تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 29

آپ لوگ اس وقت ۔۔۔۔۔؟
وہ متفکر و پریشان سا کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا کیونکہ ابھی اس نے اشنال کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
السلام علیکم ۔۔۔۔۔شیر جواں۔۔۔۔!
وعلیکم سلام شیر جواں صیغیر صاحب نے آگے ہوکہ بہت ہی گرم جوشی سے گلے سے لگایا تھا۔۔۔!
پلیز آپ اندر آ جائیں رات کافی ہوگئی ہے۔۔۔! اتنی رات کو مناسب نہیں لگتا وہ ڈور سے ہٹ کر انھیں راستہ دیا تھا۔
اور ڈور بند کرکے واپس پلٹا تو آغا جان کو اپنے پیچھے کھڑا پایا تھا۔۔!
اتنا خفا ہوگیا ہے کہ میری طرف دیکھ ہی نہیں رہا ۔۔۔! اس نے ان کی طرف دیکھا جو لاٹھی اٹھائے کمزور نحیف سا شکوہ کر رہے تھے۔۔۔
وہ بنا کچھ کہے پیچھے مڑتا انا کی فیصیل کو ختم کرتا بہت ہی گرم جوشی سے ان کے گلے لگا تھا اور آغا جان کی تو آنکھوں سے تو آنسوؤں پانیوں کی طرح نکلنے لگا تھا وہ ان کے ساتھ لگا ان کی پشت کو سلاتا دلاسا سا دے رہا تھا۔
آغا جان آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے ۔۔۔۔! میرے ساتھ آئیں وہ انھیں تھامے لیے لاونج کے صوفوں پر لے آیا تھا ۔۔۔۔! ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔!
آپ آنے سے پہلے مجھے کنفرم تو کر دیتے میں آپکو خود لینے آجاتا وہ آغا جان کے ساتھ ان کی تھکن کو دیکھتا ماں باپ سے شکوہ زدہ لہجے میں بولا تھا۔۔
دراصل آج ہمارا سارا دن بازار میں گزرا ہے تو اس لیے آتے آتے دیر ہوگئی تھی
میری بیٹی کہاں ہے نظر نہیں آرہی ۔۔۔!کئی سو تو نہیں گئی وہ اردگرد نگاہیں ڈوارتی بے تابی سے بولنے لگیں تھیں۔۔۔۔!
اوہ سوری میں آپکی بیٹی کو بلا کہ لاتا ہوں وہ مسکرا کہتا اشنال کے روم میں آیا تھا۔
اشنال۔۔۔۔۔اشنال اس نے پکارا لیکن وہ روم میں تھی باتھ سے پانی گرنے کی آواز آ رہا تھا۔۔
وہ دومنٹ ادھر ہی کھڑا رہا جب وہ فولڈ ہوئی شرٹ کے بازوں کو باہر نکلی تھی وہ شاید وضو کرکے آئی تھی روشنال کو پتہ چل گیا تھا کہ وہ ان لوگوں کی موجودگی سے لا علم ہے
اشو ادھر آؤ بات سنو میری ۔۔۔۔؟ اس نے ٹھہرے اور محتاط لہجے میں اسے پکارا تھا۔۔!
جی بولیں۔۔۔۔؟ ڈور پہ کون تھا ویسے ؟
وہ اس کے قریب آتی ڈوپٹہ کو سیٹ کرتی آرام سے کہنے لگی تھی نگاہیں اٹھا کر بات وہ ہولے سے بولی اس کے نگاہوں میں روشنال بخت کےلیے احترام ہی احترام تھا۔۔
مجھے تم سے کچھ کہنا تھا۔۔وہ لہجے کو تول تول کر بول رہا تھا۔۔
آپ کو کوئی ضروری بات کرنی ہے تو میں سن لیتی ہوں لیکن میں آلریڈی لیٹ ہوں نماز سے۔۔۔! اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں پہلے نماز پڑھ لو۔۔۔؟
باہر امی بابا اور آغا جان آئے ہوئے ہیں تم ان سے مل کہ آجاؤ پانچ منٹ لگے بعد میں نماز پڑھ لینا۔۔۔!
وہ اسے صاف لہجے میں کہتا مگر نظریں چراتا کہہ گیا تھا وہ اس کے رئکشن بھی سوچ رہا تھا۔۔
اشنال بے حس بن گئی تھی جیسے اس کی بات سنی ہی نہ وہ اسٹیچو بن کر کھڑی ہوگئی تھی ۔
چپ کیوں ہوگئی ۔۔۔! آؤ نہ پہلے بابا مما سے مل آؤ۔۔۔۔۔!
وہ اس کے جامد تاثرات دیکھتا سمجھ کر ناسمجھی سے کہنے لگا تھا۔۔۔
وہ کیوں آئے ہیں اب یہاں۔۔۔۔؟ اشنال نے تلخی سے کہا تھا آنکھوں میں واضح نمی چمکی تھی۔۔
اچھا میرے ساتھ تو آؤ۔۔۔! وہ کب سے ویٹ کر رہے ہیں اس طرح اچھا لگتا وہ کیا سوچیں گے ۔۔۔وہ اسے بے حس و حرکت لیے تھامتا ہوا لاونج میں لے آیا تھا۔
السلام علیکم میراکیسا بچہ ہے۔۔۔۔؟ سب سے پہلے تہمینہ بیگم ہی اٹھیں اور اس کو گلے لگایا تھا ۔۔۔
جی ٹھیک ۔۔۔۔۔اس نے ان کی گرم جوشی کو دیکھتے پھیکے سے لہجے میں جواب دیا تھا صیغیر صاحب اس کو دیکھتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔۔
تایا ابو سے ملنے کے بعد ایک نظر آغا جان کو دیکھا تھا جو وہ اسے لے کر صوفے پہ بیٹھی تھی اس نے ایک بے تاثر اٹھا کر آغا جان کی طرف دیکھا جن کی نگاہوں کو و ہ پہچان نہیں سکی تھی آج اسے ان آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نظر نہیں آ رہی تھی بس بے بسی تھی اشنال ایسے بے تاثر کھڑی رہی ۔۔
وہ اٹھے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھنے لگے تھے جب اشنال ایک دم سے پیچھے ہٹی تھی آغا جان کا ہاتھ ہوا میں ہی تحلیل رہ گیا تھا۔
اشنال کو جیسے کسی بچھو نے ڈنک مارا تھا وہ ان کے ہاتھوں کے لمس سے نا واقف تھی اسے وہ ہاتھ لوہے کی مانند بھاری اور چھری کی تیز دھار سے بھی لگے تھے جیسے وہ ہلکے سے بھی اسے لگے خون تو لہو رسنے لگ پڑے گا۔
وہ تڑپ کر دور ہٹی تو آغ جان سب اسے دیکھنے لگ پڑے تھے روشنال جانتا تھا کہ وہ حق پر ہے لیکن اسے آغا جان کی کنڈیشن کو دیکھ کر ترس آر رہا تھا۔
آغا جان میں پوتی کا رئیکشن دیکھ کر احساس بڑھتا لگا تھا وہ اس کے آگے ہوئے تھے۔۔
مم۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔معاف ۔۔۔۔۔کر ۔۔۔ ان کا لہجہ آج کئی سالوں بعد لڑکھڑایا تھا وہ بول نہیں سکے تھے ان کے ذہن میں بیٹے کی بات گردش کی تھی جب انہوں نے کبیر صاحب کو بے دردی سے گھر سے نکالا تھا تو ان کے آخری الفاظ ان کے ذہن میں نقش ہوگئے تھے لیکن آج دماغ نے کھرچ کھرچ کر ان الفاظ کو ادھیڑا تھا انہوں نے جاتے وقت بس یہ ہی کہا تھا کہ آغا جان کسی سے اتنی نفرت مت کریں یا غصے میں آکر اس کہ دل پہ اتنے زخم نہ لگاہیں کہ بعد میں اسے معافی مانگتے ہوئے بھی آپ کو نگاہیں اٹھاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو۔۔۔ اور آج وہ بری طرح پچھتا رہے تھے۔
معافی ۔۔۔۔۔کس بات کی ۔۔۔ معافی مانگیں گے مسٹر بخت۔۔؟ یا کسی بات پہ معاف کروں۔۔۔؟
اپنے ماں باپ کی جدائی سہنے پر۔۔۔؟ اپنی بچپن کی محرومیوں پر ، آپکی نفرت پر، سویتلی ماں کے ظلم وستم پر۔۔۔۔۔ ؟ اپن کر دار کشی کی ، اپنے کر دار کی ، اپنی مری ماں کے کر دار کی ، اپنی احساس کمتری کی ؟
اپنے سیاہ راتوں کی ڈر کی ۔۔۔۔؟ یا اپنے گزرے ہوئے بارہ سالوں کے نقصان پر ۔۔۔۔؟ کس کس بات کی معافی مانگیں گے آغا جان ۔۔۔۔۔؟ وہ پھٹ پڑی تھی آغا جان تو بولنے کے قابل ہی نہیں رہے تھے۔۔ !
کیا آپکے اپنے ضمیر نے ایک دن ملامت نہیں کی تھی کہ میں آپکا خون ہوں پتہ ہے جب آپ حسنال اور منال کےلیے چیزیں لے کر آتے تھے تو میں بھی آپکو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی آپ خیرات میں ہی سہی مجھے ڈول یا ڈریس وغیرہ دے دیں گے وہ میرے اندر کا لالچ نہیں تھا وہ میری محرومیوں ۔۔۔!
