قسط: 8
ہاتھ میں موبائل پکڑے وہ اس وقت غور سے اس تصویر کو دیکھ رہی تھی جو کچھ دیر پہلے ہی نور نے سینڈ کی تھی
دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونکی اور زریام کو دیکھتے ہی اسکے پاس گئی
“زریام میری بات سنو”
حوریب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا لیا
“کیا بات ہے حوریب سب ٹھیک ہے”
“ہاں بس کچھ بات کرنی تھی”
“ہاں کہو”
“نور نے ایک رشتہ بتایا ہے حورم کے لیے”
“اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی حورم کی عمر ہی کیا ہے”
“دو سال بعد پچیس کی ہو جائے گی”
اسنے دو انگلیاں زریام کو دکھائیں جیسے اسے تو پتہ ہی نہیں تھا دو کتنے ہوتے ہیں
“اچھا تو جب وہ دو سال بعد پچیس کی ہو جائے گی تب ہم اسکا رشتہ ڈھونڈ لینگے”
“زریام اس عمر میں میری تم سے شادی بھی ہوگئی تھی”
“حوریب تم میرا دماغ مت کھاؤ جاکر اماں سائیں سے بات کرلو” اسے جواب دیتے ہوئے وہ جھک کر وہ اپنے پاؤں میں موجود پشاوری چپل اتارنے لگا
“ان سے تو بات کر بھی لی اور انہوں نے تو ہاں بھی کہہ دیا ہے پر ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ زریام سے بھی مشہورہ کرنا”
اسکی بات سن کر زریام نے خفگی سے اسے دیکھا
“اچھا تو ان کی وجہ سے مجھ سے مشہورہ لیا جارہا ہے ورنہ تم نے تو شاید مجھے اس معاملے میں پوچھنا بھی نہیں تھا”
“اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے”
“اور یہ نور نے کب سے رشتے کروانے کا کام شروع کردیا ہے”
“کام شروع نہیں کیا اسنے مجھے بتایا تھا کہ وہ لوگ عصیرم بھائی کے جاننے والے ہیں اور حورم گھر کی بڑی بیٹی ہے تو اسلیے پہلے اسکے بارے میں سوچا جائے اور اسنے تو حورم کی تصوری بھی انہیں دکھا دی اور انہیں تو حورم پسند بھی آگئی اور پسند آتی کیوں نہیں اپنی ماں پر جو گئی ہے”
اسنے فخریہ انداز میں کہا جبکہ زریام حیرت سے اسکی ساری بات سن رہا تھا
“مطلب ساری باتیں جب پہلے ہی طے ہوگئی ہیں تو ضرورت کیا ہے مجھ سے مشہورہ لینے کی”
“اف ان باتوں کو چھوڑو تم یہ دیکھو یہ لڑکے کی تصویر ہے”
اسنے موبائل اسکے سامنے کیا جسے اپنے ہاتھ میں تھام کر وہ اس لڑکے کو دیکھنے لگا
“کیسا ہے”
“اچھا ہے لیکن صرف شکل دیکھ کر تو میں اپنی بیٹی نہیں دے سکتا نہ اور سب سے اہم بات حورم سے مشہورہ کرو جو اسکا جواب ہوگا میرا بھی ہوی ہوگا”
“اس سے تو میں نے پہلے ہی بات کرلی اور اسنے سب کچھ ہم پر ہی چھوڑ دیا ہے”
اسکے کہنے پر زریام نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کرلیں
سمجھ نہیں آرہا تھا خفگی دکھائے ناراض ہو یا پھر غصہ کرے
“تم مجھے اب کیوں بتارہی ہو نکاح والے دن بتادیتیں”
“زریام ناراض مت ہو تمہارے جواب کی منتظر ہوں اگر انکار کردو گے تو پھر میں نور کو منع کردوں گی”
معصومیت سے کہتے ہوئے اسنے اپنا سر زریام کے کندھے پر رکھا جس پر وہ ہلکا سا مسکرایا
“پہلے میں حورم سے خود بات کروں گا اگر وہ ابھی یہ سب نہیں چاہتی تو پھر میں نور کو انکار کردوں گا لیکن اگر حورم ہاں کہتی ہے تو پھر مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے”
اسکی بات سمجھ کر حوریب نے اپنا سر ہلایا اور زریام کے ابھرتے ڈمپل پر اپنے لب رکھ دیے
°°°°°
گاڑی کی اسپیڈ معمول سے زیادہ تیز تھی اور اسٹیئرنگ پر گرفت سخت تھی
جس کے باعث واضح طور پر نیلی اور سبز رگیں نمایاں ہورہی تھیں
جبکہ زہہن کے پردوں پر کچھ دیر پہلے دیکھا جانے والا منظر گھوم رہا تھا
اسے نہیں یاد تھا آج تک جنت نے کبھی اسکے ساتھ اتنی ہنس کر بات کی ہو جتنی اپنے ٹیچر کے ساتھ وہ کررہی تھی
“سالار اسپیڈ سلو کرو”
“آپ کو دوسروں سے اتنا فرینڈلی ہوکر بات نہیں کرنی چاہیے”
اسنے سنجیدگی سے کہا جس پر وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی
“کیا مطلب”
“آپ اپنے ٹیچر سے بات کررہی تھیں وہ بھی کافی ہنستے ہوئے بس اسی پر کہہ رہا ہوں”
اسکے کہنے پر جنت کو یاد آچکا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کررہا ہے
وہ یقیناً زاویان کی ہی بات کررہا تھا کیونکہ یونی سے باہر نکلنے سے پہلے وہ اسی سے ملی تھی جو اسے اسکی کتاب دینے کے لیے آیا تھا جسے وہ کلاس میں ہی بھول آئی تھی
“تم سے کس نے کہا وہ میرے ٹیچر ہیں”
“اسکی بڑی عمر دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا”
اسکی بات پر جنت نے ناک سکوڑی زاویان کی ایج تو اسے نہیں پتہ تھی پر وہ لگتا اٹھائیس تیس تک کا ہی تھا
“اگر میں بات کر بھی رہی تھی تو تمہیں کیا مسلہ ہے وہ میرے استاد ہی تو ہیں”
“شاید آپ بھول رہی ہیں کہ بڑے بابا بھی بڑی ماما کے استاد ہی رہ چکے ہیں”
“سالار میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے جو تمہاری طرح یہ فضول باتیں سوچتی رہوں”
“میری بات کو اگنور ہرگز مت کیجیے گا جنت آج کے بعد میں آپ کو اس شخص کے ساتھ نہ دیکھوں”
اسکی بات سن کر وہ اپنا سر جھٹک رک رہ گئی
اس انسان سے بحث فضول تھی ویسے بھی اسنے کون سا سالار کی یہ بات مان لینی تھی
°°°°°
“ڈیڈ دیکھیں تو سہی مام نے میری ساری نیند خراب کردی”
فریش ہوکر وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی جب نظر وہاں سب کے ساتھ بیٹھے ایہاب پر گئی اور اسے دیکھتے ہی عائشہ کے نہ بہنے والے آنسو شروع ہوگئے جیسے اسکی ماں نے اسکے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیا ہو
“اچھا ہوا اٹھادیا ہر وقت سوتی رہتی ہو”
اسکے کہنے پر عائشہ نے خفگی سے اسے دیکھا
“آپ کو یہ بات نہیں کہنی تھی ناولز میں ایسا نہیں کہتے”
“پھر کیسے کہتے ہیں”
کافی کا کپ احسان کو پکڑاتے ہوئے حفضہ نے دلچسپی سے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
“اس میں دکھاتے ہیں کہ اگر بیٹی اپنے والد محترم سے شکایت لگاتی ہے تو والد محترم اس شخص کو بہت ڈانٹتے ہیں”
اسنے میشال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اسے ہی گھور کر دیکھ رہی تھی
لیکن اسکے گھورنے سے عائشہ کو کوئی فرق نہیں پڑھ رہا تھا یہ الگ بات تھی اسے میشال کی گھورتی نظروں کی عادت تھی
ویسے بھی اس وقت اسکا دھیان ایہاب کی طرف تھا اسے لگا شاید اسکی بات سن کر ایہاب میں تھوڑا جوش آئے اور وہ میشال کو کچھ کہ دے
لیکن ایسا کبھی زندگی میں ہو ہی نہیں سکتا کہ ایہاب آفندی میشال آفندی کو ڈانٹ دے اسنے تو آج تک میشال سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی ڈانٹنا یا غصہ کرنا تو دور کی بات تھی
اس وقت بھی عائشہ کی بات سن کر ایہاب نے قہقہہ لگایا
“میری جان تمہاری طرف داری کرکے مجھے اپنے کمرے سے باہر سونے کا کوئی شوق نہیں ہے”
اسکی بات سن کر وہ منہ بگاڑتی ہوئی اٹھ کر جانے لگی جب وصی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب بٹھالیا
“تمہارا باپ تو ہے ہی نالائق اس سے ایسی باتیں کرنا فضول ہے میں ہوں نہ اپنی پوتی کے لیے”
اسکے بال بکھیر کر وصی نے اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے
“میشال اسے کچھ مت کہا کرو اگر دیر سے سو کر اٹھتی ہے تو اٹھنے دو”
“آپ اسکی عادت بگاڑ رہے ہیں”
“تو بگاڑنے دو عادتیں تو ہوتی ہی بگڑنے کے لیے ہیں ، ہیں نہ” اسنے عائشہ کی طرف دیکھ کر اپنی بات کی تصدیق چاہتی جس نے فور اسے اپنا سر ہلایا اور اسکے مسکراتے ہوئے اسکے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا
°°°°°
“نہیں”
ہر بار کی طرح جواب وہی ملا جس پر وہ تپ کر وہ گئی
“میں دو گھنٹے میں واپس آجاؤں گی”
“نہیں”
اسکا لہجہ سخت ہوا جسے سن کر وہ فقط منہ بنا کر رہ گئی
اسے کتنے دن ہوگئے تھے اپنے گھر گئے ہوئے اور اب بھی ماہر صاحب اسے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے
ماہر باقائدگی سے ہر ہفتے اسکے گھر کی صفائی کرواتا تھا لیکن اسے وہاں جانے کی اجازت کم ہی ملتی تھی اور اس میں غلطی بھی اسے اپنی ہی لگتی تھی
المیر اور ازمیر کی پیدائش کے بعد ماہر اسے ہر ہفتے اسکے گھر پر لے کر جاتا تھا لیکن وہاں جاکر اسکے سامنے ماضی کی ساری یادیں بکھر جاتیں اور کئیں دن تک وہ ماضی کو یاد کرکے اپنے اور ماہر کے بیچ ایک اجنبیت کی دیورا بنا کر بیٹھی رہتی
لیکن پھر کچھ وقت بعد وہ کبھی خود ہی اس دیور کو گرادیتی یا پھر ماہر گرادیتا
وہ ماہر کے ساتھ خوش تھی بہت خوش لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ ماضی زہہن سے مٹ چکا تھا
اپنے گھر جاکر اسے گزرا ہر لمحہ یاد آجاتا اور پھر اسی وجہ سے نا چاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ تلخ ہو جاتا اور اسی وجہ ماہر اسکا اسکے گھر جانا بند کروا چکا تھا
وہ کوئی بھی ایسی چیز اپنی زندگی میں برداشت نہیں کرتا تھا جو اسکے اور عزہ کے درمیان کوئی مسلہ پیدا کرے
اس وقت بھی وہ اپنا گھر دیکھنے کی ہی ضد کررہی تھی جس پر وہ مسلسل انکار کررہا تھا
“اگر آپ مجھے لے کر نہیں گئے تو میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤں گی”
اسنے دھمکی دی جس کا ماہر پر تو کوئی اثر نہیں ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا اپنی بات کے جواب میں اسکا ٹھنڈا سا رسپانس دیکھ کر وہ باہر جانے لگی جب اسکا ہاتھ پکڑ کر ماہر نے اسکا وجود اپنے کندھے پر ڈال لیا
وہ آج بھی بلکل پہلے جیسی ہی تھی
نازک سی بلکل گڑیا کی طرح وہ کہیں سے بھی دو جوان بیٹوں کی ماں نہیں لگتی تھی
اور اسے اپنی یہ چھوٹی سی بیوی ہی پسند تھی جس میں اسکی جان بستی تھی بس ایک بات تھی جو اسنے کبھی نہیں چاہی تھی کہ اسکے بیٹوں کا قد عزہ جیسا ہو
اور شکر تھا کہ ایسا کچھ نہیں تھا اسکے بیٹوں نے دراز قد اپنے باپ سے چرایا تھا
“نیچے اتاریں مجھے”
اسنے زور دار مکا ماہر کی کمر پر رسید کیا لیکن سامنے والے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا اس بات سے بھی وہ بخوبی واقف تھی
“میری جان میری چھوٹی سی بیگم جب تم مجھ سے لڑ نہیں سکتی ہو تو پھر الجھا بھی مت کرو”
مسکرا کر کہتے ہوئے وہ عزہ کو لے کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
°°°°°
کچن میں کھڑی وہ شہروز کے لیے فیڈر تیار کررہی تھی جب اسے اپنے پیچھے المیر کی آواز سنائی دی گھبرا کر وہ جلدی سے پیچھے مڑی
“اللہ اللہ آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا”
“اللہ اللہ مطلب میری شکل اتنی خوفناک ہے”
“نہیں المیر وہ آپ اچانک آئے تو میں بس اسلیے ڈر گئی تھی”
اسنے جلدی سے وضاحت دی جسے سن کر وہ ہلکا سا ہنسا
“میں مذاق کررہا تھا میرب”
چند لمحے خاموشی کی نظر ہوگئے جب گلا کھنکارتے ہوئے اسنے پھر سے بات شروع کی
“سوری مجھے تم سے صبح اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی”
“آپ کو سوری کہنے کی ضرورت نہیں ہے آپ نے تو شہروز کی فکر میں ہی یہ سب کچھ کہا تھا”
“ہاں لیکن پھر بھی تم ماں ہو اسکی تم سے زیادہ اسکا خیال اور کون رکھ سکتا ہے میں اپنے کہے لفظوں پر شرمندہ ہوں”
“آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے المیر آپ کی غلطی نہیں تھی پھر بھی اگر آپ کو ایسا لگ رہا ہے تو میں نے سوری ایکسیپٹ کی”
اسکی بات سن کر المیر نے سکون بھری سانس لی
ورنہ صبح جب وہ اسے ڈانٹ کر گھر سے نکلا تھا اسے یہی فکر ہورہی تھی کہ کہیں میرب اب اس سے ناراض نہ ہو جائے لیکن شکر تھا کہ وہ اس سے ناراض نہیں تھی
یا شاید وہ المیر کے ساتھ ایسا کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھی جس کی وجہ سے وہ المیر سے ناراض ہوتی
یہ بات زہہن میں آتے ہی اسکے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی
گہرا سانس لیتے ہوئے اسنے مڑ کر میرب کی پشت کو دیکھا جو اب اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی
میرب انصاری کے لیے وہ انکے گھر میں رہتا ایک عام سا شخص تھا جبکہ المیر شاہ تو اسے اپنے دل میں بسا چکا تھا