قسط: 7
کلاس روم میں داخل ہوتے ہی اسکی پہلی نظر وہاں بیٹھی جنت پر گئی اور اسے دیکھتے ہی لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ بکھر گئی
“گڈ مارننگ ایوری ون” ڈارک بلیو شرٹ کی آستینوں کو کونیوں تک چڑھاتے ہوئے اسنے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا
جو اسکی موجودگی دیکھ کر جلدی سے سیدھے ہوکر بیٹھے
اسنے ایک گہری نظر وہاں بیٹھی جنت پر ڈالی اپنا کام شروع کردیا
زاویان خانزادہ کا نام پاکستان کے مشہور ڈاکٹرز میں آتا تھا وہ اس یونیورسٹی میں صرف ایک سیمینار کی وجہ سے آیا تھا جہاں اسکی پہلی ملاقات جنت سے ہوئی تھی
اور وہ لڑکی پہلی ہی ملاقات میں اسکے دل میں بس گئی
جس کی وجہ سے وہ خود اس کالج میں لیکچرار کے طور پر آگیا تاکہ جنت شاہ کو دیکھ کر بےچین دل کو قرار مل جائے
°°°°°
شہروز کو بی جان کے پاس چھوڑ کر وہ اوپر والے حصے میں گئی
مہر بانو کی لاپروائی دیکھ کر اسکا غصہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور اسے پتہ تھا جب تک وہ مہر بانو سے بات نہیں کرلیتی تب تک اسکا غصہ نہیں اترنا تھا
“مہر آپی اگر آپ شہروز کو سمبھال نہیں سکتی ہیں تو پلیز اسے یہاں پر لایا بھی مت کیا کیجیے”
اسکے قریب جاکر میرب اس کے سر پر کھڑی ہو کر کہنے لگی جبکہ اسکی بات سن کر کپڑے پریس کرتی مہر بانو نے حیرت سے اسے دیکھا
“کیا ہوا ہے میرب”
“شہروز سیڑھیوں سے گرنے والا تھا خدا کا شکر ہے المیر نے پکڑ لیا ورنہ کیا ہوتا میں سوچنا بھی نہیں چاہتی ہوں”
“میرب میں نے تو اسے فرقان کے ساتھ خود بی جان کے پاس بھجوایا تھا”
اسنے مڑ کر اپنے پانچ سالہ بیٹے کو دیکھا جو اس وقت ٹی وی دیکھنے میں مگن تھا
“فرقان تم شہروز کو کہاں چھوڑ کر آئے تھے”
اسکی بات سن کر ٹی وی دیکھتا فرقان چونکا
“امی جان وہ میرے دوست آگئے تھے اسلیے جلدی میں میں اسے المیر انکل کے حصے میں چھوڑ آیا تھا”
فرقان کی بات سن کر اسنے غصے سے اسے گھورا
“میرب آئی ایم سوری میں کام کرنے لگ گئی تھی اسلیے میں نے اسکے ساتھ بھجوادیا تھا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس طرح کی کوئی حرکت کرے گا”
“مجھے کوئی سوری نہیں چاہیے آپ کو اندازہ ہونا چاہیے فرقان خود ایک بچہ ہے آپ بھی جانتی ہیں شہروز اس سے نہیں سمبھالا جاتا پھر بھی آپ نے شہروز کو اسکے ساتھ بھیجا پلیز آپ آئندہ شہروز سے دور رہیے گا اللہ نہ کرے اگر شہروز گر جاتا تو آپ کا کچھ نہیں جاتا نقصان صرف میرا ہوتا”
تیز تیز قدم اٹھاتی وہ واپس نیچے چلی گئی جبکہ اسکے جانے کے بعد مہر بانو نے اپنی نگاہوں کا رخ ہو وہاں بیٹھے فرقان کی جانب کیا جو خود اسکے کچھ بولنے کا منتظر تھا
یقینا اب اسے ڈانٹ پڑنی تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا
“ادھر آؤ فرقان”
اسے اپنے پاس بلا کر مہر بانو نے اپنے قریب بٹھایا اور نرمی سے اسے سمجھانے لگی تاکہ جو لاپروائی اسنے آج دکھائی ہے آئندہ نہ دکھائے
اگر بچہ آپ کی بات نرمی سے سمجھ سکتا تھا تو پھر کیا ضرورت تھی اس پر بلا وجہ غصہ کرنے کی
غصہ ہر مسلے کا حل نہیں ہوتا بلکہ اکثر معاملات غصے کی وجہ سے بگڑ جاتے ہیں
°°°°°
نیند سے جاگتے ہی اسنے گھڑی کی طرف دیکھا اور زہہن مکمل بیدار ہوتے ہی وہ اپنے کمرے سے بھاگتی ہوئی نکلی
اس وقت اسنے پنک کلر کا نائٹ سوٹ پہنا ہوا تھا جو اسے چینج کرنے کا بھی خیال نہیں آیا کیونکہ جو بات اسے کرنی تھی وہ کپڑے چینج کرنے سے زیادہ ضروری تھی
“حفضہ دادو”
حفضہ پر نظر پڑھتے ہی وہ چہک کر اسکے قریب آئی جو عینہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی
رات کو وہ اور ارتضیٰ دیر سے گھر واپس آئے تھے اور جس وقت وہ دونوں واپس آئے تھے وہ وقت حفصہ کے سونے کا ہوتا تھا اس وجہ سے وہ یہ بات اسے نہیں بتا سکی ورنہ وہ یہ بات حفضہ کو رات کو ہی بتا دیتی
“کیا ہوا حورم”
“آپ کو پتہ ہے ارتضیٰ شادی کے لیے مان گئے”
اسنے کہنے پر ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا جس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہی نہیں ہورہی تھی جبکہ مسکرانے کے باعث دونوں گالوں پر گہرے ڈمپل ابھر رہے تھے
“تم سچ کہہ رہی ہو حورم”
“جی بلکل”
“کیا کہا ارتضیٰ نے تم سے مجھے پوری بات بتاؤ”
حفضہ کے پوچھنے پر وہ ارتضیٰ کے ساتھ ہوئی ساری بات اسے تفصیل سے بتانے لگی جسے سن کر حفضہ نے شکر بھرا سانس لیا
چلو بلآخر یہ بندہ شادی کے لیے راضی تو ہوا
°°°°°
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے سوتے دیکھ کر میشال نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور کھڑکی سے پردے ہٹا دیے
صبح کی روشنی کمرے میں داخل ہوئی جسے دیکھ کر بیڈ پر سوئے نازک وجود نے منہ بنایا اور نیند میں بڑبڑا کر کروٹ بدل لی
“عائشہ اٹھو کب تک سوتی رہو گی”
“جب تک میرا ہیرو نہیں آجاتا”
اسنے نیند سے بھری آواز میں کہا جسے سن کر میشال گہرا سانس لے کر رہ گئی
ایک یہ لڑکی دوسرا اسکے ناولز اور تیسرا ناولز کے ہیرو
عائشہ آفندی کی دنیا بس اسی پر ختم تھی
اسکی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے ناول پر گئی یقیناً ساری رات اسے ہی پڑھا جارہا تھا
“عائشہ اٹھو ساری رات تم ناول میں گھسی رہتی ہو کسی دن میں آگ لگا دوں گی ان سب کو”
اسکے چلانے پر وہ منہ بنا کر اٹھی
“مام سونے بھی نہیں دیتیں میری تو شادی کروا دیں تاکہ اپنے ہیرو کے گھر میں آرام سے میں سو کر اٹھوں”
“تمہارا ہیرو تمہیں تمہاری ماں کی طرح کھانے کی ٹرے سجا کر نہیں دے گا”
بڑبڑاتے ہوئے وہ بکھرا کمرہ سمیٹنے لگی جب عائشہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اسکی نیند تو اب ویسے بھی خراب ہوچکی تھی بہتر تھا اٹھ ہی جاتی
“مام کاش میں بھی شاہ حویلی میں پیدا ہوجاتی”
“ہاں تاکہ انکی زندگی عذاب بنادیتیں”
“نہیں اسلیے کیونکہ پھر میں جب پیدا ہوتی تو میری بھی کسی کزن سے منگنی ہوجاتی جو مجھ سے بہت محبت کرتا اور بات بات پر صرف یہی کہتا رہتا کہ عائشہ تم صرف میری ہو تم مجھ سے دور ہوئیں تو تمہیں جان سے مار دوں گا”
اسکی بات سن کر میشال گہرا سانس بھر کر رہ گئی ایک تو یہ لڑکی کبھی خیالی دنیا سے باہر نہیں آتی تھی
“ویسے تو میں بھی اسے نہیں چھوڑتی لیکن اسے چڑانے کے لیے کہہ دیتی کہ مجھے تم سے شادی نہیں کرنی ہے ہائے پھر وہ میرے بال پکڑتا اور مجھے بولتا کہ تم صرف میری ہو”
اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی کھلکھلا کر ہنسی
“عائشہ یہ سب باتیں صرف کہانیوں میں اچھی لگتی ہیں”
“اچھا ٹھیک ہے ہم ان سب باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں یہ کام تو میرے ساتھ ہوسکتا ہے نہ کہ ماہر انکل کی طرح میرا بھی کوئی ہینڈسم سا ٹیچر ہو اور پھر میری اس سے شادی ہوجاتی”
“عائشہ اٹھو جلدی فریش ہوجاؤ”
اسکا ہاتھ پکڑ کر میشال نے اسے بیڈ سے اٹھایا جس کے بعد وہ واشروم میں چلی گئی
اور اسکے جاتے ہی میشال سائیڈ پر بکھرے ناولز اٹھانے لگی
ان سب بچوں کو صرف یہ پتہ تھا کہ ماہر عزہ کا ٹیچر تھا اور انکی شادی ہوگئی لیکن وہ شادی کیسے ہوئی تھی اس سے سب بچے ہی انجان تھا
ماضی چلا گیا تھا اسلیے بہتر تھا اسے نہ دہرایا جائے زندگی اچھی گزر رہے تھی تو اسی میں خوش رہنا بہتر تھا
°°°°°
ارتضیٰ اسے اسٹڈی روم میں مل گیا تھا اور اسے دیکھتے ہی وہ اسکے قریب جاکر بیٹھ گئی
ارتضیٰ نے حیرت سے اسکے چہرے کو دیکھا جو آج باقی دنوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی فریش لگ رہا تھا
“کیا بات ہے مام بہت پیاری لگ رہی ہیں”
“حورم نے بتایا تم شادی کے لیے مان گئے ہو”
“ہاں بلکل”
“تو میں لڑکی پسند کرلوں یا پھر تم خود کرو گے”
“لڑکی کیوں پسند کرنی ہے میری پسند تو آپ جانتی ہی ہیں”
اسکی بات سن کر حفضہ کی مسکراہٹ مدھم پڑی
وہ ماں تھی ہمیشہ سے اسکی دلی خواہش کے بارے میں جانتی تھی لیکن کبھی یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی کیونکہ اسے پتہ تھا یہ سب کچھ ناممکن ہے پر آج وہ شاید خود ہی کھلے لفظوں میں یہ بات کرنا چاہتا تھا
“کیا مطلب”
“میری دلی خواہش کیا ہے یہ آپ اچھے سے جانتی ہیں”
“کیا ہے تمہاری دلی خواہش”
اسنے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا
وہ جانتی تھی ارتضیٰ کیا کہے گا پر دل کے ایک کونے میں یہ خیال بھی تھا کہ شاید ارتضیٰ اسکی سوچ کے برعکس کچھ کہہ دے
“حور ہے میری دلی خواہش میں اب تک خاموشی صرف اسلیے تھا کیونکہ میں اسکی پڑھائی ختم ہونے کا منتظر تھا جو کہ اب ختم ہونے والی ہے اور میں چاہتا ہوں اب آپ بھی جاکر زریام بھائی سے بات کریں”
“ارتضیٰ یہ فضول بات اپنے زہہن سے نکال دو یہ ناممکن ہے”
اسنے اپنے لہجے کو نارمل رکھ کر کہا
“اس میں ناممکن والی کیا بات ہے”
“ارتضیٰ تم چاچو ہو اسکے وہ تمہیں اسی نظر سے دیکھتی ہے”
“میں نے اسے ہمیشہ یہی سمجھایا ہے کہ میرا اس سے ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے وہ نہیں سمجھتی تو یہ اسکی غلطی ہے”
“سترہ سال چھوٹی ہے وہ تم سے”
“مجھے پروا نہیں ہے”
“زریام کبھی نہیں مانے گا”
“مجھے انکی اجازت نہیں چاہیے”
“حورم بھی نہیں مانے گی”
اسٹڈی روم میں چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی
”حورم مان جائے گی نہ مانی تو یہ اسکی اپنی غلطی ہے”
اسنے ضدی انداز میں کہا
“آپ جانتی ہیں نہ مام ڈیڈ ہمیشہ کہتے تھے کہ ارتضیٰ اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہے وہ غلط نہیں کہتے تھے میں واقعی میں اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں پھر چاہے وہ کوئی بےجان چیز ہو یا جاندار”
“حورم کوئی چیز نہیں ہے ارتضیٰ”
“بلکل وہ کوئی چیز نہیں ہے وہ ایک انسان ہے جس کے احساسات ہیں جذبات ہیں لیکن میں کیا کروں اسے چھوڑنا میرے بس میں نہیں ہے”
“وہ لڑکی میری سانسوں میں بستی ہے وہ میری سانسوں کی ڈور ہے اور اگر حورم شاہ ارتضیٰ آفندی سے دور ہوئی تو یہ ڈور ٹوٹ جائے گی”
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے چلا گیا جبکہ وہ بھیگی آنکھیں لیے وہیں بیٹھی رہی
اسنے اور احسان نے ارتضیٰ کو ہمیشہ لاڈوں میں پالا تھا وہ ضدی بچپن سے تھا اگر کسی خواہش کا اظہار کردیتا تو اسے پوری کرکے دم لیتا تھا اسکی ضد پر ان دونوں نے کبھی کچھ نہیں کہا تھا
لیکن اگر حفضہ کو اندازہ ہوتا کہ اسکی یہ ضد آگے جاکر یہ روپ اختیار کرنے والی ہے تو وہ کبھی بھی اسکی بےجا ضد پوری نہیں کرتی
یہ کیسی محبت تھی جس میں وہ اپنی محبت کی خوشی ہی نہیں دیکھ رہا
یہ بات وہ اسے سمجھا نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خود جانتی تھی کہ ارتضیٰ کے لیے حورم محبت نہیں تھی
اسکا عشق اسکا جنون تھی محبت ہوتی تو وہ شاید چھوڑ دیتا
لیکن وہ محبت نہیں تھی وہ اسکا پاگل پن تھی جسے وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنے والا تھا