قسط: 11
کمرے کے گہرے اندھیرے میں موحد بہت گہری سوچ میں محو تھا اس نے ایک نظر پہلو میں سوتی سحرش کو دیکھا تھا جو کہ سکون کی نیند سو رہی تھی لیکن ایک فیصلے نے ، ایک خیال نے اس کی نیند چھینی ہوئی تھی “…
“وہ اپنی زندگی کا ایک بہت اہم و انوکھا فیصلہ کرنے جا رہا تھا وہ بھی اپنے گھر والوں کے خلاف ، بے شک وہ ایک فیصلہ پہلے ہی ان کی مرضی کے بغیر لے چکا تھا لیکن ان دونوں فیصلوں میں زمین آسمان کا فرق کا تھا”….
“پہلے فیصلے پر تو گھر والے خاموش ہو گئے تھے لیکن اس دوسرے فیصلے پر ناجانے گھر والوں کا کیا ریکشن ہو گا”…
“کیا اسے کبھی معاف ہی نہ کریں”…
“ہو سکتا ہے بے دخل ہی کر دیں “…
“یا پھوپھو کی طرح تعلقات ہی ختم کر دیں”….
“یہی سوچیں اسکے دماغ میں چھائی ہوئی تھیں لیکن دیکھنا یہ تھا کل کا سورج کیا نوید لاتا ہے۔


صبح سحری کے وقت غزل کی آنکھ کھلی تو غازی کو کمرے میں نہ پا کر وہ کچھ پریشان سی ہوئی تھی ، جلدی سے بالوں کو باندھتی وہ باہر آئی تو سائیڈ پر بننے کمرے کی مدھم روشنی جلدی دیکھ کر وہ وہاں آئی جہاں عین اس کی سوچ کے مطابق ایک فوٹو فریم کو تھام کر غازی آنکھیں موندے لیٹا تھا جب کہ اس توانا مرد کی آنکھوں کے گوشے بھیگتے ہوئے اس کے گال پر گر کر داڑھی میں جذب ہو رہے تھے۔
غ۔۔۔غازی۔۔۔!!!
غزل کے پکارنے پر اس نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں تھی ، رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ناک سرخ ہو رہے تھے۔
غزل اس کے ہاتھوں میں فوٹو فریم دیکھ کر سمجھ چکی تھی کہ وہ آج بھی اپنی ماضی کی یادوں میں کھو چکا ہے ، کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا تھا جب وہ تلخ سچ اس کے دل پر ضرب لگاتا وہ یہیں اپنی امی کے کمرے میں آ کر فیملی فوٹو کو سینے سے لگائے گھنٹوں روتا تھا۔
غازی کی اس حالت پر غزل کا خود کا دل دکھتا تھا۔
غ۔۔غزل جانتی ہو تم آج ماموں کے گھر اس بچی کو دیکھ اپنی گڑیا کی یاد آئی ہے ، اور ستم بھی دیکھو اس میں میری ماما کی جھلک دکھی مجھے۔۔۔۔
اگر آج میری گڑیا میرے پاس ہوتی ، ویسی ہی ہوتی بالکل اس کی طرح لیکن۔۔۔۔۔
کچھ لمحوں کے لئے رکا تھا وہ ، پھر سرد سی سانس بھر کر اپنی بات کا آغاز کیا۔
لیکن پھر میری ہی غلطی کی وجہ سے میری بہن مجھ سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئی، میں بہت برا بھائی ہوں اپنی بہن کا خیال نہ رکھ سکا بلکہ میں تو بھائی کہلائے جانے کے قابل ہی نہیں۔
اپنے بالوں کو نوچتا وہ نیم پاگل سا لگ رہا تھا ، غزل نے آگے بڑھتے اس کے چہرے کو تھام کر سنبھالا تھا۔
اس دن ماما بابا جب مارکیٹ کے اندر گئے تو مجھے گڑیا کی ذمہ داری سونپی تھی کہ اس کا ہاتھ تھام کر رکھوں اسے چھوڑوں نہیں لیکن ، لیکن نا جانے کیسے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ گیا۔
فلیش بیک۔۔۔۔
غازی میں اور آپ کی ماما سامنے مارکٹ سے ہو کر آ رہے ہیں آپ اپنی بہن کا خیال رکھنا اس کا ہاتھ تھام کر رکھنا۔۔۔۔
غازی کے بابا نے پانچ سالہ گڑیا کا ہاتھ غازی کے ہاتھ میں تھما کر ، اس کے کھلونے سمیت گاڑی میں بیٹھا کر کہا جس پر دس سالہ غازی نے جوش و خروش سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
غازی کے ماما بابا اندر مارکٹ میں جا چکے لیکن جانے سے پہلے گاڑی کا گیٹ بند کرنا بھول گئے۔چھوٹی سی گڑیا ہاتھ میں موجود ائیر بال کے ساتھ کھیلتی ہوئی خوش ہو رہی تھی جب کہ غازی اپنی وڈیو گیم کھیلنے میں مشغول تھا ، کہ اچانک گڑیا کا بال اڑتے ہوئے باہر کی جانب چل دیا جسے پکڑنے کے بہانے وہ باہر نکلی تھی وڈیو گیم میں مگن ، غازی یہ تک اندازہ نہ لگا پایا کہ ساتھ موجود اس کی بہن ، غائب آئے جب ماما بابا واپس آئے تو وہاں گڑیا کو نہ پا کر پریشان ہوئے ، آس پاس پتہ بھی کروایا لیکن گڑیا کے بارے میں کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا۔۔۔۔غازی کی ماما کا رو رو کر برا حال تھا جب کہ بابا غازی کو ہی قصوروار ٹھہراتے کہ جب اسے بہن ہی ذمہ داری دی گئی تھی تو اس نے ٹھیک طرح سے نبھائی کیوں نہیں جب کہ اصل غلطی ان دونوں کی خود تھی کہ چھوٹے بچوں کو یوں اکیلا گاڑی میں چھوڑ کر جانا ہی نہیں چاہیے تھا، آج تک گڑیا کی گمشدگی کا سبب غازی خود کو سمجھتا آیا۔
اس ائیر بال کے پیچھے بھاگتی گڑیا ، ناجانے کہاں تک آ چکی تھی انجان راستوں کو دیکھ کر ، اپنے گھر والوں کو نہ پا کر وہ رونے لگی کہ ایک نفیس سی خاتون اسے اپنے پاس آتی دیکھائی دیں جن نے اسے چپ کروایا اور شفقت سے اس سے اسکے والدین کے بارے میں دریافت کرنے لگیں وہ چھوٹی سی بچی نام بھی ٹھیک طرح سے نہ بتا پائی کہ وہ خاتون گڑیا کو اپنے ساتھ لے آئیں تھیں جو آج تک ان کے ساتھ ہے۔اس گڑیا کا نام ان نے بہت محبت سے فریال رکھا اور اسے بیٹی کا سا درجا دیا۔
حال ۔۔۔۔۔
غا۔۔غازی ایسا کچھ نہیں تھا اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں بلکہ وہ بس ایک حادثہ تھا ، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی گڑیا صحیح سلامت ہو۔۔۔۔
آپ نے اس بچی کو ماموں کے گھر دیکھا ہے نا ، تو یقیناً وہ اسے جانتے ہوں گے آپ نے سے ضرور معلوم کیجئے ہو سکتا ہے کہ گڑیا کے بارے میں کوئی سراغ ہاتھ لگ جائے۔۔۔۔
ن۔۔نہیں غزل یہ ممکن تھوڑی ہے ویسے بھی وہ لڑکی گڑیا میں مل رہی تھی ، گڑیا تھوڑی تھی۔
وہ عجلت کی سی کیفیت میں سر کو بیڈ کراؤن سے لگائے بولا جس پر غزل نے لمبا گہرا سانس بھرا تھا۔
غازی معلوم کرنے میں کیا ہرج ، کم از کم دل میں کسک باقی تو نہیں رہے گی کہ ہم نے کوشش نہیں کی باقی میرا من کہتا ہے کہ جلد سب اچھا ہو جائے گا۔
غزل کی بات سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوبا تھا جب کہ جواباً بس اثبات میں سر ہلاتا رہ گیا۔
اب آپ اٹھ کر فریش ہو جائیں میں سحری بنانے جا رہی ہوں، جلدی آجائیے گا
کہتی وہ باہر کی جانب چل دی ، جب کہ غازی ، غزل کی بات پر غور کرنے لگا۔


صبح آفس جانے سے پہلے وہ ماموں کی طرف آیا تھا اور باتوں ہی باتوں میں حاشر صاحب کے آفس اور گھر ایڈریس معلوم کیا یہ کہہ کر کہ ” وہ ان کے ساتھ بزنس کے کچھ معملات تہہ کرنے کی سوچ رہا ہے“۔ جس پر ماموں نے بخوشی اسے حاشر صاحب کے آفس کی لوکیشن دی تھی ، وہ ان کا شکر گزار ہوتا عجلت میں وہاں سے نکلا تھا کیونکہ اس میں جو بے چینی اس وقت پائی جا رہی تھی اس کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل تھا۔



“دلنشین ابھی اپنی اسٹڈی وائنڈ اپ کرکے روم آئی ہی تھی کہ اس کی نظر بستر پر رکھی گئی ایک ٹوکری پر گئی جس میں سفید و لال رنگ کے پھول تھے “..
“اس خوبصورت ٹوکری کے بیچ بہت ساری چاکلیٹس موجود تھیں جو کہ اس دوشیزہ کی کمزوری تھی ساتھ ہی ایک گلابی رنگ کا کارڈ تھا جس پر بڑے انگریزی لفظوں میں سوری مائے ہارٹ لکھا گیا تھا”….
“کارڈ کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ کون ہو سکتا ہے”…
“تبھی اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمایاں ہوئی تھی”….
“جا تجھے معاف کیا”…
“جا تجھے معاف کیا دل کو توڑنے والے”….
“مسکراتے ہوئے گنگنا رہی تھی اور ساتھ ہی ان چاکلیٹس کو کھاتے ہوئے ان کا مزہ لینے لگی”…




آج وہ پورے تئیس سال بعد اس حویلی کی چوکھٹ پر کھڑی تھیں”…
“جہاں سے انہیں رخصت تو کیا گیا تھا مگر خوشی سے نہیں”…
“اس حویلی کے مکینوں کی کبھی وہ جان ہوا کرتی تھیں لیکن اپنی ہی جان کو بے جان کر دیا انہوں نے بغیر دعاؤں کے رخصت کر کے”….
“سعدیہ بیگم کی آنکھوں کے سامنے بچپن سے جوانی تک کے تمام وہ واقعات آئے تھے جو ان نے اس حویلی میں گزارے تھے”…
“ان کی آنکھیں اشک بار ہوئی تھیں”….
“آج وہ شخص بھی اس کے ساتھ تھا جس کی محبت میں وہ حویلی سے بے دخل کی گئی تھی”….
“سعدیہ نے پہلو میں کھڑے اپنے شوہر کو دیکھا تھا جو خود پتھرائی آنکھوں سے حویلی کو دیکھ رہا تھا”…
“کیا ان کی بیٹی اس حویلی کی “..؟؟؟؟
“دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ یہ کسی اور کی حویلی ہو “…
“وہ لوگ جا چکے ہوں یہاں سے”…
“حویلی کوئی اور خرید چکا ہو”…
“لیکن ان کی تمام سوچوں پر پانی گرا تھا جب بورڈ پر بڑے لفظوں میں “درانی حویلی لکھے دیکھا تھا”..
“وہ دونوں اپنی بیٹی سے ملنے آئے تھے لیکن قسمت کو کچھ منظور تھا وہ باپ کی شفقت سے پالنے والے بھائیوں کو ان کی بہن سے ملوانا چاہتی تھی”….
“سعدیہ بیگم کے قدم اندر بڑھنے کے بجائے باہر کی جانب بڑھ رہے تھے “…
“لیکن وہ فوراً ساکت ہوئی تھیں جب اپنے عقب سے کسی کی مردانہ آواز سنی”….
“سنو کون ہو آپ لوگ”…؟؟؟
“وہ ہزاروں میں اس آواز کو پہچان سکتی تھی”…
“ہاں وہ کیسے بھول سکتی تھی یہ آواز اس کے بھائی + دوست کی تھی “…
“جس نے ہمیشہ اسے باپ کی سی شفقت دی تھی”…
“وہ محبت وہ پیار وہ احساس دیا جو ایک بہن ڈیسرو کرتی ہے”….
“سعدیہ بیگم پلٹی تھیں لیکن ان کی آنکھیں بند تھیں”…
“جب کہ حاشر درانی حیرت کے عالم میں اپنی بہن کو دیکھ رہے تھے”…
“جن کی جھلک وہ کافی عرصے بعد دیکھ رہے تھے”…
“جوانی میں ان کو رخصت کیا تھا لیکن بڑھاپے میں مل رہی تھیں وہ”…
“س۔۔سعدی”..؟؟؟؟
“حاشر درانی سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا شائد یہ خوشی تھی یا کوئی اور کیفیت وہ انجان تھے”…
“لیکن آواز ان کی بھی بھرائی ہوئی تھی”….
“سعدیہ خود پر قابو نہ رکھ پائی تھی بلکہ روتے ہوئے اپنے بھائی کے گلے گئی”….
I missed you bhai…..
“ان کے گلے لگے وہ روتے ہوئے بولی تھی جب کہ زید صاحب پیچھے کھڑے بہت معویت سے یہ سب دیکھ رہے تھے”…
“حاشر صاحب مسکراتے ہوئے انہیں اندر لے جاچکے تھے اور خوشی کے مارے حویلی تمام اراکین کو آوازیں دیں”
“ان کی پکار پر تقریباً سب ہی دوڑتے ہوئے آئے تھے”…
“لیکن باہر موجود اپنی بہن و بہنوئی کو دیکھ رفتار صاحب کی حالت بھی ویسے ہی ہوئی تھی جیسے کچھ دیر پہلے حاشر صاحب کی تھی”….
“کچھ لمحے تو اسٹیل رہے تھے لیکن وہ اچانک ہی ان نے تھکے قدموں سے اپنی بہن کی جانب بڑنا شروع کیا اور ان کو نرمی سے اپنے سینے سے لگایا تھا “..
“وہ شکوہ ، وہ شکایت ، وہ ناراضگی سب دھری کی دھری رہ گئی تھیں”…
“کیونکہ بچپن کا پیار ، وہ شفقت ، وہ محبت دیر سے ہی صحیح مگر غالب آ گئے تھے ان نفرت و غصے و ناراضگی پہ”….
“مما ، پاپا”…
“کمرے سے نکلتی پلوشہ نہایت حیرانی و خوشی کی ملی جلی کیفیت میں بولی تھی خوشی اس بات کی تھی کہ اس کے مما بابا آئیں ہیں لیکن حیرانی اس بات کی تھی کہ اسکی ماں رفتار صاحب کے سینے سے لگی رو رہی تھی “..
“ساحرہ بیگم ، فیروزہ بیگم سمیت حاشر و رفتار صاحب بھی چونکے تھے جب پلوشہ نے سعدیہ بیگم کو مما و زید صاحب کو پاپا کہا تھا”…
“ان کی حیرت کی انتہاہ نہ تھی کہ ان کی اپنی بھانجی ان کی بہو ہے”…
“آج کے دن ان کو کئی جھٹکے مل رہے تھے “….
“شائد آج ان سب بہن بھائیوں کے ستارے ملے تھے “….
“تبھی قدرت نے انہیں پھر ایک کر دیا “….
“وہاں موجود ینگ جنریشن ہونکوں کی طرح یہ سب فلمی سین دیکھ رہی تھی ان سب کی سمجھ سے باہر تھا یہ سب”….
“ص۔۔۔صائم پ۔پلوشہ ہماری بہن کی “…..
“رفتار صاحب سے خوشی کے مارے کچھ کہا نہ جا رہا تھا جبکہ صائم مسکرایا تھا”…
“جانتا ہوں بڑے پاپا”….
“وہ مسکرایا تھا اپنے گھر والوں کے چہرے پر ایک عجب خوشی دیکھ ، سب سے بڑھ کر سعدیہ بیگم کے چہرے کی خوشی دیکھنے والی تھی جہاں آج اپنے بھائیوں کو پانے کی خوشی موجود تھی “…
“پلوشہ بیگم سمیت سب گھر والوں نے نا سمجھی کی کیفیت میں اس کو دیکھا تھا جو اب چلتے ہوئے بیچ لاونچ میں آ گیا تھا”…..
“بڑے پاپا یاد ہے آج سے مہینے پہلے جب میں آپ سے آفس کے پیپرز سائین کروانے آیا تھا تب آپ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے “….
“فلیش بیک”……
“بڑے پاپا “….
“صائم اسٹڈی روم میں داخل ہوا تھا جہاں رفتار صاحب آنکھوں میں پروفیشنل گلاسس لگائے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ، ان کی آنکھوں میں ایک عجب چمک و اداسی بیک وقت نمایاں تھی “…..
“لیکن صائم کو دیکھتے ہی وہ کتاب ان نے فوراً بند کر دی تھی جیسے اسے دیکھانا نہ چاہتے ہوں”۔
“جی صائم بیٹا خیریت”..؟؟
“کتاب سائڈ پر رکھے وہ تشویش سے بولے”…..
“سوری بڑے پاپا آپ کو ڈیسررب کیا مگر یہ پیپرز سائین کروانے تھے”….
“وہ تھوڑی شرمندگی سے بولا تھا”….
“نہیں بیٹا کوئی بات نہیں تم بتاو کہاں کرنے ہیں سائین میں کر دیتا ہوں”….
“کہتے انہوں نے پین اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہی تھا کہ ان کے فون پر کال آنے لگی وہ صائم سے معذرت کرتے اٹھ کر باہر گئے تھے اور کال کے چکر میں وہ کتاب رکھنا بھول گئے اور صائم کی نظر بھی جب اس کتاب پر پڑی تو اس میں ایک تجسس پیدا ہوا تھا اس نے کچھ سوچتے ہوئے وہ کتاب کھولی تھی لیکن وہ دھک رہ گیا تھا جب اس میں صائم نے دو لڑکوں کے درمیان کھڑی ایک لڑکی کی تصویر دیکھی تھی وہ کسی برتھڈے پارٹی کی تصویر تھی وہ دو لڑکے تو اس کے تایا اور پاپا تھے انہیں تو پہچان چکا تھا مگر وہ تیسری لڑکی کون تھی”..؟؟؟
“جسے نہ آج سے پہلے اس نے دیکھا تھا نہ ہی اس کا کبھی زکر سنا”..؟؟؟؟
“کچھ سوچتے ہوئے اس نے وہ تصویر اپنے موبائل فون میں قید کی تھی اور کتاب بند کر کے سائڈ پر رکھ دی”…
“اتنی دیر میں رفتار صاحب بھی واپس آ چکے تھے اور کاغذات پر دستخط کروانے کے بعد صائم بھی چلا گیا لیکن جاتے جاتے کئی سوالات وہ اپنے ذہن میں لے کر گیا تھا”…..
“لیکن بعد میں کافی دکت کے بعد اسے معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ اس کے پاپا کی بہن اور اسکی اپنی پھوپھو ہیں جنہوں نے اپنی پسند سے خاندان سے پست لڑکے سے شادی کی تھی جو ان کی حویلی کے تقاضوں پر پرا نہ اترتا تھا تبھی حویلی والوں نے ان کی شادی تو کرادی تھی مگر ان سے تمام تعلقات معطل کر دیے “…
“یہ جاننے کے بعد اس کی حیرت کی انتہاہ نہ رہی تھی کہ وہ اس کی پھوپھو ہیں لیکن ان کے گھر والوں نے کبھی ان کے متعلق کوئی بات نہ کی “….
“یہ سب جاننے کے بعد اس کا تجسس مزید بڑا تھا لیکن کچھ ہی دن سوچنے کے بعد وہ واپس اپنی لائف میں مصروف ہو گیا تھا یا کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اس واقعے کو شائد رفتہ رفتہ فراموش کر چکا تھا لیکن شائد تقدیر کو یہ منظور نہ تھا تبھی ایک دن جب وہ کسی کام سے مارکٹ گیا تھا وہاں اسکا ٹکراؤ سعدیہ بیگم سے ہوا تھا جنہیں دیکھ وہ ششدر رہ گیا بے شک اس نے ان کی جوانی کی تصویر دیکھی تھی لیکن چہرے کے نقش اب بھی وہی تھے”…..
“اس دن وہ سعدیہ بیگم کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے گھر تک گیا تھا لیکن اس انداز سے کہ کسی کو شک نہ ہو “…
“پھر صائم نے اپنے خاص ملازم سے کہہ کر ان کے پڑوسیوں سے ان کی زندگی کے بارے میں معلوم کروایا تھا جس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے ہی محلے میں رہنے والا ندیم ان کی بڑی بیٹی کے پیچھے پڑا ہے جبکہ وہ لوگ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں “…
“اسلئے صائم نے یہ سب نکاح کا ڈرامہ کرتے ہوئے پلوشہ کو حقیقت میں اپنے نکاح میں لے لیا کیونکہ نادانی میں صحیح لیکن یہ دل اس پری وش کے لئے دھڑکتا تھا”…
“ایسے وہ اپنی محبت بھی پا چکا تھا اور اپنے باپ و تایا کو ان کی بچھڑی بہن سے ملا دیا”…
“صائم کے خاموش ہوتے ہی حاشر صاحب نے فخریہ انداز میں اپنے صاحب زادے کو دیکھا تھا جس کی بدولت آج ان کی بہن اس حویلی میں لوٹ آئی تھی ان لوگوں کے پاس”…..