تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

روشنال ۔۔۔۔۔۔! موڑ کاٹتے ہی گاڑی کے سامنے ٹرک آگیا تھا وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے چیخی تھی۔۔۔
اس کے سارے بال اس کوششش میں آگئے تھے ہرنی جیسی آنکھیں پھیل گئی تھی روشنال نے اسے دیکھا اور۔۔۔۔اس نے ریورس کرکے بہت مشکل سے کنڑول کیا تھا تیزی سے گاڑی کراس کرنے کی وجہ سے کی وجہ اشنال کا سر ڈیش بورڈ سے لگا اسے ایسے لگا کہ جیسے اس کا سر گرم ہوگیا تھا اور اسے اپنے سر سے گرم سیال مادہ ہلکا سے نکلتا محسوس ہوا تھا لیکن اس نے اپنا ڈوپٹا مزید ٹائٹ کیا اور اوپر سر پر شال کرلی تھی کہ اسے درد نہ ہو ۔۔
تم۔۔۔۔ٹھیک ہو۔۔۔۔۔؟روشنال اسے دیکھتا ہوا بول رہا تھااس کو حیران دیکھ کر بولا تھا۔
جج۔۔۔جی مم۔۔میں ٹھیک ہوں وہ اپنے سر پر اٹھتی ٹھیسوں پر بمشکل قابو پا کر بولی تھی ۔۔
وہ چند لمحے اسے دیکھتارہا پھر گاڑی سٹارٹ کی اس نے ایسے پوچھا جیسے رسم نبھائی ہو۔۔۔۔
اور اب کی بار گاڑی کی سپیڈ ہلکی تو نہیں پر تھوڑی سی کم ہوگئی تھی اللہ اللہ کر کے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر گھر پہنچی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے کپڑے نکال دوں ۔۔۔۔۔؟وہ ڈرتے ڈرتے بولی تھی جو جب سے آیا تھا پریشان بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔وہ بیڈ پہ بیٹھا گہری سوچ میں گم تھا۔۔۔۔
کل جب میں یہاں آؤں تو تم مجھے نظر نہ آؤ ۔۔۔۔؟تو پھر میں کہاں جاؤں۔۔۔۔؟ وہ حیران پریشان ہوکر سوال کرنے لگی اسے تو اس سوال کی امید ہی نہیں تھی ۔۔۔۔!
اپنے باپ کے گھر۔۔۔۔! میں تمھیں طلاق دے دوں گا تم امی لوگوں کے پاس چلی جانا۔۔۔۔
پر وہاں سے تو مجھے سب نے نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دروازے بند کر دیے ہیں ۔۔۔ممم۔۔کہاں جاؤں گی اس کی آنکھوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی آنسو آگئے تھے وہ اتنی آسانی سے کہتا اس کے دل کے ہزار ٹکڑے کرگیا ۔۔
آئی ڈونٹ کیئر جہاں بھی جاؤ۔۔۔! وہ سنگدلی کی حد عبور کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
پلییز ۔۔۔اتنا ظلم نہ کریں آنسوؤں سے بولی تھی ۔۔۔
میں گھر کے کسی بھی کونے میں پڑی رہوں گی پر اپنا نام مجھ سے جدامت کریں ۔۔۔۔؟
یہ گھر آخری پناہ گاہ ہے میں کہاں جاؤں گی۔۔
تو پھر فیصلہ تمھارا ساری عمر کا درد یا طلاق۔۔وہ اس کے خوبصورت سراپے سے نظریں چرا کر بولا تھا ۔۔
پتہ ہے آج میرے دل پھٹنے لگا تھا فرقان نے مجھے وہ طعنہ دیا جو میرے باپ نے مجھے دیا تھا۔۔۔
تمھاری ایک حرکت کی وجہ سے میں گھر والوں کی معاشرے کی نظروں سے گر گیا ہوں ۔۔۔اس کو تم نے خود سنگدل بنایا ہے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا تھا میں ایسا شخص بن گیا ہوں جو تھیں موت کے منہ میں دھیکلنے کی کوشش کروں گا اس آگ سے بچا لو خود کو میں آخری بار کہہ رہا ہوں خود کو میرے نام سے آزاد کرالوں تمھاری زندگی جلنے سے بچ جائے گی کیونکہ میں تم سے اتنی نفرت کرتا ہوں جس کی کوئی انتہا نہیں تم مجھ پہ گراں گزر رہی ہو اور تم یہ چاہتی کہ ہو کہ زندگی کی جگہ میں میرا دل نرم پڑ سکتا ہے یا میں اپنے اور تمھارے رشتے میں گنجائش رکھ سکتا ہوں تو ایس کچھ ہے میں اب بدل گیا اب میں دھوکوں میں نہیں آتا وہ اسے واضع کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
ورنہ مجھے کچھ مت کہنا ۔۔۔۔وہ اب بات نرمی سے کر رہا تھا ۔
آپ اپنی جلتی آگ کے میں مجھے جلائیں ۔۔۔۔ جب آپ نفرت کی آگ بجھ جائے گی تو مجھے اس وقت آزاد کر دیجئیے گا وہ اسے کہنا تو بہت کچھ چاہتی تھی کہ وہ بے قصور ہے وہ اس شخص کا گریبان پکڑنا چاہتی تھی جس نے اس کی ہنستی مسکراتی زندگی چھین لی تھی وہ اپنے اوپر کیے گئے ستم کا حساب لینا چاہتی تھی لیکن وہ نہ کہہ سکی تھی وہ شخص اپنے انتقام کےلیے اس کی روح کو پامال کرگیا تھا جو اس کی آنکھوں میں ایک آنسوؤں نہیں دیکھ سکتا تھا وہ اس شخص کو اعتبار دلانا چاہتی تھی وہ یہ کہہ اس کو حیران چھوڑتی چلی گئی تھی ۔۔۔
؎آنسووؤں کی ضمانت بھی جہاں کام نہ آئی
وہ شخص لفظوں کا یقین کیا خاک کرے گا ۔۔۔۔۔
( مرزا غالب )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے میں آئی تو اس کے صبر کی طنابیں ٹوٹ گئی سر سے شال اور ڈوپٹہ اتار کہ پھینکا تھا سر پہ درد ہوا ہاتھ لگا کہ دیکھا خون تھا وہ وہ سائیڈ دراز کے ساتھ بیٹھتی اپنے بیڈ پہ بازوؤں رکھتی ہچکیوں سے رو دی تھی وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی نہ اپنے حق کےلیے لڑ سکتی تھی نیچے دراز سے بابا کے تصویر نکال کہ اپنے سینے سے لگا کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی ۔۔۔
اسے لگا کہ وہ آج یتیم ہوئی ہے آج بے سہارا ہوئی ہے وہ ٹوٹ بکھر کر روئی تھی ۔۔
ماما بابا آپ مجھے چھوڑ گئے ہیں آپ نے پسند کی شادی کی تھیں تو اس میں میرا کیا قصورتھا آغا۔۔۔آغا جان تو کہتے ہیں کہ میں ان کا خون نہیں ہوں ۔۔۔مج۔۔مجھے بڑی مما نے بھی گھر سے نکال دیا ہے مم۔۔۔مجھے آج پتہ چلا ہے کہ گھر کیا ہوتا ہے ۔۔۔؟ ییتم لفظ کیا ہوتا ہے ۔۔۔رشتے کیا ہوتے ہیں؟ زندگی کیا ہوتی ہے؟ سانس کیا ہوتی ہے؟مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میری سانسیں چل رہی ہے زندگی ختم ہوگئی ہے ماں باپ کے بغیر بھی کوئی زندگی ہوتی ہے ۔۔۔اسے لگتا ہے جیسے مجھے موت آگئی ہو اور مجھے یقین نہ آر رہا ہو ۔۔۔مما بابا میں مر رہی ہوں آپکی شہزادی اس زندگی سے تنگ آگئی ہے مما بابا پلیز مجھے اپنے پاس بلا لیں ۔۔۔بابا آپکے بابا کے اتنے بڑا بنگلے میں بھی میری جگہ کئی نہیں ہے بابا آپکے بھتیجے کے فلیٹ کے چار کمروں میں میرا وجود کئی بھی نہیں ہے ۔۔!
بابا خدا کی اتنی بڑی دنیا میں میرے لیے جگہ کم پڑگئی ہے میرا وجود ہر جگہ ان فٹ ہے مما آپکی شہزادی رل جائے گی پلیز اسے اپنے پاس بلا لیں ۔۔۔۔۔بابا جب سارے رشتے اتنے ظالم ہیں تو یہ دنیا کتنی ظالم ہوگی جو مجھے گندا کر دیں گی ۔۔۔مجھے رسوا کر دے گی۔۔۔۔
مم۔۔۔مجھے آپکے بھتیجے نے بھی جہنم میں دکھیل دیا۔۔۔ بابا اپنے اللہ سے بولیں نہ کہ مجھے بھی اپنے پاس بلا لیں آپ تو ان کے پاس ہیں وہ آپکی کوئی بات نہیں رد کریں گے ۔۔ آپ مجھے اپنے پاس بلائیں گے تو میں مما اور آپ تینوں بہت خوش رہیں گے جہاں اس دنیا کی کوئی ٹنشن نہیں ہوگی ۔۔۔۔بابا آپ اللہ کو بتائیں نہ کہ سب ظالم ہیں اللہ آپ تو میری بات مان لیں وہ سب کی باتیں کرتی آخر میں اللہ سے التجا کر گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو بھیج کر وہ بے سکون ہوگیا تھا دو گھنٹوں سے وہ کروٹ پلٹ رہا تھا پر اس کو نیند نہیں آ رہی تھی ۔۔کسی کو بے چین کرکے نیند آبھی نہیں سکتی تھی۔۔
آنکھیں بند کیں تو چھم سے اس کے آنکھوں کے آگے ہرنی جیسی خوفزدہ آنکھیں آئی تھیں وہ ایک دم سے بے چین ہوکر اٹھا تھا ۔۔۔۔
اسے فرقان کی باتوں سے اتنا فرق نہیں پڑا تھا اسے فرق تب پڑا جب آج ایکسڈینٹ سے روکنے کےلیے اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اس کی ہرنی جیسی خوفزدہ آنکھیں دیکھ کر جب اس کے لمبے بال آگے اکسیڈینٹ کی کوشش میں آگے آئے تھے اس وقت وہ اس کی دل کی دنیا کو تہہ و بالا کر گئی تھی ۔
وہ مضبوط اعصاب کا شیر جیسی جسامت کا مالک آج خود سے ڈر گیا تھا اس کے ہاتھوں کا نرم سا لمس اس سے ابھی اپنے اوپر محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔وہ اس لمحے سے ڈر گیا تھا جب اشنال نے اس کا پہلی دفعہ نام لیا تھا۔۔ وہ اس لیے ڈر گیا کہ کئی وہ اپنے گھٹنے اس کے آگے ٹیک نہ دیں ۔۔۔وہ اسے خود سے دور بھیجنا چاہتا تھا کہ لوگ سچ میں اسے بدکردار نہ سمجھ لیں وہ اپنے آپ کو ظالم تصور کرکے بیھجنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے ڈر کر کر چلی جائیں وہ اس ایک لمحے سے ڈر گیا تھا جب اسے اشنال سے عشق ہوگیا تھا جب وہ اسکی آنکھوں میں ڈوب سا گیا تھا ۔۔۔۔۔بار بار تصور میں ہرنی جیسے آنکھیں دیکھ کر بے چین سا اٹھ کھڑا ہوں اور سلیپر پہنتا اس کے کمرے کی طرف قدم بڑھا گیا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے کمرے کی طرف آیا تو کمرہ لاک نہیں تھا ۔۔۔۔
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا اس کا ڈوپٹہ بیڈ پہ پڑا ہوا تھا اسے زمین پر بیٹھے بیڈ پہ سر رکھے پایا تھا بابا مم۔۔۔مجھے اہنے پاس بلائیں یہ کہتے ہوئے میں ساتھ اس کی سکی نکلی تھی ۔۔ اس نے اسے سیدھا کیا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہ سوتے ہوئے کہہ رہی تھی اس کے ان لفظوں سے روشنال بخت کے دل میں کئی ٹھیس اٹھی تھی اس کا سر اوپر کیا اس کے ماتھے سے خون نکلتا دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا تھا خون اب سوکھ چکا تھا کہ جب اسے اپنے دیے گئے درد یاد آئے تھے اس نے کونسا خوشی کے لمحات دیے تھے جو وہ اسے اپنے زخم دکھاتی یا اپنا درد بتاتی اس کا دل کیا کہ وہ اسے خود میں چھپا لے اور کچھ دیر بعد اپنے دل کی خواہش پر لبیک کہتا اسے سیدھا کرکے اپنا ساتھ لگالیا تھا اس کے ہاتھ میں کوئی تصویر تھی اس نے تصویر دیکھی جس میں چاچو اور چاچی تھے چاچو نے اسے اٹھایا ہوا تھا وہ ہق دق رہ گیا تھا وہ اس کے اس چاچو کی اولاد تھی جو اسے جان سے پیارے تھے جو اس کی ہر خواہش پوری کیا کرتے تھے وہ اس کے چہرے پہ مسکان کے بجائے الٹا وہ ان کی بیٹی کے درد کی وجہ بن گیا تھا اسے ہر روز نیا درد دیتا وہ تصویر کو سائیڈ ٹیبل پر رکھ گیا اس کے جسم سے تپتی حرارت نکل رہی تھی اسے شاید بخار ہور رہا تھا اس کا تپتا جسم آگ سے زیادہ گرم تھا اس کی سانس غیر ہموار لگ رہی تھیں اس کے گلابی چہرے پر آنسو کے مٹے مٹے نشان تھا اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں وہ اس کی حالت دیکھتا اپنے کمرے میں لے آیا اور بیڈ پہ اسے لٹایا تھا اور اس کے اوپر کمفرٹ ڈالا تھا اور وقت کی پروا کیے بغیر وہ کلینک نکلا اس کے دل میں وحشت اٹھ رہی تھی اس کو اس حال میں دیکھ کر اسے سکون نہیں مل رہا تھا
ہر روز وہ اسے درد دیتا تھا اسے محبت نہیں عزت تو دے سکتا تھا الٹا وہ اس کے معصومیت کو بکھیر گیا ہر روز کبھی لفظوں سے اس کو مجروح کرتا تو کبھی کبھی اس کے جسمانی مار دیتا تھا وہ اس کی ذات کے پرخچے اڑا گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پندرہ منٹ بعد واپس آیا تھا رات کے دو بج رہے تھے وہ ایسے ہی بے سدھ ہوتی سر ادھر اُدھربے چینی سے مار رہی تھی گلاب کی پنکھریوں جیسے لب ایسے خشک تھے جیسے سوکھا کوئی خشک تالاب ہو صبح جو گالب چہرہ چمک رہا تھا اب ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی گلاب کا پھول کتاب میں پڑا پڑا مرجھا گیا ہوا۔۔ وہ پھول ہی تو تھی وہ پھول تو اس نے پہلے دن توڑ دیا تھا جس کو اس نے مکمل طور پر مر جھا کر رکھ دیا تھا وہ پھول اس دن مرجھایا تھا جس دن وہ اس سے اس گھر سے لایا تھا بابا اللہ سے کہے مجھے اپنے پاس بلا لیں اس حالت میں بھی یہ ہی اس کی زبان پہ یہ ہی ورد تھا ۔۔ اس کا منہ کی وجہ سے بہت زیادہ سرخ ہوا تھا
اٹھو ۔۔۔۔ اس کے الفاظ سنتا اپنے آپ پہ قابو پاتے اسے اٹھایا لیکن وہ بے خبر تھی اس نے اسے بمشکل اٹھایا اور اس کے پاس بیٹھ کر اپنے ہاتھ کے سہارے سے اس کو ذرا سا اوپر اٹھا کر اس کو پانی پلایا اور پینا ڈول اور پین کلر دی سرہانہ بھی تپ رہا تھا اور پھر چائے کا کپ اور بسکٹ مشکل سے کھلائے اس کی حالت دیکھ کر وہ خود جلتے توے پر بیٹھا تھا اس کو اپنے رویے کچھ نہ کچھ احساس ہوا تھا وہ ایسا شخص تھا زخم بھی خود دیتا اور مرہم بھی خود رکھتا وہ عجیب تھا۔
اس کے ماتھے کا زخم صاف کرکے پٹی کی اور پھر اس کو پٹیاں کرتا رہا اسے جب لگا کہ اس کا بخار ۔۔۔
پچھلے ایک گھنٹے سے وہ بے چین رہا اور سوچوں کے سفر پر رہا پچھتاوے کے ناگ زہر مار مار کے اسے ڈستے رہے احساسات کے پنچھی کہاں کہاں سے اڑانیں بھرتے ریے اسے تھکن کا احساس ہوا تو اس کے پاس آکے لیٹا اور کمفرٹ اپنے اوپر کھنیچ لیا تھا سارادن کام کرنے اور دعوت اٹینڈ کرنے کے بعد اب وہ تھک سا گیا تھا اب اس کو نیند آرہی تھی تکیہ ٹھیک کر کمفرٹ کھنیچ کے اس کے برابر آ لیٹا اس کی طرف دیکھا جو دوسری طرف منہ کرکے اب پرسکون سو رہی تھی اس کے اوپر درست کیا تھا ۔۔۔۔ابھی اس کو سوئے آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا جب اسے اپنے سینے پہ تھوڑا بوجھ محسوس ہوا اس نے نظریں اٹھا کر وہ اس کے کشادہ سینے میں سمٹںنے کی کوشش کر رہی تھی وہ اپنے فیصلے کی اس مضبوطی کھونا نہیں چاہتا تھا وہ نہیں چاہتا کہ وہ اس کے معاملے میں بے بس ہو اس لیے اپنے ہی جذبوں اس سے بلند آواز میں پکارا۔۔۔
اشنال۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھیں کھول کر اسے دور ہونے کے بجائے الٹا اس کے وجود میں پناہ لینے لگی تھی اس کے بخار میں ہونے کے باوجود بھی اسکے حشر سامانیاں اٹھاتے وجود سے وہ نظریں اٹھا گیا تھا اشنال تو ہوش میں نہیں تھی لیکن وہ تو حوش میں تھانا۔۔۔
وہ اس لمحے کو پچھتا رہا تھا کتنی نفرت سے اس نے کہا تھا کہ وہ اس رشتے میں اب اور گنجائش نہیں رکھ سکتا وہ اپنے لفظوں سے مکرنا نہیں چاہتا تھا وہ پہلی رات اپنے حوش کھو کر اس کی زندگی عذاب بنا گیا تھا لیکن اب اس کا ایسے کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس کا گداز وجود اس کےلیے کسی امتحان سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ نہ ایسا کرنا چاہتا تھا اس اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے بازوؤں میں پڑی اپنی زندگی کودھتکار دیتا ۔۔۔وہ اسے اٹھا کر خود تو سوگئی تھی اس کی ساری رات آنکھوں میں کٹی تھی اس کی ذات پہ تو کوڑے لگ رہے تھے وہ نہیں چاہتا کہ وہ ایسے اس کی ذات میں کوڑے برسا جائیں کیونکہ اس رات اس کے ساتھ اشنال کی زندگی کو جہنم میں دکھیلا گیا تھا اور اس کی اس خطا کی وجہ سے وہ اس کے دورے ستم سہہ رہی تھی ۔۔۔۔ اس نے سوچا کہ وہ بے شک معاف نہ کرے لیکن اس کے ساتھ اپنا لہجہ تو نارمل سکتا تھا لیکن ایک طرف چاہتا تھا کہ اسے پتا بھی نہ لگے وہ اسے محبت کرتا ہے وہ اپنی کمزوری اس کو بھی نہیں دکھانا چاہتا تھا وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے سے بارہ لڑکی سے اس کی معصومیت سے ہار گیا ہے وہ اپنی شکست تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھیں امی کہہ رہی ہیں کہ آپ کو بازار لے کہ جانا ہے۔۔۔!
وہ اس کے پاس آیا تھا جو اپنی الماری سیٹ کر رہی تھی وہ اب بیڈ پہ پھیلے اپنے کپڑے تہہ کر رہی تھی اس نے ایک نظر اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
میں نے نہیں جانا تمھارے ساتھ ۔۔۔وہ ناگواری سے بولی ۔۔
آپ نے جانا کہ نہیں وہ اس کے لہجے کو دیکھتا اپنے غصہ پہ کنڑول کرتا نرمی سے بولا تھا ۔۔۔۔۔!
نہیں جانا دفع ہو جاؤ مت کھاؤ میرا دماغ ۔۔۔۔۔منال نے اپنے کتنے دنوں کی الجھن اس پہ اتاری تھی۔۔
کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ۔۔۔۔میں آپ کے لہجے کو برداشت کر رہا ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں آپ بدتمیزی کریں ۔۔۔۔
میں آپ کا دوست بننے کی کوشش کر رہا تو مجھے دوست بننے دیجئیے مجھے شوہر بننے پر مجبور مت کریں ۔۔۔
وہ اسے کلائی سے دبوچتا بیڈ پہ پھنکیتا اس کے اوپر جھکتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔
کک۔۔۔کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔۔۔ منال کی خوف سے اس کی زبان بند ہوگئی تھی منال نے اس کو اپنے اوپر جھکے ہوئے دیکھ کر خوف سے کہا جو اس کے بہت قریب کھڑا تھا ۔۔۔
مطلب بھی اب میں سمجھاؤں جانم۔۔۔۔۔اب اس کے قریب بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔جبکہ منال کی تو حیرت سے پھٹ گئی تھی وہ اس شخص سے ایسے لفظوں کی امید نہیں کر پار ہی تھی وہ اس کو اپنے قریب دیکھتی پرے کھسکی تھی کیونکہ وہ اتنا جنونی کبھی نہیں ہوا تھا ۔۔۔
دو منٹ میں تیار ہو باہر آئیں ورنہ میرے اگلے لائحہ عمل کی ذمہ دار آپ خود ہوگی اور خود کو تیار کرکے رکھا آپکو ایسا کونسا روگ لگا ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا؟ میں آپکے رشتے کو ٹائم دے رہا ہوں تو اس میں میری بھلائی سمجھے ۔۔۔آپ سے اچھی تو ہماری کام کرنے والی ماسی ہے وہ اس کے بکھرے حلیے کو دیکھ وارننگ دیتا بولا جس کے بال کھلے ہوئے تھے اور پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ اس کے پاس سے اٹھتا پنک کلر کا فراق پکڑاتا باہر چلا گیا پیچھے منال روہتی رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
آج حسنال نے اس کی آنکھوں میں واضح ڈر دیکھا تھا لیکن اس سے لگا اس نے جو کیا بالکل ٹھیک کیا وہ خالہ اور امی کو دیکھتا رہتا تھا کہ وہ اسے ہر وقت سمجھاتی رہتی تھی کہ صاف کپڑے پہنو اپنے اور کمرے کی صفائی رکھو لیکن ان کی کسی بات کا اسے اثر نہیں ہوا تھا اور اب اپنے طریقے سے سمجھایا تھا ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد اسے باہر آتے دیکھا تو اس نے وہ ہی پنک کلر کا فراق پہنا ہوا تھا جو وہ اسے تھمایا کہ آیا تھا ۔۔۔
اس کو دیکھتا اس نے اپنے مخصوص دانت باہر نکالے تھے کیونکہ وہ اسے بہت اچھی لگ رہی تھی اس نے اپنا آئی فون نکالا اور زوم کر کے اس کی پک بنالی اور جلدی سے اپنے سمارٹ انڈرییڈ فون پہ واٹس کرتا گیلری سے تصویریں ڈیلیٹ کر گیا تھا وہ ابھی دور تھی اس کو قریب آتا دیکھ سیلفی کمیرہ نکالا تھا ۔۔
میری تصویریں ڈیلیٹ کرو جلدی۔۔۔۔۔؟
اس کی اس حرکت کو دور سے دیکھتی تیزی سے وہ دانت پیستی اس کے قریب آتے ہوئے بولی تھی
کونسی محترمہ۔۔۔۔۔۔؟ وہ ایسے بولا جیسے اسے سرے سے جانتا ہی نہ ہو۔۔۔۔۔!
اتنے معصوم مت بنو ان کا کہہ رہی ہوں جو ابھی تم نے بنائی ہیں ۔ وہ اپنے غصے کے ابال پہ قابو پاتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
بندہ کتا پال لے خوش فہمی نہ پالے ۔۔۔۔۔۔ بھنگن کئی آپ کی تصویر میرے اس آئی فون کے قابل ہے وہ مسکراہٹ پہ قابو پاتا بولا۔۔۔۔۔
تو پھر مجھے گیلری دکھاؤ۔۔۔۔ اس کو یقین نہیں آیا تبھی ہی بولی ۔۔۔۔
اس نے گیلری اوپن کرکے دکھائی تو وہ اس کی تصویر کئی نہیں تھی اس کی اپنی تصویر تھی ۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔میری تصویر ڈیلیٹ کرو خوش فہمیاں چیک کریں جناب کی۔۔! وہ اس کے سامنے ہنستے ہوئے اس کی نقل اتارتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
یہ منہ اور مسور کی دال ۔۔۔۔ وہ پھرسے اسے چڑا گیا تھا۔۔۔
حسنال آئی ول کل یو۔۔۔۔۔۔! اس نے غصے سے مکہ اس کے کندھے پر مارا تھا۔۔۔
ہائے میں مر گیا۔۔۔۔وہ ایکٹنگ کرتا چابی گھوماتا کار میں جا بیٹھا تھا جبکہ منال کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اس کے دانت توڑ دے لیکن اس کا بس چلتا تو تب بات تھی ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial