قسط: 4
(چند سال بعد)
فجر کا وقت ہوتے ہی معمول کے مطابق گھر کے سارے افراد ایک ایک کرکے اٹھنے لگے
جب وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اپنے ہاتھ میں چھوٹی سی قینچی لیے عصیم کے کمرے کی طرف گئی
دروازہ کھولتے ہی ٹھنڈی ہوا اسکے وجود سے ٹکرائی اے سی کی کولنگ نے پورے کمرے کو اچھا خاصا ٹھنڈا کیا ہوا تھا
ہنستے ہوئے وہ اسکے قریب جاکر اسے دیکھنے لگی اور پھر نچلا لب دانتوں میں دبائے اسکی مونچ کا کونا پکڑا لیکن اس سے پہلے وہ اسے کاٹ پاتی عصیم اسکی نازک کلائی اپنی گرفت میں لے چکا تھا جس پر اسنے منہ بنا کر اسے دیکھا
“دادا سائیں کاٹنے تو دیتے”
“دادا کی جان یہ اچھی بات نہیں ہوتی”
“لیکن مجھے مزہ آتا ہے”
اسے عصیم کی بڑی بڑی مونچھیں کبھی بھی پسند نہیں تھیں مونچھیں تو عالم اور زریام کی بھی تھیں پر وہ اتنی بڑی نہیں تھیں
“پتہ ہے میرا چندہ جب پہلے تم نے یہ حرکت کی تھی تب تمہارے عالم دادا نے میرا کتنا مزاق اڑایا تھا تم چاہتی ہو وہ پھر سے ایسا کریں”
اسکے کہنے پر عائزل نے جلدی سے اپنا سر نفی میں ہلایا جسے دیکھ کر اسنے مسکراتے ہوئے اسے اپنے سینے سے لگالیا
°°°°°
یونیورسٹی سے آتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں گئی اور فریش ہوتے ہی کتابیں کھول کر بیٹھ گئی
جب تھوڑی دیر بعد کمرے کا دروازہ بجا اسنے مصروفیت بھرے انداز میں باہر کھڑے شخص کو اندر آنے کی اجازت دی اور اجازت ملتے ہی باہر کھڑا سالار کمرے میں آگیا
اسنے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جہاں وہ مطمئن سا کھڑا مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا
دکھنے میں وہ اپنے باپ کی طرح تھا لیکن اس سے بھی زیادہ وہ عصیم سے مشابہت رکھتا تھا
بکھرے بال گندمی رنگت اور چہرے کا ہر نقش اسنے اپنے دادا سے چرایا تھا
وہ اکیس سال کا تھا لیکن اسکا ورزشی وجود اسے اپنی عمر سے بڑا بتاتا تھا اسکے اوپر اسکے سخت لہجے کی وجہ سے لوگ اس سے کم ہی بات کرتے تھے
گھر والوں کے علاؤہ اسے خود بھی کسی کے ساتھ زیادہ فرینک ہونا پسند نہیں تھا
وہ جنت سے ایک سال چھوٹا تھا لیکن چار پانچ سال بڑا لگتا تھا
اگر کہا جائے کے وہ شاہ حویلی کا ضدی بندہ تھا تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ جب وہ اپنی ضد پر آتا تھا تو کسی کی نہیں سنتا تھا
“کیا ہورہا ہے جنت”
“کچھ نہیں پڑھائی ہورہی ہے تمہیں کیا چاہیے”
“ہر وقت پڑھتی رہتی ہیں کبھی تو ان کتابوں کی جان چھوڑ دیا کریں”
اسنے جنت کے پاس بکھری کتابوں کو دیکھتے ہوئے کہا
اسکی پہلی محبت اسکے گھر والے تھے اور گھر والوں کے علاؤہ جنت شاہ کی دوسری محبت اسکی پڑھائی تھی اسے پڑھائی کا بےحد شوق تھا اور اسکا ایم-بی-بی-ایس کا تھرڈ ائیر چل رہا تھا
جب سے اسکا ایڈمیشن ہوا تھا تب سے تو اسکی زندگی ہی جیسے کتابوں سے شروع ہوکر کتابوں پر ختم ہوچکی تھی
“سالار تم جانتے ہو نہ جب پڑھائی کرتے وقت کوئی مجھے تنگ کرے تو مجھے کتنا برا لگتا ہے اسلیے میرا اور اپنا وقت ضائع مت کرو اور جاکر کوئی کام کرو”
“میرے ساتھ باہر چلیں ہم باہر جائینگے تھوڑی شاپنگ کریں گے اور پھر گھوم پھر کر ڈنر کرکے واپس آجائیں گے”
“سالار مجھے پڑھنا ہے”
اسکے کہنے پر گہرا سانس لے کر وہ کمرے سے چلا گیا جب نظر باہر بیٹھی نور پر گئی جو اسے دیکھتے ہی مسکرا اٹھی
پڑھائی کی وجہ سے حویلی کے سارے بچے مختلف جگہوں پر رہتے تھے
سالار اور جنت لاہور نور کے پاس ازمیر منت اور میرال اپنی پڑھائی مکمل کرچکے تھے اسلیے وہ حویلی میں ہی پائے جاتے تھے جبکہ المیر ترکی میں رہتا تھا جہاں اس وقت وہ ساحر کے ساتھ ایک نئے پراجیکٹ پر کام کررہا تھا آفس کے کاموں میں اسے ہمیشہ سے دلچسپی تھی
اسلیے کم عمری میں ہی اسنے آفس جانا شروع کردیا تھا اور اب اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ آفس کا کام بھی بڑے آرام سے سر انجام دے رہا تھا
اسکا بی-بی-اے کا لاسٹ ائیر چل رہا تھا اسکی یہ خواہش تھی کہ ازمیر بھی اسکے ساتھ ہی پڑھتا لیکن اسے پڑھائی سے کوئی اتنی خاص دلچسپی نہیں تھی اسلیے اسنے لاہور کی یونیورسٹی سے ہی بی-اے کرلیا تھا اسفندیار آسٹریلیا میں رہتا تھا اور ان سب کے علاؤہ حورم رہتی تھی نیو یارک میں
کچھ زریام کی خواہش تھی تو کچھ عینہ کا اسرار جسے دیکھ کر زریام نے اسے وہاں پر بھیج دیا اور اپنے اس فیصلے پر وہ ہمیشہ مطمئن رہتا تھا کیونکہ وہاں پر عینہ تھی جو اپنی فیملی کے ساتھ حفضہ اور احسان کے ساتھ ہی شفٹ ہوچکی تھی اور اسکی وہاں موجودگی زریام کی ہر فکر بھلا دیتی تھی
معتصم کا ارادہ تھا کہ سارے بچے ایک ہی جگہ پر رہتے لیکن ہر کسی کی اپنی مرضی تھی جسے دیکھ کر اسنے کوئی اسرار نہیں کیا کیونکہ سب اپنوں کے درمیان میں ہی رہتے تھے
“جنت نے کمرے سے نکال دیا”
“نہیں خیر نکالا تو نہیں ہے پھوپھو سائیں لیکن اگر تھوڑی دیر مزید اندر رہتا تو ہوسکتا تھا نکال دیتیں”
“وہ پڑھ رہی ہے نہ سالار تم جاںتے تو ہو اسے نہیں پسند کوئی اسے پڑھتے وقت ڈسٹرب کرے”
“وہ تو ہر وقت ہی پڑھتی رہتی ہیں پھوپھو سائیں کبھی کچھ وقت ہمارے ساتھ بھی گزار لیا کریں”
“تم موڈ خراب مت کرو میں نے تمہارے لیے کھیر بنائی ہے فریج میں رکھی ہے جاکر کھالو اور حیات سے بھی بات کرلینا”
“جی کرلوں گا”
اسنے ہولے سے اپنا سر ہلایا اور کچن کی طرف چلا گیا
°°°°°
کچن میں داخل ہوتے ہی وہ خراب موڈ کے ساتھ وہاں پر بیٹھ گیا
اگر اسے کبھی کسی چیز پر غصہ آتا تھا تو وہ تھا جنت کے اگنور کرنے پر
کبھی کبھی تو دل چاہتا تھا کہ اسکی ان کتابوں کو ہی آگ لگا دے جن کی وجہ سے وہ اسے اگنور کرتی تھی لیکن وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا تھا
کیونکہ جنت کے لیے اسکی کتابیں کیا اہمیت رکھتی تھیں وہ بہت اچھے سے جانتا تھا
زہہن میں خیال آتے ہی اسنے دراز میں سے چھری نکالی اور اگلے ہی لمحے اپنے ہاتھ پر پھیر لی خون تیزی سے بہنا شروع ہوگیا
“نازیہ”
اسکے چلانے کی آواز پر باہر کام کرتی نازیہ بھاگ کر آئی اور پہلی ہی نظر اسکے ہاتھ سے بہتے خون پر گئی
“سالار صاحب آپ کا تو خون بہہ رہا ہے”
“ہاں تو جاؤ جلدی سے جنت بی بی کو بلا کر لاؤ” اسکے کہنے پر وہ اپنا سر ہلا کر بھاگتے ہوئے جنت کے کمرے میں گئی اور اسکے اندازے کے مطابق چند سیکینڈ بعد ہی جنت بھاگتی ہوئی وہاں پر آگئی
“یہ کیا ہوگیا”
اسکا خون سے بھرا ہاتھ پکڑ کر وہ زخم دیکھنے لگی
“نازیہ میرے کمرے میں سائیڈ ٹیبل کی دراز میں ایک بوکس رکھا ہے اسے لے کر آؤ”
اسکی بات سن کر وہ اپنا سر ہلاتی ہوئی اسکے کمرے کی طرف بھاگ گئی
“تمہیں چوٹ کیسے لگی سالار”
“چھری سے”
اسکی بات سن کر زخم دیکھتی جنت نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا
“جنت کیا ہوا ہے”
نور کی آواز پر وہ چونکی اور اسکے پیچھے ہی کچن میں داخل ہوتی نازیہ کے ہاتھ سے فرسٹ ایڈ باکس لے کر اسکا زخم صاف کرنے لگی
“کچھ نہیں ہوا ہے پھوپھو بس چھری سے ہلکا سا کٹ لگ گیا تھا”
اسکی فکرمندی دیکھ کر سالار نے اسے مطمئن کرنا چاہا
“لیکن تم چھری کا کر کیا رہے تھے”
جنت کی سنجیدہ آواز پر وہ نور سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھنے لگا
“ہاتھ کاٹ رہا تھا”
اسنے ہنستے ہوئے کہا جس پر نور نے گھور کر اسے دیکھا ان دونوں کو ہی اسکی یہ بات مذاق لگ رہی تھی
“اچھا جنت اب ڈسٹرب تو آپ ہو ہی چکی ہیں تو پھر کیا خیال ہے باہر چلیں “
بینڈیج ہوتے ہی وہ پھر سے اسی بات پر آگیا
“جنت چلی جاؤ بیچارا کب سے کہہ رہا ہے”
اسکی بات سن کر جنت نے اپنا سر ہولے سے اقرار میں ہلایا جسے دیکھ کر نور مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی
“پر سالار تم ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ نہیں کرسکتے”
“میں ایک ہاتھ سے بھی بہت اچھی ڈرائیونگ کرسکتا ہوں آپ موقع تو دیں”
“ایسا لگ رہا ہے تم نے باہر جانے کے لیے ہاتھ جان بوجھ کر کاٹا تھا”
“آپ کو کیا لگتا ہے آپ کے ساتھ ٹائم گزارنا میرے لیے اتنا اہم ہے جو اپنا خون بہا دوں گا”
اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے اسنے گہرا سانس لیا اور اٹھ کر وہاں سے جانے لگی
“ہاتھ صاف کرکے آرہی ہوں”
“اوکے میں انتظار کررہا ہوں”
اسکے چہرے پر موجود مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی
°°°°°
کمرے میں اسکی غیر موجودگی دیکھ کر وہ باہر چلی گئی کیونکہ اسے پتہ تھا عائزل اگر اپنے کمرے میں نہیں تھی تو اسنے باہر لان میں ہی ہونا تھا کیونکہ وہ عائزل کی فیورٹ جگہ تھی
لان میں جاتے ہی اسکی نظر وہاں کھڑی عائزل پر پڑی جو وہاں لگے جھولے میں اپنا ٹیڈی بٹھائے اسے جھولا جھلا رہی تھی
وہ اٹھارہ سال کی تھی لیکن اپنی صحت اور قد کے باعث پندرہ سولہ سال کی لگتی تھی اسکی پیشانی پر بکھرے بےبی ہئیر اسکے چہرے پر بکھری معصومیت میں مزید اصافہ کرتے تھے جبکہ سلکی بالوں نے پیچھے سے آدھی کمر ڈھانپ رکھی تھی
وہ اٹھارہ سال کی تھی لیکن اسکا دماغ بلکل بچوں کی طرح تھا اور ایسا تب سے تھا جب سے وہ کوما سے باہر نکلی تھی
جب وہ ہوش میں آئی تھی تب وہ گزری سب باتیں بھول چکی تھی اور اسکے علاوہ اسکی دماغی صلاحیت بھی کافی متاثر ہوئی تھی
اسے اس طرح دیکھ کر گھر میں سب کی آنکھیں ہی بھیگ جاتی تھیں لیکن انہیں امید تھی کہ ایک دن انکی عائزل بلکل ٹھیک ہو جائے گی
وہ حویلی میں سب کی لاڈلی تھی لیکن شاہ میر کی تو اس میں جان بستی تھی نہ اسنے خود آج تک عائزل سے تیز آواز میں بات کی تھی اور نہ ہی کسی کو کرنے دی تھی
وہ شرارتی تھا لیکن اسکی ساری شرارتیں تو اسی دن ختم ہوگئی تھیں جس دن عائزل کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور اب اسکا شرارتی موڈ کبھی کبھی ہی آن ہوتا تھا
تھا تو وہ اب بھی ایک نرم خو انسان لیکن بات جب اسکی بیٹی پر آتی تھی تو اسکی ساری نرمی سختی میں تبدیل ہو جاتی تھی
“عائزل”
حیات کی آواز سن کر اسکے جھولا جھلاتے ہاتھ رکے
“چلو آؤ کھانا کھاؤ”
“مجھے بھوک نہیں ہے”
“تمہارے فیورٹ نوڈلز بنائے ہیں”
حیات کی بات سنتے ہی اسکی ساری بھوک جاگ اٹھی
وہاں رکھا اپنا ٹیڈی بئیر اٹھا کر وہ جلدی سے اندر بھاگ گئی
جس پر حیات بھی مسکراتے ہوئے اسکے پیچھے چلی گئی
°°°°°
تھوڑی بہت شاپنگ کرنے کے بعد جنت نے اپنی کچھ بکس خریدیں اور اسکے بعد سالار اسے لے کر ریسٹورنٹ میں چلا گیا
جہاں پر اسنے جنت کا فیورٹ کھانا آرڈر کیا تھا لیکن وہ بھی اسنے بےدلی سے ہی کھایا کیونکہ اپنا اتنا اہم کام وہ سالار کی وجہ سے چھوڑ آئی تھی
اور جب تک گھر جاکر اسنے اپنا کام مکمل نہیں کرنا تھا موڈ اسی طرح سے بگڑا رہتا کیونکہ اسکے نزدیک اسکی پڑھائی ہمیشہ اسکی پہلی ترجیح رہی تھی
“آئسکریم کھانے چلیں”
ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہی اسنے کہا جس پر جنت نے گھور کر اسے دیکھا
“سالار اب بس مجھے گھر جانا ہے تم نہیں لے کر گئے تو میں خود چلی جاؤں گی”
“اچھا نہ گھر ہی چلتے ہیں ناراض کیوں ہورہی ہیں”
والٹ جیب میں رکھتے اسکے ہاتھ تھمے
پیشانی پر بل ڈالے وہ اپنی پوکیٹس چیک کرنے لگا جن میں صرف گاڑی کی چابی تھی
“میں موبائل شاید اندر ہی بھول گیا گاڑی کے پاس جائیں میں دو منٹ میں آیا”
وہ جلدی سے واپس اندر کی طرف چلا گیا جس پر اپنا سر نفی میں ہلاتی وہ گاڑی کی طرف چلی گئی
جہاں پر دوسری گاڑی کے ساتھ تین لڑکے کھڑے تھے جو اسکے وہاں آتے ہی اسے دیکھنے لگے
چہرہ موڑ کر وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑی ہوگئی جب اسے ان لڑکوں کی ہنسی کی آواز سنائی دی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس پر کوئی تبصرہ کررہے تھے
“جان من”
اسنے کوئی رسپانس نہیں دیا ایسے لڑکوں کو وہ ہمیشہ اگنور کرتی تھی البتہ یہ دعا ضرور کی تھی کہ سالار کچھ ایسا نہ سن لے ورنہ پھر اسکا دماغ خراب ہوجانا تھا
“چلیں”
اسکے قریب آتے ہی سالار نے مسکراتے ہوئے کہا جب نظر دور گاڑی کے قریب کھڑے لڑکوں پر گئی
جو وہاں کھڑی جنت کو دیکھ رہے تھے اور کس طرح سے دیکھ رہے تھے یہ بات بھی وہ بخوبی سمجھتا تھا
ماتھے پر بل ڈالے وہ انکی جانب بڑھنے لگا جب جنت نے اسکا مظبوط بازو تھام لیا
“سالار چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو اور گھر چلو” اسکی گرفت سے اپنا بازو چھڑا کر وہ انکی جانب بڑھا
“کیا مسلہ ہے”
“کیا مطلب”
“تم انہیں کیوں دیکھ رہے تھے”
اسکے کہنے پر وہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے جب ان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا
“اچھی لگی ہمیں اسلیے دیکھ رہے تھے”
اسکی بات سن کر جنت نے اپنی آنکھیں بند کرلیں جانتی تھی اب یقیناً سالار کا دماغ گھوم جائے گا اور ایسا ہی ہوا
جب اسے غصہ آتا تھا تب وہ سب کچھ بھول جاتا تھا اس وقت بھی وہ اکیلا ان تینوں پر بھاری تھا
انکی لڑائی دیکھ کر وہاں دور کھڑے لوگ انہیں دیکھنے لگے جبکہ اس تماشے سے تنگ آکر وہ جلدی سے اسکے قریب گئی
جو ابھی تک انہیں مارنے میں مصروف تھا اسکا ہاتھ تو پہلے ہی زخمی تھا اوپر سے اس سب کی وجہ سے اسکا زخمی ہاتھ مزید زخمی ہوچکا تھا
“سالار چھوڑو انہیں اب بس کرو”
اسنے اسے پیچھے کرنا چاہا جو ہر چیز بھلائے انہیں مارنے میں مصروف تھا جبکہ اسے اس ماحول سے الجھن آرہی تھی
“سالار چھوڑو”
اسنے دانت پیستے ہوئے کہا لیکن اسے دور نہ ہٹتے دیکھ کر غصے میں زور دار تھپڑ اسکے گال پر رسید کیا
جس پر اسنے گہرا سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کرلیں جنت کا تھپڑ کھاکر اسے کوئی افسوس نہیں ہوا تھا ویسے بھی یہ کوئی پہلی بار تو تھا نہیں جب جنت نے اس پر ہاتھ اٹھایا ہو
اپنی الٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے وہ پہلے بھی جنت کے ہاتھ سے تھپڑ کھا چکا تھا لیکن اسے کوئی شکوہ نہیں تھا
بلکہ اسے خوشی ملتی تھی کیونکہ اسے وہ پل بہت خوبصورت لگتے تھے جب جنت اسے چھوتی تھی اب چاہے وہ کسی بھی طرح ہو
“چلو یہاں سے بند کرو یہ تماشہ”
اسنے ہلکی آواز مگر سخت لہجے میں کہا
جس پر اسنے ہلکے سے اپنا سر ہلایا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اسکے بیٹھتے ہی زور دار لات زمین پر پڑے ان تینوں لڑکوں کو مار کر خود بھی جاکر گاڑی میں بیٹھ گیا