جنون محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

نور اور عصیرم اس وقت اپنے کمرے میں تھے جس پر اسنے شکر بھرا سانس لیا اس وقت وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تھی
“جنت”
تیز تیز قدم اٹھاتی وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگی جب اسے پیچھے سے سالار کی آواز سنائی دی جسے اگنور کرکے وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی
پرس ٹیبل پر رکھ کر وہ اسٹڈی ٹیبل پر رکھا اپنا سامان اٹھا کر بیڈ پر لے آئی ارادہ تھوڑی دیر پڑھنے کا تھا لیکن سالار کی حرکت یاد کرکے پڑھا ہی کہاں جارہا تھا
اسنے زہہن کو جھٹک کر پڑھنے کی کوشش کی جب بجتے موبائل نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا
اسنے سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں آئرہ کی کال آرہی تھی گہرا سانس لے کر اسنے کال پک کرلی
“اسلام و علیکم اماں سائیں کیسی ہیں”
“میں بلکل ٹھیک ہوں تم بتاؤ کھانا کھالیا”
“جی کھالیا تھا بابا سائیں کہاں ہیں”
“کچھ مہمان آئے تھے تو بس انہی کے پاس بیٹھے ہیں”
“تم کیا کررہی تھیں”
“پڑھ رہی تھی”
“راتوں کو جاگ جاگ کر مت پڑھا کرو جنت”
“جی آپ فکر مت کریں میں تھوڑی دیر میں سوجاؤں گی”
اسنے چہرے پر اڑتی لٹ کو پیچھے کیا اور آئرہ سے تھوڑی دیر مزید بات کرکے فون رکھ دیا
بار بار آتا سالار کا خیال اسے بےچین کررہا تھا جانتی تھی اس لڑکے کو اپنی بلکل پرواہ نہیں تھی اور اب تک اسنے اپنی پٹی بھی تبدیل نہیں کی ہوگی اپنے معاملے میں وہ ہمیشہ سے ہی لاپروا تھا
°°°°°
دروازہ نوک کرکے وہ کمرے میں داخل ہوئی اور اسے دیکھتے ہی سالار کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی
“خیریت جنت”
اسکی بات کا بنا کوئی جواب دیے وہ بیڈ پر آکر بیٹھ گئی
جب سالار کی نظر اسکے ہاتھ میں پکڑے فرسٹ ایڈ باکس پر گئی اور اسے دیکھتے ہی وہ اسکے یہاں آنے کا مقصد جان چکا تھا
“ہاتھ دکھاؤ”
اسنے شرافت سے ہاتھ آگے کردیا جسے تھام کر وہ اسکی پٹی کھولنے لگی جبکہ وہ خود پیار بھری نظروں سے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا
وہ ایک سمجھدار لڑکی تھی یہ بات وہ آسانی سے جان سکتی تھی کہ سالار اسے کن نظروں سے دیکھتا ہے لیکن وہ خود جانتا تھا کہ جنت کبھی بھی اس مطالق میں نہیں سوچے گی کیونکہ اسکے مطابق ان دونوں کا رشتہ مختلف تھا جنت کو تو ایسا ہی لگتا تھا
“سوری”
“کس لیے”
“میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا”
“آپ کو تو میں اپنا خون بھی معاف کرسکتا ہوں یہاں تو بات صرف ایک تھپڑ کی تھی”
اسنے نظریں اٹھا کر سالار کو دیکھا
“سالار مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرو”
“تو کیسی باتیں کیا کروں”
“کوئی بھی بات کرلو بس یہ فضول باتیں مت کیا کرو”
سامان بوکس میں ڈال کر اسنے بوکس اٹھایا اور وہاں سے جانے لگی
“تھینک یو میرا خیال رکھنے کے لیے”
“کوئی تکلیف میں ہوگا تو میں اسکی مدد کروں گی سالار کیونکہ یہی تو میرا کام ہے اور تم تو پھر میرے بھتیجے ہو”
اپنی بات کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی جبکہ اسکی بات سنتے ہی وہ ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا
°°°°°
گہری نظروں سے وہ گلاس وال سے نظر آتی برف کو دیکھ رہا تھا آج موسم کچھ زیادہ ہی سرد تھا اور برف سے ہر چیز ڈھک چکی تھی
باہر کے سرد ماحول کے برعکس اسکے آفس روم کا ماحول خاصا گرم تھا
جبکہ ہر چیز سے بےنیاز وہ اس وقت اپنی سوچوں میں گم تھا اور سوچوں کا مرکز ہمیشہ کی طرح حورم شاہ تھی
جو اس سے دور رہ کر بھی اسے اپنے حصار میں لیے رکھتی تھی سوچو سے باہر نکل کر اسنے ایک نظر گھڑی جانب دیکھا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا
اسٹینڈ پر لٹکا اپنا کوٹ اٹھا کر وہ باہر کی جانب بڑھا جب آفس روم سے باہر نکلتے ہی نظر وہاں کھڑے زارون پر گئی
سنجیدہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی
“تم کب آئے زارون”
ارتضیٰ نے اس سے گلے ملتے ہوئے پوچھا
اسکا لب ولہجہ انگریزوں جیسا تھا جبکہ دکھنے میں بھی وہ یہاں کے لوگوں جیسا ہی تھا
دودھیا سفید رنگت سبز آنکھیں چھ فٹ دو انچ قد اور سنجیدہ چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی مونچھیں
“ابھی آیا تھا پر شاید تم جارہے ہو”
“ہاں بس گھر جارہا تھا تم میرے روم میں آجاؤ”
اسے ساتھ لے کر وہ اپنے آفس روم میں چلا گیا
اور بازو پر رکھا کوٹ دوبارہ اسٹینڈ پر لٹکا دیا
“خیریت تم اس وقت یہاں آئے”
“ہاں کچھ دنوں کے لیے فیملی کے ساتھ پاکستان جارہا ہوں سوچا تم سے مل کر چلا جاؤں”
“جانے کی کوئی خاص وجہ”
“تم جانتے تو ہو میری بیوی کا پورا خاندان پاکستان میں رہتا ہے تو بس اسی لیے وہاں جارہے ہیں جائشہ بھی کافی ضد کررہی تھی وہاں جانے کے لیے”
اسکے لبوں سے جائشہ کا ذکر سن کر وہ بےاختیار ہنسا
جائشہ زارون کی آٹھ سالہ بیٹی تھی جس کا ذکر وہ ہر ملاقات میں ارتضیٰ کے سامنے کرتا تھا صرف یہ جتانے کے لیے کہ اسکی ایک بیٹی ہوچکی ہے جبکہ اسکا دوست ابھی تک کنوارہ بیٹھا ہے
اسے لگتا تھا کبھی تو ارتضیٰ کو بھی اسے دیکھ کر احساس ہوگا شادی جیسے رشتے کی چاہ ہوگی اور شاید تب ہی ارتضیٰ شادی کے لیے راضی ہو جائے
“زارون میری بات سنو مجھے یہ مت جتایا کرو کہ تم شادی کر چکے ہو جانتے ہو نہ تمہاری ان باتوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا”
“ارتضیٰ کبھی تو میری بات کو سمجھو جیسا تم چاہتے ہو ویسا کبھی نہیں ہوگا”
اسکی بات سن کر ارتضیٰ کی سفید پیشانی پر لاتعداد بل نمودار ہوئے
“اور میں کیا چاہتا ہوں”
“حورم تم سے کبھی شادی نہیں کرے گی بھلے تمہارے ڈر سے اسنے تمہیں اس رشتے سے پکارنا چھوڑ دیا ہے جو تمہارا اس سے ہے لیکن وہ تمہیں دیکھتی اسی نظر سے ہے”
“جب شادی ہوجائے گی تو اسکا نظریہ بھی بدل جائے گا”
“ارتضیٰ سترہ سال چھوٹی ہے وہ تم سے”
میں نہیں جانتا وہ مجھ سے کتنی چھوٹی ہے یا پھر میرا اس کے ساتھ کیا رشتہ ہے میں بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمیشہ سے میری تھی اور اسنے میرا ہی ہونا ہے”
اسکی بات پر وہ فقط اپنا سر نفی میں ہلا کر رہ گیا اسکے علاؤہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا
°°°°°
“کیا کررہا ہے میرا بچہ”
اپنے سامنے گڑیا اور نکلی برتن پھیلائے وہ اس وقت کھیلنے میں مصروف تھی جب شاہ میر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی اسنے جھٹکے سے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے دیکھتے ہی چہرے پر دلکش مسکراہٹ بکھر گئی
“بابا”
گڑیا ایک طرف پھینک کر وہ بھاگتے ہوئے اسکے قریب گئی جس پر مسکراتے ہوئے اسنے عائزل کو اپنے سینے سے لگالیا
“کیا ہورہا تھا”
“میں کھیل رہی تھی”
“کھانا کھالیا”
“کھالیا”
“ویری گڈ اب دیکھو میں تمہارے لیے کیا لے کر آیا”
اسنے وہاں کھڑے ملازم کو اشارہ کیا جس نے اسکا اشارہ دیکھتے ہی ہاتھ میں پکڑا بیگ شاہ میر کی طرف بڑھا دیا
اسنے بیگ میں سے ڈرائینگ بکس نکال کر اسکے سامنے رکھیں جس پر چہکتے ہوئے وہ ساری بکس کھول کر دیکھنے لگی
اسنے بھیگی آنکھوں سے عائزل کے جھکے سر کو دیکھا وہ اٹھارہ سال کی تھی لیکن حرکتیں اور شوق بلکل بچوں والے تھے
اسکی حالت دیکھ کر شاہ میر کا دل چاہتا تھا کاش ایک بار وہ شخص اسکے سامنے آجائے جس کی وجہ سے اسکی بیٹی اس حالت میں تھی وہ اسے زمین میں زندہ دفن کرنے کا ارادہ رکھتا تھا بھلے اس سے اسکی بیٹی ٹھیک نہیں ہوتی لیکن اسکے دل کو تو قرار مل جاتا
“کیا ہورہا ہے میرا چندہ”
ماہر نے وہاں بیٹھتے ہوئے عائزل کے جھکے سر کو دیکھ کر پوچھا
“بڑے بابا دیکھیں بابا کیا لے کر آئے”
ڈرائینگ بکس اٹھا کر وہ اب ماہر کو دیکھانے لگی جو بہت شوق اور توجہ سے اسکی بات سن رہا تھا
°°°°°
سارا سامان ترتیب سے رکھ کر اسنے وارڈروب بند کی اور پیچھے رکھا سامان اٹھالیا جسے اسنے فالتو سمجھ کر ایک طرف رکھا تھا
یہ سامان اب بس ارتضیٰ کو دکھانا تھا تاکہ اگر اس میں سے اسکا کچھ ضروری سامان ہو تو وہ دیکھ لے ورنہ پھر اس سارے سامان نے ڈسٹ بن میں ہی جانا تھا
ارتضیٰ کا کمرہ ویسے بھی زیادہ تر وہی صاف کرتی تھی اسلیے آج بھی وہ اسکی وارڈوب صاف کررہی تھی
سامان اٹھا کر وہ باہر جانے لگی جب نظر فرش پر گرے کارڈ پر گئی
اسنے اٹھا کر اس کارڈ کو دیکھا جس پر پلاسٹک کوڈنگ ہورہی تھی
وہ بےساختہ ہنسی جبکہ حیرت بھی ہوئی ارتضیٰ نے اب تک یہ کارڈ سمبھال کر رکھا ہوا تھا اور زیادہ حیرت اسے اس بات پر ہورہی تھی کہ یہ کارڈ ارتضیٰ کے پاس تھا پر آج تک اسنے دیکھا ہی نہیں
اسے اچھے سے یاد تھا کہ اسنے یہ کارڈ اپنے بچپن میں ارتضیٰ کی سالگرہ پر اسے دیا تھا پر اسے ارتضیٰ کے پاس ابھی تک صحیح سلامت دیکھ کر اسے بہت حیرت ہوئی تھی
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونک کر اس طرف دیکھنے لگی جہاں ارتضیٰ کھڑا تھا
“ارتضیٰ یہ آپ نے ابھی تک رکھا ہوا ہے”
اسنے کارڈ اسکے سامنے کرکے حیرت سے پوچھا
“تو کیا مجھے نہیں رکھنا چاہیے تھا”
“نہیں لیکن یہ اتنی کوئی خاص چیز نہیں تھی کہ آپ اسے اس طرح سنبھال کر رکھتے میں نے تو یہ ایسے ہی بچپن میں بنادیا تھا”
“یہ میرے لیے خاص ہے کیونکہ یہ تم نے مجھے دیا تھا”
“اچھا تو میری دی ہوئی چیز کی اتنی اہمیت ہے آپ کی نظر میں”
“بلکل تم خود سوچو تمہاری دی ہوئی چیز کی اتنی اہمیت ہے تو تمہاری کتنی اہمیت ہوگی میری نظر میں”
“لیکن میری بات کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے”
“جیسے میں نے تمہاری کس بات کو اہمیت نہیں دی”
پیشانی پر بل ڈالے وہ حورم کی طرف دیکھنے لگا
“جیسے میں نے آپ سے کہا تھا شادی کرلیں لیکن آپ راضی نہیں ہوئے”
“حور پھر سے شروع مت ہو جانا”
“ارتضیٰ آپ سیرئیس ہوکر میری بات سنیں کل ہی آپ کے بالوں میں ایک سفید بال ملا مجھے اس سے پہلے سارے بال سفید ہو جائیں شادی کرلیں”
“اس بارے میں بعد میں بات کرینگے فلحال جاؤ تیار ہوکر آؤ”
“کس لیے”
“ہم باہر جارہے ہیں”
“اچھا ٹھیک ہے میں نے کچھ سامان نکالا ہے آپ دیکھ لیں جو ضروری ہے وہ رکھ لیں اور باقی سارا پھینک دیں میں تب تک تیار ہوکر آتی ہوں”
اسنے وہاں بوکس میں رکھے سامان کی طرف اشارہ کیا اور کمرے سے باہر چلی گئی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial