حصار عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

“احمد اپنی زمینوں پر آیا تھا شمشیر ملک نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کر دی تھی احتشام احمد اپنے حصے کی زمین کا ایک بڑا حصہ گاؤں میں ہسپتال بنانے کے لیے وقف کر دیا تھا”-
“وہ ہسپتال کی جگہ دیکھ کر بہت حیران ہوا وہاں تعمیراتی کام ابھی تک شروع نہیں ہوا تھا اسے شدید افسوس ہوا احمد کو بلکل اندازہ نہیں تھا کہ دلاور اس قدر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرے گا اس نے تو دادا سائیں کو بولا تھا انہوں نے یہ کام دلاور کے ذمے سونپ دیا تھا اب اس عمر وہ کہاں اتنی دیکھ بھال کر سکتے تھے احتشام کا کاروبار ابھی نیا نیا تھا وہ چاہ کر بھی خود نگرانی نہیں کر پا رہا تھا اب بھی وہ دو ماہ بعد گاؤں آیا تھا ۔۔۔ کچھ دیر زمین کا معائنہ کرنے کے بعد اس نے فون نکال کر نمبر ڈائل کیا ۔۔۔۔۔ مجھے ٹھیکیدار کا نمبر بھیجنا کال ریسیو ہوتے ہی وہ بول اٹھا فون کے دوسرے جانب دلاور تھا اس نے بول کر فون کاٹ دیا چند ہی سیکنڈ میں دلاور نے نمبر سینڈ کر دیا تھا اس نے کال کر کے ٹھیکیدار کو بلایا “-
” سلام سائیں !!! کچھ ہی دیر میں ٹھیکیدار وہاں آتا دکھائی دیا اس نے کچھ دور سے ہی احتشام کو سلام کیا اس نے زیر لب جواب دیا ۔۔۔۔ سائیں خیریت آج آپ نے یاد کیا ؟؟؟ غلام محمد ( ٹھیکیدار) کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی احتشام کے بلانے پر “-
“جی چاچا آپ نے ابھی تک کام کیوں شروع نہیں کروایا ؟؟ احتشام ادھر ادھر کی بات میں وقت ضائع کرنےکے بجائے سیدھا مدعے پر آیا “-
“سائیں آپ ابھی کہو میں ابھی کام شروع کروا دیتا ہوں وہ تو فوری طور پر کام شروع کرنے کے لیے تیار تھے ۔۔۔۔۔” میں نے تو دلاور سائیں کو بھی کئی بار بولا وہ کہتے آپ سے مشورہ کر کے بتائیں گے غلام محمد نے اس تفصیل سے ساری بات بتائی”-
“کتنی رقم کی ضرورت ہے؟؟؟ احتشام بنا کسی چوں چرا کے پوچھنے لگا وہ مزید ٹال مٹول نہیں چاہتا تھا ….. ٹھیک ہے میں آپ کو کل رقم ادا کر دونگا بس آپ مزدوروں کو بلا کر کام آج ہی شروع کروائیے میں مزید تاخیر نہیں چاہتا وہ ٹھیکیدار کے بتانے پر رقم کل تک دینے کا کہہ کر کام شروع کرنے کا بولا جتنی رقم کی ضرورت تھی فلحال وہ اس کے پاس موجود نہیں تھی شہر سے منگانی تھی ۔۔۔۔۔میری زبان پر بھروسہ نہیں ہے؟؟؟ آپ کو ٹھیکیدار کو اپنی جانب تکتا دیکھ کر اس نے آنکھ اچکا کر پوچھا “-
“نہیں نہیں سائیں ایسی بات نہیں میں تو بس ۔۔۔۔۔غلام محمد شرمندہ سے ہو گئے وہ تو غور سے احتشام کا چہرہ دیکھ رہے تھے وہ اسے بچپن سے ہی جانتے تھے کتنا خوش مزاج انسان تھا وہ بس اس ایک حادثے نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا اس حادثے کے بعد سے انہوں نے کبھی اسے مسکراتے نہیں دیکھا تھا اب وہ جب بھی احمد کو دیکھتے تھے انہیں اس پر بے تحاشا ترس آتا تھا یہ عمر تو نہ تھی اس کی اداسیوں کے سحر میں جکڑے رہنے کی “-
” آئیے چاچا میں آپ کو بتاتا ہو آپ یہاں سے کام شروع کروائیے اس کی آواز پر وہ اپنے خیالوں کو جھٹک کر اس کے ہمراہ ہوئے “-
–––––––––––––––––––––––––––
” وہ اس وقت اپنے کیبن میں بیٹھے کام میں مصروف تھے دروازہ پر آہستہ سے دستک دے کر انوار علی ان کے کیبن میں داخل ہوئے اور ان کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے مبشر حسین اپنے کام میں اتنے مصروف تھے کے انہیں انوار علی کے آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی “-
“اہمہم انوار علی نے گلا کھنکار کر مبشر حسین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی “-
“ارے انوار بھائی آپ یہاں ؟؟؟ کوئی کام تھا مبشر صاحب کو لگا شاید وہ کوئی فائل لینے آئیں ہوں انوار علی رشتے اور عمر کے ساتھ ساتھ اس آفس میں بھی عہدے میں ان سے بڑے تھے “-
” نہیں دفتر کے حوالے سے مجھے تم سے کوئی کام نہیں ہے انوار علی پیپر ویٹ گھوماتے ہوئے آرام سے بولے “-
” پھر ؟؟؟ مبشر حسین کو بلا وجہ کام کے وقت ان کا آنا سمجھ نہیں آیا “-
” مبشر انجان بننے سے کیا ہوگا ۔۔۔۔انہیں مبشر حسین کے انجان بننے کا انداز ایک آنکھ نہ بھایا تھا جبکہ مبشر صاحب ان کی بات پر آنکھیں چرا گئے تھے ۔۔۔۔۔ تم نے بات کی احتشام سے ؟؟؟ بلا آخر وہ سیدھے کام کی بات پر آئے تھے”-
” جی بھائی صاحب رات کو بات کرنے کی تھی میں نے احتشام سے ۔۔۔۔مبشر صاحب نے بات اُدھوری چھوڑ دی”-
“کیا جواب دیا پھر اس نے ؟؟؟ انوار علی جواب سنے کے لیے بے چین تھے “-
” بھائی صاحب آپ سے کچھ بھی چھپا ہوا تو نہیں ہے وہ سر جھکا کر بولے “-
” بات کیا ہوئی تمھاری اس سے کیا جواب دیا اس نے ؟؟؟؟ سیدھی طرح بتاؤ بات گھما پھرا کر بات مت کرو وہ برہم ہوئے “-
“مبشر صاحب نے رات والا سارا واقعہ تفصیل سے ان کے گوش گزارا وہ جیسے جیسے بتا رہے تھے انوار علی کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا “-
“یعنی صاف لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ تمھارے بیٹے نے انکار کر دیا ہے ان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری “-
“بھائی صاحب وہ میرا بیٹا نہیں ہے ان کے طنز کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ گئے تھے “-
” سگا نہ سہی سوتیلا ہی سہی ہے تو تمھارا بیٹا ہی نہ ۔۔۔۔ “دیکھو مبشر تم اچھی طرح جانتے ہو رائقہ مجھے کتنی عزیز ہے میں اپنی بیٹی کی آنکھوں میں آنسوں نہیں دیکھ سکتا اور اگر تم تحمل سے سوچو تو ان سب میں تمھارا فائدہ سب سے زیادہ ہے تمھارا اپنا تو کوئی بیٹا ہے نہیں بیٹیوں کو بیاہ دوگے تو بڑھاپے میں اکیلے رہ جاؤ گے بڑا مشکل ہو جائے گا بڑھاپا گزارنا ہاں البتہ اگر تم رائقہ کی شادی احتشام سے کروا دوگے تو وہ تو تمھاری بھانجی ہے تمھاری آپا کی بیٹی تمھارا اپنا خون ہمیشہ تمھارے ساتھ ہی رہے گی بیوی کی وجہ سے شوہر کو بھی رہنا پڑتا ہے احتشام خود ہی مجبور ہو جائے گا تمھارے ساتھ رہنے پر اس کا سگا باپ تو ویسے بھی اسے پوچھتا تک نہیں ہے یہ اچھا موقع ہے تمھارے پاس اپنا نمبر بڑھانے کا۔۔۔۔” میری بات مانو احتشام کو آرام سے سمجھاؤ نہیں مانتا تو زور ڈالو اس پر ورنہ انجام کے زمدار تم خود ہو گے وہ بولتے بولتے آخر میں تلخ ہو گئے ان کی آنکھوں میں دھمکی واضح دکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔مجھے یقین ہے اگلی بار تم مجھ مایوس نہیں کروگے انوار علی کھڑے ہو کر ان کے گندھے سے نظر نہ آنے والی دھول جھاڑتے ہوئے مسکرا کر بولے جبکہ مبشر صاحب ان کی بات سمجھتے ہوئے مسکرا بھی نہیں سکے “-
“انوار علی خود تو جا چکے تھے مگر ان کا سکون غارت کر چکے تھے رات والی تلخی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے مزید الجھن میں ڈال دیا تھا آج دفتر میں کام بھی زیادہ تھا لیکن ان کا دل ہر چیز سے اُچاٹ ہو گیا سر درد سے شدید پھٹنے لگا تھا وہ فائل بند کر کے کرسی پر سر گرا گئے “-
–––––––––––––––––––––––––––
” وہ بارہ بجے کا گھر سے نکلا ہوا تھا اب شام ڈھلنے لگی تھی مغرب کا وقت ہونے والا تھا اس کی محنت اور دیکھ بھال کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ مزدوروں نے آج ہی کام شروع کر دیا تھا اس نے خود بھی مزدوروں کے ساتھ کام کروایا تھا اسے بہت جلدی تھی ہسپتال بنوانے کی۔۔۔۔۔۔” وہ شدید تھک چکا تھا بھوک سے برا حال ہو رہا تھا صبح بھی بابا سائیں سے بحث کی وجہ سے وہ ناشتہ کیے بنا ہی نکل آیا تھا ……
” ٹھیک ہے سائیں اب چلتا ہوں غلام محمد چاچا نے اس کے پاس گزرتے ہوئے کہا باقی مزدوروں بھی جارہے تھے ۔۔۔۔۔
” ٹھیک ہے چاچا بس آپ سے ایک گزارش ہے کل جلدی کام شروع کروادینا ۔۔۔ اس کی بات پر وہ سر ہلا کر وہ چل دیے “-
“احمد !!! وہ گھر جا رہا تھا جب کسی نے پیچھے سے اسے آواز دی اس نے مڑ کر دیکھا اس کا بچپن کا دوست شہرام مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا “-
” شہرام تم یہاں کیسے ؟؟؟ احتشام آگے بڑھ کر اس سے ملتے ہوئے پوچھنے لگا وہ شہر میں رہنے لگا تھا “-
“بس یار کیا بتاوں لمبی کہانی بیٹھ کر سناوں گا چل آ جا شہرام اس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھر میں لے جانے لگا “-
” نہیں یار شہری میں پھر کبھی آونگا یار ابھی بہت تھکا ہوا ہوں احتشام نے انکار کیا “-
” بس بس رہنے دے مجھے پتہ ہے تیرا کوئی بعد نہیں آتا شہرام نے اسے گھورا۔۔۔ میں کچھ نہیں سنوں گا احتشام کو لب کھولتا دیکھ کر شہرام نے اسے ٹوکا ۔۔۔۔ “چل اندر شہرام نے اسے اپنے ساتھ گھسیٹا احتشام بے دلی سے اس کے ساتھ چل دیا جانتا وہ ایک نہیں سنے گا اس کا دوست اس کی طرح ہی ضدی تھا”-
–––––––––––––––––––––––––––
“وہ کب سے جلے بلی کے پیروں کی طرح یہاں وہاں چکر کاٹتے کال کرنے کی کوشش کر رہی تھی بیل جارہی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا اس نے ہاتھ میں پکڑے موبائل کو گھورا جیسے سارا قصور ہی اس کا ہو ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اس نے آخری بار نمبر ملایا لیکن اس کی توقع کے بر خلاف اس نے کال ریسیو کر لی تھی کال ریسو ہوتے ہی وہ فورا بول پڑی “-
“ہیلو !!! اسلام و علیکم کیسے ربیان ہو ؟؟؟
” کیوں فون کیا ہے تم نے ؟؟؟ فون کی دوسری طرف موجود ربیان سلام کا جواب دینے کے بجائے الٹا اس سے کال کرنے کی وجہ پوچھنے لگا “-
” ربیان تم ایسے بات کیوں کر رہے ہو مجھ سے پہلے تو تم خود روزانہ مجھے فون کیا کرتے تھے اور اب خود کال کرنا تو دور کی بات تم میرا فون بھی ریسیو نہیں کرتے بولتے بولتے ثوبیہ کی آواز رندھا گئی “-
” دیکھو ثوبیہ اگر تمھیں کوئی ضروری بات کرنی ہے تو بولو میرے پاس فضول باتوں کے لیے وقت نہیں ہے مصروف ہوتا ہوں میں تمھاری طرح فارغ نہیں ہوں ربیان تلخ ہوا “-
” تمھیں میری باتیں فضول لگ رہی ہیں ؟؟؟ ثوبیہ کو اس کی بے رخی پر رونا آنے لگا “-
“ہاں تو فضول بات ہی کر رہی ہو تمھیں کیا لگتا ہے یہ گپے مارنا کوئی کام ہے ؟؟؟ میرا دماغ خراب نہ کرو وہ اس کے رونے پر تنک کر کھٹاک سے فون بند کر گیا “-
” وہ فون کو گھورنے لگی اسے ربیان کا رویہ سمجھ نہیں آ رہا تھا ان دونوں کا بچپن کا رشتہ تھا وہ منگیتر تھا ثوبیہ کا اس نے کبھی ایسا رویہ اختیار نہیں کیا تھا پھر اب کیا ہو گیا تھا اسے ؟؟؟ یہ سوچ سوچ کر ثوبیہ کے آنسوؤں میں مزید روانی آ گئ وہ وہیں فرش پر بیٹھتی گٹھنوں پر سر رکھ کر رونے لگی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” وہ کمرے میں داخل ہوا لائٹس اون کی صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتار کر دونوں ہاتھ صوفے پر پھیلاتے ہوے سر گرا کر آنکھیں موند گیا وہ شدید تھک چکا تھا کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا کھانا وہ شہری کے ساتھ اس کے گھر سے ہی کھا کر آیا تھا اب نہا کر سونا چاہتا تھا وہ اٹھ کر باتھروم میں گھسا تقریبا بیس منٹ شاور لینے کے بعد وہ باہر نکلا بال بنائے بیڈ پر آگیا وہ لیٹنے ہی لگا جب اس کی نظر بیڈ کے بلکل سامنے بنی بڑی کھڑکی کی طرف نظر گئی وہ کھڑی ہمیشہ بند اور پردوں سے ڈھکی رہتی تھی آج کیسے کھلی ہوئی تھی ؟؟؟ احتشام کھرکی بند کرنے کے لیے اٹھا ۔۔۔ کھڑکی بند کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس کی نظر گھر کے پچھلے حصے میں پڑ گئ اس کھڑکی سے گھر کا پچھلا حصہ بلکل صاف دکھائی دیتا تھا احتشام کے چہرے پر سائے لہرانے لگے وہ ماضی میں کھو گیا “-
” ماضی “
” گھر پچھلے حصے میں بنائے گئے اسٹیج پر ایک دلہا چہرے پر مسکراہٹ سجائے پوری آن بان سے اپنی دلہن کا انتظار کر رہا تھا آج خوشی اس کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔ دلہن لڑکیوں کے ساتھ سہج سہج کر چلتی آ رہی تھی وہ اپنی متاع جان اپنی زندگی اپنی بیوی کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ بڑھایا جسے اس کی دلہن نے فورا تھام لیا دلہن کے ہاتھ تھامتے ہی ہوٹنگ شروع ہو گئ ۔۔۔۔۔اچانک کہیں سے ایک گولی دلہن کے سینے آ کر لگی خون کے چھینٹے دلہے کے خوبصورت چہرے کو داغ دار کر گئے چند ہی لمحوں میں ہوٹنگ کی جگہ آہ پکار نے لے لی “-
” نہیں !!! نہیں احتشام نے چیختے ہوئے آنکھیں کھول دیں اس کا تنفس بری طرح اکھڑا چکا تھا نہیں !!!! وہ کان پر ہاتھ رکھ کر چیختا ہوا فرش پر گٹھنوں کے بل گرا تھا اس وقت وہ اٹھائیس سالہ خوبصورت مرد بلک بلک کر روتے ہوئے کوئی پاگل دیوانہ لگ رہا تھا اگر اس وقت کوئی کمزور دل انسان اس کی حالت دیکھ لیتا تو شاید خود بھی رو پڑتا “-
“احمد !!! دادا سائیں اس کے چیخنے کی آواز سن کر آئے تھے وہ کانوں پر ہاتھ رکھے دیوار سے لگا گٹھنوں کے بل فرش پر بیٹھا ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا احمد کو اس طرح روتا دیکھ ان کے حواس سلب ہوگئے کھڑکی پر نظر پڑتے انہیں سارا معاملہ سمجھ آ گیا انہوں نے آ گے بڑھ کر اسے گلے لگایا وہ کسی چھوٹے ڈرے سہمے بچے کی طرح ان سے لپٹ گیا “-
“احمد میرے بیٹے چپ ہو جاؤ!!! احتشام کی پیٹھ تھپکتے وہ اسے سہارا دے کر خود سے لگائے بیڈ پر لے آئے “-
” دادا سائیں مجھے چھوڑ کر مت جائیں احتشام نے انہیں جاتا دیکھ کر ان کا ہاتھ تھاما “-
“ہم یہیں ہیں تمھارے پاس تم پریشان مت ہو دادا سائیں اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولے “-
“شاہد !!! شاہد شمشیر ملک نے کمرے کے باہر سے اپنے ملازم کو آواز دی “-
” جی سائیں !!! ملازم بھاگتا ہوا آیا “-
” ہمارے کمرے میں پلنگ کے برابر والی میز پر دوا کی شیشی رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔۔۔۔ ان کی بات سن کر ملازم سر ہلاتا ہوا ان کے کمرے سے دوا لے آیا ملازم کے واپس آنے تک وہ وہیں کھڑے رہے وہ نہیں چاہتے تھے کوئی ان کے پوتے کو اس حال میں دیکھے اس کا تماشا بنے آخر کو وہ مرد تھا اور مرد رویا نہیں کرتے “-
” انہوں نے احتشام کو نیند کی گولی دے کر سلا دیا تھا وہ نیند میں بھی ڈرا سہما ہوا لگ رہا تھا شمیشیر ملک کی جان بستی تھی اپنے اس پوتے میں ان کے بس میں ہوتا تو وہ ملک احتشام احمد سے ہر تکلیف کو دور کر دیتے لیکن قدرت کے آگے بے بس تھے مگر وہ ہر وقت ہر اللہ سے اس کے اچھے نصیب اور خوشیوں کی دعا کرتے تھے- (والدین کو بیٹیوں کے نصیب اور خوشیوں کی طرح بیٹوں کے اچھے نصیب اور خوشیوں کی دعائیں بھی مانگ لینی چاہیے ہم انسانوں کو لگتا ہے نصیب صرف بیٹیوں کا برا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے بیٹوں کے نصیب بھی بعض اوقات گرہن کا شکار ہو جاتے ہیں ان کی زندگی بھی مشکلات ، آزمائش اور تکلیفوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے بس فرق اتنا ہوتا ہے وہ روتے نہیں ۔۔۔ وہ رو نہیں سکتے کیونکہ وہ مرد ہیں اور مرد مظبوط ہوتا ہے ۔۔۔ بے شک مرد عورت کا دوگنا ہوتا ہے لیکن چوٹ اگر بار بار پتھر پر بھی ماری جائے تو وہ بھی ٹوٹ جاتا ہے مرد تو پھر انسان ہے دل اس کے سینے میں بھی موجود ہوتا ہے تکلیف محسوس کرنے کی حس اس میں بھی موجود ہوتی تو اس کے لیے رونے پر اتنی دلیلیں کیوں؟؟؟؟ بنا لی اس سخت معاشرے نے) کافی دیر اس کے پاس بیٹھنے کے بعد دادا سائیں اٹھ کر چلے گئے “-
–––––––––––––––––––––––––––
” احمد کے کمرے میں کون گیا تھا ؟؟؟ شمشیر ملک کی رعب دار آواز گونجی سارے ملازم رات کے اس وقت جب گھر کے مکین اپنے کمروں میں موجود تھے مجرموں کی طرح صحن میں سر جھکائے کھڑے تھے “-
” سائیں یہ میری بیٹی ہے یہ گئی تھی صبح چھوٹے سائیں کے کمرے کی صفائی کرنے ان کی پرانی ادھیڑ عمر ملازمہ اپنی سولہ سترہ سالہ بیٹی کی طرف اشارہ کرتی بتانے لگی ….سائیں کوئی غلطی کردی ہے اس نے؟؟؟ اماں صغرہ کو پریشانی ہوئی آج ہی وہ اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لائیں تھیں تاکہ کام میں ان کا ہاتھ بٹا سکے”-
“اپنی بیٹی کو سہی سے سمجھا دو آئیندہ احمد کے کمرے کی کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے چاہے وہ کوئی کھڑکی ہی کیوں نہ ہو شمشیر ملک کی بات پر اس لڑکی نے اپنی نظریں جھکائیں اب جاؤ تم سب ان کے بولنے پر سب واپس اپنے کاموں میں لگ گئے”-
“کیا کیا تھا تونے؟؟؟ صغرہ اماں نے اپنی بیٹی کا بازو جھنجھور کر زرا سختی سے پوچھا”-
” کچھ نہیں کیا میں نے اماں وہ چھوٹے سائیں کے کمرے کی کھڑکی کھول دی تھی ساری کھڑکیاں کھلی ہوئیں تھیں میں نے سوچا اسے بھی کھولنا اس پر کافی دھول مٹی جمع تھی اماں میں نے تو بس صفائی کی ہے بڑے سائیں کو پتہ نہیں کیوں؟؟؟ غصہ آ گیا ان کی بیٹی کو غصے کی وجہ سمجھ نہیں آئی “-
” ارے آئیندہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہ کرنا پوچھ لیا کر چل اب جا کر باقی کا کام ختم کر گھر بھی جانا ہے میں بھی آتی ہوں صغرہ اماں اسے سمجھاتی ہوئیں بولیں ان کی بیٹی سر ہلاتی ہوئی چلی گئی “-
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial