قسط: 27
سپر مین ۔۔۔۔۔۔اشنال چیخ اٹھی تھی اس کے لفظ سپر مین ہی ابھر سکا تھا۔۔۔۔۔! وہ گبھرا گئی تھی اس کی نقاب زدہ آنکھوں کی پتلیاں پھیل چکی تھیں۔۔۔
فضا میں ٹھاہ کی آواز پیدا ہوتی ساتھ ہی ارتعاش سا پیدا ہوتا تھا….وہ گبھرا گئی تھی
کچھ نہیں ۔۔۔۔کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ بس میری جان خاموش ۔۔۔۔!
وہ جو خود پریشان تھا ایک ہاتھ سٹیرنگ پہ مضبوط کیے دوسرے ہاتھ سے اسے نیچے جھکائے تھا۔۔۔۔! وہ گاڑی کی سپیڈ فل کیے بھگا رہا تھا۔۔۔۔۔
پچھلی گاڑیاں مسلسل اس کے تعاقب میں تھی۔۔۔۔! اس کو اپنی پروا نہیں تھی اسے پروا صرف اور صرف اپنے ساتھ بیٹھی اس معصوم جان کی تھی ۔۔۔۔
جس کو وہ اپنی ہاتھ کی گرفت میں بھی کانپتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔
وہ کسی ماہر اناڑی کی طرح گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔۔! گاڑی وہ کبھی سڑک کے ایک سائیڈ پہ کر رہا تھا تو کبھی دوسری طرف اُن کو چکمہ دینے کےلیے۔۔۔۔۔تاکہ اسے مضبوط جگہ میں کرکے پھر ان کا حساب چکتا کرے۔۔۔!
سپر مین وہ ہمیں مار دیں گے۔۔۔۔۔وہ مجھے مار دیں گے ۔۔۔وہ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں بھینچھتے پھر سے اٹھی تھی۔۔۔!
یقین ہے نا اپنے سپرمین پر ۔۔۔۔۔! وہ اپنی ڈارک برواؤن آنکھیں ایک ہی سیکنڈ اس پہ ٹکائی اور اس کی فکرمند آنکھیں دیکھیں تھیں۔۔۔۔۔!
آ۔۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔۔آپ پر یقین ہے ۔؟لیکن اُن پر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔!وہ مار دیں گے مجھے۔۔۔۔!
وہ سہم کر بولی اس کی طرف آنکھیں اٹھائی تو چند پل ہٹا نہیں سکی تھی۔۔۔۔
اس بازی گر شخص کی آنکھوں میں اک ہار سی تھی۔۔۔! وہ ہار اشنال کو اُس کی اپنی نہیں لگی ۔۔۔
وہ ہار اُسے اپنی فکر میں گھلتے اُس شخص کی لگی تھی ۔۔۔۔!
آج اس کا دل کیا اُس کی مضبوط حصار خود کو چھپا کہ خود کو فنا کرلیں ۔۔۔۔! جو دل چاہتا ہے وہ ہمیشہ پورا تو نہیں ہو سکتا۔۔۔۔نا۔۔۔
وہ جو اس کا طلب گار رہتا تھا ۔۔۔۔اس کی روح کا مکین تھا۔۔۔۔اس وقت وہ شخص خوبصورت نہیں اسے بہت اچھا لگا تھا۔۔اور اچھا ہونا خوبصورت ہونے سے بھی پیارا ہے۔۔۔۔!
وہ لب بھینچے غصہ ضبط کیے مسلسل گاڑی جنگل کی طرف لے کہ جانے لگا تھا۔
وہ اس کی طرف دیکھ نہیں پا رہا تھا اگر ایک بار دیکھا تو کمزور پڑ جائیگا اور وہ کمزور ہی تو نہیں پڑنا چاہتا تھا۔۔۔۔!
یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔کک۔۔۔۔کہاں لل۔۔۔۔لے کر جا رہے ہیں۔۔۔۔! اتنی ۔۔۔رات۔۔۔ہے۔۔۔! وہ گاڑی کو ویران میں دیکھتے جہاں کوئی روشنی نہیں روشنال نے گاڑی کی لائٹ آف کی۔۔۔۔تاکہ وہ اسے گھماتا ہوا پیچان نہ سکیں۔۔۔! وہ اسے سیف کرکے پھر جانا چاہتا تھا۔۔۔مگر اشنال کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ لڑکی ابھی کسی رئیکشن کی پوزیشن میں تھی۔۔۔!
وہ اس کو پڑھ کر بھی لاعلم ہوا تھا فلحال کےلیے۔۔۔۔!
کیونکہ اس وقت لاعلمی اچھی تھی۔۔۔۔!
اس کا نقاب زدہ چہرہ پورا آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔۔۔!
خوف کے عالم میں اس نے ڈیش بوردڈ پہ نظریں جما لیں تھیں۔۔۔! ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا۔۔۔! وہ گبھرا گئی تھی اس نے ایک نظر اُسے جو گاڑی ریورس کرکے جنگل کے بیج کر ر رہا تھا۔۔۔۔!
روشنال نے اپنی ٹنشن سے نکل کر اُس کی طرف دیکھا تو وہ اور زیادہ اضطراب میں مبتلا ہوا تھا۔۔۔!
کیونکہ گاڑی ان کا پیچھا کرتی آئی تھی لیکن وہ کافی دور تھی ایک سنساتی ہوئی گولی فضا میں گئی تھی اشنال چیخ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔!۔
اشنال پکیز کیپ کوائٹ۔۔۔۔! وہ ساتھ ہی بولا تھا۔۔۔۔۔!
اس کی چیخ سنتا وہ گبھراکر گیا تھا اور اس کی طرف جھک کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا تھا۔۔۔وہ ایک قسم اس کے اوپر آیا تھا روشنال کی آنکھوں کے گرد توایک پک کےلیے اندھیرہ چھا گیا تھا۔۔
اس شخص کا بھاری ڈول اس کے حواس جنجھا کر رہ گئی تھی اسکا نرم وجود اس شخص کے آہنی سینے کے نیچے دب کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
وہ اتنی پر حدت قربت کی قائل نہیں تھی ۔۔۔۔وہ تڑپ کر فاصلہ مٹانے لگی۔۔۔مگر ناکام رہی ۔۔۔
روشنال کے پاس سے آتی کلون کی مخصوص مہک اشنال کے منتشر حواس کو مزید پاگل کرکے رکھ دیا تھا وہ شخص اس کے انتہائی قریب تھا اس کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پر تپتی ہوئی بھٹی لگ رہی تھی ۔۔
اس صورتحال روشنال بخت خود نہیں تیار تھا روشنال کو خود ہر قابو کرنا انتہائی مشکل لگا تھا۔۔۔! ن کے درمیان یہ انتہائی کمزور سنگین و نازک اور دشوار لمحہ تھا۔۔
اشنال اس کی قربت میں ماہی بے آب مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔۔۔۔!
ہٹیں۔۔۔پیچھے۔۔۔۔روشنال کا ہاتھ تھوڑی سی نرم پڑی تو وہ اسے ہٹا گئی تھی۔۔۔۔
خاموش ۔۔۔۔وہ لوگ تعاقب میں ہیں ہمارے اور تمھاری جان کوخطرہ اب تمھاری آواز آئی تو میں اپنے طریقے سے نند کرواؤں ۔۔۔وہ یہ کہتا اس کے پاس سے اٹھا تھا۔۔۔
تم گاڑی سے اتر جاؤ۔۔۔۔! ہری اپ اس نے تیز لہجے میں بغیر احساس لیے کہا تھا۔۔۔۔!
ک۔۔۔۔کیا مطلب۔۔۔؟ وہ ہکلا کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔!وہ ابھی تو اس شخص کی سنگت کے خواب سوچ رہی تھی اور ابھی اس نے زمین سے آسمان میں دے مارا تھا۔۔۔
گاڑی سے اتر جاؤ۔۔۔۔تمھاری جان کو خطرہ ہے ایشو۔۔۔۔! وہ نظریں چراتا ٹھہرے ٹھہرے لہجہ میں بول کے گاڑی کو بند کرگیا تھا۔۔!
م۔۔۔میں ۔۔۔۔اکیلی اتروں۔۔۔۔۔! آپ کدھر جائیں گے۔۔۔۔وہ بےیقینوں کی زد میں گرتی بولی تھی ۔۔!
ہری اپ ۔۔۔۔! میں جو کہہ رہا ہوں وہ کرو تمھارے ان سوالواں کا جواب میں بعد میں دوں گا۔۔۔!
وہ اس کی طرف جھکتا کار کا دروازہ کھولنے لگا تھا۔
مم۔۔۔۔میں اتنی رات۔۔۔۔کو اس تن۔۔۔جنگل میں بغیر لائیٹ کے کیسے رہوں گی۔۔۔۔۔!
پہلے بتانا تھا نہ۔۔۔۔۔میں جنٹریٹر لے آتا تمھارے لیے ۔۔۔۔۔!
وہ اب کی بار طنزیہ مخاطب ہوا تھا۔۔۔!
م۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔! لیکن میں کئی نہیں جا رہی آپ کو چھوڑ کر۔۔۔۔۔وہ ضدی ہوئی تھی۔۔۔!
اشنال جو میں کروں وہ جلدی کرو۔۔۔۔میرا ضبط مت آزماؤ۔۔۔وہ دھیمی مگر سخت آواز میں بولا تھا۔۔۔!
میں آپ کو تنہا چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔وہ اپنے سپرمین کو غصیلے شوہر کے روپ میں آتا دیکھ کر روہانسی سی ہوئی تھی ۔
اشنال پلیز گاڑی سے اتر جاؤ۔۔۔۔! وہ لوگ ہمارے تعاقب میں ہیں وہ مجھے ماریں تو ماریں گے مگر ساتھ میں تمھیں خطرہ ہے ۔۔۔۔
میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔آپ میری سانسوں میں بس چکے ہیں میری روح کے حق دار بن چکے ہیں ۔۔پھر میں آپ کو مشکل میں چھوڑ کر کیسے جاسکتی ہوں۔۔۔۔! آپ کے پریشان چہرے کو دیکھ کر میری روح کواذیت ہوتی ہے۔۔۔
آپ نے تو مجھے جینا سکھایا ہے پھر میں اتنی خود غرض کیسے ہوسکتی ہوں کہ آپ کو ایسے چھوڑ کہ جاؤں۔۔ وہ اس کی کشادہ چہرے کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں رکھ کر بولتی اب کی بار وہ ہچکیوں سے روئی تھی۔۔! جب کہ روشنال حاکم بخت کے دل نے اتنی پریشانی میں ہونے کے باوجود یہ اقرار کیا تھا۔۔
عورت بشیک جتنے بھی ظلم اپنے پسندیدہ یا محرم رشتے سے سے سہہ لے بے شک وہ وہ اٹھارہ سال کی بچی ہو یا ستر سال کی عورت۔۔!
بے شک وہ موم سے بھی زیادہ نرم و نازک ہو یا چٹان سے بھی سخت۔۔۔۔کبھی اپنے اس محافظ کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔۔! اسی طرح
وہ اشنال کی دلی حالت کو بھی جانتا تھا۔
پلیز اشنال گاڑی سے نکل جاؤ ۔۔۔میری فکر مت کرو۔۔۔میں تمھاری وجہ سے آلریڈی پریشان ہوں مجھے مزید پریشان مت کرو۔۔۔
میں کسی سے بھی نہیں ڈرتا ۔۔مجھے صرف تمھیں اور تمھاری اور تمھاری عزت کی پرواہ ہے۔۔۔!
وہ پریشان سے کہتے اس نے اسکے ماتھے کے ساتھ سر ٹکا لیا تھا۔۔! پھر اس کو پریشان دیکھ کر اسے جدا کر اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر بوجھل سے کہنے لگا تھا
جو اس کے ہاتھ کھول کر اسکے سینے سے لگی تھی اس سے کبھی نہ دور نہ جانے کےلیے …



موت اس کے سر پہ کھڑی تھی لیکن اُسے پرواہ اپنے سامنے بیٹی اپنی اس معصوم سی جان کی تھی جس نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا سوائے اپنے سپرمین کے۔۔۔۔!
جو بچپن سے اسکی بانہوں کے حصار میں محفوظ رہی تھی ۔۔۔جو زندگی کی تلخی تو دیکھ چکی تھی لیکن اس بے رحم دنیا سے نا واقف تھی ۔۔۔! ان سے پہلے اسے زمانے کی تلخیوں سے صرف اپنے سپرمین نے بچایا تھا۔۔۔! اس ہر قسم کے سردو گرم سے محفوظ رکھا تھا۔
وی۔۔۔۔ویسے ۔۔۔۔یہ لوگ ہے کون سپرمین ۔۔۔۔وہ اسکے ساتھ لگی اب پرسکون سی بولی تھی۔
ان کی لڑکی کو صبح چھیڑ کہ آیا تھا اب پیچھے تو آئے
گے نا سالے میرے۔۔۔! وہ غصے سے پتہ نہیں بول گیا تھا اسے خود سمجھ نہیں آئی تھی لیکن لہجہ اسکا طنزیہ تھا۔۔!
اب یہ آپکی لڑکی کو چھیڑنے آئے ہیں ۔۔۔۔وہ اس اندھیرے میں اسکے تحفظ میں محفوظ جب ہوئی تو شرارتی لہجے میں اس کے دل سے انجان بولی تھی۔۔۔
روشنال اس کی دلی حالت کا اندازہ کا اندازہ لگا رہا تھا۔۔!وہ اس کی بات سنتا جھٹکے سے اسے خود سے علحیدہ کر گیا تھا۔۔۔۔!
بکواس بند کرو اشنال ۔۔۔۔اترو گاڑی سے ۔۔۔۔اب کی بار وہ ڈھاڑا تھا وہی ظلم و جابر لہجہ اپنایا تھا اب کی بار وہ ڈھارا تھا۔۔
پیار نرمی سب کچھ غائب تھا۔۔۔۔ نا انجانی غصہ اور پتہ نہیں کیا کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں۔۔۔!
پھر ۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔میں تو صرف مذاق تھیں۔۔۔۔دلیل دیتے وقت اشنال کی آنکھوں سے آنسوؤں نکل آئے تھے۔۔۔!
آئی سیڈ گیٹ آؤٹ اشنال۔۔۔۔اترو اور ان جھاڑیوں میں چھپ جانا۔۔۔جب تک میں نہ آؤں باہر نہ آنا۔۔۔۔!
آپ ہر بار مجھے توڑ کہ معافی مانگ لیں گے ۔۔۔۔!
وہ اتنا زور سے بولا تھا کہ اشنال بے یقینی سے دیکھتی ہوئی صرف اتنا بولی اور بنا کچھ کہے اتر گئی تھی۔۔۔۔! اور بھاگتی ہوئی غصے سے اوجھل ہوئی تھی اس کے اندھیرے میں تحلیل ہوتے ہیولے کو دیکھتے لال ہوتی آنکھوں سے اور نہایت ہی غصے اپنا ہاتھ گاڑی پہ مار گیا تھا۔۔۔۔!
ہاتھ گاڑی کے شیشے سے مارتے اسکا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا اس کی کلائی پر بھی زخمی ہوئی تھی ۔۔۔
جب تک ایک ایک بات کا بدلہ تمھارے اب ماتحتوں سے نہ لیا نہ عرفان درانی۔۔۔۔۔تو چین و سکون آرام ہیں مجھ پر۔۔۔! وہ غصہ سے کہتا اپنے زخمی ہاتھ کی پرواہ کیے بغیر دوسرے ہاتھ سے گاڑی سٹارٹ کر ایک ہی منٹ میں ریورس کرتے جنگل سے نکلانے لگا تھا۔۔۔
اس نے گاڑی سے اپنا۔۔۔پسٹ۔۔ل نکلا اور ۔۔اور جھٹکے سے لے جاتا جنگل سے گاڑی نکال گیا تھا۔۔
اشنال کو سیف کرکے اب اسے کوئی پرواہ نہیں دی ۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ رات کے اندھیرے میں کوئی نہیں ہوگیا۔۔۔۔اس لیے اس کے دل میں اب سکون تھا۔۔ لیکن یہ سکون کب تک تھا پتہ نہیں تھا۔۔۔!
***
مجھے کل روشنال اور اشنال سے ملنے جانا ہے آغا جان صیغیر صاحب سے کہہ رہے تھے ۔۔
کیونکہ ثمینہ بیگم گھر نہیں تھی وہ دوست کی بیٹی کی شادی پہ گئی ہوئی تھیں آغا جان کو یہ ہی موقع مناسب لگا تھا وہ ان سے ڈرتے تو نہیں تھے ہاں البتہ وہ گر میں مزید بے سکونی نہیں چاہتے تھے۔۔
پر آغا جان وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔کہ وہ اشنال کو خود لے آئے گا ثمینہ بیگم ٹیبل پہ کھانا لگا رہی تھیں ۔۔۔
وہ یہ روز ہی کہتا ہے مجھے نہیں پتہ کل میں اور تہمینہ اور تم چلیں اس کی طرف۔۔۔۔!
زندگی کا کیا بھروسہ۔۔۔۔کیا پتہ آج ہی ختم ہو جائے۔۔۔اور میری حسرت حسرت ہی رہ جائیں پوتی سے ملنے کےلیے میں اُسے اپنا اور اس کے باپ کی جائیداد دینا چاہتا ہوں
اور اسکی آنکھوں میں خوشیاں دیکھنا چاہتا ۔۔۔
اس کے منہ سے لفظ دادا سننا چاہتا ہوں ۔۔۔۔وہ بے قرار سے بولے تھے ۔
اوکے پھر آپ تیار رہیے گا ہم کل دن کو نکلیں گے۔ ۔!
منال آغا جان کی بات سنتی کچن سے نکل آئی تھی۔۔!
خالہ جان آپ بیٹھیے میں سرو کرتی ہوں۔۔۔۔! وہ ان کو سرو کرتا دیکھ کر کچن سے نکلتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
رات میں بیٹھے سب کھانا کھا رہے تھے۔۔۔
کوئی ضرورت نہیں ہے ان چونچلوں کی میں جب بنا سکتی ہوں تو دیتے وقت میرے ہاتھ نہیں ٹوٹتے ۔۔۔۔۔۔۔!
وہ اتنی بے رحمی سے بولیں منال خوامخوہ شرمند ہوگئی تھی حالانکہ ہانڈی اس نے خود تیار کی تھی ۔۔
بھلی بھانس بچی کے ساتھ کیا ہے میں دیکھ رہا ہوں تمھارا دن بدن رویہ خراب ہوتا جا رہا تھا۔ صیغیر صاحب منال کو پہلے سے کمزور ہوتا دیکھ کر بولے بنا رہ نہیں پائے تھے۔۔!
اور جو اس نے کیا وہ آپ نے نہیں دیکھا ۔۔اس نے سب کے ساتھ کیا کیا تھا ۔۔!
کوئی بات نہیں ہے بچوں سے غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں ہر غلطی کو پکڑ کر ہم کسی کو سزا نہیں دے سکتے۔۔! اگر کوئی شرمندہ ہے تو اسے مزید شرمندہ مت کریں ۔۔۔تاکہ وہ دوبارہ سے اچھا بننے پہ پچھتائے صیغر صاحب نے دھیمے سے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
آپ کو میں ہی غلط لگوں گی نہ ۔۔۔وہ تندہی لہجے سے منال کو گھورتی بولی تھیں۔۔
تم سکون سے بیٹھو ۔۔۔۔تمھارا مقصد جو پورا ہو رہا ہے۔۔۔!
بیگم اب آپ کہاں جارہی ہے ۔۔۔۔؟ صیغیر نے ان کو اٹھتا ہوا دیکھ کر کہاں تھا۔۔۔!
جب تک یہ یہاں بیٹھی ہے میں ادھر ہرگز نہیں بیٹھو ں گی وہ گر ج کر بولتی اٹھیں تھیں ۔۔۔
کھانا تو کھالیں ۔۔۔؟ صیغیر صاحب نے انھیں روکنے کی خاطر کہا تھا۔۔۔۔
یہ مت کہیں گا کہ میں آپ کی بھتیجی کی وجہ سے جارہی ہوں ۔۔۔۔مجھے با اس شکل کی نہیں دیکھنی۔۔۔! جب تک یہ اٹھ جائیں گی میں آجاؤں گی۔۔۔۔
وہ یہ کہتی دھندھناتی ہوئی چلیں گئی تھی ۔۔۔۔
اُس کے بعد ان کتے درمیاں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔
اپنے حق کے دفاع کےلیے کچھ کہنا برا نہیں ہے۔۔۔!
صیغیر صاحب کھانا کھا کر اٹھے تو اس کے سر پہ پھیرتے سے کہتے چلے گئے تھے۔۔ !
جبکہ حاکم بخت کا پوتی کےلیے دل دکھا تھا۔۔۔۔اللہ تمھارے نصیب اچھے کرے میری بچی۔۔۔۔
آغا جان ۔۔۔۔۔میرے نصیب میرے کیا میرا برا عمل تھا۔۔
وہ ان کی بات سنتی ان کی طرف آتی نیچے بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ گئی تھی جبکہ ان کی بات سن کر ا کی نحیف آنکھوں سے ایک آنسوؤں منال کے بالوں میں جزب ہوا تھا۔۔
****
وہ گاڑی نکال رہا تھا جب اس کی گاڑی جنگل کے بیچ و بیچ ہی بند ہوگئی تھی ۔۔۔۔کیونکہ راستہ بہت ٹیڑھا اوپر نیچے تھا ۔۔۔ دو ے تین دفعہ اس نے گاڑی پنکچر یوگئی ہے اسے سمجھ لگی کہ گاڑی پنکچر ہو گئی ہے ۔۔۔
اس لیے وہ گاڑی وہیں روکتا نکلا تھا۔۔
وہ کچھ فاصلے کہ گاڑی سے اترا اور پیدل چلنے لگا تھا۔۔۔
اس سے جنگل سے نکلنے میں بھی دس منٹ لگے تھے۔
وہ اب نیم پختہ سڑک سے کچھ فاصلے پہ تھا۔۔۔جب آوازیں سنائی دی تھی۔۔۔۔
اسے محسوس ہوا جیسے اُن کے ساتھ کوئی گربڑ ہوگئی ہو ۔۔۔۔کیونکہ نیم اندھیرے میں ہلکی آوازیں بھی صاف آ رہی تھی۔۔۔
وہ ہلکے قدم بھرتا عقل مندی سے فیصلہ کرتا راستہ کراس کرکے نیم پختہ سڑک پہ چلا تھا۔۔۔
وہ گاڑی میں کوئی پانی ڈال رہے تھے۔۔۔۔روشنال ان کی بزدلی کو دیکھتا محفوظ ہوا تھا.
وہ جان چکا تھا کہ گھنا جنگلات ہونے کی وجہ سے وہ بغیر گاڑی کے اندر نہیں آ پا رہے تھے۔۔! ان کی بہادری کا تو وہ اسی وقت قائل ہوا تھا۔۔۔جب انھیں جنگل میں جانے کے بعد اپنے پیچھے آتا نہ دیکھا تھو۔۔۔
روشنال وقت کے ساتھ شاطر ہوا تھا۔۔۔۔وہ جو گاڑی کے اوپر جھکے ہوئے تھے ٹھیک کرنے کےلیے۔۔۔! اسے اُس وقت یہ لگا تھا کہ گاڑیاں دو ہیں ۔
لیکن ایک گاڑی دیکھ کر وہ پچھتایا تھا کہ وہ کیوں اشنال کو جنگل چھوڑ آیا تھا۔۔!
اس نے بغیر سوچے سمجھے ان کو موقع دئیے بغیر پیچھے سے آکر ان کو گاڑی پہ جھکے پاتا دیکھ کر ان کے سروں کو ایک دوسرے کے ساتھ اتنی زور سے ٹکرایا تھا۔۔۔!
کہ ان کے حواس جنجھا کر رہ گئے تھے۔۔۔!
وہ زمین پر گرے تھے انھیں محسوس ہوا کہ آج ان کی موت یقینی ہے۔
اس اونچے لمبے چوڑے شانے والے بندے کو دیکھ کر وہ زمین پر پڑے دونوں ٹکر ٹکر اس کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
لمبے بال۔۔۔۔۔کمزور منہ ۔۔…شکل سے وہ اچھے ہی تھے ۔۔
کس کے پالے گئے کتے ہو۔۔۔؟
وہ ان کو گربیانوں سے اٹھاتا جنجوڑ کر غصے سے ڈھارا تھا۔۔۔
عر۔۔۔۔فا۔۔۔ن دارنی کے۔۔۔! ایک کے منہ سے ہکلاتا ہوا نکلا تھا۔۔۔!
لعنت ہے تم لوگوں پر خدا کی ۔۔۔۔شکل سے تو پڑھے لکھے لگتے ہو ۔۔۔۔یہ تو میں جانتا ہوں کہ تم اس کی حراست میں رہ کر یہ کام کر رہے ہو۔۔؟
پر یہ بتاؤ ایسی کیا آفٹ ٹوٹ پڑی تھی کیوں کی اتنی گھٹیا حرکت۔۔۔۔؟
کس بنا پر۔۔۔۔۔؟ وہ ان کو پھر زمین پر پھینکتا ڈھارا تھا۔۔
بھوک کےلیے۔۔۔! چند روٹی کے نوالوں کےلیے ۔۔۔! اپنی مرتی ماں کو زندہ رکھنے کےلیے۔۔۔!اپنی جوان بہنوں کی شادی کےلیے۔۔۔۔!
تو حلال کما کہ کھلاؤ ۔۔۔۔غیرت مرگئی ہے یہ چوریاں غلط کام کرکے حرام کے نوالے خود بھی کھا رہے ہو ۔۔اور اس مرتی ماں کو بھی اس حرام سے کیاوہ زندہ بچے گی۔۔!
حلال ۔۔۔۔کیا خوب کہی آپ نے سرحلال چیز کیا ہے۔۔۔!
میں نہیں مانتا حلال کو سر۔۔۔! فتوے دینا بہت آسان ہوتا ہے پچھلے چار سال سے ایم _اے کی ڈگری اٹھاتا رہا ۔۔جگہ جگہ خاک چھانتا رہا۔۔۔!
ہر صبح ماں سے دعا لے ایک نئی امید لے کر نکلتا تھا۔۔۔۔اور پھر شام میں مرجھایا ہوا چہرہ لے نہ میں جواب دے کر اُسی جنت کی آنکھوں میں اُمیدی دیکھتا تھق۔۔۔!
مجھے ڈاکو بنانے میں ایک صرف عرفان درانی کا ہاتھ نہیں ہے اس قوم کا حال ہے جس میں آپ جیسے وکیل اور بزنس مین شامل ہیں ۔۔۔!
آپ تو آسانی سے گنڈے کی برا بھلا کہہ دیتے ہیں کیا آپ کو یہ خیال نہیں آیا کہ ڈاکوؤں کے سینے میں دل ہے۔۔۔!ان کے احساسات ہیں۔۔۔!
میں اتنا پروفشنل گنڈا تھا سر۔۔۔۔کہ جنگل میں گھس کہ آپکو مار سکتا تھا ۔۔۔۔یا آپکی بیوی کو کڈنیپ کرکے پر نہیں۔۔۔۔جب اس کالج تک آپ کا پیچھا کیا تھا۔۔
آپ کی بیوی کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا تھا کہ میں غلط کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے محافظ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔کیونکہ میں بھی ایک بہن کا بھائی ہوں ۔۔۔۔گنڈا ہوں، ڈاکو ہوں پر ہوں تو بھائی نہ۔۔۔! ایسا نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
اسی وقت کچھ دیر پہلے ایک آواز سنی تھی ایک چیخ کی۔۔۔۔اس کے بعد آپ کو مارنے کا حوصلہ ہی نہیں پڑا تھا
میں نے چوری کرتے وقت گنڈا کرتے وقت کسی عورت کے پیچھے کبھی نہیں گیا ۔۔۔۔۔لیکن اس ایک روٹی کے ایک نوالے نے ڈاکو بنا دیا ہے۔۔۔!
آج ایک روٹی کی نوالے یہ حد بھی پار کی ہے۔۔۔! یہ لیں پس۔۔ٹل اور آپ اپنی غیرت کے پیچھے مار لیں ۔۔
کیونکہ مجھے پتہ ہے زندہ تو آپ نے چھوڑنا نہیں ہے سر۔۔
کیونکہ مسئلہ آپکی غیرت کا ہے۔۔ ایک لڑکا کانپ رہا تھا اور دوسرا لڑکا کافی پراعتماد لگ رہا تھا۔۔۔
وہ اسکے پاس آتا پس۔۔۔ٹل اسے پکڑاتے ہوئے مسکراتا ہوتا ہوا بولا
؎ سجائے رکھتے ہیں جو ہنسی پر چہرے کی کرن
نجانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟

روشنال نے پ۔۔سٹل اس کے ہاتھ سےلے لیا تھا۔۔ اس کے چہرے پہ درد کا ایک جہاں تھا جو روٹی کی خاطر خوار ہو رہا تھا اسے زندگی میں فقیر تک بھی فراڈیے لگتے تھے۔۔! اس نے بہت سے غریب لوگ دیکھے تھے لیکن ان سے علحیدہ لگا تھا۔۔۔۔دنیاوی مسائل اور الجھنوں میں گھرا ہوا ۔۔۔۔شکوہ زباں کا حرف تک نہیں ۔۔۔مسکراہٹ سے آنسوؤں اور اپنے غموں کو چھپائے رکھا تھا۔۔۔
نام کیا ہے۔۔۔؟ روشنال کا دل دکھا تھا ان کی باتوں پر۔۔۔!
وہ چند لمحے تو بول نہیں سکا تھا۔۔۔!
میں سرمد اور یہ سعد ۔۔۔۔۔اس نے ایک لفظ میں کہا تھا۔۔۔ اور پھر کھڑا ہوا تھا۔۔۔!
تو مسٹر سرمد ۔۔۔۔! آپ اکاوٹنٹ کی جاب کر لیں گے۔۔۔۔؟میرے آفس میں۔۔۔۔؟ اس نے ہاتھ پیچھے باندھ کر کہا تھا۔۔
اس وقت مذاق کا کوئی وقت نہیں ہے سر۔۔۔وہ بے یقنیوں کی کیفتوں میں گھرتے آرزدہ سا بولا تھا۔۔۔!
کیسا مذاق ۔۔۔اگر عزت کی نوکری کرنی ہے تو کل صبح آجانا ۔۔۔۔۔! میں لگوا دوں گا۔۔۔۔!
سر ۔۔۔۔۔سر آپ بہت اچھے ہیں وہ یہ کہتا فرحتِ جذبات سے اس کے گلے لگا تھا۔۔۔! جب اس کے جیب میں پڑا موبائل تھرتھرانے لگا تھا ۔۔۔!
فون اٹھاؤ۔۔۔۔۔! وہ عرفان درانی کا نمبر دیکھتا غصے سے کھول اٹھا تھا
سر۔۔۔۔۔۔وہ شخص ہمیں مروا دے گوہ فون پیچھے کرتا اب سہما تھا
میں سنھبال لوں گا بات کو ۔۔۔اادھر دو مجھے۔سرمد فون آگے کرتا پریشانی سے پیچے ہٹا تھا۔
جبکہ روشنال نے فون اٹینڈ کرکے کان سے لگایا تھا۔۔!
کام ہوا کہ نہیں ۔۔۔۔۔ یا ایسے ہی کتوں کی طرح جنگل میں بھونک رہے ہو۔دوسری طرف سے عرفان درانی نے اونچی آواز میں کہا تھا۔
ہاں ہوگیا ہے پر تیرا نہیں میرا عرفان درانی تیرے کتے جیل میں ہے ۔۔۔! تو نے چار سال پہلے کہا تھا ۔۔
دو ٹکے کے وکیل تیرا صرف نام اونچا ہے آج اندازہ ہوگیا ہوگا ۔۔۔کہ میرا صرف نام اونچا نہیں مقام بھی اونچا ہے۔۔۔
اور ہاں کتا تو تُو ہے جو ہر وقت بھونکتا رہتا ہے ۔۔۔۔ ب ای پٹہ ڈال لے ۔۔۔ عرفان درانی تمھارا ایک ایک پل اس میں ریکارڈ ہے وہ آخر کیس میں پتہ چلیں گا کہ جیت کس کی ہوتی ہے۔۔
وہ اسے اُسی کے لہجے میں بولا تھا ۔۔کیونکہ بقول اس کے عزت ان کو دینی چاہیے جو عزت کے قابل ہوتے ہیں۔۔۔
وہ فون بند کرتا اسے تمھایا گیا تھا۔۔
بھائی آپکی عنایت ایک طرف ۔۔۔۔اور آپکی ٹکر ایک طرف قسم سے مجھے تو صیح ظالم لگتے ہیں ۔۔۔مجھے لگتا ہے لوہا کھاتے ہیں۔۔۔۔
لوہا نہیں کھاتا میں ہوں ہی لوہا ۔۔۔۔اس کو دیکھ کر اُسے اس میں مستیاں کرتا حسنال نظر آیا تھا اس نے بہت مگنڈے دیکھے تھے لیکن یی گنڈا بہت معصوم تھا۔۔
سر آپکا ہاتھ زخمی ہے کوئی چیز لگا دیں ۔۔۔اس نے روشنال کے ہاتھ کو دیکھتے فکر مندی سے کہا تھا۔۔
شٹ ۔۔۔۔۔وہ اس معاملے کو سیٹ کرتا اتنا بزی ہوا تھا کہ اسے اشنال کی یاد ہی نہیں آئی تھی۔۔۔۔
سر ہم آپ کا انتظار کریں ۔۔۔۔؟ سرمد نے سے دھیمے لہجے میں مخاطب کیا تھا۔۔۔
نہیں تم لوگ چلے جاؤ ۔۔۔۔میں خود آجاؤں گا اب کی بار روشنال نے روکھے سے لہجے میں کہا تھا اور چل دیا تھا جبکہ وہ دونوں اس پل بدلتے بندے کو دیکھ کر حیران ہوتے گاڑی کو ٹھیک کرنے لگ پڑے تھے
******
اشنال ۔۔۔۔وہ اس جگہ تک بھاگتا بھاگتا پہنچا تھا اس نے دو تین دو فعہ پکارا تھا اس کی آواز نہ پاکر وہ تشویش میں مبتلا ہوا تھا ۔۔۔
اشنال اشنال ۔۔۔۔۔اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا تھا وہ دعائیں مانگنے لگ پڑا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط نہ ہو۔۔۔
وہ اتنا بے احتیاط کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔
وہ جھاڑیوں کے اندر داخل ہوا تھا وہ کئی بھی نہیں تھی
وہ پریشان ہوتا بھاگا تھا۔۔
اس نے آج تہہ کرلیا تھا اگر اشنال نہ ملی تو وہ خود کو زندگی میں کبھی معاف نہیں کریں گے وہ مجبور تھا لیکن بے غیرت تو نہیں تھا۔
جھاڑی سے گزرتے اس کے وائٹ خراب ہوگیا تھا ۔۔۔جھاڑیاں لگنے سے اس کے ہاتھوں سے مسلسل خو۔۔۔خ۔۔۔ون آر رہا تھا۔۔!
پر اسے پرواہ نہیں تھی اسے پروا اس کی تھی جسے گھنٹہ پہلے چھپا گیا تھا۔!
وہ آوازیں پکارتا ان جھاڑیوں سے نکلا تو درخت کے نیچے بیٹھی کانپ رہی تھی ساتھ میں ورد کر رہی تھی۔۔
اشو میری جان وہ بھاگتا ہوا اس کے بیٹھا تھا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا تھا۔۔
سوری ۔۔۔۔۔۔سوری
یا اللہ تیرا شکر ہے ۔۔۔بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا تھا۔
وہ اسے علحیدہ ہوتے اس کے۔ آنسوؤں صاف کر ر رہا تھا جب ٹپ ٹپ شفاف قطرے اس کی ہتھیلی پہ آگرے تھے
اس کا نازک جسم طوفان کی زد میں آتی ڈالی کی مانند لٹک رہا تھا وہ ایک ہاتھ اس کی حجاب سے پن نکالتا اس کا حجاب پلٹ گیا تھا۔۔
اشنال بخت کی زندگی میں یہ دن بھی آنا تھا۔کہ اس نے جنگل میں کچھ دیر اکیلا رہنا تھا
اس کا چہرہ دیکھتے اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ نظر بھر کر اس کا چہرہ دیکھ لے۔۔۔خفا سا اسکا چہرہ تھا اس کی آنکھوں میں شکوہ شکایت تھیں وہ اب اسے اور بیٹھا ہوا تھا۔۔
اس کا پاکیزہ چہرہ دیکھ کر اپنی محبت کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کے کندھوں پر لگی مٹی صاف کی اور جھک کر وہاں پہ لب رکھے تھے ۔۔
اشنال تو فون کی ہلکی روشنی میں اس کا یہ لمس محسوس کرکے بونچکی رہ گئی تھی ۔۔
وہ جو ڈر رہی تھی اس اندھیرے میں ۔۔۔۔اس خوف میں وہ اکیلی جنگل میں رہی تھی۔۔اس سے غصہ اپنی جگہ لیکن ناراضگی اپنی جگہ تھی لیکن اس کا تحفظ سکون دے رہا تھا ۔۔
وہ ٹوٹی ہوئی شاخ کی ما نند ڈھلک کر اس کے کندھے سے آ لگی تھی۔۔
روشنال جو حیران تھا کہ وہ اتنی ناراضگی کے بوجود اس میں چھپ رہی تھی کہ اگلے ہی پل اس کو قمیتی انمول متاع کی مانند بازوؤں کے حلقے میں سمیٹ لیا تھا
ایک طرف نفرت غصہ تھا بیگانگی تھی تو دوسری طرف محبت کے خشک صحراوں پہ خوشیوں کی ابر رحمت ٹوٹ کر برسی تھی۔۔
اس کے مچلتے آنسوؤں اُس نے ہونٹوں سے چنے تھے وہ یکدم کتنی انمول اور کتنی خاص ہوگئی تھی۔
اس کے ایک ایک نقش کو چومتا وہ اپنے حوش و حواس میں نہیں تھا ابھی یہ ہی لڑکی اس کی جان لینے والی تھی ۔۔۔۔اللہ کا کرم ہے تم ٹھیک ہو۔۔۔! یہ کہتے اس کے چہرے کو پھر سے معطر کرنے لگا تھا۔۔
اشنال نے تو اتنی قربت اور اس کھڑوس شخص کا جنون دیکھ کر اپنی رنگت کھو رہی تھی۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔۔! اس کے اتنی جان لیوا قربت میں وہ پھڑ پھڑا کر رہ گئی تھی اور پھر خود ہی حصار سے نکلی تھی
دونوں کے درمیان معنی خیز خاموشی تھی دونوں ہی اپنی کیفیت کے زیر اثر تھے ۔۔
جبکہ روشنال نے اسے خاموش بٹھے دیکھ کر خود اٹھتا جھک کر اسے بازوؤں میں اٹھا لیا تھا۔۔جبکہ وہ اس کے سینے پر مکے مارتی رہ گئی تھی ۔۔
وہ اس کے مکوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی تک لے کہ آیا
اور اسے سیٹ پہ بیٹھایا تھا اور خود چلا کیا تھا۔
اور خود گاڑی کی ڈگی کھول کہ چیک کرنے لگا تھا اشنال جو اس کو دس منٹ گاڑی کے ساتھ لگا دیکھ رہی تھی وہ کار کا دروازہ کا کھولتی اتری تھی۔۔!
اب کیا ہوا ہے ۔۔۔؟ وہ اس کے پیچھے بائیں ہاتھ سے کوئی ٹول اٹھائے سیٹ کر رہا ہے۔۔۔!
گاڑی پنکچر ہے ۔۔۔۔وہ ٹائر چنج کرنا ہے تم فکرمند نہ ہو ۔۔بیٹھو گاڑی میں آر رہا ہوں وہ نرمی سے بولا وہ یہ کہتا ٹائر اٹھا کر نیچے زمین پر بیٹھا تھااور پنکچر ٹائر کو اتارنے لگا تھا ۔۔۔!جب وہ اس کے پاس زمین پر آ بیٹھی تھی
یہ فون پکڑو اور ٹارچ لگاؤ ۔۔۔میں تب تک ٹائر چینج کرلوں۔۔۔۔وہ اسے فون پکڑاتا یہ کہہ کر ٹائر لگانے لگا تھا۔۔
خ۔۔۔۔خون ۔۔۔یہ کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔؟ اشنال نے اب اسکا زخمی ہاتھ دیکھا تھا وہ ہکلا کر رہ گئی تھی۔۔!
بس معمولی سی چوٹ ہے ۔۔۔۔ہوجائیگی ٹھیک ۔۔۔! وہ بے پرواہ سا بنا بولا تھا۔۔!
آپ بہت ہی ظالم ہے ۔۔۔!یہ چوٹ آپکو معمولی لگ رہی ہے آپ انسان ہی ہے نا وہ آگے ہوتی فکرمندی سے اسکا ہاتھ تھام گئی تھی جس میں سے خ۔۔خن اب نکل رہا تھا اس کے ہاتھ کالے سیاہ ہو چکے تھے وائٹ کپڑوں پر داغ کہ نشان ۔۔۔۔۔کشادہ پیشانی پہ بال بکھرے تھے۔۔! چہرے پر بھی ہلکی ہلکی خراشیں تھیں ۔۔
تو کیا کروں پھر ۔۔۔! وہ اسی ازلی لاپروائی سے بولتا اسے دیکھنے لگ پڑا تھا۔
تو ڈریسنگ کروالیں ۔۔۔۔اور کیا کرنا ہے۔۔۔!
یہ تمھارا دماغ پیپر دیتے وقت نکل کر کئی گر تو نہیں گیا تھا اب اس ویران جنگل میں سے ڈاکٹر کہاں سے لاؤں ۔۔۔!
وہ خفگی سے کہتا برہم ہوا تھا۔۔۔
اللہ جی ۔۔۔ وہ سر پہ ہاتھ رکھتی گہری سانس خارج کرتی ہوئی بولی تھی۔۔۔!
ویٹ کریں دو منٹ۔۔۔۔میں آپکو بتاتی ہوں دماغ کس کا نہیں ہے۔۔۔!
وہ یہ کہتی موبائل ہاتھ میں اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی تھی
اور دو منٹ بعد واپس آئی تھی ..
پہلے ہاتھ دھو لیں ۔۔۔۔وہ اسکے پانی سے ہاتھ دھلوانے لگی تھی جس سے خ۔۔۔خو ۔ن اور بہنے لگا تھا۔۔!
اس کے ہاتھ دیکھ کر اشنال کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے اور بغیر پرواہ کیے اپنا حجاب کیا ڈوپٹہ جلدی سے اتار کہ اس کے گرد باندھ دیا تھا۔۔۔
روشنال جب تک سمجھتا وہ یہ کام کر چکی تھی ۔۔۔۔!
وہ اب بغیر ڈوپٹے میں تھی سیاہ لمبے بال جو اس نے خود ڈرائی کیے تھے وہ اب کچھ گردن کے ساتھ لگ رہے تھے اور کچھ چہرے پہ آئے ہوئے تھے۔۔۔!
چہرہ بے داغ ہونے کی وجہ سے لائٹ کی ہلکی روشنی میں اس کو بغیر دیکھتا وہ مسمرائیز ہوا تھا اس کا دل اس حیسن پل میں اٹکا تھا۔کوئی اتنا پیارا کیسے ہوسکتا ہے وہ اس کو دیکھ کر سوچتا رہ گیا تھا۔
وہ کمزور نفس کا مالک نہیں تھا لیکن یہ لڑکی بغیر ڈوپٹے کے کمزور کر دیتی تھی۔۔
ڈوپٹہ کیوں اتارا ہے ۔۔۔۔؟ وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
ک۔۔۔۔کیا میں آپ کو اتنی بری لگتی ہوں کہ ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں وہ پل پل بدلتے اس دھوپ چھاؤں جیسے شخص کو دیکھ کر روہانسی ہوئی تھی اور اس کو دیکھا وہ اسکو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
اشنال شرمیلی سی مسکان لیے شرمائی تھی اورجھک کر اس کے زخمی ہاتھ پہ پہلی دفعہ لمس چھوڑا تھا۔۔
پتہ ہے یہ ہاتھ میرے ستمگر محافظ کے ہیں جو مجھے خود تو پریشان رکھتا ہے لیکن پریشانی میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔۔۔ان ہاتھوں نے صرف اور میری وجہ سے پریشانی سہی ہے آپ صرف برے بنتے ہیں لیکن برے ہیں نہیں۔۔۔۔!
یہ بات اس وقت مجھے پتہ چلتی ہے جب آپ مجھے ڈانٹ کے خود بے چین ہوتے ہیں اور آپ مجھے صرف پردے پہ ڈانٹ رہے ہیں جبکہ میرا پردہ تو آپ خود ہیں ۔۔۔!
بڑی امی کہتی ہیں کہ ہزبینڈ وائف ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں ۔۔۔! شوہر بیوی کا محافظ ہوتا ہے۔۔۔!
اور کیا کہتی ہیں بڑی امی۔۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا اسے سننے کو بے چین تھا یہ تک بھول گئے تھے کہ وہ اس جنگل میں تنہا بیٹھے ہیں ۔۔۔۔
اور اگر تمھارا یہ پردہ بہک گیا تو ۔۔۔۔ تمھیں اس حالت میں دیکھ ۔۔۔۔وہ یہ صرف سوچ ہی سکا تھا۔۔۔!
روشنال شاکڈ تھا وہ اس کو اتنا جج کرتی رہتی تھی یہ اس کو علم نہیں تھا۔۔۔!
سپرمین گاڑی جب ٹھیک ہوگی ۔۔۔۔وہ اس سے دور ہوتی بیٹھ گئی تھی۔۔۔
مجھے تو ٹھیک ہونے کے چانسسز کم لگ رہے روشنال اسے نظریں ہٹاتا ٹائر ٹھیک کرنے لگ پڑا تھا۔۔۔
ہائے اللہ۔۔۔۔اگر گاڑی ٹھیک نہیں ہوئی تو ہم ْساری رات جنگل میں ہی رہیں گے کیا۔۔۔؟
شاید ۔۔۔۔۔کچھ کہہ نہیں سکتا وہ جو اپنا کام کر چکا تھا
اتنا اندھیرہ ہے ویران جنگل ہے اور جانوروں کے بولنے کی آواز آ رہی ہے ۔۔۔!
اب ہم کیا کریں گے سپرمین۔۔۔؟ وہ ٹائر لگا چکا تھا جب اسے اسکی پھر سے سہمی آواز سنائی دی تھی۔۔۔ہرنی جیسی آنکھوں سے دیکھتی اور خوفزدہ سی بات کرتی وہ اسکی دل کی دنیا کو ایک پل میں ہی تہہ و بالا بدل گئی تھی۔۔۔!
رومنیس کریں گے اشو میری جان ۔۔۔! اس نے معنی خیز لہجے میں کہا تھا۔۔۔جبکہ اشنال کی سانسیں رک گئی تھی
آپ مذاق کر رہے ہیں نا۔۔۔۔وہ بے یقینی سے بولنے لگی تھی
آؤ یسو بنجو کھلیں ۔۔۔۔۔۔وہ اس کی حیرت سے کھلتی آنکھیں دیکھ کر بات بدل گیا تھا۔۔
سچی ۔۔۔۔۔اس کی بات سنتی اکسائٹڈ ہوتی کالائپنگ کرنے لگی تھی ۔۔
مذاق اسے کہتے ہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہتا اسے بازوں میں اٹھا لیا تھا اور گاڑی میں لا چھوڑا تھا۔۔۔
اب گاڑی سٹارٹ کی تو گاڑی سٹارٹ ہوگئی تھی ۔۔۔۔اور سنجیدگی سے کار ڈرائیو کرنے لگا تھا وہ راستے میں ہی سوچکی تھی ۔۔۔۔اس کا سر بار بار اس کے کندھے پر آر رہا تھا بال بکھر رہے تھے۔۔۔۔اس نے ایک ہاتھ سے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھا تھا اور گھر کے طرف گامزن ہوا تھا۔۔۔
********
دن گزرتے جا رہے تھے۔۔۔۔وہ شخص دن بدن تلخ ہوتا جارہا تھا۔۔ اور منال اس کی تلخی سزا سمجھ کر قبول کر رہی تھی۔۔۔!
وہ تفسیر سے قرآن پاک پڑھ رہی تھی ابھی وہ عشاکے بعد نماز پڑھ کہ اٹھارواں پارہ ختم کیا تھا جب حسنال روم میں آیا تھا۔۔۔
امی بابا خالہ ، بابا اور آغا جان کہاں ہیں۔۔۔؟ امی بابا اور آغاجان کہاں
بہت ہی مجبوری سے اس سے پوچھا تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ وہ اسے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔۔۔۔! گھر میں کوئی افراد نہ دیکھ کر اُسے پوچھا تھا۔۔۔!
وہ آغا جان خالہ اور بڑے ابو تو صیغیر تایا اشنال اور روشنال کو لینے گئے ہوئے ہیں وہ یہ کہتی بیڈ کی چادر سیٹ کرنے لگی تھی
پھر تو یقنناً روشنال بھائی کے آنے کے سب سے زیادہ خوشی تمھیں ہو رہی ہوگی لیکن کاش میں گھر ہوتا تو آغا جان کو تو روک دیتا اور تمھیں تمھاری چال میں کامیاب نہیں ہونے دیتا کیونکہ تم تو اشنال کو زہر دینے سے بھی ٹلو گی۔۔۔ !
اور م۔۔۔میں ایسا گھٹیا کام کیوں کروں گی وہ میری بہن ہے۔۔۔۔!
چہ خوب کہی ۔۔۔۔جس بہن کو ساری زندگی پاؤں کی جوتی سمجھا ۔۔۔۔اب اس کےلیے حمایتیں ۔۔۔یہ تو حیرت آمیز بات ہےوہ طنزیہ مخاطب ہوا تھا۔۔
تم اتنا گھٹیا سوچتے ہو مجھے تم سے امید نہیں تھی وہ شاک سی کھڑی بول رہی تھی۔
میں گھٹیا سوچتا ہوں یا تم ہو ہی گھٹیا۔۔۔۔وہ دور سے کھڑا ہوتا بولا تھا۔۔۔
اچھا چھوڑو ۔۔۔تمھارے لیے کھانا لگا رہی ہوں کچن میں ادھر ہی آجاؤ۔۔۔!
وہ اس کی بات عادی ہوگئہ تھی وہ مزید بات بڑھانا نہیں چاہتی تھی اس لیے باہر نکل گئی تھی……
ۘوہ کچن میں آیا تو ٹیبل پہ کھانا پڑا ہوا تھا ۔۔۔بنا اس کی طرف دیکھے خاموشی سے کھانا کھانے لگ پڑا تھا۔۔۔۔!
کافی پینی ہے تم نے۔۔۔۔۔؟ اس نے ایک نظر دیکھ کر اُسے پوچھا تھا۔۔۔!
بنا تو دو۔۔۔۔ ویسے میری سوچ بھ کف گھٹیا عورت ہو آج تمھارے حسن کو خراج دینے کا کوئی دل نہیں ہے تم تو خراج لینے کی عادی ہوگئی ہو مگر میں ابھی ان باتوں میں ماہر نہیں ہوں نہ۔۔۔۔! تجربہ تمھیں ہے مجھے باتوں کا آئیڈیا نہیں ہے نا۔۔۔۔۔
میں نے تو ہمدردی میں نکاح کیا تھی ورنہ تم اس قابل کہا تھی۔۔۔۔ وہ اہانت آمیز لہجے میں اسے کہہ کر اپنے غصے کی آگ ٹھنڈی کرگیا تھا ان کے آنے اور اس کے خوشی سے بتانے پہ اس کی سینے میں بھانبھڑ جل اٹھے تھے۔۔۔
وہ جو اس کے جواب کی منتظر تھی اس کی اتنی گری ہوئی بات سن کر اس کی آنکھیں ویران ہوگئی تھی وہ زرد پڑ گئی تھی اس کو سانس لینے نیں دشواری محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد اس کے اعصاب ڈھیلے پڑے تو اپنے لہجے کی بدصورتی کا احساس ہوا تھا۔۔اس محسوس ہوا کی اس نے بہت غلط کہ دیا ہے وہ ایسے جاہل طرزِ عمل کا عادی تو نہیں تھا اس سے پہلے بھی وہ اسے وہ اس کی کتنی دفعہ توہن کر چکا تھا۔۔۔مگر آج کے الفاظ بہت زیادہ سنگین تھے۔۔۔۔
اس کی طرف دیکھا اس کی متوحش ہوتی آنکھیں اور زردپڑتا چہرہ دیکھ کر بہت ہی پیشمانی ہوئی تھی اگر وہ مجرم تھی تو اسے کوئی حق نہیں پہنچتا اس کی کردار کشی کرنے میں۔۔۔۔۔
وہ ساکت سی کھڑی ایسے ہی سپاٹ چہرہ لیے کھڑی تھی
مگر سانس لینے کی کوشش میں اس کی سسکی ابھری تھی ۔۔۔
منال ۔۔۔۔وہ اٹھتا اس کی طرف آیا اور اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتا اسے پکارا تھا جو اب سسک رہی تھی۔۔۔۔ !
وہ جو نیچے دیکھ رہی تھی اس کے ہاتھ پکڑ کر چہرہ اٹھانے سے چہرہ پھیر گئی تھی۔۔۔!
سوری ۔۔۔میں نے بہت غلط الفاظ کیے ۔۔۔۔۔وہ بوجھل لہجہ لیے بولی تھی مجھے ایسے نہیں کہنا نہیں چاہیے تھے۔۔
وہ اس کے کندھے پر دباؤں ڈالتا اس کی بدلتی طبعیت کق دیکھتا گبھرا کر بولا تھا۔۔۔
؎ عادتیں ڈال کر توجہ کی یکدم
جو بدلتے ہیں کمال کرتے ہیں