حصار عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

“اسے باہر سے مسلسل چلانے کی آوازیں آ رہیں تھیں یہ اس کے ڈیڈی کی آواز تھی وہ ولما پر برس رہے تھے یعنی وہ آ چکے تھے خدا ہی جانتا تھا اب ایمان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا ۔۔۔۔ وہ دو دنوں سے اپنے کمرے میں لوک تھی بھوک کے باعث اسے نقاہت محسوس ہو رہی تھی وہ خاموشی سے ان کے آنے کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد اس کے دیڈی آندھی طوفان کی طرح دھاڑ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے ان کے پیچھے ہی ولما اور میکس بھی اندر آئے مسٹر انتھونی نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا ایمان جو پہلے بھوک کے باعث کمزور ہو رہی تھی ان کے شدید تھپڑ پر لڑکھڑاتے ہوئے زمین پر گر پڑی “-
” اٹھو !!! انہوں نے ایمان کو بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا ۔۔۔۔ ولما کیا کہہ رہی ؟؟؟ بتاؤ مجھے یہ دونوں جو بول رہے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ ۔۔۔۔ میں تمھارے منہ سے سننا چاہتا ہوں بتاؤ مجھے مسٹر انتھونی نے اسے جھنجھوڑا ۔۔۔ ان کے اتنے شدید رد عمل پر اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہوگئے ایمان نے ہمیشہ ان کا پیار دیکھا تھا اپنی بیس سالہ زندگی میں آج پہلی وہ مسٹر انتھونی کا اپنے آپ پر اتنا غصہ کرتے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں کیرل؟؟؟ کیا ولما جو بول رہی ہے وہ سچ ہے ؟؟ وہ کیرل کو خاموش کھڑا دیکھ کر زور سے چلائے ان کی دھاڑ پر کیرل کے ساتھ ساتھ ولما بھی سہم گئیں “-
” یس ڈیڈی آنٹی نے آپ کو جو کچھ بتایا وہ سب سچ ہے وہ ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی اب اسے ڈرنا نہیں تھا بے شک وہ اس کے ڈیڈی تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کر کوئی بھی رشتہ نہیں ہو تھا اسلام کے لیے تو لوگوں بہت تکلیفیں برداشت کی تھی یہ تو ان سب کے آگے کچھ بھی نہیں تھی ۔۔۔ میں اسلام قبول کر چکی ہوں ۔۔۔۔ اس کے منہ سے سچ سن کر مسٹر انتھونی آپے سے باہر ہو گئے پے در پے کئی تھپر ایمان کے چہرے پر مارتے گئے ولما اور میکس خاموشی سے اسے پٹتا دیکھ رہے تھے ولما کو اس کی حالت پر بہت دکھ ہورہا تھا وہ کیرل سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ کیرل غلط راہ پر چل پڑی تھی اسے سیدھی راہ پر لانے کے لیے سزا دینا بہت ضروری تھا “-
” تمھیں شرم آنی چاہیے کیرل آخر کس چیز کی کمی تھی جو تم نے مجھے یہ دن دکھایا ہے ۔۔۔ تمھارا باپ پادری ( عیسائیوں کا عالم ) ہے اسی بات کا خیال کر لیتی ۔۔۔ کیا کہیں لوگ جب انہیں پتہ لگے گا کہ میری بیٹی نے ہی اسلام قبول کر لیا جس کا باپ لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دیتا ہے سب مجھے جھوٹا کہیں گے صرف تمھاری وجہ سے ۔۔۔۔ یہ دن دیکھنے سے اچھا تھا تم مر جاتی کیرل مسٹر اسے مار مار کر تھک چکے تھے کیرل بے دم سی فرش پر گری رہی تھی “-
” میکس میری فلائٹ کنفرم کرو لندن جانے والی سب سے پہلی فلائٹ میں ہماری سیٹ بک کرواؤ میں کیرل کو اپنے ساتھ لندن لے کر جاؤنگا اگر اسے یہی چھوڑ گیا تو یہ مزید باغی ہوجائے گی مسٹر انتھونی ایک سخت نگاہ کیرل پر ڈال کر میکس کو بولے تو فون ملا کر فلائٹ کا پتہ کرنے لگا “-
” انکل آج رات 2 بجے کی ایک فلائٹ ہے اس کے بعد اگلی فلائٹ پانچ دن تک کوئی فلائٹ لندن نہیں جائے گی میکس نے کال ہولڈ کر کے مسٹر انتھونی کو بتایا “-
” ٹھیک ہے میکس تم آج رات کی فلائٹ میں ہی ہماری بکنگ کروا دو میں پانچ دن اسے یہاں رکھنے کا خطرہ نہیں اٹھا سکتا جانے یہ کیا کر بیٹھے میری عزت کی دھجیاں اڑانے میں اس نے کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے مسٹر انتھونی فرش پر بے حال پڑی ایمان کو گھور کر بولے ۔۔۔ ان کا جواب سن کر میکس نے ہاں میں سر ہلایا اور ٹکٹس کا پتہ کرنے لگا “-
” ڈیڈی میں آپ کے ساتھ لندن نہیں جاؤنگی کیرل نے بڑی ہمت کر کے اٹھنے کی کوشش کی مگر نقاہت اور زخموں کے باعث لڑکھڑانے لگی وہ ان کے ساتھ لندن نہیں جا سکتی تھی اگر وہ اسے لندن لے جاتے تو اس کا ایمان چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور ایمان ایسا ہر گز نہیں ہونے دے سکتی تھی اسی لیے ہمت کرتے ہوئے انکار کر گئی “-
” جائیں گے تو تمھارے اچھے بھی اور ہاں شرافت سے اسلام چھوڑ دو ورنہ اس سے بھی برا حال کرونگا وہ مزید ایک تھپر اس کے منہ پر مارتے ہوئے غرائے اور اس تھپڑ پر ایمان کی برداشت جواب دے گئی وہ بے ہوش ہوگی اس سے بیگانہ ہو گئی “-
“کیرل !!! میری بچی آخر کار ولما کے اندر کی مامتا بے قرار ہو کر اس کے پاس لپکی انہوں نے ایمان کا وجود دیکھا جو بے جان ہو رہا تھا اس کی نبض چیک کی جو بہت سست ہو چکی تھی ۔۔۔ ڈاکٹر کو بلاوانا پڑے گا پلس بہت سلو ہو رہی ہے ولما نے مسٹر انتھونی کی طرف دیکھ پریشانی سے کر کہا”-
” ہاں بلاؤ ڈاکٹر کو تاکہ مزید تماشا بنے کوئی ضرورت نہیں کسی کو بلانے کی دو دنوں سے بھوکی ہے کمزوری کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔۔۔۔ ہوش میں لا کر کچھ کھلاؤ پلاؤ رات تک اسے چلنے کے قابل بناؤ مسٹر انتھونی ولما کو بول کر خود شدید غصے میں کمرے سے باہر نکل گئے “-
–––––––––––––––––––––––––––
” ولما اسے کھانے کے بعد پین کلر دے کر گئیں تھیں وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جسم بری طرح دکھ رہا تھا ۔۔۔۔ گھڑی نو بجا رہی تھی پانچ گھنٹے بعد ان لوگوں کی فلائٹ تھی لندن کی “-
” نہیں !!! میں لندن نہیں جا سکتی ۔۔۔۔ مجھے کچھ تو کرنا ہو گا وہ خود سے بڑبڑاتی ہوئی بیڈ سے اٹھنے لگی ۔۔۔۔ لیکن کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔۔۔۔ میم سمیرا ہاں ان سے مدد مانگتی ہوں اس کے ذہن میں فوراً جھماکا ہوا وہ اپنا فون ڈھونڈنے لگی تاکہ میم سے رابطہ ہو سکے لیکن فون کہیں نہیں تھا مطلب صاف تھا وہ لوگ فون لے جا چکے تھے اس کے گھر والوں نے لندن جانے کے علاوہ اس کے لیے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔ایمان کی امید کمزور ہونے لگی ۔۔۔۔ نہیں ایمان آج تمھیں ہمت کرنی ہو گی آج ہمت نہیں کی تو کبھی نہیں کر پاؤ گی اس کے ضمیر نے اسے للکارہ ۔۔۔ وہ دروازے کے پاس آئی یہ اچھی بات تھی کہ ان لوگوں نے دروازہ لوک نہیں کیا تھا ایمان نے کمرے سے باہر نکل کر ریلنگ سے نیچے جھانکا وہ لوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں واپس آ گئی اس نے اپنا کالج بیگ اٹھایا اس میں اپنے ضروری کاغذات رکھنے لگی تو اس پر ایک اور انکاشاف ہوا ان کاغذات میں صرف تعلیم سے جڑی چیزیں تھیں اس کا شناختی کارڈ پاسپورٹ اس کے پیسے اور اس کی ماں کے زیورات جو اس کے ڈیڈی نے اسے دے رکھے تھے کچھ بھی موجود نہیں تھا ان لوگوں نے سب نکال کر اپنے پاس رکھ لیا تھا ان لوگوں نے غلطی سے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی تھی شاید انہیں اندازہ تھا کہ وہ ایسی کوئی حرکت ضرور کرے گی اب اسے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑنے کی وجہ سمجھ میں آئی ان لوگوں نے اس کے سارے راستے مسترد کر دیئے تھے “-
“ایمان کے پاس ایمان کے سوا کچھ نہیں تھا لیکن اسے ہار نہیں ماننی تھی جو کچھ تھا اس نے بیگ میں ڈال لیا یہ سوچ کر کہ شاید کبھی ضرورت پڑ جائے ۔۔۔۔ قدموں کی چاپ پر وہ بیگ کو اپنے ساتھ لیے فوراً بیڈ پر جا کر لیٹ گئی “-
” مسٹر انتھونی کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئے ایمان سوتی ہوئی بن گئی ۔۔۔۔۔ سو رہی ہے میں بھی کچھ دیر آرام کر لوں پھر نکلنا ہے ۔۔۔۔ تم یاد سے مجھے ایک بجے سے پہلے پہلے اٹھا دینا وہ میکس کو کہہ رہے تھے ۔۔۔۔ اور ہاں سارا سامان دیکھ کر گاڑی میں رکھ دو میں نہیں چاہتا آخری وقت پر کوئی مصیبت پیش آئے “-
” اوکے انکل آپ بے فکر رہیں میں دیکھ لونگا وہ دونوں دروازہ بند کر کے لوٹ گئے ۔۔۔ ایمان کو جب یقین ہو گیا کہ وہ دونوں جا چکے تب وہ باہر نکلی اس نے بیگ کندھے پر ڈالا کھڑکی سے وہ جا نہیں سکتی ہے کیونکہ اس کا کمرہ دوسری منزل پر تھا اسے دروازے سے ہی جانا تھا وہ کمرے سے باہر نکل کر معائنہ کرنے لگی ولما کچن سمیٹ رہیں تھیں اور میکس سامان گاڑی میں رکھ رہا تھا جبکہ اس کے ڈیڈی کمرے میں تھے اس کا نکلنا نا ممکن تھا وہ دوبارہ کمرے میں آگئی “-
” ساڑھے دس بج گئے تھے وہ کمرے میں جلے بلی کے پیروں کی طرح چکر کاٹ رہی تھی کتنی بار وہ باہر جا کے دیکھ چکی تھی میکس اور ولما وہیں تھے ۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر باہر نکلی ولما شاید کمرے میں جا چکیں تھیں البتہ مکیس لاؤنج میں بیٹھا پب جی کھیلنے میں مصروف تھا وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں آئی ایک بڑی سی چادر خود پر ڈالی بیگ اٹھایا پھر برابر والے کمرے میں چلی گئی یہ گیسٹ روم تھا اس وقت اس کمرے میں اس کے ڈیڈی موجود تھے دروازہ کھلا ہوا تھا اس نے آخری بار انہیں دیکھا پتہ نہیں دوبارہ انہی دیکھنا نصیب ہو گا کہ نہیں ۔۔۔۔ وہ کروٹ لیے ہوئے تھے جاگ رہے تھے یا سو رہے تھے اسے نہیں پتہ چلا ایمان خاموشی سے واپس پلٹ گئی “-
” وہ بنا آواز کیے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی اب سب سے مشکل مرحلہ اسے طے کرنا تھا کیونکہ ٹی وی کے ساتھ ہی گھر کا بیرونی دروازہ تھا ایمان وہاں سے گزر کر ہی باہر جا سکتی تھی اور وہاں میکس ڈیرہ ڈال کر بیٹھا ہوا تھا وقت گزرتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ ایمان نے ایک فیصلہ کرتے ہوئے قدم آ گے بڑھائے “-
” آئی ایم سو سوری میکس !!! ایمان نے ٹیبل پر پڑا ہوا گلدان اٹھا کر میکس کے سر میں دے مارا وہ بے ہوش ہو گیا ۔۔۔۔ آئی ایم ریئلی ویری سوری میکس میں یہ سب نہیں کرنا چاہتی تھی مجھے معاف کر دینا ایمان نے صوفے پر پڑے میکس پر ایک آخری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا اور فوراً گھر سے نکل گئی “-
–––––––––––––––––––––––––––
” ایمان تیز تیز قدم اٹھاتی سڑک پر چلتی مین روڈ کی طرف بڑھ رہی تھی یہ ایک خوبصورت کالونی تھی سردیوں کا اوائل تھا سب اپنے اپنے گھروں میں جا چکے چند اکا دکا گاڑیاں دکھائی دے رہی تھی وہ چادر سے اچھی طرح اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے تھی تاکہ کوئی اسے پہچان نہ سکے۔۔۔۔ وہ گھر سے تو بھاگ آئی تھی مگر اب کہاں جانا تھا یہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا اگر کو وہ دارلامان جانے کا سوچتی تو مسٹر انتھونی کے لئے اسے ڈھونڈنا بلکل بھی مشکل نہ تھا اور ہاسٹل میں رہنے کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں تھے میم سمیرا کا نمبر اسے یاد نہیں تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا “-
” بیٹی کہیں جانا ہے !!! وہ اپنی ہی دھن میں چلتی جا رہی تھی جب ایک ادھیڑ عمر بابا جی نے اس کے آ گے رکشہ روک کر پوچھا “-
” ایمان جلدی سے اندر بیٹھ گئی اسے ڈر تھا کہیں وہ لوگ اس تک پہنچ ہی نہ جائے “-
” کہاں جانا ہے بیٹی ؟؟؟ بابا نے پوچھا “-
” بیٹی کہا جانا ہے ؟؟ بابا جی اسے سوچ میں غرق دیکھ کر دوبارہ بولے “-
” کہاں جانا ہے ؟؟؟ وہ جیسے خود سے ہی پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔ ہاں اس کے ذہن میں ایکدم جھماکا ہوا ۔۔۔ بابا آپ چلائیں میں آپ کو پتہ نکال کر دیتی ہوں ایمان نے اپنے بیگ سے اپنی ڈائری نکالی کچھ صفحے ادھر ادھر پلٹنے کے بعد آخر کار اسے اپنا مطلوبہ پتہ مل ہی گیا ۔۔۔ بابا جی اس جگہ پر جانا ہے اس نے ڈائری بابا جی کے آگے کر دی “-
” ارے بیٹی میں ان پڑھ ہوں مجھے نہیں پتہ اس میں کیا لکھا ہے بابا جی کی بات پر اسے افسوس ہوا ۔۔۔ لیکن اگر تم مجھے پڑھ کر بتاؤ گی تو میں تم کو وہاں پہنچا دونگا “-
” ایمان انہیں ڈائری پر لکھا پتہ سمجھانے لگی 20 منٹ کی مسافت کے بعد بابا جی نے اسے ڈائری پر لکھے پتے پر پہنچا دیا تھا “-
” بابا آپ تھوڑی دیر رک جائیں میں اندر جا کر آپ کو پیسے بھیجوا دیتی ہوں ۔۔۔۔۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں وہ نظریں جھکا کر بولی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کے پاس ایک روپیہ تک نہیں تھا “-
” ارے بیٹی تم ہماری بیٹی جیسی ہو ہم کو تم سے پیسہ نہیں چاہیے ہم تو تم کو اس وقت سڑک پر اکیلے کھڑے دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ تم مشکل میں ہو اسی لیے تمھاری مدد کرنے آیا تھا تم بس اپنا خیال رکھو اور اپنے بابا کو دعائیں دو بس یہی کافی ہے ۔۔۔ جاؤ اللہ تمھیں خوش رکھے بابا جی مسکراتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے بولے “-
“ایمان ان کا شکریہ ادا کرتی آگے بڑھ گئی تو بابا جی بھی چلے گئے”-
–––––––––––––––––––––––––––
” اسلام و علیکم !!! کیسے ہو احمد ؟؟؟ وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا تھا جب دادا سائیں کی کال آنے لگی اس نے کال ریسو کر کے ہیلو کہا تو دادا سائیں سلام کر کے اس کی خیریت پوچھنے لگے”-
” وعلیکم السلام !! میں ٹھیک ہوں دادا سائیں آپ بتائیں طبیعت کیسی ہے آپ کی “-
” میں بھی ٹھیک ہوں اللہ کا کرم ہے ۔۔۔۔ تم بتاؤ تمھاری ماں کی طبیعت کیسی ہے ؟؟”-
” پہلے سے بہتر ہے مگر ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئیں ۔۔۔۔ دادا سائیں میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔۔۔۔ احتشام نے گھر کے عین سامنے رکشہ میں سے چادر میں چھپے ایک وجود کو نکل کر گھر کی طرف بڑھتے دیکھ کر کال کاٹی ۔۔۔۔ اس وقت رات کے گیارہ بجے کون گھر آیا تھا وہ فون رکھ کر کمرے سے باہر نکلا وہ جو کوئی بھی تھا اب بیل بجا رہا تھا ۔۔۔ سب سونے کے لیے کمروں میں جا چکے تھے احتشام نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا “-
” یہ ماریہ مبشر کا گھر ہے ؟؟؟ سامنے چادر میں چھپی لڑکی نے احتشام سے پوچھا “-
” جی یہ ماریہ کیا ہی گھر ہے ۔۔ لیکن آپ کون ہیں ؟؟ احتشام اپنے سامنے کھڑی پانچ فٹ کی لڑکی کو دیکھا جو شدید گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی “
” یہ گھر ماریہ کا ہی تھا یہ سن کر ایمان کو سکون ملا تھا جب اس کی ماریہ سے نئی نئی دوستی ہوئی تھی تب ماریہ نے اسے اپنے گھر کا پتہ لکھ کر دیا تھا اور کہا تھاکہ وہ اس کے گھر آئے وہ اسے اپنے گھر والوں سے ملوائے گی مگر ایمان کا کبھی بھی جانا نہیں ہوا تھا آج تک وہ ایسے ہی لکھا ہوا تھا مگر آج ایمان کے کام آ گیا تھا “-
” میں ماریہ کی دوست ہوں مجھے ماریہ سے بات کرنی ہے پلیز آپ اسے بلا دیں آپ کی بڑی مہربانی ہو گی “-
” ٹھیک ہے آپ اندر آ جائیں میں بلا دیتا ہوں “-
” نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں پہلے آپ اسے بلا دیں ۔۔۔ اب ایمان اتنی بھی بے وقوف نہیں تھی کہ ایک انجان آدمی کے ساتھ اس کے گھر میں چلی جاتی پتہ نہیں کوئی گھر میں تھا بھی یا نہیں “-
” ٹھیک ہے میں اسے بلاتا ہوں احتشام بول کر اندر بڑھ گیا “-
” اس نے دروازے پر دستک دی کوئی جواب نہیں آیا دو تین بار دستک دینے پر وہ زبر دستی آنکھیں کھولتی باہر نکلی “-
” جی بھیا !!! اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جمائی روکتے ہو کہا “-
” ماریہ تمھاری کوئی دوست تم سے ملنے آئی ہے چلو چل کر دیکھو پریشان لگ رہی ہے “-
” ہیں میری کونسی دوست آ گئی وہ بھی اس وقت ماریہ کو لگا جیسے وہ مزاق کر رہا ہو “-
” اب یہیں چپک کر کھڑی رہو گی یا چل کر بھی دیکھو گی احتشام نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹا … چل رہی ہوں بھیا چپل تو پہننے دیں ۔۔۔۔ وہ بولتی ہوئی اس کے ساتھ جانے لگی احتشام نے دروازے کے پاس لا کر اس کا ہاتھ چھوڑا “-
” ماریہ !!! ایمان اس کے گلے لگی “-
” کیرل تم اس وقت یہاں کیسے ؟ ماریہ کی پوری آنکھیں کھل گئی ساری نیند بھک سے اڑ گئی ۔۔۔ کیرل تم رو کیوں رہی ہو ؟؟؟ اچھا اندر تو آؤ ماریہ اس سے الگ ہو کر اسے لیے اندر آئی ۔۔۔۔ بیٹھو یہاں ماریہ نے اسے صوفے پر بٹھایا “-
” کیا ہوا یار کچھ بتاؤ گی یا روتی ہی رہو گی یہ چوٹ کیسے لگی ؟؟؟ تمھیں ماریہ اور احتشام اس کا بگڑا ہو چہرہ دیکھ کر چونک گئے … اچھا روکو میں تمھارے لیے پانی لاتی ہوں “-
” تم بیٹھو میں پانی لا دیتا ہوں “-
” کیرل بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے ؟؟؟ ماریہ کو شدید تشویش ہو رہی تھی اسے اس وقت اس حال میں اپنے گھر میں روتا ہوا دیکھ کر “-
” ماری میں مسلمان ہو گئی ہوں ۔۔۔۔ ایمان نے اس کے سر پر دھماکہ کیا پھر ساری بات بتاتی چلی گئی پانی لاتے ہوئے احتشام نے ان کی ساری باتیں سن لیں “-
” تم سچ کہہ رہی ہو ؟؟ اس نے تصدیق چاہی ایمان نے سر ہلایا ۔۔۔۔ اوہ کیرل میں بتا نہیں سکتی کہ کتنی خوش ہوئی مجھے یہ جان کر کہ تم مسلمان ہوگئ ہو ماریہ نے اسے گلے لگایا ۔۔۔۔۔کیرل تمھیں بلکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں تمھارے ساتھ ہوں ماریہ نے اس کے ہاتھ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دے کر اپنائیت کا احساس دلایا ۔۔۔۔ لو پانی پیو احتشام پانی لے آیا ماریہ نے اس کے ہاتھ سے پانی لے کر ایمان کو پلایا ۔۔۔۔ کیرل کی حالت پر اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی”-
” آپ بلکل پریشان مت ہوں آپ آرام سے یہاں رہ سکتیں ہیں احتشام ایمان سے مخاطب ہوا ۔۔۔۔۔ ماریہ اپنی دوست کو کھانا کھلا کر پین کلر دے دو اور کوئی آئنمنٹ بھی لگا دو اسے اس لڑکی کی حالت پر بہت دکھ ہوا وہ بول کر اپنے کمرے میں چلا گیا”-
” جی بھیا آؤ کیرل !!! ماریہ اسے اپنے ساتھ لے گئی “-
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial