قسط: 10
ارتضیٰ کے ساتھ اسکے نہ صرف کام کے لحاظ سے تعلقات اچھے تھے بلکہ کم وقت میں ان کی کافی دوستی بھی ہوچکی تھی
جہاں ارتضیٰ ایک مشہور بزنس مین تھا وہیں پر حمزہ بھی اسکے ٹکر کا ہی انسان تھا
عائشہ کو اسنے پہلی بار ارتضیٰ کے آفس میں ہی دیکھا تھا
وہ لڑکی بلا تکلف ہر کسی سے باتیں کررہی تھی جیسے وہاں موجود سب افراد کو وہ اچھے سے جانتی ہو
اسکی بلاوجہ کی باتیں سن کر حمزہ کو اچھا خاصا غصہ آرہا تھا لیکن ہر ملاقات کے بعد اسکے رائے عائشہ کے متعلق بدلتی گئی
اس لڑکی کو اسنے پہلی نظر دیکھ کر دل میں بیوقوف کا لقب دیا تھا اور اپنی اس بات پر وہ آج بھی قائم تھا
جو باتیں عائشہ وہاں کھڑے لوگوں سے کرتی تھی ان سے ہی اسے اندازہ ہوچکا تھا کہ اس لڑکی میں عقل کی کمی ہے
عائشہ نے تو اسے دیکھا بھی نہیں تھا اور اگر دیکھا بھی تھا تو اتنا یقین حمزہ کو تھا کہ اسے اسکا چہرہ یاد نہیں ہوگا
جبکہ وہ خود جو پہلی ملاقات میں اس لڑکی کی باتیں سن کر چڑ رہا تھا
اب بڑے شوق سے اسکی باتیں سننا چاہتا تھا
پر آج تک ایسا موقع ملا ہی نہیں تھا کہ عائشہ اس سے بات کرتی
وہ ہر ویکینڈ پر آفس آتی تھی اور یہ بات حمزہ نے بہت جلد ہی نوٹ کرلی تھی اسلیے وہ خود بھی اسی دن آفندی انڈسٹری جاتا تھا جب عائشہ وہاں جاتی تھی
وہاں جانے کا کوئی نہ کوئی جواز وہ پیدا کر ہی لیتا تھا
جبکہ جس کے لیے وہ وہاں جاتا تھا اسے تو اس بات کا کبھی علم ہی نہیں ہوا کہ کوئی اسکی ایک جھلک دیکھنے کو کتنا بےتاب رہتا تھا
حمزہ کی سوچ سے ارتضیٰ اچھے سے واقف تھا
ویسے بھی عائشہ کی طرف اٹھتی حمزہ کی نظریں کسی کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرسکتی تھیں
پر یہ الگ بات تھی کہ اسنے کبھی حمزہ کے سامنے اس بات کا اقرار نہیں کیا تھا
کیونکہ عائشہ کے لیے یہ اقرار وہ خود حمزہ کے منہ سے سننا چاہتا تھا
°°°°°
اسکے بک شاپ سے نکلتے ہی ڈرائیور جلدی سے بیک ڈور کھولنے لگا جب حمزہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا
“مجھے ضروری کام سے جانا ہے”
اسکی بات سمجھ کر ڈرائیو نے اپنا سر ہلایا اور اسکے لیے فرنٹ ڈور کھول دیا
جس کے کھولتے ہی وہ گاڑی میں بیٹھ گیا اور اگلے ہی پل گاڑی اپنی منزل کی جانب بڑھا دی
عائشہ جس راستے کی طرف جارہی تھی وہاں اسکا گھر تھا یقیناً وہ اپنے گھر ہی جارہی ہوگی
اسنے گاڑی عائشہ کے گھر کے راستے کی طرف بڑھا دی اور اسکے اندازے کے عین مطابق وہ اسی راستے پر تھی
ہمیشہ کی طرح اپنا دنیا میں مگن ہوکر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی تھی
جب اسکے سامنے گاڑی روک کر وہ گاڑی سے اترا اور اسکے گاڑی سے اترتے ہی عائشہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی
ڈارک براؤن کلر اسکی سفید رنگت پر بےحد جچ رہا تھا جبکہ سیاہ بال جیل سے سیٹ تھے
اسے دیکھتے ہی اگر عائشہ کے زہہن میں کسی چیز کا خیال آیا تھا تو وہ تھا اپنے ناول کے ہیرو کا
کیونکہ سامنے کھڑا بندہ کسی ناول کے ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا بس ایک چیز کی کمی تھی اور وہ تھی پیشانی پر بکھری لٹو کی
جسے دیکھ کر عائشہ کا دل چاہ رہا تھا کہ خود آگے بڑھ کر اسکی لٹے نکال کر اسکی پیشانی پر بکھیر دے لیکن وہ ایسا صرف سوچ ہی سکتی تھی
“عائشہ”
اسکی گمبھیر آواز سن کر وہ چونکی
“جی”
سارے خیالوں کو جھٹک کر وہ اپنے حواس بحال کرنے لگی
اسکے زہہن میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ سامنے کھڑا شخص اسکا نام کیسے جانتا تھا
“آپ کون ہیں”
“میں گھر تک چھوڑ دوں”
“ہمم اتنی بھی بیوقوف نہیں ہوں میں جو ایک اجنبی کے ساتھ چلی جاؤں ویسے بھی آج کل کے ماحول کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا اگر آپ کو کوئی کڈنیپر ہوئے اور مجھے کڈنیپ کرکے لے گئے تو”
اسکی بات سن کر وہ بےاختیار ہنسا اسے وہ کڈنیپر لگ رہا تھا
“اگر میں کہوں میں سچ میں ایک کڈنیپر ہوں اور تمہیں کڈنیپ کرنے آیا ہوں تو پھر تم کیا کرو گی”
وہ پہلی بار اس سے بات کررہا تھا ورنہ آج تک تو اسنے صرف عائشہ کی باتیں سنی ہی تھیں
“اگر آپ کو سالار سکندر نے مجھے کڈنیپ کرنے کے لیے بھیجا ہے تو پھر میں خوشی خوشی جانے کے لیے تیار ہوں”
اسنے چہکتے ہوئے کہا جبکہ اسکی بات سن کر سامنے والے کے ماتھے پر لاتعداد بل نمودار ہوئے
“کون سالار سکندر”
“آپ سالار کو نہیں جانتے”
اسنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ایسے کہا جسے حمزہ نے کتنا بڑا گناہ کردیا ہو
“نہیں”
“وہ میرا ہیرو ہے”
اسکی اس بات پر حمزہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ سالار سکندر یقیناً کوئی افسانوی کردار ہی تھا
“اچھا سالار سکندر کو چھوڑیں جہان زیب کاظمی کو تو جانتے ہوں گے نہ”
“نہیں میں جہان زیب کاظمی کو بھی نہیں جانتا”
“اس کا مطلب آپ نے دنیا میں ابھی کچھ دیکھا ہی نہیں ہے”
اسنے منہ بنا کر اپنا ایک ہاتھ اپنی نازک کمر پر رکھا کیونکہ دوسرے ہاتھ میں تو بیگ تھام رکھا تھا نہ
جبکہ حمزہ گہری نظروں سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کی پیاس مٹا رہا تھا
اسے لگتا تھا کہ عائشہ آفس میں سب سے آرام سے اسلیے بات کرلیتی تھی کیونکہ وہ ان سب کو جانتی تھی
لیکن وہ غلط تھا یہاں تو وہ سڑک پر کھڑے اس انجان آدمی سے بھی بہت آرام سے بات کررہی تھی
“میں اس معاملے میں بحث نہیں کرنا چاہتا آؤ تمہیں گھر تک چھوڑ دوں”
“میں تو ضرور بیٹھ جاتی پر میری مام کو پتہ چل گیا نہ کہ میں کسی انجان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر آئی ہوں تو وہ میرے سارے ناولز جلا دیں گی اور میں خود کو تو جلتا دیکھ سکتی ہوں پر اپنے ناولز کو نہیں”
اسکی بےتکی بات پر اس سے پہلے حمزہ کچھ کہہ پاتا وہاں ایک اور گاڑی آکر رکی
جسے دیکھ کر وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئے
وہ ارتضیٰ کی گاڑی تھی اور یہ بات حمزہ اچھے سے جانتا تھا
اسنے منہ بگاڑ کر گاڑی سے اترتے ارتضیٰ کو دیکھا جس نے بلیک ہائی نیک شرٹ کے ساتھ بلیو جینز زیب تن کی ہوئی تھی
جبکہ چہرے پر دھیمی مسکراہٹ لیے وہ حمزہ کے غصیلے تاثرات مزے سے دیکھ رہا تھا
پہلی بار تو اسے عائشہ سے بات کرنے کا موقع ملا تھا لیکن اسکی ہونے والی بیوی کا یہ چاچو پتہ نہیں کہاں سے بیچ میں ٹپک پڑا
“عائشہ یہاں کیا کررہی ہو”
“میں گھر جارہی تھی ارتضیٰ”
حورم کی دیکھا دیکھی سب اسے نام سے ہی بلاتے تھے
“اچھا پر مجھے تو لگا تم اپنے دوست سے بات کررہی تھیں”
اسنے حمزہ کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ دبائی جس پر وہ گہرا سانس لے کر اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گیا
“یہ میرے دوست نہیں ہیں ارتضیٰ”
ارتضیٰ کو جواب دے کر وہ حمزہ کی طرف متوجہ ہوئی
“اور یہ میرے چاچو ہیں پر ہم سب انہیں انکے نام سے ہی بلاتے ہیں”
اسکی بات سمجھ کر حمزہ نے اپنا سر ہلایا
جبکہ گاڑی کے پاس کھڑے ارتضیٰ کے چہرے پر پہلے سے زیادہ گہری مسکراہٹ بکھر گئی
وہ یہ بات حمزہ کو نہ بھی بتاتی تب بھی وہ جانتا تھا کہ انکا کیا رشتہ ہے
اگر یہ بات میشال کو پتہ چل جاتی کہ وہ سڑک پر کھڑے کسی اجنبی سے اس طرح بےتکلفی سے بات کررہی تھی
تو وہ دو منٹ نہ لگاتی اسکے ناول گھر سے باہر پھینکنے میں کیونکہ بقول میشال کے اس کی ان حرکتوں کی وجہ صرف اسکے ناولز ہی ہیں
اپنی بات کے جواب میں حمزہ کا ہلتا سر دیکھ کر عائشہ ارتضیٰ کی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی
اور اسکے بیٹھتے ہی ارتضیٰ وہاں کھڑے حمزہ کو بائے کا اشارہ کرکے خود بھی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا
ان کے جانے کے بعد حمزہ نے ٹھنڈی سانس اپنے اندر اتاری اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
اب اسنے آپنے آفس ہی جانا تھا کیونکہ آفندی انڈسٹری وہ جس کام سے جارہا تھا وہ کام تو اسکا یہاں پر ہی ہوچکا تھا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر فون پر بات کرتے عالم پر گئی اور اسکا انداز دیکھ کر ہی وہ سمجھ چکی تھی کہ یقینا وہ فون پر جنت سے بات کررہا ہوگا
صوفے پر بیٹھ کر وہ انکی بات ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی اور چند منٹ کا بعد انتظار ختم ہوگیا
“بہت بےچین لگ رہی ہو آئرہ کچھ کہنا ہے”
عالم کی بات پر اپنا سر ہلاکر اسنے بات کا آغاز کیا
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی گھر آیا تھا اور تب سے آئرہ بس اسے آج ہوئی یہ بات بتانا چاہ رہی تھی جسے بتانے کی بےتابی اسے شام سے ہورہی تھی
بتانے کو تو وہ اسے یہ بات فون پر بھی بتاسکتی تھی پر اتنی اہم بات وہ فون پر نہیں کرنا چاہتی تھی
“جنت کا رشتہ آیا ہے شام میں اسکے ایک ٹیچر کی والدہ آئی تھیں اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر”
“اور تم مجھے اب یہ بات بتا رہی ہو”
“عالم آپ ابھی تو گھر آئے ہیں اور فون پر یہ بات میں آپ سے کرنا نہیں چاہتی تھی”
“کیا نام ہے لڑکے کا کیا کرتا ہے سب بتاؤ مجھے”
“زاویان خانزادہ وہ ایک ڈاکٹر ہے اور جنت کو پسند کرتا ہے”
“جنت بھی اسے پسند کرتی ہے”
اسنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنساتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا
جس پر آئرہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا
“نہیں عالم جنت اس سارے معاملے سے لاعلم ہے”
“آئرہ میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ جنت اس معاملے کے بارے میں کتنا جانتی ہے میں نے پوچھا ہے کیا جنت بھی اسے پسند کرتی ہے”
“نہیں اگر ایسا ہوتا تو مجھ سے کبھی تو اس بارے میں بات کرتی اور ویسے بھی آپ تو اس کے دوست ہیں آپ سے بھلا کبھی کچھ چھپایا ہے جو یہ بات چھپاتی”
“اور کیا بات ہوئی ان سے”
“ہمیں آنے کی دعوت دی ہے وہ چاہتی ہیں کہ ہم ایک بار انکے بیٹے کو دیکھ لیں”
“پہلے جنت سے اس بارے میں بات کرو اگر وہ جنت کا ٹیچر ہے تو جنت اسے زیادہ بہتر جانتی ہوگی جنت سے اسکی رائے پوچھو اگر اسے کوئی اعتراض نہیں تو پھر مجھے بھی نہیں ہے ایک بار لڑکے سے ملاقات کر لینگے اور باقی کا فیصلہ تو اس سے ملنے کے بعد ہی ہوسکے گا”
اپنی بات مکمل کرکے اسنے گہری نظر آئرہ پر ڈالی اور اسکی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے وہ منہ بناتی ہوئی اٹھ کر کمرے سے چلی گئی
جبکہ اسکے منہ بنا کر جانے پر عالم شاہ کا قہقہہ کمرے کی زینت بنا
اسکی بیوی اسکا ہر اشارہ بخوبی سمجھ جاتی تھی
°°°°°
حیات کا موبائل ہاتھ میں لیے وہ لان میں بیٹھی اس وقت گیم کھیلنے میں مصروف تھی
اسکے پاس خود کا موبائل نہیں تھا اور اسے کبھی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی
اسے تو بس موبائل میں گیم کھیلنے ہوتے تھے اور یہ شوق تو وہ کسی کا بھی موبائل لے کر پورا کرلیتی تھی
اس وقت بھی وہ گیم کھیلنے میں مصروف تھی جب موبائل پر سالار کی کال آنے لگی
چو چند لمحے سوچ کر اسنے پک کرلی
“ہیلو”
“اب سب سے پہلا کام مجھے یہ کرنا ہے کہ تمہیں ایک فون لاکر دینا ہے بابا سائیں کو کال کی تو انہوں نے کہا وہ باہر ہیں بڑی ماما کو کی تو انہوں نے کہا تم باہر ہو مجھے لگا اور پھر بلآخر اماں سائیں کے فون پر کال کرنے سے مجھے تمہاری آواز سننے کو مل ہی گئی”
وہ شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لیا لیکن پھر عائزل کی خاموشی دیکھ کر جلد ہی احساس بھی ہوگیا کہ وہ اس سے ناراض ہے
“میرا چندہ ناراض ہے”
“ہاں لالا میں ناراض ہوں”
“لالا کی جان میں تمہاری ناراضگی سے بہت اچھے سے واقف ہوں پر تم بھی تو میری مصروفیت سمجھو”
ایک مہینے سے اسنے سالار کی شکل نہیں دیکھی تھی پچھلے ہفتے بھی اسنے وعدہ کیا تھا کہ وہ گاؤں آئے گا لیکن نہیں آیا اور یہی بات عائزل کی ناراضگی کا سبب بنی
“کام آپ کو مجھ سے بھی زیادہ پیارا ہے”
معصومیت سے کہتے ہوئے اسنے ماتھے پر بکھرے بال اپنے نرم ہاتھوں سے پیچھے جو پھر سے ماتھے پر بکھر گئے
“سالار شاہ میر شاہ کے لیے تم سے زیادہ اور کوئی پیارا نہیں ہے میرا چندہ”
“تو پھر آپ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آئے”
“ٹھیک ہے چند دنوں بعد میں پکا تم سے ملنے آؤں گا اور اگر نہیں آ سکا تو جو سزا تم دینا چاہو دے دینا بندہ حاضر ہے”
اسکی بات سن کر وہ کھلکھلا کر ہنسی
جبکہ اسکی کھلکھلاہٹ سنتے ہی سالار نے سکون بھری سانس لی