تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

وہ سہی معنوں میں پریشان ہوا تھا کیونکہ اس نے ہر جگہ چیک کرلیا تھا وہ کئی بھی نہیں تھی واشروم تک دیکھ لیا وہ کئی بھی نہ ملی تھی وہ فلیٹ کا دروازہ دیکھنے جاتا ہی کہ اسے صوفوں کے پاس گرین آنچل نظریں تھا وہ مڑتا ہوا صوفوں کے پاس آیا تھا تو وہ صوفوں کی پشت سے ٹیک لگاکے بیٹھی بیٹھی سوگئی تھی سوجی متورم آنکھیں دیکھ کر ایک پل کو وہ شرمندہ ہوگیا تھا کیونکہ کل سے اس نے اسے ذہنی اذیت میں رکھا ہوا تھا سردی بھی کافی بڑھ گئی تھی وہ باریک سے دوپٹے میں کب سے پڑی ہوئی تھی سردی بھی کافی زیادہ تھی یہ سوچ سوچتے ہی وہ سچ میں پریشان ہوا تھا اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا اسے اٹھانے کےلیے پھر کچھ سوچ کر رکا پاگل میں بڑا بڑا کر اسے جھک کر بازوؤں میں اٹھاتا روم میں لے آیا تھا اور بیڈ پر ڈالا تھا کمفڑٹییبل اسے اوڑھا کہ دوسری سایئڈ پہ آکے سوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاگل لڑکی یہ کیا کیا تم نے ۔۔۔ثمینہ بیگم کو منال کی بات سن کر اتنا غصہ کہ وہ صدمے سے پاگل ہو گئیں تھیں۔۔۔ہاں مما میں نے کیا تھا اس رات میں نے اشنال وہ لیٹر لکھ کر دیا تھا میں نے اس سے کہا تھا روشنال کو میرا لیٹر دے کر آؤ ااور پھول بھی میں نے دیا تھا وہ تو میری محبت میں اس رات روشنال کے کمرے میں گئی تھی ۔۔
منال کیا کیا تم نے اپنی مایوں والے دن یہ پاگل پن کیسے کر دیا تم نے اتنا شاندار بندہ اور اتنی جائیداد کا وارث اشنال کے نام کیسے کر دیا تم نے ۔۔۔۔سچ میں تم پاگل ہوگئی ہو ان کے منہ سے صدمے سے بات ہی نکل رہی تھی ۔۔
ہاں مما میں نے کیا ہے یہ کام آپ کی خود ساختہ نفرت کی وجہ سے میرا دماغ سن ہو گیا تھا آپ نے پانچ سال کی عمر سے میرے دماغ میں فتور بھرنا شروع کر دیا تھا آپ بظاہر تو سب کے ساتھ اخلاق سے پیش آتی تھیں لیکن ان سب کےلیے میں نے آپ کے دل میں نفرت ابھرتی ہوئی میں نے دیکھی تھی آپ سب کا خیال تو رکھتی تھیں آپ پاپا کے سامنے اشنال سے محبت تو کرتی تھیں اس سے ہنس کےبات کرتیں اس کا خیال رکھتیں لیکن پاپا کی غیر موجودگی اس کےلیے زہر اگلتے میں نے دیکھا تھا مما آپ جس کام کےلیے مجھے منع کرتی تھیں کہ یہ کام تھوڑی دیر بعد آپ خود کر رہی ہوتی تھیں۔
مما آپ ایک بات میری یاد رکھیے گا جو برائی آپ خود میں ہوتی ہیں اس برائی سے بچے کو منع مت کریں کیونکہ بچہ وہ نہیں کرتا جو آپ کہتے ہیں بچے وہ کرتا ہے جو آپ کرتے ہیں میں نے آپ سے ہی تو نفریتیں ، عداوتیں منہ پہ بدلنا سیکھا ہے منال اپنی ماں کی تربیت پل میں ان کے منہ پہ مار گئی تھی مما آپ نے مجھے ایک ایسا ایسا کھلونے والی بنایا جس کا ریمونڈ آپکے کے ہاتھ میں تھا آپ جب چاہے مجھے چلاتی رہیں جیسے چاہے استعمال کرتی رہیں اگر آپ مجھے اشنال سے محبت کا درس تو میرے دل میں اتنا زہر نہیں ہوتا ثمینہ بیگم اس کی باتیں سن کر ساکت ہو گئی تھیں مما میں مزید دل میں یہ گلٹ نہیں رکھ سکتی میں اپنے جرم کا اعتراف کروں گی آغا جان تائی امی اور تایا جان کے سامنے ۔۔۔۔منال تم ایسا کچھ نہیں کروگی ۔۔۔یہ میں کہہ رہی ہوں وہ تھوڑی دیر پہلے خاماش تھیں اب پھر سے وہی کچھ کر رہی تھی یہ بیوقوفی کی تو مجھ سے نرمی کی امید مت رکھنا ۔۔۔اپنے پاؤں پر تم خود کلہاڑی مارو گی کیونکہ آغا جان کا اپنی پوتی کا پیار جاگے گا اور تمیں او مجھے دھکے دے کر نکال دیا جائے گا وہ پھر سے اس کی برین واشنگ کر رہی تھی مگر مما میں اب یہ سچ نہیں چھپا سکتی مجھے یہ گلٹ جینے نہیں دیتا۔۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔ تو اس سچ کے بعد حسنال تمھیں اہنے پاس رکھے گا طلاق تمھارے منہ پر مار کر راہ لگائے گا اورجو ہمدردیاں مل رہی ہیں نہ تمھیں ان سے بھی جاؤ گی تمھیں تو شکر کرنا چاہیے کہ سب تمھارے ساتھ ہیں اور تو اور وہ تم سے نگاہیں نہیں ملا پارہے کہ روشنال نے تمھیں چار سال نام پر بیٹھا کر رکھا اور چھوڑ دیا اس بات کا فائدہ اٹھانے کی بجائے تمھارا سوگ ہی ختم نہیں ہورہا وہ اسے پھر سے بدگمان کر رہیں تھیں ایک بات جو سچ تھی کہ جبکہ منال تاسف سے اپنی ماں کو یکھتی رہ گئی تھی اور یہاں غلطی منال کی نہیں تھیں ۔اس کی ماں کی تھیں ۔۔۔ بعض والدین ہوتے ہیں جو کہ گالی سے منع کر رہے ہیں کہ گالی مت نکالو یہ حالانکہ تھوڑی دیر بعد خود غصے میں گالی دے رہے ہوتے ہیں یا اول فول فول نکال رہے ہوتے ہیں یاد رکھئے وہ بچے بھی اس وقت وہیں ہوتے ہیں اور والدین کا ہی تو عکس ہوتے ہیں بچے وہ کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں نہ کہ وہ جو آپ کہتے ہیں اور آپ خود کو بھی نہیں پتہ کہ آپ کے اس عمل سے بچوں کے دماغ متاثر ہورہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح پانچ بجے اٹھی تو اس کے پاس سو رہا تھا وہ حیران ہوئی رات وہ روتے روتے لاونج میں سوگئی تھی پھر یہاں کیسے ۔۔۔ اس کی نگاہ پھر سے اس پر پڑی جو سوتے ہوئے اسکا سپر مین لگ رہا تھا مہربان سا فرشتہ سا۔۔۔۔ وہ رات کو اس لیے روئی تھی کیونکہ وہ اس کا تیز لہجہ برداشت نہیں کر سکتی تھی وہ بچپن سے اس کے نرم لہجے کی عادی تھی اور وہ ایک دم سے اس کا سخت لہجہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں ۔۔وہ تھوڑی دیر اس کو دیکھتی رہی پھر اٹھ بیٹھی کیونکہ اس نے نماز پڑھنی تھی ڈوپٹہ جو کہ اس کے نیچے آدھے سے زیادہ دبا ہوا تھا جس کا منہ دوسری طرف تھا وہ نکالنے لگی لیکن وہ نہ نکلا وہ دانتوں کو لبوں میں دوبائے ڈوپٹے نکالنے کی کوشش میں اس کے قریب ہوئی تھی پر برا ہوا قسمت کا جس نے کروٹ لی اور اسکا بازو نیچے آگیا تھا وہ تقربیا پانچ منٹ تو انتظار کرتی رہی کہ وہ پھر سے کروٹ بدلے اور وہ اپنا بازوؤں نکال لے وہ اس کے بہت قریب تھا بازو نکالنے کی کوشش میں اس سردی میں بھی اس کو پیسنہ آگیا تھا پر وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ اس کی قربت کا اثر ہے وہ اپنے آپ کو کوسنے لگی کہ کیا ضرورت تھی ڈوپٹہ نکالنے کی وہ الماری سے دوسرا نکال لیتی لیکن اب کیا پچھتاوا جب چڑیا چگ گئی کھیت ۔۔۔۔۔وہ جھک کر بیٹھے رہنے سے تھک گئی تھی اور تھک ہار کر وہیں اس کے بازوں پر رکھے رکھے سو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد اشنال کو اپنے بازوؤں پر بوجھ سا محسوس ہوا تو اشنال کا سر اس کے سینے پر آگرا تھا اس کی آنکھیں جو پہلے نیم کھلی تھی اب پوری کھل چکی تھی اس نے اپنے سینے پر دیکھا گلابی رنگت پر گھنی سیاہ پلکوں سے سجا خوبصورت چہرہ ، اس کے لمبے سیاہ بال اس کے سینے پر بکھرے ہوئے تھے اسکی مدھم سانسوں کا زیرو بم اسے اپنے سینے پر محسوس ہوا تھا جوانی کی سرحدوں کو چھوتا اس کا نازک سراپا ایک پل کےلیے تو روشنال بخت جیسے مضبوط احساسات کے مالک شخص کے ہوش اڑایا گیا تھا وہ تو اسے ابھی تک بچی ہی سمجھتا تھا ۔۔۔اے لڑکی اٹھو وہ غصے سے اسے جنجھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔اشنال کی آنکھ کھلی وہ پہلے تو کتنی دیر ماحول کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی خود کو اس کے سینے پر دیکھ کر پیچھے ہوتی جب وہ اس کے بازو پکڑ گیا تھا۔۔۔۔۔کیا کر رہی ادھر تم ۔۔۔؟ وہ کڑے تیور لے کر پوچھنے لگا تھا وہ۔۔۔وہ ممم۔۔۔میرا ڈوپٹہ آپ کے نیچے ہے۔۔۔۔وہ گبھرا کر بول رہی تھی اس نے اس کا ڈوپٹہ اپنے نیچے سے نکال کر اس کے منہ پر مارا تھا ۔۔۔ آئندہ مجھے تمھارے بال کھلے ہوئے نظر نہ آئیں سمیٹ کر رکھا کرو ۔۔اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ تم مجھے ان اداؤں سے دیوانہ بنالو گی تو یہ کوشش بھی مت کرنا بی بی۔۔۔نہ تو میں حسن پرست ہوں اور نہ تو حوس پرست آئندہ میرے قریب بھی مت آنا ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ تم میری سوکالڈ بیوی ہو اس کہ منہ کو دبوچتا ہوا وہ سختی سے بولا تھا اور نماز کے بعد ناشتہ تم نے بنانا ہے اشنال بخت اتنی بچی نہیں تھے جو اس کے الفاظ کہ مطلب نہ سمجھتی لفظ چابک کی طرح ہوتے ہیں روح کی کھال تک ادھیڑ لیتے ہیں اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا۔
سمجھ تو اسے اس رات آگئی تھی جس رات اس نے اس کی ذات کے ساتھ کھیلا تھا۔
اس سے اس کے پاس جانے کی چاہ تھی بھی نہیں ۔۔۔اسے اب حالات کی سمجھ آ رہی تھی وہ سنگدل بننا چاہتی تھی وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وقت ایک ایسا ظالم پنچھی تھا جس نے اس سارے خواب اڑا کر اُسے سنگدل بنا دینا تھا بس وہ ایسے وقت کے انتظار میں تھی وہ ایسی اشنال بننا چاہتی کہ کوئی اس کے قرب کی چاہ بھی کرتا تو تب وہ اس کے پاس نہ جا پائے چائے بناتے تھے چھوٹے ہوتے ۔وقت اس نے سویتلی ماں کی جھڑکیاں برداشت کیں تھیں وہ بظاہر تو سب کے سامنے اُس سے پیار سے بلاتی تھیں لیکن بعد وہ اسے ڈرا دھمکا کہ بلیک کرکے کام بھی کروا لیتی تھیں لیکن وقت کی طرح اسے ثمینہ بیگم کی یہ بات اچھی لگی تھیں انہوں نے نفرت میں ہی سہی اسے کوکنگ اور باقی گھر کے کام بھی سکھا دئیے تھے زندگی میں وہ ا بس ان کے اس کام کی مشکور تھیں اور وقت نے تمام پردے اور سب کے چہروں سے اصلیت ہٹا دی تھیں چائے پکاتے اس کے ذہن میں یہ ہی سوچیں گردش کر رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسنال ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔وہ اس کی حرکتوں سے عا جز آگئی تھی ۔۔۔ہاں چھڑوا سکتی ہیں تو چھڑوا لیں وہ بھی اپنے ازلی نٹ کھٹ لہجے میں بولا تھا۔۔۔وہ کتنی دیر خود کو اس سے چھڑواتی رہی لیکن چھڑوا نہ سکی تھی۔۔۔۔حسنال پلیز چھوڑ دو خالہ یا امی آ جائیں گی وہ رونے والی ہوگئی تھی ۔۔۔نہیں آئیں گی یار ان کو پتہ ہے ان کے جوان مرد بیٹے کی شادی ہوئی ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ میری پرسنل لائف میں گھسیں وہ لاونج میں بیٹھ کر ایسی باتیں کر رہا تھا جب اسے اپنی بیک پہ چبھن محسوس ہوئی تھی ۔۔۔ جان یار اتنے پیار سے نہ ماریں وہ یہ سمجھا تھا کہ پیچھے سے منال نے اس کی بیک پہ ہلکا سا انگلی چبھوائی تھا ۔۔۔۔ جبکہ منال آغاجان کو دیکھ کر سر جھکا گئی تھی اور اس سے ۔جان یار جب آپ مسکراتی ہیں مجھے ایسے لگتا ہے پورا جہان مسکرا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
جان تو میں تمھاری نکالتا ہوں آغا جان کی بات سنتا پہلے تو وہ کھسیایا پھر ڈھٹائی سے مسکرایا تھا۔۔۔۔آغا جان میری شادی ہوئی ہے کچھ تو لحاظ کریں وہ اُدھر سے کھڑا ہوتا ساتھ ساتھ بول رہا تھا اور ساتھ ہی ٹیبل سے جوس کا گلاس اٹھاتے ہوئے پینے لگا جو منال تھوڑی دیر پہلے پی رہی تھی ۔۔۔۔آج کل کے تو جوڑوں میں شرم حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ایک ہمارا زمانہ تھا کہ عورتیں منگنی ہونے کےبعد نگاہیں اٹھا نہیں پاتی تھی اور شادی کے بعد بھی پردہ کرتی تھیں وہ اپنی شرافت کے قصے پڑھ رہے تھے جب جوس پیتے اشنال کو زور دار اچھو لگا تھا ۔
واٹ۔۔۔۔۔شادی کے بعد کون پردہ کرتا ہے وہ حیرت کے ساتھ اپنی ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو کھول کے بولا تھا۔۔۔ہاں تو اور کیا اللہ بخشے تمھاری مرحوم دادی کو ۔۔۔۔۔۔میری چھوٹی چھوٹی باتوں سے سرخ لال ہو جاتی تھی وہ اپنے ماضی کی یادوں میں ھوئے بول رہے تھے ۔۔۔۔۔آغا جان ایک بات آپ سے پوچھوں بتائیں گے نا ۔۔۔۔وہ بڑے راز سے ان کے قریب جھکتا ہوا بول رہا تھا۔۔۔۔ہاں ہوچھو بد خوردار ۔۔۔۔۔
وہ بھی اس کی طرف دیکھ کر بولے۔۔۔۔آغاجان جو آپ دادو سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے تھے وہ چھوٹی چھوٹی باتیں تو بتائیں ۔۔؟ وہ ان کے پاس بیٹھا آنکھیں پپٹاتا ہوا بولا تھا جب دادا جان کی لاٹھی اس کے بازوؤں پہ پڑی تھی دادا جان کے تاثرات دیکھ کر وہ بھاگا تھا جن کی آنکھیں بتا رہی تھیں اب اس کی خیر نہیں ہے وہ اٹھ کر ایسا
بھاگا پیچھے مڑ کر نہ دیکھا تھا۔جاری ہے۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial