قسط: 2
“چہرے پر پڑنے والی روشنی سے اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں زیبا کھڑکی کے آگے سے پردے ہٹا کر کھڑکیاں کھول رہی تھی۔۔۔۔۔اسلام علیکم!!! صبح بخیر دیور جی زیبا اسے اٹھتا دیکھ مسکرا کے بولی”-
“وعلیکم اسلام !! وہ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا رات بھی وہ دیر تک جاگتا رہا تھا اسے نیند ہی نہیں آ رہی تھی فجر کی اذان کے بعد اس کی آنکھ لگی تھی”-
“رات کو کب آئے تم ؟؟؟؟؟ ہم لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں چلا وہ تو ابھی دادا سائیں نے مجھے کہا کہ احمد کو اٹھا کر آؤ دوپہر ہو رہی تب مجھے پتہ چلا میرا اکلوتا دیور آیا ہے زیبا بیڈ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی خوشگوار لہجے میں اس سے پوچھنے لگی “-
” جی بھابھی گیارہ بجے آیا تھا آپ لوگ سونے چلے گئے تھے صرف دادا سائیں سے ہی ملاقت ہوئی تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکتے ہوئے زیبا کو بتانے لگا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی “-
“نیند آئی ٹھیک طرح سے ۔۔۔۔ ایک اور سوال پوچھا گیا “-
“جی… اس نے یک لفظی جواب دیا شاید کم گو تھا “-
“ہممم یہ تو بہت اچھی بات ہے ورنہ جگہ تبدیل ہونے سے انسان پریشان ہو جاتا ہے وہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی ۔۔۔۔ “اچھا چلو تم اٹھ کر جلدی سے تیار ہو کر نیچے آ جاؤ دادا سائیں صبح سے تمھارے اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں تم آ جاؤ تب تک میں تمھارے لیے ناشتہ بناتی ہوں اسے یاد آیا وہ اسے بلانے آئی تھی اسے دیکھ کر باتوں میں مصروف ہو گئی اس سے انسیت ہی اتنی تھی بھائیوں کی طرح عزیز تھا “-
“جی ٹھیک ہے میں آتا ہوں”….. اس کا جواب سن کر زیبا جا چکی تھی”-
“زیبا کے جانے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اپنا فون اٹھا کر نمبر ڈائل کیا پہلی بیل پر کال اٹھا لی گئی تھی ۔۔۔”سنو میں گاؤں آیا ہوا کچھ دن یہیں رہونگا اس نے کال پر موجو انسان کو آگاہ کیا” دوسری طرف سے جواب ملنے پر مزید کوئی بات سنے بغیر وہ کال کاٹ کر فون رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا “-
––––––––––––––––––––––––––– “کیرل کلاس میں بیٹھی بیٹھی اکتاہٹ کا شکار ہو رہی تھی ایک تو آج ماریہ کالج نہیں آئی تھی دوسرا ان کے کالج میں میلاد تھا جس کی وجہ سے باقی کا کالج آڈیٹوریم میں ہونیوالے میلاد میں جا چکا تھا کل ہی چھٹی کے وقت ان کی ٹیچر نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ پرنسپل صاحبہ کے عمرے سے واپسی کی خوشی میں انہوں نے میلاد کی تقریب رکھی ہے شروع کے دو پیریڈ کے بعد میلاد شروع ہوا تھا یہ دونوں پیریڈ فزکس کے تھے کیرل فزکس کے لیکچرز کی وجہ سے ہی کالج آئی تھی ورنہ میلاد کا سن کر وہ چھٹی کر لیتی ۔۔۔۔۔ “چلو کوئی نہیں آج کالج کی ہی سیر کر لی جائے کیرل نے اپنے پیچھے بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھا جو اپنی باتوں میں مصروف تھیں وہ خود سے بڑبڑاتی ہوئی کلاس سے باہر نکل گئی “-
” پورے کالج چھاننے کے بعد اس کا رخ آخری منزل کی طرف تھا کالج کا آڈیٹوریم بھی آخری منزل پر ہی تھا جیسے ہی اس نے آخری منزل پر قدم رکھا اس کے کانوں میں نعتوں کی آواز گونجنے لگی پہلے تو اس نے سوچا واپس لوٹ جائے لیکن پھر سوچا آج پہلی بار مسلم کی مزہبی محفل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے کیو نہ دیکھا جائے ویسے بھی کوئی کام تو ہے نہیں وہ اکیلی بیٹھی بور ہی ہو گی یہی سوچ کر وہ آگے بڑھ گئی “-
” وہ آڈیٹوریم کے باہر کی طرف بنی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی یہاں سے اندر کا منظر بلکل صاف نظر آرہا تھا دو لڑکیاں ہاتھ میں مائیک لیے آڈیٹوریم میں بنے تین فٹ اونچے سٹیج پر بیٹھی نعت پڑھ رہی تھیں باقی لڑکیاں اور ٹیچرز اچھی طرح دوپٹہ سر پر جمائے خاموشی سے فرش پر بچھی قالینوں پر بیٹھی بہت ادب سے نعت سن رہی تھیں کیرل کو یہ منظر بہت اچھا لگا”-
“وہ کمال حسن حضور ہیں
کہ گمان نقص جہاں نہیں٬
“یہی پھول جو خار سے دور ہے
یہ وہ شمع ہے کہ دھواں نہیں ٬
” وہی لامکان کے مکیں ہوئے
سر عرش تخت نشین ہونے،
“وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں
وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں،
“نعت کا ہر ہر شعر اس کے دل کو چھو رہا تھا اس کا دل ہی نہیں کیا جانے وہ محو سی وہیں ٹھر گئی”
“کروں تیرے نام پہ جان فدا
نہ بس اک جاں دو جہاں فدا،
“دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کیا کروں کروڑوں جہاں نہیں”
“نعت کا اختتام ہو چکا تھا سلام پڑھنے کے لیے سب لوگ کھڑے ہو چکے تھے ہاتھ باندھے سر جھکائے حضور صلوۃ واسلام کی بارہ گاہ میں سلام کا نظرانہ پیش کیا جا رہا تھا کیرل کے لیے یہ سب انتہائی حیران کن تھا وہ بھی چرچ جایا کرتی تھی لیکن وہاں اس ادب ،محبت، احترام اور عقیدت کا منظر کبھی نہیں دیکھا وہ لوگ بھی اپنے نبی کو مانتے تھے لیکن ایسی مساوات کبھی نہیں دیکھی استاد سے لیکر شاگرد تک سب سر جھکائے ہاتھ باندھے کھڑے اپنے نبی کو سلام پیش کر رہے تھے سلام ختم ہو چکا تھا دعا شروع ہوئی تو کیرل واپس کلاس میں آگی لیکن اپنا دل وہیں چھوڑ آئی “-
–––––––––––––––––––––––––––
“وہ تیار ہوکر نیچے آیا دادا سائیں اور اس کے بابا سجاول ملک اپنی باتوں میں مصروف تھے ماں بیگم ان سے کچھ دور تخت پر بیٹھیں دلاور کی چند ماہ کی بیٹی کی مالش کر رہیں تھی وہ بھی ان لوگوں کے پاس آگیا “-
“اسلام و علیکم!!!! اس نے بلند آواز میں سلام کیا اس آواز پر ماں سائیں اور بابا سائیں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔وہ چلتا ہوا دادا سائیں کے پاس آ کر بیٹھ دادا سائیں نے مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جبکہ بابا سائیں اور ماں بیگم کی آنکھوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی وہ واضح دیکھ رہا تھا”-
“تم کب آئے ؟؟؟سجاول ملک نے اس سے پوچھا جبکہ تھوری دور بیٹھی ماں بیگم کن انکھیوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں “-
” رات کو۔۔۔۔ اس نے بھی ٹکا سا جواب دیا”-
“یہ تمھارے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر ہے کہ نہیں ؟؟؟؟ جب دل کرتا ہے منہ اٹھا کر چلے آتے ہو جب دل بھر جاتا ہے بنا بتائے چلے جاتے ہو یہ ہمارا گھر ہے کوئی سرائے نہیں سجاول ملک اس پر چڑھ دوڑے “-
” سجاول یہ کیا طریقہ ہے بچہ اتنے دنوں بعد گھر آیا ہے بجائے اسے سینے سے لگانے کہ تم ہو کہ اس پر غصہ کر رہے ہو تم کیوں بھول جاتے ہو یہ بھی تمھاری ہی اولاد ہے اس گھر کا وارث ہے دادا سائیں کو سجاول ملک کی باتیں بہت بری لگیں تھیں”-
” تو نہ آیا کرے نہ بابا سائیں ہم کونسا اسے بلانے جاتے ہیں اور رہی بات بھولنے کی تو ہاں ہم بھول چکے ہیں اسے نالائق اولاد کو جو باپ کے منہ پر لات مار کر گئی ہو ہم نے نہیں بھگایا تھا ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر ان کا غصہ اسی طرح ابل جایا کرتا تھا عجیب باپ بیٹے تھے “-
“بس کرو سجاول چپ ہو جاؤ دادا سائیں غصے سے بولے “-
“رہنے دیں دادا سائیں نکالنے دیں انہیں اپنے دل کا غبار۔۔۔۔ مجھے ذلیل کر کے ہی انہیں سکون اور خوشی ملتی ہے شاید بچپن سے یہی تو کرتے آئے ہیں اسے بھی غصہ آیا باپ کے طنز پر۔۔۔میں ہی چلا جاتا ہوں جب تک سامنے رہوں گا ان کی نظروں میں چبھتا رہوں گا وہ اٹھ باہر نکل گیا۔۔۔احمد !!!! رکو دادا سائیں اسے آوازیں ہی دیتے رہ گئے”-
“اب تو سکون مل گیا ہوگا تمھیں شمشیر ملک سجاول ملک کو گھور کر بولے “-
” بابا سائیں آپ کو نظر نہیں آتی اس کی بدتمیزیاں کیسے باپ کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے سجاول ملک تو بلبلا اٹھے تھے”-
“سب نظر آرہا ہے ہمیں اس کی بدتمیزیاں بھی اور تمھاری بھی اگر وہ بدتمیزی کر رہا تھا تو تمھارے منہ سے بھی کوئی پھول نہیں جھڑ رہے تھے اور ویسے بھی شروعات ہمیشہ تم ہی کرتے ہو وہ بھی تمھاری اولاد ہے آگے سے دوبدو جواب دینے میں ماہر بچے والدین سے ہی سیکھتے ہیں اس نے بھی تم سے سیکھی ہے زبان درازی اگر تمھیں یاد ہو تو ۔۔۔۔ باپ کی بات پر سجاول ملک کے چہرے کا رنگ فق ہوا ۔۔۔۔”اب ہمارے سامنے زیادے بچارے بننے کی ضرورت نہیں ہے وہ شمشیر ملک ان کے اترے چہرے کو دیکھ کر بولے پھر اٹھ کر چلے گئے “-
” آج تک صرف سنا ہی تھا آج دیکھ بھی لیا ” اصل سے زیادہ سود پیارا ” سجاول منہ ہی منہ بڑبڑا کر رہ گئے”-
” ماں یہ احمد کہا گیا؟؟ زیبا اس کے لیے ناشتہ بنا کر لائی مگر وہاں کسی کو موجود نہ پا کر ماں بیگم سے پوچھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ دادا سائیں کے ساتھ بیٹھا ہوا دکھائی دیا تھا “-
“پوچھ تو تم ایسے رہی ہو جیسے مجھے بتا کر جاتا ہے ارے مجھے کیا پتہ کہاں گیا ماں بیگم جو کب سے احمد کی زبان درازی چپ چاپ سن رہی تھیں زیبا کے پوچھنے پر تپ گئیں انہیں سخت غصہ آ رہا تھا لیکن صرف سسر کی موجودگی کے باعث خاموش تھیں ورنہ اچھا خاصا سناتیں احمد کو زیبا نے پوچھ کر انجانے میں ہی سہی لیکن جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر دیا تھا “-
“یہ کیا تم دیور کے پیچھے ماسی بنی پھرتی ہو ماں بیگم اس کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے دیکھ کر بولی ان سے کہاں برداشت ہوتا تھا کوئی احمد کا خیال رکھے ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی اولاد دیکھی نہیں جاتی دیور کی ماں بننے چلی ہیں لو پکڑو اسے فرزانہ بیگم بچی کو اس کی گود میں تھماتی منہ ہی منہ احمد کو برا بھلا کہتی آگے بڑھ گئیں زیبا ہکا بکا سی انہیں جاتا دیکھتی رہ گئی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” احمد روکو دلاور اسے جلد بازی میں گھر سے باہر کی جانب جاتا ہوا دیکھ اس کے راستے میں حائل ہوا “-
“تم کب آئے ؟ اور اتنے غصے میں کہاں جارہے ہو دلاور نے اس کے تنے نقوش دیکھ کر پوچھا”
“اب کیا اس گھر کے ایک ایک فرد کو الگ سے بتانا پڑے گا کہ ملک احتشام احمد نے اپنے باپ کے گھر میں آنے کا پاپ کر لیا ہے وہ جو پہلے سے ہی باپ سے ذلالت پر بھڑکا ہوا تھا دلاور کے پوچھنے پر تنک گیا”-
“کیاں ہو گیا ؟ مجھ پر کیوں برس رہے ہو ۔۔۔۔ دلاور کا منہ بھی بگڑا تھا آخر کو وہ بھی سجاول ملک کا ہی بیٹا تھا برداشت نام کے کیڑے ان باپ بیٹوں میں نا پید تھے شاید”-
“روکو احمد !!!! دلاور نے اسے آگے بڑھتا دیکھ کر آواز دی۔۔۔۔ “احتشام اس سے الجھنا نہیں چاہتا تھا اسی لیے خاموشی سے جانے لگا تھا دلاور کی آواز پر اس کے بڑھتے قدم روکے تھے احتشام نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس کی طرف رخ کیا”-
” کہاں جا رہے ہو ؟؟؟ ۔۔۔۔ اس کے سوال پر احتشام نے اسے جن نظروں سے دیکھا تھا دلاور نے فوری طور پر جملے کی تصیح کرنی پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔ “میرا مطلب ہے ہسپتال کا کام ہی دیکھو لو تم کیا اور کیسے بنوانا چاہتے ہو مزدوروں کو خود ہی سمجھا دو ۔۔۔۔اب جب تم آئے ہی گئے ہو تو دلاور اس کی موجودگی پر زور دیتے ہوئے بولا اب جب وہ آ ہی گیا تھا تو بہتر تھا کہ وہ اپنے مسئلے خود ہی حل کرے ۔۔۔۔۔ “ویسے بھی تمھارا جانا ضروری ہے مزودر مزید رقم کا تقاضا کر رہے ہیں تم دیکھ لو کیا کرنا ہے احمد کو خاموش دیکھ کر دلاور مزید بتانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دلاور نے اس کا کام اس کے سر ڈالنا ہی مناسب سمجھا ورنہ اسے اپنی جیب سے رقم دینی پڑ سکتی تھی جو وہ کسی صورت نہیں دینا چاہتا تھا ویسے بھی وہ صرف دادا سائیں کے زور دینے پر ہی کام کر وا رہا تھا ورنہ اسے دوسروں کے کاموں میں زرا دل چسپی نہیں تھی پھر چاہے وہ سامنے کھڑا اس کا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو”-
” کتنی رقم کی ضرورت ہے ؟؟؟؟ احتشام نے پوچھا “-
“مجھے ٹھیک طرح نہیں معلوم میں نے سوچا تم سے بات کر کے پھر ٹھیکیدار سے پوچھوں گا۔۔۔۔۔”
“ٹھیک ہے میں خود ہی جا کر دیکھ لیتا ہوں ۔۔۔۔۔ “دلاور کے لاعلمی ظاہر کرنے پر وہ ڈسپینسری کی جانب بڑھ گیا”-
–––––––––––––––––––––––––––
“ماریہ بیٹا احتشام گھر آیا ؟؟ عاتکہ بیگم ماریہ سے پوچھنے لگی وہ ابھی ابھی سو کر اٹھیں تھی ماریہ ان کے لیے ناشتہ لے کر آئی تھی رات بھی ان لوگوں ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھایا تھا احتشام کے جانے کے بعد ماریہ نے ان کے کہنے پر کئی بار احتشام کو فون بھی کیا تھا مگر اس نے کال ریسیو کرنے کے بجائے الٹا فون ہی بند کر دیا پریشانی کے باعث وہ دیر رات تک اس کا انتظار کرتی رہی تھیں مجبوراً ماریہ کو انہیں نیند کی گولی دے کر سلانا پڑا تھا اب اٹھتے ساتھ ہی سب سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے کا پوچھا تھا “-
“نہیں امی بھائی گھر نہیں آئے ۔۔ لیکن آپ پریشان نہیں ہوں بھائی نے تھوڑی دیر پہلے فون کر کے اطلاع دی ہے وہ گاؤں چلے گئے ہیں کچھ دن وہی رہنا چاہتے ہیں ماریہ نے انہیں پریشان دیکھ تفصیل سے بتایا “-
” شکر ہے میرے مالک انہوں ہاتھ اٹھا کر بے اختیار شکر ادا کیا ان کی جان میں جان آئی یہ جان کر کہ وہ ٹھیک ہے …. ماریہ تم کالج نہیں گئی بیٹا ؟ انہیں یاد آیا ماریہ نے کل انہیں بتایا تھا کہ اس کے کالج میں میلاد ہے وہ بہت خوش تھی جانے کے لیے خوشی کی ایک وجہ کیرل بھی تھی جو اتنے دنوں بعد آئی تھی وہ ان دونوں کی دوستی سے با خوبی واقف تھیں “-
“نہیں امی بھیا کو لے کر آپ کی جو حالت تھی میرا دل نہیں کیا آپ کو چھوڑ کر جانے کا بھیا بھی فون نہیں اٹھا رہے تھے مجھے ان کی طرف سے بھی ٹینشن ہو رہی تھی بس اسی وجہ سے میرا دل ہی نہیں کیا جانے کا ماریہ نے ان کی طرف دیکھ کر جواب دیا عاتکہ اسے ہی دیکھ رہی تھیں اس کے جواب پر انکے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی کہنے کو تو وہ سب سے چھوٹی تھی لیکن عاتکہ جانتی تھیں وہ اس گھر کے ہر فرد سے کتنی محبت کرتی تھی انہوں نے آگے بڑھ کر ماریہ کو سینے سے لگایا “-
“امی ناشتہ کر لیں ماریہ نے ان سے الگ ہو کر کھانے کی ٹرے ان کے آگے کھسکائی ۔۔۔۔ ” تم نے کچھ کھایا ؟؟؟ عاتکہ نے پو چھا تو اس نے انکار میں گردن ہلائی وہ بھی کچھ دیر پہلے ہی تو اٹھی تھی ….” ہممم چلو منہ کھولو دونوں ماں بیٹی ساتھ ناشتہ کرتے انہوں نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھا ماریہ مسکرا کر کھانے لگیں”-
–––––––––––––––––––––––––––
” کیرل !!!! وہ دروازے پر دستک دینے کے بعد کمرے میں داخل ہوئیں پورے کمرے میں اندھیرا کیے وہ کروٹ لیے بیڈ پر لیٹی ہوئی نظر آئی ولما نے کمرے کی لائٹس جلائی روشنی آنکھوں پر پڑنے کے باعث وہ اٹھ کر بیٹھ گئی “-
” کیرل؟؟؟؟؟ ڈارلنگ تم آج لنچ کرنے نہیں آئی مجھے پریشانی ہوئی تو دیکھنے چلی آئی ۔۔۔۔۔ ولما اس کے پاس آ کر دیکھنے لگیں وہ جب سے کالج آئی تھی اپنے کمرے میں بند تھی اب تو رات کے سائے لہرانے لگے تھے ولما کو تشویش ہوئی تو خود ہی دیکھنے چلی آئیں “-
“میں سو گئی تھی آنٹی۔۔۔۔۔ کیرل نے ان سے جھوٹ بولا حالانکہ وہ بلکل بھی سوئی نہیں تھی لیکن کالج میں ہونے والی مسلم کی مذہبی محفل دیکھنے والی بات وہ ولما آنٹی کو نہیں بتا سکتی تھی یہ بات سن کر ولما سخت خفا ہو جاتیں اور تو اور اس کے دیڈ کو بھی ضرور بتا دیتیں یہ کوئی عام بات تو تھی نہیں جو مسٹر انتھونی ( کیرل کے والد) فراموش کر دیتے وہ تو سیدھا کیرل کو اپنے پاس بلا لیتے بنا کوئی وضاحت سنے “-
” کیوں ڈارلنگ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ؟؟؟؟ ولما اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی دیکھنے لگی کہ کہیں اسے بخار تو نہیں موسم تبدیل ہو رہا تھا انہیں فکر ہوئی وہ دوپہر کو نہیں سوتی تھی “-
” میں بلکل ٹھیک ہوں آنٹی۔۔۔۔ کیرل نے مسکرا کر ان کا ہاتھ تھام کر اپنے پاس بٹھا لیا اور خود ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی “-
“اداس ہے کیا میری بیٹی ؟؟؟ ولما اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی پوچھنے لگی “-
“آنٹی اگر انسان کو کوئی چیز بے چین کرے تو کیا کرنا چاہیے ؟؟؟ ۔۔ نا جانے اس کے ذہن میں اچانک سے یہ سوال کہاں سے نمودار ہوا تھا “-
“انسان کو جو چیز بے چین کرے اس سے دور ہو جانا چاہیے ۔۔۔۔ تمھیں کس چیز نے بے چین کیا ہے کیرل ؟؟؟ ۔۔۔۔۔جواب دینے کے بعد وہ الٹا اس سے پوچھنے لگیں ایسی کون سی بات تھی جس کی وجہ سے وہ بے چین ہو رہی تھی بے شک وہ کیرل کی ماں نہیں تھیں لیکن اس کی خالہ تو تھیں وہ کیرل سے بہت محبت کرتی تھیں انہوں نے کبھی بھی اسے ایلسا ( کیرل کی ماں ) کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی وہ اسے اپنی اولاد کی طرح ہی عزیز رکھتی تھیں “-
” نہیں آنٹی مجھے کسی چیز نے بے چین نہیں کیا میں نے تو بس ایسے پوچھ لیا آپ سے کیرل ان کی گود سے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھتی ہوئی بولی ولما اسے ہی دیکھ رہی تھیں “-
“آنٹی بہت بھوک لگی ہے وہ بچوں کی طرح ہونٹ باہر نکال کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بیچاری سی شکل کر بنا کر بولی کیرل نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ۔۔۔۔۔ آپ نے کیا بنایا ہے آج کھانے میں ؟؟؟ کیرل نے ان سے پوچھا”-
“ویجیٹیبل رائس بنائے تھے میں نے تو آج ولما بتا کر اسے غور سے دیکھنے لگیں کیوں کہ کیرل کو سبزیاں نہیں پسند تھیں “-
“مجھے نہیں کھانا ولما کے بتانے پر اس نے ناک منہ سکوڑا ۔۔۔۔کیا کھانا چاہتی ہو پھر تم ؟؟ ولما نے اس کے چہرے پر پیار کر کے پوچھا ۔۔۔۔ “چکن وائٹ سوس پاستہ ” کیرل نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جلدی سے فرمائش کی اس کے چہرے کے عجیب و غریب زاویوں پر ولما مسکرانے لگیں “-
“اوکے ڈارلنگ میں بنا دیتی ہوں تم منہ ہاتھ دھوکر آ جاؤ ولما بیڈ سے اٹھتی ہوئی اس کا گال تھپتھپا کر اسے ہدایت دیتی باہر چلی گئیں”-
” آنٹی ٹھیک کہتی ہیں میں نے بلا وجہ ہی مسلم کے فنکشن میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے لی ہے ۔۔۔۔۔ کیا ضرورت ہے مجھے خود کو بے چین کرنے کی وہ خود سے بڑبڑانے لگی پھر سر جھٹک کر باتھ روم میں گھس گئی “-