قسط: 2
بابا خامن نے بن ماں باپ بچے کو پالا اور تربیت کی..
سوائے بابا خامن کے میں کسی کو نظر نہیں اتا تھا..
بڑا ہوا تو انھوں بے مجھے اپنی قوتوں کا استعمال سکھایا جو مجھے اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھیں..
میں روپ بدل سکتا تھا, کسی کی بھی شکل اختیار کرسکتا تھا, انسانی شکل میں اسکتا تھا, کسی کے بھی دل, جسم, جسم پر قبضہ کرسکتا تھا, ہوا میں اڑ سکتا تھا ان کے علاوہ بھی میں بے شمار طاقتوں کا مالک تھا..
بابا خامن نے مجھے میری قبیلے کے بارے میں بتایا میرا باپ, میری ماں, میرا خاندان…
میں انسانی روپ میں ان کا بیٹا بن کر ان کے ساتھ رہتا تھا..
میرے ماضی کا ہر ورق انھوں نے میرے سامنے کھول دیا..
میں جوان ہوا تو بابا خامن دنیا سے گزر گئے اور میں بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا..
اپنی زندگی میں بابا خامن نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے قبیلے میں اپنے لوگوں میں چلا جائوں..
مگر میرا وہاں تھا کون جس کے لئے میں وہاں جاتا..
خامن بابا کے گزرنے کے بعد میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا…
انھوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی تھی اور مجھے سگے بیٹوں سے زیادہ محبت اور شفقت دی تھی…
مجھے انسانوں کی سب سے ناپسندیدہ بات یہی لگتی تھی کہ وہ پچاس سو سال بعد مرجاتے تھے…
میرے بچپن کے دوست…
بابا خامن کے ملنے جلنے والے..
کئی لوگ جن سے مجھے انسیت ہوگئی تھی اخرکار وہ بھی مرگئے…
یہ فرعونوں کا دور تھا اور اب تک میرے سامنے کئی فرعون بادشاہت کی گدی پر بیٹھے اور چند برس گزار کر اخرکار فنا ہوگئے…
بابا کے بعد میں مستقل انسانی شکل میں رہتا تھا تاکہ لوگوں میں گھل مل سکوں..
مگر ہر پچاس سو سال بعد مجھے پھر اپنی شکل بدلنی پڑتی تھی تاکہ ان انسانوں کے سوالوں سے بچ سکوں جو میری زندگی کا حصہ بن جاتے تھے…
اس دوران میں نے کئی لڑکیوں سے عشق لڑایا..کئی لڑکیوں کے دل و دماغ پر قبضہ جما کر ان سے اپنی ہوس پوری کی..
مگر میرا حقیقی قد نو فٹ سے بھی زیادہ تھا اور میرا جسم اور سارے اعضاء بھی اسی حساب سے تھے..
میں انسانی شکل میں بھی رہتا تو بھی کوئی لڑکی میری جسمانی قوت، طاقت اور سائز کو برداشت نہیں کرپاتی تھی اور چند بار میں ہی مرجاتی تھی..
اخرکار میں انسانوں سے اور ان کے حسین جسموں سے بیزار ہوگیا اور دنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا…
نیند کی میرے لئے کوئی حیثیت نہیں تھی اور میں اپنی مرضی سے ہفتوں مہینوں سوتا رہتا تھا جاگتا تو مہینوں سالوں جاگتا رہتا تھا..
زمانے گزرتے رہے قبیلے شہر بنے، شہروں نے ترقی کی منزلیں طے کرنی شروع کیں..
وقت گزرتا رہا دنیا میں نت نئی ایجادات ہوتی رہیں اور انسانی مخلوق ترقی کی نئی نئی بلندیاں طے کرتی رہی…
ایک دن میں ملکوں ملکوں گھومتا ہوا ملک نیپال پہنچا..
پہاڑوں اور جنگلوں میں گھرا یہ ملک مجھے بہت پسند ایا اور میں نے یہاں پہاڑوں میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا…
میں نے رہنے کے لئے ایک غار چنا اور اپنی جناتی طاقتوں کی مدد سے اسے تراش خراش کر رہنے کے قابل بنالیا..
میرا دوسرا ٹھکانہ موجودہ کھٹمنڈو کا شہر تھا جہاں ایک وسیع و عریض گھر میری ملکیت تھا…
چیزیں خریدنے کے لئے انسان جو کاغذ کے ٹکڑے استعمال کرتے تھے وہ میں نے ڈھیر سارے جمع کئے ہوئے تھے…کیونکہ نادیدہ رہ کر کہیں پر بھی نقب لگانا میرے لئے بہت اسان تھا..
ایک دن میں شہر میں نکلا ہوا تھا کہ مجھے راستے میں ایک انتہائی حسین و جمیل صورت نظر ائی..
بڑی بڑی گہری جھیل سی انکھیں..
گلاب سے ہونٹ…
ہوا میں لہراتیں دراز زلفیں..
متناسب قد، بھرا بھرا جسم اور اوپری جسم کی دل للچا دینے والی اٹھان..
میں نے اپنے علم کے زور سے جان لیا کہ اس کا نام سحر تھا اور وہ کسی بدھ بھشکو کی بیٹی تھی جو وہیں کے کسی ٹیمپل میں اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی..
اسے دیکھ کر میرے اندر کا حیوان جاگنے لگا..
میں نے رات ہونے کا انتظار کیا اور اس ٹیمپل میں پہنچ کر اڑتا ہوا اس کی کٹیا میں داخل ہوگیا..
وہ بستر پر دراز تھی اور اس کا خوابیدہ حسن میرے جذبات میں طلاطم برپا کر رہا تھا…
اس کے برابر میں کچھ دور موجود دوسرا بستر خالی تھا جو شاید اس کے باپ کا تھا…
میں اس کے قریب پہنچا اور جادوئی الفاظ ادا کر کے اس کے جسم میں داخل ہوکر اس پر مکمل قبضہ کرلیا…
میرا ارادہ اسے اپنے گھر پر لے جانے کا تھا تاکہ اسے مستقل اپنے پاس رکھ سکوں..
کسی انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد ہماری طاقتیں محدود ہوجاتی ہیں…
کیونکہ ہمارا وجود سایہ بن کر انسانی جسم کا حصہ بنتا ہے…
اس لئے اس انسانی جسم کے ساتھ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا یا اس جسم میں رہتے ہوئے بہت سی دوسری طاقتوں کو استعمال کرنا ممکن نہیں رہتا…
میں نے اسے بستر سے اٹھایا اور کٹیا سے باہر جانے کے لئے قدم بڑھائے…
مگر اسی وقت ایک بوڑھا اندر داخل ہوا جس نے گیروئے رنگ کا بدھ بھشکئوں کا مخصوص لباس پہن رکھا تھا اور اس کی انکھیں شعلے اگل رہی تھیں…