جنون محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

اسکے گاڑی میں بیٹھتے ہی ارتضیٰ نے گاڑی اسٹارٹ کردی جب حورم کی آواز اسکے کانوں میں پڑی
“تو پھر کیا سوچا ہے آپ نے”
“کس بارے میں”
اسنے ناسمجھی سے پوچھا
“ارتضیٰ شادی کے بارے میں آپ کو پتہ ہے سوچا تھا آپ کی شادی ہو جائے گی پھر آپ کے بچوں کو بڑی بہن بن کر پالوں گی لیکن اب تو ایسا لگ رہا ہے انہیں ماں بن کر پالنا پڑے گا”
اسکی بات سن کر وہ بےاختیار ہنسا
“تمہارے پیپرز کب ختم ہورہے ہیں”
“دو دن بعد لاسٹ ہے”
اسکا بی-بی-اے کا لاسٹ ائیر چل رہا تھا جس کے بعد اسکی پڑھائی ختم ہوجانی تھی اور پھر اسنے واپس پاکستان چلے جانا تھا
“اگلے ہفتے میں پاکستان واپس جارہی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں جانے سے پہلے آپ کو شادی کے لیے منا کر جاؤں کیونکہ اب تو میں پاکستان جانے کے بعد دوبارہ یہاں تب ہی آؤں گی جب آپ کی شادی ہورہی ہوگی”
“ٹھیک ہے پھر تم اب یہاں تب ہی آنا جب میری شادی ہورہی ہوگی”
“لیکن اسکے لیے پہلے آپ مان تو جائیں اپنے دوست کو ہی دیکھ لیں آٹھ سال کی بیٹی ہے انکی اور آپ چالیس کے ہوکر بھی کنوارے پھر رہے ہیں”
اسنے منہ بنا کر کہا
“نہیں پھر رہا میں کنوراہ بہت جلد ہی تمہاری یہ خواہش پوری کردوں گا”
“سچ میں مطلب میں حفضہ دادو کو یہ خوش خبری سنا دوں کہ آپ راضی ہوگئے”
“ہاں حور گھر جاتے ہی سب سے پہلے انہیں یہ خبر سنا دینا”
اسنے ایک نظر حورم پر ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی
ارتضیٰ کا اقرار سن کر اسے بہت خوشی ملی ہوگی اور یہ بات وہ بخوبی جانتا تھا
اسے اس بات کا بھی علم تھا کہ اب جب تک گھر جاکر حورم نے یہ بات حفضہ کو نہیں بتانی تب تک اسے بے چینی ہی ہوتی رہے گی
°°°°°
لیپ ٹاپ بند کرکے اسنے ایک طرف رکھا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا جگ اٹھا لیا جو خالی تھا
بیڈ سے اتر کر وہ کمرے سے باہر گئی گھر کی چند لائٹس روشنی کے باعث کھلی ہوئی تھیں لیکن سب روز کی طرح کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے
پانی پی کر اسنے خالی جگ بھرا اور واپس جانے کے لیے مڑی جب پیچھے کھڑے ازمیر کو دیکھ کر جگ اسکے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچا
“ازمیر آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا”
اسنے گہرا سانس لے کر پانی سے بھرا جگ سائیڈ پر رکھ کر اسے گھورتے ہوئے کہا
جس نے اس وقت سادہ سا سفید رنگ کا کمیز شلوار پہنا ہوا تھا زریام کے ساتھ زمینوں کا کام وہی دیکھتا تھا اسلیے اس وجہ سے وہ اکثر راتوں کو گھر دیر سے آتا تھا اس وقت بھی وہ باہر سے ہی آرہا تھا
“تو میری جان کس نے کہا ہے اتنا سا دل رکھنے کے لئے”
مسکراتے ہوئے وہ اسکے قریب آیا جب نظر اسکی خالی انگلی پر گئی
“تمہاری انگوٹھی کہاں ہے”
“ازمیر میں ہر وقت تو نہیں پہن سکتی نہ”
“ہر وقت ہی پہننی ہے وہ ہماری منگنی کی انگوٹھی ہے اسے ہمیشہ پہن کر رکھا کرو اسے دیکھ کر مجھے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ تم ازمیر شاہ کی ملکیت ہو”
“ازمیر منگنی کوئی اتنا بڑا رشتہ نہیں ہوتا جس کے ہونے سے میں آپ کی ملکیت بن گئی”
“جان ازمیر کہو تو پھر ابھی اور اسی وقت نکاح کرلیتا ہوں تم سے تاکہ تمہیں اچھے سے پتہ چل جائے کہ تم ازمیر شاہ کی ملکیت ہو”
دونوں کے درمیان موجود فاصلہ مٹا کر وہ اسکے قریب آ کھڑا ہوا جس پر منت گھبرا کر جلدی سے دور ہوئی
وہ منت شاہ تھی ازمیر شاہ کی محبت اسکا عشق اسکا جنون اسکا سب کچھ
جسے وہ تب سے چاہتا تھا جب اسے ان سب چیزوں کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا
ان دونوں کی پڑھائی مکمل ہوتے ہی گھر والوں نے انکی منگنی کردی تھی کیونکہ ان دونوں کی ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کسی سے چھپی ہوئی تو نہیں تھی
گھر والوں کے پوچھنے پر منت نے بھی اس رشتے کے لیے ہاں کہہ دی کیونکہ یہ حقیقت تھی کہ وہ خود بھی ازمیر کو چاہتی تھی لیکن ازمیر کا جنونی انداز اسے ہمیشہ خوفزدہ کردیتا تھا
“نہیں مجھے ابھی نکاح نہیں کرنا”
اسکی بات کے جواب میں اس سے پہلے ازمیر کچھ کہتا باہر سے آتی قدموں کی آواز پر منت جلدی سے کچن سے بھاگنے لگی لیکن اس سے پہلے ہی کچن میں داخل ہوتے ساحر سے اسکی زور دار ٹکر ہوئی
جو کچن کی لائٹ آن دیکھ کر وہاں پر آیا تھا
“ب-بابا سائیں آپ ترکی سے کب آئے المیر لالا نہیں آئے”
اپنے سامنے اسے کھڑا دیکھ کر منت نے گڑبڑا کر پوچھا جبکہ شرمندگی الگ ہورہی تھی
ساحر نے اسے ازمیر کے ساتھ اکیلے کچن میں دیکھ لیا تھا اب پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہا ہوگا
“بس ابھی آیا تھا تم یہاں کیا کررہی ہو”
“میں پانی پینے آئی تھی”
اسنے جلدی سے کہا جب ساحر نے پیچھے کھڑے ازمیر کو دیکھا
“اور تم کیا کرنے آئے تھے”
“میں اپنی نظروں کی پیاس مٹانے آیا تھا”
اسکے کہنے پر منت اچھی خاصی سرخ ہوچکی تھی جبکہ دل میں اس بےشرم کو اچھی خاصی سنا بھی چکی تھی جو اسکے باپ کے سامنے اتنی آرام سے ایسی بات کررہا تھا
“منت کمرے میں جاؤ”
اسے تو ویسے بھی بھاگنے کا موقع چاہیے تھا جو ساحر کے کہتے ہی مل گیا
اسلیے بنا لمحہ ضائع کیے وہ وہاں سے بھاگ گئی
“لڑکے کچھ شرم کرلو تم”
“شرم کیسے کروں آپ ہی کا بھتیجا ہوں”
“میں اتنا بےباک تو کبھی نہیں تھا کہ اپنے ہی سسر کے سامنے اس طرح کی باتیں کرنے لگ جاتا”
“پر میں اتنا ہی بےباک ہوں چاچا سائیں کہ اپنے سسر کے سامنے یہ سب کچھ آرام سے کہہ سکتا ہوں وہ تو میرا منت سے نکاح نہیں ہوا ورنہ آنکھوں کے بجائے لبوں کی پیاس مٹاتا”
“بےشرم انسان ایک تھپڑ لگاؤں گا نہ تو ساری پیاس بجھ جائے گی”
اسکے غصے سے کہنے پر وہ ڈھٹائی سے ہنسا
“میری پیاس کا علاج تو صرف آپ کی بیٹی کے پاس ہے”
اسنے ہنستے ہوئے کہا اور ساحر کا چہرہ دیکھ کر اپنی مسکراہٹ دبائے وہاں سے چلا گیا
مزید وہاں رکتا تو یقیناً ساحر اس پر ہاتھ اٹھانے میں بھی دیر نہیں لگاتا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پر سوتی ماہیم کی طرف گئی اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی
اپنا بیگ سائیڈ پر رکھ کر اسنے اپنے ہاتھ سے گھڑی اتاری اور بنا چینج کیے جاکر بیڈ پر لیٹ گیا
سوئی ہوئی ماہیم کو اپنے حصار میں لے کر اسنے سکون سے آنکھیں بند کرلیں اس وقت اسے سکون چاہیے تھا جو اسے صرف اپنی بیوی کے پاس ہی ملنا تھا
“ساحر آپ کب آئے”
نیند سے بھری آنکھیں کھول کر وہ اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی کیونکہ پہلا خیال زہہن میں یہی آیا تھا کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے
“کہاں دنیا میں یا پھر حویلی میں”
اسکی بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے مزید اسکے قریب ہوگئی
“میرے دل میں”
“تمہارے دل میں تو میں ہمیشہ سے تھا بس تمہیں اس بات کا احساس تھوڑی دیر سے ہوا”
اسنے نرمی سے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اپنی آنکھیں موند لیں
°°°°°
نرم سی دھوپ استنبول کی سڑکوں پر پڑھنے لگی جب وہ تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی جانب گئی
دونوں ہاتھوں میں شاپر پکڑنے کے باعث ہاتھ دکھنے لگ گئے تھے لیکن کیا کرتی یہ کام اسی نے کرنا تھا
کچھ فاصلے پر ہی اسے اپنا گھر نظر آگیا جس پر اسنے شکر بھرا سانس لیا اور تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی جانب بڑھ گئی
دروازہ بجانے کے چند سیکینڈ بعد ہی کھل چکا تھا
“اسلام و علیکم بی جان”
اسنے مسکراتے ہوئے انہیں سلام کیا اور اندر داخل ہوکر اپنے جوتے اتارنے لگی
وہ استنبول میں رہتی تھی لیکن گھر میں وہ صرف اردو کی زبان ہی بولتی تھی کیونکہ بی جان نے انہیں یہی عادت ڈالی تھی
اسے ترکش زبان آتی تھی لیکن وہ صرف ضرورتاً ہی بولتی تھی
“وعلیکم اسلام کہاں تھیں تم اتنا وقت لگا دیا”
“جی بس سامان خریدنے میں دیر ہوگئی تھی شہروز کہاں ہے”
“مہربانو لے کر گئی تھی اسے اوپر ہی ہوگا”
انکی بات سن کر وہ اپنا سر ہلاکر اوپر کی طرف چلی گئی
یہ گھر تین منزلہ تھا پہلی منزل پر وہ خود بی جان کے ساتھ رہتی تھی جبکہ باقی کی دو منزل انہوں نے رینٹ پر دے رکھی تھیں اور اسی وجہ سے گھر آرام سے چل رہا تھا
°°°°°
بلیک پینٹ کے ساتھ اسنے وائٹ شرٹ زیب تن کی اور بلیک ٹائی لگا کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اپنی پسندیدہ گھڑی اٹھالی
بال بنا کر اسنے ایک گہری نظر شیشے میں نظر آتے اپنے وجود پر ڈالی اور شرٹ کی آستینوں کو کونیوں تک فولڈ کرکے باہر جانے لگا جب نظر سیڑھیوں کی طرف جاتے شہروز پر گئی
جو گھٹنوں گھٹنوں چلتا نیچے جاتی سیڑھیوں کی طرف جارہا تھا
تیزی سے اسکے قریب جاکر المیر نے جلدی سے اسے اپنی گود میں اٹھالیا جبکہ چہرے پر غصیلے تاثرات اتر آئے
اگر وہ اسے نہیں پکڑتا تو یقیناً اسنے سیڑھیوں سے گر جانا تھا اور اسکے بعد کیا ہوتا یہ وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا
اسنے اپنی گود میں موجود شہروز کو دیکھا جو معصوم سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا
المیر اسکے لیے انجان نہیں تھا بلکہ المیر سے تو اسکی بہت اچھی دوستی تھی اسلیے اس وقت اسکی گود میں وہ بہت آرام سے چڑھا ہوا تھا
“یہ آپ کے پاس تھا”
میرب کی آواز سن کر اسنے نگاہوں کا رخ اسکی جانب موڑا
“کہاں تھیں تم”
“میں باہر گئی ہوئی تھی”
“اپنے بچے کی تمہیں کوئی پرواہ ہے یا نہیں ابھی سیڑھیوں سے گرجاتا”
اسکے کہنے پر میرب نے گھبرا کر اسکی گود سے شہروز کو لیا اور اسے ٹھیک سے دیکھنے لگی اور اسے بلکل ٹھیک دیکھ کر شکر بھرا سانس لیا
“مہر آپی لے کر گئی تھیں اسے اگر مجھے اندازہ ہوتا وہ اتنی لاپروائی دکھائیں گی تو میں کبھی انکے پاس نہیں چھوڑتی”
“مہر کا بیٹا نہیں ہے تمہارا ہے تو خیال بھی تمہیں ہی رکھنا چاہیے”
تیز تیز قدم اٹھاتا وہ نیچے کی طرف چلا گیا جبکہ اسکے جانے کے بعد میرب نے اپنے گود میں موجود شہروز کو دیکھا اور اسکے بالوں پر اپنے لب رکھ کر اسے اپنے سینے سے لگالیا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial