تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

کل کی طرح آج بھی اس نے خود کو مصروف رکھا تھا اس کا موبائل بھی اس کے پاس نہیں تھا کہ وہ کسی سے بات کرلیتی ….! مغرب کی اذان ہوئی تو اس نے جلدی سے نماز پڑھی اور اپنے قدم کچن کی طرف بڑھائے تھے اس نے چاول نکالے اور جلدی جلدی ہاتھ ہلانے لگی کہیں روشنال نہ آجائے۔ پر ابھی پونے چھے کا ٹائم تھا وہ رات آٹھ یا نو بجے آتا تھا پیاز ٹماٹر کاٹ لہسن پیس کر اس نے فریج سے گوشت نکالا اور بہت ہی فکر مندی سے پکانے لگی کہ کہیں کوئی چیز خراب نہ ہو اور وہ اسے ڈانٹ نہ دے کیوں وہ ذرا سی بات پر غصہ ہو جاتا تھا ۔۔۔
تقربیاً پونے گھنٹے بریانی کو دم پر لگا کر وہ رائتہ تیار کرنے لگی جب روشنال کچن میں انٹر ہوا ایک ہاتھ میں کوٹ اور کچھ فائلیں وغیرہ تھی اور دوسرے ہاتھ میں سوٹ کیس تھا اشنال نے سلام کیا وہ سلام کا جواب دیتا روم میں چلا گیا تھا لہجہ لیا دیا سا تھا۔ اس نے پانی کا گلاس لیا اور کمرے کی طرف بڑھی دور ناک کر اندر آئی جو اپنے شوز اتار رہا تھا۔
یہ لیں پانی ۔۔۔ وہ پانی سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جانے لگی۔۔
میں نے تم سے پانی مانگا تھا ۔۔۔بتاؤ۔۔۔۔روشنال کے لہجے میں ہر روز کی طرح سختی تھی ۔
جج۔۔جی۔۔۔۔نہیں ۔۔۔واپس آؤ یہ گلاس لے کر جاؤ اور آئندہ اسطرح سے روم میں مت آنا ۔۔۔اور میں تمھاری ان حرکتوں سے خوش نہیں ہونے والا اور ایک بات اور اپنے تک محدود رہا کروآئندہ میری ذات میں داخل اندازی کی کوشش مت کرنا میری زندگی میں تمھاری کوئی امپورٹنس نہیں آئندہ سو فٹ کی دوری پر رہنا ۔۔۔سو بی کئیر فل ۔۔۔۔۔جج۔۔۔جی۔۔وہ یہ کہتی ہوئی جس خاموشی سے آئی اسی خاموشی سے نکل گئی تھی۔ کچن میں آکر اس نے پانی کا گلاس سنیک میں گرایا اور اپنے چہرے سے آنسووؤں صاف کیے جو روشنال کی کئی تذلیل پر نکلے تھے وہ اپنے دل کی ٹوٹی کر چیوں کو سمیٹنے لگی تھی کیونکہ بات بات پہ وہ اس کی تذلیل دیتا تھا۔ دوسری طرف روشنال پرسکون ہوکر بیڈ پر لیٹ گیا تھا یہ جانے کے بغیر اس کی نفرت بھرے لہجے پر اشنال کا چھوٹا سا دل ٹوٹ گیا تھا وہ کامنی سی لڑکی اس کے لہجے سے ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔
؎ سانس لینے سے ٹوٹ جاتے ہیں
؎ دل کے رشتے عجیب ہوتے ہیں
ابیا علی
وہ کل کی طرح کھانا ٹیبل پہ لگا چکی تھی لیکن اب اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ روشنال کو بلائے وہ بار بار اس کے پاس جاکر اپنی بے عزتی نہیں کروانا چاہتی تھی اس نے گلاس ٹیبل پر رکھے جب وہ آکر ٹیبل پہ بیٹھ گیا۔ وہ روشنال کی پلیٹ میں چاول ڈال کر رائتہ اس کے آگے رکھ کر اسے اپنا کھڑا رہنا آکورڈ فیل تو وہ کچن سے نکلنے لگی تھی۔
حد ہے تمھارے ڈراموں کی ۔چپ چاپ کھانا کھاؤ وہ اس کا بازوں تھام کر ادھر پڑی چئیر پر بیٹھا گیا تھا وہ اس کے آگے چاول کی پلیٹ رکھتا ہوا بولا اور پھر اپنے چاول نکال کر کھانے لگا وہ بھی چپ چاپ کھانا کھانے لگی تھی کھاتے وقت ان دونوں کے درمیان مکمل خاموشی تھی آج چائے بنا کر مجھےدے کہ آنا میں روم میں جا رہا ہوں چاول کھا کر وہ یہ کہتا روم میں چلا گیا ۔
پیچھے اشنال نے پہلے ٹیبل سے برتن سمیٹ کر پلیٹیں اور برتن دھوکر چائے چولہے پر رکھی تھی جب وہ موبائل لیے آیا یہ امی کا فون ہے بات کرو ۔۔۔روشنال اس کی پھرتی دیکھ پر ایک پل کو سچ میں متاثر ہوا تھا جو ہر چیز سمیٹ کر اب چائے بنا رہی تھی وہ اسے فون دیتا دوبارہ کمرے میں چلا گیا۔
ہیلو السلام علیکم۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی
وعلیکم کیسا ہے میرا بچہ ۔۔۔۔!
جی تائی امی ٹھیک ہوں ۔۔۔۔یہ کہتے اس کی آنکھیں چھلک گئی تھی لیکن اپنے لہجے پر کنڑول کرکے بولی تھی کیونکہ دنیا میں بس اسے تائی جان کا پیار اسے ہر فریب سے پاک لگتا ہے ۔۔۔۔بیٹا تم خوش تو ہونا انہوں نے اندیشوں میں گرتے ہوئے کہا۔۔۔
جی تائی امی میں بہت خوش ہوں اور آپ سنائیں سب گھر میں کیسے ہیں آغا جان۔۔۔تایا ابو، چھوٹی امی ، منال آپی اور حسنال سب ٹھیک ہیں وہ ان کی بات بدلتے ہوئے بولی تھی کیونکہ اس کے دل میں بھی ایک گلہ تھا کہ وہ تو اسے غلط نہ سمجھتی اور چاہے کچھ بھی ہوجاتا اسے گھر سے نہ نکلنے دیتں۔۔۔روشنال کا رویہ کیسا ہے تمھارے ساتھ ۔۔۔۔؟ان کی فکر مندانہ آواز دوبارہ سے گونجی تھی۔۔۔
جی بہت اچھے ہے وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔۔۔! وہ بمشکل اپنی آواز پر لرزش پاتے ہوئے بولی تھی کیونکہ وہ ایک ماں کو اسکے بیٹے ست بد گماں نہیں کرسکتی تھی۔
مجھے پہلے بہت ڈر تھا کہ جس غصے کی وجہ سے وہ تمھیں لے کر گیا ہے نہ مجھے کچھ اور ہی ڈر تھا لیکن میں جانتی اس کا دل بہت نرم ہے وہ تمھیں تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ۔۔وہ اس کے دل سے بے خبر بول رہیں تھیں پتہ ہے آج میں نے تمھارے ایڈمشن کی بات کی تھی کہ وہ تمھارا ایڈمشن کسی کالج میں کرادے اور وہ مان گیا ہے ۔۔۔۔۔! تائی امی کی بات سنتے ہی اشنال کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی تھی کیونکہ وہ پڑھنا چاہتی تھی اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔۔۔۔شکریہ تائی امی فرحتِ جذبات سے اس کی آنکھوں میں آنسووؤں آگئے تھے انہوں نے ادھر اُ دھر کی باتیں کرکے فون بند کر دیا تھا۔جبکہ وہ جلدی سے چائے کپوں میں ڈالنے لگی یہ سوچے بغیر کچھ دیر پہلے اس نے اسکی بے عزتی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنال کا فون آیا تھا رات کو سب کھانا کھا رہے تھے جب آغا جان نے سنجیدہ سی آواز میں کہا۔۔۔۔جی میرے ساتھ بات ہوئی تھی اس کی ۔۔۔۔تہمینہ بیگم نے ان کی بات کا جواب دیا ۔۔۔ تو اس کے حواس ٹھکانے لگے ہیں یا ابھی بھی اپنی ضد پر قائم ہے ۔۔۔انہوں اب اپنی بڑی بہو سے پوچھا۔۔۔۔نہیں وہ نہیں آگے آغا جان وہ کہہ رہا تھا جس جگہ میں میری عزت نہیں وہاں میں قدم رکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔۔۔تیمنہ بیگم نے اس کی باتیں واضح لفظوں میں آغاجان کو بتائیں تھیں ۔۔۔۔؟ دا جان وہ آپکا ہی پوتا ہے ضد اور انا کا پکا ہے اندر سے گھٹ گھٹ کر مر جائے گا لیکن آپکے آگے جھکے گا نہیں ۔۔۔۔اب جواب کھانا کھاتے ہوئے حسنال نے دیا تھا۔ میں اب اس لڑکی کو اپنے گھر میں قدم بھی نہیں رکھنے دوں گی یہاں تو وہ یہاں رہے گی یا میں اگر وہ آئی تو میں اس گھر سے نکل جاؤں گی
ثمینہ بیگم نے زہر خند لہجے میں کہا تھا ۔
تم جاؤ گی تو تب نہ جب میں اس لڑکی کو اپنے گھر میں قدم رکھنے دوں گا وہ لڑکی اب اس گھر میں نہیں آسکتی ہر بار تم ہی قربانی کیوں دو پچیس سال پہلے اس لڑکی کی ماں نے مجھے میرے بیٹے سے دور کر دیا تھا اب اس کی بیٹی بھی یہ ہی کچھ کر رہی ہے لیکن اب میں یہ ہونے نہیں دوں گا ان کی چٹانوں جیسی آواز آئی گونجی تھی ۔۔
آغاجان وہ بھی تو آپکی پوتی ہے آپکو کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ آپکے بیٹے کی نشانی ہے آپ کو اس سے ذرا بھی انسیت نہیں ہوئی آپ نے اس کے سر پہ کبھی ہاتھ شفقت کا ہاتھ نہیں رکھا ۔۔۔۔یہ بحث سن کر صغیر صاحب خاموش نہیں رہے تھے اور جہاں تک بات ہے روشنال کی وہ اشنال کو کبھی نہیں لے کر گئی ۔۔روشنال اپنے انتقام کےلیے اس سے لے کہ گیا ہے میں صرف آپکی وجہ سے خاموش ہوں نہیں تو وہ میرے بھائی کی نشانی ہے جس کو وہ مرتے وقت میرے حوالے کرکے گئے تھے اور مجھے پتہ ہے روشنال ایسی گھٹیا حرکت کر ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے سے بارہ سال لڑکی کو ورغلائے کیونکہ اس کی تربیت اس کی ماں نے کی ہے اس رات میں نے زبردستی نکاح روشنال کا کروایا تھا اور اشنال نے جو کیا ہے وہ اتنی بڑی بات نہیں بچوں سے اس عمر میں غلطیاں ہو جاتی ہیں وہ چھوٹی تھی اور مجھے اس بات کا علم تھا کہ روشنال سے زیادہ اشنال کا کوئی خیال نہیں رکھ سکتا اس لیے میں نے یہ نکاح کروایا ہے روشنال ابھی غلط فہمی کا شکار ہے وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گاصغیر صاحب جب بولنے پہ آئے تو سارے راز افشاں کر گئے تھے۔
اگر تم سمجھتے ہو کہ میں تمھارے اس لیکچر سے جذباتی ہوکر اس کو پوتی سمجھ کر اسے گلے سے لگا لوں گا تو یہ تمھاری بھول ہے کیونکہ وہ ایک غیر عورت کی بیٹی ہے جس نے میری بھتیجی کی خوشیوں پر آگ لگائی تھی۔۔۔۔۔۔۔پر آغا جان بیٹی کی شناخت تو اس کے باپ سے ہوتی ہے اولادتو باپ سے پہچانی جاتی ہے انہوں نے پھر اس کا دفاع کرنس چاہا تھا ۔۔۔۔
بس ایک لفظ اور نہیں ۔۔۔۔۔وہ یہ کہتے غصے سے چلے گئے جب کہ پیچھے افراد بھی آہستہ آہستہ اٹھنے لگے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری شرٹ کا بٹن ٹوٹ گیا لگا دیں پلیز۔۔۔۔! وہ سوئی ہوئی تھی جب حسنال اس کے پاس آکر بولا ۔۔۔لیکن وہ نہیں اٹھی اس کے دو تین پکارنے پر بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تھی۔۔۔ اٹھیں نہ وہ پھر سے بولا ۔۔۔۔۔! پر پھر اسکا کوئی رسپونس نہیں آیا تھا۔۔۔
اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم۔۔۔۔! وہ اونچی اونچی آواز میں گانے لگا ۔۔۔۔سوئی ہوئی منال اس کی بے سری اور بھاری آواز سن کر اپنے کانوں کے آگے ہاتھ رکھ گئی تھی دو تین دفعہ وہ ایسے ہی لیٹی رہی تھی لیکن آخر تنگ آکر پانچ منٹ بعد اٹھی تھی ۔۔۔۔کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ مجھے سونے کیوں نہیں دے رہے وہ اب خاموش سا اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔اب تمھاری آواز آئی تو میں تمھارا سر پھاڑ دوں گی مجھے سونے دو تم ۔۔۔
وہ پھر لیٹ گئی اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے ہم اب کی بار آواز پہلے سے اونچی تھی ۔۔۔
وہ سمجھی تھی کہ وہ اب نہیں جگائے گا لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی ۔۔۔۔۔ہوں ہوں وہ تنگ آکر ٹانگیں بیڈ پہ مارنے لگی۔۔۔۔ کیا ہے تمھیں بےبسی سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے ۔۔۔۔جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ کر چیخی تھی ۔۔۔۔۔! ایک شرط پہ جاؤں گا اگر آپ بٹن لگا کر دیں گی وہ بھی ڈھیٹ ابنِ ڈھیٹ تھا ۔۔۔۔دو شرٹ میں لگا دیتی ہوں آخر وہ تنگ آکر بولی کہ وہ جلدی سے لگا کر سو جائے ۔۔۔یہ لیں سوئی دھاگہ اس کے ہاتھ پر رکھ کر خود اس کے آگے بیٹھ گیا۔۔۔۔ ڈفر شرٹ دو مجھے ۔؟ وہ غصہ ہوئی تھی ۔۔
نہ نہ آپ ایسے ہی لگا دیں میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔ وہ دل جلانے والی مسکراہٹ سے بولا تھا ۔۔۔۔میں ایسے نہیں لگا رہی اب خود لگاؤ وہ اس سے دور ہوتی پھر لیٹ گئی ۔۔۔۔۔خالہ خالہ ۔۔۔۔اس نے ایک بار اونچی آواز لگائی تھی ۔۔۔ وہ ہڑ بڑ کر اٹھی تھی اور پھر سے اس کے قریب ہو کر اس کے ہاتھ سے دھاگہ لے کر بٹن لگانے لگی تھی یہ والی دھمکی کار آمد ثابت ہوئی تھی۔۔۔۔یہ مت سمجھنا کہ میں ڈر گئی ہوں تمھاری خالہ سے وہ جیسے اسے جتانا چاہ رہی تھی ۔۔۔
آپکا شوہر ہوں میں لہذا مجھے ہلکے میں مت لیجئے گا ۔۔۔
وہ اس کو تپانے کی خاطر بولا تھا۔۔۔
شوہر بن کر کیا اچھا کام کیا ہے تم نے۔۔۔۔؟ کہنے کو وہ اسے چار سال چھوٹا تھا پر وہ اس کے پاس بیٹھی بچی لگ رہی تھی ۔۔۔۔
کرنا تو چاہتا ہوں پر آپ کرنے نہیں دیتیں ۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ لیے بولا تھا ۔۔
کیا کرنا چاہتے ہو اور کیا میں نے کرنے نہیں دیا ۔۔۔! وہ تپ کر بولی حسنال کا ڈمپل اسے زہر سے بھی زیادہ برالگا۔۔۔؟
رومینس یار ۔۔۔۔۔آپ کرنے ہی نہیں دیتی میں بچارا تو آپکے نزدیک نزدیک ہوتا رہتا ہوں ۔۔۔!وہ اس کے بالوں کی لٹ پیچھے کرتا ہوئے
نہایت ہی چیپ اور بے شرم انسان ہو تم ۔۔۔منال نے غصے سے سے سرخ ہوئی اور پھر زور سے سوئی اس کی سینے میں چبھو دی تھی وہ سی کر رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔اور بٹن لگا اپنے نیل سے دھاگہ توڑ دیا ۔۔۔۔! مجھے تو لگا کہ آپ اپنے منہ سے دھاگہ توڑیں گی ۔۔۔۔وہ ڈھٹائی سے مسکرا کر بیٹھ سے اترا تھا جب کہ وہ کوئی شے ہی ڈھونڈتی رہ گئی کہ اسے اٹھا کر دے مارے لیکن افسوس اس کی نظر میں ایسی ویسی شے ہی نہیں تھی ۔۔۔۔
اگر تم مل جاؤ زمانہ چھوڑ دیں گے اس کو پانچ منٹ لیٹے ہوئے تھے جب اس کو اپنے پاس سے پھر سے اسکی بے ہنگم آواز آئی اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا حسنال بیڈ دراز سے کار کی چابی اٹھا رہا تھا۔۔۔!
اب اگر تم مجھے روم میں نظر آئے تمھاری ٹانگیں توڑ دیں گے ہم ۔۔۔۔۔وہ پھر سے اٹھ کر اسے وارن کرتی ہوئی اسی ہی کے انداز میں بولی تھی ۔
ٹانگیں پاس آوں تو توڑیں گی یا دور سے ۔۔۔۔! وہ اس کے تپے ہوئے انداز دیکھتا پہلے آرام سےقدم اٹھا گیا دروازہ پہ پہنچتے ہی شیطانی مسکراہٹ سے باہر گیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشنال کو آئے تقربیاً بیس دن ہوگئے تھے وہ اب کالج جانے لگی تھی آج چونکہ ہفتہ کی رات تھی تو وہ جلدی گھر آگیا تھا ۔۔اشنال کب سے بیٹھے ایک اکاؤنٹنگ کے کوئسچن میں پھنسی ہوئی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آر رہا تھا وہ دوسرے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتی اور سوتی بھی وہی تھی اس دن کے بعد دوبارہ اس کے کمرے میں نہیں سوئی وہ کتنی دیر اور کرتی رہی لیکن اس سے حل نہیں ہوا تھا آخر تنگ کر اس کے روم کا دروازہ ناک کیا اجازت ملتے ہی وہ اندر آئی تو وہ آگے سیگریٹ پی رہا تھا اشنال نے اسے زندگی میں سیگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا وہ حیران رہ گئی تھی۔۔۔ یہ کوئسچن سمجھ نہیں آرہا سمجھا دیں پلیز۔۔۔۔۔؟ وہ آگےسے کچھ نہیں بولا ۔۔۔۔۔پلیز سمجھا دیں ۔۔۔۔! پھر بھی اس کا رسپونس نہیں ملا تھا
پلیز میم ماریں گی مجھے کوئسچن کروا دیں وہ اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن اس سے جواب نہیں دیا تھا ۔۔۔اس دفعہ اشنال کو غصہ آیا اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے سیگریٹ کھینچ لیا تھا۔۔۔
سیگریٹ واپس کرو مجھے تمھاری ہمت کیسے ہوئی اشنال بخت ۔۔۔۔ اس کی ڈھارتی ہوئی آواز آئی تھی ۔۔۔جبکہ وہ اپنا سیگریٹ والا ہاتھ پیچھے بند کر گئی ۔۔۔۔روشنال نے اس کو بازوؤں سے پکڑ کر اپنے پاس زور سے گرایا کہ وہ اس کے ہاتھ سے سیگریٹ لے ۔۔۔ اس نے اپنی مٹھی آگے کر کے کھولی تھیں جس کی بے داغ ہتیھلی دو تین جگہ سے جلی ہوئی تھی وہ ابھی اس کے ہاتھ سے لیتا ہی کہ وہ ہی سیگریٹ اٹھا کر اپنے منہ کے پاس کر گئی تھی اور وہاں سے اس کا ہونٹ بھی جل گیا تھا ۔روشنال بخت اس کے اس عمل سے ساکت ہوگیا تھا وہ اسے آج پہلے والی اشنال لگی ۔۔۔ ضدی اور ہر بات منوانے والی ۔۔۔۔جب کہ اشنال کی آنکھوں سے تکلیف سے آنسوؤں نکل رہے تھے یہ کیا کیا تم بیووقوف ۔۔۔وہ اس کا ہاتھ تھام گیا جو اب اس کے کندھے کے ساتھ نڈھال سی ہوگئی تھی۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial