قسط: 5
“ماریہ نے احتشام کو کال کرنے کے بعد دوبارہ کئی بار اپنے بابا کو کال کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بیل جا رہی تھی مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہے تھے انہیں اس وقت اپنے گھر کے مردوں کی سخت ضرورت تھی احتشام گاؤں تھا اسے آنے میں کم سے کم بھی ایک گھنٹہ لگنا تھا اور مبشر صاحب تھے کہ فون ہی اٹھا رہے تھے وہ دونوں بری طرح پریشان تھیں پڑوس والے انکل آنٹی بھی ان دونوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے ان دونوں میاں نے بیوی اکیلی جوان بچیوں کو اس طرح پریشان چھوڑ کر جانا مناسب نہیں سمجھا “-
” ماریہ ایسا کرتے ہیں پھپھو اور ربیان کو بلا لیتے ہیں بابا تو فون ہی نہیں اٹھا رہے بھیا کو آنے میں بھی پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا ہم دونوں کیسے سب کچھ سنبھال سکتے ہیں ہمیں کسی اپنے کی ضرورت ہے ثوبیہ کرسی پر ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھی ماریہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی “-
” وہ لوگ کیا مدد کرینگے ہماری ؟؟؟ انہیں لوگوں کی وجہ سے مشکل میں مبتلا ہیں ہم ۔۔۔۔۔ یہ آگ انہی لوگوں کی لگائی ہوئی جس میں اس وقت میری ماں اور میرا بھائی جل رہے ہیں عاتکہ کی حالت سوچ کر ایک بار پھر ماریہ کے آنکھیں برسنا شروع ہوگئیں اس کے کپڑوں پر لگا ان کا خون اسے اذیت میں مبتلا کر رہا تھا اگر اس کی ماں کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کے لیے جان لیوا تھی”-
” ماریہ یہ وقت نہیں ان باتوں کا تمھیں اپنی ناراضگی کو ایک طرف رکھ کر امی کے بارے میں سوچنا چاہیے ابھی ہاسپٹل کا اسٹاف فارم لے آئے گا اور بل دوائیاں ہم کیسے کریں گے سب کچھ ثوبیہ ان لوگوں کو بلانے کے لیے بضد تھی”-
” آپی میں سب کچھ خود ہی کر لوں میں اپنی امی کا خیال اکیلے بھی رکھ سکتی ہوں مجھے کسی غیر کی بلکل ضرورت نہیں ہے اور ہم اکیلے نہیں ہیں بھیا بس آتے ہی ہونگے میں ان لوگوں کو بلا کر بھیا اور امی کو مزید تکلیف میں نہیں ڈال سکتی ۔۔۔ ہاں اگر آپ بلانا چاہیں تو بلا کر آزما لیں میرا نہیں خیال وہ لالچی لوگ آنے کی زحمت کرینگے ماریہ کو سخت غصہ آ رہا تھا ثوبیہ پر جو ابھی انہیں لوگوں کی تسبیح پڑ رہی تھی جن کی وجہ سے وہ اس قدر مشکل میں تھیں”-
” ماریہ کی کڑوی باتوں پر دو حروف بھیجتی ثوبیہ نے ربیان کو کال ملائی پر افسوس ماریہ کی بات سچ ہوگئی ربیان نے کال اٹھانا تو دور اس کے میسیج دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی تھی ثوبیہ ناکام ہو کر خاموشی سے ماریہ کے پاس جا کر بیٹھ گئی “-
” ماریہ !!!! احتشام بھاگتا ہوا اندر آیا تھا وہ فاسٹ ڈرائیونگ کرتے ایک گھنٹے کا سفر پینتالیس منٹ (45) میں طے کر کے پہنچا تھا سارے راستہ وہ پریشان تھا ۔۔۔امی کیسی ہیں ؟؟ کیا ہوا ہے ان کو؟؟؟ احتشام ان دونوں کو کھڑا دیکھ کر پریشانی سے پوچھا “-
” بھیا !!! ماریہ روتی ہوئی اس کے سینے سے لگی ماریہ گڑیا چپ ہو جاؤ میرا بچہ احتشام اس کا سر تھپکا ….امی کیسی ہیں ؟؟؟ تم دونوں کچھ بتاؤ گی مجھے؟؟؟ اس نے ماریہ کو خود سے الگ کرتے ہو اپنا سوال دوبارہ دوہرایا “-
” پتہ نہیں ابھی ان کا ٹریٹمنٹ چل رہا ہے ڈاکٹرز باہر آئیں تو کچھ پتہ چلے ماریہ کے بجائے ثوبیہ نے جواب دیا “-
” ٹھیک ہے احتشام اب تم آگے ہو تو ہم لوگ چلتے ہیں ۔۔۔ عاتکہ بھابھی کی طبیعت کا بتانا ہمیں پڑوس والے انکل آنٹی جو ان دونوں کے ساتھ ہاسپٹل آئے تھے احتشام کو دیکھ کر بتا کر اپنے گھر کے لیے نکل گئے “-
” بھیا یہ دیکھیں امی کا بہت خون بہا ہے ماریہ نے اپنے کپڑوں کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔” آپ کہاں تھے بھیا ہمیں آپ کی سخت ضرورت تھی ماریہ روتے ہوئے اس سے شکوہ کر گئی “-
” ماریہ کے کپڑوں پر لگا ہوا خون دیکھ کر احتشام کی حالت بھی غیر ہونے لگی اپنی ماں کو کھونے کا حوصلہ نہیں تھا اس میں ۔۔۔۔۔ تم بیٹھو یہاں !!! احتشام نے اس کے آنسوں صاف کر کے اسے کرسی پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔ ماریہ تمھارے بابا کہاں ہیں ؟؟ اس نے دیکھا مبشر حسین کہیں موجود نہیں تھے کہاں تھے وہ اس وقت انہیں یہاں ہونا چاہیے تھا احتشام کے سوال پر دونوں بہنیں خاموشی سے ایک دوسرے کا چہرہ تکنے لگیں “-
” میں تم دونوں سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔۔۔کہاں ہیں تمھارے بابا ؟؟؟ اور امی کو چوٹ کیسے لگی ؟؟؟ کچھ بتاؤ گی تم دونوں یا یونہی خاموش ایک دوسرے کو گھورتی رہو گی اب کی بار اس نے زرا سختی سے پوچھا “-
” بھیا وہ امی ۔۔۔۔ ماریہ سارا واقع اسے بتانے لگی ۔۔۔۔ ماریہ بتاتی جا رہی تھی اور احتشام کی دماغ کی رگیں تن رہی ہیں احتشام اپنے ہاتھوں کی میٹھی زور سے بند کر کے اپنا غصہ قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔ ثوبیہ بری طرح اپنے لب کچلنے لگی اسے اپنی شامت صاف نظر آ رہی تھی احتشام نے ساری بات سننے کے بعد ماریہ کو گھورا تو وہ فوراً اپنی نظریں جھکا گئی غلطی تو اس کی بھی تھی اسے اپنی ماں کا خیال کرنا چاہیے تھا وہ پہلے ہی اس کے بابا کی وجہ سے صدمے میں تھیں بجائے انہیں سنبھالنے کے اس نے ثوبیہ سے بحث شروع کردی تھی کیا ضرورت اسے ثوبیہ سے بحث کرنے کی ماریہ کو اب افسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔بھیا !!! ماریہ نے احتشام کے بازو پر ہاتھ رکھا جسے اس نے جھٹک دیا ماریہ کو ایک بار پھر سے رونا آنے لگا ۔۔۔۔۔ احتشام خطرناک تیور لیے ثوبیہ کی جانب بڑھا تو وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹی اس سے پہلے احتشام آگے بڑھ کر ثوبیہ کو کچھ بولتا روم کا دروازہ کھلا ڈاکٹر باہر آئے “-
” آپ میرے ساتھ آئیں ڈاکٹر نے احتشام کو اپنے ساتھ آنے کا کہا اور خود آگے بڑھ گئے ڈاکٹر کے پیچھے جاتے ہوئے احتشام نے ثوبیہ کو ایک سخت گھوری سے نوازا اور آگے بڑھ گیا اس کے پیچھے ماریہ بھی چل پڑی جبکہ احتشام کا غصہ دیکھ کر ثوبیہ نے وہیں کھڑے رہنے میں اپنی عافیت جانی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” مبشر حسین گھر میں داخل ہوئے کسی کو موجود نہ دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا مگر کوئی بھی موجود نہیں تھا نے انہوں نے سوچا شاید آس پڑوس میں کہیں گئیں ہوں اسی لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہوں ۔۔۔۔۔ ” حد ہے عاتکہ کی لا پرواہی کی انسان کہیں بھی جائے گھر کا دروازہ تو بند کر کے جائے کوئی گھر میں گھس جاتا تو ۔۔۔۔ وہ منہ ہی منہ بڑبڑاتے ابھی اپنے کمرے میں جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی نظر فرش پر پڑے خون پر پڑی اب سہی معنوں میں انہیں پریشانی ہوئی انہوں نے جیب سے فون نکال کر کال کرنے کا سوچا تو انہیں یاد آیا ان کا فون گاڑی میں ہی رہ گیا ہے وہ فوراً گھر سے نکلے “-
” مبشر صاحب !!!! کیسی طبعیت ہے بھابھی کی ؟؟؟ ماجد صاحب انہیں تیزی سے گھر باہر نکلتا دیکھ کر پوچھ پڑے (یہ وہی پڑوس والے انکل تھے جو صبح ہاسپٹل گئے تھے) “-
” کیا ہوا عاتکہ کو ؟؟؟ مبشر حسین کے پیروں سے زمین نکل گئی تھی “-
” ارے آپ کو نہیں پتہ عاتکہ بھابھی کا سر پھٹ گیا تھا میں اور میری بیگم ہی تو آپ کی بچیوں کے ساتھ انہیں ہاسپٹل لے کر گئے تھے پھر احتشام وہاں آ گیا تو ہم لوگ واپس آ گئے مجھے لگا آپ ہاسپٹل سے آئے ہیں ماجد صاحب سمجھ چکے تھے کہ مبشر حسین کچھ نہیں جانتے “-
” کون سے ہاسپٹل میں ہیں وہ لوگ؟؟؟ مبشر حسین کے پوچھنے پر ماجد صاحب نے انہیں ہاسپٹل کا بتایا تو وہ فوراً اپنی گاڑی کی طرف بڑھے “-
” حد ہے بیوی بچے ہسپتال میں ہیں اور ان کو خبر ہی نہیں ماجد صاحب افسوس سے سر ہلاتے آگے بڑھ گئے “-
” مبشر حسین نے فون چیک لاتعداد مس کالز تھیں فون سائلینٹ پر ہونے کے باعث انہیں پتہ نہیں چلا تھا انہوں کال ملا کر فون کان سے لگایا اور گاڑی کا رخ ہاسپٹل کی طرف کیا”-
–––––––––––––––––––––––––––
” ڈاکٹر اب کیسی طبعیت ہے ؟؟؟میری مدر کی احتشام اور ماریہ ڈاکٹر کے ساتھ ان کے کیبن میں موجود تھے “-
” ان کا نروس سسٹم بریک ڈاؤن ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تھیں چوٹ بھی گہری تھی جس کی وجہ سے ان کا کافی خون بہہ گیا تھا ہم نے بلڈ لگا دیا ہے ۔۔۔۔۔ فلحال تو وہ ٹھیک ہیں بر وقت ہاسپٹل لانے کی وجہ سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہاں البتہ اگر تھوڑی سی بھی دیر ہوجاتی تو مشکلات ہو سکتی تھی ۔۔۔۔۔ میں آپ سے یہی کہونگا ان کا بہت خیال رکھیں اور کوشش کریں ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے وہ ٹینشن لیں انہیں اسٹریس اور پریشانی سے دور رکھیں گے تو وہ جدی کور کر جائیں گی ورنہ ہو سکتا ہے ان کا زخم خراب بھی ہوجائے ۔۔۔۔ اور یہ کچھ دوائیں ہیں جو آپ نے انہیں باقاعدگی سے دینی ہیں ڈاکٹر نے دواؤں کا پرچہ ان کی جانب بڑھایا “-
“ہم مل سکتے ہیں احتشام نے پرچہ تھامتے ہوئے پوچھا “-
” جی آپ لوگ مل سکتے ہیں ۔۔۔ لیکن فلحال وہ دواؤں کے زیر اثر ہیں ۔۔۔۔ بلڈ ختم ہو جائے تو آپ لوگ انہیں گھر بھی لے جا سکتے ہیں ڈاکٹر پیشوارانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولے ۔۔۔۔ وہ دونوں اٹھ کر جانے ہی لگے تھے کہ مبشر حسین اندر داخل ہوئے وہ ابھی ابھی پہنچے تھے باہر بیٹھی ثوبیہ نے انہیں بتایا تھا کہ وہ دونوں ڈاکٹر کے کیبن میں ہیں “-
” ڈاکٹر صاحب یہ میری ماں کے شوہر ہیں آپ انہیں تفصیل سے بتا دیجئے گا کہ میری ماں کے لئے ٹینشن لینا کتنا خطرناک ہے احتشام انہیں دیکھ کر اپنا غصہ قابو کرتے ہوئے بھی سخت لہجے میں بولا اس کے طنز پر ڈاکٹر بھی ان لوگوں کو دیکھنے لگا احتشام ایک تیز نظر ان پر ڈال کر وہاں سے نکل گیا ماریہ بھی اس کے پیچھے چلی گئی وہ وہیں ڈاکٹر کے پاس بیٹھ گئے “-
––––––––––––––––––––––––––
” کیرل میں یہ ختم کر لوں پھر ہم لوگ پب جی کھیلیں گے میکس آئس کریم سے پھرا ہوا چمچہ منہ ڈالتے ہوئے بولا “-
” نہیں میکس تم کھیل لو مجھے نہیں کھیلنا کیرل نے اپنی کیرل نے پانی جگ سے پانی نکالتے ہوئے صاف انکار کیا “-
” ہیں !!! میکس کی تو آنکھیں باہر نکلنے کو تھیں کیرل کا جواب سن کر ۔۔۔۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں ۔۔۔کہیں میں بہرا تو نہیں ہو گیا دا گریٹ کیرل انتھونی نے اپنی بیس سالہ زندگی میں پہلی بار اپنا پسندیدہ گیم کھیلنے سے انکار کر دیا ہے ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے دنیا تباہ ہونے والی ہے میکس کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا “-
” بس کر دو میکس اپنی اور ایکٹنگ کیرل نے اس ورطہ حیرت میں غوطہ زن ہوتے دیکھ کر آنکھیں گھمائیں “-
” یہ تمھیں ایکٹنگ لگ رہی ہے میں تو ابھی بھی حیرت میں ہوں تم نے بات ہی ایسی کی ہے بھلے تم ممی سے پوچھ لو انہیں بھی حیرت ہی ہو رہی ہو گی میکس نے ولما کی طرف اشارہ کیا “-
” ویسے میکس ٹھیک کہہ رہا ہے بات تو حیرت کی ہے آج کیوں نہیں کھیل رہی ؟؟؟ میکس ولما مسکرا رہیں تھیں سب ہی جانتے تھے کیرل پب جی کی دیوانی تھی “-
” کچھ نہیں آنٹی اسائنمنٹ بنانی ہے اور ٹیسٹ بھی یاد کرنا ہے بس اسی لیے کیرل وضاحت دیتی جانے کے لیے کھڑی ہو گئ “-
” ٹیسٹ تو تم پہلے بھی یاد کرتی تھی یہ فضول کے بہانے نہ بناؤ چلو کھیلتے ہیں بہت مزہ آئے گا میکس اپنی آئس کریم ختم کر کے اٹھا “-
” رہنے دو میکس تنگ نہ کرو کیرل کو اس کا دل نہیں کر رہا ۔۔۔ تھکی ہوئی ہے وہ پہلے ہی ۔۔۔۔ جاؤ کیرل تم اپنا کام کرو ولما نے اس کی مشکل آسان کردی “-
” تھینک یو سو مچ آنٹی !!!! کیرل نے ولما کے گال پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ گڈ نائٹ میکس ۔۔۔۔ گڈ نائٹ آنٹی کیرل بول کر چلی گئی “-
” کیرل نہیں کھیل رہی تو آپ میرے ساتھ کھیلیں گی اب میں آپ سے کوئی بہانا نہیں سنوں گا اب وہ ولما کے پیچھے پڑ گیا تھا “-
” ٹھیک ہے تم چلو میں یہ سب سمیٹ کر آتی ہوں ولما برتن اٹھاتے ہوئے بولیں ان کا جواب سن کر میکس بھی چلا گیا “-
–––––––––––––––––––––––––––
” زیبا بیٹا احمد کو بھی بلوا لو ملازم کو بھیج کر دادا سائیں احتشام کو کھانے کی ٹیبل پر موجود نہ پا کر زیبا سے بولنے لگے “-
” دادا سائیں احمد گھر میں نہیں ہے وہ تو شہر چلا گیا ہے “-
” شہر چلا گیا۔۔۔ کب گیا ہمیں بتا کر نہیں گیا “-
” وہ دادا سائیں شہر سے فون آیا تھا اس ماں کو چوٹ لگ گئی ہے وہ ہسپتال میں ہیں جلدی میں گیا ہے اسی وجہ سے آپ کو نہیں بتا سکا زیبا نے انہیں بتایا “-
” سن لیا بابا سائیں آپ نے اسی وجہ سے میں کہتا ہوں اس لڑکے کا آنے جانے کا کچھ پتہ نہیں چلتا سرائے سمجھا ہوا ہے اس نے گھر کو سجاول ملک نے اپنی بات دوہرائی وہ باپ کو یقین دلانا چاہ رہے تھے کہ وہ احتشام پر صحیح غصہ کرتے ہیں “-
” تم کیا بہرے ہو سجاول سنا نہیں زیبا نے کیا بتایا ہے اس کی ماں ہسپتال میں ہے ۔۔۔ بولنے سے پہلے پوری بات تو سن اور سمجھ لیا کرو لیکن نہیں تمھیں کچھ سننا ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔ اب ہمارا منہ کیا دیکھ رہے ہو کھانا کھاؤ دادا سائیں ان کی نظر خود پر موجود دیکھ بولے تو سب کھانا کھانے لگے”-
–––––––––––––––––––––––––––
” کیرل نے کمرے میں آ کر دروازہ لاک کیا اپنے بیگ سے نوٹ بک نکالی پھر اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیڈ پر آگئی اس نے نوٹ بک کھولی اور میم سمیرا کے بتائے ہوئے پوائنٹس کو سرچ کرنے لگی سوال کے جواب پر اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔۔۔ کیرل نے ایک کے بعد ایک سوال دیکھنے شروع کر دیے اس قرآن پاک ڈاؤن لوڈ کیا تاکہ اچھی طرح جان سکے ۔۔۔۔ ابھی وہ مزید کوئی کام کرتی اس کے ڈیڈی کی ویڈیو کال آنے لگی کیرل گھبرا گئی اسے لگا جیسے اس کے ڈیڈی یہاں موجود ہوں اس نے جلدی جلدی سارے ٹیب کاٹے اور خود کو کمپوز کر کے کال پک کی “-
” ہیلو !! ڈیڈی وہ اسکرین پر نظر آتے ان کے چہرے کو دیکھ کر بولی “-
” ہیلو !! ڈالنگ کیسی ہی میری پرنسسس ؟؟؟ مسٹر انتھونی کی خوش باش آواز ابھری “-
” میں بلکل ٹھیک ہوں ڈیڈی آپ بتائیں آپ کیسے ہیں ؟؟؟ اتنے دنوں بعد کال کی ہے آپ کو میری بلکل یاد نہیں آتی جائیں میں ناراض ہوں آپ سے کیرل نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا “-
” میں نے کال نہیں کی تو آپ نے بھی تو اپنے ڈیڈی کو یاد نہیں کیا اس بات پر مجھے بھی ناراض ہونا چاہیے “-
” نو فادرز ناراض نہیں ہو سکتے “-
“کیوں بھئی فاردز کیوں نہیں ناراض ہو سکتے ؟ مسٹر انتھونی اس کے انداز پر مسکرا کر بولے “-
” کیوں کہ فادرز میل ہوتے ہیں اور میل فیملز کو مناتے ہیں بس اسی وجہ سے آپ ناراض نہیں ہو سکتے کیرل نے اپنی طرف سے ایک عجیب ہی منطق پیش کی “-
” اوکے ۔۔۔۔ سوری آئیندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی مسٹرانتھونی نے اس کی بات پر اپنی ہنسی روکی ورنہ وہ مزید ناراض ہو جاتی ۔۔۔۔ اچھا پڑھائی کیسی جا رہی ہے ؟؟؟ “-
” بہت اچھی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ ڈیڈی آپ کو پتہ آج میں نے کیا کیا ۔۔۔ کیرل ان کے سامنے بیٹھی اپنی باتیں بتانے لگی مسٹر انتھونی غور سے اس کی باتیں سننے لگے “-
–––––––––––––––––––––––––––
“وہ لوگ کمرے میں داخل ہوئے عاتکہ دواؤں کے زیر اثر سو رہی تھیں ان کو ابھی بھی بلڈ لگ رہا تھا ایک روز میں ہی وہ کافی بیمار لگنے لگیں تھیں سر پر بندھی پٹی آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے زردی مائل رنگت احتشام نے انہیں اس حال میں دیکھ کر سختی سے اپنے لب بھینچ لیے ثوبیہ اور مبشر صاحب بھی دکھی ہوگئے جب کے ماریہ تو ایک پھر سے رونا شروع ہوگئی احتشام سے مزید دیکھا نہ گیا وہ فوراً وہاں سے نکل گیا “-