قسط: 9
ترکی اسکا پسندیدہ ملک تھا اسلیے اپنی آگے کی پڑھائی اسنے وہیں پر کرنے کا سوچا
ویسے بھی آفس کے کام سے ساحر یا آہان کو زیادہ تر وہاں پر جانا پڑھتا تھا
اسے آفس کے کاموں میں خاصی دلچسپی تھی اسلیے اسکے یہاں رہنے سے ان سب کو یہ فائدہ تو ہوا تھا کہ اگر وہاں کوئی مسلہ ہوتا تو المیر نے اسے سولو کر لیتا تھا
استنبول میں انکا اپنا ایک گھر تھا اور المیر وہیں پر رہ رہا تھا لیکن صرف تب تک جب تک اسکی میرب سے ملاقات نہیں ہوئی تھی
اسنے پہلی بار میرب کو ایک پارک میں دیکھا تھا ایک بچے اور بزرگ خاتون کے ساتھ
وہ خاتون سے جس طرح بےتکلفی سے بات کررہی تھی یقینا وہ اسکی کوئی اپنی ہی تھیں اور ساتھ میں وہ اس بچے کا جس طرح خیال رکھ رہی تھی وہ بھی شاید اسکا بہت اپنا تھا
لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ بچہ اسکا اپنا بیٹا ہوگا بہت جلد ہی وہ اپنے ذرائع سے میرب کی معلومات نکلواچکا تھا
وہ استنبول میں رہتی تھی اپنی دادی کے ساتھ انکی ایک چھوٹی سی فیملی تھی جس میں وہ اپنی دادی اور صدام کے ساتھ رہتی تھی
جو اسکا شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ کزن بھی تھا اسی وجہ سے اٹھارہ سال کی عمر میں ہی اسکی شادی اپنے کزن سے ہوچکی تھی
لیکن اسکی قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا جو شادی کے دو سال بعد ہی صدام ایک کار ایکسیڈینٹ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا
لیکن اسنے کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا تھا
کیونکہ اسکے پاس اسکی سب سے قیمتی چیز تھی
اسکا ننھا سا شہروز
وہ شادی شدہ تھی یہ بات سن کر المیر اچھا خاصا شاکڈ ہوا تھا
کیونکہ وہ لڑکی کہیں سے بھی شادی شدہ نہیں لگ رہی تھی
اسکا شوہر مر چکا تھا یہ بات جان کر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ خوش ہو یا پھر دکھی
وہ روزانہ پارک جاتا تھا کیونکہ میرب خود شہروز کے ساتھ ہفتے میں دو سے تین بار وہاں آتی تھی
اسے میرب سے محبت تھی لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا جب وہ اس بات کا اقرار کرے گا تو یقیناً آسانی سے وہ راضی نہیں ہوگی
پر وہ بھی المیر شاہ تھا اسنے کون سا اپنے قدم پیچھے ہٹا لینے تھے
یہ بھی حقیقت تھی کہ شہروز سے اسے بےانتہا محبت تھی لیکن میرب کی وجہ سے نہیں بلکہ خود شہروز کی وجہ سے
وہ آٹھ مہینے کا گول مٹول سا بچہ تھا اسے بھلا کوئی کیسے ناپسند کرسکتا تھا
اسے پتہ تھا کہ میرب اپنے گھر کا پورشن رینٹ پر دیتی ہے اسلیے وہ اپنا گھر چھوڑ کر خود بھی وہیں شفٹ ہوگیا
تاکہ دن میں کم از کم ایک بار ہی سہی محبوبہ کا دیدار تو نصیب ہوجائے
اس اکیلے لڑکے کو دیکھ کر پہلے تو بی جان صاف انکار کرچکی تھیں
وہ ایک اکیلے لڑکے کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی تھیں
لیکن پھر جب المیر نے انہیں اپنے بارے میں تھوڑا تفصیل سے بتایا تو وہ راضی ہوگئیں اور اپنے اس فیصلے پر آج انہیں بہت خوشی تھی
المیر ایک نہایت ہی سلجھا ہوا لڑکا تھا اور وہ انکی میرب کو پسند کرتا تھا
یہ بات وہ بہت پہلے سے جانتی تھیں المیر کا ہر انداز اسکے اندر کا حال عیاں کرتا تھا
بس ایک میرب ہی تھی جو اسکے کسی بھی انداز سے یہ سمجھ نہیں پاتی تھی کہ المیر اسے پسند کرتا ہے
انہوں نے آج تک یہ بات نہ المیر سے کہی نہ میرب سے
کیونکہ وہ اس بات کی منتظر تھیں کہ المیر خود یہ بات کہے
انکی بیٹی کا گھر ایک بار پھر سے بس جائے گا اس سے بڑھ کر بھلا انہیں اور کیا چاہیے تھا
°°°°°
روز کی طرح صبح کے سات بجتے ہی نینسی نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا
یہ اسکے جگانے کا طریقہ تھا کیونکہ اپنے سر کے کمرے میں وہ جا نہیں سکتی تھی
کیونکہ اپنی موجودگی میں کسی کو اپنے کمرے میں دیکھنا اسے پسند نہیں تھا
اسکے کمرے کی صفائی نینسی اسکے جانے کے بعد کرتی تھی اور اسکی غیر موجودگی میں اسکے کمرے میں جانے کی اجازت بھی صرف نینسی کو تھی وہ بھی صرف کمرہ صاف کرنے کے لیے
اسکے دروازہ کھٹکھٹانے پر کمرے میں سوئے وجود نے آنکھیں کھولیں
اسکی نیند بےحد کچی تھی جو ہلکی سی آواز پر بھی ٹوٹ جاتی تھی
نینسی جاچکی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا اندر موجود شخص اٹھ چکا تھا
اور ایسا ہی تھا
روز کی طرح نینسی کے دروازہ بجانے پر اسکی نیند ٹوٹ چکی تھی یہ اسکے جاگنے کا طریقہ تھا اور نینسی اسکا الرام تھی
جو بنا کسی شور کے اسے بہت آرام سے جگادیتی تھی
کمبل خود پر سے ہٹا کر اسنے اپنے بےترتیبی سے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرا
اس وقت اسنے سیاہ ٹراؤزر کے ساتھ سیاہ بنیان زیب تن کیا ہوا تھا جو اسکے پھولے سفید بازوؤں کو دکھانے کا سبب بن رہا تھا
بیڈ سے اٹھ کر اسنے ڈوری کھینچ کر پردے اوپر کیے اور گلاس وال سے باہر نظر آتا منظر دیکھنے لگا
ٹھنڈ آج بھی یقینا زیادہ ہی ہونی تھی برف نہیں گر رہی تھی
لیکن گرتی ضرور رہی تھی اور اس بات کا ثبوت برف سے ڈھکی ہر چیز دے رہی تھی
کمرے کا گرم ماحول دیکھ کر حمزہ کے لبوں پر ہلکا سا تبسم بکھرا
اسنے ٹائم دیکھا اب اسے تیار ہوجانا چاہیے تھا
کیونکہ آج اسنے آفندی گروپ آف انڈسٹری جانا تھا
یقیناً ہر ویکینڈ کی طرح اس لڑکی نے آج بھی وہاں پر آنا تھا
وہ لڑکی میر حمزہ عباسی کی ویران زندگی میں بہار کا کام کرتی تھی
اسنے آج تک حمزہ کو مخاطب نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اسے جانتی تک نہیں تھی
اسے تو شاید یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اسنے کبھی زندگی میں میر حمزہ عباسی کو دیکھا بھی ہے لیکن وہ تو عائشہ آفندی کا ایک ایک نفش اپنے دل میں بسا کر بیٹھا ہوا تھا
°°°°°
رباب بیگم کے وہاں بیٹھتے ہی اسنے گہرا سانس لیا کیونکہ انکے ہاتھ میں موجود تصویریں دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ یہاں کس مقصد سے بیٹھیں ہیں
“زاویان اب سنجیدہ ہوکر یہ تصویریں دیکھو اور کوئی لڑکی پسند کرکے مجھے بتاؤ بس اب میں تمہاری شادی کردینا چاہتی ہوں اور اس بار تمہارا کوئی انکار نہیں سنوں گی”
“ٹھیک ہے آپ میری شادی کردیں پر لڑکی میری پسند کی ہوئی ہونی چاہیے”
اسکے کہنے پر وہ شاکڈ کی کیفیت میں اسے دیکھنے لگیں کیا وہ سچ کہہ رہا تھا یا کوئی مذاق کررہا تھا
“مطلب تم کسی کو پسند کرتے ہو”
انکی بات سنتے ہی جنت کا معصوم چہرہ اسکے زہہن کے گرد طواف کرنے لگا
“ہاں میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں”
‘تو مجھے بتایا کیوں نہیں بیٹا بس جلدی سے مجھے اسکا ایڈریس دو تاکہ میں رشتہ لے کر اسکے گھر چلی جاؤں”
“ماما تھوڑا صبر کرلیں”
“ارے اب صبر ہی تو نہیں ہوتا بس تم مجھے جلدی سے اس لڑکی سے ملوا دو”
انکی بےتابی پر وہ کھل کر ہنسا
“اچھا ٹھیک ہے میں آپ کو اسکا ایڈریس دے دوں گا”
“ابھی دے دو آج ہی چلتے ہیں”
“اچھا ٹھیک ہے آج ہی چلتے ہیں لیکن آپ پہلے جاکر تیار تو ہوجائیں پھر ہی تو جائیں گے نہ”
اسکے کہنے پر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئیں
جبکہ انکے چہرے پر خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت کے تاثرات اب بھی موجود تھے
یہ سرپرائز ہی تو تھا جو زاویان نے انہیں دیا تھا انکا حیرت زدہ ہونا تو بنتا تھا
کب سے تو وہ اسکے پیچھے پڑی ہوئی تھیں کہ وہ شادی کرلے اور اب جب وہ شادی کے لیے راضی ہوگیا تھا تو پھر وہ مزید تاخیر نہیں کرنا چاہتی تھیں
°°°°°
ڈارک براؤن کلر کا پینٹ کوٹ پہنے وہ اپنے کمرے سے نکلا بالوں کا نفاست سے ہئیر اسٹائل بنایا ہوا تھا جبکہ چہرہ ہر قسم کے تاثر سے عاری تھا
“گڈ مارننگ سر”
اسے دیکھتے ہی نینسی نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا جس پر اپنا سر ہلا کر وہ ڈائینگ روم کی طرف چلا گیا
جہاں روز کی طرح اسکی پسند کے مطابق بنایا گیا گرما گرم ناشتہ رکھا ہوا تھا
اسنے جگ اٹھا کر جوس گلاس میں ڈالا اور ایک سانس میں اسے پی کر گلاس ٹیبل پر رکھ دیا
“سر ناشتہ نہیں کرینگے”
“نہیں”
ایک لفظی جواب دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ڈائینگ روم سے نکلتا چلا گیا
حمزہ کے جانے کے بعد وہ ٹیبل پر رکھا ان چھوا ناشتہ واپس اٹھانے لگی
°°°°°
“گاڑی روکو”
اسکی بات سنتے ہی ڈرائیور نے اگلے ہی پل گاڑی روک دی
جبکہ بیک سیٹ پر بیٹھا حمزہ حیرت سے اپنے سامنے کھڑی عائشہ کو دیکھنے لگا
جس نے وائٹ ہائی نیک شرٹ کے ساتھ بلیو جینز پہنی ہوئی تھی جبکہ گردن کے گرد کلر فل مفلر ڈالا ہوا تھا
حمزہ عباسی تو اسے لاکھوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لے یہاں تو صرف چند قدموں کا فاصلہ تھا وہ کیسے اسے نہ پہچانتا وہ عائشہ آفندی ہی تھی
“سر سب ٹھیک ہے”
“ہوں،،،”
ڈرائیور کی آواز سن کر اسنے ہنکار بھرا اور گاڑی سے اتر کر اس بک شاپ کی طرف گیا جس کے سامنے چند لمحوں پہلے عائشہ کھڑی تھی
بک شاپ کے قریب جاکر وہ خود سے دور ہوتی عائشہ کی پشت دیکھنے لگا
جو ہر چیز سے بےنیاز ہوکر چہکتے ہوئے وہاں سے جارہی تھی
اسکے ہاتھ میں ایک بیگ تھا اور اس بیگ میں کیا چیز ہونی تھی اس کا حمزہ کو اندازہ نہیں تھا وہ بک شاپ سے نکلی تھی یقینا کوئی بک ہی ہونی تھی
کچھ سوچ کر وہ بک شاپ کے اندر داخل ہوا اور وہاں کھڑے آدمی کو دیکھ کر لبوں پر گہری مسکراہٹ بکھر گئی
“کیسے ہو جون”
اسکی بات سن کر جون نے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسے دیکھتے ہی حیرت زدہ مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھو لیا
جون کا بھائی حمزہ کی کمپنی میں کام کرتا تھا اس وجہ سے وہ اسے بہت اچھے سے جانتا تھا لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ حمزہ بھی اسے جانتا ہوگا
“مسٹر حمزہ آپ یہاں آئے بہت خوشی ہوئی”
“بہت شکریہ تمہارا بس کچھ پوچھنا تھا”
“جی کہیں”
“عائشہ یہاں کیا لینے آئی تھی”
“آپ مس عائشہ کو جانتے ہیں”
“ہاں،تم بتاؤ وہ یہاں کیا لینے آئی تھی”
“وہ ناول خریدنے آئی تھیں”
“ناول”
اسکی سفید پیشانی پر بل پڑے
“جی وہ ہر ہفتے ایک نیا ناول یہاں سے لے کر جاتی ہیں”
جون کی بات سن کر اسنے ہولے سے اپنا سر ہلایا
ناولز اسے ہمیشہ سے ایک فضول چیز لگتے تھے پر یہاں اسکے دل میں بیٹھی محبوبہ تو ناولز کی دیوانی نکلی
“تمہارے پاس جو بھی ناولز ہیں ان سب کی ایک ایک کتاب مجھے پیک کردو”
اسکی بات سن کر جون نے اپنا سر ہلایا اور وہاں کھڑے لڑکے کو اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا
جبکہ اس پورے وقت میں حمزہ کے لبوں سے مسکراہٹ ایک پل کے لیے بھی جدا نہیں ہوئی تھی