قسط: 26
اس کو اپنے پاس دیکھ کر وہ خوف سے پیلی پڑ گئی تھی۔۔۔!
پورے مہینے بعد اس کو اپنے قریب آتا دیکھ کر
اسکا دل سہما تھا۔۔۔۔۔وہ اس کو اپنے پاس بیٹھتا دیکھ کر سہم گئی تھی آنکھوں سے آنسو جو بے مول ہوکر گر رہے تھے ۔۔۔اس کو اپنے پاس بیٹھتا دیکھ کر وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگی تھی۔۔۔۔!
حسنال ہٹو پلیز۔۔۔۔۔! وہ بے بسی اسے ہٹانے لگی ۔۔۔۔! جو اس کے پاس بیٹھا تھا۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔۔! میں بھی مر نہیں رہا بس مجھے میرے سوالوں کے سیدھے سیدھے جواب چاہیے ۔۔۔اس میں کوئی ہیر پھیر ہوئی تو منال بی بی پھر یہ بھول جانا کہ میں حسنال بخت تمھارا شوہر ہوں۔۔۔۔! وہ بظاہر ٹھنڈے اور سادہ الفاظ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔لیکن اس کا لہجہ آگ سے زیادہ گرمی و تپش لیے ہوئے تھے۔۔۔ْ
ک۔۔۔۔۔کو۔۔۔۔کو۔۔۔کونسے۔۔۔۔س۔۔۔سوال۔۔۔؟ اس کا یہ روپ منال کی روح فنا کیے جا رہا تھا۔۔۔وہ اس کے اوپر جھک کر جیسے آج سارے حساب لینے کے چکروں میں تھا منال کو لگا کہ وہ سچ میں چھوٹ نہیں دے گا۔۔۔!
کس بناء پر تمھیں اشنال سے اتنی نفرت ہوئی کہ تم نے سب کی نظروں سے اس کی عزت چھین لی۔۔۔۔! وہ بولا نہیں ڈھارا تھا۔۔!
کک۔۔۔۔کیا۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔! منال نے تھوک نگلتے ہوئے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری تھی۔۔۔۔! وہ جو انجان رویہ سے پوچھ رہی تھی جب اس کے فولادی ہاتھوں کا پڑتا تھپڑ اس کے حواس جنجھا کر رہ گئے تھے وہ چہرے پر ہاتھ رکھے ساکت سی اس کی مضبوط گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔۔۔
بتاؤ۔۔۔۔ایسا کیا تھا تم نے سب کی زندگی برباد کرکے رکھ دی ۔۔۔۔۔وہ اونچا ہوتا ڈھارا تھا منال کو تو اس جیسے نرم شخص سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔!
مم۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔اس۔۔۔۔اسے ن۔۔۔نفرت ۔۔۔۔۔کرتی بہت اس لیے۔۔۔! لیکن جب امی نے اُسے مار اور وہ بلک بلک کر روئی ۔۔۔۔ت۔۔۔۔تو مجھے بہت زیادہ ندامت ہوئی ۔۔۔۔! وہ اس سے ڈر کر صفائی دینے لگی تھی اسے لگا اس کا موڈ نارمل ہو جائے گا پر یہ صرف اور صرف اس کی خام خیالی تھی وہ ابھی اس کے تھپڑ کی جلن برداشت کر پا رہی تھی۔۔۔۔!
اور تمھاری ایک ندامت سے اس کے دامن پہ لگے گئے کیچڑ صاف ہوجائے گا دُھل جائے گا۔۔۔۔۔؟ وہ مجھے معاف کر دیں گی ؟ بابا اور ماں سے راضی ہو جائے گی۔۔۔؟آغا جان کو معاف کر دے گی۔۔۔۔؟ اور کیوں کیا تم نے ایسا۔۔۔۔؟
نفرت کی وجہ کیا تھی۔۔۔۔! اس معصوم نے تمھارا بگاٰڑا کیا تھا۔۔۔؟اس بات کا بھی جواب چاہیے مجھے۔۔۔۔!
وہ صوفے پر غصے سے ہاتھ مارتے ہوئے بولا تھا۔۔۔!
وہ بس ہر روشنال کے آگے پیچھے گھومتی تھی ۔۔۔۔۔۔مجھے اچھا نہیں لگتا تھی ۔۔۔۔۔ْ! میری نفرت کی وجہ روشنال کی اشنال کی کئیرنگ تھی جو وہ صرف اشنال کےلیے رکھتے تھے میری جلن کی انتا تھی میں تو بس روشنال سے محبت کرتی ۔۔۔۔۔! وہ رندھے احساسات سے بولنے لگی کیونکہ اس کا غصہ سب کو مات دے رہا تھا وہ شرمندگی سے اقرارِ جرم کرتے اپنا بچاؤ کرنے کےلیے سچ بول گئی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تلخ سچ اسکی زندگی عذاب بنا دے گا۔۔۔۔۔!
وہ تو اسے دوست ہی سجھ رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دوست جب شوہر بن جائے وہ پھر دوست نہیں رہتا ۔۔۔۔!
وہ شوہر ہی رہتا ہے۔۔۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔۔کہ وہ عمر میں کتنا چھوٹا ہے یا کتنا بڑا ہے۔۔۔۔۔۔؟
یہ بات تو وہ بالکل ہی بھول گئی تھی کہ ایک دوست تو شوہر بن جاتا ہے ۔۔۔۔پر ایک شوہر کبھی دوست نہیں بنتا۔۔۔۔! اور وہ یہ تو بالکل بھی نہیں سن سکتا۔۔۔۔! اور
کہ اس کی یہ بیوی اس کے بھائی کی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔!
جبکہ حسنال تو سن رہ گیا تھا حقارت و تحیر سے اس کی آنکھیں لال ہوگئی تھی چار مہینے بعداسکی بیوی روشنال سے محبت کا اظہار کر رہی تھی بیوی سے بھائی کی محبت کا اظہار سن کر اس کے جسم میں شعلے اور چنگاری پھوٹنے لگیں تھیں ۔۔۔۔اس کا دل کیا کہ وہ خود کو آگ لگالے۔۔۔ منال کا اقرار سن کر اپنے جان سے پیارے بھائی سے وقتی جلن کا جذبہ پیدا ہوا تھا۔۔۔!
کیا بکواس کی ہے تم نے ۔۔۔۔۔! وہ غیضں و غضب سے بھرپور لہجے میں ڈھارا تھا۔۔۔۔
یعنی اشنال تو شروع سے اسکی تھی۔۔۔۔لیکن منال کیا اب بھی اسکی محبت میں گرفتار تھی۔۔۔۔!
وہ جیسے مرنے مارنے پر تل گیا تھا۔۔۔۔وہ شوہر ہوکر آج تیسری دفعہ ایسے غصہ ہور رہا تھا وہ دوست تو ایسا ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔اس کے سرد لہجے میں چھپی پھنکار اس کو تار تار گئی تھی۔۔۔۔۔!
وہ اسکا جواب دئیے بغیر۔۔ دھکا مار کر اٹھی تھی ۔۔۔۔!
منال۔۔۔۔۔۔ حسنال نے حرکت میں آتے ہی اٹھ جھپٹ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھاوہ پھر سے زہر خند سا چیخا ۔۔۔۔۔۔!
وہ اپنی صبیح چہرے پر آتے آنسو پونچھنے لگی ….
منگنی روشنال حاکم بخت سے ۔۔۔۔۔! حسد اشنال حاکم بخت سے ۔۔۔۔۔شادی حسنال حاکم بخت سے۔۔اب شادی کے چار مہنیے بعد شوہر کے سامنے محبت کا دعوا کرتے تمھیں شرم نہیں آ رہی۔۔۔منال حاکم بخت اتنی چالاکیاں اور سازشوں کی ٹرینگ کہاں سے لی ہے ۔۔۔۔۔؟ اس کی کلائی پکڑ وہ بھڑک اٹھا تھا۔۔۔۔
حسنال پلیز مجھے چھوڑو۔۔۔۔ وہ درخواست سا لہجہ لیے بولی تھی۔۔۔!
بہت آسان سمجھا ہے نا یہ چھوڑنے چھڑوانے والا کام۔۔۔
حسنال نے اب کی بار غصے میں لہا اور اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا تھا۔۔۔
اس کے جارجیت بھرے جھٹکے کے نیتجے میں وہ بیڈ پہ جاگری تھی اس کے حواس جنھجھا اٹھے تھے ۔۔وہ اوندھے منہ بیڈ پہ گری تھی۔۔۔۔!
بہت مظلوم بنتی ہو۔۔۔۔۔یاد کرو سب کے ساتھ تم اس سے زیادہ برا سلوک کر چکی ہو ہم سب کے ساتھ ۔۔۔۔اور اب میں جو کروں گا میں حق بجانب رہوں گا۔۔۔۔اب مجھے اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔کیونکہ جو کچھ تم کر چکی ہمارے ساتھ ۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ کی مستحق ہو تم ۔۔۔۔۔۔!
اس کے لہجے میں اتنی سختی دیکھ کر منال رونے لگی تھی.
میرے سامنے ٹسوے مت بہاؤ۔۔۔۔مجھے سخت ظاہر لگ رہے ہیں ۔۔۔میں ہرگز نہیں پگھلنے والا۔۔۔۔!
وہ لاکھ ضبط کرنا چاہتی تھی پر اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں وہ ان آنسوؤں کو کسی طرح بھی نہیں روک سکی تھی۔۔
میں تم سے شکایت نہیں کر رہی حسنال۔۔۔ تمھیں حق حاصل ہے جس طرح کا سلوک کرلو ۔۔۔۔۔مجھے جو سزا دے لو۔۔قبول ہے۔۔میں حرفِ شکایت منہ پر بالکل نہیں لاؤں گی ۔۔۔۔ وہ روتے روتے بولی تھی۔۔۔
جب کہ حسنال تو چونک کر اسے دیکھا اور پھر جیسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔۔۔۔! تھا ۔۔۔۔وہ بالکل نئے روپ میں رنگی ہوئی تھی اس کی نگاہیں بات کرنے کے بعد بالکل جھک گئی تھیں ۔۔۔۔۔۔!
خاموش آنکھیں ۔۔۔۔۔خاموش لب ۔۔۔۔۔سر پر سیاہ شال لپیٹے۔۔۔۔۔۔نہ گلہ ۔۔۔۔نہ شکوہ نہ شکایت۔۔وہ ایسی کب تھی وہ ایسی کبھی نہیں تھی ۔۔۔بس آنکھوں میں آنسوؤں تھے۔۔۔۔! نظریں جھکا کر بات کرنا تو اس کی ذات کا حصہ نہیں تھا وہ رعب ڈھارتی آنکھیں جھکاتی ہی نظر آتی تھی وہ بالکل بدلی ہوئی تھی۔۔۔۔لیکن پھر اسکا اقرارِ محبت کا سوچ کر وہ سر جھٹک گیا تھا۔۔۔۔۔بقول اُس کے وہ اسے متاثر کرنے کےلیے ایسا کر رہی تھی۔۔۔۔!
پھر تو مجھے ہر طرح کا حق حاصل ہے ۔۔۔۔۔! جو کہوں گا کرو گی۔۔۔۔۔!
وہ ایسے ہی کھڑا تھا۔۔۔لہجہ سخت تھا۔۔۔۔!
ج۔۔۔۔۔جو کہو گے قسم اٹھا کہ کہتی ہوں کروں گی۔۔۔۔۔۔!
وہ بنا سوچے سمجھے بول گئی تھی ۔۔۔۔۔۔! یہ نہیں سوچا تھا کہ آج اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔۔۔! وہ کیسے برداشت کر رہا تھا۔۔یہ وہ نہیں جان پا رہی تھی۔۔!
ٹھیک ہے جا کہ کافی بنا کہ لاؤ۔۔۔۔۔پانچ منٹ میں ۔۔۔۔وہ بنا رعایت رکھے بولنے لگا تھا۔۔۔۔!
وہ بغیر کوئی جواب دئیے اٹھ کر نکل گئی تھی۔۔۔۔! یہ بھی نہیں کہا تھا کہ کافی زیادہ ٹائم ہوگیا ہے۔۔۔۔! میں کیسے بناؤں گی۔۔۔۔! جبکہ اس کے جانے حسنال بیڈ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
پانچ تو نہیں البتہ بیس پچیس منٹ بعد وہ اجازت لیتی اندر آئی تھی ۔۔۔۔ اور کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر نکلنے لگی تھی۔۔۔۔!
میں نے کہا تھا جانے کےلیے۔۔۔۔ اس کو دو قدم بھرتے دیکھ کر وہ کرختگی سے بولا تھا۔۔۔۔!
واپس آؤ۔۔۔۔! ایک سیکنڈ سے پہلے۔۔۔۔۔!
جبکہ وہ کوئی جواب دئیے بغیر واپس آئی تھی۔۔۔۔۔!
ک۔۔۔۔کک۔۔۔۔کوئی کام تھا۔۔۔۔۔۔۔! وہ مشکل سے بھرائے لہجے میں بولی تھی۔
پورے پچیس منٹ لیٹ آئی ہو۔۔۔۔۔اب بتاؤ ۔۔۔۔۔کیا سزا دوں۔۔۔۔وہ بلند آواز میں ڈھاڑا تھا۔۔۔۔۔!
سس۔۔۔۔۔سوری۔۔۔۔۔! کیا سوری ادھر آؤ میرے پاس۔۔۔۔اور ایک کافی کا کیوں بنا کہ لائی ہو۔۔۔۔اپنے لیے کیوں نہیں بنایا۔۔۔۔۔!
مم۔۔۔۔۔۔میں کافی نہیں پیتی۔۔۔۔! اس لیے نہیں بنایا۔۔۔۔! اس نے وضاحت دی تھی ۔۔۔۔۔! وہ
پر آج تمھیں پینی پڑے گی۔۔۔۔۔! آفٹر آل تمھاری رضا کے مطابق ہی گولڈن پلان ہے بنایا ہے میں نے۔۔۔۔۔! وہ یہ کہتے اس کے نزدیک ہوا تھا۔۔۔۔!
کک۔۔۔۔۔کیا مطلب۔۔۔۔۔!م۔۔۔۔میں نے تو ایسا نہیں کہا۔۔ وہ اب پریشان ہوئی تھی نیند سے بھرپور آنکھیں اب کھل گئی تھیں۔۔۔۔!
تم نے کہا تھا میں جو کہوں گا تم وہ کرو گی ۔۔۔۔۔اب میں جو کہوں گا تم وہی کرو گی۔۔۔۔! آج صیح وقت ہے منال بخت ہے اپنی اداؤں کے تیر مجھ پہ چلا لو۔۔۔۔۔جیسے بڑے بھائی پر چلاتی تھی۔۔۔ میں تمھارا شوہر ہوں میںبتو پھر حق رکھتا ہوں تم پر۔۔۔۔ ویسے آج تمھارے حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔۔! یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں زہریلے تاثرات در آئے تھے اس کے لہجے اور آنکھوں میں ذومعنی سی تپش تھی ۔۔۔۔۔۔
منال تو شرم و غصے۔۔۔۔بےبسی کے تاثرات میں خود کو گھرا ہوا محسوس کر رہی تھی حسنال کی طرف سے عزت و نفس پہ رکھ کہ تھپڑ پڑا تھا وہ ایسی باتیں کرکے اس کے وجود کے ساتھ اسکی روح پہ بھی چوٹ لگا رہا تھا۔۔۔
اور پھر وہ تو اپنے غصے کو نکال کر سوگیا تھا اسے نئے رشتے سے روشناس کروا کے خود سوگیا تھا وہ آج اسے ستم گر تھا جوخو تو پرسکون سوگیا تھا وہ آج حسنال سے واقف ہوئی تھی جو بالکل بھی ٹھنڈے مزاج کا نہیں تھا سطحی سوچ رکھنے والا منتقم مزاج شوہر تھا آج اس کی روح پہ آبلے بن گئے تھے رگ رگ میں حشر برپا تھا۔۔۔ لیکن وہ لمحہ تڑپ رہی تھی جل رہی تھی اس ۔۔۔۔وہ اس کے بازوؤں کے حلقے سے اٹھی تھی اُسے نہ اس پہ غصہ بالکل بھی نہیں تھا اس نے ڈوپٹہ سیٹ کیا اور بیڈ پہ لیٹ گئی تھی۔۔۔۔
وہ حق دار تھا۔۔۔۔! پھر وہ کیسے اس کے حق دستبردار ہوتی ۔۔۔۔اس کے راضی ہونے کے بعد ہی وہ اس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔! لیکن اسے دکھ تھا کہ وہ اس کو بہت کردار کی لڑکی سمجھ رہا تھا۔۔اس کے بعد اپنی بے قداری پہ اس کے رویے روایے پر اس کی آنسوؤں بہتے رہے تھے۔۔۔۔وہ اس کے رویے سے اپنے کیے گئے جرموں اور زیادیتوں پہ رو رہی تھی جس کے بدلے اسے اتنا کچھ سہنا پڑ رہا تھا سب کے تلخ روایے سہنے پڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔! زیادتی کرتے وقت اس نے کب سوچا تھا کہ اتنے برے حالات اس پہ آئیں گے۔۔۔اگر وہ سوچ لیتی تو ایسا کبھی نہیں کرتی ۔۔۔
وہ قصہ مکافاتِ عمل گئی تھی مکافاتِ عمل کا تھپڑ لگتا بہت دیر سے تھا مگر جب لگتا تھا تو بھاری کراری آواز کے ساتھ ۔۔۔اتنی زور سے کہ انسان کبھی بھول نہیں سکتا تھا۔ ۔ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔۔ابھی تو ابتدا تھی وہ انتہا کا سوچتے کانپ اٹھی تھی ۔۔۔۔
******
وہ جلدی جلدی کام کر رہا تھا اس نے عرفان درانی کا کیس فائر کر دیا تھا اس نے کاغذی کاروائی کرکے نوٹس ایک سپاہی کے تھرو جیل میں ہی بیجھوا دیا تھا۔۔۔اب بس اُس کے نوٹس ملنے کا انتظار تھا وہ عرفان درانی کے وکیل سے بھی ملا تھا ۔۔۔۔۔اس کا وکیل کافی خرانٹ تھا۔۔۔
روشنال جانتا تھا
وہ اس کےلیے ایک فائل تیار کر رہا تھا ۔۔۔! آج اشنال کا لاسٹ پیپر تھا۔۔۔۔!پیر ایوننگ ٹائم تھا وہ روشنال کے پیر دلوانے خود جاتا جب تک وہ پیپر نہیں دے لیتی تب تک وہ گاڑی میں اسکا انتظار کرتا تھاوہ اس لیے جلدی جلدی کا کر رہا تھا کیونکہ سینٹر کافی دور تھا تو اس کو آفس سے جلدی نکلناتھا۔۔۔۔
وہ پوری دلجمعی سے کام کر رہا تھا جب پاکٹ میں پڑا فون رنگ کرنے لگ پڑا تھا ۔۔۔۔اس نے فون نکلا تو بابا کا نام لکھا جگمگا رہا تھا ۔۔۔
السلام علیکم ۔۔۔کیسا ہے میرا شیر ۔۔۔دوسری جانب سے بابا کی زندگی سے بھرپور کی بھاری آواز جگمگائی تھی۔۔
وعلیکم سلام ۔۔۔بابا میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں گھر میں سب کیسے ہیں ۔۔۔۔؟ امی ، خالہ ، بابا اور آغا جان ۔۔۔!
سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔!
کیا سناؤں آغا جان تمھاری اور اشنال کی وجہ سے بہت پریشانی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بات سنتے اس نے بابا کی آواز میں صاف پریشانی سنی تھی ۔۔۔۔!
کیوں اب کیا ہے۔۔۔۔؟ جیسا وہ چاہتے تھے ایسا ہوگیا ہے اب وہ اورکیا چاہتے ہیں کہ اب میں اشنال کو لے کر اس ملک سے ہی نکل جائیں ۔۔۔۔یہ بات کہتے اس کے وجہیہ کشادہ چہرے پر غصہ اور اسکے لہجے میں خود بخود تلخی آئی تھی۔۔۔! کیونکہ اسے اشنال پر کیے گئے ستم یاد آ رہے تھے۔۔۔وہ یہ بات مرتے دم تک نہیں بھول سکتا تھا ۔۔۔۔! کہ آغا جان نے اسکی اور اسکی معصوم بیوی کی تذلیل کرکے اس گھر سےنکلا تھا۔۔۔!
اتنا غصہ جچتا نہیں ہے میرے شیر جیسے جوان بیٹے پر۔۔۔میرا شیر بیٹا دھیمے لہجے کا متحمل ہے۔۔۔۔! تمھارے آغا جان کا حکم نہیں ہے ان کی ریکوئسٹ ہے کہ تم بخت ولا واپس آؤ۔۔ وہ دن بدن تمھاری کمزور ہورہے ہیں ہر روز تمھارا اور اپنے بیٹے کی معصوم نشانی کا پوچھتے ہیں۔۔۔! وہ اسے دھیمے لجے میں ٹھنڈا کرتے ہوئے بولے تھے۔۔۔!
بابا جان آپکے لہجوں نے اور آپکی بے اعتباری سے میں ایسا ہوگیا ہوں ورنہ میں کب چاہتا تھا کہ میں ایسا ہوں۔۔۔اور جہآں تک رہی بات آغا جان کی تو اب کیوں پریشان ہورہے ہیں ۔۔۔اس وقت کہاں تھی ان کے بیٹے کی معصوم سی نشانی ۔۔۔۔
جب اسے گھر سے دربدر کیا تھا۔۔۔۔! اتنا تو سوچ لیتے کہ وہ خون تھا انکا۔۔۔۔پر نہیں ان کو تو اپنی کھڑی ناک پسند تھی ان کو کسی کے احساسات کی کیا پرواہ۔۔۔! پر بابا آپ ان کو بتا دیجئیے گا کہ میں بھی ان کا خون ہوں انا مجھ میں بھی ان سے زیادہ ہے۔۔۔۔! آغا جان نے شاید سمجھا تھا کہ مجھے گھر سے دربدر کر کے اور جائیداد سے عاق کر دیں گے۔۔۔اور میں ان کی ہر بات مان لوں گا ۔۔۔۔!
آغا جان کو بتادیجئے گا کہ ان کاانا کا مارا یہ پوتا شک کنگال بھی ہو جائے تواسکے ہاتھوں میں اتنا دم ہے کہ اپنی بیوی کو محنت مزودوری کرکے کی روٹی کھلاسکتا ہے ۔۔۔۔اور اس کی معصوم ضد اور بے جا خواہشیں پوری کرسکتا ہے لیکن وہ انکے در پر جھک کبھی نہیں سکتا۔۔۔! اس کا انداز لٹھ مارتا اور بہت کچھ جتاتا ہوا تھا۔۔۔!
بیٹا جی یہ تمھیں وقت آنے پر سمجھ آ جائے گی کہ میرا یہ سخت لہجہ اور میری یہ بے اعتباری تمھارے لیے کتنی مفید تھی۔۔۔۔! میں ا تنا آنکھوں کا اندھا اور کانوں کا کچا ہرگز نہیں تھا کہ تمھاری یہ بے قراری دیکھ نہیں سکتا تھا۔۔ورنہ کوئی کسی کی اتنی پرواہ نہیں کرتا کہ اپنا زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ ایک معصوم بچی کےلیے نہیں کر سکتا ۔۔۔۔وہ اشنال کے حوالےسے اتنے بڑی بات کہہ گئے تھے۔۔۔۔اور مجھے اس بات کا ہمیشہ دکھ رہے گا ۔۔۔۔میرا یہ بیٹا اتنا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوکر بھی اپنے بوڑھے دادا کواپنی جھوٹی انا کے چکر میں جھکانے کےلیے پوری کوشش کر ررہا ہے۔۔۔۔!اور ایک بات سن لو۔۔۔غرور اور انا انسان میں تب ہوتی ہے جب انسان کے اندر طاقت ہو ۔۔۔۔اور جب انسان کمزور ہوجائیں وہ انا اور غرور مر جاتا ہے جیسے آغا جان کا ختم ہوگیا ہے۔۔۔ وہ سچ میں غمگین ہوئے تھے کیونکہ جب وہ آغا جان کے سامنے روشنال اور اشنال کا ذکر ان کی آنکھوں میں نمی بھر جاتی تھی۔۔۔۔!
بابا پلیز میں بغیرت نہیں ہوں ۔۔۔۔سچ میں مجھے آغا جان کے اس عمل پر بہت زیادہ دکھ تھا اس دن میں میں آپ سب کی نظروں میں ہی نہیں خود کی نظروں میں گرگیا تھا۔۔۔۔۔مجھے پتا ہے آغا جان نے بہت نفرت و غرور غلط لفظ کہے تھے۔۔۔۔!
یہ دنیا ہے صاحبزادے ۔۔۔ادھر ہر کوئی دوسرے کا قصووار ہے ہمارا کوئی مجرم ہے ہم کسی کے مجرم ہے اگر ہم ایک دوسرے کی غلطیاں ڈھونڈنے لگ جائیں ۔۔۔۔! تو ہمیں ہر کوئی برا لگے گا۔۔۔۔! پتہ ہے ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو ہم اس کی خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کے نکالتے ہیں ۔۔۔۔!اس کی ذات میں سے کیڑے نکالنے شروع ہوجاتے ہیں ہم اس کی سو میں ننانوے خوبیوں کو چھوڑ کر ایک خامی کو پکڑتے ہیں ۔۔۔۔اور اس ایک خامی کو پکڑ کر اس کو کانٹوں میں گھیسٹتے ہیں اور اس میں سے وہ خامی بھی کھینچ کھینچ کر نکالتے ہیں جو اس کو خود بھی نہیں پتا نہیں ہوتا۔۔۔۔! لیکن ایک بات میری یاد رکھنا شیر جواں …..اگر ہم کسی سے انسیت رکھیں اسے توجہ و پیار دیں تو ہم اس کی ننانویں خامیوں کو چھوڑ کر اس کی وہ سو والی خوبی ڈھونڈ کر نکال سکتے ہیں لیکن ہم اپنی انا کے زعم میں دوسرے کو ٹوڑ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔بکھیر رہے ہوتے ہیں تب ہی ہم خود کو صیح کہہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔! وہ اسے سمجھا رہے تھا پتر بابا بلھے شاہ کا ایک شعر ہے۔۔۔۔۔! وہ جب کبھی نرمی و غصے کے موڈ میں ہوتےتو پھر وہ بنچابی شعر سناتے تھے بیٹوں کو سمجھانے کےلیے گائیڈ کرنے کےلیے ۔۔۔۔اور ان کے اس عمل وہ دونوں بھائی کافی حد تک انسپائر بھی ہوتے تھے۔۔۔۔!
؎ پھلاں دا تو عطر بنا …………..!
عطراں دا فیر کڈ دریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
دریا وچ فر رج کے نہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مچھلیاں وانگوں تاریاں لا
فیر وی تیری بو نہیں مکدی
پہلے اپنی میں مُکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
* بابا بلھے شاہ *
اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔۔ میں اور تمھاری ماں آر رہے ہیں ۔۔! ہم تمھارے پاس آئیں۔۔۔۔تمھاری ماں اشنال سے ملنے کو بے قرار ہے۔۔۔۔! میں تو پہلے بھی کافی حد تک روک چکا ہوں ۔۔۔۔۔! لیکن وہ بھلی مانس اب تو روز ضد پکڑتی ہے۔۔۔۔! کہ میں نے بیٹے اور بہو سے ملنے جانا ہی جانا ہے۔۔۔۔میں اب مزید بہانے افورڈ نہیں کرسکتا ۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں باتیں نرم سے ہوئے تھے۔۔۔۔۔!
بابا۔۔۔آج بس امی کو روک لیں اشنال کا آج لاسٹ پیپر ہے آپ کو اس شیر جواں کی قسم کسی کو نہیں بتانا میں اشنال کو لے کر خود آؤں گا۔ ۔۔۔یہ سرپرائیز میرا سرپرائیز رکھیے گا۔۔۔۔وہ بابا کی اتنی موٹیونشنل باتیں سن کر پل میں اپنی انا کو توڑ گیا تھا۔۔۔۔اور ان سے وعدہ لیتا ان کا دل خوش کرگیا تھا۔۔۔۔
تو راز تمھارا راز رہے گا شیر جواں۔۔۔۔۔میرا مان رکھنے کا شکریہ ۔۔۔تم نے سچ میں ثابت کر دیا کہ تم میرے شیر بیٹے ہو میرا غرور ہو ۔۔اس لیے تو مجھے اپنے اس شیر جواں پہ فخر ہے کہ وہ میرا مان رکھنا جانتا ہے۔۔۔۔! وہ باپ تھے بیٹے کی کمزوری جانتے تھے۔۔۔۔۔!جبکہ پھر کچھ دیر اِ دھر اُدھر باتوں کے بعد فون رکھ گئے تھے۔۔۔۔۔!
اور وہ بھی پرسکون ہوگیا تھا بابا کے لفظوں سے وہ خود تو مطمن ہوگیا تھا لیکن اب اس نے اشنال کو منانا تھا اسے منانا مشکل تھا پر ناممکن نہیں تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆
وہ گھر آیا تو وہ کہیں نہیں تھی اس نے تو سمجھا تھا کہ وہ تیار ہو گی لیکن اس کے امیدوں کے بر عکس ایدا کچھ بھی نہیں تھا اسے تشویش ہوئی تھی۔۔۔۔وہ کئی نظر نہیں آئی تھی اس نے دوتین پکارا تھا ۔۔۔۔۔اشنال اب کی بار بلند آواز میں پکارا تاکہ وہ جہاں کہیں بھی نکل آئے۔۔۔۔!لیکن وہ کئی نہیں تھی
وہ اس کے روم کی طرف آیا تھا۔۔۔۔اس نے ایک بار دستک دی ۔۔۔۔۔پھر دی تھی کوئی جواب پاکر وہ دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔ٔ!
کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟
اسے روم کی فرش بیٹھے بچوں کی طرف روتا دیکھ وہ پریشان ہوگیا تھا جو بازوں گھٹنوں پہ رکھے سسک رہی تھی اسے تشویش ہوئی تھی۔۔۔وہ اس کے پاس جا بیٹھا۔۔۔۔ گھر میں سے تو کسی کا فون نہیں آیا تھا۔۔۔۔یا پھر طبعیت خراب ہے ۔۔۔۔کوئی آیا تو نہیں تھا۔۔۔وہ خدشے کے تحت ایک ہی سانس میں کتنے سوال پوچھ گیا تھا۔۔۔۔!
جبکہ دوسری طرف وہ ایسے ہی روہے جا رہی تھی۔۔۔۔!
وہ اس کے ایک دم سے بیٹھنے سے ڈر کر پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔
طبعیت خراب ہے میری۔۔۔وہ یہ کہتے دل میں سسکی تھی۔۔۔!
طبعیت بالکل بھی خراب نہیں ۔۔۔مجھے پتہ ہے محترمہ جھوٹ بول رہیں ہیں ۔۔۔۔! وہ ہولے سے نرم لہجے میں بولا تھا۔۔اس کا لہجہ اپنائیت آمیز اور بہت زیادہ نرم تھا ۔۔ایسا لہجہ جس سے اشنال بخت کی دور دور تک آشنائی نہیں تھیں مگر کبھی وہ اس کے اس لہجے کی خواہش مند ضرور تھی۔۔۔۔۔!
سچ بتاؤ نہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟ وہ بھاری گمبھیر نرم لہجے میں بولا تھا وہ بہت توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوکر بولا تھا۔۔۔ جو گلابی جوڑے میں ہن رنگ ڈوپٹہ کیا تو تھا۔۔۔بالوں کی آوراہ لٹیں اس کے صبیح چہرے پر رقص کر رہی تھیں۔
ہاں البتہ اس کے سر پر ڈوپٹہ نہیں رونے کی وجہ سے سر سے ہلکا سا اتر گیا تھا۔۔۔!
اس کے اتنے نرم لہجے اور اس کی نظروں کی چمک سے وہ سر جھکا گئی تھی وہ اس کو اتنا زیادہ قبول نہیں کر پا رہی تھی۔۔
اشنال کی رنگت میں گھلتی سرخی اس کے کٹاؤ دار ہونٹوں کا بار بار بھینچتا وہ محسوس کر رہا تھا اس کے چہرے سے ناگواری محسوس کی جاسکتی تھی ۔۔۔۔وہ اس کی ہرنی جیسی خوفزدہ آنکھوں کو دیکھ کر مدھم سا مسکرایا تھا۔۔۔اشنال کا دل ڈوبنے لگا تھا ۔۔۔یہ سوچ کر اس کی کشادہ چہرے کی دلکش مسکراہٹ اشنال کے لیےاتنی جان لیوا تھی۔۔۔۔وہ نظر کیا رخ ہی پھیر گئی تھی وہ مکمل گبھرا گئی تھی ۔۔۔وہ اس شخص کو دیکھ کر اپنا رونا بھول گئی تھی۔۔۔۔
لگتا ہے ابھی تک خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔؟ سوری ایشو یار میں پریشانی اور غصے میں آکر کبھی کبھی بالکل ہرٹ کر دیتا ہوں وہ رات والے واقعے کا کہہ رہا تھا۔۔۔
اشنال بخت کو اسےایسی امید نہیں رکھ سکی تھی وہ اونچی کھڑی ناک اپنے وقار کو ہمیشہ بلند رکھنے والا۔۔۔۔کبھی نہ جھکنے والا ۔۔۔۔وہ کمال کی جاذبیت و مقناطیست رکھنے والا جسے کسی کے حواسوں پر چھانے کےلیے رائی کے دانے برابر محنت نہ کرنی پڑتی تھی ایک پل تواشنال بخت خود پہ نازاں ہوئی تھی کہ وہ اس عام سی لڑکی سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔اس کے سامنے جھک رہا تھا۔۔۔ اور اس کی خاطر اس کے پاس نیچے زمین پر بیٹھا ہوا ہے جو اپنے لباس پر ہلکی سی گرد بھی نہ لگنے دیتا تھا۔۔۔۔اشنال بخت کو چند لمحے اپنی خوش بختی پر یقین ہی نہیں آیا تھا کہ روشنال بخت سے سوری کر ررہا ہے۔۔۔!
اس کی نظریں اپنے اوپر جمی دیکھ کر اشنال کا دل ایسے پھڑ پھڑانے لگا تھا کہ جیسے باہر نکل نکل کر مچل جانے کو بے تاب ہو۔۔۔۔؟اور وہ ساکت بیٹھی اس کو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔؟
معاف نہیں کرو گی اپنے سپرمین کو۔۔۔۔؟
یہ کہہ کر اس کی سرخی زدہ گالوں پہ چومتی بالوں کی لٹ پکڑ کر ہلکے سے اپنی انگلی پر لپیٹی تھی۔۔۔۔۔!
اشنال تو سہم کر تھر تھر کانپنے لگی تھی۔۔۔وہ حواس باختہ ہوگئی تھی کیونکہ اس شخص سے نرمی سے جس نے پہلے ممکبھی خود اس کی طرف اسطرح پیش رفت کی تھی ۔۔۔۔! یعنی وہ صرف اور صرف اسے جھکانے کےلیے نرم دیوتا بن رہا تھا ۔۔۔ اپنی کی تھوڑی اس کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتی وہ وحشت زدہ سی ہوئی تھی اس کا دل کیا کہ وہ ڈھاڑے مار مار کر روئے۔۔۔۔اس کی جھکی لمبی پلکیں سر سرانے لگی تھی۔۔
اتنا ڈر کیوں رہی ہو یار ۔۔۔۔۔شوہر ہوں تمھارا ۔۔۔۔ریلکیس ہو جاؤ یار۔۔۔!
وہ ایسے اسے مخاطب کر رہا تھا جیسے وہ اسکی پرانی آشنا رہی ہو۔۔۔۔! وہ ہر لمحہ ڈر رہی تھی کانپ رہی تھی۔۔
اتنا عرصہ ہوگیا ہماری شادی کو۔۔۔۔۔اور میری انوسینٹ وائفی اتنی حسین و دلکش ہے مجھے آج پتہ چلا ہے۔۔۔! وہ اس کے گال پہ ہاتھ دھیمے سے لہجے میں بولا تھا۔۔۔لیکن اس کے اس دھیمے سے لہجے میں وارفتگی کی آنچ پھوٹ رہی تھی۔۔۔
وہ اس کے ہلکے سے قریب ہوا تو اس کی جان پر بننے لگی تھی۔۔۔!
اس کی دیوانوں جیسی وارفتگی دیکھ کر وہ خوش ہونے کی بجائے اسے مزید ہراساں کرنے لگی تھی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوگئی تھی۔۔۔
یہ توجہ ، یہ وارفتگی ، یہ پرسحر قربت ، اس کا نرم سا لہجہ وہ تو شروع سے اس کے نرم لہجے کی دیوانی تھی۔۔
اس کے لہجے پر جان دیتی تھی وہ اسکا سپرمین تھا وہ سپرمین سے اسکا شوہر بنا تھا ۔۔! سپر مین سے شوہر بننے کا سفر اشنال کےلیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔۔
وہ ٹوٹ گئی تھی۔۔۔اس کا ہر لفظ آتشیں تھا اس کےلیے ، اس کا لہجہ جس نے لمحہ لمحہ اس کو توڑا اور بکھیرا تھا۔۔۔۔اس کو ریزہ ریز کیا تھا۔۔۔اب وہ کیوں سپرمین بن رہا تھا اب ہی تو وہ تنہائی اور محرومیوں کی عادی ہونے جا رہی تھی پھر وہ کیوں ستمگر اتنا مہرباں بن رہا تھا۔۔
پھر وہ کیوں ابرِ رحمت بن رہا تھا۔۔۔
وہ کیوں ایسا بن کر اس کے پرانے زخموں سے ٹانکے ادھیڑ رہا تھا۔۔۔وہ اس کو سوالی بنے دیکھ کر رو نے لگ پڑی تھی۔۔۔۔۔وہ ایسا کب چاہتی تھی کہ روشنال اپنی محبت کا خالی کشکول لے کر اس کے سامنے ایسے گداگروں کی طرح بیٹھا ہو ۔۔۔۔۔! وہ خود ہی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔۔!
اچھا بتاؤ تو کیا ہوا ہے۔۔۔!سچ سچ بتاؤ رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔وہ پھر سے اس کی تھوڑی کو اونچا کرتے ہوئے سحر نشین لہجے میں بولا تھا۔۔۔
اگر سچ بتایا تو آپ ماریں گے۔۔۔۔۔وہ کانپتے لہجے میں بھرائی آواز میں بولی تھی۔۔۔!
اور میں پاگل نظر آتا ہوں کہ اپنی معصوم سی جان کو ماروں گا۔۔۔۔! وہ وہ وہی لہجہ لیے جذبوں سے بھرپور آواز میں نرم لہجے میں کہنے لگا تھا۔۔۔! وہ پھر بے چین ہوئی تھی اس کی یہ وارفتگی اسے وحشت میں ڈال رہی تھی۔۔لیکن اس نے جواب دینا چاہا تھا کہ وہ شخص اسے دور ہی رہے ۔۔۔۔!
وہ۔۔۔۔۔وہ نہ۔۔۔۔وہ نہ۔۔۔۔۔وہ نہ۔۔۔۔۔؟
وہ نہ۔۔۔۔کیا آگے بول بھی دو ایشو یار۔۔۔۔۔۔! وہ اس کے ہکلا کر بولنے سے ملتجی ہوا تھا۔۔۔۔!
وہ۔۔۔۔۔وہ نہ۔۔۔۔۔میرے بیگ میں با۔۔۔۔باٹل پڑی ہوئی تھی باٹل کا دھکن کھل گیا تھا۔۔۔۔اور ساری رولمنبر سلپ گیلی ہوگئی ہے۔۔۔۔! وہ بمشکل کہہ کر رونے لگ پڑی تھی۔۔۔
جبکہ اس کی بات سنتے روشنال بخت نے پہلے تو پرسکون سانس لی تھی ۔۔۔۔۔! پھر بول پڑا تھا۔۔۔۔!
ایشو یار تم سچ میں پاگل ہو۔۔۔۔اتنی چھوٹی سی بات کےلیے میرے دل میں اتنے بڑےبڑے وسواسے ڈال دیے تھے ۔ ۔
یار ایسے تو بیویاں اپنے شوہروں کو ان کے ابا بننے کی خوشخبری میں اتنا سسپنس نہیں ڈالتی جتنا تم نے سسپنس کری ایٹ کیا تھا۔۔۔
وہ پہلے تو اسکی بات پہ سرخ پڑی تھی لیکن پھر خفا ہوئی تھی ۔۔۔۔۔!جبکہ اشنال اس کے چہرے پر اترتے قوس وقزح جیسے رنگوں کو دیکھ مسمرائیز ہوا تھا۔۔۔
یہ۔۔۔۔۔یہ آپ۔۔۔آکے لیے چھوٹی سی بات ہوگی میرے لیے ہرگز نہیں کیونکہ میرا آج لاسٹ پیر ہے میم نے پیر دینے سے پہلے ہی مجھے باہر نکال دینا ہے وہ ہاتھ کی پشت سے
آنسو صاف کرتی سسکی لے کر روتی چھوٹی سی بچی لگی تھی۔۔۔۔!
اچھا دکھاؤ۔۔۔۔کہاں ہے رول نمبر سلپ۔۔۔۔اُس کے آنسو دیکھتا وہ نرم سے لہجے میں بولا تھا جس کی اشنال بخت شروع سے دیوانی تھی۔۔۔۔!
وہ بیگ سے کانپتے ہاتھوں سے نکالنے لگی تھی۔۔۔۔اور اسے دی تھی بیگ اس کے پاس ہی پڑا ہوا تھا۔۔۔۔!
رول نمبر سلپ گیلی تھی پر خراب نہیں تھی اسکی حالت خراب ضرور تھی پر اتنی نہیں۔۔۔
روشنال نے سر پہ ہاتھ مارا تھا اور اسکی عقل پہ افسوس کیا تھا۔۔۔!
سریسلی تم اس بات کو لے کر اتنی زیادہ رو رہی تھی۔۔۔۔!
ایک بین کی کمی رہ گئی تھی ایسا تو تم میرے مرنے پہ نہیں رو گی جتنا تم نے اس شیٹ کےلیے آنسو بہا دئیے ہے آخر بڑی کب ہوگی۔۔۔۔!
جب اس کے ہلکے سے مذاق سے اشنال کی روح فنا ہوئی تھی بھل بھل آنسو اس کے چہرے سے گرنے لگے تھے۔۔۔۔
آج سچ میں روشنال حاکم بخت اس کےلیے بہت بے رحم ثابت ہوا تھا۔۔۔۔۔۔! یعنی وہ اپنی موت کا ذکر کرکے اس کو بے موت مارگیا ۔۔۔۔۔!
تھا۔۔۔۔وہ چند پل سانس لینا بھول گئی تھی اس کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا اس کی بات پر۔۔۔۔۔!
چلو جی اب پھر سے رونا شروع کر دیا ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا
ایشو میرا بچہ میں اسے ابھی صیح کر دیتا ہوں ۔۔۔۔بس استری بتاؤ۔۔۔۔! وہ اس کے درد سے نا واقف تھا۔۔۔۔اُسے نہیں پتہ تھا کہ وہ اپنی موت کی بات کرکے اسے ازیت و وحشت میں دھکیل گیا تھا۔۔۔اس کے یہ بات چھوٹی سی تھی لیکن اشنال بخت کےلیے یہ بڑی نہیں بہت بڑی تھی۔۔
نہیں ہوں میں آپکا بچہ ۔۔۔۔بس آپ کی نفرتوں میں دبی۔۔۔۔کاغذی رشتے تک آپ کی بیوی ہوں۔۔۔! اگر آئندہ آپ نے مجھے بچہ کہ کہہ کر بلایا۔۔۔۔تو میں آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی ۔۔۔!
کوئی شک نہیں ۔۔۔بیوی ہو ۔۔۔۔۔ہو تو میری نا۔۔ ۔ ! میرے لیے تو میرا بچہ ہی ہو نا۔۔۔بالکل چھوٹا سا معصوم سا۔۔۔۔!
اور یقین مانو تمھارے ساتھ رہ کر ایسے لگتا ہے جیسے میں بچے کو ٹریٹ کرتا ہوں۔۔۔۔!
اُس وقت تو نہیں لگا تھا جب میری ذات کو گالی بنایا تھا۔۔۔اب آپ یہ کہنے کا حق کھو چکے ہیں۔۔۔!وہ پھر سے تلخ ہوئی تھی اور رونے لگی تھی۔۔۔۔!
اچھا سوری۔۔۔۔۔وہ کان پہ ہاتھ رکھے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔۔
جائیں میں نے آپ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔۔۔وہ نروٹھے لہجے میں کہتی اس کے بازؤں پر مکا مارگئی تھی ۔۔۔۔!
روشنال ہنسا اور ہنستا چلا گیا تھا ۔۔۔۔ اور پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسوؤں صاف کیے تھے۔۔۔۔۔! اور خود اٹھا تھا ۔۔۔
اٹھو۔۔۔۔ہاتھ بڑھایا تھا۔۔۔۔۔جب کہ اشنال اس کے پھیلا ہوا ہاتھ دیکھا کچھ سوچتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔۔۔!
وہ اسے ساتھ ٹیبل پہ لایا تھا اور ہلکی سے استری گرم کرکے ایک منٹ میں ٹھیک کر دیا تھا۔۔۔۔!
جبکہ وہ اس کی دل میں مشکور ہوئی تھی پر باظاہر کچھ نہیں بولی تھی ۔۔۔۔۔!
کوئی حکم ہے میرے آقا ۔۔۔۔۔۔ وہ جھک کر سر کو ہاتھ پہ رکھتا سینے لاتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔!
وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔مجھے چپٹر سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔! کوئی بات نہیں ایک کوائسچن کرؤاؤں گا۔۔۔۔تمھیں سمجھ آجائیں گے۔۔۔۔
پھر اس نے کوائسچن کروایا ۔۔۔۔۔تو اس نے سکون کی سانس خارج کی تھی۔۔۔۔۔! واقعی وہ چپٹر اسے سمجھ آیا تھا۔۔۔۔!
جاؤ ریڈی ہو جاؤ۔۔۔۔۔پھر نکلتے ہیں ابھی ہے تو کافی پر بھی جلدی چلو۔۔۔۔۔! میں بھی فریش ہو لوں۔۔۔۔!
وہ یہ کہہ کہتا اس کا گال تھپتاتا چلا گیا تھا۔۔۔۔!
اشنال نے اس کو جاتے دیکھ کر ہر چیز سمیٹی تھی لیکن کچھ فرمولا تیار کرکے وہ اٹھی تھی اور اس نے خود شاہ ور لیا تھا ۔۔۔۔!
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی ہوکر گیلے بالوں کو ڈرائے کر رہی تھی ۔۔اس کے سلکی کندھوں پر بکھر رہے تھے عام حالات میں وہ ڈارائے نہیں کرتی تھی لیکن ایمرجنسی تھی اسے چلانے بھی نہیں آتا تھا لیکن وہ کوشش کر رہی تھی وہ ابھی اسی کو الٹا سیدھا کر کے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔! جب وہ خوشبویں بکھیرتا اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔۔۔اس کو دیکھ کر اس کے ہاتھ کانپنےلگے تھے۔۔۔۔! وہ ڈوپٹہ اٹھانے کے چکروں میں تھی اس نے ڈوپٹہ تو ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھا کر اپنے گرد پھیلا لیا تھا۔۔۔ابھی وہ سر پہ ہی کرتی کہ روشنال بیچ میں ہی اسکا ہاتھ پکڑ گیا تھا۔۔۔!
روشنال نے اسے خاص نظروں سے دیکھا تھا ۔۔۔۔کیوں کہ وہ بہت ہی کم بغیر ڈوپٹے کے اسے دیکھتا تھا اس کی نظریں خود پہ جمی دیکھ کر وہ خومخواہ کنفیوز ہو گئی تھی۔۔۔وہ نظریں ایسی ہوتی تھیں کہ وہ مختلف رنگوں میں نہا جایا کرتی تھی۔وہ نظریں دل دھڑکانے کا سبب بنتی تھیں۔۔۔وہ کہاں کہاں کس مقام پہ خود کو مضبوط رکھتی تھی۔ وہ شخص اسکی مضبوطی کو توڑ دیتا تھا لیکن اس کی نظریں کبھی کبھی مہربان تھی شادی کے بعد بھولے بسرے سے بھی اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس نے کبھی مہرباں نظروں سے دیکھا بھی ہو ۔۔۔۔! وہ اس کو اپنے پیچھے دیکھ کر حواس باخت ہوگئی تھی۔۔
اس کے ہاتھوں پہ لرزش پاتا دیکھ کر اس کے ہاتھ سے ڈرائیر لےلیا تھا۔۔۔۔اور خود ڈرائی کرنے لگا تھا۔۔۔۔
می۔۔۔۔۔میں خود کرلیتی ہوں۔۔۔۔۔!وہ ہولے سے بولی تھی۔۔۔۔
پکڑنا آ ہی نہیں میری اس نازک سی بیوی کہہ رہی ہیں میں خود کرلیتی ہوں۔۔۔
اس کے میٹھے سے طنز پر اس نے نظریں جھکا لی تھیں کیونکہ وہ اس کے مقابل کھڑا ہوکر اس کے بال ڈرائی کر رہا تھا۔۔۔۔وہ اس کے سامنے کھڑا تو کوئی مضبوط پہاڑ لگ رہا تھا وہ ہولے ہولے باقدہ کانپ رہی تھی۔۔۔
اس کو کانپتا دیکھ کر اسے ہلکے سے لے کر چلتا بیڈ پہ بیٹھایا اور پھر اپنا کام مہارت سے کرنے لگا تھا۔۔۔۔
یہ والا شمیو اب مت یوز کرنا۔۔۔۔بال خراب ہو جائیں گے۔۔۔۔! وہ اس کے نیچے تھوڑے تھوڑے روکھےبالوں کو دیکھ کر بالوں کو دیکھ کر بولا تھا۔۔۔۔۔!
جب کہ ایشو کو وہ پل پل حیران کر رہا تھا۔۔۔۔وہ حیران تھی کہ وہ اس پہ کتنی نظر رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔
کوئی ہیر بینڈ کیچر وغیرہ۔۔۔۔۔اس نےڈارئی کرکے کیچر کا پوچھا تھا کوئی جواب نہ پاکر ڈریسنگ سے خود کیچر اٹھا کہ لگایا تھا۔۔۔
اب ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔! ایشو ہری اپ جلدی اٹھو پھر نکلنا ہے۔۔۔!
جب کہ وہ ڈریسنگ ٹیبل تک آئی اور اپنے بال سیٹ کرنے چاہے مگر وہ مسلسل کنفیوز ہو رہی تھی اور ایسا کر نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔! اس نے جلدی سے گاؤن پہنا تھا ۔۔۔۔۔وہ اب مطمن ہوگ
ابھی وہ سیٹ کر ہی رہی تھی جب وہ پھر سے اس کے ساتھ آ کھڑ اہوا تھا وہ سیاہ گاؤن میں تھی ۔۔۔۔ وہ دونوں ساتھ کھڑے چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔ اس بات کی گواہی آئینے نے دی تھی۔۔۔۔ اشنال نے ایک دفعہ نظر اٹھائی تھیں ۔۔۔۔
وائٹ سوٹ میں نک سک سے تیار ۔۔۔وجائت و مرادنگی کا شکار ۔۔۔گھڑی ہاتھ پہ باندھے، اور سب خوبیوں سے بڑھ کر اس کی آشنائی نے اسکی آنکھوں میں ایک اچھوتا سا احساس اس کو منفرد بنا رہا تھا۔۔۔
وہ احساس بھی ایسا جو بھسم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔۔!اشنال کی آنکھوں میں بھی محبت کی دھند چھانے لگی تھی وہ اس شخص سے کبھی نہیں دستبردار ہوسکتی تھی نہ اس کی محبت سے نہ اس کی نفرت سے۔۔۔۔!
وہ آگے بڑھ کر اس کا حجاب خود سیٹ کرنے لگا تھا جب اس کے گال سے اس کی انگلیاں ٹچ ہوئی تھی۔۔۔۔۔! اس کا لمس اسے کپکانے پر مجبورچکر گیا تھا۔۔۔۔
پن دو مجھے ۔۔۔۔۔۔! اس کو دیکھا تھا جو چھوئی موئی سی کھڑی تھی۔۔۔۔۔!
اس کی بات سنتی وہ اپنا پن والا ہاتھ آگے کر گئی تھی جس میں تین چار پنز تھی۔۔۔۔روشنال نے ساری پنز لے کر دو تین اپنے منہ میں دبا لی تھی ۔ ۔۔!
اور اس کا حجاب سیٹ کرنے لگا تھا حجاب سیٹ کر کے اسے ٹھیک لگا تھا۔۔۔
آج پرفیکٹ لگ ہو وائفی۔ ۔۔۔۔انگوٹھے اور انگلی کو گول شیپ دے کر اسے سراہا تھا۔۔۔۔
اس کو اپنا خیال رکھتا اس کی آنکھوں میں دھند چھانے لگی تھی۔۔۔۔۔!اس شخص سے محبت کم نہیں پڑی تھی اسکی !
آپ جائیں میں آرہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔نے مکمل بھرائی آواز میں کہا تھا۔۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر متسبم سا مسکرایا تھا۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی بدلتی نگاہوں میں تھیں آج اس نے مکمل توجہ سے دیکھا تھا۔۔۔۔وہ اس کی نفرت و بیگانگی سے بھی اسے نفرت نہیں کر سکی تھی۔ ۔۔
پھر اس کی توجہ اور پیار سے کیسے نہ پگھلتی تھی۔۔۔۔!
وہ چلا گیا تھا ۔۔۔۔جب کہ وہ پیچھے اس کے سحر میں کھڑی نقاب مسکرائی تھی۔۔۔۔ وہ سچ کہتا تھا وہ شخص واقعی ہرگز برا نہیں تھا ۔۔۔۔اس پہ گزرے حالات برے تھے۔۔
جو اسے تلخ بنا گیا تھا۔۔۔۔۔ورنہ اُیشو کا سپر مین کیسے برا ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔
*******
سر۔۔۔۔۔وہ ٹکے کا وکیل نشانے پر ہے ہمارے ۔۔۔۔۔۔اس کی گاڑی کے پیچھے لگائی ہوئی ہے۔۔۔۔! وہ سیاہ لمبے بالوں والا ہنس کہ آپ چہرے پر ماسک لگانے لگا تھا۔۔۔۔!
ساتھ میں ہنڈ فری سسٹم کان میں دوسری لائن پر رابطہ کر ر رہا تھا ۔۔۔
ٹھیک ہے اس کا پیچھا کرو۔۔۔! دوسری طرف فون سے آواز آئی تھی۔۔۔۔!
سر ہم تین گھنٹے کتوں کی طرح اسکا پیچھا کر رہے ہیں۔۔۔۔
ایک بات کھول کر سن لو میری۔۔۔۔۔! اگر وہ بچ گیا تو پھر تم لوگ نہیں بچ پاؤ گے۔۔۔۔
سر وہ ایک لڑکی کے ساتھ ہے ۔۔۔۔کسی سکول کے باہر کھڑا ہے ہم بھی وہیں اس سکول کی دوسری طرف گاڑی میں بیٹھ کر اسکا اننظار کر رہے ہیں۔۔۔۔!۔
ٹھیک ہے اگر ایسے کام نہیں بنتا تو پھر اس لڑکی کو اٹھا لو ۔۔۔۔۔۔! کیونکہ دوسری طرف سے شاطرانہ قہقے کی آواز آئی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے ہم کوششش کرتے ہیں۔۔۔۔وہ شخص ہلکے سے بولا تھا۔۔۔
مجھ کوشش نہیں رزلٹ چاہیے ۔۔۔۔! ورنہ آج تم لوگ اپنء ٹانگوں پہ چل نہیں پاؤ گے ۔۔۔۔۔۔! اسے کسی گنجان ویرانے علاقے میں لے کہ جاؤ۔۔۔۔۔!تاکہ کوئی سسی ٹی وی فوٹیج میں نہ آئے۔۔۔۔۔! اور کسی چینل کا شک مجھ پر بالکل نہ ہو۔۔۔۔! وہ اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔۔
ابھی تو جو وقت ہے نہ بہت مناسب ہے ۔۔۔۔۔اس کے پیچھے پیچھے رہو۔۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ کسی غیر آباد جگہ پہ آتا ہے گھیر لو اُسے مار کہ لڑکی کو اٹھا لینا۔۔۔۔۔
*******
اس کو دو گھنٹے اور پچپن منٹ ہوگئے تھے ایسے کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔۔بہت ساری لڑکیاں نکل رہی تھیں لیکن وہ نہیں آئی تھی جس کے انتظار میں اسکی آنکھیں درد کرنے لگی تھیں۔۔۔۔۔ اُْس کی نگاہ اس پہ ایسی پڑی کہ پھر پلٹی ہی نہیں تھی۔۔۔
کچھ ہی پل میں وہ لڑکیوں کے ہجوم کنفیوز سی آتی دیکھائی دی تھی۔۔۔۔!
اس نے ایک طرف دیکھا تھا سب لڑکیاں نت نئے فشن کیے ہوئے تھی۔۔۔۔۔ٹائٹس پاجامے پہنے۔۔۔۔۔فراق ۔۔۔پنٹس شرٹ فل میک اپ کیے تھی۔۔۔۔۔سب کے چہروں پہ مسکراہٹ تھی ان کے ہاتھوں میں فون تھے۔۔۔۔۔!اس کے ہاتھوں میں کتاب تھی جبکہ اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں ۔۔۔۔باقی سط پر اعتماد نہیں بولڈ لگ رہی تھیں ۔۔۔ ! جبکہ وہ اب چھپی ایک انمول ہیرا لگی تھی جس نے خود کو چپھا کہ رکھا تھا آج اپنے باپ کی پسند پہ فخر ہوا تھا۔۔۔۔۔ روشنال پہ نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں پیچان کے رنگ آئے تھے۔۔۔۔وہ مسکرائی تھیں …………!
اس کو آتے دیکھ کر روشنال کے چہرے پہ وہی جان لیوا مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔۔ وہ خوش نظر آ رہی تھی۔۔۔
کیسا ہوا پیپر۔۔۔۔! وہ تقربیاً تین گھنٹے سے باہر کھڑا تھا۔
بہت ہی اچھا میری امید سے بڑھ کر۔۔۔۔۔ جو کوائسچن آپ نے لاسٹ میں کروایا تھا وہ وہ بھی پیر انکلیوڈ تھا۔۔۔اور مجھے امید ہے 90 پرسنٹ مارکس آئیں گے۔۔۔۔۔! وہ بہت اکسائٹتڈ ہو رہی تھی اتنی اکسائٹڈ کہ وہ وہی کھڑے ہوکر بتانے لگ پڑی ۔۔۔۔۔!
آج دیر نہیں پوگئی اس کی کار کا دروازہ کھولتے وہ نرم سے لہجے میں بولا۔۔۔۔۔پہلے تو ڈھائی گھنٹے کا ہوتا ۔۔۔پھر آج تین بجے کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟مغرب کی اذانیں ہو رہی تھی جب وہ آہی تھیں ۔۔۔۔
جی آج پیر لونگ تھا۔۔۔۔ساتھ میں پیر لیٹ سٹارٹ ہوا تھا وہ اس کے سوال کا جواب نگاہیں جھکا کر دے رہی تھی۔۔۔
دوسری طرف سے ہوکر آتا وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔
اس پہ نگاہیں جما کر اس نےگاڑی سٹارٹ کی تھی۔۔۔۔۔!
آج مجھے علم ہے میری وائفی تھک گئی ہو۔۔۔۔اس لیے کھانا پیک کروا لیتے ہیں۔۔۔۔۔! اس پہ نگاہیں جما کر تائید چاہی تھی۔۔۔۔۔!
ابھی اس نے گاڑی ریورس ہی تھی ۔۔۔ہر طرف اندھیرہ تھا
جب گاڑی کی بیک پہ فائرنگ ہوئی تھی۔۔۔۔۔روشنال ابھی کچھ سمجھتا ہی پھر سے فائرنگ ہوئی تھی۔۔۔ اس نے شیشے میں دیکھا تھا۔۔۔۔۔اور اپنے پیےچھے دو گاڑیاں دیکھی تھی۔۔۔۔۔۔!
سپر مین ۔۔۔۔۔۔اشنال چیخ اٹھی تھی اس کے لفظ سپر مین ہی ابھر سکا تھا۔۔۔۔۔! وہ گبھرا گئی تھی اس کی نقاب زدہ آنکھوں کی پتلیاں پھیل چکی تھیں۔۔۔۔۔۔