قسط: 28
سوری مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں نے تمھارے لیے غلط الفاظ استعمال کیے ہیں سوری مجھے ایسا بالکل بھی نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔
وہ اس کے کندھے پر دباؤں ڈالتا اس کی بدلتی طبعیت کو دیکھتا گبھرا کر بولا تھا…
مم۔۔۔۔میں جتنی بھی غلط تھی لیکن مم۔۔۔۔میرا کردار ای۔۔۔ایسا گھٹیا نہیں تھا۔۔۔م۔۔۔سچ میں نے کسی کو نہیں ورغلایا تھا کسی کو نہیں اپنی جانب مائل نہیں کیا ۔۔۔میں حسد پرست ضرور تھی لیکن نفس پرست نہیں تھی حسنال میں ایسی نہیں حسنال یقین کرو میرا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ صلیب پہ ہاتھ رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ پڑی تھی وہ بمشکل سانس لے رہی تھی تم میرا یقین نہ کرو لیکن ایک حسد کی وجہ سے میں نے اپنی ذات دو کوڑی کی کرلی ہے تم نے تو دوستی کے رشتے کا بھی بھرم نہیں رکھا۔۔۔۔۔!
اس بارے میں بعد میں بات کریں گے چھوڑو اس ٹاپک کو فلحال کےلیے۔۔۔۔۔۔!
تمھیں آرام کی ضرورت ہے میں تمھیں روم میں چھوڑ آتا ہوں ۔۔میرے پاس وقت نہیں ہے پھر میں نے نکلنا بھی ہے ۔۔۔۔!
وہ یہ کہے آرام سے اسے روم میں لے آیا تھا اور اسے بیڈ پہ بیٹھایا تھا لہجہ پھر سے تلخ ہوا تھا۔۔
کک۔۔کہاں۔۔۔۔؟ منال اس کے جانے کا سن کر بے یقین سی ہوئی تھی پھر بھی ایک دفعہ کنفرم کرنا ضروری سمجھا تھا۔۔۔
کام پہ اور کہاں۔۔۔۔ حسنال کو اپنی پشت پہ اس کی کانپتے ہوئے ہاتھوں کی سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی
وہ پھر بھی سنگدل بنا ہوا تھا۔۔
پر آج ادھر ہی رک جاؤ نا پلیز۔۔۔۔۔! میں اکیلی کیسے رہوں گی۔۔۔۔منال نے اس سے عرض سی کی تھی۔۔۔
تو اب میں تمھارے گُھٹنے سے لگ کر بیٹھ جاؤں۔۔۔۔وہ تلخی سے بولا لہجے میں نرمی ذرا نہیں تھی۔۔۔!
نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔۔۔! میں روم لاک کرلوں گی وہ اس کی تلخی سے گبھرائی تھی کہ مباداً وہ اسے پھر سے غلط الفاظ نہ کہے۔۔۔۔ !
وہ اسے چھوڑتا صوفے پہ بیٹھتا اپنے لیپ ٹاپ سے ایک کاغذ اور پنسل نکال کہ بیٹھ گیا تھا اور کچھ لکھنے لگ پڑا تھا۔
اس کو دیکھتے منال کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھی وہ
سوچ رہی تھی کہ وہ اسے محبت نہ سہی ہمدردی کے رشتے میں رک جائے لیکن وہ صرف سوچ ہی سکتی تھی کیونکہ وہ نرم شخص اب بالکل بدل گیا تھا جو اُسے معاف کرنے کو تیار ہی نہیں تھا ۔۔
منال کے دل پہ بوجھ سا بنا ہوا تھا اس کا دل متلانے لگا تھا اس ی طبعیت خرابی اسے خود نہیں پتہ تھا۔۔۔!
منال میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔! ڈور لاک کر لو ۔۔حسنال نے اسکو دل پہ ہاتھ رکھے جھکے دیکھا تھا اور اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
وہ اس کی بات سن کر اپنے کانپتے کو سنھبالتی بمشکل اٹھی تھی وہ اس کے پاس سے گزرتی ہی کہ دل نے فریاد کی تھی کہ اس شخص کو ڈھیٹ بن کر ہی روک لو شاید وہ رک جائے وہ اس کو بیگ بند کرتی دیکھ کر پاس آئی تھی اور اس کی پشت پہ بازوؤں کا گھیرا بنائے اس کو سختی سے پکڑ کر کھڑی ہوگئی تھی ۔۔۔اس کی طبعیت خراب ہو رہی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے جسم سے طاقت ختم ہو رہی ہو ۔۔۔آنسو بھی خشک خشک سے آرہے تھے۔
منال۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے تم ٹھیک تو ہو نہ۔۔۔۔! حسنال جو بزی تھا اس کے ایک دم سے ساتھ لگنے سے تشویش مبتلا ہوا تھا اس کا دل اتنے دنوں بعد پہلی دفعہ دھڑکا تھا اس کے کانپتے ہاتھوں کو اپنے سینے پہ دیکھ رہا تھا وہ کس کے اس کو پکڑے ہوئے تھی۔
طبعیت خراب ہے۔۔۔؟ اس کا رخ موڑ کر تھوڑی سے پکڑ کر نرمی سے اسے پوچھا۔۔!
وہ بنا بولے اتنے دنوں بعد اس کی نرمی و التفات پاکر اسکے سینے پہ سر رکھے شدت سے رو دی تھی جبکہ حسنال اس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔۔۔!
وہ کچھ دیر روتی رہی جب اسے ابکائی آئی تھی اس نے جو کھایا پیا اس پہ الٹ دیا تھا وہ اسے دور ہوتے ہوش میں آئی تھی شرمندگی کے مارے نگاہیں ہی نہیں اٹھ رہی تھی نگاہیں اٹھائیں تو اس کو اپنی طرف ہی دیکھتا پایا تھا وہ اس کی نگاہوں کے تاثرات کو پہچان نہیں پا رہی تھی ۔۔۔!
سوری سوری ۔۔۔مم۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا مم۔۔۔۔میں صاف کر دیتی ہوں شرٹ دے دو مجھے۔۔۔
وہ اس لمحہ کو پچھتا رہی تھی جب اس نے اسے روکا تھا وہ پچھلے تین چار دنوں سے اپنی بدلتی طبعیت کےلیے پریشان تھی اس کی طبعیت گری گری سی تھی۔۔
لیکن وہ سوچ رہی تھی حسنال تو اسے پہلے ہی خفا رہتا ہے اب اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔۔۔۔؟
حسنال نے اپنی شرٹ پہ ایک نگاہ ڈالتے اسے دیکھا جس کے لہجے سے شرمندگی ٹپک رہی تھی وہ اس کی نگاہوں کو جھکے دیکھ کر سانس پھیرتا بنا کچھ کہے اسے تھامے باتھ روم چلا آیا تھا ۔۔۔
اب حسنال اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔۔۔اس نے تو جانا تھا وہ اپنے لیٹ ہونے پر اسکے ساتھ خفا ہوگا وہ یہ ہی سوچ رہی تھی ۔۔۔!
اس نے نے اپنی شرٹ اتار کے صاف کی جس پہ منال نے وومٹ کی تھی صابن لگا کہ اپنا کشادہ سینہ دھویا تھا۔
حسنال نے اسے بیسن کے قریب کھڑا اور اسکا نماز اسٹائل ڈوپٹہ کھولا اسے لگا کہ شاید اس کے کس کے ڈوپٹہ کرنے سے ایسا ہو رہا ہے ۔۔۔۔!
اس کو پھر سے ابکائی آئی تھی اس کی جان آدھی ہوگئی تھی اسے لگا جیسے اسکی آنتیں باہر کو آنے لگی ہیں وہ منہ دھوتی پیچھے ہٹی تھی جب حسنال نے ٹاول لاکہ ہلکا سا گیلا کرکے اسکا چہرہ صاف کیا تھا۔۔
وہ گیلا ٹاول کرکے اس کے کپڑوں کو بھی صاف کر رہا تھا اس وقت اس کے لہجے میں نہ کوئی حقارت تھی نہ نفرت تھی اس کو اس حالت میں دیکھ کر الٹا اس کی طبعیت دیکھتا اس کے دل میں ایک اضطراب سا جاگا تھا۔
منال حیرت کی حدوں کو چھوتی اس ستمگر کو شرٹ لیس کھڑے اپنے لیے پریشان ہوتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
کیا یہ کچھ دیر پہلے والا ” حسنال بخت ” ہے ۔۔۔ ؟ کبھی اپنا سا لگتا ہے کبھی پرایا سا ۔۔۔۔کبھی نرم سا ۔۔۔۔ کبھی سرد سا ۔۔۔۔کبھی ایسا مہرباں کہ اس کے لیے جان دینے والا ۔۔۔۔تو کبھی ایسا پتھر دل اس کی جان لینے پہ آمادہ۔۔۔۔۔!
جب کبھی پاس ہوتا تو ایسے لگتا جیسےاس ستمگر شخص کے علاوہ دنیا میں کوئی مہرباں نہیں ہے کبھی ایسا بے نیاز سا۔۔۔۔اُسے ایسا لگتا کہ بھری دنیا میں اکیلی ہو۔۔۔۔! وہ دشمنِ جاں اس کا راز داں تھا مگر اب تو اس کی جاں کا دشمن رہتا تھا مگر تب بھی یہ سامنے کھڑا یہ ظالم شخص اپنے ظلم سمیت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا وہ اس شخص کےلیے اپنے ماں کے ستم سہہ جاتی تھی۔۔
کہاں ملے گی بھلا اس ستمگری کی مثال
ترس بھی کھاتا ہے تباہ کرکے مجھے۔۔۔۔۔۔!
وہ مغرور لڑکی اس شخص کے ظلم سہہ رہی تھی بنا کوئی بھی حرفِ شکایت زباں پہ لائے ۔۔۔۔! وہ مغرور لڑکی اپنا تن من اس پہ وارنے کو تیار ہوگئی تھی صرف اس لیے اسے کہ وہ محبت کہ مرض میں مبتلا ہوئی تھی۔
آج کیا کھایا تھا۔۔۔۔۔۔؟
حسنال جو اس کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے قریب آتا اسے کمر سے تھام گیا تھا اور نرمی سے بولا اور اسکی کمر پر نرم سے ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔۔۔۔!
کھانا ہی کھایا تھا۔۔۔وہ اس کو شرٹ لیس دیکھ کر کانپ رہی تھی جس کی نظریں اس پہ ہی ٹکی ہوئی تھی وہ اپنی خراب طبعیت کو بالکل ہی بھول گئی تھی۔۔۔!
حسنال۔۔۔۔پلیز ڈوپٹہ دو مجھے۔۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ
کر کہتی پھر سے نظریں جھکا گئی تھی۔۔
اس کے سنہری بال آگے پیچھے بکھر گئے تھے حسنال تو اس حسن کی دیوی کو دیکھ کر معبوت ہوا تھا ۔۔۔اس کا حسین سراپا دیکھ کر حسنال کے دل پہ جمی گرد اتار گیا تھا وہ بنا جواب دیے اس کو ساتھ لگا کر اس کے نم بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔۔
اس کے نرم نرم سے لمس پہ منال کو نیند سی آگئی تھی
وہ بمشکل اپنی آنکھوں کو کھولتی اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھام گئی تھی۔۔
پلیز مجھ سے بالکل مت خفا ہونا حسنال ۔۔۔۔! مم۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر بالکل ایسا نہیں کیا تھا میری طبعیت سچ میں خراب تھی وہ ابھی تک شرمندہ تھی وہ اسے دیکھ رہا تھا نیند میں جاتے ہوئے بھی اس کو اسکی ناراضگی کی فکر تھی کیسے وہ اس کی نفرت سہتے سہتے کمزور سی ہوگئی تھی۔۔۔!
وہ جھکا اور اسکی بند آنکھوں پہ لب رکھے تھے منال نے اسکی پشت کو سختی سے پکڑ لیا تھا وہ نیند میں جاتے ہوئے بھی اسکا جھکاؤ محسوس کرسکتی تھی اس لمس میں اس کو بند آنکھوں کے ساتھ بھی لمس سا محسوس ہوا تھا۔۔۔!
اس کے لمبے سنہری مگر بکھرے بالوں سے حسنال کو عشق سا ہوا تھا جو اسکی پشت پہ بکھر سے گئے تھے وہ ان لمحوں کو محسوس کرنے لگا اس کے بالوں سے اٹھتی شمیو کی خوشبو اس کو دیوانہ کر رہی تھی۔۔۔۔!
منال اٹھو۔۔۔ اب کی بار حسنال نے اسکا چہرہ تھپتھایا تھا
اس کی آنکھیں بند تھیں حسنال بخت کو وہ اضمحلال و اضطراب کا کھلا شہکار لگی تھی وہ دیکھتا رہتا تھا وہ جو ہر روز نیا سوٹ پہنتی تھی اب ہفتہ ہفتہ ایک ہی سوٹ میں گزار دیتی تھی وہ اس اسے بغور دیکھنے لگ پڑا تھا آنکھوں تلے گہرے حلقے، خشک پڑتے ہونٹ مگر وہ اس قدر مکمل حسن رکھتی تھی اس مرجھائے ہوئے روپ کے باوجود بھی اس کے ارگرد پرنور سی سنہری عکس زدہ شعاعیں محسوس ہو رہی تھی۔
میں تمھارے کپڑے لے آتا ہوں تم چینج کرلو تم تب دانت برش کرلو ….! وہ اسکا چہرہ تھپتھاتا ہوا ہولے سے بولا جس سے وہ آنکھیں کھول گئی تھی اور اس کو قریب دیکھ کر ہوش میں آئی تی۔۔۔۔!
دانت برش کرلیے۔۔۔۔؟
وہ اسے سٹول پہ بیٹھا کہ اس کے کپڑے لینے روم میں آیا تھا اور اس کے کپڑے لے کر پھر سے باتھ میں آیا اور اسے پوچھا تھا اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
تم شاور لے کر چینج کرلو۔۔۔۔! میں روم میں ہی ہوں گا بس آواز دے دینا مجھے۔۔۔!
وہ یہ کہتا ڈور باہر سے لاک کرتا نکل گیا تھا منال اس کو نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ کر ہمت کرکے اٹھی تھی۔
دس پندرہ بعد وہ شاور لے کر وہیں بیٹھ گئی تھی اپنے ہاتھ میں ہمت لا کر فراق کی الٹی سیدھی ڈوریاں بند کی اور ڈوپٹہ اپنے گرد پھیلا لیا تھا اس کی ہمت نئی ہوئی تھی اسے پکارنے کی وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی اسے سردی سی محسوس ہونے لگی وہ ڈوپٹہ کور کرکے بیٹھ گئی تھی۔۔۔
منال منال….! اسے لگا کہ اس کی طبعیت خراب نہ ہوگئی وہ جو باہر پرسکون سا بیٹھا تھا اندر سے آواز نہ پاتا دیکھ کر باتھ آیا اور ناک کیا تھا اور پھر خود ہی کھولاتھا اس کی سوچوں کے عین مطابق وہ ٹیک لگائے بیٹھی کانپ سی رہی تھی اور دیوار کے ساتھ سر ٹکائے غنودگی میں جا رہی تھی ۔
ادھر کیوں بیٹھ گئی ہو پاگل لڑکی۔۔۔۔مجھے آواز لگا لیتی تو میں آجاتا نا ۔۔۔۔۔وہ اس کو کانپتے دیکھ کر متفکر سا تھوڑا غصہ ہو کر اونچا بولا تھا جس سے اس نے آنکھیں کھولی تھی۔۔۔۔۔۔!
میں نے کوشش کی تھی لیکن مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی وہ دھیمی سے لہجے میں بولتی اس کا دل دھڑکا چکی تھی اسے کانپتا دیکھ کر نفی میں سر ہلاتے اسکو بازوؤں میں اٹھا لیا تھا۔۔۔!
منال نے اس کی گردن میں منہ چھپایا تھا اپنے دونوں بازوؤں کو اس کی گردن کے پیچھے وہ اس کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی۔۔۔
اس کو کانپتا دیکھ کر اسے بیڈ پہ بیٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تو اس کے ساتھ جیسے چمٹی بیٹھی تھی
منال ۔۔۔دو تین دفعہ پکارا لیکن کوئی جواب نہیں آیا تھا اسے لگا کہ وہ جان بوجھ کر رہی ہے اس لیے جھک کر اسے دیکھا تھا لیکن وہ گہری نیند میں تھی ۔۔۔!
کمفرٹ کھینچ کر اس کے اوپر ایسے ہی کر دیا تھا وہ ساتھ میں خود بھی آدھا کوور ہوگیا تھا۔۔۔!
یار کیا مصبیت ہے اب ۔۔۔۔؟ وہ اسے دیکھ کر اب سچ میں جنجھلایا تھا وہ اس کو ساتھ لگا دیکھ کر غصہ ہو رہا تھا جو اس کا ضبط آزما رہی تھی نہ اسے اٹھنے دے رہی تھی اور نہ لیٹنے۔۔۔وہ اس لیے گھر نہیں آتا تھا کہ وہ لڑکی اسکا ضبط آزماتی تھی اسکی سادگی ہی اس کو آزماتی تھی ورنہ اسے آج تک یاد نہیں پڑتا تھا کہ وہ صیح تیار ہوکر اس کے سامنے آئی ہو ۔۔وہ خود سادہ دل مرد اس کی سادگی سے ہی بہک جاتا تھا اب وہ اسے مکمل طور پہ آزما رہی تھی ۔۔۔
اس نے زبردستی اس کے بازؤں اپنی گردن سے آزاد کروائے اور خود آگیا دوسری سائیڈ پہ آکے منال کی طرف بیک کرکے لیٹ گیا تھا تھوڑی دیر وہ ضبط کے پہرے بیٹھا کہ لیٹا رہا جب اسکا ہاتھ اپنی گردن پہ محسوس ہوا تھا۔۔۔
اس نے سر اٹھا کہ دیکھا تو وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی
حد ہے ویسے۔۔۔ دل کر رہا ہے دو کھینچ کر لگاؤں وہ بڑ بڑایا تھا اس کا دل کیا دو کھینچ کر لگائے جو اسے سونے ہی نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔!
وہ ہاتھ آنکھوں پر رکھے پھر سے لیٹ گیا تھا مگر نیند تھی آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اس نے سر پٹخ کر منال کی طرف رخ کیا تھا لیکن اس کی بیک اس کی طرف تھی
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو کھینچ کر اپنے قریب کرلیا تھا
وہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا تھا جو خود تو چین میں تھی لیکن اب اسے بےچین کیا ہوا تھا۔
پتہ نہیں تم میں ایسی کونسی مقناطیسی کشش ہے کہ میں نا چاہتے ہوئے تمھاری طرف کھنچتا چلا جاتا ہوں منال حاکم بخت ۔۔۔۔!میں جانے انجانے میں ہی تمھارے سحر میں گم ہوجاتا ہوں ۔۔۔۔ میں موقع دینا چاہتا ہوں تمھیں کہ تم اپنی بےگناہی کا یقین دلواؤں مجھے ۔۔۔!
میں تمھارے ساتھ ایسا سلوک کرتا نہیں چاہتا تھا تم اتنی بے مایہ ہرگز نہیں ہو منال حاکم بخت کہ تمھاری تذلیل کی جائے اور اس روپ میں تو بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔!
تم ہر روپ میں قابلِ عزت ہو میرا یہ دل تمھاری اسیری کا بہانہ ڈھونڈتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تمھیں ایک موقع دوں تم مجھے اعتبار دلواؤں۔۔۔۔ !
وہ اس کے پرسکون چہرے کو دیکھتا اس کی ماتھے پہ انگلیوں سے اپنا نام لکھتا ہوا اس کی بند آنکھوں کو دیکھتا بڑبڑایا تھا۔۔
پھر تقربیاً دو گھنٹے وہ بہت ڈسڑب رہا تھا کیونکہ وہ چہرہ کبھی اس کے بازؤں پہ رکھتی تو کبھی اس کی پشت کے ساتھ ٹکا لیتی اور کبھی اس کے سینے میں دے مارتی ۔۔۔۔! اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ صبح سارے حساب بےباک کرے گا۔۔۔
وہ یہ سوچتے سوچتے نیند کی وادیوں میں کھویا تھا اسے خود بھی نہ پتہ چلا تھا ۔۔۔۔
*****
سپرمین…………سپرمین اُس نے دو تین دفعہ پکارا تھا وہ کوئی جواب نہ پاکر اس کے روم میں آئی تھی لیکن وہ یہاں بھی نہیں تھا۔۔۔۔
لگتا ہے باہر چلے گئے ہیں ایک تو بتا کر بھی نہیں جاتے صرف اور صرف مجھے تنگ کرنے کےلیے ایسا کرتے ہیں
مجھے کیا ہے میں تو اپنے روم میں سونے جا رہی ہوں ۔۔۔!
جب آئے گے تو خود ہی کھانا کھالیں گے ۔۔۔۔!
وہ بڑ بڑاتی ہوئی اپنے روم میں چلی آئی تھی اور ڈور بند کرکے بیڈ پہ آکہ لیٹی ہی تھی۔۔۔
جب لائٹ آف ہوئی تھی ہائے اللہ اب میں باہر کیسے جاؤں گی وہ ابھی اٹھتی ہی کہ اسے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا وہ اٹھی تھی بھاگنے کےلیے جب کسی نے اسے بازوؤں سے پکڑ پھر سے بیڈ پہ پھینکا تھا اس کو لگا کمر ٹوٹ گئی تھی درد اسکے منہ سے سسکی نکلی تھی ۔۔۔۔!
ک۔۔۔۔کون ۔۔۔کون ہو تم ۔۔۔اس کے حلق سے آواز ہی خوف کے ماری پھنسی پھنسی سی نکلی تھی اس سے اپنی آواز کھوئی کھوئی سی محسوس ہوئی تھی اسے اپنی عزت کا بھی خطرہ محسوس ہوا تھا بےبسی سے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں نکلنے لگے تھے۔۔
اس شخص کی گرفت اپنے بازوؤں پہ ہلکی دیکھ کر وہ اٹھ کر بھاگتی کہ پھر سے کلائی سے کھینچ کر اس شخص کے اوپر گری تھی۔۔۔
مانوس سی خوشبو محسوس کرتے جہاں اس کی جان میں جان آئی تھی وہی خفگی بھی در آئی تھی وہ اس کے سینے پر سر اسکی قمیض سے ہی اپنے رویا رویا چہرہ صاف کرنے لگی تھی۔۔
بہت بہت برے ہیں آپ ۔۔۔بب۔۔۔بہت بڑے ظالم۔۔۔کوئی ایسا کرتا ہے معصوم جان کے ساتھ۔۔۔آپ بہت پتھر دل ہے سپرمین تو ایسا نہیں ہوتا۔۔۔
؎ ہم پتھر ہی سہی مگر پارس جیسے
کسی روز ملو ہم سے تمھیں سونا کر دیں
وہ گمبھیر لہجے میں کہتا اس کی ننھی سی جان کو ہوا کرگیا تھا اب بتاؤں اس پارس کے ہاتھوں سونا ہونا چاہتی ہو۔۔۔وہ پھر سے بھاری آواز میں بولا تھا وہ اسے پتھر کہہ کر پچھتائی تھی وہ کیوں بھول جاتی تھی کہ وہ شخص لاجواب کرنے کےلیے تو اس کی زندگی میں آیا تھا۔۔۔
آپ۔۔۔۔۔آپ م۔۔میرے روم میں کیا کر رہے تھے وہ اس کا دھیان بٹانے کی خاطر اونچی مگر نم آوز میں بولی تھی۔۔۔!
دراصل تم میرے روم میں نہیں سوسکتی یہ طے ہوا تھا
کہ تمھیں میرے روم میں سونے سے مسئلہ کہ میں کئی بہک نہ جاؤں۔۔۔۔!
لیکن میں تمھارے روم میں تو سو سکتا ہوں نا ۔۔۔۔یہ طے تو نہیں ہوا تھا وہ شریر سے لہجے میں بولا تھا۔۔
مگر آپ کو اپنے بستر کے علاوہ تو نیند ہی نہیں آتی آپ کیسے سوئے گے ادھر ۔۔!
سچ بتاؤں یا جھوٹ ۔۔۔۔۔؟ وہ اسے اٹھاتا اس کے گرد حصار باندھتا لو دیتی جذبوں کی آنچ سے بولا ۔۔!
صرف سچ…………! وہ صرف یہ ہی بولی جیسے جھوٹ سننا اسے پسند نہ ہو ۔۔۔۔۔!
تو سچ یہ ہے میری جان ۔۔۔۔۔! کہ اب مجھے اپنی بیوی کے بنا نیند نہیں آتی وہ کمرہ کاٹ کھانے کو ڈورتا ہے ۔۔۔۔! وہ اناؤں کا شہزداہ یہ تسیلم کر رہا تھا کہ اس کہ بغیر اس کی بھی زندگی نہیں ہے۔۔۔
نہ کریں ۔۔۔۔۔وہ اس کے حصار کھوئی کھوئی حیرت زدہ سی بولی تھی۔۔
ہاں کریں ۔۔۔۔۔وہ اس کی بات سنتا مسکراتا ہوا بولا تھا۔۔
اب کب سے یہاں تھے اور میرے روم میں کیا کر رہے تھے وہ اسے علحیدہ ہوتے جواب طلب لہجے میں بولی تھی۔
میں نے تو ادھر ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے کا یونیک سا پلان بنایا تھا۔۔۔لیکن مجھے یہاں اب مجھے بالکل بھی ارادے نہیں لگ رہے اور کامیابی کے چانسز بھی بالکل زیرو لگ رہے ہیں لہذا آج سیگریٹ ہی پھونکوں گا۔
وہ اس کی بات سنتی جھٹ سے علحیدہ ہوئی تھی اسے منہ زور شخص کی بات سن کر اسے اپنے کانوں سے دھواں چھوٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔۔
میرے کمرے سے نکل جائیں ایک منٹ کے اندر اندر۔۔۔یہ نہ ہو کہ میں کوئی شے دے ماروں آپ کے سر پر۔۔۔۔! وہ اس کی معنی خیز باتوں سے پہلے تو گھبرائی تھی لیکن پھر جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی تھی۔۔۔!
اوکے گڈ نائیٹ جا رہا ہوں میں ۔۔۔۔! لیکن پلیز اپنی تصویر تو کوئی دے دو ۔۔ اس نے ڈور کے پاس پہنچ کر لائٹ آن کی تھی ۔
اور وہ کیوں چاہیے آپکو وہ جو اس کے اتنے جلدی جانے پر حیران ہوئی تھی اس کی فرمائش پر ہکی بکی رہ گئی تھی ۔۔۔
جاناں نہ سہی تصویرِ جاناں سے ہی دل بہلاؤں گا ساتھ میں سیگریٹ بھی پھونک لوں گا۔۔وہ آرازدہ زدہ سا کہتا شیو پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو مزید تپا گیا تھا وہ مڑنے لگا جب وہ پھر واپس پلٹا تھا۔۔!
اچھا بات سنو یسو پنجو کھیلو گی ۔۔۔۔! ایکچولی میں آیا تو یسو پنجو ہی کھیلنے تھا وہ اس کی دل کی بات کہہ رہا تھا۔۔
آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔۔وہ اپنی حیرت کو چھپاتی سنجیدگی سے بولی تھی اس کی ہرنی جیسی آنکھیں کھل کر بڑی ہوگئی تھی اسے لگا وہ مذاق کر رہا ہے وہ اتنا بڑا بزنس ٹائیکون اسے چھوٹے سے کھیل کےلیے پاس آیا واقعی مقامِ حیرت تھا ۔۔۔
نہیں بالکل سچ ۔۔۔۔اگر نہیں یقین تو آزما لو یار۔۔۔۔! تم حیراں تو ایسے ہو رہی ہو جیسے میں اجنبی ہوں اور تم سے مخاطب ہوں۔۔۔۔!
حیرت کی بات تو ہوگی نا۔۔۔۔! آپ اتنے بڑے وکیل اور بزنس ٹائیکون ہوکر مجھ جیسی ادنیٰ لڑکی کے ساتھ یسو بنجو کھیلنے کا کہہ رہے ہیں وہ دل کی بات آخر کار منہ پہ ہی لے آئی تھی۔
بیوی کے سامنے تو بڑے بڑے سورماں ہار جاتے ہیں اس کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں میں تو ادنیٰ سا وکیل ہوں ۔۔وہ یہ کہہ کر ہلکا سا مسکرایا ۔۔۔مسکراہٹ بھی ایسی جو کسی کو قاتل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی۔
اشنال کو اپنے دل کی دھڑکنیں کانوں میں سنائی دینے لگیں تھیں۔۔
کھیلو گی نا میرے ساتھ ۔۔۔۔ ! کھیلنے سے پہلے شرط یہ ہے جو ہارا جتینے والا شخص اس کی سزا کو تعین کرے گا ۔۔۔!
منظور ہے اشنال نے مسکرا کر کہا تھا کیونکہ وہ بھی کھڑوس شخص کے ساتھ اتنے مہینوں بعد ایڈوینچر کرنا چاہتی تھی آج ہی تو اسے وہ بدلا بدلا لگ رہا تھا۔۔
چلو ٹھیک ہے ادھر آؤ۔۔۔۔وہ دھیمی چال چلتا بیڈ پہ بیٹھا تھا اور ہاتھ سے پکڑ کر اسے اپنے پاس بیٹھایا تھا۔
سٹارٹ کریں وہ اس کے ہاتھوں کو تھامے مضبوطی سے بولا اشنال ایک نظر اس کے مضبوط میں ہاتھوں میں دبے ہاتھوں کو دیکھا تھا اور اسے فخر سا ہوا تھا اس نے اس کے ہاتھ کو ہوا میں اچھال کے بیڈ پہ رکھا تھا۔۔
اس نے گنا تو پہلے دو تین مرتبہ ایسے ہی گئی تھی کیونکہ وہ صرف دو تھے لیکن پھر پہلے اشنال جیتی تھی اس کی خوشی دیدنی تھی۔۔
اب سزا مقرر کرو میری جانم ۔۔۔۔! وہ اس کو خوش دیکھ کر س کے چہرے پہ قوس و قزح کے رنگوں کو دیکھتے دھیرے سے بولا تھا۔۔۔!
آپ سٹ اسٹینڈ کریں سپرمین ۔۔۔۔۔وہ ہوشیاری سے بولی تھی۔۔۔۔!
اچھا چھوڑیں یہ نہ کریں ۔۔۔۔وہ خود ہی بولی تھی صرف اور صرف اس لیے کہ وہ اسے جھکانا نہیں چاہتی تھی۔
کیوں نہ کروں اب تو میں کروں گا۔۔۔۔وہ ضدی سا ہوا ۔۔۔!
میں تو پنشمنٹ دیتا ہوں وہ بھی سخت سی ۔۔۔۔! اس لیے مجھے سزا دینی ہے تو دو اس طرح تو کھیل کا مزا نہیں آتا۔۔۔
سچ میں اگر میں ہاری تو آپ مجھے پنش دے گے مارے گی بھی ؟۔۔۔۔۔۔وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھرتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
ہوں سچ میں تو کوئی رعایت نہیں دیتا میری سزا تو سخت ہوگی۔۔۔۔! وہ اپنی مسکراہٹ دباتا سختی سے کہنے لگا۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے آپ مجھے پنش دے دیجئے گا لیکن میں آ کو پنش نہیں دے سکتی ۔۔۔۔! وہ سنجیدگی سے بولی تھی۔۔۔!
اس نے پھر سے ہاتھ کیا تھا تو اس دفعہ روشنال ہی جیتا تھا وہ اسکے جیتتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو باندھ گئی تھی۔۔۔۔
روشنال بغور اپنے سامنے بندھے اس کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھنے لگا تھا جس کے ہونٹ بھی کانپ رہے تھے اس پیاری کو دیکھتا وہ اس کے بندھے ہاتھوں کو دیکھتے ہاتھ اونچے کیا تھا روشنال کو لگا کہ وہ اب مارنے لگا ہے ۔۔۔۔!
کھڑوس اس کے منہ سے بڑبڑاہٹ سے یہ ہی نکلا تھا ۔۔۔روشنال نے ہاتھ بڑھا کہ اسے کمرکے پیچھے ہاتھ لے جا کر اپنی طرف کھینچا اس کے زور سے اپنی طرف کھینچنے سے اسکا ڈوپٹہ سر سے اتر گیا تھا وہ دومنٹ میں اس کا حلیہ بگاڑ چکا تھا ۔۔۔۔!
میری پنشمنٹ شاید تمھیں پسند نہیں آئی وہ اس کے بکھرے بال سیٹ کرتا گھمبیر سے لہجے میں بولا تھا۔۔
اشنال کا تنفس بگڑا تھا وہ اسے پیچھے ہوتی جھک کر سانس لے رہی تھی وہ تھوڑی سی نارمل ہوئی تھی جب وہ اس کی طرف پھر جھکنے لگا تھا جب وہ پھرتی سے باہر بھاگنے لگی تھی ۔۔۔۔
روشنال اس کو اٹھتا دیکھ کر اس کے پیچھے ہوتا اس کو کمر سے پکڑتا پھر سے اپنی طرف کھینچ کر اسے اپنے ساتھ لگایا گیا تھا۔۔
چھ۔۔۔۔۔چھوڑیں آپ بہت گندے انسان ہیں میں تو آپکو ڈیسنٹ ہی سمجھتی تھی۔۔۔ ! مگر مجھے نہیں پتہ تھا آپ اتنے ٹھرکی نکلیں گے ۔۔۔۔۔!وہ بھرپور مزاحمت کر رہی تھی
بیگم اب آپ کو بتائیں گے کہ اصل ٹھرکی ہونا کسے کہتے ہیں آپ نے ہمیں ہلکے میں لیا ہوا تھا۔۔۔؟ وہ اسکے بالوں سے کیچر کر نکال کر چھپاتے شریر سے لہجے میں بولا تھا۔۔۔
اشنال کی سمجھ میں نہیں آیا کہ منہ زور شخص کو قابو کیسے کریں ۔۔۔۔ ! لیکن ایک منٹ دیر کیے بغیر وہ اپنے دانت اس کے کشادہ سینے میں گاڑ چکی تھی ۔۔۔۔!
صبر کرو جنگلی بلی ۔۔۔۔! وہ جو اسکے سحر میں کھویا ہوا تھا اس کے کاٹنے سے اس کی گردن پہ جھکنے لگا تھا ۔۔۔۔!
جب ڈور بیل کی مسلسل آواز سے اس کے سحر سے نکلا تھا۔۔۔! وہ جلدی سے پیچھے ہٹتا اس کے سر پہ ڈوپٹا کرا گیا تھا۔۔۔!
ریلکیس یار۔۔۔۔۔۔! لگتا ہے فرقان ہے ۔۔۔۔وہ اس کے ماتھے پہ لب رکھتے پھر سے سنجیدگی کے خول میں سمٹتا باہر نکلا تھا۔۔۔!
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑی ہستیوں کو دیکھ کرساکت رہ گیا ۔۔۔۔۔!
آپ اس وقت۔۔۔۔۔۔! وہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اتنی رات کو وہ ادھر آئیں گے۔۔۔۔۔! اس نے تو ابھی اشنال کو اعتماد میں ہی نہیں لیا تھا۔۔۔