قسط: 8
چاند کی مدھم چاندنی میں ہر چیز اونگھتی محسوس ہو رہی تھی رات کے اس اندھیرے میں وہ بالکونی میں کھڑی تھی ہیں۔۔۔۔
آج تو پہر کی حازم کی بات سن کر کر اس کی خواہش انگلش مایوسی کے اندھیروں میں گم ہو گئی تھی اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کہ بھول جاؤں اسے سے وہ تمہارے نصیب میں نہیں نہیں جبکہ دماغ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ تمہارا عشق ہے،تم اسے حاصل کر سکتی ہو ہو کیا ہوا اگر وہ شادی شدہ ہے ۔۔۔!!!!! مرد پر تو چار شادیاں جائز ہیں۔۔۔۔۔
لیکن میں ایک عورت ہو کر کسی دوسری عورت کا گھر برباد نہیں کر سکتی دل نے دلیل دی تھی۔۔۔۔۔۔
تم کسی کا گھر برباد نہیں کر رہی ۔۔۔تم نے صرف اپنی محبت کو حاصل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ویسے بھی محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے دماغ میں دل کی بات کو پرے دھکیلا تھا۔۔۔۔۔












حازم پچھلے دس منٹ سے گاڑی میں بیٹھا سماہرا کا انتظار کر رہا تھا۔۔روباب نے حازم اور سماہرا کو اپنے گھر میں پارٹی پر انوائٹ کیا تھا جو کہ اس نے بزنس ڈیلنگ کی بنا پر رکھی تھی۔۔۔جس میں اس کے سرکل میں موجود جاننے والے ، دوست وغیرہ بھی موجود تھے۔
گاڑی کے اس پار سے اسکو سماہرا اپنی جانب آتی نظر آئی اس کو دیکھ کر اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔
یہ کیسی ڈریسنگ کی ہے تم نے؟
کوئی دھنگ کا ڈریس نہیں ہے تمہارے پاس؟؟
یہ تنبو پہن کر کوئی پارٹی میں جاتا ہے
وہ ناگواری سے اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔
جس نے شلوار سوٹ میں ڈوپٹہ سر پر اوڑے اور شانوں کے گرد شال لپیٹی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا ؟ ٹھیک تو ہے۔۔۔ وہ حیرانی سے استفسار کرتے ہوئے بولی۔۔۔
دروازہ بند کرو۔
وہ سماہرا کی بات کو سرے سے اگنور کرے گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔۔پورا راستہ خاموشی میں کٹا تھا۔۔۔












اس تنبو کو اتارو فوراً۔۔۔
میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے کہیں کہ میر حازم ایک کارٹون کو لے گھوم رہا ہے۔
منزل پر پہنچنے کے بعد حازم نے سماہرا کو گاڑی میں سے اترنے سے پہلے کہا۔۔۔۔
جبکہ سماہرا اس کی بات پر حیرت کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔۔کہ کیسا شوہر ہے جو اس کو صرف شال لینے کی بنا پر کارٹون کا خطاب دے رہا تھا۔۔۔
پر۔۔می۔۔میں کیسے ۔۔مجھے بہت عجیب فیل ہو گا۔۔۔وہ منمنناتے ہوئے بولی۔۔
اور اگر میں تمہیں اس حالت میں اپنے ساتھ اندر لے کر گیا تو مجھے بہت عجیب فیل ہو گا۔۔۔
تو مت لاتے نا آپ۔۔۔!!!!!!
وہ بھرائی آواز کے ساتھ بولی تھی۔
صحیح ہی تو کہہ رہی تھی اگر اتنی ہی اس کو ریپوٹیشن کی فکر تھی تو لے کر ہی کیوں آیا تھا۔۔۔
اس نے منتیں تو نہیں کیں تھیں۔ہمیشہ وہ اس کی ذات کی تذلیل کرتا تھا۔۔۔صرف اس بنا پر کہ اس کا تعلق میڈل کلاس گھرانے سے ہے۔۔۔وہ لوگ ان کے اسٹینڈرڈ کے نہیں۔۔۔۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں ۔۔زبان چلانے والی عورتیں سخت ذہر لگتی ہیں۔۔
تم سے جتنا کہا گیا ہے بس اتنا کرو ۔۔۔
زیادہ چپڑ چپڑ نا کرو تو بہتر ہو گا ۔۔۔ہم دونوں کے لئے۔۔
اس کی کلائی سے تھامے اسکو اپنی جانب کھینچ کر پھنکارتے ہوئے بولا۔۔۔
اور دوسرے ہاتھ سے سماہرا کی شال اس کے وجود سے جدا کی۔۔۔
یہ بات یاد رکھ لو اب تم بد قسمتی سے ہی صحیح لیکن میرے ساتھ میری بیوی کے حق سے رہ رہی ہو۔۔۔تو اپنی جتنی بھی مڈل کلاس والے چونچلے ہیں وہ ختم کر دو۔۔۔۔
وہ اس کی کلائی پر گرفت مزید سخت کرے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔
جب وہ اس کی سخت گرفت سے اپنی کلائی نکالنے کے کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
سماہرا اسے افسوس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔اس کا دل چا رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے۔۔۔۔شائد وہ پہلا ایسا شوہر تھا۔۔ جو اپنی ہائے کلاس سوسائٹی کی وجہ سے اپنی ہی بیوی کو بے پردہ کر رہا تھا۔۔
یا شائد اور بھی ایسے شوہر پائے جاتے ہونگے۔۔
جو اپنی عزتوں کو یوں بے پردہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔پر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ اس جہالت کو موڈرن فیشن کرارا دیتے ہیں۔۔۔
وہ دونوں اندر کی طرف آئے جہاں پارٹی عروج پر تھی۔روباب انہیں دیکھ کر ان کی جانب آئی جبکہ حازم کی ہمیشہ کی طرح آج بھی اس حور شمائل دوشیزہ کے حسن میں کھو گیا تھا۔۔۔۔وہ بلیک رنگ کی لانگ میکسی میں لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔ہاو آر یو۔۔۔۔
ائم ہیپی اینڈ سرپرائز ۔۔۔۔!!!!!
وہ ان دونوں سے ملتے ہوئے بولی۔۔۔۔اور ایک نظر حازم کے پہلو میں موجود لڑکی کو دیکھا جو کہ ڈوپٹہ سیٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔
جب کوئی اتنے پیار اور دل سے بلائے گا تو کون منا کرے گا بھلا۔۔۔۔۔
وہ محبت بھری نظروں سے اس کو دیکھ کر بولا۔۔
سماہراا۔۔۔۔۔ملو ان سے یہ میری بزنس پارٹنر۔۔۔
اور اب فرینڈ مس روباب ہیں۔۔وہ سماہرا کو دوپٹے کے ساتھ لگا دیکھ بظاہر مسکراتے، لیکن اپنے فضول میں آنے والے غصے کو پیتے ہوئے بولا۔۔۔
جی۔۔۔جی۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔
وہ سنبھل کر بولی۔۔۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔
روباب کو لڑکی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
وہ سماہرا کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کو خوش قسمت محسوس کر رہی تھی۔۔۔لیکن اگر وہ اس کی دل کی دنیا کا سفر کر لیتی تو شائد یہ خیال وہ اپنے ذہن سے نکال۔دیتی ۔
اس کی معصومیت دیکھ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ جیسا اس نے سوچا وہ سب نا کرے وہ اس معصوم کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔۔
لیکن ابھی وہ ان تمام سوچوں کو جھٹکتے اندر کی جانب لے گئی۔۔۔۔
یہ آپ کی وائف ہیں؟؟
پارٹی میں موجود ایک لڑکی نے آ کر حیرت سے حازم سے کہا۔۔
یس۔۔۔
او۔۔۔!!!!
ہمیں تو لگا آپ کی وائف کوئی ماڈرن ہوں گیں۔۔۔۔بٹ یہ تو۔۔۔۔
وہ سماہرا کو حقیر نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
مس۔۔اٹس نون آف یور بزنس۔۔میری مرضی میں جس سے بھی شادی کروں ۔۔۔اور آپ کون ہوتی ہیں میری وائف بارے میں بولنے والی۔۔
حازم کو اسکا سماہرا کے لئے اس طرح کہنا کافی ناگوار گزرا تھا۔۔جو بھی تھا ، جیسا بھی تھی۔۔۔تھی تو وہ اس کی بیوی ہی۔۔۔
انجلینا آپکو آپکے فادر ڈھونڈ رہے ہیں۔۔ روباب معملہ بڑتا دیکھ ان تک آئی اور انجلینا کو وہاں سے بھیجنا چاہا۔۔۔۔وہ منہ بناتی وہاں سے جا چکی تھی۔
مسٹرحازم آئیں میں آپ کو اپنے انکل سے ملاتی ہوں۔
تم ادھر ہی رکو۔۔۔
کہیں جانا نہیں ۔میں ابھی آیا۔۔
جی بہتر۔۔
روباب اور حازم دونوں جا چکے تھے۔۔۔جب کہ وہ اکیلی کھڑی ماحول کا جائزہ لے رہی تھی۔۔
کہ اس کو اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔
اس نے آس پاس دیکھا تو اس کی نظر کارنر ٹیبل پر بیٹھے ایک شخص پر گئی۔۔۔
جو کہ گرے کوٹ پینٹ پہنے ، ہاتھوں میں وائن کا گلاس تھامے پینا پلکیں جھپکائے اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
سماہرا کو اسکی نظریں خود کا ایکسرے کرتی محسوس ہوئیں۔۔۔اس نے گھبرا کر۔۔
حازم کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن وہ دونوں اس کو کہیں نظر نا آئے۔۔۔
وہ اس کی نظروں سے بچتی باہر پول کی سائیڈ پر آگئی ۔وہ وہاں کھڑی پول کے پانی کو دیکھ رہی تھی جس میں پورے چاند کی چاندی کا عکس پڑ رہا تھا اور پانی میں اٹھتی موجوں سے وہ اس کو اپنے نصیب کی مانند ہلتا محسوس ہو رہا تھا۔
تم بھی میری طرح تنہاں ہو۔
جیسے اتنے سارے تاروں کے بیچ میں بھی تم اکیلے ہو۔۔بالکل اسی طرح میں بھی یہاں اپنے جیسے ہی انسانوں کے بیچ تنہاں ہوں۔۔۔
وہ چاند کو دیکھتے ہوئے اپنا درد اس سے بانٹ رہی تھی کہ اس کو اپنے کندھے پر ایک انجانا لمس محسوس ہوا۔۔اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو وہاں وہی شخص اپنی وجاہت کے ساتھ کھڑا تھا۔۔جو کہ تقریباً پینتیس کے لگ بھگ عمر کا ہو گا۔۔
وہ جلدی سے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔
آپ یہاں اکیلی کیا کر رہی ہیں؟
وہ اس کا گھبرانا محسوس کر چکا تھا۔۔۔اس لئے آرام سے استفسار کرتے ہوئے بولا۔۔۔
وہ بنا جواب دیے واپس جانے لگی تھی کہ یکدم اسکا پاوں موڑا ۔۔۔
اس پہلے کہ وہ گرتی اس شخص نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے کیا ۔۔جس سے وہ اس کی بانہوں میں قید ہوئی۔۔دونوں کی دھڑکنیں یکدم تیز ہوئیں تھیں۔۔۔
ایک کی محبت سے۔۔
جبکہ دوسرے کی خوف ، غصے اور غم سے۔۔
حازم جو سماہرا کو ڈھونڈتے ہوئے باہر آیا تھا اس کو کسی غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا تھا۔۔
وہ جلدی سے ان تک آیا اور کھینچ کر ان کو الگ کیا۔۔۔۔
ہاو ڈیر ۔۔یو ٹچ مائے وائف۔۔۔
وہ اس کا کالر کھینچتے ہوئے بولا۔۔۔
جبکہ لفظ وائف پر وہ حیرت سے سماہرا اور حازم کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار اس کا دل جس لڑکی پر آیا اور وہ بھی شادی شدہ۔۔۔۔
ائم سوری۔۔میں تو جس ان کی ہیلپ کر رہا تھا۔۔۔
اگر میں نہیں پکڑتا تو وہ پول میں گر جاتیں۔۔۔
وہ صفائی دیتے ہوئے بولا۔۔۔
تو گر جانے دیتے۔۔۔۔
حازم۔۔۔۔۔۔سماہرا نے خوف سے لبریز چہرے کے ساتھ اس کو پکارا۔۔۔
اس نے گھور کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔اور چلا کر بولا۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔
مسٹر سلمان ۔۔اٹس کا لاسٹ وارنگ فار یو۔۔۔
وہ انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔۔
وہ کھینچ کر سماہرا کو لیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
اور سیدھا لا کر اس کو گاڑی کے ساتھ پن کیا۔۔۔
بہت شوق ہے تمہیں غیر مرد کی بانہوں کا ہار بننے کی۔۔۔وہ اس کو جبڑے کو دبوچتے ہوئے بولا۔۔۔
ن۔نہیں۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔۔
وہ اٹک اٹک کے بولی تھی۔۔۔جبکہ ظالم آنسوں نا چاہتے ہوئے بھی آنکھوں سے پھسلے تھے۔۔۔۔
ویسے تو بہت پارسا بنتی ہو۔۔۔اب کہاں گئی تمہاری وہ پارسائی۔۔۔
آپ میری۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔
وہ دھاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔خوف سے اس نے اپنی آنکھیں میچیں تھیں۔
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔رہ رہ کر اس کو وہ لمحہ یاد آ رہا تھا۔۔جب سماہرا سلمان کی بانہوں میں تھی۔۔۔
وہ تو اس سے نفرت کا داوے دار تھا پھر اسے کیوں برا لگ رہا تھا۔۔۔
کہتے ہیں نکاح کے بعد اپنے محرم سےمحبت ہو جایا کرتی ہیں۔۔۔
بس اسے سمجھنا۔۔صرف انسان کو خود چاہیے۔۔۔