قسط: 15
رینا واقعی بہت بیہودہ عورت تھی..
اس کا ظاہری حسن جس قدر تھا اندر سے وہ اس کے بالکل الٹ تھی..
میں خود کوئی پارسا نہیں تھا ناں ہی اس معاملے میں میرا کوئی غلط یا سہی کا نظریہ تھا..
مگر پھر بھی ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور رینا تمام حدیں پار کرکے عورت کے مقام سے بھی نیچے اچکی تھی..
ایسی عورتوں میں میرے لئے کوئی کشش نہیں تھی..
میں انسانی روپ میں شاید انسانوں ہی طرح سوچنے اور محسوس کرنے لگا تھا..
میری سوچ یہ تھی کہ اگر اپ کسی ایک شخص کو چاہیں تو اپ کو اسی شخص تک محدود رہنا چاہئے..
اگر کسی وجہ سے جدائی ہوجائے یا علیحدگی ہوجائے تو یقینا اپ کو دوسرا ساتھی چن لینا چاہئے..
اور پورے دل سے اور خلوص سے اس پر بھی اپ اپنی محبت نچھاور کردیں..
اگر ایک محبت ختم ہوجائے تو دوسری محبت ہمیشہ اس کی جگہ لے لیتی ہے..
اپنے جذبات اور سچائیوں کو کسی ایسے شخص کے لئے ضائع کرنا جو اس قابل ناں ہو سراسر بیوقوفی ہوتی ہے..
محبت کوئی ایسی چیز نہیں جو دوبارہ ناں ہو سکے یا زندگی میں ایک ہی بار ہو..
محبت صرف پسندیدگی کے حد سے بڑھ جانے کا نام ہے..
انسان غلط فیصلے کر سکتا ہے غلط شخص کو چن سکتا ہے تو ان فیصلوں کو وقت گزرنے سے پہلے درست کرلینا چاہئے..
میں شاید کچھ زیادہ ہی سوچنے لگا تھا رینا کے بارے میں..
میں نادیدہ حالت میں چلتا ہوا اپنے گھر کی طرف جارہا تھا..
رات کافی ہوچکی تھی میں گھر میں داخل ہوا تو بھاتی سو چکی تھی..
میں نادیدہ حالت سے اپنے روپ میں ظاہر ہوا اور کمرے میں اکر بستر پر لیٹ گیا..
میرے پاس نادیدہ ہونے کی شکتی پہلے سے تھی اور اب ترکن کی انگوٹھی کی وجہ سے میں کسی کے بھی دل کا حال جان سکتا تھا..
کسی بھی حال یا مستقبل کے معاملے کے بارے میں جان سکتا تھا..
میں نے ترکن کی انگوٹھی کو استعمال کرنے کا سوچا اور دل میں اپنے قبیلے کے بارے میں جاننے کا خیال لایا..
اگلے ہی لمحے میری نظروں کے سامنے میرے قبیلے کے مناظر گزرنے لگے..
سردار کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا سرداری سنبھالتا ہے اگر بیٹا موجود ناں ہو تو پھر سردار کا بھائی یا پھر قبیلے کے معتبر بزرگوں کے فیصلے سے سردار منتخب کیا جاتا ہے..
میرے باپ کے مرنے کے بعد چونکہ اس کا بیٹا یعنی میں زندہ تھا اور سرداری کا حقدار تھا اس لئے کسی اور کے سردار بننے کا سوال ہی ممکن نہیں تھا..
مگر میری غیر موجودگی میں قبیلے کے معاملات چلانے کے لئے ایک نائب سردار یعنی میرے چچا کو منتخب کیا گیا تھا جو تاحال نائب سردار کی حیثیت سے قبیلے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھا..
مگر قبیلے والے اس وقت پریشانی کا شکار تھے…
ہمارے قبیلے کا ایک نوجوان ایک اور قبیلے کی شادی شدہ جن زادی کو لے کر غائب ہوگیا تھا…
اس نوجوان نے کوئی ایسا عمل سیکھا تھا جس سے دونوں قبیلوں کے تمام لوگ اس نوجوان جوڑے کو تلاش کرنے سے قاصر تھے..
اس معاملے میں کشیدگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ دونوں قبائل جنگ پر امادہ ہوچکے تھے..
میں نے دل میں بھاتی کا تصور کیا تو مجھ پر حیرت انگیز انکشافات ہوئے..
ترکن کا تحفہ انمول تھا..
بھاتی پارسائی کا ناٹک کر رہی تھی اور حقیقت میں داوا کی رکھیل تھی اور اس کے بہت سے دھندوں کی شریک مگر اس کا دل داوا سے بھر چکا تھا..
اب اس کا مجھ پر دل ایا ہوا تھا اور وہ داوا سے پیچھا چھڑوانا چاہتی تھی اور اس کے لئے وہ مجھے استعمال کرنا چاہ رہی تھی..
یعنی مجھ سے وہ اپنی حوس بھی پوری کرتی اور داوا سے بھی پیچھا چھڑوا لیتی..
مجھ پر اچانک سے بیزاریت سوار ہوگئی..
ہر جگہ دھوکہ..
ہر جگہ فریب..
حسین چہروں کے پیچھے کالک..
انسان کا ظاہری روپ اور اس کا باطن دو الگ چیزیں ہیں..
شاید اگر سب لوگ ایک دوسرے کا باطن جان سکیں تو دنیا کا ہر شخص ہی دوسرے سے نفرت کرنے لگے..
مجھے کیا ضرورت تھی بھاتی اور داوا جیسے لوگوں کی..
اور اب نادیدہ ہوجانے والی شکتی کے بعد تو ناں ہی داوا مجھے تلاش کر سکتا تھا ناں ہی میرا کچھ بگاڑ سکتا تھا..
ایک لمحے کو دل میں خیال ایا کہ داوا کے بارے میں بھی جان لوں..
مگر مجھے علم تھا وہاں بھی مجھے یہی گندگی اور غلاضت ملے گی اور کچھ مزید قابل نفرت پہلو میری نظر میں ائیں گے..
میری کوئی قابل ذکر یا ضروری چیز یہاں موجود نہیں تھی..
میں منتر پڑھ کر نادیدہ ہوا اور بھاتی کے کمرے سے کچھ کرنسی نوٹ لے کر گھر سے نکل ایا..
رات کا ایک بج رہا تھا اور اس وقت سڑکوں پر سناٹا تھا..
میں چلتا ہوا سڑک پر ایا دور ایک ٹیکسی کھڑی تھی..
میں نے خود کو ظاہر کیا اور ٹیکسی کی طرف بڑھ گیا..
ٹیکسی والے کو میں نےکسی ہوٹل کی طرف چلنے کو کہا اور پچھلی سیٹ پر دراز ہوگیا..
بابو جی..کس ہوٹل میں جائیں گے..ٹیکسی والے نے ٹیکسی اسٹارٹ کر کے مجھے پکارا..
کسی بھی اچھے ہوٹل میں بس رات گزارنی ہے..
صرف رات گزارنی ہے تو ساحل پر ہٹ بھی مل سکتا ہے سارے لوازمات کے ساتھ..
کیا مطلب لوازمات..
میرا خیال ہے اپ یہاں نئے ائے ہو جی..
مطلب شراب, شباب جو چاہیں حاضر ہوجائے گا..
چلو ٹھیک ہے..ہٹ کی طرف لے لو..
ایک گھنٹے بعد میں ایک خوبصورت سجے سجائے ہٹ میں موجود تھا جو کافی مہنگا تھا مگر مجھے پیسوں کی کیا پرواہ..
ٹیکسی ڈرائیور کھانے اور لڑکی کا انتظام کرنے کے لئے جاچکا تھا..
میں بستر پر دراز اپنی سوچوں میں الجھتا رہا..
مجھے قبیلے جانا چاہئے یا نہیں..
اگے زندگی کو کس طرح گزارا جائے..
اپنی شکتیاں کیسے واپس حاصل کی جائیں..
اس بھشکو کو تلاش کر کے انتقام لینا ہے..
اچانک میرے ذہن میں بجلی سی کوندی..
اپنی شکتیاں میں کیسے واپس حاصل کر سکتا ہوں..
میں نے انگوٹھی کی مدد سے جاننے کی کوشش کی..
میری نگاہوں کے سامنے ایک ناگن کا چہرہ ابھرا..
چہرہ اس لئے کہ اس کا چہرہ انسانی تھا اور باقی جسم ناگن کا..
اس ناگن کے خون اور اگ سے غسل کرنے پر میں اپنی شکتیاں واپس حاصل کرسکتا تھا..
کون تھی یہ ناگن..
کہاں تھی..