تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

یہ کیا کر دیا ہے تم نے بیوقوف۔۔۔۔۔؟وہ اس کی طرف دیکھ کر کہہ کہنے لگا۔۔۔جو اب اس کے ساتھ نڈھال سی لگی تھی ۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر معائنہ کرنے لگا جو سگریٹ لگنے جو دو تین جگہ سے جلا ہوا تھا وہ بہادر بن کر اسے سگریٹ تو چھین گئی تھی لیکن اب ہاتھ کا درد اس کی چیخیں نکال رہا تھا۔۔۔۔وہ اپنی چیخیں ضبط کرنے میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔
نہایت ہی بے وقوف عورت ہو تم ۔۔اب رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔! وہ اس کو روتا ہوا دیکھ کر غصے سے بولا۔۔۔۔؟
آخر چاہتے کیا ہیں آپ مجھ سے بتا دیں ۔۔۔۔؟ انسان ہوں تکلیف ہے روؤں بھی نہیں میں نے معافی بھی تو مانگی ہیں پھر بھی اگنور کر رہے ہیں مجھے ۔۔۔۔۔؟ اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی زیادتی آپ کے ساتھ ہوئی تو میرے ساتھ بھی آپ سے بڑھ کر ہوئی ہے میں بھی بھی انسان مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔۔ ہر کسی کا لہجہ مجھے بھی تکلیف دیتا ہے اس رات آپ نے میرا استعمال۔۔۔۔۔
اسکے لہجے کی بغاوت دیکھ کر روشنال بخت کا دماغ گھوم گیا اس نے تھپڑ رکھ کر اشنال کے چہرے پر رسید کیا ۔۔۔۔
اس کے تھپڑ سے تو اشنال کے حواس جنجھا اٹھے تھے وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔جسکی لال غصے بھری آنکھیں اسے اپنے آپ میں گھڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔
درد کیا ہوتا ہے جانتی ہو بھی اشنال بخت۔۔۔۔! تمھارےایک غلط قدم نےمجھے تباہ کرکے رکھ دیا ہے مجھے پورے خاندان میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے پھر معافی مانگ رہی ہو ۔۔۔۔
میرے اپنے مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے سے بارہ چھوٹی لڑکی کو ورغلایا ہے وہ مجھے طعنے دیتے رہے ہیں
میں اب تک اذیت برداشت کر رہا ہوں مجھے ان کے الفاظ جینے نہیں دے رہے انہوں نے مجھے بد کردار مرد کہا ہے اور یہ لفظ میری روح کو چھلنی کر گیا ہے ۔۔۔آج تمھیں پتہ چلا ہے نا اذیت کیا ہوتی ہے یہ تو صرف دو چھوٹے چھوٹے نشانات ہیں نا! جو میرے دل کو لہولہان کرگئے ان کا کیا وہ بظاہر نظر تو نہیں آرہے ۔۔۔۔میرے اپنوں کے لفظوں نے اندر سے زخمی کر دیا ہے ۔۔۔۔اس رات میں خراب نہیں تھا میں نے تمھاری خواہش کو پورا کیا ہے اور جب سب نے مجے تمھاری بیوی بنایا تو میں کیوں اس حق سے کٹ کر رہتا ورنہ میرے اندر نہ کوئی خواہیش ہے نہ کوئی چاہ ۔۔۔۔۔۔ خاص کر تمھارے لیے تو بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔۔اور جو کچھ تم نے کیا ہے اس کےلیے تمھاراشکریہ کہ تم نے مجھے اپنا اصل دکھا دیا ہے ورنہ میں کب تک تمھیں بچی سمجھتا رہتا۔۔۔اب روشنال نے سیگریٹ جلا کرا اور اس کی گردن پہ رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔جسے اشنال کی چیخ نکل گئی تھی یہ نشانات اب تمھیں نظر آئیں گے جب تم آئینہ دیکھو گی تم نے سوچا تھا کہ میں تمھاری تکلیف پہ تڑپ اٹھوں گا اس لیے تم نے یہ حرکت کی ہے لیکن اشنال بخت یہ سوچ لو میں اب تمھیں تکلیف ہی دے سکتا ہوں تمھارے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا ۔۔۔۔۔لہذا اب تمھیں سمجھ آجانی چاہیں وہ اس کی طرح خون آلود نظروں سے دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
میں یقین سے کہہ سکتی ہوں آپ مجھ سے نفرت کر ہی سکتے نہ آج نہ کل آپ کے دل میں بدگمانی ضرور ہے وہ کسی دن دور ہوجائیں گی آپ مجھے تکلیف میں دیکھ ہی نہیں سکتے اذیت دینا تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی تکلیف کو برداشت کرتی بمشکل بولی تھی
اسکا پر اعتماد لہجہ ، اسکی باتیں روشنال کے دل پہ جلتی کا کام کرگئی تھیں۔۔۔۔۔ اس نے اب کی اس کا منہ پہ اپنا مضبوط جما دیا کہ وہ مزاحمت نہ کر پائے اور اب کی بار لیٹر نکال کے سیگریٹ جلایا سگیریٹ سے تھوڑی آگ بھی نکل رہی تھی اس کے گردن پہ پھر ہاتھوں پر پھر دو تین بار اور پھر لگاتار اس کے کندھے پر رکھا ۔۔۔۔۔۔وہ ہوں ہاں پہ روتی اپنا آپ کو بچانے کےلیے چیختی رہی چلاتی رہی ۔۔۔۔لیکن وہ اس کے پاس بیٹھا ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔۔ اس کے سر سے ڈوپٹہ کب کا اتر گیا تھا اس کی آنکھوں سے بے بسی سے آنسو نکل رہے تھے جہاں جہاں پہ سگریٹ لگتا وہاں سے شرٹ بھی تھوڑی تھوڑی جل گئی تھی ۔۔۔۔۔ اب تمھیں یقین آیا کہ میں تم سے کتنی نفرت کرتا ہوں یہ میرے نفرت کی شروعات ہے اشنال بی بی ۔۔۔۔انتہا پہ جب آیا تو منہ پہ تیزاب ڈالوں گا ۔۔روشنال کے دل کو جب تک تسکین نہ پہنچی وہ تب تک سیگریٹ لگاتا رہا اور پھر ہاتھ ہٹادیا ۔۔۔۔۔اس کی زوردار چیخ سے کمرہ میں ارتعاش سا ہوا تھا ۔۔۔۔ روشنال اسے دیکھتا رہا وہ کبھی ہاتھوں پہ پھونکیں مارتی کبھی گردن کو پکڑ کر ہچکیوں سے روتی کہ کسی طرح تکلیف ختم ہو۔۔۔۔بال بکھر گئے ڈوپٹہ جو نمازی شکل میں تھااب اس کے پاس پڑھا ہوا تھا کیونکہ خود کو چھڑاوتے کی کوشش ڈوپٹہ نیچے گرا تھا گلابی رنگت رونے کی وجہ سے اور گلابی ہوگئی اور آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑے ہوئے تھے شاید رات کو دیر تک پڑھتی رہتی وہ لب بھینچتی درد کنڑول کر رہی تھی روشنال نے جب اسے بہت تکلیف میں دیکھا جو اس کے پاس بیٹھک ہچکیوں سے رو رہی تھی تو اس نے ہاتھ پکڑنا چاہا وہ ڈر کر پہلے پیچھے اور پھر اٹھی اور اندھا دھند بھاگی اور اب کی بار ایک زور دار ٹھوکر دروازے سے لگی وہ وہی بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔۔
روشنال نے جب اسے دیکھا جو اب پاؤں تھامے ہوئے تھی وہ اٹھا کہ اسے دیکھے ۔۔۔۔اشنال نے جب اسے اٹھتے دیکھا تو بہت مشکل سے خود کو دوارزہ کے سہارے کھڑا کیا کہ وہ اب پھر سے اسے نہ مارے وہ فٹ سے بھاگتی گرتی کمرے میں پہنچی دروازہ بند کرلیا تھا ۔
روشنال نے باہر دیکھا جہاں سے وہ نکلی تھی دراوزہ کے قریب فرش پر اس کا خون لگا تھا جو شاید ٹھوکر لگنے کی وجہ سے اس کے پاؤں سے نکلا تھا اسے خود پہ غصہ آیا کہ کیوں وہ اپنی ساری اریٹیشن اس پہ نکال گیا تھا۔
؎ آجاؤ گے ایک دن حالات کی زد پر
ہوجائے گا معلوم تجھے خدا کیا ہے
از ابیا علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا جان۔۔۔آغا جان ۔۔۔۔۔۔ وہ انہیں پکارتا ہوا تھا۔جو اخبار پڑھ رہے تھے ۔۔۔
کیا ہو رہا ہے بر خودار کیوں چیخ رہے ہو ۔۔۔۔۔؟ وہ تھوڑا سا ڈر گئے تھے کہ کیا ہو گیا ہے ۔۔۔۔
آغا جان اب آپ کو عادی ہو جانا چاہیے میرے لہجے کا۔۔۔۔
وہ ان کے ڈر کو بھانپتا ہوا بولا تھا۔جنہوں نے سمجھا تھا کہ اس کی چیخ سے پتہ نہیں کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔!
آغا جان ایک بات سن لیں میری۔۔۔۔۔!
اب کیا ہوا ہے؟ وہ اس کو پھر سے چیخ مارتا دیکھ کر بولے تھے۔۔
دادا جان آپ اپنی بہو پلس بیتھجی کو سمجھا لیں ۔۔۔
وہ لوگوں کے گھر خراب مت کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ صیغیر صاحب کو میری شکایتیں لگاتی ہے کہ میں مستیاں کرتا ہوں اور سب کو تنگ کرتا ہوں اور ریسلنگ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
حد ہوگئی ہے میرا بائیک میری مرضی آپ سمجھا لیں انہیں ۔۔۔۔میں جو کچھ بھی کروں میری مرضی اور آپکے کھڑوس بیٹے صغیر صاحب ہے نا آپکو پتہ ہے نا جس طرح وہ مجھے مارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔حسنال آغا جان کے سامنے بے تکلفی سے بات کیا کرتا تھا ۔۔۔
آغا جان آپ خاموش کیوں ہیں ویسے تو آپ میرا بھرپور ساتھ دیتے ہیں کہ تمھارے باپ ہے ہی ایسا۔۔۔۔۔آج کیا ہوا ہے آج کیوں چپ ہیں ۔۔۔وہ ان کی غیر معمولی خاموشی سے تپ کر بولا۔۔۔۔۔۔؟ جبکہ آغا جان اسے آنکھوں سےاشارے کرتے رہ گئے ۔۔۔۔ !
آغا جان میں کوئی ندیم بیگ تھوڑی ہی ہوں جو شبنم کی طرح مجھے آنکھیں مار رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟
یہ کہتے ہوئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صیغر صاحب کھڑے ہوئے اسے کینہ تُوز نظروں سے گھور رہے تھے ۔۔۔۔!
اوئی ماں ۔۔۔۔۔۔۔بے ساختہ اس کے منہ سے یہ ہی نکلا ۔۔۔۔۔! بائیک کی چابی مجھے دو ۔۔۔۔۔وہ بولے تو بس اتنا ان کا لہجہ پتھریلہ تھا۔۔۔۔!
بابا و۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔ میرے پاس نہیں روم میں ہیں ۔۔۔۔!
مجھے صبح چاہیے وہ سختی سے بول رہے تھے ۔۔۔۔؟
جج۔۔۔۔۔۔جی ۔۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔یہ آپکے لاڈ کی وجہ سے بگڑا ہے ۔۔۔۔ وہ اب بابا کو دیکھ کر خفا سے بولے اور ایک بار پھر زبردست سی گھوری ڈال کر چلے گئے تھے جو احتراماً نگاہ جھکائے کھڑا تھا۔۔۔
نگائے جھکا کر تو ایسے کھڑا ہوگیا ہے جیسے وہ کسی لڑی کا سید ہو اور تو اسکا مرید ۔۔۔۔۔ آغا جان نے بیٹے کو دروازے سے نکلتے دیکھ کر کہا۔۔۔!
آغا جان آپ کا بیٹا سید ہو یا نہ ہو پر وہ مجھے مولا جٹ
ضرور لگتا ہیں جن کے قدموں کی دھمال سے ہی میرا ترا نکل جاتا ہے اور ان کو تو ہاتھ میں کلہاڑی اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ تو نگاہوں ہی سے قتل کر دیتے ہیں وہ بھی ہاتھ نچا نچا کر بول رہا تھا ۔۔۔۔۔
ویسے آگے جان آپ خود بھی تو صیغیر صاحب سے ڈرتے ہیں ان کے سامنے تو آپ بھی منہ نہیں کھولتے صرف آنکھیں مارتے ہیں۔۔۔۔
بیٹا تُو میری فکر چھوڑ اپنی فکر کر کیونکہ یہ چابیاں صرف صبح تک تیری مہمان ہیں ۔۔۔۔وہ اسکی سائیڈ پوکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔
آپ کو کیسے پتہ کہ چابیاں میرے پاس ہیں ؟ وہ ذرا مشکوک سا ہوکر آغا جان کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔۔
جتنی تیری عمر ہے ۔۔۔۔اس سے تین گناہ میرا تجربہ ہے انہوں نے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا اب نگاہے پھر اخبار پر جما لیں تھیں .
_Abeeha_Ali_
وہ روم میں آکر بڑے زوروں سے روئی اور روازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی کیونکہ کندھے اور گردن کا درد اسے ہر چیز بھلا گیا تھا وہ برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب بہت زیادہ بڑھا تو پر وہیں دروازے کے ساتھ ہی لیٹ گئی تھی ۔۔۔۔
دروازہ کھولو میں کہہ رہا ہوں دروازہ کھولو اشنال ۔۔ دروازہ اس نے دو تین بار ناک کیا ۔۔۔۔۔اشنال درد سے نڈھال نیچے پڑی رہی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھیں کہ وہ درازہ کھول سکے۔۔۔۔۔وہ ناک کرنے کے بعد چلا گیا تھا۔۔۔
کندھے کی جلن سے وہ کندھے کو اور زیادہ بھینچتیاور,اسے سے درد زیادہ بڑھتا ۔۔۔۔۔بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پانی دیکھ کر وہ پانی کے جگ کو دیکھ کر خود کو گھیسٹی لے کہ گئی اور لیٹے لیٹے پانی کا جگ سے تھوڑا تھوڑا پانی خود پہ گرایا کہ جلن کم ہو اور پانی ختم نہ ہو جائے تقریباً چند لمحے آرام آتا پھر وہی جلن ۔۔۔۔پھر ساری رات اس کی فرش پہ کٹی تھی پانی ختم ہوا تو وہ فرش پر ہی لیٹ گئی تھی وہ روشنال کے رویے سے جیسے اندر سے مرگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ یہ روح باہر سے جی رہی ہے۔
؎ دل جیسے اندر سے مرگیا ہو۔
ابیا علی
_________________
ماں ۔۔۔۔۔۔ماں مجھے ناشتہ دے دیں۔۔۔۔! وہ پراٹھے پکاتی ماں کے پاس آیا اور ان کو پیچھے سے ہگ کر لیا تھا ۔۔۔
حسنال چھوڑو ٹیبل پر بیٹھو میں دیتی ہوں ۔۔۔۔۔وہ بمشکل اسے اپنا آپ چھڑاتی ہوئیں بولیں۔۔۔۔۔۔۔!
ویسے آپکی ہٹلر بہن کہاں ہیں آج کچن میں نظر نہیں آرہی ویسے تو صبح امام کی طرح اذان دے رہی ہوتی ہیں وہ چائے کا کپ اٹھاتا ہوا بولا تھا۔۔۔
شرم کرو خالہ ہے تمھاری ۔۔۔۔۔! وہ پراٹھے کو اس کہ سامنے رکھتی اور اب مصروف انداز میں انڈے کو بیٹ کرتے ہوئے انداز میں بولیں ۔۔۔۔
ویسے یہ کیا بلا ہے۔۔۔۔۔۔! وہ اب کی بار قہقہ لگا کہ بولا۔۔۔۔
حسنال میں نے تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے اس طرح قہقے مت لگایا کرو اور نہ زیادہ ہنسا کرو۔۔۔۔۔
ہر وقت کا ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور اسے روح مر جھا جاتی ہے ۔۔۔تہمینہ بیگم اب کہ ڈاٹننے والے انداز میں اسے سمجھایا تھا۔۔۔۔
وہ ماں کی بات سنتا مسکرا کہ بالکل چپ ہوکے بیٹھ گیا۔
اب کیا ہوا ہے ۔۔۔وہ پانچ منٹ بعد آملیٹ بنا کہ فارغ ہوئی تو اس کو دیکھا جو خاموش سا بیٹھا تھا۔۔۔۔
اب کیوں چپ ہو گئے میں نے بولنے سے منع تو نہیں کیا ۔۔۔۔انہوں نے سمجھا کہ ناراض ہوگیا ہے اس لیے نرم لہجے میں اس کے آگے آملیٹ رکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
اب اتنی بے عزتی کے بعد کون پاگل بولے گا اور کیا بولے گا وہ منہ بنا کہ بولا ۔۔۔۔
وہ اس کا منہ بنتا دیکھ کر مسکرائی اور پیار سے اسکے بال بکیھرے تھے ۔۔۔
نہیں بیٹا یہ ڈاٹننا نہیں تھا یہ میرا پیار تھا اور بھلا مائیں بھی اولاد کی بے عزتی کرتیں ہیں جو آپ سے پیار کرتے ہیں وہ پھر ڈاٹنے کا حق بھی رکھتے ہیں وہ آپکی بہتری کےلیے آپ کو ڈانٹتے ہے وہ پھر سے اٹھ کر اب کچن کی بکھری چیزیں سمیٹنے لگی تھی ۔۔۔۔
یہ بات تو ٹھیک ہے پر جو حال آپکے رانجھا صاحب میرا کرتے ہیں وہ مجھ سے بر داشت نہیں ہوتا ۔۔۔۔ان کے پیار محبت کا انداز ذرا نرالہ ہی ہے۔۔
تہمینہ بیگم نے مڑ کر اسے گھورا جو ناشتے سمیت کچن کے دروازے سے باہر جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر اور بیٹھتے نا پھر میں تمھیں بتاتی ۔۔۔وہ کہہ کر خفگی سے پھر سے کام کرنے لگی تھیں۔۔۔
مجھے پتہ ہے آپ کہ ہاتھ میں عارف لوہار کا چمٹا ہے اس لیے میں باہر آگیا تاکہ آپ کی محبت بہت زیادہ باہر نہ آجائے اور برس برس کر برسے میرے اوپر ۔۔۔۔۔اس کی آوازپھر سے گونجی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنال کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ بیٹھا آج اتوار تھی تو وہ لیٹ اٹھا تھا اشنال کا ڈوپٹہ اس کے پاس پڑا ہوا تھا ۔۔۔اور اس کی اکاونٹگ بھی بک بھی وہی پڑی ہوئی تھی وہ سمجھا کہ وہ کچن میں ناشتہ بنا رہی ہے اس کی تکلیف بھول گئی جو رات کو دی تھی اسے ۔۔۔
پھر کچن سے کوئی آواز نہ سن کر اور معمولی سناٹا دیکھ کر سلیپر پہنتا وہ باہر نکل آیا تھا ۔
وہ اسکے روم کے پاس آیا جس کا ڈور بند تھا ۔۔
اشنال دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔وہ دو تین باہر ناک کرتا رہا۔۔۔۔
اشنال میں کہہ رہا ہوں دروازہ کھولو ہری اپ اگر میں نےخود درازہ کھولا تو بہت برا حشر ہوگا ۔۔۔ لیکن پھر اس کی آواز نہیں آئی اب کی بار غصے میں اپنے روم سے چابیاں لے کر آیا ۔۔۔۔اور غصے سے لاک کھول کر دوروازہ پیچھے کیا وہ نیچے فرش پر بیڈ کے ساتھ پڑی پانی کا جگ ادھر ہی اوندھا پڑا تھا اس کے بال گردن کے ساتھ چپکے ہوئے تھے روشنال اس کی حالت دیکھ شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلا گیا تھا کیونکہ اس کا پاؤں بھی سویل ہوا ہوا تھا ۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial