قسط: 2
میں ارام سے بیٹھ گیا کہ کہیں بھائی غصہ ہی نہ کر جائے اور ماما کو کال نہ کر کے یہ نہ بتا دے کہ میں حویلی کا ذکر کر رہا ہوں بہت مشکل سے یہ سفر طے کرنے کے بعد ہم اپنے گاؤں پہنچے بس سٹاپ پر مامو ہمارا انتظار کر رہے تھے
ہم تقریبا پانچ بجے اپنے گاؤں پہنچے راستے میں اتے خوبصورت منظر دیکھ کر ہماری تھکاوٹ اتری ہوئی تھی ہم قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر تازہ دم ہوتے رہے اخر ماموں نے اپنے ساتھ لیا اور گھر کی طرف جانے لگے ہم ابھی گھر سے تھوڑا سا دور ہی تھے
کہ میری نظر ایک حویلی پر پڑی جو دکھنے میں تھوڑی خستہ حال لگ رہی تھی پتہ نہیں کیوں جب میں نے حویلی کو دیکھا تو میرا دل حویلی کے اندر جانے کو کہا حویلی کی طرف دیکھتے ہی پر اسرار ڈی کیفیت ہونے لگی خیر ہم مامو کے گھر پہنچے سب سے ملنے کے بعد مامو بولے
ماشاءاللہ بہت بڑے ہو گئے ہو میرا رنگ زیادہ صاف نہیں تھا لیکن میں ساولا اور پرکشش دکھتا تھا ہم نے مامو سے اپنے دوستوں کا ذکر کیا جس پر مامو نے بولا کہ اپ نے ان سے رابطے میں نہیں رہنا ہم حیران ہوئے کہ یار یہاں پر بھی پابندیاں
ہمیں ایک عجیب سی بے چینی لگنے لگی کچھ محسوس ہوتا کہ کچھ تو یہاں پر گڑبڑ ہے ہم نے کھانا کھایا اور رات ہوتے ہی وہاں پر حو سی کیفیت محسوس ہونے لگی مامو نے ہمیں سختی سے منع کیا تھا کہ اپ نے باہر نہیں جانا اگر کوئی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا میں اپ کے ساتھ جاؤں گا یا اپ کو لا کر دوں گا
لیکن اپ لوگوں نے رات کے وقت گھر سے باہر نہیں جانا ہمیں ایک روم دکھا دیا جس میں ہم دونوں بھائیوں نے رہنا تھا ہم ابھی سونے کی تیاری کر رہے تھے کہ مجھے ایک میسج ایا کیا حال ہے میں نے کہا کون بولا اچھا اب ہمیں بھول گئے ہو احمد ہو یار میں بلاؤ احمد کیسے ہو
اس نے بولا کہاں ہو میں نے بولا گھر ہی ہوں یار وہ بولتا باہر اؤ میں باہر کھڑا ہوں میں نے بولا یار صبح ملتے ہیں اب ہم تھک گئے ہیں اور مامو نے منع کیا ہے باہر نکلنے سےابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہمیں ایک سنسناہٹ سی لگی جیسے کوئی ہمارے پاس سے گزر کر گیا ہو ہم دونوں بھائی چونک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے
ا کتنے میں احمد نے کہا یار باہر تو اؤ میں باہر کھڑا ہوں میں نے کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا کھڑکی سے ہمیں حویلی صاف نظر اتی میں نے ادھر ادھر دیکھا مجھے گیٹ کے پاس کوئی نظر نہ ایا میں نے احمد کو کال کی اور پوچھا کہاں ہو اچانک میری نظر ایک درخت کے پاس گئی میں یہ دیکھ کر ڈر سا گیا کہ وہاں ایک چمکتی ہوئی انکھیں میری ہی طرف غور سے دیکھ رہی تھی
میں ڈر کر ایک سائیڈ پر ہوا اور اپنے بھائی کو بلانے لگا اکدھر آؤ اور دیکھو وہ کیا چیز ہے اکتنے میں احمد کی کال ائی یار میں کھڑا ہوں درخت کے پاس دیکھو تو صحیح اس کو دیکھ کر میرے اچانک رونگٹے کھڑے ہو گئے میں نے غور کیا نہ تو اس کے پاس موبائل تھا یہ بات کہاں سے کر رہا ہے اور کیسے کر رہا ہے میں ایک دم پریشان ہو گیا اور میں نے اسے بولا کہ صبح ملاقات کرتے ہیں