قسط: 10
:زندگی کے سفر میں چلتے چلتے کبھی کبھی یوں بھی ھو تا ہے
مرشد
بے پناہ چاہنے والے بے وجہ چھوڑ جاتے ہیں۔۔
صبح سماہرا کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر اپنے پہلو میں خالی جگہ پر گئی۔۔جسے دیکھ کر ایک زخمی مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھائی تھی۔۔۔
کل اپنی آخری امید کی موت پر وہ واقعی مایوس ہو چکی تھی۔۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ حازم کے آگے دوبارا کبھی نہیں جھکے گی۔۔۔۔
تم اٹھ گئیں۔۔؟؟
طبعیت کیسی ہے اب تمہاری؟
وہ جو سوچوں کے بھنور میں کھوئی تھی حازم کی آواز سے ہوش میں آئی جہاں وہ باتھ روم میں سے تولیے سے بال رگڑتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔۔۔
پہلے تو سماہرا اس کو معمول کے خلاف گھر پر دیکھ کر شوکڈ ہوئی۔۔اور اس سے ذیادہ اس کا دھیما لہجہ سن کر۔۔۔
می۔میں تو ٹھیک ہوں۔۔مجھے کیا ہونا ہے؟
وہ نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے بولی۔۔۔
او۔۔۔تو تمہیں سچ میں نہیں پتا تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔
وہ اپنی مسکراہٹ دبائے تولیے کو صوفے پر پھینکتے اس کے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھا جب کہ اس کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھ وہ تھوڑا پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔
تم نے مجھ سے اتنی بڑی نیوز کیوں چھپائی۔۔؟؟
وہ مصنوعی غصہ چہرے پر سجائے ذرہ سا اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا۔۔۔
ک۔۔کون س۔سی نیوز؟
وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی۔۔۔۔
یہی کہ ہم پیرینٹس بننے والے ہیں۔۔
وہ خوشی سے چور لہجے میں بولا تھا۔۔۔جبکہ اب جھٹکا لگنے کی باری سماہرا کی تھی۔۔
انہیں کیسے پتا؟ اور یہ تو اتنے خوش ہو رہے ہیں۔۔۔
وہ حیرت کے عالم میں سوچتے ہوئے بولی۔۔۔
کیا ہوا یہی سوچ رہی ہو نا۔۔۔کہ مجھے کیسے پتا ؟
میں نے آپ کو بتانے کی کوشش کی تھی مگر آپ نے میری بات سنی ہی نہیں۔۔۔بلکہ مجھے بد کردار کا الزام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات ادھوری چھوڑ چکی تھی۔۔۔کل کا منظر یاد کیے اس کی آنکھوں میں ظالم آنسوں پھر سے تیرنے لگے تھے۔۔
شرمندگی کے آثار حازم کے چہرے پر بھی چھائے تھے۔۔
ائم سوری سمی۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔
اب کبھی تمہیں کوئی دکھ نہیں دوں گا۔۔سمیٹ لوں گا تمہارے سب غم خود میں۔۔۔
وہ سماہرا کو شدت سے خود میں بھینچے احساس ِ ندامت سے بول رہا تھا۔۔۔۔
سماہرا ترسی حازم کی محبت کو۔۔۔۔
ایک بار پھر وہ اس بے وفا پر اعتبار کرنے جا رہی تھی۔۔
لیکن شائد وہ یہ بھول چکی تھی۔۔۔
انسان بے شک بدل جائے لیکن اس کی خصلت نہیں بدلتی۔۔۔
آج ہم پورا دن ساتھ گزاریں گے۔تمہاری پسندیدہ جگہ پر۔۔جس میں صرف تم ، میں اور ہمارا بچہ ہو گا۔۔
وہ اس کا چہرا اوپر کیے مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
کوئی وعدہ نہیں پھر بھی 

انتظار تھا تیرا 

دور ہونے _______پر بھی 

اعتبار تھا تیرا

نا جانے کیوں بے رخی کی

تم نے ہم سے

کیا کوئی ہم سے زیادہ بھی

طلبگار تھا تیرا.



وہ دونوں اس وقت ساحل ِ سمندر پر موجود تھے۔۔۔
وہاں کی گیلی ریت پر چلتے خود کی روح کو سکون پہنچا رہے تھے۔۔حازم کا ایک ہاتھ پاکٹ جب کہ دوسرا اس کی گرد لپٹا ہوا تھا۔۔سمندر کی اٹھتی موجوں نے ایک الگ موسیقی برپا کی ہوئی تھی اس پر ستم شام کا ڈھلتا سورج ۔۔۔یہ جگہ سماہرا کی پسندیدہ جگہوں میں ایک تھی۔۔
خوش ہو؟
ٹھنڈی ریت پر چلتے ہوئے حازم نے سوال کیا۔۔
بہت۔۔۔۔وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔۔کیونکہ شادی کے بعد پہلی بار وہ اس کے ساتھ باہر گھومنے آئی تھی۔۔
اسکو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ حازم کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ نے رقص کیا تھا۔۔۔
کیا آپ ہمیشہ ایسے رہیں گے؟
مطلب کبھی ناراض تو نہیں ہوں۔۔۔چھوڑیں گے تو نہیں۔۔۔
اس کے سوال پر وہ چلتے چلتے رکا۔۔۔اس کو پوری طرح اپنی جانب گھمایا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر بولا ۔۔
میرا وعدہ ہے۔۔۔اب کوشش کروں گا کہ کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نا دوں۔۔۔۔اور اب تو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔وہ مسکرا کر اس کے وجود کی جانب اشارا کرتے بولا۔۔
جس پر اس نے شرما کر اپنا سر حازم کے سینے پر ٹکا دیا۔۔۔
دور کھڑی قسمت نے قہقہہ لگایا تھا۔۔۔
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے،
وہ قرض ہی کیا جو ادا ہو جائے۔
کچھ وعدے پورے ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جایا کرتے ہیں،
وہ جو اب اپنی زندگی میں خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی ۔۔اسے کیا پتا تھا کہ اس کی یہ خوشیاں ، چہرے کی یہ مسکان مدت کے لئے ہیں۔۔۔
ڈیم اٹ۔۔۔
اس نے زور سے فون دیوار پر مارا تھا۔۔
جس میں کچھ دیر پہلے اس کے گارڈ نے ان دونوں کی تصویریں بھیجیں تھیں۔۔۔
ہاو کڈ یو ڈو دز۔۔۔؟؟؟؟؟
وہ پرفیوم کی شیشیاں زمین بوس کرتے ہوئے بولی۔۔۔
تم میرے ہو۔۔۔۔
صرف میرے۔۔۔۔۔یو آر مائین۔۔۔۔۔۔
اپنے بالوں کو کھینچتے زمین پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔







دو دن بعد۔۔۔۔
حازم آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟؟؟
وہ غصے سے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔
کیا کیا ہے میں نے؟؟
وہ حیرانی سے استفسار کرتے ہوئے بولا۔۔۔
محبت کے وعدے قسمیں میرے ساتھ کھائی ہیں آپ نے اور اپنی بیوی سے نفرت کا دعوا کرنے کے بعد واپس آپ اس کے پاس لوٹ رہے ہیں۔۔
وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔
روباب ڈارلنگ ٹرائے ٹو انڈر اسٹینڈ۔۔شی از ایکسیپٹنگ۔۔۔۔۔
وہ ماں بننے والی ہے میری اولاد کی۔۔جو۔میں کسی صورت اسے کھو نہیں سکتا۔۔۔۔
وہ پیار سے اس کا گال سہلاتے ہوئے بولا ۔۔
اس کا مطلب ۔۔۔آپ مجھ سے اب شادی نہیں کریں گے۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لیے بولی۔۔۔
میں۔۔۔۔
حازم پلیز ۔۔ڈونٹ سے نو۔۔۔
ائے کانٹ لیو ود آوٹ یو۔۔۔
وہ اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے بولی۔۔۔
میں نا کیوں بولوں گا۔۔۔؟؟؟
وہ اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔
ڈو یو لو می۔۔۔؟؟؟؟
وہ اس کے کالر کو تھامے اپنا چہرا اس کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے بولی۔۔
یس۔۔افکورس آئے ڈو۔۔۔
آپ میرا عشق میرا جنون ہیں حازم ۔۔۔۔
تمہیں خبر ہی نہیں ہم کہاں سے گزرے ہیں
تیری تلاش میں ہم دو جہاں سے گزرے ہیں
زمانہ یاد کرے گا اب ہمیں بھی برسوں
کچھ ایسی مثال زمانے سے کر گزرے ہیں
تم بھی جان ہی لو گے جنون عشق کیا ہے
تم یہاں تک تو پہنچو جہاں سے ہم گزرے ہیں
۔





اس کو چہرا دونوں ہاتھوں میں بھرے خمار آلود آواز میں شعری کی صورت میں اپنا حالِ دل بیان کر رہی تھی۔۔۔
آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روباب کی بات سن کر حازم کے اوپر ساتوں آسمان آ گرے تھے۔۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔
حازم بالکونی میں کھڑا سگار کے کش لیتا روباب کی دوپہر میں کی گئی بات پر غور کر رہا تھا۔۔
اس کے لئے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔۔
ایک طرف اس کی محبت تھی ،دوسری طرف اس کی چاہت کسی ایک کا انتخاب کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔۔۔
کیا ہوا آپ کو۔ اتنے پریشان کیوں ہیں؟
سماہرا بالکونی میں اس کے ساتھ کھڑی حازم کے ٹینس چہرے کو دیکھتے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔
کچھ بھی تو نہیں۔۔۔
وہ مسکرانے کی نا کام کوشش کرتے بولا۔۔
اور سماہرا کے چہرے کی جانب نظریں دوڑائیں۔۔جہاں کافی عرصے پر اس کے چہرے پر رونق آئی تھی صرف اس کی تھوڑی سی دی گئی توجہ پر ۔۔۔
اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھا لیتا تو۔۔۔
یہ مسکراہٹ شائد ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاتی ۔۔۔
وہ کیسے اس کی خوشیوں کو دوبارا چھین سکتا تھا۔۔۔