دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

پلوشہ کیچن کے اسٹول پر کھڑی کانچ کے برتن ترتیب سے کیبنٹ کے اوپری کھانے میں لگا رہی تھی ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں ڈوپٹے کو ساڑھی کے اسٹائل میں باندھا تھا بالوں کو ہائی پونی میں قید کیا گیا تھا ابھی آخری پلیٹ اٹھانے کے لئے وہ جھکی ہی تھی کہ اسٹول سے اس کا توازن بگڑا تھا اور وہ نیچے گرنے ہی والی تھی کہ کسی کے مضبوط حصار نے اسے گرنے سے بچایا خود کو ہوا میں ہی محلق پا کر اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں اور خود پر جھکے صائم کو پایا تھا ، پلوشہ کی ٹانگیں اسٹول پر ہی موجود تھی جب کہ اسکی کمر کو صائم کے مضبوط ہاتھوں میں جکڑا ہوا تھا”…
“کیا کرتی ہو بیگم دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا”..؟؟؟
ہنوز اسی پوزیشن میں وہ اسکے چہرے کو دیکھتے سوال کر گیا تھا جبکہ پلوشہ کے چہرے پر ننھے نھے پسینے کے قطرے نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے”…
“آ۔۔۔آپ مجھے اتاریں تو صحیح”…
“کپکپاتی آواز میں وہ پنکھڑیوں جیسے لبوں کو جنبش دیتے بولی تھی”۔
“اوو سوری”…
“صائم نے اسے سیدھا کھڑا تو کر دیا تھا مگر اسکے وجود کو چھوڑا نہیں تھا”…
جانتی ہو اگر میں نہ آتا تو عید سے پہلے تم اپنی ہڈیاں سینکوا چکی ہوتی “….
آنکھیں چھوٹی کیے اس نے مستقبل کا منظر دیکھایا تھا”..
“س۔۔سوری “….
“پلوشہ یہی لفظ سمجھ آیا تبھی بنا سوچے سمجھے کہہ گئی جبکہ صائم کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نے چند لمحوں کے لئے رقص کیا تھا”….
“اونچائی کے کام خود نہ کیا کرو کسی ملازم سے کہہ دیا کرو یا پھر احتشام سے اسکو ٹھوس لہجے میں تلقین کی تھی جبکہ پلوشہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
❤️❤️
سفید رنگ کی گاڑی ایک بلڈنگ کے سامنے رکی تھی جس پر بڑے بورڈ سے “یتیم خانہ ” لکھا گیا تھا”….
اپنے وجود کو کالے رنگ کی شال سے ڈھانپے وہ گاڑی سے باہر نکلی تھی ساتھ ہی ڈرائیور سے کہہ کر سامان نکلوا کر اندر کی جانب لانے کا حکم دیا۔۔۔
اس کے اندر داخل ہوتے ہی بچوں کے چہرے پر مسکراہٹیں کھلی تھیں ہر کسی کے لبوں پر صرف ایک ہی بات تھی۔
“باجی آ گئیں”..!!
“باجی آ گئیں”…!!!
“اسلام علیکم”…
“کیسے ہیں آپ سب”..؟؟؟
اس نے مسکراتے ہوئے بچوں کی جانب دیکھے انہیں سلام کیے خیریت دریافت کی تھی “….
“وعلیکم السلام”…
“الحمداللہ”…
“سب نے باآواز بلند کہا تھا”….
“چلیں جلدی جلدی دسترخوان لگائیں آزان ہونے والی ہے وہاں موجود بچوں کو کہتے ان کے ساتھ مل کر سامان لگوایا تھا”….
آزان کی آواز کے ساتھ ہی سب نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے تھے”…
ذھب الظّما وابتلّت العروق و ثبت الاجر ان شآء اللّہ ”
پیاس ختم ہوئی رگیں تر ہو گئیں اور روزے کا ثواب انشآء اللّہ پکا ہو گیا۔”
وہ جو ہاتھوں میں جوس کا گلاس تھامے ان بچوں کی جانب دیکھ رہی تھی جن کے چہرے پر خوشی و سکون تھا”….
وہاں کی ہیڈ مہوش کی پکار پر ان کی جانب متوجہ ہوئی”…
بیٹا تم ہر ہفتے یہاں آتی ہو ہم سب کے ساتھ وقت گزارتی ہوں افطار کرواتی ہو اس سب محبت کے لئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں ، کیونکہ آج کے دور میں بہت سے امیر لوگ ہوتے ہیں لیکن سب کو اپنے لباس اور کھانے کی فکر ہوتی کوئی ہم بے سہاروں کا نہیں سوچتے کہ روڈ پر پلتے بچے ،تیم خانوں میں موجود لوگ کس طرح زندگی بسر کر رہے ہونگے”….
وہ آبدیدہ لہجے میں بولی تھیں”…
“آنٹی ہر کسی کا اعمال اسکے ساتھ ہوتا ہے،انسان دنیا میں تو آ جاتا ہے لیکن اپنے آنے کا مقصد بھول جاتا ہے کہ خدا نے اسے دنیاوی اشیاء حاصل کرنے کے لئے یہ زندگی عطا نہیں کی بلکہ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے بخشی ہے جس میں ہم بندے اس کی حمد و ستائش کریں اس کے بندوں کی خدمت کریں”…
“اگر خدا ہمیں دولت دیتا ہے تو یہ بھی ایک آزمائش ہوتی ہے”…
“جس میں وہ ہمارا امتحان لیتا ہے کہ ہم اس دولت کو کن چیزوں پر خرچ کرتے ہیں اگر یہی دولت ہم اچھے کاموں کے لئے استعمال کریں تو اس میں برکت شامل ہو جایا کرتی ہے”…
“اور اگر یہی دولت غلط کاموں کے لئے استعمال ہو تو یہ چیز خدا کو ناراض کر دیتی ہے پھر اس پیسے میں برکت نہیں رہتی بلکہ لعنت آ جاتی ہے”….
اور رہی بات افطار کروانے کی تو کسی روزہدار کو روزہ افطار کروانے سےروزہ رکھنے کے برابر ثواب ملتا ہے”….
“قرآن مجید میں ارشاد ہے”..
افطر عندکم الصّآئمونواکل طعامکم الابرار و صلّت علیکم الملائکۃ ”
“روزےدار تمہارے ہاں افطار کرتے رہیں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لیے دعائیں کرتے رہیں”….
“اللہ کی مرضی کے مطابق میری کوئی اولاد نہیں ان بچوں کے ساتھ وقت گزارنے پر دل خوش ہوتا ہے”…
“بے شک روزانہ آ نہیں سکتی لیکن ہفتے کا ایک وقت اپنے بچوں کے لئے مخصوص کیا ہے”…
“ان معصوموں کی کوئی ماں نہیں اور میں کسی کی ماں نہیں”….
اسلئے جب ان بچوں کے ساتھ وقت گزارتی ہوں تو ایک ممتا کا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔کہتے اس کی آنکھوں میں نمی نمایاں تھی اس کے لہجے میں چھپے درد کو مہوش با خوبی محسوس کر سکتی تھی”…
“فکر نہ کرو بیٹا “…
“ان شاءاللہ”…
“خدا تمہیں اولادِ نرینہ سے ضرور نوازے گا”…
“صبر رکھو “…
“کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے”…
“اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے ایک امید دلائی تھی اسے”…
“ان شاءاللہ”…!!
“ان کے ملتے وہ مسکراتے ہوئے باہر گئی تھی”…
“جبکہ پیچھے مہوش نے دل سے اس کو دعا دی تھی”…..
💙💙
“آج سب کو حاشر صاحب کے دوست کی جانب افطار پارٹی میں مدعو کیا گیا تھا سب اسی میں جانے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے”….
فریال نے بھی ساحرہ بیگم کے زبردستی کہنے پر کالے رنگ کی فل ساڑھی پہنی تھی جس میں وہ کافی دلکش حسینہ معلوم ہو رہی تھی بالوں کو جوڑے میں قید کیا تھا اور ساتھ ہی اس میں سے کچھ زلفیں چہرے پر نکالی تھی ہونٹوں پر لگائی گئی وہ آتشی سرخی اسکے حسن کو مزید نکھار رہی تھی”….
“ساڑھی کا پلو دوسرے کندھے کے گرد لپیٹے وہ لان میں کھڑی باقی افراد کا انتظار کر رہی تھی لیکن اس کی نظر سامنے سے آتے موحد پر پڑی تھی جو کہ سفید رنگ کی شیروانی پہنے کافی منفرد لگ رہا تھا”…
“موحد آ کر گاڑی کی ایک سائڈ پر کھڑا ہو گیا تھا اس نے بس ایک نظر فریال کی جانب اٹھائی تھی اور پھر کیا تھا نظریں پلٹنا بھول گیا تھا وہ “….
م۔۔موحد میں آپ کا سوٹ پریس کر کے آئی تھی، آپ نے وہ نہیں پہنا”؟؟
“موحد ” کو شلوار قمیض میں ملبوس دیکھ وہ اداسی سے بولی تھی”..
“اسکی آواز پر وہ ہوش میں آیا تھا”…
سوری ” فریال ” وہ دراصل ! سحرش نے مجھ سے خواہش کی تھی کہ ” میں یہ پہنوں “…
“اتنی چاہت سے لائی تھی وہ کہ انکار نہیں کر سکا”…
“وہ ‘ اس کو نارمل لہجے میں بولا تھا لیکن لہجہ شائد جان چھڑانے والا تھا”…
لیکن اسکا یہی انداز کسی اور کے دل کو ٹھیس پہنچا گیا تھا”…
“آپ کو سحرش کی خواہش دیکھتی ہے مگر میری ، ” میری خواہش ، میری خوشیاں نظر نہیں آتیں”….
“وہ آنکھوں میں نمی لیے سامنے کھڑے اپنے شوہر سے سوال کر گئی تھی”..
“کتنی چاہت سے اس نے موحد کے لئے ” وہ شرٹ خریدی تھی”۔۔۔
“اسکے دھوکے اور بے وفائی کو بھی نظر انداز کیے ،” ناراضگی بھلائے شرٹ کو نکال کر آئی تھی ، صرف اسلئے کہ “اس کو امید تھی” کہ وہ پہن لے گا”…
“لیکن نہیں”….
“وہ غلط ثابت کر گیا تھا اسے”….
آہستہ آہستہ اس کے خوابوں کو پورا ہونے سے پہلے ہی توڑ رہا تھا وہ”…
“فری”..
“بھائی”…
“دیکھیں ٹھیک لگ رہی ہے نا”..؟؟؟؟
“مطلب بری تو نہیں لگ رہی”…؟؟؟
“صارم شرٹ کے بٹن بند کرتا فریال اور موحد کے پاس آیا تھا”….
“تم نے میری شرٹ پہن لی”…؟؟
“تمہارے کپڑے کہاں ہیں”…؟؟؟
“وہ شرٹ صارم کے وجود پر دیکھ “موحد ” کی تیوری چڑی تھی٫”…
“سوری بھائی”…
“دراصل ،” میرا سوٹ کیل میں اٹک کر پھٹ گیا تبھی ،مجھے ڈریسنگ میں یہ شرٹ نظر آئی تو پہن لی، پریس بھی ہوئی تھی”.. اور ” اچھی بھی تھی تبھی لحاظ نہ کیا۔
فری”…بتائیں کیسا لگ رہا ہوں”…
بالوں کو ایک ادا سے سیٹ کیے ، ” اس نے فریال کو دیکھ پوچھا آنکھوں میں نمی ہونے کے باوجود وہ مسکرا دی تھی صارم کی ادا پر۔۔
بہت اچھے اور کیوٹ لگ رہے ہو”…
ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ شرٹ صرف بنی ہی تمہارے لئے ہے۔۔۔
ایک اچٹتی نگاہ موحد پر ڈالے ،وہ دل سے صارم کی تعریف کر گئی تھی۔
اور کوئی شک بھی نہ تھا”…کیونکہ ” وہ واقعی اس شرٹ میں کافی وجیہہ لگ رہا تھا جہاں اس کی بات سن صارم کا دل باغ باغ ہوا وہیں موحد پہلو بدل کر رہ گیا ۔۔۔
❤️❤️
“زید صاحب”…
“کل گھر کے کاغذات مجھے واپس اس کی اپنی جگہ پر موجود چاہیے ہیں”….
“کمرے کی خاموشی کو چیرتی سعدیہ بیگم کی آواز زید صاحب کے کان کے پردوں سے ٹکرائی تھی”….
“وہ کچھ بولے نہ تھا بس خاموش تھے”…
“شائد کسی گہری سوچ میں”…
“بعض اوقات بچوں کی بے جا خواہشات والدین کو غلط اقدام اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہیں جس میں وہ نفع یا نقصان نہیں سوچتے ، بس ان کی کوشش ہوتی ہے کسی طرح ہم ان کی خواہشات کو پورا کر دیں”…
کچھ ایسا ہی حال اس وقت ذید صاحب کا تھا ، جو اپنی چھوٹی صاحبزادی کی خوشیوں کی خاطر اپنا گھر داؤ پر لگانے جا رہے تھے”….
لیکن سعدیہ بیگم کی باتوں کو سوچتے ہوئے انہیں محسوس کرتے ہوئے کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے کاغذات واپس لے لئے تھے، کیونکہ وہ سود نہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔۔۔۔
💗💗
احتشام کب سے سامنے بیٹھا گرم بھٹی پر جل رہا دلنشین کو اپنے پاپا کے دوست کے بیٹے کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے دیکھ،
اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ یا تو اس لڑکے کو کہیں غائب کر دے یا دل کو۔۔۔۔
دلنشین احتشام کو انگاروں پر لٹتا دیکھ رہی تھی لیکن اگنور کر گئی لیکن اس کی یہی حرکت احتشام کو آگ لگا گئی۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور ایک چکر باہر لان کا لگا کر ان کے پاس آیا۔
“ایکسکیوز می”….
“سامنے بیٹھے لڑکے سے مخاطب ہوا تھا جو کہ کب سے دلنشین سے فری ہونے کی کوشش کر رہا تھا، آپ کو باہر کوئی بلا رہا ہے”…
وہ نہایت سنجیدگی سے بولا تھا”…
“اوکے ڈئیر ویٹ آئی ویل کم بیک”….
“وہ دلنشین سے مسکراتے ہوئے بولا تھا اور باہر چلا گیا تھا لیکن اب اس لڑکے کی جگہ احتشام بیٹھ چکا تھا جسے دیکھ دل نے ناگواری سے آنکھیں گھومائی تھیں اور اٹھ کر جانے لگی تھی کہ احتشام نے اسکا ہاتھ تھام واپس بیٹھایا”…
“شرافت سے بیٹھی رہو”…
“وہ دبے دبے لہجے میں غرایا تھا لیکن چہرے پر مسکان نمایاں تھی کہ کسی کو کچھ غلط محسوس نہ ہو”…
“ہاتھ چھوڑو میرا احتشام”…
وہ دانت پیستے ہوئے غصے سے بولی تھی اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھوں سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگی”..دل یہ ہاتھ تو مرتے دم تک نہیں چھوڑونگا چاہے تو کوشش کر لو”…وہ چیلنج کرتے ہوئے بولا تھا لیکن دلنشین نے کان نہ دھرا تھا اس کی بات پر”…
“شام چھوڑو میرا ہاتھ ورنہ اچھا نہیں ہو گا، وہ ماتھے پر بلوں کا جال سجائے بولی تھی”….کہا نہ نہیں چھوڑونگا”…
“وہ اسکی انداز میں بولا تھا اور ایک ہاتھ سے فون یوز کرنے لگا”…
“مرو تم”….
“ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی تھی اور اٹھنے لگی”….
“لیکن احتشام کے لفظوں نے اسکے قدم جکڑ لئے”….
“اگر تم یہاں سے اٹھی تو اچھا نہیں ہو گا دل تمہارے لئے یہ تم بھی بہتر جانتی ہو اس لئے یہاں ہی بیٹھی رہو “…
“کہتا وہ فون میں مصروف ہو گیا جبکہ اسکی بات سن وہ کاٹ دار نظروں سے اسے دیکھ سائڈ پر ہو کر بیٹھ گئی تھی سب اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے تبھی ان کی طرف کسی کا دھیان نہ گیا تھا”…
💖💖😬
فریال سائیڈ ٹیبل کے پاس کھڑی دور سے سحرش اور موحد ہو ہنستے مسکراتے باتیں کرتا دیکھ کر خود کو کم تر محسوس کر رہی تھی بے اختیار ہی اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے ، اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے لمبی سانس بھر کر خود کو حوصلہ دیتی عجلت میں باہر جانے کے لئے مڑی تھی کہ بے اختیار کسی چٹانی وجود سے ٹکرائی تھی۔
آؤچ۔۔۔۔ سر کو تھام کر آنکھیں اٹھاتے ہوئے آنے والی ہستی کو دیکھا جہاں شلوار سوٹ میں ملبوس ایک نوجوان کھڑا اس سے معذرت کر رہا تھا جب کہ اس کے پہلو میں موجود ایک نازک سی لڑکی شائد اس کی بیوی تھی۔
آئی ایم سوری مس۔۔۔۔، ابھی وہ باقی کے لفظ کہتے ہوئے معذرت کرنے لگا تھا کہ وہ اٹس اوکے کہہ کر دوسری جانب چل دی جب کہ غازی کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا تھا لیکن پھر غزل کے پکارنے پر ہوش میں لوٹا۔
غازی۔۔۔۔چلیں اندر؟
ہممم۔۔۔۔سر کو ہلکے سے جنبش دیتے ہوئے مدھم سا مسکراتے ہوئے وہ اندر کی جانب بڑھ گئے۔
ویلکم ویلکم ، مسٹر غازی میرے شیر۔۔۔۔۔
فاران صاحب نے کھڑے ہوتے گرم جوشی سے غازی کو اپنے گلے لگایا۔
السلام علیکم ماموں۔۔۔۔
غزل اور غازی نے بیک وقت سلام کیا تھا جس پر انہوں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے دعا دی اور پھر حاشر صاحب سے اس کا تعارف کروایا۔
حاشر اس سے ملو ، یہ میرا بھانجا غازی اور اس کی بیوی غزل ہے۔۔ ماشاءاللہ بہت لائق بچے ہیں۔
ہاہاہا ، فاران ویسے تمہارا بھانجا پوری تمہاری کاپی ہے ، وہی تمہارے جوانی والے نقش۔۔۔۔
غازی کے کندھے تھپک وہ مسکراتے ہوئے بولے جس پر فاران صاحب نے فخریہ کالر جھاڑے۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial