تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 25

وہ چونکا۔۔۔۔اسے محسوس ہوا کہ وہ کچھ ٹھان چکی ہے وہ اس کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔۔وہ کمرے سے جس انداز سے نکلی تھی وہ انداز بےحد خطرناک تھا۔۔۔۔!وہ نہ چاہتے ہوئے اس کے پیچھے لپکا تھا۔۔ !
وہ باہر نکلا جب وہ کچن میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔! مگر جب تک وہ لینا چاہی۔۔۔۔۔!
چھوڑو اسے پاگل عورت۔۔۔۔!
حسنال کے حواسوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔جبکہ منال بلک رہی تھی۔۔۔!
چ۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔۔مجھے مر جانے دو۔۔۔۔۔!
اس نے ہزار کوششوں کے باوجود چھری چھینی چاہی لیکن وہ پیچھے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔!
اس نے چھری کے پیچھے سے پکڑ کر اسے سے کھینچ کر پھینکی تھی۔۔۔۔! وہ اس سے چھینے کے چکر میں پیسنہ پیسنہ گیا تھا۔۔۔۔! اس کی نظر اس کے کٹ پر گئی تھی۔۔۔!
جس سے پھوٹٹا۔۔۔۔خ۔۔۔خو۔۔ن اس کے نیلے لباس کو سرخ کرتا اب فرش پر گر رہا تھا۔………!
وہ اس کی حالت سے گبھرا گیا تھا۔۔۔! ڈوپٹہ فرش پر پڑا ہوا تھا ۔۔جو اس سے چھری کھنچنے کی وجہ سے نیچے گرا تھا۔۔۔! سنہری بکھرے لمبے بال۔۔۔۔۔اندر کو دھنسی آنکھیں ۔۔۔۔نیلا کئی دنوں سے پہنا میلا لباس، بے رونق چہرہ ۔۔۔۔چپل اورڈوپٹے سے بےنیاز۔۔۔!زخمی ۔۔۔کلائی وہ ذہنی مریضہ لگ رہی تھی۔۔۔۔! وہ اس کی ذہنی حالت پر بوکھلایا تھا۔۔۔۔!
منال ۔۔۔۔! ثمینہ بیگم آواز آئی تو اس نے دیکھا جو منال کے روم کی طرف جار ہی تھی۔۔۔۔! وہ یہاں ثمینہ بیگم کا تماشہ لگنے سے ڈر رہا تھا ۔۔۔! جو بیٹی کے حالات دیکھ کر سارے گھر کو ڈسٹرب کرتیں وہ ان کی عادات کو شروع سے جانت تھا۔۔۔! ان کو تو بس لڑائی کرنے کا موقع چاہیے تھا۔۔۔۔۔!
میرے ساتھ۔۔۔۔چلو۔۔۔۔وہ اسے کلائی سے گھیسٹتا روم میں کر آیا تھا ۔۔۔۔۔جو آنکھیں بند کیے جھول رہی تھی۔۔۔۔!
اوچھی حرکیتں کرکے تمھیں لگتا ہے۔۔۔۔تم مجھے متوجہ کرلو تو یہ بھول ہے تمھاری۔۔۔۔۔!
وہ اونچا بولتا ہے اس کا ہاتھ چھوڑ کر جارجانہ انداز پر بیڈ پہ بیھاٹے ہوئے ڈھارا۔۔۔۔!
گھٹیا لڑکی یہ گھر ہے تماشہ سینٹر نہیں ہے ۔۔۔۔جہاں ہر روز نیا تماشہ کھلا ہوتا ہے۔۔۔۔! کسی کلب میں چلی جاؤ وہاں اچھے اور وہ تماشے ہوتے۔۔۔۔۔جن کی تم عادی ہو۔۔۔!
تمھارے نزدیک میں تو میں اور میرا بھائی صرف مزاق ہیں ۔۔۔۔تم نے ہمیں موم کے پتلے سمجھ رکھا ہے۔۔۔جسے جب دل کرے گا استعمال کرو گی۔۔۔! اور پھینک دو گی۔۔۔!
بہت بہت تم جیسی بے غیرت لڑکی کو معصوم سمجھا ۔پر اب نہیں۔۔۔پر منال بی بی جب تک تم پر اصلی حثیت تم پر واضح نہ کردی تو چین و سکون حرام ہے مجھ پر۔۔۔!
بہت شوق ہے تمھیں مرنے کا۔۔۔۔ماروں کا تمھیں اپنے ہاتھوں سے ماروں گا۔۔۔۔! بے فکر رہو ایسی تڑپ دوں تمھیں خود بھی نہیں پتہ چلے گا ۔۔۔اور تم مرجاؤ گی۔۔۔۔!
یہ معاملہ میری ضد اور انا کا بن چکا ہے میری زندگی تمھاری موت کا۔۔۔۔! تم یہاں سے نکل نہیں سکو گی۔۔۔۔۔!میری باندی بن کر رہو گی۔۔۔۔! اس کمرے سے نکلی بھی تو ایسی سزا دوں گا کہ سب سے منہ چھپاتی پھرو گی۔۔۔۔!
اگر کسی نے پوچھا بھی تو۔۔۔۔۔اپنی رضا مندی بتانا
بہت شوق ہے نہ تمھیں دل توڑنے کا۔۔۔۔۔! میں تمھیں ایسا توڑوں گا۔۔۔۔کہ تمھیں اپنی کر چیاں بھی نہیں ملیں گی۔۔۔!۔ زہریلی موت ماروں گا۔۔۔۔۔مجھے علم ہے تم میری قربت کےلیے ترس رہی ہو۔۔۔۔۔پر میں ایک لمحہ قربت بھی قربت کا نہیں دوں گا۔۔۔۔!
وہ لفظ تیر سے بھی تیز اس کے سینے میں اتارے تھے ۔۔۔۔۔!
پلیز ۔۔۔اتنے غلط الفاظ مت کہو۔۔۔۔۔! کہ بعد میں معافی مانگتے شرمندگی ہو۔۔۔!
تمھیں شرمندگی ہے ۔۔۔۔جو کچھ تم نے کیا ہے۔۔۔۔! کبھی ایک لمحے اُس معصوم کا احساس ہوا ہے۔۔۔۔! کتنے تیر اس نے لوگوں کے سہے ہیں ۔۔۔۔! ماں باپ کے کبھی احساس ہوا پے۔۔۔۔! کتنا غلط تم نے ان دونوں کے ساتھ کیا ہے۔۔۔۔!
کبھی سوچا ہے ۔۔۔۔! اس معصوم کی آنکھوں میں بےبسی دیکھی تھی ۔۔۔۔!وہ کہتی رہی میرا اعتبار کریں۔۔۔۔۔پر تم نے تو ہمارے چہروں پر پٹی باندھا رکھی تھی۔۔۔۔!
ہم کیا اس کا اعتبار کرتے۔۔۔۔۔جب آغا جان نے ان کو نکالا تھا اس وقت ہی مجھے بتا دیتی میں تم پر کوئی حرف نہیں آنے دیتا۔۔۔تمھاری ہر چال کا جوابدہ خود بن جاتا ۔۔۔۔! لیکن بھائی اور اسے گھر سے جانے نہیں دیتا۔۔۔وہ خود کو بمشکل رکھ کر نارمل جواب دے رہا تھا۔۔۔۔!
پلیز حسنال ۔۔۔۔۔! میں اشنال اور روشنال سے معافی مانگ لوں گی۔۔۔۔!
کتنا آسان ہے نا۔۔۔۔۔دل توڑ کر معافی مانگ لینا۔۔۔! لیکن وہ تو اسے پوچھو۔۔۔۔نہ ۔۔۔جس نے یہ تکلیف سہی ہے۔۔۔۔پتہ ہے اس رات میں تجسس ہاتھوں کے مجبور ہو کہ گیا تھا میرا دل یہ تسلیم نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔کہ اشنال بدکردار ہوسکتی ہے ۔۔۔! اس رات میں نے اسے تین بجے ٹھنڈے فرش پر بیٹھے اللہ سے رو رو کر دعائیں مانگتے دیکھا تھا۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ وہ اپنی کی جانے والی غلطی پر رو رہی ہے لیکن مجھے یہ پتا تھا کہ وہ اپنے بے گناہ ہونے پر رو رہی تھی تمھیں علم بھی ہے کہ اس معصوم کی بدعاؤں میں تمھارے لیے کتنی بدعائیں ہوں گی گی۔۔۔۔کبھی سوچا ہے۔۔۔۔لیکن وہ عظیم ماں کی بیٹی ہے بد دعا کیسے دے سکتی ہے۔۔۔۔! لیکن منال حاکم بخت ایک بات یاد رکھنا ۔۔دکھا ہوا دل بذات خود ایک بد دعا ہے ۔۔۔۔کسی کی آنکھوں سے بے بسی سے نکلا جانے والا ایک آنسوؤں بھی بد دعا بن جا تا ہے۔۔۔۔! اور اس دن میں نے اس کی آنکھوں
میں آنسوؤں کی بارش دیکھی تھی ۔۔۔۔!
تم اس روم میں رہ سکتی ہو۔۔۔۔اس کمرے سے جب مرضی دل کیا آجانا۔۔۔۔جب مرضی دل کیا آجانا ۔۔۔لیکن میرے تک رسائی مت پانا ورنہ میں یہ بھول جاؤں گا کہ تم میری نام کی بیوی بھی ہو۔۔۔۔ کیونکہ میرے دل میں تمھارے لیے کوئی احساسات کوئی چاہت نہیں ہے ۔۔۔پہاڑ سے گرا ہوا شخص سے تو جاتا ہے لیکن نظروں سے گرا ہوا شخص دوبارہ اٹھ نہیں سکتا ۔۔۔۔ اور تم میری نظروں سے گر چکی ہو۔۔۔۔۔اب چاہو بھی توپہلے والا مقام حاصل نہیں کرسکتی۔۔۔۔!
اور ہاں میرے قول و فعل یا میری غلط باتوں سے اگر تمھارا دل دُ کھا تو میں بہت بہت معزرت۔۔۔۔۔!
لیکن مجھےپتہ ہے تم مجھے الفاظ سہہ نہیں پا رہی ہوگی یہ الفاظ ہی ہوتے جو دل چیر لیتے ہیں۔۔۔!مجھے علم ہے کہ تم بھی مجھے الفاظ پہ معاف نہیں کرو گی پر بھی معافی چاہتا ہوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ جانے لگا تھا۔۔۔!
پل۔۔۔پلیز ۔۔۔۔حسنال۔۔۔۔۔ا۔۔۔ای۔۔۔ایسے خفا ہو کر مت جاؤ۔۔۔!
وہ اپنے ہاتھوں پہ ۔۔۔۔خ۔۔۔خو۔۔ن کی پروا کیے بغیر آئی تھی۔۔۔!
ہٹو۔۔۔۔۔آگے سے۔۔۔۔۔! وہ آنکھیں بند کرتا ضبط سے بولا۔۔۔!
نہ۔۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔۔میری رات پھر بے چین گزرے گی۔۔۔۔پلیز اختلافات ختم کرکے مجھے سکون کی دوا دے جاؤ۔۔۔۔وہ جیسے گڑ ۔۔۔۔گڑگڑائی تھی ۔۔۔۔!
ہٹو۔۔۔۔۔۔اک لمحے تو اس کی بکھری حالت کو دیکھتا اس کا دل پریشان ہوا تھااس کا دل کیا کہ خود اس کی کلائہ پر بینڈیج کرکے جائے۔۔۔! پر آگے ہی لمحے اس کی خود غرضی کو سوچتا اسے ہٹا کہ چلا گیا تھا۔؟!
*******
ہوگیا ریوایز ہوگیا ہے تو بک دے دو۔۔۔۔ٹیسٹ دوں۔۔۔۔ روشنال جو پچھلے ایک گھنٹے سے اسے پڑھنے کےلیے بیٹھایا ہوا تھا۔۔۔۔!
جج۔جی۔۔۔۔یہ ۔۔۔یہ لیں۔۔۔۔وہ اسے اکاونٹ کی بکس تمھاتے ہوئے بولی حالانکہ اسے آتا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔!
چلو ۔۔۔۔۔
چلو پیج نکالو۔۔۔ہری اپ میں بول رہا ہوں۔۔۔۔!
Make the trading profit and loss account
AND ADJUST THE BALANCE SHEET ENTRY ….?
وہ اُسے کوائسچن کی انٹری بول کر تقربیاً پانچ منٹ بعد بیڈ پر بیٹھا تھا جو جھک کر اب کوائسچن کر رہی تھی
یلو اور پنک کنڑاس کے سوٹ میں سر پہ نمازی سٹائل ڈوپٹہ کیے جھک کر کوائسچن کرتی اس کو بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔وہ اسے بغور دیکھنے لگا ۔۔۔۔جو اس کی نرمی و التفاتِ محبت پاکر نکھر گئی تھی ۔۔۔۔کیونکہ وہ اس کی اب بہت زیادہ کئیر کرنے لگا تھالیکن وہ اسے فاصلے پر ہی رہتی تھی کوئہ فرمائش نہیں کرتی ، کوئی ضد نہیں کعتہ تھی۔۔۔!
وہ سختی کرکے اسے پڑھاتا تھا اور اشنال پڑھائی کے معاملے اسکو کچھ نہیں کہتی تھی وہ اب بھی سوتی اپنے روم میں ہی تھی وہ اسے معاف نہیں کرسکی تھی لیکن یہ سوچ کر وہ اسکا محافظ تھا وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی ۔۔۔!
اشنال جس نے ٹریڈنگ اکاونٹ کا گراس پروفٹ بڑی مشکل سے نکالا تھا۔۔۔کلیکولیٹیر ہی جواب دے گیا تھا ۔۔۔۔اس نے دو تین بار کیلوکلیٹر کو ہاتھ پر ہلکے سے مارا تھا۔۔۔۔! پر وہ تو اتنا ڈھیٹ تھا کہ چلنے کا نام کی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔! اس نے رکھ کر کیلوکلیٹر کو اب کی بار صوفے کے ہنیڈل پر زور سے مارا تھا۔۔۔۔وہ اک بار چلا پھر بند ہوگیا تھا اسے نے رکھ کر پھر زور سے دے مارا تھا۔۔۔!
ایک دفعہ دیوار پہ مارو۔۔۔۔۔پھر شاید سیٹ ہو جائے اور چل بھی جائے۔۔۔ روشنال جو اسی کو دیکھ رہا تھا جو دانتوں کو ہونٹوں میں سختی سے بینچھے اپنا سارا غصہ اس بے جان چیز پہ نکال رہی تھی۔۔۔۔اس نے بمشکل مسکراہٹ روک طنز کا تیر دے مارا تھا۔۔۔۔!
پتہ نہیں کیوں نہیں چل رہا ۔۔۔۔! وہ اس کی بات پہ شرمندہ ہوکر بولی پر اسکا دل بہت خوش تھا کہ اب اسے کوائسچن نہیں کرنا پڑے گا۔۔۔وہ کیلوکٹیر کے خراب ہونے کا بہانہ بنا لے گی اور اماونٹ زیادہ ہونے کی و جہ سے بچ جائے گی کیونکہ وہ کیلوکلیٹر کے بغیر سلو نہیں ہوسکتی تھیں ۔۔۔۔۔! اور اس کے آج اس کھڑوس سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔۔!ہائے اللہ اتنی اچھا مجھے کوائسچن آتا تھا۔۔۔۔اب میں کیسے کروں گی۔۔۔۔وہ منہ پہ اداسی سجائے ایکٹنگ کرنے لگی۔۔۔! لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی یہ ایکٹنگ اس پہ بھاری پڑھ جائے گی۔۔۔!
یہ سیل لو اور جلدی کیلوکلیٹ کرکے دکھاؤ۔۔۔۔۔دس منٹ ہے تمھارے پاس۔۔۔۔وہ اٹھ کر اسے موبائل تمھاتے ہوئے بولا۔۔۔!
اونلی ٹین منٹس۔۔۔۔۔وہ آنکھیں کھول کر حیرت سے بولی اتنا لانگ کوئسچن ہے ۔۔۔میں کیسے سولو کروں گی ۔۔۔۔؟
وہ اب کی بار تیز سی بولی کیونکہ کوئسچن بہت لونگ تھا اور وہ اپنے ساتھ اتنی ناانصافی دیکھ نہیں سکتی تھی ۔۔۔۔۔!
پچھلے ایک گھنٹے سے میں تمھیں کوائسچن کروا رہا ہوں
اب تم کہہ رہی ہو میں سولو کیسے کروں جیسے بھی ہو مجھے فل کوئسچن کردو میں ہر بات پہ کمپرومائز کرلوں گا لیکن تمھاری پڑھائی پر نہیں پرسوں تمھارا پیپر ہے مجھے کل تک فائنل تیاری چاہیے ۔۔۔۔
۔وہ اب کی بار تھوڑا سختی سے بولا اور بیڈ پہ لیٹتا اس کی بک سینے پہ رکھے بازوؤں آنکھوں پہ رکھے لیٹ گیا تھا۔۔۔۔!
وہ اسکے سخت لہجے سے روہانسی ہوئی تھی۔۔۔۔!
وہ کوئسچن کرتی رہی ۔۔۔لیکن پروفٹ اینڈ لاس کا آنسر نہیں آرہا تھا اس نے ایک دفعہ پھر کیلوکلیٹ کیا تھا۔۔۔!لیکن بے سود۔۔پانچ منٹ بعد اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو روشنال کو سر پہ ہاتھ رکھے پایا تھا۔۔۔! اسے لگا وہ سوگیا ہے۔۔۔!
وہ آہستگی سے کوئسچن کرنے لگ پڑی تھی۔۔۔۔! اس نے سوچا کہ وہ اب جب کوئسچن سولو ہوگا تو اسے دے گی وہ خوش ہوگئی تھی کہ وہ کوئسچن کرلے گی اس کا ایک دل کیا اس کے ہاتھ سے بک لے کہ آنسر دیکھ آئے۔۔۔۔! پر یہ سوچ آتے ہی اس کے جسم میں پھریری سی دوڑی تھی۔ ۔! وہ یہ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔۔!
پندرہ منٹ سے تین منٹ اوپر ہوگئے ہیں کوئسچن لے آؤ ۔۔۔وہ جو اطمنیان میں تھی بیلنس شیٹ شروع ہی نہیں کی تھی اس کی بھاری آواز سن کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا تھا۔۔۔!
لے بھی آؤ مجھے نیند آرہی ہے ۔۔۔۔۔! وہ اب کی بار روڈ سا ہوا تھا۔۔۔!
جب کہ اشنال مرے مرے قدم اٹھاتی اٹھی تھی ۔۔۔! اور ااسے رجسٹر تھما کہ بیڈ کے کنارے کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔!
اس سے ثابت ہوا کہ تم نرمی کی زبان کے قابل ہی نہیں ہو۔۔! کل تمھارا پیپر ہے اور تمھارا فائنل اکاونٹ ہی نہیں کلئیر ۔۔کوئسچن دیکھ کر اسے سچ مچ میں غصہ آیا تھا ۔۔…………! جاؤ یہ ہی کوئسچن مجھے دس مرتبہ لکھ کہ دکھاؤ۔۔۔۔! وہ سختی سے بولتا اس کو رولا گیا تھا۔۔۔ْ!
یہ لو۔۔۔۔۔ اسے تھماتا اس کی طرف دیکھا تو اس کو روتے ہوئے پایا تھا۔۔۔!
اسے بمشکل آنسو روکتے دیکھ کر اُس پر پیار بھی بے تحاشہ آیا تھا۔۔۔! لیکن پھر اگنور کر گیا تھا۔۔۔!اور پھر سے لیٹ گیا تھا۔۔۔!
جبکہ وہ روتے روتے کوئسچن کرتی رہی تھی۔۔۔! روشنال اب کی بار سچ میں سوگیا تھا۔
****
آغا جان یہ آپکی میـڈیسن ۔۔۔۔!
منال انھیں کھانا کھلا کہ دوائی دے رہی تھی۔۔۔۔۔! اسے بہت دکھ لگا آغاجان کو کمزور ہوتے دیکھ کر۔۔۔۔!وہ اپنے غم میں آغاجان کو فراموش کر چکی تھی۔۔!
پر جب سے وہ باقدگی سے نماز پڑھنا شروع کیا تھا اب وہ پرسکون رہتی تھی۔۔۔حسنال نے تو اسے آج تک نہیں بلایا تھا۔۔۔اول تو گھر آتا ہی نہیں تھا۔۔مگر جب آتا تو رات کے ایک دوبجے۔۔۔جب تک وہ سوچکی ہوتی۔۔۔! لیکن وہ صرف اسے لگتا تھا جب کہ منال تو ہر لمحہ گھڑی اس کے انتظار می ہر پل اس کی آہٹ سننے کےلیے بےتاط رہتی تھی۔۔۔۔!
آغاجان میں بہت بری ہوں نہ۔۔۔۔۔پچھلے پورے ہفتے سے ایک ہی گھر میں ہوتے آپکے پاس آئی نہ ۔۔۔۔! ان کے پاس بیٹھی ان کو دیکھتی وہ دکھ سے بولی تھی۔۔
حسنال کا رویہ کیسا ہے تمھارے ساتھ کئی غلط تو نہیں کر رہا تمھارے ساتھ۔۔۔۔؟ وہ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھتے اس کے چہرے کو کھوجتے ہوئے بولے۔۔۔۔!
آغا جان آپ کو ایسالگتا ہے کہ حسنال غلط کر سکتے ہیں۔۔۔! وہ تو اس دن وقتی خفا ہوئے تھے مجھ سے۔۔۔۔۔!
وہ انھیں مطمن کرتی بولی تاکہ وہ اس کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔۔۔۔!
پتہ ہے مینو تمھاری آنکھیں تمھارے چہرے کا پتہ نہیں دے رہیں ۔۔۔۔تم سچ بتا رہی ہو۔۔۔۔لیکن تمھاری آنکھیں جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔۔اتنی سی تھی جب سے تمھارا باپ تمھیں چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔میں اشنال کے تو نہیں پر تمھارا جھوٹ سچ جان لیتا ہوں۔۔۔۔اتنا بھی پتہ ہے تم دوائی دینے کے بہانے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے آتی ہو مینو پتر۔۔۔۔!
کیونکہ تمھاری ماں تمھیں سنتی نہیں ہے۔۔۔۔۔!
آغا جان آپ ٹھیک کر رہے ہیں میں نے سنا تھا کہ مائیں بچوں کا دل پڑھتی ہیں ان کی آنکھوں کی بجھتی جوت نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔اشنال تو ان کی شوہر بیٹی تھی سویتلی تھی ۔۔۔۔لیکن سگوں والا سلوک وہ میرے ساتھ بھی نہیں کرتیں ۔۔۔۔میں ان کی آغوش میں جانے کےلیے ترس گئی ہوں۔۔۔۔! میں اشنال کے حق میں بولتی ہوں ان کو غصہ آتا ہے ۔۔۔میں آپ سب کی قربانیوں کا ذکر کرتی ہوں ان کا دل کرتا ہے میرا منہ نوچ لیں۔۔۔!
حسنال ٹھیک کر رہا ہے میرے ساتھ۔۔۔۔! ویسے آغا جان ہر رشتہ معصوم ہے چاہے ماں باپ کا ہو، بہن بھائی کا ہو…! یا میاں بیوی کا ہو ۔۔۔ان رشتوں کو اگر سختی سے پکڑوگے تو مر جائیں گے ، اگر بےپروائی سے پکڑو گے تو اڑ جائے گے، لیکن اگر نرمی سے پکڑوگے تو زندگی بھر ساتھ نبھائے گے۔۔۔!۔۔۔ کیونکہ مور ناچتے ہوئے بھیروتا ہے اور ہنس مرتے ہوئے گاتا ہے۔۔۔یہ ہی زندگی کا دستور ہے دکھ والی رات نیند نہیں آتی اور سکھ والی رات سوتا کون ہے۔۔۔۔!
آغا سب اپنی ذات میں غلط ہے کسی کو رشتوں میں توازن رکھنا نہیں آتا۔۔۔۔! اگر سب رشتوں میں برابری رکھیں ۔۔۔نہ ماں کے سامنے بیوی کو ڈانٹے ۔۔۔۔! نہ بیوی کے سامنے ماں کو برا بھلے کہے۔۔۔!
حسنال اپنی جگہ ٹھیک کر رہے ہیں ۔۔۔وہ تو خالص تھے ۔۔۔آغا جان انھیں رشتے میں توازن رکھنا آتا ہے …! ان کو جتنے بھی مجھ سے اختلافات سہی لیکن ایک کمرے کے باہر مجھ سے اونچی آواز میں کبھی بات نہیں کی۔۔۔۔کبھی خالہ کے سامنے مجھے برا بھلا نہیں کہا کبھی ان کے سامنے میری حثیت گرائی نہیں ہے۔۔۔۔!وہ جو کچھ کر رہے ہیں بلکل ٹھیک کر رہے ہیں میں ہوں اسی قابل ۔۔۔۔! وہ آج خود سے بھی تلخ ہوئی تھی۔۔۔!
لیکن مینو پتر مجھے دکھ لگتا ہے ، مجھے ترس آتا ہے تم پر۔۔۔۔ہمدردی ہے تم سے۔۔۔! وہ پریشان سے بولے۔۔۔!
آغا جان واقعی میں ہمدردی کے قابل ہوں ، ترس کے قابل۔۔۔۔! پیار محبت کے نہیں ۔۔۔۔! وہ جو خود کو جوڑ کہ آغا جان کے پاس تھی اسکا ضبط ٹوٹا تھا آج پھر وہ ٹوٹی تھی۔۔۔۔! اسے لگا کہ وہ واقعی قابل رحم ہے۔۔۔۔!وہ آغا جان سے اجازت لیتی کمرے سے نکلی تھی۔۔!
********
روشنال کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ بیٹھا تھا۔۔۔! وہ ابھی تک بیٹھے کام کر رہی تھی ۔۔۔۔رات کے ایک بج رہے تھے یعنی وہ دس بجےسے لے کر ابھی تک کام کر رہی تھی کندھوں سے لٹکتا ڈوپٹہ ۔۔بال نکلے ہوئے ۔۔وہ جھک کر مسلسل کام کر رہی تھی روشنال کو دکھ لگا تھا کہ وہ ابھی تک کام کر رہی ہے ۔۔۔۔۔!
اس کی آنکھوں سے پانی آر رہا تھا۔۔۔! اشنال کو نہیں پتہ تھا کہ وہ جاگ گیا ہے۔۔۔۔! وہ اب بھی بے حس بن کر لکھ رہی تھی۔۔۔!
روشنال آہستگی سے اٹھا اور چلتا ہوئے آرام سے اور خاموشی سے اس کے پاس صوفے پر بیٹھا تھا ۔۔۔
جبکہ اشنال اس کو دیکھ کر اسکے پاس رجسڑ رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی دونوں کے درمیان معنی خیز خاموشی تھی۔۔۔۔!
روشنال نے اسے اٹھتا دیکھ کر ہاتھ آگے بڑھا کر تیزی سے اسے اپنی گرفت میں لے کر اپنی پرُ حدت پناہوں میں لے لیا تھا۔۔۔!اور نرمی سے تھامے اسے اپنے بیڈ پہ لے کہ آیا تھا۔۔۔!
جبکہ اشنال کا خفا خفا اور نروٹھا اور رویا رویا سا لہجہ گریہ زاریہ سی سرخ آنکھیں ۔۔۔ایک تو تین گھنٹوں سے بیٹھے رہنے اور ہاتھ کے مسلسل استعمال اسکی کمر اور ٹانگوں میں درد ہونے لگ پڑا تھا ۔۔!
اور اوپر سے اس شخص کی قربت اسکا دل جلا کہ رکھتی تھی۔۔۔
وہ اسے فاصلے پر رہتی تھی پر ور کس حد تک خود کو بچا کر رکھتی ۔۔۔ جبکہ اس ستمگر نے تو طے کرلیا تھا اس کی ہمت توڑنے اسے شکست سے دوچار اسکی ہمتیں توڑنے کا۔۔ ۔وہ اسے مکمل بے بس کر دیتا تھا۔۔!
جبکہ روشنال اس سے بےیقینی سے جزبز ہوتے دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔۔!
خفا ہو۔۔۔۔۔؟ اس کے مدھم گمھبیر لہجے کا حصار اسکی جذبوں سے بھرپور آواز اور نہ ٹوٹنے والا دائرہ ابھی تک بنا ہوا تھا۔۔۔۔!
وہ اس کی جزبوں اور آنچ دیتی نظروں سے گبھرائی تھی اور اس کا حصار سے نکلنے کےلیے مچلی تھی۔۔۔۔!
مجھے چھوڑ دیں۔۔۔۔نہیں بات کرنی آپ سے۔۔۔۔۔وہ بہت زیادہ خفا تھی۔۔۔۔!
آپ ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں ۔۔۔۔مجھے ہرٹ کرتے ہیں نہیں رہنے مجھے آپ کے ساتھ۔۔۔وہ یہ کہہ کر رونے لگی تھی۔۔۔۔!
اچھا۔۔۔۔اچھا ۔۔۔۔۔۔سوری۔۔۔۔۔! وہ اسے کول کرنے کےلیے بولا تھا کہ وہ پھر سے نہ رونے لگ پڑے۔۔۔!
کان پکڑیں۔۔۔۔۔ایسے نہیں۔۔۔۔! وہ دل میں خوش ہوئی تھی کہ وہ کھڑوس شخص اسے منا رہا ہے۔۔۔۔!
اچھا یہ لو۔۔۔۔وہ اس کے نروٹھے لہجے کو دیکھتا ہوئے اس کے کان پکڑ کر بولا تھا۔۔۔!
میرے نہیں اپنے پکڑیں ۔۔۔۔۔۔! اس نے سر پر ہاتھ مار کر اس کی حرکتوں سے عاجز ہوتے کہا تھا۔۔۔!
اوہ اچھا سوری ۔۔۔مجھے لگا کہ تم اپنے پکڑنے کا کہہ رہی ہو۔۔۔وہ اب کی بار اپنے پکڑنے کا کہہ گئی تھی ۔۔۔۔!
اس کی گرفت ہلکی پاکر وہ نکلی اور جانے کےلیے اٹھی تھی اور پھر سے اپنے خول میں سمٹی تھی یہ تو طے تھا کہ وہ اس شخص کی قربت میں کچھ نہیں رہ سکتی تھی ۔۔
کدھر جارہی ہو ۔۔۔۔ادھر بیٹھ جاؤ۔۔۔۔! ابھی تک خفا ہو
لگتا ہے میری ڈانٹ سے دل دکھا ہے ۔۔۔
وہ اس کے اترے چہرے کو دیکھتا نرمی سے پھر سے اپنے پاس بیٹھاتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔!
جھڑکیاں دینے والا،دھمکیاں دینے والا ، رعب جمانے والا
بھول چکا ہوتا ہے۔۔۔۔۔کہ وہ بھی انسان ہے اسے بھی اپنے جیسے انسانوں پر دھمکیاں اور روعب جمانے پر کوئی حق حاصل نہیں ہے آپ نے دل دکھاتے وقت سخت رویے وقت رکھتے
کبھی یہ نہیں سوچا کہ میرا دل بھی ہے ۔۔۔
؎ کچھ سوچنا چاہیے تھا تمھیں
مجھ پر ستم کرنے سے پہلے
میں تیری محبت نہیں تھی..
پر انسان تو تھی نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤
از ایبہا علی شاہ
آپ کم ازکم یہ سوچ لیتے کہ میں آپکی ایشو نہیں ہوں پر آپکے جان سے پیارے چاچو کی پرنسز تو ہوں نہ ۔۔۔! آپ نے نفرت کرتے وقت کبھی یہ نہیں سوچا کہ میں انسان ہوں جس کا دل دکھتا ہے۔۔۔۔قسم سے آپ کے الفاظ میری روح پہ چھید کرتے تھے ۔۔۔۔۔!شادی سے ایک دن بعد بھی مجھے آپ میں پہلے والا سپرمین نظر نہیں آیا۔۔۔۔مجھے بھولے بھٹکے سے بھی یاد نہیں پڑتا ۔۔۔۔کہ آپ نے مجھ سے کبھی بھی نرمی سے بات کی ہو۔۔۔۔!وہ آج اسکے سخت لہجے پر تلخ ہوئی تھی۔۔۔!
تم سہی کہہ رہی ہو۔۔۔۔!میں نے تم ظلم کرتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ تم بھی انسان ہو اور تمھارا بھی دل ہے۔۔۔۔۔!
اور سچ بتاؤں بابا اور خالہ امی اور آغا جان کی بے اعتباری کے بعد اتنا تلخ ہوگیا تھا میں نے یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ تم میری ایشُو ہو۔۔۔۔یہ تک بھول گیا کہ میں نے خود تمھیں محبت کی آیباری سے پروان چڑھایا ہے پھر تمھیؔ کیسے اتنی گھٹیا حرکت کرسکتی ہو۔۔۔۔۔جس دن تمھیں بخار تھا فرقان کی گھر جانے کے بعد اُس روز میں نے کوئسچن کروایا تھا اور تمھاری رائیٹنگ دیکھی اور وہ رات میرے ذہن کے پردوں میں گھومی تھی ۔۔۔۔! میں نے اس رات والی اور تمھاری رائیٹنگ کا موازنہ کیا۔۔۔۔! اس رات میں نے سوچ لیا تھا کہ واقعی میں تمھارا سپرمین بننے کے قابل نہیں تھا۔۔۔۔! لیکن میرا خدا گواہ ہے میں نے اپنی نفرت کے دنوں میں بھی تمھارا برا نہیں چاہا۔۔۔!
سچی بتاؤں تو اس رات کے بعد میں اپنے اندر سے تمھارا سپرمین تلاش کر رہا ہوں پر وہ مجھے نہیں ملا ۔۔۔۔۔!
تم خود سوچو تمھاری ذات کو بکھیرنے کے بعد میں تمھارا سپرمین بن سکتا ہوں۔۔۔۔۔!ہر گز نہیں ۔۔۔۔میں تم سے نہ معافی مانگی ہے اور نہ مانگوں گا۔۔۔۔کیونکہ میں خود سے شرمندہ ہوں ۔۔۔۔میں پورا کوشش کروں گا کہ تمھیں تمھارا سپر مین واپس لٹاؤں گاچھوٹی لڑکی۔۔۔
میں تمھاری ذات کو سمیٹنے کی کوشش کروں گا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اس کی جھکا اور اس کی نم آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑا تھا اور اسے فاصلہ بناتا لیٹ گیا تھا ۔۔
اور آج کی بات پہ خفا ہو تم۔۔۔۔تمھارا خفا ہونابنتا ہے ۔۔۔!
تمھاری شکایات بھی بجا ہیں۔۔۔۔! وہ اسے گہری سانس لیتے اور ہاتھوں سے چہرہ صاف کرتے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔!
مجھے آپ سے شکایات نہیں ہے ۔۔۔۔۔! وہ آپ کی بار نظریں جھکائے بولی تھی وہ شاک ہوگئی تھی کہ اسے سچ پتہ بھی ہے پھر وہ اسے سرد کیوں رکھتا ہے کیوں اسے اذیت دیتا ہے اب بھی وہ اپنی انا میں گم ہے اسے غصہ آیا تھا کہ وہ اس کے بے قصور ہونے کے بعد بھی تلخ رہتا تھا۔۔!کیوں اس کی ذات اتنی بے مول ہوگئی تھی۔۔۔۔۔! یا وہ ابھی بھی منال کو پسند کرتا ہے۔۔۔۔!
پھر تمھارا چہرہ خفا خفا کیوں ہو ۔۔۔۔؟ اس کا انداز جتلاتا ہوا ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔صلح جو اپنائیت آمیز تھا۔۔۔
میں خفا نہیں ہوں اور نہ شکایات ہیں کسی سے! آپ سے میں تو ناراض بالکل بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔! میں سمجتھی ہوں یہ احساسات وہاں ہوتے ہیں ۔۔۔جہاں محبت ہو رشتوں کی اہمیت ہو۔۔۔۔ان کی ضروتوں کا احساس باقی ہو ہمارے رشتے میں ایسا کوئی استحقاق اور مان ہے ہی نہیں تو پھر میں خوش فہمی کا شکار۔۔۔۔ویسے سچ کہوں اب مجھے رویے اور لہجے تکلیف نہجں دیتے۔۔۔۔۔۔پہلے میں سوچتی تھی کہ اچھا انسان اتنی جلدی کیسے بدل جاتا ہے۔۔۔۔!جب سے آپکی زندگی میں آئی ہوں سمجھ آگی ہے ۔۔
ایسا نہیں ہے اشنال ۔۔۔۔اس کی بات سن کر وہ پہلی بار گبھرایا تھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے اوپر جھکا لیا تھا۔۔۔! تم نے غلط سوچا یے مانتا ہوں تمھارے ساتھ مان اور اسحقاق کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ ۔۔۔پر یو تو سکتا ہے نہ۔۔۔۔! میں تمھارے ساتھ چاہ کا خواہش مند ہوں ۔۔۔!آج میں پوری امانت داری سے اعتراف کرتا ہوں تم بہت اچھی ہو ۔۔۔تمھاری ہمراہی میں میں فخر محسوس کرتا ہوں۔۔۔!
تم بہت ہی پاکیزہ ہو۔۔۔۔تمھارا کردار ہیرے سے بھی شفاف ہے تمھارے پاک کردار کی گواہی میں خود دیتا ہوں ۔۔۔
تمھارا یہ انداز تمھارے لہجے کا ٹھہراؤ مجھے پل پل تمھارے قریب کرتا ہے۔۔۔۔۔! میں تم سے محبت نہیں کرتا لیکن تم میری رگ رگ میں بس چکی ہو۔۔۔۔۔تم آہستہ آہستہ ۔۔۔۔پوائزن کی طرح مجھ پر اثر کر رہی ہو۔۔۔۔۔!
وہ اس کی جھکے سر کو دیکھ کر رہا تھا اس نے ہلکے سے سر اٹھایا اس پر حیا کہ رنگوں کا بیسرا تھا۔۔۔!
وہ آسمانی رنگ کے سوٹ میں غضب کی مردانگی سمیٹے ہوئے تھا اس کے کشادہ چہرے کی تاثرات نرم سے تھے اوپر سے اسکی نرم و گفتگو ۔۔۔وہ پگھل رہی تھی پر وہ پگھلنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔!
اچھا چھوڑو ۔۔۔۔ نیند آرہی ہے تو سو جاؤ۔۔۔۔۔! وہ اس کے نیند سے بھری آنکھوں کو دیکھتا نرمی سے اپنے سے کچھ فاصلے ہر لیٹا گیا تھا۔۔۔۔۔!
پر مجھے اپنے روم میں سونا ہے ۔۔۔وہ اسے اپنی تکتا پاکر کنفیوز سی بولی تھی۔۔۔۔۔!
اوکے کوئی بات اٹھو اور اپنے روم میں جاکر سو جاؤ۔۔۔۔۔! شب بخیر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لب وہاں رکھے اور تمھارے پیر تک میں ویٹ کر رہا ہوں اس کے بعد تم میرے ساتھ ہرپ میرے پاس میری نگاہوں کے سامنے رہوگی مسز ۔۔۔۔ یہ سوچ سمجھ لو اور ذہن نشین کرلو۔۔۔۔۔۔۔وہ بھاری گمبھیر لہجے میں کہتااس کا دل دھڑکا گیا تھا۔۔۔
اس کی معنی خیزی باتوں سے وہ کانپی تھی۔۔۔۔!
جبکہ اشنال کو امید نہیں تھی کہ اسے فلحال اجازت دے گا وہ بے یقین سی ہوتی اس کے پاس سےاٹھی تھی۔۔۔! پیپر کے بعد تو پتہ نہیں کب آنی ہے ابھی تو کل پہلا پیپر تھا۔۔۔۔! اس نے سوچا کہ وہ اتنے دنوں تک بھول جائیگے گا۔ ۔۔۔لیکن وہ یہ والا محاروہ بھول چکی تھی کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔۔۔۔۔!
********
بہت حسرت تھی مجھے تھمھیں یہاں دیکھنے کی ۔۔۔۔۔! مسٹر عرفان درانی۔۔۔۔۔۔! عرفان درانی جیل کی بوسیدہ حال زنگ لگے لوہے کے سنگلاخ کو پکڑے نیچے بیٹھا اس کی گمبھیر آواز سنتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔
جو وکالت کے لباس میں لیپ ٹاپ اٹھائے اپنی ڈارک براؤن آنکھیں اس پر گاڑے مردانہ وجائت سے بھرپور شخصیت نظر آررہا تھا اس کا سحر عرفام درانی کو بھی بوکھلا کر رکھ گیا تھا۔۔وہ اسے پورے چار سال اپنے روبرو دیکھ کر سعی معنوں میں گبھرایا تھا۔۔۔
پچھلے چار سال سے میں تمھیں یہاں دیکھنے کےلیے ترس رہا تھااللہ کا بہت بہت شکر ہے میرے خوابوں کو تعبیر مل گئی ۔۔۔! روشنال بخت جو آج تھانے میں آیا تھا۔۔۔۔!
عرفان درانی حوالات کی تاروں میں بند تھا۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ اسے آج دیکھنےکےلیے آیا تھا کہ وہ خبیث انسان کس حالت میں تھا۔۔۔جس کی وجہ سے اس نے وکالت کا پیشہ چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔!
تم ۔۔۔وہ حیرت کے مارے پھٹی نگاہوں سے اس شاندار شخص کو دیکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔اسے لگا تھا کہ وہ تو وکالت کی جاب سے ریزائن دے چکا ہے۔۔۔!اس نے اس کے خلاف اتنا معرکہ تیار کیا اسے تو لگا تھا کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔۔۔۔۔!
جی۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔کیوں یقین نہیں آرہا مسٹر عرفان دارنی ۔۔۔۔! کیوں تمھیں کیا لگا کہ مجھے علم نہیں تھا کہ تمھاری وجہ سے ماضی میں مجھے ایڈوکیٹ کی جاب رائیزننز کرنے پر پریشرائز کیا جار رہا تھا۔۔۔! تم نے مجھے آسان ہدف سمجھا ہوا تھا۔۔۔۔!
پتہ ہے شیر جب حملہ کرتا ہے تو وہ قدم پیچھے کو ہٹتا ہے اور پھر ایک جست میں پورا زور لگا کر اپنے شکار پر حملہ کرتا ہے۔۔۔۔! تب وہ بازی جتتا ہے۔۔۔۔ میرا یہ شیر نوجوان بھائی پچھلے تین سال سے شکار کو ٹیکلز کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا آخر کار ہاتھ آ ہی گیا تھا۔۔۔۔! اب کی بار پیچھے آتے حسنال نے بلند آواز میں کہا تھا۔۔۔!
ایش گرے سوٹ وہ شخص ملتا جلتا تھا دونوں کی شخصیت ایک جیسی تھی ۔۔۔۔۔!عرفان دارنی کو یہ آواز پیچانی پہچانی لگی۔۔۔۔۔! وہ اٹھا تھا لیکن وہ چہرہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھاوہ کیسے پیچان پاتا کہ حسنال تو گندے کپڑے پہب کہ رکھتا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ وہ تیل لگا جعلی ڈرائیور اور کہاں یہ سوٹڈ بوٹڈ شخص۔۔۔!
ماں بہن۔۔۔۔۔بیٹیوں کی عزت اتنی سستی نہیں ہوتی عرفان دارنی ۔۔۔۔۔!کہ انھیں رات کے اندھیرے میں یوں بنگلوں میں پامال کیا جاسکے۔۔۔۔! اب کی بار حسنال کی آنکھیں لہو رنگ ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔! اسے بچی کا چہرہ نہیں بھولتا نہیں تھا۔۔۔۔
قوم کو تباہ کرنے والا فرعون ہوتا ہے اس قوم کو بچانے والا موسیٰ بھی آتا۔۔۔۔۔۔۔!اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ عرفان دارنی کو شوٹ کر ڈالے پتا ہے جساب وہ صرف لفظوں سے کام چلا رہا تھا۔۔۔۔
تمھاری آواز ، تمھارا یہ آنکھیں یہ پیچانی پیچانی لگتی ہیں ۔۔۔۔! وہ انجانی سی کیفت میں پیچاننے کی کوشش کرت بولا تھا۔۔۔۔!
مسٹر عرفان اگلی ملاقات آپ سے کوٹ میں ہوگی ۔۔۔امید ہے آپ میں بدلاؤ نظر آئے گا۔۔۔۔روشنال یہ کہتا چل دیا تھا ۔۔
ایک بات ذہن کھول کر سنو دو ٹکے کے ایڈوکیٹ۔۔۔۔! یہ پولیس میرے ماتحت کام کر رہی ہے ۔۔۔۔تمھارے ججز سارے قدموں میں ہے۔۔۔۔! اس بات کی فکر چھوڑو۔۔۔اس بات کو سوچ ۔۔۔لو کہ تمھاری یہ آرام دہ زندگی کچھ دنوں کی مہمان ہے۔۔۔۔! میں ان سلاخوں سے باہر نکلوں یا نہ نکلوں لیکن میں تمھاری زندگی تباہ کر دوں گا۔۔۔۔عزاب بنا دوں گا۔۔۔۔۔! وہ اسے جاتے دیکھ کر اس ک پشت کو دیکھ کر چلایا تھا۔۔۔۔!
صاب ام آپ کےلیے قرآن خوانی کروا رہا ہو۔۔۔۔مینوں پتہ تسی بہت ہی پرشان اوہ۔۔۔۔اس لیے تساں دا دماغ گھم گیا ہے۔۔۔۔۔اس کو غصے سے لال پیلا ہوتا دیکھ کر حسنال نے گلابی بنجابی کا خاتمہ کیا تھا۔ !
غدار انسان تمھیں تو میں زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔۔۔۔! عرفان درانی غصے سے لال پیلا ہوگیا تھا۔۔۔۔!
صاب تساں خود پہلے تے نکلو۔۔۔۔پھر کھڈا کھود کہ منیوں دب دینا(صاحب جی آپ خود تو پہلے نکلیں پھر گڑا کھود کہ مجھے دفنانا)وہ بائے بائے کرتا الوادعی مسکراہٹ لیے نکلا تھا۔۔۔۔! پر یہ نہیں جانتا تھا کہ اس خوشی کس دورانیہ کتنا عرصے پر محیط تھا۔۔۔۔
*****
حسنال آج بہت خوش تھا وہ توقع کے مطابق جلدی گھر آگیا تھا۔۔۔!
وہ آغا جان کے کمرےمیں آیا اُن کو سوتا دیکھ کر آرام سے ڈور لاک کرتے نکلا اور اپنے روم میں آگیا تھا۔۔!
وہ اپنے روم میں انٹر ہوا اور بیڈ پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔وہ نماز پڑھ رہی تھی۔۔۔۔ایک لمحے تو معبوت سا اسے دیکھنا لگے۔۔۔۔ خوامخوہ کے ڈرامے ہیں۔۔۔۔! لیکن پھر نظریں جھٹک لی تھیں ۔۔۔۔۔!
وہ فریش ہونے چل دیا تھا ۔۔۔۔تقریباً بیس منٹ بعد واپس آیا تو وہ ٹیبل ہر کھانا رکھ رہی تھی ۔۔۔۔ !
یہ کھانا کھالو۔۔۔اسے پتہ تھا وہ بات نہیں کریں گا۔۔۔پھر بھی ذلیل ہونے کےلیے اسے بلایا تھا۔۔۔۔!
نہیں کھانا مجھے ۔۔۔۔۔! لے جائیں آپ۔۔۔۔۔۔کتنی دفعہ کہاں ہے آپکو کہ خود تک رہا کریں۔۔۔۔جان بوجھ کر بہانے سے بلانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔!
اگر توجہ اور التفات پانا چاہتی ہیں تو بتا دیں کہ آپ میرے قُرب کےلیے مر رہی ہیں اگر آپ چاہتی ہے تو کچھ پل قربت کے خیرات کر دیتا ہوں ۔۔۔۔کیا یاد رکھیں گی ۔۔۔۔! وہ آج پھر اسے آپ کہہ رہا تھا۔۔۔!
؎ لہجہ یار میں زہر ہے بچھو کی طرح
وہ مجھے آپ تو کہتا ہے مگر تُو کی طرح
* ایبہا علی شاہ *
جبکہ اس کی بات سن کر منال کا چہرہ تاریک ہوا تھا۔۔۔۔تو کیا وہ اسے اتنی گھٹیا لڑکی سمجھتا تھا۔۔۔۔۔!کیا وہ اس کی نظروں سے گرگئی تھی ۔۔۔۔؟ اور آج اس کی اور زیادی اجنبیت اور اس کا آپ کہنا وہ اس کے رویے سے پھیکی پڑی تھی۔۔۔۔!
م۔۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔۔! وہ تمھیں کھانا دینا تھا۔۔۔
مجھے لگا کہ تمھیں بھوک لگی ہوئی ہے اس لیے بس ۔۔۔۔!
وہ نا چاہتے ہوئے اپنے کردار کی صفائی دینے لگی تھی اور جاکر صوفے پر لیٹ گئی تھی وہ آج گھر تھا تو وہ صوفے پر سوگئی تھی اسے لگا کہ وہ اگر بیڈ پر گئی وہ تذلیل کر دے گا ۔۔۔۔۔!
جبکہ وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگ پڑا تھا اس کی طرف دیکھ جو صوفے پر لیٹی ہوئیں تھی۔۔۔۔۔!
یہ دوریاں رکھ کہ کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ بہت پاکباز ہیں ۔۔۔۔۔اس کو بیڈ پہ لیٹتا اس نے پھر زہر خند رویے سے اسے الجھایا تھا۔۔۔ !
وہ روز اپنے ٹکڑے ٹکڑے دل کو جوڑتی اور وہ پھر بری طرح بکھیر دیتا تھا ۔۔۔۔۔!
وہ کھانا کھا کر برتن نیچے رکھ کہ آیا تھا اور واپس آیا تو
خاموش کمرے میں سکی کی آواز ابھری تھی۔۔۔! منال تو اپنی ذات کی کم مائیگی پہ رو ری تھی۔۔۔۔!
کیا ثابت کرنا چاہتی ہو کہ بہت مظلوم ہو ۔۔۔وہ اس کی پاس بیٹھ کہ ڈھاڑا تھا۔۔۔۔!
جبکہ منال کمفرٹ سے منہ نکال کر سہم گئی تھی۔۔۔۔!اس کو اپنے پاس دیکھ کر وہ خوف سے پیلی پڑ گئی تھی۔۔۔!
وہ پورے مہینے بعد اس کو اپنے قریب آتا دیکھ کر
اسکا دل سہما تھا۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial