دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 12

شکریہ صائم”….
“لیپ ٹاپ پر کام کرتے صائم کے کانوں میں ایک میٹھی سی آواز گونجی تھی جو اس کے کانوں میں رس کھول گئی تھی ، اس کا کام کرتا وہ ہاتھ ساکت ہوا اور اس نے نظریں اٹھائے سامنے کھڑی پلوشہ کو دیکھا تھا”….
“جو نیلے رنگ کی فراک میں ملبوس سر پر نفاست سے ڈوپٹہ اوڑھے اس کے سامنے کھڑی تھی”….
“کس لئے “..؟؟؟
“صائم نے استہفامیہ لہجے میں اسکی جانب دیکھ کندھے اچکائے”….
“میرے مما بابا کے چہرے کی خوشیاں وہ مسکان لوٹانے کے لئے”….
“وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی بس فرق اتنا آیا تھا کہ پلوشہ اب اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی”….
“ان آنکھوں میں ایک اپنائیت کا احساس تھا جبکہ اس کے برعکس صائم کی آنکھوں میں محبت کے دیپ جل رہے تھے جن کی حدت سے وہ اپنی بیوی کو آشنا کروانا چاہتا تھا اسکی آنکھوں میں دیکھ”….
“صائم نے لیپ ٹاپ ایک سائڈ پر رکھا تھا اور ہاتھ بڑھاتے ہوئے پلوشہ کو اپنے ساتھ بیٹھایا تھا اپنے بے حد قریب آج پلوشہ نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی تھی بلکہ اپنا سر خاموشی سے اس کے کندھے پر ٹکا دیا “…
“صائم کی محبت و جذبات کو آج وہ بھی محسوس کرنا چاہتی تھی”…
“بے شک وہ بہت خوش قسمت تھی جس نے ایک سچا ہمسفر پایا تھا “..
“شکریہ میرا نہیں اس خدا تعالیٰ کی ذات کا کرو ہم تو صرف ذریعہ ہیں اصل کام تو اس ذات نے کیا ہے”….
“بس اللہ نے ہمیں وسیلہ بنایا ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کو ملا سکیں”…
“اور ساتھ میں خود بھی مل سکیں”…
“سنجیدگی سے ساری بات کہہ آخری جملا اس نے شرارت سے بھرپور کہا تھا اور اسکو مزید خود میں بھینچا تھا کہ وہ شرما گئی”….
“جانِ جاں ہمیشہ یوں ہی شرماتی رہو اچھی لگتی ہو”….
“اس کے بالوں پر بوسہ دیے وہ خمار زدہ لہجے میں بول رہا تھا کہ اس کی دہکتی سانسیں پلوشہ کی آنکھوں پر پڑ رہی تھیں”….
💖💖
غازی کب سے پریشانی کی کیفیت میں لان میں ٹہل رہا تھا جب کہ سائیڈ چئیر پر بیٹھی غزل پچھلے پندرہ منٹ سے اس کی یہ تمام کاروائی ملحفضہ فرما رہی تھی جو لب بھینچے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
بس کر دیں آج ہی پورے مہینے کی واک کریں گے کیا ؟
غزل کی بات سن کر وہ ایک لمحے کو ٹھہرا تھا پھر سنجیدگی سے اس کی جانب دیکھ کا بولا
غزل پلیز اس وقت میں مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں بلکہ بہت اہم پہلو پر سوچ رہا ہوں۔
وہ سرد سی سانس بھرتے ہوئے بولا تھا کہ غزل بھی اب سنجیدہ ہوتی اٹھ کر اس کے پاس آئی۔۔
کیا ہوا ؟ سب ٹھیک ہے کیا ؟
نہیں نا ، کچھ بھی ٹھیک نہیں۔۔۔
”میں آج درانیز کے آفس کے گیا تھا ، وہاں میری ملاقات صارم سے ہوئی“۔
تمہارے کہنے کے مطابق ، صرف آزمانے کے لئے کہ وہ لڑکی واقعی میری گڑیا ہے یا نہیں میں نے جان کر ، صارم کے سامنے والٹ میں سے گڑیا کی بچپن کی تصویر اس کے سامنے گرائی جس کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکا تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا یہ کون تو میں بھی کہا کہ میری بہن ہے جو کھو چکی ہے اس ہی کی بچپن کی تصویر ہے، جس کو سن کر وہ خاموش ہو گیا تھا لیکن اس کے چہرے کے جو تاثرات تھے نا مجھے اب یقین ہے کہ میری گڑیا کا تعلق ضرور اس حویلی سے ہے اور ہو نا ہو ، وہ لڑکی ضرور میری گڑیا ہی ہے کیونکہ اس میں ، میری ماں کی جھلک تھی غزل۔۔۔۔ بالکل میری ماں جیسی آنکھیں وہی پرچھائی۔۔۔۔
وہ جذب کے عالم میں بول رہا تھا اس کی آنکھیں لال سرخ ہو رہی تھیں جب کہ آنکھوں کے کنارے ہلکے سے نمی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
🧡💗
صارم اسٹڈی میں بیٹھا فیملی ایلبم کو دیکھ رہا جس میں سے سب سیکنڈ جنریشن کی بچپن سے لے کر جوانی تک کی تمام تصاویریں موجود تھیں۔ وہ ہر ایک صفحے پر موجود ہر تصویر کو بہت ہی باریک بینی سے دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر موحد کی دسویں سالگرہ والی تصویر پر ٹھہریں جہاں ، چھوٹی سی ڈری سہمی سی فریال چھوٹی سی پنک فراک ذیب تن کیے فیروزہ بیگم کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔
یہ اسی عمر کی تصویر تھی جو صارم نے غازی کے پاس دیکھی۔۔۔۔
اسکا مطلب۔۔۔کیا سچ میں!!
اسکا زہن بہت تیزی سے کام کرنے لگا تھا ، وہ ایسے ہی کسی شخص پر بھروسہ نہیں کر سکتا تھا اور خاص کر فریال کے معملہ میں تو بالکل بھی نہیں لیکن ، سچ کیا تھا اسے وہ بھی پتہ لگانا تھا۔۔۔۔
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کا دماغ میں جھماکہ سا ہوا۔۔ ہاں ایک طریقہ تھا جو یہ چیز ثابت کر سکتا تھا کہ آیا فریال کا اس شخص سے کیا تعلق ہے۔۔۔۔
ایلبم کو ، احتیاط سے رکھتے وہ دبے قدموں سے باہر کی جانب آیا ، اب اسکا رخ فریال کے کمرے کی جانب تھا۔۔۔
بہت ہی آہستگی سے سرد سی سانس بھرتے روم کا دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا جہاں وہ گیلری میں بیٹھی کتاب پکڑ کر پڑھنے کے بجائے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔۔
اسکے قریب جاتے صارم نے ہلکے سے اسکے بال کھینچے تھے کہ وہ مراقبوں میں سے باہر لوٹی تھی۔
تم یہاں ، خیریت ؟ صارم کو کمرے میں دیکھتے ڈوپٹہ درست کرتی وہ نشست سے اٹھ کھڑی ہوئی جب کہ صارم تذبذب کا شکار ہوا کہ کیا جواب دے۔
ہ۔ہاں وہ ہاں مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی ، امی تو سو رہی ہیں تو کیا تم بنا دو گی ؟
جب کچھ سمجھ نہ آیا تھا چائے کا بہانہ گڑ گیا۔۔۔۔
ہاں کیوں نہیں ، میں بنا دیتی ہوں۔۔۔۔
کہتی وہ جانے لگی تھی کہ صارم نے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
نہیں رہنے دو تم شائد مصروف تھی کتاب پڑھو میں دل سے کہہ دیتا ہوں۔۔۔
مسکرا کر کہتا وہ واپس باہر کی جانب چل دیا جب کہ وہ کندھے اچکاتی رہ گئی۔
پاگل ہے قسم سے۔۔۔۔ صارم کی حرکت کو سوچتی وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
💖💖
صارم نے عجلت میں گاڑی نکالتے ہسپتال کی جانب دوڑائی تھی ، راستے میں ہی فون نکال کر ڈائل نمبر میں سے ہی غازی کا نمبر ملا کر اسکو ایڈریس بھیجتے ہسپتال آنے کا کہا ، تقریباً بیس سے پچیس منٹ کے وقفے کے بعد وہ دونوں کی ایک دو منٹ سے فرق سے ہسپتال کی لیب میں موجود تھے۔۔۔۔وہ دونوں سیمپل ڈی این کے لئے جمع کروا چکے تھے اسلئے اب باہر بینچ میں بیٹھے تازی ہوا کو محسوس کر رہے تھے۔
غازی تو بے حد خوش تھا اور دعائیں کر رہا تھا کہ کاش فریال ہی اس کی گڑیا ہو اور اسکا دل کہہ رہا تھا کہ یقیناً وہ اسکی گڑیا ہی ہے۔۔۔۔
غازی ، صارم کا بھی مشکور تھا کہ اس نے یہ قدم اٹھایا ورنہ ، پریشانی اور جذبات میں اسکے ذہن میں یہ طریقہ تو آیا ہی نہیں۔۔۔۔
کیا ہوا تھا تمہاری بہن ہے ساتھ ، میرا مطلب ہے کیسے گم ہوئی؟
صارم کے اچانک سوال پر وہ کچھ لمحوں کے لئے خاموش رہا تھا پھر شروع سے لے کر آخر تک اسے سب بتاتا چلا گیا۔۔۔
جانتے ہو جب میں نے فریال کو ، ماموں جان کے گھر دیکھا تو مجھے ایک لمحے کو ایسا لگا کہ میری ماما کی جوانی میرے سامنے ہے ، اس سے ایک سیکنڈ کو ہی سہی لیکن جب بات ہوئی تو ایک الگ احساس تھا بالکل بہنوں جیسا۔۔۔۔
وہ کھوئے سے لہجے میں بتا رہا کہ غازی کی بات سن کر ، صارم نے کہا۔
یعنی مجھ سے ملنا تمہارا پلین تھا کہ ، اپنی بہن یا فریال کی سچائی معلوم کر سکو یا پھر اپنے شک کو دور کر سکو ؟
رائیٹ ؟؟
صارم جانچتی نظروں سے غازی کو دیکھ گویا ہوا جس پر وہ بس ہنکار بھر گیا۔
ہممم۔۔۔۔کہہ سکتے ہو۔۔۔!!!
کیا تمہارے پاس تمہارے پیرینٹس کی کوئی تصویر موجود ہے ؟
کچھ سوچ صارم نے پوچھا جس پر غازی نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
ہاں ! میرے سوشل اکاؤنٹس میں ، میں نے ڈیڈ اور موم کی پک اپلوڈ کی تھی شادی کی سالگرہ کی۔۔۔۔۔ ویٹ دکھاتا ہوں۔
اپنی بات کے دوران ہی وہ فون میں کچھ تلاش کرنے لگا قریباً دس منٹ کی سرچنگ کے بعد ، اس نے صارم کی جانب موبائل بڑھایا جسے دیکھ چند لمحوں کو بھی حیران ہوا تھا کیونکہ وہ خاتون بالکل فریال کی جیسی لگ رہی تھیں۔۔۔
بس آنکھوں کے رنگ کا فرق تھا۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ !! لب کچلے وہ فون واپس غازی کو دے گیا ، پھر کھڑے ہوتے اجازت طلب کی۔۔۔۔
چلو وقت بہت ہو گیا، ان شاءاللہ رپورٹ آنے تک جلد ملاقات ہو گی۔۔۔
خوش اسلوبی سے کہتے وہ مصافحہ کیے پارکنگ کی جانب چل دیا جب کہ غازی آسمان کی جانب دیکھ خدا سے درخواست کر رہا تھا کہ کاش ، یہ رپورٹ پازیٹو ہو۔۔۔۔!!
”یا خدائے رحیم مجھے میری بہن سے ملا دے ، اگر یہ رپورٹ پازیٹو ہوئی تو میں وعدہ کرتا ہوں پورا دن تیرے سجدے میں گزاروں گا“۔
بھرائے ہوئے لہجے میں وہ خدا سے دعائیں کرتا گاڑی تک آیا تھا۔اب اسکا رخ واپس گھر کی جانب تھا۔
💙💗
اگلے دن شام کے پانچ بجے کے قریب جہاں سب گھر والے لان میں بیٹھے آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے “…
“وہیں فریال اپنے کمرے میں بیٹھی قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہی تھی کہ موحد دروازہ کھول اندر داخل ہوا”…
“اس کو تلاوت کرتے دیکھ وہ سائیڈ پر بیٹھ فون میں مصروف ہو گیا اور اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا “..
“فریال کی تلاوت کرتی خوبصورت آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی اور اسکے موڈ کو خوش گوار بنانے کا باعث رہی تھی”…
“موحد نے نظریں فون سے اٹھا کر فریال کی جانب دیکھا تھا “..
“جو کہ سفید رنگ ڈوپٹے کو نماز کے اسٹائل میں باندھے بیٹھی تھی”…
“اسکے چہرے پر ایک نور سا طاری تھا “..
“جسے دیکھ ایک پل کے لئے موحد بھی کھو گیا تھا”…
“لیکن جلد ہی اپنے حواسوں میں لوٹتا خود کو کمپوز کر گیا”…
“وہ تلاوت کرے اٹھی تو سامنے بیٹھے موحد کو دیکھ حیران ہوئی لیکن اپنے تاثرات اس پر ظاہر نہ ہونے دیے”…
“خیریت آپ یہاں”…؟؟؟
“نارمل لہجے میں پوچھا تھا اس نے اور ساتھ قرآن مجید کو اوپر ڈیوائیڈر میں رکھا”..
“ہ۔ہاں وہ میں کام سے آیا تھا”…
“اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے وہ اس کے سامنے آیا تھا”..
“فریال یہ فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے”…
“بس یوں سمجھ لو یہ فیصلہ ہم دونوں کی زندگیوں کے لئے بہتر ہے”….
“گہرا۔سانس لیے وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات کہہ گیا تھا لیکن سامنے کھڑی فریال کو تشویش میں ڈال گیا”…
“ک۔۔۔کیسا ف۔۔فیص۔۔فیصلہ”…؟؟؟؟
“اس کی جانب دیکھے وہ اٹک اٹک کر بولی تھی اسکا دل گھبرا رہا تھا جانے وہ کون سے فیصلے کی بات کرے گا”…
“ع۔علیحدگی”…
“مقابل کے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ تیر کی مانند اسکے دل پر لگے تھے پہلے پہلے تو اسے یقین ہی نہ آیا لیکن جب موحد نے اسکے ہاتھوں میں طلاق کے کاغذات تھمائے اسکے قدم ڈگمگائے تھے”…
“آنکھوں سے بہتا گرم سیال اسکے چہرے کو بھیگو رہا تھا”…
“ایڈ۔۔۔ایڈوانس”…
“ایڈوانس میں عیدی دینے کا بہت شکریہ”..
اتنی حیرت انگیر عیدی دی ہے کہ میں خواب میں بھی کبھی نہیں سوچ سکتی تھی۔۔
“اس نے ہاتھ میں موجود کاغذات کی جانب اشارہ کرتے کہا تھا۔”
“چہرے پر مسکان ، آنکھوں میں آنسوں جبکہ لہجے میں اذیت گھلی ہوئی تھی”….
“ہمیشہ اللّٰہ سے شکوہ کرتی تھی کہ: “آپ کیوں نہیں آتے”…؟؟؟
“مگر اب سوچتی ہوں آپ نہ ہی آتے تو اچھا تھا”….
“تلخ ہنسی ہنستے ہوئے وہ اپنی بات تو کہہ گئی تھی مگر اس ہنسی کے پیچھے چھپی اداسی کو مقابل کھڑا وہ سنگدل شخص با خوبی محسوس کر چکا تھا”
فریال میری بات۔۔۔!!!
“نہیں موحد ! آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ آپ کو کچھ کہنا بھی نہیں چاہیے”۔۔
“کیونکہ میں نہیں چاہتی میری وجہ سے آپ اپنی دوسری بیوی کو ناراض کریں اسلئے جائیں ان کے پاس”۔۔۔
“اور اس خوبصورت تحفے کا بہت ب۔۔بہت شکریہ”…
آنسوں کو پیتے اس نے بات مکمل کی تھی اور بنا اس کی جانب دیکھے واشروم کے اندر چلی گئی”۔۔۔
“حالِ دل ہوا ایسا درد کی لہر جیسا
جس کا نہ علاج کوئی درد یہ زہر جیسا
“جہاں جا کر اس کا بندھ ٹوٹا تھا”…
“ویش بیسن کے سامنے جھکی اپنے چہرے پر پانی کی چھینٹے مارے آنسوں کو روکنے کی کوشش کررہی تھی “…
“لیکن یہ نادان آنسوں کب کسی کے اختیار میں رہے ہیں”…؟؟؟
“جو آج اسکے اختیار میں رہتے “…..
“نظریں اٹھا کر اپنا عکس دیکھنا چاہا تھا لیکن اس سے پہلے ہی وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی تھی”….
“اور وہیں واشروم کے فرش پر گر گئی”…..
خالی پن یوں اترا ہے بن ایک قہر جیسا
میرے اس اندھیرے میں کوئی نہ سحر جیسا
💙🧡
غازی ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا کہ اسے صارم کی کال آئی تھی جس میں رپورٹس آنے کی اطلاع دی تھی اسے۔۔۔۔
صارم کی بات سن چند لمحوں کے لئے اس کا سانس رکا تھا ، آگے سے جیسے ہی اس نے رپورٹ کے مثبت ہونے کی اطلاع دی گئی اسی لمحے اس کا دل عجب سے احساس سے بھر آیا بے اختیار اسکا سر آسمان کی جانب اٹھا تھا ” یا اللہ“۔۔۔۔۔
فون کو جیب میں رکھ دوڑتے ہوئے اوپر کمرے کی جانب گیا ، اور وضو کر کے جائے نماز بچھا کر سجدہ ریزہ ہوا۔۔۔۔
کیا احساس تھا کہ سجدے میں جاتے ہی وہ بھرائے ہوئے دل کے ساتھ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔ یا رب میرا سفر پورا ہوا۔۔۔۔
تو نے اپنا وعدہ پورا کر کے مجھے میرا وعدہ پورا کرنی کی توفیق عطا کی میں تیرا شکر گزار ہوں۔۔۔
💜💙
“دلنشین “…
“فریال کو دیکھ کر آو کہاں رہ گئی ہے؟ کافی دیر سے بلایا ہے کہہ رہی تھی تلاوت کر لوں پھر آتی ہوں مگر ابھی تک آئی نہیں”…
“فیروزہ بیگم نے دلنشین سے کہا تھا جو کہ کپڑے استری کر رہی تھی”…
“جی چاچی میں دیکھتی ہوں “…
“کہتے پلگ اوف کیے وہ اوپر اس کے کمرے میں آئی تھی لیکن خالی کمرے کو دیکھ اس نے کندھے اچکائے اور واپس جانے لگی تھی “…
“لیکن اس کے باہر کی جانب بڑتے قدم منجمد ہوئے تھے جب واشروم کے کھلے دروازے میں سے اسکی نظر فریال کے زمین پر گرے ہوئے وجود پہ پڑی “….
“بھابھی”…..
“وہ چیختے ہوئے فریال کے پاس آئی تھی”…
“اسکے جھنجھوڑ کر اٹھانا چاہا تھا “….
“ماما”
“بھائی ‘ پاپا”….
“اسنے چیختے ہوئے سب گھر والوں کو پکارا تھا”….
“یا آللہ”….
“ساحرہ ، فیروزہ بیگم ، سب ہی دوڑتے ہوئے آئے تھے لیکن آگے کا منظر دیکھ ان کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا تھا”..
“انہوں نے مل کر اسے بیڈ پر لٹایا تھا اور جلدی سے اس کے سر کی پٹی کی تھی “…
“جہاں اسکے سر سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا”…
“ماربل پر گرنے کی باعث اس کے سر پر زخم آیا تھا لیکن وہ زخم اس زخم سے کم تھا جو ان کے بیٹے نے اسکی روح کو دیا تھا”….
“یا آلله کس کی نظر لگ گئی ہے میری بچی کو”…
“ان نے اس کا سر سہلاتے ہوئے تکلیف سے کہا تھا”….
“م۔۔ماما ی۔۔یہ”….
“دلنشین جب فرسٹ ایڈ باکس ٹیبل پر رکھنے گئی تو اس کی نظریں ڈرسینگ پر رکھے گئے طلاق کے کاغذات پر گئی تھی “….
“جسے لے کر وہ ساحرہ بیگم کے پاس آئی “…
“انہوں نے جیسے ہی وہ کاغذات پڑھے تھے اپنا دل تھام گئی تھیں وہ”….
“ی۔۔یہ کیا کیا موحد نے”….؟؟؟؟
” انہیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ فریال کو طلاق دے چکا ہے”….
“وہ غصے سے کھڑی ہوئی تھیں وہاں سے اور موحد کے کمرے کی جانب چل دیں”…
“یہ کون سا نیا تماشہ ہے موحد”….
“وہ کاغذات لا کر موحد کی گود میں پھینکے تھے انہوں نے “….
” اس نے نا سمجھی سے اپنی ماں کی جانب دیکھا تھا”….
“کون سا”…؟؟؟
“کندھے اچکائے نارمل لہجے میں بولا تھا”…
“انجان مت بنو موحد”…!!
“کس سے پوچھ کر طلاق دی تم فریال کو”…؟؟؟
“آنکھوں میں غصہ جبکہ چہرے پر سنجیدگی طاری تھی”….
“او موم کم اون”….
“کب تک آپ اس کی طرف داری کریں گی”..
“اب طلاق بھی کسی سے پوچھ کر دینی پڑتی ہے”…؟؟؟
“نہایت بدتمیزی سے بولا تھا کہ بے اختیار ساحرہ بیگم کا ہاتھ اٹھا تھا اور موحد کے گال پر نشان چھوڑ گیا”….
“وہ حیرت کے عنصر میں اپنی ماں کی جانب دیکھ رہا تھا”…
“اسکو یقین نہیں آ رہا تھا کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرنے والی ماں نے آج اس کا گال لال سرخ کر دیا تھا”….
“موم”….
“وہ بے یقینی سے گویا ہوا”..
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو”..؟؟؟
“یہی تمانچہ اگر بہت سال پہلے ہی پڑھ چکا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہو رہا ہوتا”….
“جانتے ہو تمہارا یہ ایک فیصلہ میری بچی کی حالت خراب کر گیا ہے”…
“جاؤ جا کر دیکھو کیسی حالت میں ہے وہ”….
“موحد کوشش کرنا آئندہ مجھ سے مخاطب نہ ہونا”….
“فریال کے ساتھ ساتھ تمہارے تعلقات مجھ سے منقطع ہو چکے ہیں”…
“غصے کے عالم میں کہتی وہ جا چکی تھیں”….
💖💙
اس وقت فیملی ہال میں سب خاموشی کا قفل لگائے سب بیٹھے صارم کی بات بغور سن رہے تھے۔ فریال اپنے روم میں ہی موجود تھی جب کہ باقی سب ہال میں صوفوں پر براجمان تھے۔۔۔۔
حاشر درانی کے ہاتھ میں وہ رپورٹس موجود تھیں جن میں ، غازی اور فریال کے خونی رشتے کی صاف وضاحت موجود تھی۔
”یعنی فریال کے اصل وارث مل چکے ہیں“۔؟ موحد نے اس سب گفتگو میں پہلا جملا کہا تھا جس پر حاشر درانی نے اسے سخت قسم کی گھوری سے نوازا۔۔۔۔
تم تو اس سارے معاملے میں خاموش ہی رہو تو بہتر ہے ، وہ بچی امانت تھی ہمارے پاس تم نے کیا سلوک کیا ہے اس کے ساتھ ، کیا جواب دو گے آگے تم ؟
حاشر درانی نے سب کے سامنے موحد کی اچھی خاصی کلاس لی تھی جب کہ فیروزہ بیگم نے شکوہ کناں نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔
صارم ، تم اسکے بھائی کو بلاؤ ہم ملنا چاہیں گے اس سے ۔۔۔۔ اور پھر آگے فیصلہ کریں گے۔
رعب کے عنصر میں کہتے وہ روپورٹ صارم کو تھما کر واپس چل دیے جب کہ فیروزہ بیگم کی آنکھیں یہ سوچ کر نمکین پانی سے بھر آئی تھیں کہ ان کی بیٹی انہیں چھوڑ کر چلی جائے گی۔
♥️💗
یہ خبر جب فریال تک پہنچی ، پہلے تو وہ عجب صدمے میں گھری رہی پھر اچانک ہی پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنے بھائی اور فیملی سے ملنے کی ضد کرنے لگی ،شائد وہ کچھ زیادہ ٹوٹ چکی تھی کئی سالوں تک اپنوں سے دور رہی تھی لیکن ، لاوارث کہلائی گئی ، اسی داغ کی بنا پر رشتہ ٹوٹ گیا اور اب جب اصلی وارثوں سے ملنے کا احساس ملا تو وہ جذباتی ہو رہی تھی ، دوسری جانب غازی بھی اپنی بہن سے ملنے کو بے تاب تھا۔۔۔۔
حاشر صاحب کے کہنے پر غازی اور غزل کو افطار پر مدعو کیا گیا جس کے باعث وہ اپنی بہن سے بھی مل لیں گے اور حویلی کے مکینوں کے ساتھ گپ شپ بھی کر لیں گے۔۔
💗💖
فیروزہ بیگم ، افطار کی تیاریاں کروا رہی تھی کہ فریال خود کو کمپوز کرتی چہرے پر مسکراہٹ سجائے کیچن میں داخل ہوئی اور بہت اپنائیت سے انہیں گلے لگایا۔
لو یو ماما۔۔۔۔”نم لہجے کے ساتھ مسکرا کر کہتی انہیں مسکرانے پر مجبور کر گئی۔
ماشاءاللہ میری بیٹی آئی ہے۔۔۔۔
ان نے بہت اپنائیت سے اسکا ماتھا چوما۔
جی ہاں ! کیونکہ میرے بھائی اور بھابھی آرہے ہیں نا ، اب میرا بھی کوئی بھائی ہو گا جس سے میں بھی دلنشین کی طرح فرمائش کر سکوں گی۔۔۔۔
سب سے بڑھ کر اب مجھے لاوارث کا طعنہ سننے کو نہیں ملے گا۔۔۔
یاسیت سے کہتی وہ آخر میں مسکرا دی تھی لیکن فیروزہ بیگم اس کے دل کی کیفیت سمجھ چکی تھیں۔۔۔ممتا کا احساس تھا ان میں ، ماں تھیں وہ کیسا نہ سمجھ پاتیں۔۔۔۔
💖💙
فریال نے دل سے ہر ایک تیاری کی تھی اپنے ہاتھوں سے فیروزہ بیگم کے ساتھ مل کر کھانے کا خوب اہتمام کیا۔۔۔۔
ابھی بھی وہ تیار ہو کر لان میں بیٹھی بے صبری سے اس ہستی کا انتظار کر رہی تھی جسے اسکا بھائی کہا جا رہا تھا جس کے ساتھ اسکا خون کا رشتہ تھا۔۔۔
بے صبری کے عالم میں وہ بار بار گھڑی کی جانب دیکھ رہی تھی جب کہ دلنشین اسکے چہرے کے تاثرات کو کافی انجوائے کر رہی تھی ، بالآخر اسکا انتظار ختم ہوا جب صارم کی گاڑی کے ساتھ ایک نئی گاڑی حویلی میں داخل ہوئی اور پھر اس میں سے نکلنے والی ہستی کو دیکھ وہ حیران رہ گئی تھی کیونکہ یہ دونوں وہی اس دن پارٹی والے لڑکا اور لڑکی تھے۔۔۔۔
وہ جذبذب کے عالم میں آگے بڑھی۔۔۔۔
آپ میرے بھائی بھابھی ہیں۔۔۔؟؟
بے صبرا پن اب کنفیوژن میں بدلا تھا جب کہ وہ عجب سی کھوئے لہجے میں بولی ،
جب کہ غازی کچھ سن ہی کہاں رہا تھا وہ بس سامنے کھڑی اپنی بہن کو دیکھ رہا تھا جو اسے آج بھی وہی پانچ سالہ گڑیا لگ رہی تھی، اس کے ذہن میں وہ بچپن کے قصے گھوم رہے تھے۔
گ۔۔گڑیا۔۔۔۔!! غازی نے نمکین آنکھوں ، بھرائی آواز کے ساتھ پکارا تھا جب کہ اس لفظ کو سنتے فریال کو نا جانے کیا ہوا کہ وہ کنفیوژن بھلائے سب کو فراموش کیے بے اختیار روتی غازی کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی
خون کی کشش ہی ایسی تھی کہ اس نے دیکھتے نے دیکھتے ہی جوش مارا تھا ، آج اس حویلی میں دوسری بار ایک بہن کئی برسوں بعد اپنے بھائی سے جا ملی تھی۔۔۔۔
بھائی سے مل لیا ، بھابھی سے نہیں ملو گی ؟
غزل نے مصنوعی خفگی سے کہا تھا کہ وہ نم آنکھوں سے مسکراتی اسکے گلے لگی۔
پھر وہ سب اندر کی جانب چل دیے ، موحد تو بس چہرے پر سنجیدگی سجائے سائیڈ پر بیٹھا رہا جب کہ اس کے بر عکس باقی سب لوگ بہت اچھے سے ان سب ملے پر سب نے مل کر افطاری کی۔۔۔۔
انکل اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنی بہن کو گھر لے جانا چاہتا ہوں۔
اس نے شفقت سے فریال کے سر پر ہاتھ پھیرتے کہا جب کہ غازی کی بات سن جہاں صارم کا چہرہ سنجیدہ ہوا وہیں فیروزہ بیگم کا دل اداس ہوا تھا۔۔۔
جی کیوں نہیں بیٹا ، آپ کی بہن آپ حق رکھتے ہو بالکل لے جا سکتے ہو۔
انہوں نے بہت اپنائیت سے کہا تھا جس وہ کافی خوش ہوا۔
آنٹی فریال پر آج بھی آپ کا اتنا ہی حق ہے جتنا پہلے تھا ، آج بھی وہ آپ ہی کی بیٹی ہے۔۔۔۔
وہ فیروزہ بیگم کی اداسی بھانپ گیا تھا تب ہی احترام سے ان کا ہاتھ تھام گویا ہوا جس پر وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی تھیں۔۔
کچھ ہی دیر میں فریال اپنے سامان کے ساتھ نیچے آئی تھی سب سے مل کر ، وہاں سے چل دی جب کہ روم کی ونڈو میں کھڑا صارم اس کے چہرے پر سکون دیکھتا سانس بھرتا رہ گیا۔۔
وہ سب سے مل کر گئی تھی کوئی رہ گیا تھا تو وہ تھا صارم ، وہ آخر تک اسے ڈھونڈتی آئی لیکن وہ اسے نظر نہ آیا ۔
💖💜
وہ غازی کے ہمراہ دروازہ کھول کمرے میں داخل ہوئی تو پورا کمرا بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا ، سامنے ہی بڑے سے غباروں کے درمیاں ”ویلکم بیک مائی گڑیا“ لکھا ہوا تھا ، ساتھ اس دیوار پر اس کی بچپن کی کتنی ہی تصاویریں جو اسکے ماں باپ اور بھائی کے ساتھی کئی مواقعوں پر لی گئیں تھیں وہ سب ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔۔۔۔
وہ دھیمے قدموں سے چلتی ان تصویروں تک آئی ، جنہیں دیکھ کر کچھ غائب جھلکیاں تھیں جو اسکے ذہن کے پردوں پر گھوم رہی تھیں۔۔۔
اسکے ماں باپ ، اسکے حقیقیی والدین ۔۔۔۔
جن کی جھلک تو اسے یاد نہ تھی جن کو یاد کر کے وہ ہمیشہ رویا کرتی تھی آج ان کی تصویر کو دیکھ پا رہی تھی ان کو ہاتھ لگا کر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
اس نے مسرور کی کیفیت میں اپنے چہرے کو ہاتھ لگایا وہ بالکل اپنی ماں جیسی تھی لیکن اس کی آنکھیں ، اپنے باپ اور چھائی جیسی گہری جھیل سی۔۔۔۔
کتنی دیر وہ ان لمحوں کے سحر میں ڈوبی رہی تھی۔۔
گڑیا تمہیں ہم نے کتنا مس کیا ۔۔۔۔
غازی نے اپنے بانہوں کے گھیرے میں سمویا تھا اپنی بہن کو ، وہ اس کے کندھے پر سر ٹکائے آنسوں بہا رہی تھی۔۔۔۔
بھیا مس میں بھی کرتی تھی پر آپ سب کھو گئے تھے مجھ سے۔۔
سوں سوں کرتی وہ بالکل ویسے ہی رو رہی تھی جیسے بچپن میں رویا کرتی۔۔۔۔
بہت مان سے جھک کر غازی نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اسے ریلکس ہونے کا کہتا خود کمرے سے چل دیا جب کہ وہ اب اپنی فیملی فوٹو کی جانب متوجہ ہو چکی تھی، پھر زندگی کے سفر اس کے اوتار چڑھاؤ کو سوچتے کب نیند کی وادیوں میں کھوئی علم نہ ہوا۔۔۔۔
صبح وہ اٹھی تو وہ دن اس کے لئے بالکل نیا تھا ، زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا جب وہ فیروزہ بیگم لوگوں کے بغیر تھی
اسے ان کی یاد آنے لگی ، جہاں اپنے بھائی اور فیملی ملنے کی خوشی تھی وہیں ایک فیملی سے دور ہونے کا غم بھی تھا۔۔۔۔
سحری اور نماز وغیرہ سے فری ہو کر ، وہ غزل اور غازی کے ساتھ مل کر پورا گھر دیکھنے لگی جہاں ، وہ اسے ہر ایک چیز کے بارے میں بتاتے ہوئے بچپن کی باتیں یاد کروا رہا تھا جنہیں سن کر وہ یاسیت سے مسکرا دی۔۔
💜❤️
مام، بات سنیں۔۔۔۔
فیروزہ بیگم اداس سی کیچن میں مصروف کام کر رہی تھیں کہ موحد نے آتے انہیں پکارا جس پر انہوں نے کافی ملامتی نظروں سے اس کی جانب دیکھا
تمہارے لیے بہتر ہو گا موحد کہ مجھ سے بات نہ کرو۔۔۔۔
انہوں نے کافی سخت لہجے میں کہا جس پر وہ اچھا خاصا تڑپ اٹھا۔
مام پلیز ، اب تو ناراضگی ختم کر دیں۔۔۔
ان کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کی تھی جس پر ، وہ دو قدم پیچھے ہٹی تھیں۔
موحد ، میں تمہاری شکل بھی دیکھنے کی روادار نہیں ، آج تمہاری وجہ سے میری بیٹی مجھ سے دور ہوئی۔۔۔۔
کاش تم نے ہمارا مان رکھا ہوتا ، یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا تو فریال آج ہمارے ساتھ ہوتی۔۔۔
وہ انتہائی افسوس سے بولی تھیں کہ وہ
شرمندہ سا ہوا۔۔۔ لیکن فریال نے نام پر حلق تک کڑوا ہو کر رہ گیا ، بنا ان سے کچھ کہتا وہاں سے تیز قدم اٹھاتا واک آوٹ کر گیا۔
فیروزہ سنو۔۔۔
جی۔۔۔
”کیوں نا ہم فریال کو اپنے صارم کی دلہن بنا لیں “.۔۔۔۔؟؟
ساحرہ بیگم نے ، اس گفتگو میں پہلی بار حصہ لیا ،جب کہ سامنے سے فیروزہ بیگم کی سن کچھ لمحے کے لئے ان کی آنکھیں چمکی تھیں۔
واہ، ساحرہ ماننا پڑے گا تمہیں۔۔۔
وہ قہقہ لگا کر ہنس دی تھیں جس پر ان نے فخریہ کالر جھاڑے۔۔۔
🧡❤️
فریال غزل کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اس کے ساتھ کیچن میں ہیلپ کروا رہی تھی کہ ڈائننگ سے کچھ جانی پہچانی آوازوں کو سن کر باہر آئی تھی اور سامنے غازی کے ساتھ بیٹھے فیروزہ بیگم اور حاشر درانی کو دیکھ وہ خوشی سے چہک اٹھی۔۔۔۔
السلام وعلیکم ماما بابا۔۔۔۔
وہ چہک پر خوش ہوتی لپک کر ان کے دونوں کی آغوش میں سمائی تھی جس پر وہ ہنستے ہوئے اس کو پیار کرتے خود سے لگا گئے۔۔۔
ماشاءاللہ میری بچی ہمیشہ خوش رہے۔۔۔
دیکھو بھئی ، ہم سے تو ایک دن بھی فریال کا بنا گزارا نہیں گیا اور ہم چلے آئے۔۔۔
وہ عقیدت سے اس کے گال کو سہلاتی بولیں جب کہ وہ ان کے ساتھ ہی لگی بیٹھی تھی۔
کتنی خوش نصیب تھی وہ جس جو اللّٰہ نے دو دو پیار کرنے والی فیملیز سے نوازا تھا اس کی آنکھیں اشک بار ہوئی تھیں۔۔
گڑیا زرہ ، اپنے ہاتھ کے دہی بھڑے تو بناؤ بہت دل ہو رہا ہے ، اسلئے آج افطاری ہم یہاں ہی کر کے جائیں گے۔۔۔۔
حاشر درانی نے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کر کیچن میں چل دی جب کہ اب وہ غازی کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔۔
غازی ، پہلے یہ فیصلہ کرنے کا حق ہمارے پاس تھا لیکن ، اب تم اس کے سر پرست ہو اسلئے تم سے کہہ رہا ہوں۔۔۔۔
آج ایک بار پھر ہم اپنی بچی کو تم سے ، اپنے صارم کے لئے مانگنے آئے ہیں امید ہے تم انکار نہیں کرو گے۔۔۔
انکل آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ، میں نے اس دن بھی کہا تھا فریال آج بھی آپ لوگوں کی ہی بیٹی ہے اور رہی بات رشتے کی تو صارم واقعی بہت اچھا اور سمجھدار لڑکا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں بس ایک بار گڑیا کی مرضی جاننا چاہوں گا۔۔۔ پھر باقی جیسا آپ لوگوں کو منظور ہو۔
آنٹی۔۔۔آپ اکیلے میں اس سے بات کر لیجئے آپ ماں ہیں اس کی تو بہتر طریقے سے اس موضوع پر بات کر سکتی ہیں۔
اس نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیروزہ بیگم کو مخاطب کیا ساتھ انہیں ایک ماں ہونے کا درجہ بخش گیا جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتی اٹھ کر فریال کی جانب چل دیں ، اسے کیچن سے بلاتی باہر لان میں اپنے ساتھ لائی تھیں۔
میری جان ماما آپ سے ایک کہیں تو مانیں گی آپ ؟
انہوں نے پیار سے اسکا چہرہ تھام کر کہا جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتی جواب دے گئی۔
میں نے اور آپ کے بابا نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو صارم کی دلہن بنا کر ہمیشہ کے لئے اپنے پاس کے آئیں۔۔۔۔
ان کی بات سن کر چند لمحوں کو وہ شاک ہوئی تھی لیکن پھر فوراً ہی سنبھل گئی۔
کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟
ان نے کچھ جانچنا چاہا۔۔۔۔
ماما ، کون سی ایسی بیٹی ہو گی جس کو ہمیشہ اپنی ماں کے پاس رہنے کا موقع ملے اور وہ انکار کر دے۔۔۔۔
سادہ سے لفظوں میں ایک گہری بات کہتے وہ اپنا مثبت جواب دے گئی تھی جس پر فیروزہ بیگم تو خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھیں۔۔۔
ماشاءاللہ جیتی رہو میری بچی۔۔۔۔
ان نے محبت سے اسے گلے لگایا تھا۔۔۔
💗🤗
کچھ دنوں بعد۔۔۔۔
سب بڑوں نے فیصلہ کیا تھا کہ صارم اور فریال کے نکاح کے ساتھ احتشام اور دلنشین کا نکاح بھی کروا دیا جائے اور
ساتھ پلوشہ اور صائم کا نکاح بھی دوبارا رکھا گیا تھا۔۔۔
غازی کے بے حد اسرار پر نکاح کے تمام فنکشن غازی کے گھر میں رکھے گئے تھے
اسلئے آج اس بنگلے کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ، کے سب اراکین لان میں موجود تھے بنگلے کو کسی دلہن کی مانند سجایا گیا تھا کیونکہ آج یہاں سے ایک نہیں تین بیٹیوں کی رخصتیاں ہونی تھی ہر طرف سے پھولوں کی مہک اور جگمگاتے بلب کی روشنیاں تھیں۔۔۔۔
🧡💗
لگتا ہے آج اپنی تیاری سے گھائل کرنے کا ارادہ ہے جان جان کا۔۔۔
💗🧡
صائم صارم اور احتشام تینوں سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس پاؤں میں پشاوری چپل زیب تن کیے اسٹیج پر بیٹھے تھے۔۔۔۔
جبکہ پلوشہ فریال اور دلنشین خوبصورت پیچ رنگ کی گھیرے دار فراک زیب تن کیے انہی کے پہلوں میں سر جھکائے بیٹھی تھیں۔۔۔
یار ویسے میں سوچ رہا ہوں آج تم سچ میں وہی لگ رہی ہو”….
“احتشام کی زبان پر خجلی ہوئی تھی تبھی دلنشین سے آہستگی سے مخاطب ہوا
“دلنشین نے اپنے گھنے آئبرو اچکائے جیسے پوچھنا چا رہی ہو کہ کیا”..؟؟؟
“چ۔۔چڑیل”…
“اپنی ہنسی ضبط کیے وہ آرام سے بولا تھا لیکن اسکی دبی دبی چیخ ابھری تھی جب اپنے پاوں پر اسکی ہیل کا دباؤ محسوس کیا”….
“آگے ٹیبل ہونے کے باعث کوئی دیکھ نہیں پا رہا تھا تبھی اسے کوئی فکر نہ تھی”…
“سچ مچ کی چڑیل پاوں ہٹاؤ یار”….
“وہ دبا دبا چیختے ہوئے غرایا تھا”…
“لیکن وہ دباؤ مزید بڑھا گئی تھی شائد پچھلی باتوں کو بدلہ آج ہی لینے کا ارادہ رکھتی ہو”….
“نکاح کے ختم ہوتے ہی سب نے جیسے ہی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے “.
” لان میں فائقہ کی آواز گونجی تھی”….
“چاند نظر آگیا”…..
“سب نے اسکی نظروں کی سمت دیکھا جہاں چاند کی ایک باریک لکیر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی تھی”…..
“سب کے چہروں پر خوشی کے رنگ جھلکے تھے”…
“مبارک ہو”….!
“سب کی صدائیں گونجی تھیں”…
لان کا منظر اب کچھ ایسا تھا کہ دلہا دلہن اسٹیج پر کھڑے تھے جب کہ ، باقی سب بڑے سائیڈ پر موجود تھے۔۔۔۔
جہاں سب اپنے اپنے جوڑی دار کے ساتھ موجود تھا وہیں غازی نے اپنے پہلو میں کھڑی اپنی بیوی کو دیکھا تھا، جو بلیک رنگ کی ساڑھی میں تمام ہتھیار سے لیس ، اس کے چاروں شانے چت کرنے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔
”لگتا ہے کوئی اپنی تیاری سے آج ہمیں گھائل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے“۔۔۔۔
وہ گھمبیر آواز میں جھک کر سرگوشی کرتے ہوئے بولا تھا کہ غزل اس نے ٹوکا دیتے گھور کر دیکھا جس پر وہ سر کھجاتا رہ گیا۔۔۔۔
ایسے ہی ہنستے مسکراتے سب نے سب نے مل کر دعائیں کی تھیں ،آج یہ عید سب کے لئے مبارک ثابت ہونے والی تھی۔۔۔
دعا کے بعد سب نے ، غازی نے قرآن کے سائے تلے جہاں فریال کو رخصت کیا وہیں ، پلوشہ اور دلنشین کی بھی رخصتی کا یہ فرض موحد اور صارم نے نبھایا۔۔۔۔
خیر و عافیت سے تمام فنکشن ، اپنے اختتام کو پہنچے تھے۔۔
❤️💜
“کمرے میں تاریخی چھائی ہوئی تھی مگر جگہ جگہ پر رکھی موم بتیوں کی وجہ سے مدھم مدھم روشنی سے کمرہ ہلکا سا روشن تھا اور یہی روشن چھن سے پلوشہ کے گھونگھٹ پر بھی پڑ رہی تھی وہ کمرے میں اس وقت اکیلی تھی مگر اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا آنے والے پلوں کو سوچ میں گھبراہٹ کے ساتھ شرمگیں مسکراہٹ چہرے پر سجائے پھولوں سے سجے بیڈ پر براجمان تھی وہ پہلے بھی اس کے ساتھ رہتی تھی مگر آج جو انوکھا سا احساس اس کے دل میں جاگ رہا تھا وہ بہت مختلف تھا بہت ہی دلچسپ اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ تھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ ہوش میں لوٹی اس کا دل تیزی سے دھڑکا تھا چہرہ سرخ ہو گیا جبکہ مقابل شاہانہ انداز میں چلتا اس تک آیا اور بیڈ کے قریب کھڑا ہو گیا تھا وہ آنکھوں میں تپش دیتے جذبات بھرتا اس کے گھونگھٹ کو دیکھ رہا تھا صائم کے چہرے پر انوکھی مسکراہٹ تھی جس سے اس کی خوشی بیان ہو رہی تھی پلوشہ گود میں رکھے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی وہ خاصی کنفیوژ تھی جبکہ وہ خاموش تھا پلوشہ تو اس کے بولنے کے انتظار میں تھی جب اس نے بہت ہی دھیمے انداز میں اس کا نام پکارا” ۔۔۔۔۔
“کہ پلوشہ کی دھڑکنیں اسے اپنے کانوں میں سنائی دی اس کی دلکش آواز نے ماحول میں ایک ساز سا چھیڑ دیا تھا” ۔۔۔
“پلوشہ”
“وہ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا جس پر پلوشہ سے نے سختی سے خود کے لہنگے کو پکڑا اس کی زبان تو جیسے تالوں سے چپک گئی تھی صائم نے ہولے سے اس کا گھونگھٹ اٹھایا” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مگر اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹھک کر رہ گیا تھا جب سامنے وہ کسی حسن پری کی طرح سجی ہوئی تھی صائم کی نظریں اس کے ہوش ربا سراپے پر ہی اٹک گئی تھی” ۔۔۔
“جہاں وہ اس کے دل کو گھائل کرنے کے تمام ہتھیار سے لیس اس کی دسترس میں تھی اس کے سامنے “…..
“پلوشہ نے اپنی جھل مل کرتی پلکیں اٹھائیں “…
“ایک لمحے کے لئے ہی صحیح لیکن دونوں کی آنکھیں دو چار ہوئی تھیں”…
“سنہری آنکھیں گہری بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تھیں”…
“ایک کی آنکھوں میں گھبراہٹ و محبت کی ملی جلی کیفیت تھی جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر”….
“جاناں”…
“صائم کی جذبات سے چور گھمبیر آواز گونجی تھی اس فسوں خیز ماحول میں “…
“اس کی آواز میں کچھ ایسا تھا جو پلوشہ پر لرزا طاری کر گیا”….
“ج۔۔جی جی”…
“خود کی کیفیت پر قابو پائے وہ اٹکتے ہوئے بولی”….
“مجھے مارنے کا ارادہ رکھ کر آئی ہو”…؟؟؟
“خمار زدہ لہجے میں بولا تھا اور ساتھ ہی اس کے حنائی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا”….
“خدا کا نہ کرے”…
“پلوشہ نے تڑپ کر اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا”…
“اس کے ریکشن پر صائم نے مسکراتے ہوئے اسکا وہ ہاتھ بھی تھام لیا اور اپنی عور کھینچا تھا”….
“صائم کا چہرا پلوشہ کے چہرے کے بے حد قریب تھا کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہی تھیں”…
“You’re a breath of fresh air and you make my days perfect. I cherish you and really love you……
“..You are that woman who transformed my imperfections into perfections, just by the touch of your love. Love you my dearest wife!….
“بوجھل لہجے میں کہتا وہ اپنے دل کی عکاسی کر رہا تھا اپنے جذبات اس پر عیاں کرنے کی کوشش کر رہا تھا”….
“With a wife like you, I feel so blessed. You are my life and always on my mind. My beloved, you are one in a million. And I love you very much”…….
“No words can express how much I love you. Just always remember that my love is true. You’re always on my mind. I always want you by my side”…..
“اپنے آخری شبدوں کے ساتھ درمیاں میں رکھا وہ آخری فاصلہ بھی مٹا چکا تھا اور کسی گھٹا کی مانند چھایا تھا اس پر”….
“صائم کی بڑی گستاخیاں وہ شوخیاں پلوشہ کو شرمانے پر مجبور کر رہی تھیں کہ وہ خود میں سمٹ کر رہ جاتی “….
❤️💜
“غازی”..!
“غزل اسے پورے گھر میں تلاشتے ہوئے اوپر چھت پر آئی تھی “…
“جہاں وہ سائڈ پر رکھے جھولے پر بیٹھا اپنے ہی خیالوں میں مگن تھا۔۔۔۔
“آپ یہاں ہیں “…
“میں آپ کو پورے گھر میں میں ڈھونڈ رہی ہوں”….
“ہاتھوں کو پیچھے کی جانب فولڈ کیے وہ آرام سے چلتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی”….
“ہہمم”…
“ایسی کیا وجہ ہو گئی جو ہماری ہوم منیسٹر ہمیں ڈھونڈ رہی تھیں”…
“ہاتھ بڑھائے اپنے پہلو میں بیٹھایا تھا اسے”…
“جبکہ غزل اسکے “ہوم منیسڑ” کہنے پر ہنس دی تھی “….
“ہاہاہاہا “…غازی آپ بھی نا”…
“وہ تاسف میں سر ہلا کر رہ گئی”…
” اچھا غازی یہ دیکھیں میں نے مہندی لگوائی ہے “…
“اب جلدی سے اس میں اپنا نام تلاش کریں”….
“اپنے حِنا سے سجے ہاتھوں کو اسکے سامنے کیا تھا”…
“جبکہ غازی نے اسے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا اور ایک محبت بھری نظر غزل کے وجود پر ڈالی تھی جو کہ “پستہ رنگ کی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ تمام حشر سامانیوں سمیت اپنے شوہر کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی “…
“جلدی ڈھونڈیں “…
“اسکو خود کی جانب گھورتے پا کر اس کی توجہ ہاتھوں کی جانب کروائی تھی”….
“ہہمم”…..
“اسکے ہاتھوں کو سوچنے کے انداز میں دیکھتے بولا تھا”…
“یہ رہا “….
“دائیں ہاتھ کے پیچ میں چھپا کر لکھے گئے نام کو دیکھتے بولا “..
“جو کہ آدھے چاند چاند میں اسطرح سے لکھا گیا تھا کہ دیکھنے والے کو وہ کوئی ڈیزائن معلوم ہو رہا تھا”….
“ویسے بیگم جانی چاند تو پورا رکھتی آدھا کیوں بنوایا ہے”…
“ہوا سے اڑتے اسکے ریشم بالوں کو ایک جانب کرتے ہوئے کہا تھا اس نے”….
“غازی یہ چاند تب مکمل ہو گا جب “اللّٰہ تعالیٰ ” ہمیں ہماری اولاد سے نوازیں گے”….
“اسکی آنکھوں میں دیکھ وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی”..
“آج غازی کو اسکی آنکھوں میں ایک امید نظر آ رہی تھی”…
“ان شاءاللہ “…..
“آئے میرے ہونٹوں یہ دعا خدایا
ٹوٹے دل کی سن لے تو التجا خدایا
“یہ مہندی کی خوشبو کتنی اچھی ہے نا انسان کو معتبر کر دیتی ہے”…
“اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کو اپنی ناک کے پاس لا کر ابھی اس نے خوشبو کو صحیح سے اپنے اندر اتارا بھی نا تھا کہ اچانک اسکی آنکھیں بند ہونا شروع ہوئی تھیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے غازی کے بازوں کو جھول گئی”….
“غزل”….
“غزل”……….
“اسکے چہرے کو تھپکتے ہوئے پکارا تھا غزل کو”…
“جو کہ اسکے بازوں میں ہوش و خرد سے بیگانہ پڑی تھی”…
“وہ بھاگتے ہوئے اسکے نیچے لایا تھا اور ڈاکٹر کو فون کیا “…..
🧡💗
“کھلا آسمان”..
“آسمان میں چمکتا چاند”….
“اس چاند کی روشنی کھڑی فریال دلہن کے لال عروسی جوڑے میں ملبوس اپنے خیالوں میں گم نظر آتی تھی”….
“زیورات اور میک اپ سے سجی وہ کافی حسین لگ رہی تھی ،” چاند کی روشنی میں اسکا یہ سراپا مزید نکھر رہا تھا “…
لیکن”….
“اس کے چہرے پر چھائی اداسی کسی بہت بڑے دکھ کی خبر دے رہی تھی”..
“جیسے زندگی سے بہت گہری چوٹ کھائی ہو اس نے”…
“ہاں اس نے چوٹ کھائی تھی”…کسی بہت اپنے سے_..
“جسے اپنے دل کا رقیب مانتی تھی وہ”..
” جس کی سیج سجانے کے خواب بہت پہلے سے دیکھتی آئی تھی وہ “…
“لیکن” افسوس ،٫ اس کے وہ خواب پورے نا ہو سکے “…
“کیونکہ آج وہ کسی اور کے نام لکھ دی گئی تھی”…
“اس شخص کے نام،” جو بنا اس کی مرضی کے اس کی زندگی میں داخل ہوا ہے”…
“اب دیکھنا یہ تھا”…
“کیا وہ ، “قبول کر پائے گی اس رشتے کو”…؟؟؟
“یا رہے گئی اس کی سوچ پر اپنی پرانی زندگی کی داستان ہاوی..”۔۔؟؟؟
“ابھی تھوڑی دیر پہلے ساحرہ بیگم اور فیروزہ بیگم اسے صارم کے روم میں چھوڑ کر گئی تھیں”….
“اور ساتھ ڈھیروں دعائیں دی تھیں”…
“اسکے خیالوں کا تسلسل خود کو کسی کے مضبوط حصار میں پا کر ٹوٹا تھا”….
“وہ جب روم میں داخل ہوا تو بیڈ کو خالی دیکھ حیران ہوا تھا “…
“لیکن اس کی یہ حیرانی بھی بہت جلد ٹوٹی تھی جب نظر بالکونی میں کھڑی فریال پر گئی جو رات کے اس اندھیرے میں چاند کی روشنی تلے کھڑی کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی”…
“کیا سوچ رہی ہے میری بیگم”…؟؟؟
“صارم نے اسکے گرد اپنے بازو حائل کرتے ٹھوڑی کاندھوں پر ٹکائے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا”…
“کچھ خاص نہیں”…
“بس یہی سوچ رہی ہوں کہ جو چاہا وہ پایا نہیں”…
“اور جس کا گمان نہیں وہ پا لیا”…
“آسمان کی جانب دیکھتے وہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں بولی تھی”…
“یہی تو زندگی کا کھیل ہے “….
“جو ہم سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں “…
“اور جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے وہ ہو جاتا ہے اور ہم حیران رہ جاتے ہیں”…
“اسکا رخ اپنی جانب موڑا تھا “…
“جیسے میں نے ایک پری سے پیار کیا”….
“اسکی معصوم اداؤں اور شرارتوں اسکے سلیقہ سے عشق تھا مجھے”…
“مجھے امید تھی وہ مجھے مل جائے گی مگر میں غلط تھا”…
“وہ پری کسی اور کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی “…
“اس دل کو تکلیف تو بہت ہوئی لیکن صبر کر گیا “…
“کیونکہ یہ صبر بہت بڑی چیز ہے”…..
“صبر کی طاقت ہے یہ جس سے میرا جینا آساں رہا
مجھ کو بھی حیرت رہی میری طرح تو بھی حیراں رہا”….
“میں نے اپنی محبت کو دل کے کونے میں دبائے رکھا”…
“خاموش محبت کرتا رہا تھا اس پری سے”…
“مگر کافی طویل صبر اور امتحان کے بعد “…
“آج کے خوبصورت موقع پر میں اس سے اظہارِ محبت کرنے کا خیال رکھتا ہوں”…
“کیونکہ آج کے اس با برکت دن پر خدا نے اسے مکمل طور پر میرا بنا دیا ہے”..
“اور وہ پری پور پور میرے لئے سر تا پیر سجی ہے”…
“اسکے مہندی اور چوڑیوں سے سجے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور شیروانی کی پاکٹ سے اعلیٰ ڈیزائن کی انگوٹھی اسکی انگلیوں کی زینت بنائی”…
“اور اپنے عنابی لب ان ہاتھوں پر رکھے تھے کہ بے ساختہ وہ اپنی گھنی پلکوں کے جھالر کو نیچے کی جانب جھکا گئی تھی “…
دنیا میں ہزاروں آنکھیں دیکھی ہیں مگر فریال وہ واحد لڑکی ہے جو صارم درانی کو ان کی گہرائی میں ڈبِونا جانتی ہے۔
نرمی سے کہتے وہ ان آنکھوں پر جھکا تھا جس کی گہرائی میں ہمیشہ وہ ڈوبتا آیا تھا۔۔۔
“سال 2022 کی عید میرے لئے خوشیوں کی نوید لائی ہے جس میں ، میں اپنی محبت کو ایک پاک رشتے کے طور پر پا چکا ہوں”….
” میری یہ خواہش ہے ہم اپنے اس رشتے کی شروعات خدا کی رضا اسکی برکت کے سائے میں حاصل کریں”…
“اسلئے ہم دونوں ساتھ مل کر شکرانے کے نفل ادا کریں گے اور ہماری آئندہ خوش حال زندگی کی دعا مانگیں گے”….
“محبت و جنوں کی سی کیفیت میں کہتا اسکا ہاتھ تھامے اسٹڈی روم میں کے گیا”…
“جہاں دونوں نے مل کر خدا کا شکرا ادا کیا تھا”….
“یا اللہ” اپنی رضا کے تحت مجھے یہ توفیق بخش کے فریال کو ہمیشہ خوش رکھ سکوں ، مسکراہٹ کبھی بھی اسکے چہرے سے جدا نہ ہونے پائے”……
“یا رب العالمین ” تو بڑا رحیم و کریم ہے اپنے گناہگار بندوں کو معاف کرنے والا”…
“اے رب میری بھی خطاؤں کو بخش مجھے توفیق عطا کر کہ اپنے شوہر کے تقاضوں پر پورا اتر سکوں اور تیرے اس فیصلے کو دل سے قبول کر سکوں “….
“آمین”…
“دعا کرتے ہوئے اسکی دونوں آنکھوں سے اشک رواں تھے”….
“دونوں نے ایک ساتھ دعا مکمل کیے اپنے دعائیہ ہاتھ چہرے پر پھیرے تھے”…
“خدا کی مرضی و برکت کے تحت ان دونوں نے اپنے رشتے کو مکمل بنایا تھا جس میں صرف ان کی آئندہ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں”…
💜❤️
“غازی روم میں داخل ہوا تو اسکی نظر اپنی متاعِ جاں پر گئی جو کہ آنکھیں موندے بستر پر لیٹی تھی”…
“اسکو دیکھ اسکی آنکھوں سے آنسوں رواں ہونا شروع گئے تھے”….
“سچ کہتے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے”….
“جب ڈاکٹر غزل کا چیک اپ کر کے روم سے باہر آئی تھیں تب وہ بے چینی سے باہر ٹہل رہا تھا لیکن ڈاکٹر کے کہے گئے لفظوں نے اسے معتبر کر دیا تھا”….
“مبارک ہو مسٹر غازی “…
“آپ کی وائف امید سے ہیں”…..
“ڈاکٹر کی بات سن وہ شاک کی کیفیت میں ان کی جانب دیکھ رہا تھا جیسے ان کے کہے گئے جملوں پر یقین نہ آ رہا ہو”…..
“غ۔۔۔غزل”…..
“اسکے ہاتھ کو تھام اپنے ہاتھ میں لیا تھا”….
“غزل نے اسکی پکار پر اپنی مندی مندی آنکھیں کھولے اسکی جانب دیکھا تھا”….
“م۔۔۔مبارک ہو غازی “…
“اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا”…
“غازی نے محسوس کیا اسکا لہجہ بھیگا ہوا تھا”..
“تمہیں بھی جان”…
“کہتے اسکے ہاتھ کو تھاما تھا اور ہاتھ میں موجود مہندی سے اس کے ہاتھ پر کچھ بنانے لگا”…
“غزل نے نا سمجھی سے اسکی جانب دیکھا “….
“چاند مکمل کر رہا ہوں”….
“اس کی نظروں کو سمجھتے جواب دیا تھا”…
“خدا تعالیٰ نے اس ہی عید پر یہ توفیق بخشی کہ ہم اپنے چاند کو پورا کر سکیں”….
“مسکراتے ہوئے کہا تھا اور ہاتھ میں پکڑی مہندی سے اس چاند کو مکمل کر گیا”….
“جب کہ وہ مسکرا کر رہ گئی تھی آنکھوں سے خوشی کے آنسوں بہہ رہے تھے”…..
“ہمارا چاند و گھر مکمل ہوا”…
“کہتے اسکے ماتھے پر ایک عقیدت بھرا لمس چھوڑا تھا”….
“جبکہ وہ اپنی آنکھوں کو بند کر گئی تھی”…..
میری تو پور پور میں خوشبو سی بس گئی
اس پر ترا خیال ہے اور چاند رات ہے
چھلکا سا پڑ رہا ہے وصیؔ وحشتوں کا رنگ
ہر چیز پہ زوال ہے اور چاند رات ہے
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial