جن زاد

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

اس کہانی میں کچھ فحش الفاظ اور واقعات ہیں۔جو ان سب کو پسند نہیں کرتے معزرت کے ساتھ وہ یہ ناول مت پڑھیں😒
تحریر : ارشد احمد
بدکردار..بدمعاش…چھوڑ دے اس کا جسم اور چلا جا یہاں سے..بوڑھے بھشکو نے شعلے اگلتی انکھوں سے چیختے ہوئے کہا..
میں اس لہجے کو سہنے کا عادی نہیں تھا کجا کوئی انسان مجھے گالیاں دے..
میں تن کر بھشکو کے سامنے کھڑا ہوگیا..
تجھ میں ہمت ہے تو چھڑوا لے اس کا جسم بڈھے..
میں تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا..میرے تیور دیکھ کر بھشکو کی اواز اور لہجہ دھیما ہوگیا..
تو اسے چھوڑ دے اور یہاں سے چلا جا بس..
ناں میں اسے چھوڑ رہا ہوں اور ناں تم مجھے میری مرضی کے بناء کچھ کرنے پر مجبور کرسکتے ہو..
میری بات سن کر بوڑھے نے انکھیں بند کیں اور کچھ پڑھنا شروع کردیا..
میں مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتا رہا..
مگر اس بھشکو کو کمزور سمجھنا میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی..
چند لمحے گزرے تھے کہ مجھے یوں محسوس ہوا میرا سانس بند ہورہا ہے اور جسم جیسے ہزاروں من بوجھ تلے دبتا جارہا ہے..
میں نے اپنی طاقتوں کو استعمال کرنا چاہا مگر ناکام رہا..
میں گھبرا کر سحر کے بدن سے باہر نکل ایا اور زمین پر گر گیا..
سحر میرے جسم کے چھوڑتے ہی ہوش میں اگئی تھی اور اب حیرانگی سے مجھے اور اس بھشکو کو دیکھ رہی تھی جو یقینا اس کا باپ تھا..
میں نے دوبارہ کوشش کی سنبھلنے کی اور اپنی طاقتیں استعمال کرنے کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور میرا ذہن اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا..
جانے کتنے گھنٹوں بعد میں ہوش میں ایا تو کھٹمنڈو کے ایک فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے کپڑوں میں پڑا ہوا تھا اور لوگ میرے سامنے بھیک میں سکے پھینکتے ہوئے جارہے تھے..
میں اٹھ کر بیٹھ گیا..
یہ دن کا وقت تھا..
میں گزشتہ رات کے واقعات یاد کرنے لگا..سحر کے پاس جانا اس کے جسم پر قبضہ کرنا اور اسکے بعد اس بھشکو کا مجھے سحر کے جسم سے نکال دینا..
غصے سے میرا خون کنپٹیوں میں ٹھوکریں مارنے لگا..
میں نے نادیدہ ہونے کی کوشش کی مگر مجھے زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا…
میں دوسروں کی نظروں سے اوجھل ہونے پر قادر نہیں تھا..
میں نے اڑنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی ناکام رہا..
ایک ایک کر کے میں نے اپنی ساری طاقتیں ازما لیں مگر میری کسی طاقت کسی جادو نے میرا ساتھ نہیں دیا..
میرا جیسے دل بیٹھنے لگا..
یہ کیا ہوگیا تھا..
اس بھشکو نے میرے ساری طاقتیں چھین لی تھیں اور مجھے ایک عام انسان کے روپ میں سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا تھا..
میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ادھر ادھر بھٹکتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا جہاں نوکرچاکر سے لے کر روپے پیسوں تک دنیا کی ہر اسائش موجود تھی..
میں دروازے پر پہنچا تو مجھے ایک اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا..
دربانوں نے مجھے دھکے دے کر وہاں سے بھگا دیا..
میں چیختا چلاتا انھیں اس گھر کی ملکیت کا یقین دلاتا رہا مگر انھوں نے میری ایک نہیں سنی..
یہ ماننے اور یقین کرنے والی بات نہیں تھی..
میرا حلیہ اور کپڑے لاکھ برے اور خراب ہوتے مگر نوکر اپنے مالک کو پہچاننے سے انکار کیسے کرسکتے ہیں..
یہ گتھی بھی جلد ہی سلجھ گئی..
بازار سے گزرتے ہوئے دکان کے شیشے پر میری نظر پڑی تو مجھے اندازہ ہوا یہ میرا وہ روپ نہیں تھا جو سحر کے جسم میں سمانے سے پہلے میں نے اختیار کیا تھا..
اس کی جگہ ایک خوبصورت مگر مفلوک الحال اور کمزور چہرہ اور جسم میرے سامنے تھا..
وہ بھشکو بہت شکتی شالی تھا اس نے ناں صرف میری ساری طاقتیں چھین لی تھیں بلکہ میرا چہرہ میرا جسم بھی بدل دیا تھا..
اب میں ایک عام انسان تھا..
اور انسانوں کے روپ میں سب انسانی ضروریات میری زندگی کا حصہ بن گئی تھیں..
بھوک سے میری انتوں میں بل پڑ رہے تھے مگر میرے پاس روپے نہیں تھے کہ میں کچھ خرید کر کھا سکوں اپنا حلیہ بہتر کرسکوں…
اس بھشکو نے مجھ سے بھیانک انتقام لیا تھا اور مجھے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا تھا..
میں جتنا سوچتا اتنا ہی میرا خون کھولتا مگر میرے اختیار میں کچھ نہیں تھا..
بھوک سے مجبور ہوکر میں فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ کوئی مجھے بھیک دے تو پیٹ کا جہنم بھر سکوں..
بھوک اور کمزوری سے میرا دماغ مائوف ہورہا تھا..
دوپہر ہورہی تھی جب چند سکے میرے پاس جمع ہوئے..
ابھی میں وہاں سے اٹھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس اکر رکا..
حلیے سے وہ کوئی شریف ادمی نہیں لگ رہا تھا..
کام دھندا کیوں نہیں کرتا کوئی..
شرم نہیں اتی بھیک مانگتے ہوئے..اس ادمی نے مجھے شرمندہ کیا..
مجھے شدید غصہ ایا مگر میں برداشت کر گیا..
کام کوئی مل جائے تو ضرور کروں گا بھائی..میں نے غصے کو دبا کر لجاحت سے کہا..
چل پھر اٹھ..میرے پیچھے اجا..
وہ شخص مجھے سڑک کنارے بنے ہوٹل میں لے گیا اور کھانا کھلایا, ڈھنگ کے کپڑے دلوائے جو میں نے ایک حمام میں نہا کر تبدیل کئے..اسکے بعد وہ موٹر میں بٹھا کر شہر سے باہر ایک مکان میں لے ایا..
مکان ابادی سے بہت ہٹ کر بنا ہوا تھا اور اس مکان میں بس دو جوان مرد عورت تھے شاید میاں بیوی…
اس نےمجھے ان دونوں کے حوالے کیا اور میرا خیال رکھنے کا کہ کر وہاں سے چلا گیا..
جاتے جاتے اس شخص نے مرد کو کچھ روپے بھی نکال کر دئے تھے اور شاید کچھ ہدایات بھی مگر دور ہونے کی وجہ سے میں ان کی باتیں سن نہیں پایا..
مرد کا نام نرمل تھا اور عورت کا بھاتی..نرمل اس شخص کے جانے کے بعد کچھ ضروری سامان لینے کے لئے شہر کی طرف چلا گیا..
عجیب شخص تھا اپنی حسین و جمیل بیوی کو میرے ساتھ جو بالکل اجنبی تھا اکیلا چھوڑ کر چلا گیا تھا مجھے واقعی حیرانگی ہوئی..
بھاتی نے کھلے گلے کی ململ کی قمیض پہنی ہوئی تھی جو اس کے گھٹنوں سے نیچے تک ارہی تھی مگر قمیض کے نیچے شلوار کے بجائے کچھ اور پہنا تھا جو مختصر تھا مگر میں اندازہ نہیں کرپایا..
چلتے ہوئے اس کے نمکین بدن کے جلوے میری دھڑکنوں کو اتھل پتھل کررہے تھے..
بھاتی نے میری محویت نوٹ کرلی..
کیا دیکھ رہا ہے ندیدوں کی طرح..عورت نہیں دیکھی پہلے کبھی..
ہزاروں دیکھی ہے مگر تیرے جیسا نمک پارہ پہلی بار دیکھ رہا ہوں..
کٹاری سے پیٹ پھاڑ دوں گی تیرا کچھ الٹا سیدھا سوچا تو بھاتی نے قمیض ذرا اوپر کی…
اس کی ران کے ساتھ سچ میں ایک چمڑے کا کور بندھا ہوا تھا جس میں کٹاری تھی..
میں نے بھاتی کی انکھوں میں دیکھا..جہاں مسکراہٹ تھی..
تجھے کٹار کی کیا ضرورت ہے بھاتی…
تیری تو نظروں کے تیر ہی کافی ہیں کسی کو بھی گھائل کرنے کے لئے اس پر تیری بجلی جسی مسکراہٹ..
شکل دیکھی ہے تونے اپنی..بھاتی نے نخرہ دکھایا..
عورت کو مرد کی شکل سے کیا لینا دینا..میں نے مسکراتے ہوئے کہا..
میری بات سن کر بھاتی تیر کی طرح میری طرف ائی کٹار اس کے ہاتھ میں اچکی تھی میرے کچھ سوچنے یا کرنے سے پہلے اس کا تیز دھار پھل میری گردن پر ٹک گیا..
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial