۔!
میں پاگل نظر آتا ہوں ۔۔۔۔مجھے پتہ ہے اس کی فطرت کا۔۔۔نہیں۔۔۔بات بتاؤ۔۔۔۔وہ رنجیدہ سے بولے تھے۔۔۔!
آغا جان امی جو پلاٹ اشنال کے نام لگا رہے ہیں ۔۔۔۔ان کو آپ پہ بہت غصہ ہے۔۔۔۔! وہ اس پلاٹ کی وجہ سے اشنال کو مارنے کے منصوبے بنائے بیٹھی ہیں ۔۔۔۔! وہ اشنال کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں ۔۔۔! وہ دھیمی آواز میں بولی کہ کوئی سن نہ لے۔۔۔۔۔!
تمھیں کس نے بتایا ہے۔۔۔۔۔؟ وہ حقیقی معنوں میں پریشان ہوئے تھے لیکن پہلے تصدیق کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔!
اشنال کو لے کر مما اور میری بہت زیادہ بحث ہوئی ہے۔۔۔۔!
میں نے بس انھیں یہ کہا تھا کہ میں اور آغا جان اشنال کو واپس لے کہ آئیں گے۔۔۔۔!
تو وہ اس بات سے خفا ہوگئیں اور انھوں نے مجھے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اشنال کو جان سے مار دیں گی ۔۔۔آغا جان آپ کچھ۔۔۔۔کریں۔۔۔۔نہ ۔۔۔۔امی ضد کی بہت پکی ہیں وہ اب اشنال کو نقصان پہنچانے کےلیے آخری حد تک جائیں گی۔۔۔!
میں کل بھی آپ کے روم میں آئی تھی لیکن آپ کے ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے نہیں بتا سکیں۔۔۔۔! خالہ مجھے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہی۔۔۔۔تایا تو مجھے دیکھ کہ ہی منہ پھیر لیتے ۔۔۔۔۔ان کو کیسے بتاتیں۔۔۔۔! وہ تو خود مجھے اشنال کا دشمن سمجھے بیٹھیں ہیں۔۔۔۔۔!
مینو پتر۔۔۔۔اس وقت تم نفرت میں آگے نہ بڑھتی۔۔۔۔! تو کوئی تمھیں کچھ بھی نہ کہتا۔۔۔۔لیکن یہ اہمیت تم نے خود گنوائی ہے اپنے ہاتھوں سے۔۔۔۔!میں خود تمھاری خالہ اور تایا کہ آگے ڈٹ جاتا۔۔۔۔لیکن جو کام تم نے کیا ہے بہت غلط کیا ہے۔۔۔۔۔! تہمینہ اور صغیر بھلے تم سے جتنی محبت کرتے تھے لیکن ان کی اپنی اولاد کے آگے تمھاری اہمیت صفر ہے۔۔۔۔!یہ ان دونوں کی بات نہیں ہے پورے معاشرہ میں یہ عام بات ہے اپنی اولاد کےلیے انسان خودغرض ہوتا ہے۔۔۔۔وہ اشنال اور روشنال کے ساتھ جو کیا۔۔۔۔روشنال اپنی ضد کی وجہ سے گھر نہیں آرہا صیغیر اس بات پہ پریشان ہے۔۔۔۔! تو جو بات کیا کریں انکو دل پہ مت لیا کرو۔۔۔۔! بس ان کی باتیں سہہ لیا کرو۔۔۔۔وہ اسے نصحیت بھی دے رہے تھے اور دلاسہ بھی۔۔۔۔!
آغا جان قسم سے مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے ایک غط قدم کی وجہ سے آپ اور صیغیر تایا اتنے غصے میں آجائیں گے۔۔۔۔میں تو بس اشنال کو روشنال کی نظروں سے گرانا چاہتی تھی۔ ۔۔وہ جس طرح روشنال سے کلوز تھی مجھے لگا تھا روشنال شادی کے بعد بھی اسی ہی کو اہمییت دے گا اس لیے وہ خط میں نے اسے پکڑایا تھا۔۔۔۔۔! اور اس رات کی حرکت میں کچھ حد تک غلطی مما کی بھی تھی۔۔۔۔! میں واقعی خود غرض ہوں آغا جان۔۔۔۔! میں نے اشنال کو سب کی نظروں میں گرانےکی کوششش تھی لیکن آغا جان اسکا رتبہ اور بلند ہوگیا ۔۔۔۔میں اس حرکت کی وجہ سے خود کی نظروں میں گر گئی ۔۔۔۔! گھر والوں کی نظروں سے گرگئی ۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کی نظروں سے گرگئی ۔۔۔وہ یہ کہتی رونے لگی تھی۔۔۔۔!
حسنال پتر تم۔۔۔۔۔آغا جان اس کو دیکھ کر گبھرا سے گئے تھے وہ جو دروازے کی بیچ و بیچ کھڑا بے یقینی کی زد میں تھا۔۔۔۔! وہ تو آغا جان کی بیس مس کال دیکھ کر آیا تھا۔۔۔!اسے اندیشہ تھا کہ شاید آغاجان کی طبعیت خراب نہ ہوگئی ہو ۔۔۔۔۔لیکن وہ آغا جان کی وجہ سے آج گھر جلدی آیا تھا۔۔۔!
لیکن اپنی اس پیاری بیوی کہ منہ سے اسکا جرم سن کر سناٹوں کی زد میں تھا۔۔۔اس کی بیوی اپنا جرم اپنے منہ سے بتا رہی تھی۔۔۔۔!
آغا جان کے منہ سے حسنال کا نام نکلنے کی دیر تھی کہ منال کے پیروں تلے سے زمین نکلی تھی ۔۔۔۔!منال نے اسکی آنکھوں میں کیا نہیں نہیں تھا۔۔۔!
اس کی آنکھوں میں بے اعتباری ، بے یقینی، دکھ ، غصہ ، اور پتہ نہیں ناجانے کیا کیا تھا لیکن اس شخص کی آنکھوں میں مان ٹوٹ جانے کی کرچیاں تھی وہ اس شخص کی نگاہوں میں نہ دیکھ پائی تھی۔۔۔۔! وہ ساکت کھڑا تھا۔۔۔!
تجھ پہ جو مان تھا ٹوٹ گیا
خاموش عہد و پیماں تھا وہ ٹوٹ گیا
حسنال۔۔۔۔منال اٹھی تھی۔۔۔۔! بات کو سنھبالنے کےلیے۔۔۔۔!
لیکن وہ شخص نکل گیا تھا۔۔۔۔!
جبکہ آغا جان نے اٹھنا چاہا ۔۔۔۔لیکن وہ اٹھ نہیں سکے تھے شوگر کی وجہ سے ان کی ہـڈیوں میں اتنا دم نہیں رہا تھا۔۔ وہ اس لمحے کو پچھتا رہے تھے کہ انہوں نے اسے کال کیوں تھی۔۔۔! وہ اس لمحے کو پچھتا رہے تھے کہ ان کی وجہ سے اس گھر کے آخری فرد کا بھی مان ٹوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔! انہوں نے بے بس ہو کر بیڈ کرواؤن سے سر ٹکا لیا تھا۔۔۔۔۔!
حسنال ۔۔۔۔۔حسنال۔۔۔۔وہ آوازیں دیتی تڑپ اس کے پیچھے بھاگی تھی وہ اس کی چوڑی پشت کو دیکھتی اس کا تعاقب کرنے لگی تھی ۔۔۔۔جو لمبی رائداری سے جا رہا تھا۔۔۔۔! وہ حال کے ڈور سے نکلا ۔۔۔۔پیچھے پیچھے منال تھی۔۔۔۔
روتی دھوتی اس کے پیچھے گرتی پڑتی گئی تھی۔۔۔! جو تیز قدموں سے جا رہا تھا۔۔۔۔!
حسنال پلیز مجھے پتہ ہے تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔۔وہ حال کے ڈور سے نکلتی اونچی آواز میں بولی تھی۔۔۔!
وہ اس کے لفظ سن کر ایک سیکنڈ کے لیے رکا ۔۔۔۔! اور پلٹ کر تھوڑا سا پیچھے آیا تھا۔۔ !
گھٹیا لڑکی ہو تم ۔۔۔۔حد سے گری نیچ سوچ کی۔۔۔۔ اپنی ہی بہن کے دامن میں کانٹے پھیلانے والی۔۔۔۔! بے شرم اور بے حیا عورت۔۔۔۔۔! منال کو اس کے الفاظ میں واضح نفرت دکھ رہی تھی اس کے لفظعں سے اسے اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔!
حسنال پلیز تمھارا خفا ہونا بنتا ہے ۔۔۔۔! تم مجھے جو سزا دوگے میں قبول کرلوں گی۔۔۔۔!
سزا ان کو دی جاتی ہے جن سے کوئی تعلق واسطہ رکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔! تم اس قابل نہیں ہو۔۔۔۔کہ تم سے واسطہ یا کوئی تعلق رکھا جائے۔۔۔! بس ایک کاغذی رشتہ رہ گیا ہے۔۔۔۔۔! اس میں سے جو خسارا کیا ہے تم نے میرا۔۔۔! اس خسارے کا پائی پائی حساب لے کر چھوڑوں گا۔۔!
حسنال پلیز۔۔۔۔تم نے کہا تھا کہ تم مجھ سے محبت کرنے لگے ہو اور پھر مجھے کبھی نہیں چھوڑو گے۔۔۔۔۔! وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے غم سے بولی تھی۔۔۔!
تف مجھ پر۔۔۔۔میری سوچ پر۔۔۔۔! اس گاڑی پر ۔۔۔۔جس وقت یہ یہ پاکیزہ جذبے تم جیسی خبیث لڑکی پہ لٹائے۔۔۔!
شرم آ رہی ہے مجھے خود پر۔۔۔۔۔! اس نے آج ساری تمیز پیچھے چھوڑ دی تھی۔۔۔۔!
کک۔۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔۔وہ ٹوٹا لہجہ لیے بولی تھیں یعنی وہ اس سے کھیل رہا تھا۔۔۔۔!
؎ اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت مجھے
اپنی بےکار تمناوؤں پہ شرمندہ ہوں میں
لب لب چبا چبا کر اس نے اس پر اس کی حثیت واضح کی تھی۔۔۔!
پلیز۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔میں سب سے معافی مانگ لوں گی اس نے بودی دلیل دی تھی تم کہتے ہو تو میں اشنال منال کہ پاؤں پڑ جاؤں گی۔۔۔۔!
سانپ کو جتنا بھی میٹھا دودھ پلاؤ۔۔۔۔۔وہ ڈستا ضرور ہے۔۔۔! تم نےاس لڑکی کو ڈسا ۔۔۔۔جو تمھاری محبت میں مجھ سے لڑ پڑتی تھی۔۔۔۔وہ تمھیں آپی آپی کہتے نہ تھکتی تھی۔۔۔۔اس سے تو نہ ڈستی ۔۔۔۔کچھ تو خیال کر لیتی۔۔۔! وہ بول کر رکا اور پھر شروع ہوگیا۔۔۔
ایک رات کا روگ ہوگا۔۔۔۔! پھر کل سے میں بھول جاؤں گا تم ہو کون۔۔۔۔!۔۔۔۔!
میں جس رفتار سے بندے کو آسماں پہ لے کہ جاتا ہوں اسی دوگنی رفتار میں اسکو زمین پہ دے مارتا ہوں۔۔۔۔!
مجھ پر اپنی اصلیت کھولنے کا شکریہ۔۔۔۔!
اسے منال سے نفرت نہیں گھن آ رہی تھی ۔۔۔وہ بہت کول نیچر کا تھا۔۔۔۔اس معصوم کا چہرہ جلدی سے اس کی نگاہوں میں گھوما۔۔۔۔اس معصوم کا خسارہ دیکھ کر اس کا دل کر رہا تھا۔۔۔۔کہ وہ اسے زندہ زمین میں گاڑ دے۔۔۔!
وہ پھر سے جانے لگا تھا۔۔۔!
حسنال پلیز ۔۔۔۔ابھی تم غصے میں ہو۔۔۔! اس کو جاتے دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگی اود اسے بازوؤں سے پکڑا تھا۔۔۔۔!
خبر دار ۔۔۔۔اپنے ان پلید ہاتھوں سے چھوا بھی۔۔۔۔! آئندہ میرے بیچ میں آئی تو میں دیکھوں گا نہیں کہ تم ہو کون۔۔۔! یہ کہتے اس کو بازوؤں سے جھٹکا دے کر نیچے پھینک کر نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
حسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسنال۔۔۔۔۔ اس کے پھینکنے سے اس کا سر گملے سے لگا تھا ۔۔۔۔وہ درد کی شدت سہتے بس
اس کا نام ہی لے سکی تھی۔۔۔۔!
*********
اس کے جانے کے بعد سو نہیں سکی تھی اس کے کپڑے پہمے دھوئے ، پھر استری کیے تھے، ہینگ کرکے اس کے روم میں رکھ کہ آئی تھی آج وہ اس کے کام ذمہ داری سمجھ کر نہیں بلکہ دل سے کر رہی تھی ۔۔۔ اب اس کےلیے بریانی بنا کہ رکھی تھی ۔۔۔۔
اور خود سوچوں کے بھنور میں ڈوبی ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ اس ستمگر کوبس سوچے جارہی تھی کہ کیسے اس کی وجہ سے اس پر سے الزام ہٹا تھا۔۔۔۔وہ جب بیگ لینے کلاس روم میں گئی تھی ۔۔۔!
میم ثنا نے اس سے سوری کیا تھا۔۔۔۔کلاس والوں نے بھی نظریں جھکا کر معافی مانگی تھی آج اگر روشنال نہ ہوتا تو اس پہ تہمت کا داغ کبھی نہیں ہٹنا تھا۔۔۔!
اس کی نظروں میں اس شخص کےلیے اسکا مقام اور بڑھا تھا۔۔۔۔!
کل رات اپنی بدنامی کا ڈر تھا۔۔۔آج اس شخص کی ناراضگی کا ڈر تھا۔۔۔! اب اسے پریشانیوں کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ جب پریشانی کو خود کے سپرد نہ کرلیتی تب تک اسے چین نہیں ملتا تھا۔۔۔!
وہ ان ہی پریشانیوں میں گم تھی جب ڈور کھلنے کی آواز آئی تھی اس نے کھڑکی سے دیکھا ۔۔۔۔وہ ڈور بند کرکے اندر ہی آرہا تھا۔۔۔!
اسکو دیکھ کر جلدی سے پانی کا گلاس ٹرے میں رکھا تھا۔۔۔اس کے روم میں جانے کا ویٹ کرنے لگی ۔۔۔۔!
وہ جب روم میں چلاگیا تھا اس کے پیچھے پیچھے آئی تھی۔۔۔۔!
یہ پانی پی لیں۔۔۔۔! وہ فائل دراز میں رکھ رہا تھا جب وہ اندر آتی اسے پانی تھما گئی تھی ۔۔۔!
وہ چپ چاپ پانی لے کر بیڈ پہ بیٹھا اور پینے لگا۔۔۔۔بولا کچھ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔اشنال کو ناراضگی اس کے چہرے سے معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔ْ!
کھانا لگا دوں آپ کےلیے۔۔۔۔۔! وہ مزید اس کی خاموشی توڑنے کی خاطر بولی۔۔۔۔!
بھوک نہیں ہے مجھے۔۔۔۔۔! یہ کہتے اس کے چہرے کے تیور مزید بگڑے تھے۔۔۔۔!
مجھ سے ناراضگی ہے تو کھانے سے تو مت رکھیں۔۔۔۔ایسے اللہ تعالی ناراض ہو جاتا ہے۔۔۔۔! وہ اسے ایشو بن کر ایموشنل کرنے لگی تھی۔۔۔۔!
شوہر سے بات چھپانے سے بھی اللہ ناراض ہوجاتا ہے۔۔۔۔! وہ بھی آج ناراض ناراض سا سپرمین لگ رہا تھا۔۔۔!
مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ آپ مجھے ہی قصووار سمجھیں گے۔۔۔۔!۔۔۔۔!
زیادہ بھاشن مت دو کھانا لگاؤ میں آرہا ہوں۔۔۔۔۔! روشنال نے اب کی بار غصے سے کہا تھا۔۔۔!
اوکے۔۔۔۔! یہ کہہ کر وہ چلی گئی تھی۔۔۔جبکہ روشنال بھی فریش ہونے چل دیا۔۔۔۔۔۔!
*****
وہ کچن میں آیا تھا تو وہ ٹیبل پہ گم صم سی بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔! اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔وہ بیٹھا تو وہ اسے سرو کرنے لگی تھی ۔۔۔۔!
بیٹھ کہ میرے ساتھ کھاؤ۔۔۔۔۔! خوامخوا کے چونچلے نہ کیا کرو۔۔۔۔!
ج۔۔۔۔جی۔۔۔۔وہ بھی چئیر پہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔! پلیٹ میں کھانا ڈال کر اس کے سامنے رکھا۔۔۔۔!
اب رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔اب کیا کہہ دیا میں ۔۔۔۔! اس کے چہرے پر نگاہ پڑی تو اس کے آنکھوں سے آنسوؤں دیکھ کر وہ زچ ہوا تھا۔۔۔۔!
نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔رو تو نہیں رہی۔۔۔۔۔آنکھوں سے پانی آر رہا تھا۔۔!اس نے اپنی آنکھوں سے پانی صاف اسے مطمن کیا تھا۔۔۔۔!
سوئی تھی دن کو ۔۔۔۔۔! اس کی آنکھوں کے نچلے کنارے
سوجے دیکھ کر اب کی بار روشنال نے تفشش زدہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔۔!
وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔! اشنال سے کوئی بات بن نہیں پا رہی تھی۔۔۔!
ہاں یا نہ ۔۔۔۔میں جواب چاہیے ۔۔۔!
پچھلے دنوں ٹیسٹ ہوتے رہے تھے تو میں بزی تھی۔۔۔۔! اس وجہ سے آپ کے کپڑے نہیں دھو پائی ۔۔۔۔! آج اکیلی تھی تو وہ بس دھوئے ہیں ۔۔۔۔! اشنال نے نظریں جھکا کر تفیصلا بات بتائیں تھیں۔۔۔۔!
اچھا کھاؤ۔۔۔۔۔اس نے چاولوں سے بھری چمچ اس کے منہ کے آگے کی تھی۔۔۔! وہ بھی خاموشی سے کھانے لگی تھی۔۔۔!
اس کی بات سن کر روشنال کا دل کیا ۔۔۔۔۔اس کو سینے سے لگا لے۔۔۔۔۔! اس کی ساری تھکن دور کر دے۔۔۔۔! لیکن وہ فلحال اسے ڈسڑب نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
اس سے کھلا کہ خود کھایا اور نپکین سے ہاتھ صاف کیے تھے۔ !
کہاں جا رہی ہو ۔۔۔۔۔! اس کو اٹھتا دیکھ کر سنجیدہ لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔!
وہ آپ کےلیے چائے بنانی ہے ۔۔۔۔اس لیے۔۔۔۔! اشنال نے صفائی دی کہ وہ مزید خفا نہ ہوجائے۔۔۔۔۔!
بیٹھو۔۔۔۔۔ میں خود بنالیتا ہوں۔۔۔۔۔پہلی دفعہ وہ اسے اتنا کام کا برڈن دیکھ کر بے سکون ہوا تھا۔۔۔۔!
پہلے وہ اٹھا ۔۔۔۔پلیٹس سنک میں رکھیں اور خود چائے بنانے لگا تھا۔۔۔!
دو کپوں میں چائے ڈال کر ٹیبل پہ رکھی ۔۔۔۔اس کو ٹیبل پہ سر رکھے کسی گہری سوچ میں گم پایا ۔۔۔! اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی نکل رہا تھا۔۔۔!
اشنال اٹھو اپنے روم میں جاکر سو جاؤ۔۔۔۔! اس کا ارادہ اسے چائے پلانے لگا تھا۔۔۔۔۔! لیکن اس کی آنکھیں دیکھ کر
اسے روم میں جانے کا کہا تھا۔۔۔۔!
مجھے چائے پینی ہے۔۔۔۔۔! وہ اٹھتی اپنی آنکھوں سےآتا پانی صاف کرتی چائے کا کپ اٹھاتی ہوئی بولی تھی۔۔۔۔!
وہ چائے کا کپ اٹھا کر پینے لگی تھی۔۔۔۔!
اوکے تم انجوائے کرو۔۔۔۔۔میرا کچھ کام ہے میں روم میں جا رہا ہوں۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ چلا گیا تھا۔۔۔۔! اشنال نے اس کے جانے کے بعد تھوڑی سی چائے پی کر پلیٹس اور ساس پین دھوکر رکھا تھا۔۔۔۔!
کچھ سوچتے اس کے روم میں چلی آئی تھی ۔۔۔۔!ناک کیا۔۔۔اس کی اجازت پاکر وہ انٹر ہوئی تھی۔۔۔۔جو بیڈ کرواؤن سے ٹیک لگائے لیٹنے والا انداز میں بیٹھا لیپ ٹاپ کام کر رہا تھا۔۔۔۔!
کوئی کام تھا۔۔۔۔؟ اس نے نظریں اٹھا کر پوچھا اور پھر سے نظریں جھکا لیں تھیں۔۔۔!
نیوی بلیو سوٹ میں غضب کی مردانہ وجائت کے ہمراہ اپنے نپے تلے انداز میں سرد لہجے میں گفتگو کرتا یہ شخص اس کے دل کی دھڑکنوں کو منتشر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔! اوپر سے جس طرح آج اس شخص کی وجہ سےکالج میں اسکا رتبہ بڑھا تھا وہ اس شخص کی داسی بن جانے کو بھی تیار تھی۔۔۔۔!
ج۔۔۔جی ۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اس کی آواز سنتی وہ بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ آئی اور چپل اتارتی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔۔!
تمھاری طبعیت ٹھیک تو ہے نا ۔۔۔۔وہ اس کے اس طرح پہلی دفعہ خود قریب آنا سے چونک گیا تھا۔۔۔۔۔! بے داغ سفید چہرے کی رنگت کی وجہ سےاس کے آنکھوں کے نیچے ہلکے صاف نظر آ رہے تھے اس کی آنکھوں سے متواتر پانی آتا دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ کل کی طرح آج بھی اسے بے چین ہی لگی تھی ۔۔۔! روشنال نے اس کے گال پہ ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کیا تھا۔۔۔۔!
ج۔۔۔۔جی ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔! وہ اس کو اپنے لیے فکر مند ہوتا دیکھ کر اشنال نے اس کا لیپ ٹاپ اٹھا کر بیڈ پہ رکھا اور خود اس کی گود میں سر رکھ لیا تھا۔۔۔!
جب کہ روشنال اس کے پہلے دفعہ خود کے قریب آنے سے ساکت ہوا تھا۔۔۔!
مجھے پتہ ہے آپ ناراض ہیں ۔۔۔۔۔وہ تھوڑی اوپر ہوتی اس کے سینے پہ سر رکھتی ایک بازوؤں اس کے گرد باندھتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔۔!
میں ناراضگی محض لفظوں میں رکھتا ہوں دل میں نہیں۔۔۔۔اس نے سنجیدہ سا جواب دیا تھا ۔۔!
مجھے نیند آ رہی ہے ۔۔۔۔۔! وہ لاڈ سے بولی تھی۔۔۔۔۔!
تو میں کیا کروں ۔۔۔۔! روشنال نے خفگی سے کہا تھا ۔۔۔
مجھے سلادیں ۔۔۔۔وہ اس کے ہاتھ اپنے بالوں پر رکھ کہ بڑے مان سے بولی تھی۔۔۔۔۔!
اس کی بات سن کر روشنال نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔۔! وہ ویسے ہی مصنوعی غصہ دکھا رہا تھا ۔۔۔۔جس مان سے آئی تھی اس طرح وہ اسکا مان توڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔اس پہ بے پنا پیار بھی آر رہا تھا کہ وہ آج خود اس کے پاس آئی تھی۔۔۔۔!
وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔۔ ساری رات جاگنے کی وجہ سے اشنال پانچ منٹ میں نیند کی وادیوں چلی گئی تھی۔۔۔۔!
اشنال۔۔۔۔۔روشنال نے پکارا تھا لیکن اس کی سانسوں سے معلوم ہوا کہ وہ سوگئی ہے ۔۔۔۔!
توبہ ہے اس لڑکی سے بھی ۔۔۔۔! سوتے ہوئے بھی ڈوپٹہ اتارنا گناہ سمجھتی ہے۔۔۔۔!
اس کے سر پر ڈوپٹہ دیکھ کر الجھن ہوئی تھی اس نے جھک کر اس کے ڈوپٹے کی گراں کھولی ۔۔۔۔اور اس کے سر سے ڈوپٹہ اتار کر سائیڈ پہ رکھا تھا تاکہ وہ کمفرٹ ٹیبل ہوکر سوئے۔۔۔۔!
لیکن بنا ڈوپٹے کے تو ہمیشہ کی طرح اس کے ہوش اڑا گئی تھی۔۔۔۔۔! وہ اپنے ہی جذبوں سے گبھرا گیا تھا۔۔۔۔!
اس کے گلے میں پڑھا اس کے نام کا لاکٹ اسے آج نظر آیا تھا۔۔۔!
جامنی مائل سوٹ میں بے تحاشہ دمکتی اس کی رنگت ، اس کے گلابی چہرے کو پرکشش بنا رہی تھی۔۔۔۔۔! وہ اس کے ماتھے پہ لب رکھتا اس پر کمفرٹ اڑاتے لیپ ٹاپ لیے لاونج میں آگیا تھا۔۔۔
اس نے کام کرنا تھا اور اس کے پاس بیٹھ کر وہ بالکل بھی کام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اس کی کشش میں کھنچتا چلا جاتا تھا۔۔۔
****
منال ۔۔۔۔۔منال ۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔پاگل تو نہیں ہوگئ۔۔ تہمینہ بیگم نے اس کو روم میں نیچے زمین پہ اپنے بال کھنچتے اور روتے ہوئے دیکھا ۔۔۔۔! اس کو اس حالت میں دیکھ کر پریشان سی اس کے پاس بیٹھیں تھیں۔۔۔۔!
مم۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔۔آج اس گھر کے آخری فرد کا مان بھی مجھ پر سے ٹوٹ گیا۔۔۔۔مم۔۔۔۔مما میں بہت بری ہوں۔۔۔۔! وہ رو کر ان کے ساتھ لگی تھی۔۔۔۔۔!
کس کا۔۔۔۔۔! وہ اپنی سگی بیٹی کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔۔۔!
ح۔۔۔۔۔حسنال کا۔۔۔۔۔مما۔۔۔۔اب وہ مجھے چھوڑ دے گا۔۔۔۔۔مما وہ اپنا نام مجھ سے چھین لے گا۔۔۔۔!
کیوں چھوڑے گا ۔۔۔۔۔وہ تمھیں۔۔۔۔۔! اپنے حق کےلیے لڑنا سیکھو۔۔۔۔! ڈر ڈر کر رہو گی تو وہ زیادہ تم پہ ہیوی ہوگا۔۔۔ وہ اسے نئے سبق دے رہیں تھیں۔۔۔! اسے زیادہ سر پہ چڑھاؤ گی تو وہ زیادہ سر پہ چڑھے گا۔۔۔۔!
امی۔۔۔۔امی۔۔۔۔مجھے آج پتہ چلا ہے ۔۔۔بابا نے دوسری شادی کیوں کی۔۔۔۔۔! وہ اپنا غم بھول گئی تھی۔۔۔۔!
کیونکہ آپ کی اس غلط سوچوں کی وجہ سے بابا آپ سے دور ہوئے۔۔۔۔۔! آپ نے اپنی انا کی وجہ سے بابا کو کھویا ہے
آپ جو سبق مجھے دے رہیں ہیں آپ نے جو مقام بابا کو نہیں دیا۔۔آپ کا دل ہے وہ اپنے شوہر کو نہ دوں ۔۔۔۔۔امی میری غلطی ہے میں اس کی معافی مانگ کر کفارہ ادا کروں گی ۔۔۔۔۔! وہ ان کا ہاتھ تھامتے رو پڑی تھی۔۔۔۔!
تمھاری خوشی فہمی ہے ۔۔۔۔۔! یہ ہرجانہ بھرنے کےلیے تم زندہ بچ سکو گی تو۔۔۔۔! تو کفارہ ادا کرو گی۔۔۔!
انہوں نے تلخی سے بھرپور لہجے اور نفرت میں کہا تھا ۔۔!
مجھے قبول ہے۔۔ بے شک اس کفارے میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائیں ۔۔۔۔۔! مجھے منظور ہے امی۔۔۔! لیکن میں اس آپ کی طرح انا کی فصیل کھڑی نہیں کروں گی۔۔۔۔!
تم نصحیت کے قابل ہی نہیں ہو۔ ۔۔۔۔وہ اسے پیچھے دھکا دیتی اٹھ کھڑی ہوں تھی۔۔۔
آپ کی اچھی نصحیت ہوتی تو میں ضرور قبول کرتی۔۔۔!
وہ ان کو باہر نکلتا دیکھ کر اونچی بولی تھی مگر وہ چلی گئی تھیں۔۔۔۔۔جبکہ منال پیچھے مایوں والی رات کو سوچنے لگی تھی جس دن اس نے ایک معصوم کو جہنم میں جھونکا تھا۔۔۔۔۔وہ رات بار بار اس کے سامنے ایک خوفناک یاد بن کر آرہی تھی۔۔۔۔! مایوں والی دوپہر ۔۔۔۔۔! ایک منظر نے اس کو جلا کر راکھ کیاتھا ۔۔۔۔وہ منظر ۔۔۔۔جو حسد کی آخری حد میں لے گیا تھا۔۔
چھے مہینے پہلے کی ایک رات اس کو حسد کے مقام پر لے کہ گئی تھی ۔۔!
* Before six month *
اس دن دوپہر کو ثمینہ بیگم نے اشنال کو تھپڑ مارا تھا ۔۔۔! وہ کمرے میں بند تھی ۔۔۔☜
خالہ جان۔۔۔۔۔ایشو نظر نہیں آ رہی کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔! روشنال نے اشنال کا پوچھا تھا۔۔۔!
اس کے روم میں دیکھو ۔۔۔۔۔! وہ بظاہر تو ٹھنڈے لہجے سے بولیں لیکن ان کا دل جل کر خاک ہوا تھا۔۔۔! لیکن وہ اپنے جلے دل کو ٹھنڈا کرلیتی تھیں ۔۔۔اشنال پر تشدد کرکے۔۔۔!
منال جو روشنال کو سن رہی تھیں وہ جل بھن اٹھی تھی ۔۔!مایوں والے دن روشنال کو اسکی فکر تھی ۔۔!
وہ ان کی بات پہ سر ہلاتا اوپر آیا تھا۔۔۔۔!
ایشو۔۔۔بچے۔۔۔۔ سوری آپ نے کل ڈریس کا کہا تھا لیکن کل میں بزی تھا۔۔۔۔!اس نے ایشو کا ڈور ناک کیا اور اندر چلا آیا تھا۔………وہ اندر داخل ہوا وہ رو رہی تھی۔۔۔!
سوری ایشو۔۔۔۔رو تو مت۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے تم مجھ سے ناراض ہیں یار کل میں بزی تھا۔۔۔۔۔اسے لگا کہ وہ اس کی وجہ سے رو رہی ہے۔۔۔۔! اس نے ڈریس اور میچنگ چوڑیاں نہںیں لا کہ دی تھیں۔
تب وہ ناراض بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔!
سپر مین۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر اس کے ہاتھوں پہ چہرہ رکھ کر وہ سسکیوں سے رو دی تھی۔۔۔۔!
کک۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔ہے ۔۔۔۔اس کو اتنا زیادہ روتا دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔۔! اور اس کا چہرہ اوپر کیا تھا۔۔۔!
یہ کس نے کیا ہے ! اس کے چہرے پہ زخموں کہ نشانات دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔۔۔!
س۔۔۔۔سپرمین ۔۔۔۔میں گ۔۔۔گر گئی تھی۔۔یہ کہتے ہوئے اس کی ہچکیوں میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔۔۔!
ایشو۔۔۔بچے دھیان رکھا کرونا۔۔۔۔۔ روشنال نے اس اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔۔۔۔
منال جو تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر آئی تھی اس کو اس کے گلے لگے دیکھ کر اسے اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔!
چلو چھوڑو۔ آؤ۔۔۔۔آج تمھارے لیے سرپرائز ہے۔۔۔!
اپنے ہونے والے شوہر کو اس کی اتنی پروا کرتا دیکھ کر نفرت کاڈیرہ اس کے اندر جم کر رہ گیا تھا۔۔۔۔!
وہ روم میں آئی تھی اپنی ہر چیز بکھیر کر۔۔۔۔۔! اپنے مایوں والا جوڑا نیچے پھینکا ڈریسنگ ٹیبل سے چیزیں تک نیچے گرا دی۔۔۔۔۔!
وہ بیڈ پہ گر کر رونے لگی تھی اس سے نفرت کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔!وہ نفرت میں اتنی اندھی ہوئی کہ اپنا ہی مایوں والا جوڑا جلا دیا تھا۔۔۔!
جو گڑسے مرے اس سے زہر دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔۔۔ماں کی ایک بات اس کے ذہن میں آئی تو شیطانی مسکراہٹ چہرے پر آئی تھی۔۔۔! اگر وہ سوچ لیتی کہ یہ مسکراہٹ اسے موت کی اذیت دے گی تو وہ کرنے سے پہلے دس بار سوچتی ضرور۔۔۔۔۔لیکن اس پہ حسدو نفرت کا جنون سوار تھا۔۔۔
جاری ہے
میں کوششش کرتی ہوں لونگ ایپی لکھنے کی ۔۔۔! لیکن میں بہت زیادہ لونگ ایپی لکھ نہیں پاتی۔۔۔
ہوں اب تو میری آنکھیں بھی سوج گئی ہیں۔۔۔ٹائپنگ میں مسٹیک ہوجاتی ہے اس کےلیے معزرت۔۔۔۔باقی پہلے تو میں رجسڑ پر لکھتی ہوں پھر فون میں ٹکسٹ کرتی ہوں۔۔۔۔!
