قسط: 9
وہ رش ڈرائیونگ کرتا گھر تک پہنچا۔۔۔ دو مرتبہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔سماہرا ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔گاڑی لاتے اس نے پارکنگ میں کھڑی کی اور بنا اس کی جانب دیکھے سیدھا اوپر چلا گیا۔۔
اس نے کمرے میں داخل ہونے کے لئے جیسے ہی ناب گھمایا تو دروازہ اندر سے لاک تھا۔۔حازم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی لاک لگا دیا جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اس کی موجودگی نہیں چاہتا۔۔۔
وہ پانچ منٹ دروازے سے سر ٹکائے کھڑی رہی پھر مایوسی سے اس بند دروازے کو دیکھ انکھوں سے نکلتے آنسوں کو صاف کرتی نیچے شمائلہ بیگم کے روم میں آ گئی۔۔
کمرے میں داخل ہو کر ایک گہرا سانس لیا تھا اس نے۔۔۔
جیسے اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنا چا رہی ہو۔۔
پھر دھیمے قدم لیتی کھڑکی کے پاس آئی۔۔
مما آپ نے کہا تھا !! حازم مجھ سے پیار کرتے ہیں۔۔۔
لیکن وہ پیار کیا، وہ تو سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے۔۔۔
وہ آسمان کی جانب دیکھتے خیالوں میں شمائلہ بیگم سے باتیں کرتے ہوئے بولی۔۔۔
آپ اللّٰہ تعالیٰ سے کہیں نا ان کے دل میں میرے لئے محبت ڈال دیں۔۔۔۔۔۔
دوسری جانب حازم سیگریٹ لبوں میں دبائے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔۔۔اس کی اطراف میں سارا دھواں پھیلا ہوا تھا۔ سلمان کی آنکھوں میں سماہرا کے لئے پسندگی دیکھ کر اس میں ایک لاوا سا ابل رہا تھا۔۔۔۔
کہاں برداشت تھا اس سے کہ کسی کی بھی نظر اس کی چیز پر پڑے۔۔۔
چاہے وہ پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چیز اس کی غیرت کو للکار رہی تھی کہ اس کی بیوی پر کسی غیر مرد کی نظر ہے۔۔۔۔۔
اس کی غیرت تب کہاں تھی جب وہ اپنی بیوی کو بنا پردے کے غیروں مردوں کے سامنے پیش کر رہا تھا۔۔۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
“مرد اپنی گاڑیوں کو گرد و غبار کے ڈر سے
ڈھانپ لیتے ہیں لیکن اپنے گھر کی عورتوں
دنیا کی غلیض نظروں سے بچانے کے لئے پردہ
نہیں کرواتے۔”

اس واقعے کو گزرے پورے دو دن بیت چکے تھے۔۔ ان دونوں کا ابھی تک ایک دوسرے سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔۔۔حازم جو پہلے تھوڑی بہت کر لیتا اس کے بعد سے وہ بھی ترک کر چکا تھا۔وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے نکل جاتا اور رات کو دیر سے لوٹتا تھا۔
سماہرا روز رات کو کھانا لگا دیتی تھی۔۔لیک۔ صبح اٹھ کر ٹیبل پر ویسے ہی پاتی تھی۔وہ بہت زیادہ دل
برداشتہ ہو چکی تھی ٹینشن کے بعض اس کی صحت بھی دن بدن گرتی جا رہی تھی۔۔۔۔اس نے فیصلہ کیا تھا وہ حازم کے منا لے گی۔ پر کیسے؟؟؟
یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔









ہیپی برتھ ڈے ۔۔حازم۔۔!!
حازم آفس کا کام کر رہا تھا ۔۔کہ روباب آفس کا کانچ کا دروازہ دھکیلتی اپنی مغرور چال چلتی حازم کے پاس آئی۔۔اس سے گلے ملتے اس کی سالگرہ وش کی۔۔۔۔
واو۔۔۔واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز مس روباب۔۔۔
وہ خوشی سے سرشار ہوتے ہوئے بولا۔۔۔
آپ کیسے پتہ آج میری برتھ ڈے ہے؟؟؟؟
وہ اتنا ٹینس تھا کہ آج اپنی سالگرہ بھی بھولا بیٹھا تھا۔
بزنس پاٹنر کے ساتھ ہم اب اچھے فرینڈز بھی ہیں۔۔۔
سو۔۔۔۔یہ میرے لئے اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔
وہ ایک ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوئے بولی۔
اس نے انداذ نے حازم کے دل کی دنیا کو ہلایا تھا۔۔۔۔
سو۔۔حازم میں آپ لئے یہ گفٹ لائی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ آج آپ یہ پہن کر اپنے کچھ قیمتی لمحات میرے نام کریں۔۔۔آج کی ٹریٹ آپ کو میری طرف سے۔۔۔
وائے ناٹ۔۔اینڈ تھینک یو۔۔۔۔۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا۔۔










میں کیا کروں ماہی؟؟
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔وہ اتنا ذیادہ ناراض ہو چکے ہیں۔۔۔کیسے مناوں انہیں۔۔؟؟
وہ پریشانی سے فون پر موجود اپنی بہن سے گویا ہوئی۔۔۔
اچھا سمی میری بات سنو۔۔۔
تم بھائی کو اپنی پریگنینسی کے بارے میں بتایا ہے کیا۔۔؟؟
نہیں ۔۔۔
کیا۔۔!!!!
تم پاگل ہو۔۔تمہیں بھائی کو بتانا چاہیے۔۔
اگر بھائی کو پتا چلے کہ وہ باپ بننے والے ہیں تو وہ کتنا خوش ہونگے۔۔اور سارے گلے شکوے بھول جائیں گے۔۔۔
میں نے بتانے کی کوشش کی تھی مگر ٹائم ہی ملا۔۔
میری بات مانو تو تم بھائی کو اسپیشل طریقے سے مناو۔۔
کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟
اف لڑکی۔۔۔میں تو کنواری ہوں ابھی۔۔۔اور تم شادی شدہ ہو کر مجھ سے مطلب پوچھ رہی ہو۔۔۔
ماہی اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی۔۔جبکہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر شرم سے اس کا چہرا سرخ ہو چکا تھا۔۔
تم کیا اول فول بول رہی ہو۔۔۔چھیچھوری کہیں کی۔۔
مجھ سے نہیں ہو گا یہ سب۔۔۔
وہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا میری ماں جیسی تمہاری مرضی۔۔اب مجھے بخشو آج چھوٹے کی برتھ ڈے ہے اس کی تیاری کرنی ہے۔۔
اور وہ تمہیں سب سے ذیادہ مس کر رہا ہے۔۔۔۔
ہہہممم پہلی ایسی سالگرہ ہے جس میں ، میں موجود نہیں ہونگی۔۔وہ مایوسی سے بولی۔۔۔
او تیری ۔۔۔۔۔
کیا ہوا!!! ماہی نے کہا۔۔۔
آج ،۔۔۔۔آج تو حازم کی بھی برتھ ڈے ہے۔۔۔۔۔۔۔
ان کی برتھ ڈے بھی چھوٹو کے ساتھ آتی ۔۔
یار دیکھو میں کتنی بھلکڑ ہو گئی ہوں۔۔۔۔
واو۔۔۔۔اٹس آ بیسٹ آئڈیا۔۔۔
تم ایک کام کرو ۔۔پیارا سا تیار ہو۔۔۔اور آج ان کی سالگرہ والے دن ان کو باپ بننے کی خوشخبری بھی دے دو۔۔۔
ہمم اوکے میں بعد میں بات کرتی۔۔۔منے کو پیار کرنا میری طرف سے۔۔۔
اللہ حافظ۔۔۔۔







حازم نے جب گفٹ کھولا تو اس میں بلیک رنگ کی شلوار قمیض ، برانڈڈ واچ ۔۔پرفیوم تھے۔۔۔۔
اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ نے رقص کیا تھا۔۔
وہ اپنے آفس میں موجود اسپیشل روم میں تیار ہوا۔۔۔
اور اپنی تیاری پر آخری نظر ڈال مسکراتے ہوئے باہر کی جانب گیا۔۔۔
ریسٹورنٹ میں گاڑی موڑنے سے پہلے اس نے کچھ گفٹ لینے کا ارادہ کیا۔۔لیکن کچھ یاد آنے پر گاڑی گھر کی جانب موڑ لی۔۔








گھر پہنچ کر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو۔۔۔
اس کی نظریں پلٹنا بھول گئیں۔۔۔کیونکہ سامنے ہی سماہرا شیشے کے سامنے کھڑی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔
لانگ ریڈ رنگ کی فراک ، اس پر ڈارک میک اپ کیے،
اپنے ہونٹوں کو سرخ لپ اسٹک سے رنگے۔۔۔
تمام رعنائیوں کے ساتھ اس کے سامنے تھی۔
سماہرا کو اپنی گردن پر کسی کی گرم سانسیں محسوس ہوئیں تو اس نے شیشے میں سے دیکھا تو ایک پل کے لئے اس کا سانس اٹکا تھا۔۔۔۔کیونکہ حازم مدہوش سا اس کے پیچھے کھڑا تھا۔
بیوٹیفل۔۔۔مائے ایشین بیوٹی۔۔۔۔
وہ خمار آلود آواز میں بولا۔۔۔
اس کی بات پر سماہرا کی پلکیں لرزیں تھیں۔۔۔
وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اس کو دیکھ کر مدہوش ہو جاتا ،۔۔۔یہاں تو پھر اس کا شوہر تھا۔۔۔
سماہرا نے اپنا رخ حازم کی جانب کیا ،
حاز۔۔۔۔سششش۔۔۔۔۔
اس نے سماہرا کے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر خاموش کروایا۔اس نے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر وہ ایک سحر میں جکڑا جارہا تھا۔۔۔پورے کمرے میں فسوں سا چھایا تھا۔۔۔صرف دو لوگوں کی سانسوں کی آوازیں تھیں۔۔۔
حازم مدہوش سا اس کے چاند سے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔اس کے دل میں ایک خواہش سی جاگی تھی۔۔وہ جیسے ہی اپنی خواہش پر لبیک کہتا اس کر چہرے پر جھکا تھا۔۔سماہرا کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی جسے سنتے ہی وہ فوراً سے ہوش میں آیا تھا۔۔اور جھٹکے سے اس سے دور ہوا۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے حازم۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بول رہی تھی کی یکدم زور دار جھٹکا لگنے کے باعث کو پیچھے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب گری تھی۔۔۔
یہ۔۔یہ میں کیا کرنے جا رہا تھا۔۔۔
میں نفس کا کمزور نہیں ہو سکتا۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔وہ چیختے ہوئے بولا۔۔۔۔
اسے یاد آیا اس کو روباب کے پاس ڈنر پر جانا تھا ۔۔۔۔
وہ تو گفٹ لینے یہاں آیا تھا کیونکہ اس نے ایک بہترین ڈائمنڈ سیٹ رکھا ہوا۔۔۔۔جو کہ صرف اپنی من چاہی بیوی کو دینا تھا۔۔۔بیوی من چاہی نا ملی تو کیا ہوا اس نے سوچا کہ وہ یہ سیٹ روباب کو دے گا۔۔جبکہ اس کی اصل حقدار سماہرا تھی۔۔۔
وہ غصے سے سماہرا کی جانب بڑا جو کہ صدمے میں کھڑی اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
کتنی دفع کہا ہے اپنا یہ منحوس چہرا لے کر میرے سامنے مت آیا کرو لیکن بات تمہارے اس چھوٹے سے دماغ میں بیٹھے تو تب نا۔۔وہ ایک ہاتھ سے اس کے دونوں بازوں کو پکڑے غصے اور تیش کے عالم میں بول رہا تھا۔۔جبکہ سامنے موجود سماہرا سر جھکائے آنسوں بہانے میں مصروف تھی۔
یہ سب کر کے تم مجھے اپنے اس حسن کا گرویدا نہیں کر سکتی۔۔جانتا ہوں میں تم جیسوں کو۔۔۔
جو مردوں کو اپنے اس حسن کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں۔۔پر افسوس میں تمہارے اس جال میں پھنسنے والا نہیں ہوں۔ختم کرو یہ سب تماشے۔۔۔
ایک ہاتھ سے اس کے بالوں میں مٹھیوں میں بھینچے
دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر لگی سرخ لپ اسٹک کو غصے سے رگڑتے ہوئے بولا۔۔جو کہ اسے بہکانے کا کام کر گئے تھے۔۔۔اس خود پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔۔
۔پتہ نہیں کیا دیکھ کر موم نے تمہیں میرے سر ڈال دیا ہے۔۔عجیب ہی آزاب ہو ۔۔۔وہ نخوت سے کہتا پیچھے کی جانب دھکا دیے نکلتا چلا گیا۔۔۔جبکہ وہ مسلسل آنسوں بہارہی تھی۔۔اس بے رحم کو اس کے آنسوں تک دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔یا پھر سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ انجان بن رہا تھا۔۔
کیوں۔۔۔کیوں آپ کو میری محبت نہیں دکھتی۔۔؟؟
کتنی محبت سے اس نے یہ سب تیاریاں اس کو سراپرائیز دینے کے لئیے۔کی تھیں۔۔لیکن وہ سنگدل اس کے ارمانوں کا قتل کیے جا چکا تھا۔۔جو لمحات اس کو دینے چاہیے تھے وہ کسی اور نام کر رہا تھا۔۔۔
غصے سے اس نے ہاتھوں میں موجود چوڑیوں کو اتار کر پھینکا تھا۔۔۔کانوں میں پہنے گئے مہنگے جھمکے غصے سے دیوار پر مارے تھے۔۔۔۔
کتنی بد نصیب ہوں میں۔۔۔میرے محرم کی محبت ہی میری سزا۔۔ہے۔۔۔۔
کیوں۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟؟؟
وہ چیختے ہوئے بول رہی تھی۔۔رو رو کر اس کا برا حال تھا۔۔۔روتے روتے ایک دم وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی اور بیڈ پر ہی اوندھے منہ گر گئی۔۔۔
حازم جب رات گئے ایک حسین شام روباب کے ساتھ گزار کر گھر پہنچا تو ایک جھٹکا سا لگا تھا اس کو۔۔۔
کیونکہ کمرے میں سماہرا بے ترتیب حلیے ہیں اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔ڈوپٹہ اسکا زمین پر گرا اپنی نا قدری پر رو رہا تھا۔۔۔جبکہ چوڑیاں کچھ زمیں پر گریں کچھ بیڈ پر۔۔۔۔۔۔۔۔
جاہل لڑکی۔۔۔نخوت سے کہتا کپڑے لئے چینج کرنے چلا گیا۔۔۔
جب وہ چینج کر کے واپس آیا تو اس نے سماہرا کو دیکھا جو ابھی بھی اسی حالت میں لیٹی تھی۔۔
وہ اس کے پاس آیا۔۔
سماہرا۔۔۔سماہرا۔۔۔
۔اس کو آواز دے کر اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔
حازم کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی جہاں لپ اسٹک پھیلی تھی چہرے پر آنسوں کے مٹے مٹے نشانات تھے۔۔
اس کو یک دم فجر لاحق ہوئی تھی۔۔اس نے سماہرا کی نبض چیک کی جو کہ بہت دھیمی چل رہی تھی۔
اس نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا۔۔اور جلدی گھر پر پہنچے کا کہا۔۔۔
اگلے بیس منٹ میں ڈاکٹر ان کے گھر پر موجود تھیں۔۔۔
جو کہ سماہرا کا چیک اپ کر رہی تھیں۔۔۔
کیا ہوا ڈاکٹر۔۔۔از ایوری تھینک از اوکے؟؟؟؟
نو مسٹر حازم۔۔۔
آپکی وائف نے کسی قسم کا ٹینس لیا ۔۔۔جس کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاون ہوا ہے۔۔۔اگر وہ اسی طرح رہیں تو بے بی کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔
جو جتنا ہو سکے انہیں خوش رکھیں۔۔۔ویسے بھی آپ کی وائف بہت ویک ہیں۔۔۔۔
ڈاکٹر بولتی جا رہی تھیں جبکی حازم کا دماغ لفظ بے بی پر اٹکا تھا۔۔۔۔کیا سماہرا پریگننٹ تھی۔؟؟؟ اور اس نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔۔۔
وہ دل میں سوچتے ہوئے بولا۔۔۔
اوکے میں چلتی ہوں۔۔۔اپنی وائف کا خیال رکھیے گا۔۔۔میڈیسن اور ڈائٹ چارٹ ہے۔۔۔اس پر فالو کیجئے گا۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔
ڈاکٹر کہتی اپنی فیس لیے جا چکی تھیں۔۔جبکہ حازم تھکے قدموں سے چلتا اندر آیا جہاں وہ ہر چیز سے بے خبر سکون کی نیند لے رہی تھی۔۔۔
ائم سوری۔۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔
سماہرا کا ہاتھ تھامے اپنی آنکھوں کے ساتھ لگائے بولا۔۔۔
وہ کتنا اس ننی جان کا دل دکھا چکا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل کر سماہرا کے ہاتھ کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔وہ سماہرا کی ماں بننے کی خبر سن کر بہت خوش ہوا تھا۔۔۔۔خاندان میں وہ پہلا بچہ تھا جو ان کے خاندان میں حازم کے بعد آنے والا تھا۔۔۔۔
اس کے دل میں سماہرا کے لئیے محبت پیدا ہو رہی تھی۔۔۔لیکن اپنی انا کے باعت اس چیز کا اعتراف کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔۔۔
اس کا دل دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔۔۔۔