؎ اپنے ماضی کی تصویر سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے۔۔۔💔
مجھے چیزوں کا لالچ نہیں مجھے پیار کا لالچ تھا آپ شاید اس لیے انہیں میرے سامنے پیار کرتے تھے میں آپ سے مانگنے آؤں گی لیکن سچ میں آغا جان مجھے ان مصنوعی چیزوں کا شوق نہیں تھا۔
میں تو اپنے باپ کی ریاست کی مغرور شہزادی تھی جس نے اپنی زندگی میں اپنی ساری سلطلنت میرے نام کی تھی اپنا ایک ایک پل ، ایک ایک منٹ انہوں نے سب کچھ میرے لیے قربان کیا ۔۔ جس دن ان کی بند آنکھیں دیکھی تھی اس دن ہی سمجھ گئی تھی کہ ان کو اکسیڈنیٹ نے نہیں مارا بلکہ جدائی ، تلخی اور فکر نے مار دیا ہے اس دن ہی اس دل کو سمجھا لیا تھا کہ میں اس باپ کی بیٹی ہوں جو صرف انا کی نذر ہوا ۔۔۔۔
جس کو اس کے اپنوں کی انا نے مار ڈالا ۔۔۔۔اس دن اس دس سال کی بچی صرف یتیم نہیں ہوئی تھی بے گھر ہوئی تھی اس دن آغا جان میں چھت کی تلاش میں بخت ولا نہیں گئی تھی میں سہارے کی تلاش میں گئی تھی چھت تو مجھے آرفن ہاوس میں مل بھی جاتا۔۔۔ میں تو بس آوارہ بننے سے بچنا چاہتی تھی لیکن اپنی ذات کو سمیٹ کر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔۔۔۔! جیسے ہی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تو اسی ذات کو سب نے اپنے الفاظوں سے توڑ بکھیر کر بھیڑ بکری کی طرح راہ لگادیا تھا آج پھر معافی مانگنے آ گئے ہیں کہ گھر چلو۔۔۔؟ آج پھر سے مجھے اپنانے کےلیے تیار ہوگئے ہیں وہ آج ڈھارتی ہوئی شیرنی لگ رہی تھی۔۔
اس کے الفاظ سن کر آغا جان کا دل کیا کہ زمین پھٹے اور وہ جہاں اس میں سمائیں۔۔۔۔ان کی بیٹے کی نشانی دل میں اتنا درد چھپائے بیٹھی تھی آج ان کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی جبکہ روشنال کے دل پہ اس کے آنسوؤں گرے تھے۔۔
نہیں آغا جان آج نہیں۔۔۔۔! آج اشنال کبیر آپ کو ہرگز معاف نہیں کرے گی آج میں آپ سے اپنے گزرے ہوئے بارہ کا حساب سود سمیٹ واپس لے کر رہوں گی آغا جان معافی اگر مانگنی تو میرے بابا سے مانگیں لیکن میں جانتی ہوں یہ ناممکن ہے بات کڑوی ہے مگر ہے سچی مگر معافی مانگنا آسان ہوتی نا آغا جان تو جو قبروں میں ہماری تلخیاں سہہ کر پڑے ہوئے ہیں وہ بھی معافی کا لفظ سن کر ہمارے ساتھ پھر سے زندگی گزارنے کی خواہش کر رہے ہوتے ۔۔۔! مگر وہ حقیقت جان چکے ہوتے ہیں کہ ہم لاحاصل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔۔
وہ محض ایک پل رہی خاموش رہی اور پھر سے بولنا شروع ہوگئی تھی۔ آج آغا جان کو اس ڈھارتی ہوئی پوتی اپنے لاڈلے بیٹے کبیر بخت کی جھلک نظر آئی تھی
چلو روم میں چلو بہت رات ہوگئی ہے صبح اس بارے میں بات کریں گے۔۔۔۔روشنال اس کے پاس بازوؤں سے پکڑتا نرم لہجے میں بولا تھا۔
نہیں جانا مجھے آپ کے ساتھ آج ہی تو عدالت لگی ہے ادھر۔۔۔ آج تو انھیں ہر جرم سے بری الذمہ نہیں ہونے دوں گی۔۔۔
روشنال تم اس معاملے سے دور رہو یہ میرا اور میری پوتی کا معاملہ ہے یہ صیح کہہ رہی ہے آج یہ بولے گی اور میں سنوں گا ۔۔۔انہوں نے اسے کھردرے سے لہجے میں خاموش کروایا تھا۔
نہیں ہوں میں آپکی پوتی ۔۔۔! آپ ہی نے کہا تھا میں غیر خاندان کی عورت ہو یاد ہے یا بھول گئے ۔۔۔آغا جان اس عدالت میں تو آپ بری الذمہ ہو جائیں گے لیکن روزِ محشر جو عدالت لگے گی جب حشر کا دن ہوگا سب خاموش ہوگے ۔۔
تو کیا میرے بابا چاہے گے۔۔۔۔کہ وہ اپنے باپ کا گریباں پکڑیں ۔۔۔ ؟ اس نے نم لہجے سے کہا تھا۔۔
اشنال میں جانتا ہوں تم اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔۔لیکن
یہ باتیں صبح بھی تو ہوسکتی ہیں چلو روم میں ۔۔!
ان کی کنڈیشن دیکھو وہ پہلے ہی شوگر بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔۔ اس طرح وہ اور بیمار ہوجائیں گے ۔۔۔!
روشنال نے اسکا بازوں پکڑ کر ایک دفعہ پھر سے مداخلت کرکے سمجھایا ۔۔
اوہ اچھا اب میں سمجھی آپ ان کےساتھ اس سازش یں ملوث ہیں میں کتنی بیوقوف تھی میں نہ سمجھ سکی کہ آپ ان کے ساتھ گھٹیا کھیل میں شامل تھے لیکن اب سمجھ آگئی کہ اب سب نے اتنی نفرت کے بوجود بھی کیسے اپنے شاندار وارث کی شادی مجھ سے کراؤئی آپ کی نفرت میں بھی غرض چھپی ہوئی تھی کہ گھر کی دولت بس باہر نہ جائے ۔۔۔۔!
مجھے کہہ دیتے میں نام کر دیتی ساری جائیداد آپکے نام پر یہ گھٹیا چلنے کی ضرورت تھی ۔
اشنال میں کہہ رہا ہوں روم میں جاؤ۔۔۔۔۔اب کی بار اس کے لہجے میں اتنی نفرت دیکھ کر روشنال نے لہجے پر مشکل ضبط کرتے اندر جانے کا تھا لیکن اس کے اندر اشتعال کا لاوا پھٹ رہا تھا وہ کتنی آسانی سے پل میں اسکی توجہ اور محبت ، کئیر منہ پہ مار گئی تھیم۔۔
نہیں آج کئی نہیں جاؤں گی آج آپ میرا منہ بند نہیں کروا سکتے آج ہی تو آپکی اصلیت اور گھناونا چہرہ سامنے آیا ہے مجھے اس دن کا بڑا شدت سے انتظار تھا کہ آپ کو سب کے درمیاں کہٹرے میں کھڑوں ۔۔۔۔! تب ہی تو آپ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی ۔۔۔! آپ کے اتنے غلط رویے اور ظلموں کی وجہ س بھی آپ کو شکایت کا لفظ نہیں کہا۔۔۔۔! وہ چیخی تھی اب کی بار ۔۔۔! اس کا اتنا شیرنیوں جیسا انداز سب کو ورطہ حیرت میں ڈال گیا تھا۔۔۔۔
اشنال آئی سییڈ گو ٹو روم۔۔۔! وہ اب کی بار اتنے زور سے
ڈھارا تھا اس کی دماغ کی نسیں ابھر آئی تھیں وہ سب کے سامنے اس کا بھی بھرم توڑ گئی تھی ۔۔
روشنال اس طرح بچی پر چیخ کر کیا ثابت کرنا چا رہے ہو ۔۔۔۔؟ تمھارا کوئی حق نہیں بنتا روشنال بچی کے ساتھ اسطرح رویہ رکھو صیغیر سب جو کب سے خاموش بیٹھے دے تھے اسے ڈھاڑتا ہوا دیکھ کر برس پڑے تھے۔۔
آپ میری حمایت میں مت بولے۔۔۔۔! آپ تو ان کے باپ ہیں میں آپکی لگتی ہوں۔۔۔۔؟ صرف آپکے محروم بھائی کی بیٹی ہوں ۔۔۔۔! اگر اتنا ہی مجھے اپنا سمجھا ہوتا تو اس دن یوں بے دردی سے گھر سے نہ نکالتے ۔۔۔۔! آپ ان کی طرفداری مت کریں ۔۔۔۔! اب مجھے کسی پر یقین نہیں رہا ۔۔۔ آپ بھی تو ان کے ساتھ چال۔۔۔
اشنال ۔۔۔۔وہ پھر سے ڈھارا اور اس بار ناچاہتے ہوئے بھی ہاتھ اس پہ اٹھ گیا تھا روشنال نے اسکی بات مکمل ہی نہیں ہونے دی تھی اسکے بھاری ہاتھ روشنال پر چھب کر رہ گئے تھے۔۔
اشنال تو منہ پہ ہاتھ رکے ساکت سی کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی تھپڑ اتنا زور کا نہیں تھا جتنا زور کا اسے لگا تھا یہ تھپـڑ اس کی روح کے بخیے ادھیڑ کر رکھ گیاتھا وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی جو ہاتھ اٹھا کر اب شرمندہ سا لگ رہا تھا اس کو اسے یہ امید نہیں تھی وہ کچھ پل اس کو نظریں جھکائے دیکھتی رہی پھر وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی
روشنال دماغ خراب ہوگیا ہے تمھارا ۔۔۔۔۔؟ ثمینہ بیگم نے اس بازوں سے پکڑ کر سختی سے کہا تھا۔۔
کیا ضروت تھی ہاتھ اٹھانے کی ۔۔۔؟ بچی ہے اتنے دور اکیلی رہی ہے اوپر سے جس طرح وہ تم سے بدتمیزی کر ری تھی مجھے نہیں لگتا کہ تمھارا رویہ اس کے ساتھ رہا ہو ۔۔۔انہوں نے تفشیش زدہ لہجے میں کہا تھا۔۔
بہت غلط کیا ہے تم نے ۔۔۔۔! میں تایا ہوں اسکا۔۔۔وہ بڑے مان سے گلے شکوے کررہی تھی گلے شکوے بھی وہی ہوتے ہیں جہاں مان ہوتا ہے ۔۔ اب کی بار صیغیر صاحب نے اسے جھاڑا تھا۔۔
تو میں کیا کروں بابا۔۔۔۔! وہ چپ ہی نہیں ہو رہی تھی اوپر سے سب سے غلط لہجے میں بات کر رہی تھی میں نے بہت ضبط کیا تھا لیکن نہ چاہا کر بھی ہاتھ اٹھ گیا تھا اب کی بار اس نے بہت ہی لہجے میں کہا تھا۔۔
اچھا چھوڑیں فلحال ۔۔۔۔۔ یہ بتائیں آپ کھانا کھائیں گے ۔۔۔۔۔؟ اس نے آغا جان کو شرمندہ بیٹھے دیکھ کر ماحول کی تلخی کو کم کرنا چاہا تھا۔
نہیں کھانا ہم کھا ہی آئیں ہیں ۔۔۔۔! ثمینہ بیگم اسے پریشان دیکھ کر کہا تھا۔
اچھا چھوڑیں آپ کو کافی تھکاوٹ ہورہی ہوگی میں آپ کو اسٹرونگ سی چائے بنا کر پلاتا ہوں ۔۔۔
وہ اٹھ کر نارمل سے لہجے میں کہتا کچن میں چلا گیا تھا۔۔
************
وہ تقریباً دو گھنٹے ان کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا رات کے بارہ بجے وہ ماں بابا اور ثمینہ بیگم کو بھیج کر خود لاونج میں ہی بیٹھ کہ سیگریٹ پھونکتا رہا اس کا دماغ جیسے جنگ لڑ رہا تھا وہ سوچتا رہا ۔۔
وہ بے چین سا اٹھتا اس کے روم میں چلا آیا تھا پہلےاسے ایسے لگا کہ دروازے کو لاک لگا ہوا ہے لیکن صد شکر کہ غصے میں اس نے لاک نہیں لگایا تھا
وہ چلتا ہوا اس کے بیڈ پہ آیا تھا اور دوسری سائیڈ پہ بیٹھا تھا اسے لگا کہ وہ منہ دوسری طرف کیے کمفرٹ تانے سو رہی تھی وہ اسے ایسے ہی دیکھتا رہا ہر دس سیکنڈ بعد اسکی ہچکی نکلتی شاید بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔۔۔
اس نے کمفرٹ ہٹایا تو وہ جاگی ہوئی تھی بازؤں سر پہ رکھے سسک رہی تھی سرخ ناک۔۔۔۔گلابی گال ۔۔۔روئی روئی متورم آنکھیں ، ناراض ناراض سا چہرہ ۔۔۔وہ اس کے ہاتھ کے نشان اس کے سفید چہرے پر نظر آ رہے تھے۔۔ لب کپکپا رہے تھے اسے اس طرح بے ساختہ روتے س پہ بے تحاشہ پیار آیا تھا اور خود پہ بے تحاشہ غصہ ۔۔۔۔! وہ اس کے قریب بیٹنھنے سے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکتی کمفرٹ مزید اپنے اوپر تان چکی تھی ۔۔۔
اشو بات سنو میری ۔۔۔۔وہ اسکا کمفرٹ پھر سے ہٹا کر کہنے لگا لہجے میں نرمی تھی۔۔
پلیز آپ اپنے روم میں جائیں مجھے اکیلا چھوڑ دیں ۔۔۔!وہ پھر سے ناراضگی سے کہتے کمفرٹ بازوں میں زور سے بھینچے چیخی تھی۔۔
اوکے آئم ساری یار میں جا رہا ہوں آئی ایم ایکسٹریملی ناچاہتے ہوئے ہوئے ہاتھ اٹھ گیا تھا۔۔۔۔
یہ احسان میرے اوپر مت کریں ۔۔۔مار ڈھاڑ کہ پھر سے سوری کرنے آجاتے ہیں وہ کمفرٹ اتارتی زور سے پھینکتی اسکا گریباں ہاتھوں میں تھامتی روشنال کو ساکت کر گئی تھی ۔۔۔
بہت کچھ کھونے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میری بھی کوئی سیلف ریسپکیٹ تھی پر افسوس مجھے دیر سے یاد آیا جب میں آپکے ٹوٹ کر کھلونا بن چکی ہوں۔۔۔!
وہ اسکو جکڑے دوسری دفعہ روپ دکھا رہی تھی آج وہ اسکو کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا وہ اسکا گریباں ہاتھوں میں تھامے چلا رہی تھی وہ واحد تھی جسےوہ کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا مگر جو اس کی طرف ہاتھ بھی اونچا بھی کرتا وہ اسے جہنم واصل کر دیتا تھا ۔۔۔
آج اشنال بخت کے ہاتھ اس کے گریباں پر گئے تھے لیکن اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اس کی رگوں میں اتر گئی تھی اسے محبوب ترین ہوگئی تھی اور محبوب کی پھر دیے گئے زخم بھی مرہم لگتے ہیں پھر چاہے وہ کانٹوں پر گھیسٹے یا زہر دے ۔۔۔۔! اور وہ اسکا عشق بن گئی تھی اس کی ہر سزا اسے قبول تھی آج وہ اس پہ ہاتھ اٹھا کہ پچھتا رہا تھا۔
؎ عشق بوعلی سکندر کرتا ہے۔۔ ۔۔۔۔💞
عشق پاگل نہیں پاگل کو ولی کرتا ہے
اس وقت وہ ڈھارتے ہوئے شیرنیوں کو بھی مات دے رہی تھی آج غلطی بھی اشنال کی تھی اور شرمندہ بھی وہ خود تھا وہ اس کا چہرے اپنے ناخنوں سے نوچ رہی تھی اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا بس اس کے ہاتھوں سے مار کھاتا رہا ۔۔۔اسے پتہ تھا وہ دل کی بھڑاس نکال رہی ہے ۔۔۔ْ!
وہ اسے کے ہاتھوں سے مار کھاتا وہ اسکے سینے پر مکے برساتی رہی ۔۔۔۔آخر کار وہ تھک کر پیچھے ہٹنے لگی تھی جب روشنال نے اسے اپنے ساتھ لگالیا تھا۔۔۔
چھوڑیں مجھے ۔۔۔؟ وہ اس سے خود کو چھڑوانے لگی تھی۔۔
چھڑوا سکتی ہو تو چھڑوا لو ۔۔۔روشنال نےجیسے چیلنج کیا تھا۔
وہ ایڑھی چھوٹی کا زور رکھ کہ چھڑاتی رہی مگر روشنال کی مضبوط گرفت سے نہیں نکال سکی تھی جب تک وہ جاگتی رہی روشنال نے تب تک پکڑے رکھا تھا آخر تھک ہار کر اس کے کندھے پر سر رکھے بے بسی سے آنسوؤں نکالنے لگی کہ شاید وہ اسکا رونہ دیکھ کر چھوڑ دیں مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا اسے ترس نہیں آیا تھا۔۔
جب تک وہ سوگئی تب تک اس کی گرفت مضبوط رہی جیسے ہی اس کی ہلکی ہلکی سانسوں کی آواز آئی اس کی گرفت ڈھیلی ہوگئی تھی۔۔۔ !
جیسے اس نے گرفت ڈھیلی کی تو وہ اسکی بانہوں میں آ گری تھی اب اسکا چہرہ سامنے تھا
سوری ایم رئیلی سوری مائی لائف لائن ۔۔۔ تم تو صرف سراہے اور چاہے جانے کے قابل ہو۔۔۔!
اس کا معصوم چہرہ دیکھتے گھمبیر لہجے میں کہتے اس نے جھک کر اسکے گال پہ لب رکھے تھے وہ کتنی دیر پھر سے اپنے ساتھ لگائے محسوس کرتا رہا اور پھر آرام سے اس کو بیڈ پہ لائے کہ خود میں بھینچتے سوگیا تھا۔۔
*****
دور کئی فجر کی اذانیں ہو رہی تھی منال جو بالکل اذان کے ٹائم اٹھ جاتی تھی اب ویسے ہی اس کی آنکھ کھل جاتی تھی اس کا جلدی اٹھنا اللہ کی طرف سے سائن تھااسکےلیے۔۔۔۔!
اس کو اب عادت سی ہو رہی تھی صبح ا ٹھنے کی۔۔۔!
وہ اذانوں کی آواز سن کر آنکھیں کھول گئی تھی۔۔۔۔
جنٹیس پراڈا پرفیوم کی ہلکی ہلکی مہک سے اس نے نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا تھا ایک دم سے آنکھیں پوری طرح کھل چکی تھی وہ اس کے ساتھ لگی سو رہی تھی
اس کے آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی تھی وہ ایک دم سے رات کے واقعات میں زور ڈالنے لگی کچھ دھندلے سے منظر اس کی نگاہوں میں گھومے مگر صیح سے کچھ بھی اس کے ذہن میں نہیں آر رہا تھا وہ آنکھیں کھولے دیکھنے جب رات کو اس نے نہایت گرے ہوئے الفاظ استعمال کی اور وہ اپنے کردار کی گواہی کےلیے رو پڑی تھی اس کے بعد جب اس کو روکا تھا کہ رک جاؤ وہ سوچتی رہ گئی تھی تو کیا وہ اس کےلیے رکا تھا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔۔
اگر وہ صرف ہمددری میں رک بھی گیا تھا تو وہ تو اسکا بھرپور تاوان ادا کروائے گا۔۔۔
اس کی پشت سے اپنے ہاتھ باندھے دیکھ کر وہ ایک دم سے اپنے ہاتھ ہٹا گئی تھی حسنال بخت گہری نیند میں تھا وہ بے ساختہ سی اس کو دیکھے گئی جو نیند میں بالکل سادہ دل اور معصوم اور مہرباں سا فرشتہ لگ رہا تھا۔۔۔
لیکن اسے پتہ تھا یہ مہربان فرشتہ جب اٹھے گا تو اس کے کردار کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دے گا وہ گناہ گار ضرور تھی لیکن گری ہوئی ہرگز نہیں تھی۔۔۔
اس کے رات کے تلخ الفاظ اس کے تخیل کے پردوں میں کھوئے تو آنکھوں سے آنسو چہرے کو دھوتے چلے گئے تھے وہ ہلکی سے پیچھے اٹھ بیٹھی تھی اور اپنا ڈوپٹہ سر پہ صیح کوور کرکے اسے دور ہوتی خاموشی سے اذان سننے لگی تھی ایک پرلطف سا احساس اس کے ارگرد بکھرا تھاجہاں رگ رگ میں سکون اترا تھا ۔۔
جب اذان ختم ہوئی تو اس پہلے کلمہ پڑھا اور دعا بھی سرگوشی میں کی تھی وہ آہستگی سے اس کے اوپر کمفرٹ سیٹ کرنے لگی وہ جو تکیے کو بازؤں میں دیے منہ اس کی طرف ہی کرکے سو رہا تھا منال کے بیوقوف دل نے شدت سے چاہا کہ ایک دفعہ اس کے بکھرے بال سمیٹے مگر عقل مند دماغ نے جنجھوڑ کر کہا کہ نہ کراؤ اس شخص سے اپنی تذلیل ۔۔۔۔۔! اور وہ پھراس عقل مند دماغ کی مانتی نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی..
نماز پڑھ کر وہ فارغ ہوئی تو دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے
اپنی زندگی کی آسانی کےلیے دعا مانگنے لگی کیونکہ اسکی مشکلاتیں وقت کے ساتھ بڑھنے لگی تھیں وہ اس کے الفاظ نہیں بلا پا رہی تھی آنسوؤں جیسے دعا میں بھی ہتھلیوں پہ گرے تھے وہ بول نہیں پار رہیتھی مگر اسکے آنسوں اسے اللہ سے مخاطب کروانے لگے تھے۔
*جب انسان کی تکلیف حد سے بڑھ جائے تو وہ آنسوؤں کے ذریعے “ﷲ” سے ہم کلام ہوتا ہے
*انسان کے آنسو درحقیقت ایسی سیکرٹ فائل ہوتے ہیں جس کو چاہ کر بھی کوئی دوسرا انسان پڑھ نہیں سکتا کیونکہ اس کا پاسورڈ صرف “ﷲ” کے پاس ہوتا ہے*
*_اپنے دل کی بات اپنے “اللہ” سے کیجئے❤️* اور وہ اب زمین والوں سے اللہ پہ بھروسہ کرتی تھی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں سیلابی ریلے کی طرح بہنے لگے تھے اور بے شک انسان کی آنکھوں سے نکلا جانے والا ندامت کا آنسو بھی بارگاہ الہی میں ہلچل مچا دیتا ہے۔۔!وہ کتنی دیر رب سے مخاطب رہی تھی۔۔۔
پھر اسکے کپڑےاستری کرکے رکھتی ناشتہ بنانے کےلیے کچن میں چلی آئی تھی اسے ٹینشن تھی اس کے ناشتے کی۔۔۔
کیونکہ اگر اس کی آنکھ کھل گئی وہ سب سے پہلے دیری کا اس کے پھوہڑ پن کا رونا روئے گا اور خفا ہوکر آفس چلا جائے گا۔۔۔
وہ تقربیاً ناشتہ بنا کر آدھے گھنٹے بعد واپس آئی تو وہ اپنے استری شدہ کپڑے شاید شاور لینے جا رہا تھا۔
وہ اسکا پھیلاوا سمیٹنے لگی تھی اسکے سوٹ وغیرہ سمیٹ کر لیپ ٹاپ بیگ ٹیبل پہ رکھا کمفرٹ تہہ کر کے
بیڈ شیٹ سیٹ کی تھ اس کے آنے اس نے روم صاف کیا تھا۔۔۔!
وہ فریش ہو کہ ٹاول سے بالوں کو خشک کرتا روم میں آیا
تو بالکل ساری صفائی دیکھ کر اس کے بدلنے کا قائل ہوگیا تھا وہ الماری میں کپڑے تہہ کرکے رکھ رہی تھی۔۔
ناشتہ یہ ہی لاؤں تمھارے لیے۔۔۔۔۔؟ وہ الماری سیٹ کرکے پلٹی تو اس کو اپنی طرف ہی دیکھتے پایا تھا وہ نگاہیں جھکا کر پوچھنے لگی تھی ۔
اس کی سحر زدہ آنکھوں کے حساس حصوں پہ چھائی سرخی اس کی شدت گریہ آنکھوں کی رونے کی گواہی دے رہی تھیں ۔۔
اس کو دیکھتے حسنال کے دل میں عجیب سی جنجھلائٹ سے اترنے لگی تھی وہ مجرمانہ احساس جو اسے رات سے اس کے دل میں اترے تھے وہ خود ہی انھیں قبول کرنے سے خوفزدہ تھا۔
وہ بغیر کچھ کہے ایک تلخی سے بھرپور نگاہ ڈالے پلٹ کہ ڈریسنگ ٹیبل کے پاس چلا گیا تھا وہ پھر سے اس کی ذات کو لاتعلق کرکے منہ پھیر گیا تھا پھر سے اس زمین پر گراگیا تھا۔۔۔
؎ ہم حادثوں سے گرگئے محسن زمین پر۔۔۔۔🥺🖤
ہم رشکِ آسماں تھے ابھی کل ہی کی تو بات تھی
( محسن نقوی)
ادھر آؤ۔۔۔۔اس نے سنجیدہ لہجے میں پکارا تھا وہ چلتی ہوئی اس کے پاس چلی آئی تھی ۔۔
یہ بند کرو۔۔۔۔! گاڑی ہاتھ پہ رکھے اسکی طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔
وہ نگاہیں جھکائی اس کی گھڑی کو لاک کرنے لگی لیکن اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے وہ اس کی آنکھوں کے اچانک سے بدلتے تقاضوں کو دیکھ کر کانپنے لگی تھی اس کی گھڑی کا لاک بند ہی نہیں ہو رہا تھا لیکن تھوڑی سی کوشش لگا اللہ اللہ کرکے وہ بند ہو ہی گیا تھا وہ بند کرکے پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔!
ادھر آؤ۔۔۔۔ اس نے پکارا وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگ پڑی حسنال آگے ہوا اس کے چہرہ کو تھام اس کی شدت گریہ آنکھوں پہ لب رکھتے منال کے دل کو دھڑکا چکا تھا۔۔
منال نے تو سوچا تھا کہ وہ رات والی بات کو ذہن میں رکھ کہ اسے ٹارگٹ بنائے گے لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی اس کی نگاہوں میں نہ کوئی طعنہ نہ کوئی طنز تھا اس وقت وہ نرم نرم نظروں سے دیکھتا اسکا مہرباں سا شوہر لگ رہا تھا۔۔
میں اپنے اور تمھارے رشتے کو محض انا کی نظر نہیں کرنا چاہتا منال میں تمھیں وقت دینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔وہ یہ کہتا اس کے ماتھے پہ لب رکھتے اسکی روح کو سرشار گیا تھا اس کی زندگی کو نوید سناگیا تھا۔۔
شکریہ ۔۔۔۔۔وہ جو نگاہیں جھکا کر کھڑی تھی اس کے الفاظ پہ نگاہیں اٹھا کربے یقینی و خوشی سے منہ کھولے اسے دیکھا تھا وہ اسے دیکھتی رہی تھی۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔۔۔اسے حیران کھڑا دیکھ کر حسنال نے مسکرا کر پوچھا جس سے اسکا ڈمپل سامنے آیا تھا منال کا شدت سے دل کیا کہ ان ڈمپل پہ وہ ایک دفعہ لب رکھے ۔۔۔۔!
اور آخر کار دل کی مانتی وہ اسکے گال پہ پیار کرنے لگی لیکن اس کی ہائیٹ چھوٹی تھی اس سے۔۔۔! وہ پھر سے ایڑھیوں کو اٹھائے اونچا ہوئی لیکن پھر سے ناکام ۔۔۔حسنال کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کر کیا رہی ہے ۔۔۔۔!
وہ اس کے سمجھنے سے پہلے ہی اس کے پاؤں پہ پاؤں رکھتی اس کے ڈمپل والی جگہ پہ لب رکھ گئی تھی ۔۔
اور حیران سا حسنال کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جب تک اس کو سمجھ آئی تب تک وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی دور ہوگئی تھی ۔۔
واپس آؤ منال ۔۔۔؟
نیچے آؤ میں ناشتہ لگا رہی ہوں ۔۔۔۔! وہ یہ کہتی مسکرا کرچلی گئی تھی ۔۔
جبکہ وہ اس کے لمس کو ابھی تک محسوس کر رہا تھا اس کا ناانجانی میں دیا گیا یہ پیارا سا تحفہ اسے بہت پسند آیا تھا وہ اسے یہ تحفہ نہیں بلکہ زندگی دے گئی تھی۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial