دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 13

نیم اندھیرے کمرے میں موم بتیوں اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی پورا کمرا ایک خواب ناک سا منظر پیش کر رہا تھا “..
“احتشام جیسے ہی روم میں داخل ہوا تھا تو کمرے کو دیکھ اس کے جذبات مزید بھڑکے تھے وہ مسکراتا ہوا بیڈ تک آیا تھا لیکن یہ کیا وہ خود پر چادر تانے لیٹی تھی ، احتشام کے سارے جذبات جیسے کسی ٹھنڈے پانی کی مانند بیٹھے تھے”….
“اس نے کھینچ کر وہ چادر سائڈ پر کی تھی کہ اسکی آنکھیں حیرت کی ذیاتی سے کھل گئی کیونکہ وہ دلنشین نہیں بلکہ تکیوں اور کشن کو سیٹ کر کے ان پر چادر دی گئی تھی”…
“اس نے واشروم کے دروازے کی جانب دیکھا جو کہ کھلا ہوا تھا احتشام کو یکدم تشویش لاحق ہوئی کہ ناجانے یہ بلا کہاں چلی گئی ہے لیکن جیسے ہی اس کی نظر پردے کے اوٹ میں چھپی دل پر گئی تھی جس کے ہاتھ میں موبائل تھا اور شائد نہیں یقیناً وہ اسکی پرینک وڈیو بنا رہی تھی احتشام کے چہرے پر ایک تبسم بکھرا تھا “….
“وہ یکدم اس سے نظریں بچاتا نیچھے جھکا تھا اور آرام آرام سے وہ بھی کھڑکی کی طرف چلا گیا اور بہت ہی احتیاط کے ساتھ پردہ سائڈ پر کیے اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا”…
“یہ جن کہاں چلا گیا “..؟؟
“احتشام کو وہاں موجود نہ پا کر وہ دانت پیستے بولی تھی جبکہ اس کے پیچھے کھڑا احتشام اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا”…
“دلنشین اپنی جگہ منجمد ہوئی تھی جب احتشام کے کے ہاتھوں لمس اپنی گردن پر پایا تھا وہ تڑپ کر مڑی تھی”…
“ا۔اح۔۔احتشام ..؟؟؟
“وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی ابھی تو وہاں تھا مگر اب یہاں”…
“تم ۔۔تم سچ میں جن بن گئے”….
“ہاہاہاہا کیا کریں جانِ جاں جب بیوی چڑیل ہو تو شوہر تو جن بن ہی جائے گا کہتے احتشام نے اس کے چہرے پر لو بائیٹ دی تھی جس وہ سسکی تھی”…
“اور بنا اسے سمجھنے کا موقع دیے اپنی بانہوں میں اٹھائے بیڈ تک لایا فون اس کے ہاتھوں سے چھوٹ وییں نیچے کارپیٹ پر گیا تھا”….
“ی۔۔یہ کیا کر رہے ہو جن کہیں کے چ۔۔چھوڑو مجھے”…
“اس کی پناہوں میں وہ مچل رہی تھی”….
“نا۔۔نا جانِ من آج تو بالکل نہیں چھوڑوں گا بلکہ سارے حساب بے باک کرنے کا ارادہ ہے”…
“آنکھ ونک کیے وہ شرارتاً بولا تھا لیکن اپنی زومعنی بات سے اسے سرخ کر گیا”…
“احت۔۔
“دلنشین کو آگے کچھ کہنے کا موقع نہ دیا تھا اس نے کیونکہ اس کی سانسوں ان لفظوں کو قابو کر گیا تھا اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھائے وہ آخری لیمپ بھی بجھا دیا”….
♥️💙
“صارم آدھا گھنٹا پہلے عید کی نماز ادا کر کے آیا تھا اور اب شیشے کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا اور ساتھ گاہے بگاہے نظر اس دلربا پر بھی ڈال لیتا جو پچھلے دس منٹ سے جھکی اپنی ہیل کے اسٹیپس باندھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ ظالم اس سے بند ہی نہیں ہو رہے تھے وہ اس کے چہرے کے ایکسپریشن دیکھنے میں ناکام ہو رہا تھا کیونکہ اسکے گھنے کھلے بال اسکے چہرے پر چھائے ہوئے تھے”…
“وہ اپنی تیاری پر آخری نظر ڈالے اسکے پاس آیا اور جھک کر اسکے اسٹریپ بن کرنا چاہے لیکن وہ اپنا پاؤں فوراً پیچھے کر گئی تھی”…
“م۔۔میں کر لوں گی”….
“صارم کی انگلیوں کا لمس اپنے پیروں پر محسوس کیے وہ گڑبڑاتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی مگر مقابل نے کمال مہارت سے واپس کے پاوں کو اپنی گرفت میں لیتے اسٹریپس باندھے تھے جو کہ بہت پتلے تھے” ۔۔
“اگر تم نے کرنا ہوتا تو پچھلے دس منٹ میں کر چکی ہوتی میڈم”…
“اسٹریپس باندھے وہ کھڑا ہوا تھا اور ساتھ ہی فریال کو بھی کھڑا کیے کونے پر رکھی وارڈروب کے پاس لایا اور اس میں سے بہت ہی نفیس سا بڑا سا باکس نکالا تھا”….
“یہ کیا ہے .؟؟
“وہ استہفامیہ لہجے میں بولی “…
“کھولو تو صحیح”….
“مقابل کا محبت سے بھرپور حکم آیا تھا “….
“وہ کیسے رد کر سکتی تھی تبھی اس کی بات مانتے ہوئے اس نے اس باکس کو کھولا تھا لیکن جیسے جیسے وہ باکس کھلتا چلا گیا ویسے ویسے اسکی آنکھیں اور منہ پر کھل گیا تھا خوشی و حیرت سے”….
“اس نے صارم کی جانب دیکھا تھا اسکی آنکھوں میں بے یقینی تھی جبکہ صارم کا دل و آنکھیں مسکرا رہی تھیں اسکے چہرے کی خوشی دیکھ”….
“میری خوبصورت بلا کے لئے انوکھا رونمائی کا تحفہ”….
“واؤووو”…..
“اٹس امیزینگ”….
“وہ باکس کو دیکھ بولی تھی جس کے بیچ میں ایک مکمل جیولری سیٹ تھا اس سیٹ کے دائیں بائیں الگ الگ ڈیزائین کے کڑے تھے “…
“اور اس سیٹ کے اندر کی طرف دو الگ الگ طرح کی چین تھیں”….
“وہ گولڈ و ڈائمنڈ کا مکس سیٹ تھا وہ رونمائی کا یہ تحفہ ، ساتھ اسکا پیار پا کر واقعی مکمل ہو گئی تھی”….
“صارم نے اپنی پسند سے اس میں سے دو کڑے نکال کر ان کو فریال کے حنائی ہاتھوں کی زینت بنایا اور بہت ہی اپنایت سے وہاں اپنے لب تھے “
“پھر وہ دونوں مسکراتے ہوئے نیچے چل دیے”….
❤️💞
“فریال و صارم دونوں ایک ساتھ نیچے آئے تھے “….
“حویلی کی ان شہنشائی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے وہ کسی ریاست کے بادشاہ و ملکہ ہی لگ رہے تھے”….
“سب گھر والوں کی نظریں ان ہی پر ٹک گئی تھیں وہ دونوں ہنستے مسکراتے ہوئے اتر رہے تھے “….
“موحد کی نظریں تو جیسے کسی نے فریز کر دی ہوں سحرش نے اسے ٹوکا مارا تھا جیسے ہوش دلانا چاہا ہو”….
“وہ دونوں نیچے آ چکے تھے سب کو با آواز بلند سلام کرتے سب کو عید مبارک کہا ساتھ ہی ڈھیروں دعائیں بھی وصول کر رہے تھے جبکہ موحد کی نظریں اب بھی گاہے بگاہے اسکی پر اٹھ رہی تھیں”…
“اسکے چہرے پر بکھرا وہ گلال ، وہ نور ، وہ خوشی اسے دیکھنے پر مجبور کر رہے تھے شائد یہ چہرے کی سرخیاں ، یہ نور صارم کی دی گئی محبت اور اپنائیت کے ہیں “….
“شادی کے بعد وہ مزید حسین لگے گی اس بات کا اندازہ موحد کو نہ تھا یا موحد نے پہلی بار ٹھیک سے اسے دیکھا تھا ورنہ خوبصورت تو ویسے بھی تھی”….
“ہاں وہ اسکی تھی مگر وہ کسی اور کی ہو گئی تھی اور جس کی ہوئی تھی اسکے ساتھ خوش تھی”…
“جب کوئی چیز انسان کی دسترس میں ہو تو وہ اس کی قدر نہیں کرتا لیکن جیسے ہی وہ چیز اس سے چھین لی جائے تب اسکی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
“یہی سب اب موحد کے ساتھ ہو رہا تھا کہ جب تک فریال اسکے رشتے میں تھی وہ قدر نہ کر سکا لیکن جیسے ہی وہ کسی اور کی ہو گئی تب اسے احساس ہو رہا تھا”….
“لیکن وہ جلد ہی خود پر قابو پا گیا اور دل ہی دل میں اسکے خوش رہنے کی دعا کی تھی”….
“وہ ہمیشہ سوچتا تھا کہ فریال اسکے قابل نہیں ہے لیکن آج اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اس اپسرا کے قابل نہ تھا اور واقعی حقیقت بھی یہی تھی”….
“تھوڑی دیر میں پلوشہ صائم اور احتشام و دلنشیں بھی آچکے تھے پوری حویلی میں وہ تینوں کپل چمکتا ہوا ستارا معلوم ہو رہے تھے”….
“آج عید کا پہلا دن تھا ان کا گھر اللہ کی مبارک رحمتوں کے باعث خوشیوں سے بھر گیا تھا”….
“ساحرہ بیگم و فیروزہ بیگم نے دل ہی دل میں ان سب کی نظریں اتاریں تھیں اور سدا خوش رہنے کی دعائیں دیں “…
💙❤️
موم”….
“ساحرہ بیگم کیچن میں برتن سیٹ کروا رہی تھیں”…
“کہ موحد آیا وہاں”….
“انہوں نے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا اسے”….
“ماں ….
“اس نے اپنا چہرہ ان کی جانب اور دونوں ہاتھوں سے کان کو پکڑا تھا”…
“بالکل اسی طرح جیسے وہ بچپن میں معافی مانگا کرتا تھا”….
“موم آج کے دن معاف کر دیں “…
“آپ خود دیکھیں فریال صارم کے ساتھ کتنی خوش لگ رہی تھی “…
“میں اس کے لئے صحیح جوڑ نہیں تھا”…
“میرا ساتھ سحرش کے ساتھ تھا موم”…
اگر میں زبردستی بھی رکھ لیتا اسے تو وہ میرے ساتھ خوش نہیں رہتی “…
“کیونکہ وہ اپنائیت احساس ، و چاہت اسکو میرے سے کبھی نہیں ملتی”….
“جو ایک بیوی ڈیزرو کرتی ہے”….
“وہ کہتا جا رہا تھا لیکن ساحرہ بیگم سائڈ پر منہ موڑتے کھڑی تھی”…
“م۔۔موم آج آخری بار گلے لگا لیں پھر ان شاءاللہ آپ کو کبھی اپنا یہ چہرا نہیں دیکھاؤں گا “…
“فلائیٹ ہے پرسو کی میری”…
“کہتے ان کی جانب دیکھا جو اب بھی منہ موڑے ہی کھڑی تھیں”…
“وہ افسردہ سا جانے لگا تھا کہ ساحرہ بیگم کی آواز پر رکا تھا”…
“شرم نہیں آتی ماں کو بلیک میل کرتے ہوئے”…
“موحد نے ان کی جانب دیکھا جو بہتی آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھی”….
“اسکو پاس بلایا تھا ان نے اپنے”…
“وہ بھی لمحوں میں ماں کے گلے لگا تھا”…..
م۔۔موم مجھے معاف کر دیں”….
“ان کے گلے لگے وہ بھی روتے ہوئے بولا تھا”….
“ساحرہ بیگم کچھ نہیں بولی تھیں بس خاموش تھی اپنے جگر کے لال کو اپنے سینے سے لگائے”….
“وہ ایک ماں تھیں ان کا دل بھی موم ہو چکا تھا”…
“وہ رنجشیں وہ غلظ فہمیاں سب دور ہو گئی تھیں فریال کو صارم کے ساتھ خوش دیکھ کر”..
🧡💙
“عید مبارک “…
“وہ سائڈ پر کھڑی تھی کہ موحد کی آواز پر حیرانی سے اسے دیکھا”…
“خیر مبارک”…
“بمشکل مسکرا کر کہا تھا اس نے”…
“عیدی نہیں مانگو گی”..؟؟؟
“نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے وہ آرام سے بولا تھا”..
“عیدی”..؟؟
“وہ تو اپنوں سے مانگی جاتی ہے غیروں سے تھوڑی “…
“اور میرے جو اپنے تھے وہ مجھے عیدی دے چکے ہیں”….
“اپنے ان جملوں سے وہ موحد کو بہت کچھ باور کروا گئی تھی”…
“فریال اگر کوئی غلطی یا خطا سر زرد ہو گئی ہو تو آج عید کے خاص موقع پر معاف کر دینا ، کیونکہ شائد یہ ہماری آخری ملاقات ہو”…
“آسمان میں اڑتے پرندوں کو دیکھتے ہوئے وہ فریال سے کہہ رہا تھا”…
“موحد کی بات سن فریال کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی “…
“موحد آپ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ، اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو میری نظر میں وہ ایک انوکھی و خوبصورت غلطی تھی”…
“آپ کی اس غلطی کی وجہ سے تو میں آج اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہوں اگر دیکھا تو جائے تو صارم مجھے عید کے تحفے کے طور پر ہی تو ملے ہیں”…
“وہ موحد کی آنکھوں میں دیکھتے اپنے مخصوص لہجے میں بولی تھی وہ جانتی تھی وہ کس غلطی کی بات کر رہا ہے ، وہ اس کی آنکھوں میں اپنے ستائش بھی دیکھ چکی تھی جو احساس وہ اس کے نکاح میں رہتے ہوئے اپنے لئے دیکھنا چاہتی تھی وہ سب نکاح کے ٹوٹ جانے کے بعد دیکھنے کو مل رہی تھی “…
“اپنی بات کہہ کر وہ اندر کی جانب چل دی جبکہ موحد سن سا وہیں کھڑا رہ گیا تھا”….
💙❤️
“کچھ سال بعد”….
“وقت ایسی چیز ہے جو کبھی رکتا نہیں بلکہ پر لگائے اڑتا چلا جاتا ہے بالکل ٹھیک اسی طرح کیسے یہ ماہ و سال گزرے کسی کو اندازا ہی نہ ہوا “…
“وقت گزرتا گیا اور ایک نیا اور انوکھا احساس اپنے ساتھ لایا ، کچھ خاندان مکمل ہو چکے تھے ان گزرے ماہ و سال میں”….
“موحد سحرش کو لیے واپس باہر کے ملک چلا گیا تھا کیونکہ اس کا کاروبار وغیرہ سب وہیں سیٹ تھے “…
“جبکہ درانی فیملی کے باقی اراکین اب بھی یہاں اپنی فیملیز کے ساتھ بہت خوش تھے ایک دوسرے کے سنگ”….
“فری آرام سے یار”…
“ڈاکٹر نے تمہیں کو آرام کرنے کا کہا ہے اور تم یہ سب کر رہی ہو”..
“فریال کو اپنی پسندیدہ جگہ کیچن میں دیکھ صارم میں فکر مندی سے کہا تھا”….
“فریال امید سے تھی اس کا پانچواں مہینہ جاری تھا تبھی ڈاکٹر نے اسے ذیادہ سے ذیادہ آرام کرنے کی تلقین کی تھی”….
“و۔۔وہ نہ صارم میرا فریش جوس پینے کا دل چا رہا تھا تو میں اسلئے”…
“وہ تھوڑا گڑبڑاتے ہوئے بولی اور ہاتھ میں موجود پیکٹ اپنی مٹھیوں میں بھینچے کمر کے پیچھے چھپایا “…
“اسکی یہ کاروائی صارم کی عقابی نظروں سے مخفی نہ رہ سکی تھیں”…
“ہہمم تو مما سے کہہ دیتیں یا آنٹی سے کہہ دیتی تم خود کیوں اپنی اس ننی سی جان کو زحمت دے رہی ہو”…
“وہ تھوڑا سا آگے بڑا تھا اور فریال پیچھے ہوتی ہوئی کیچن ٹائل سے لگ گئی”…
“صارم نے ٹائل پر ہاتھ رکھتے ہوئے فریال کے ہاتھوں میں سے وہ پیکٹ جھپٹا تھا جبکہ فریال ہونک بنی اسے دیکھ رہی تھی اسے سمجھ نہ آیا کہ ہوا کیا ہے “..؟؟؟
“یہ کیا ہے فری”..؟؟
“وہ پیکٹ سر جھکائے کھڑی فریال کی آنکھوں کے سامنے کیا تھا “…
“ا۔۔املی ہے”…
“وہ اتنی معصومیت سے بولی تھی کہ صارم عش عش کر اٹھا”…
“جاناں یہ تو میں بھی جانتا ہوں مگر تم جانتی ہو کہ یہ کتنا نقصان دہ ہے تمہارے لئے پھر بھی”.؟؟؟
“اب کے وہ مصنوعی غصے سے بولا تھا”….
“د۔۔دل چا رہا تھا کیوں مجھے وومٹنگ فیل ہو رہی تھی”…
“صاف بیانی سے کہہ دیا گیا”…
“تو کچھ اور کھا لیتی یہ کھانا ضروری ہے کہتے ہی وہ اسے کوڑے دان میں پھینکنے لگا”…
“ص۔۔صارم اسے نہ پھینکنا بس ا۔۔ایک دے دیں “…
“پکا آئندہ نہیں کھاوں گی”…
“گلے پر ہاتھ رکھے اس نے پرامس کیا تھا جب کہ وہ اس کی حرکت پر اپنی ہنسی لب بھینچے چھپا گیا”….
“صارم نے نفی میں سر ہلائے اس میں سے تھوڑی سی املی نکال اسے منہ میں ڈالی تھی باقی کو چپکے سے اپنی جیب میں ڈال گیا”….
“اور ساتھ ہی اسکا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ کمرے میں چھوڑ کر گیا اور جاتے جاتے اسکو آرام کرنے کی تلقین کرنا نہ بھولا”….
💜💙
“درانیوں کی وہ خوبصورت حویلی “….
“حویلی کے سائڈ پر بنایا گیا وہ دلفریب باغیچہ”….
“اور اس باغیچے میں لگے پھول و پودے وہاں کی خوبصورتی کو مزید نکھارتے تھے”….
“پلوشہ بھی وہیں موجود تھی اس باغیچے میں”….
“پوری حویلی میں یہ اس کی من پسند جگہ تھی جہاں بیٹھی وہ پھول لگا رہی تھی “….
“پھول و پودے اس کی کمزوری تھے اس نے اپنے گھر پر بھی کافی زیادہ پودے لگائے ہوئے تھے بے شک ان کے گھر باغیچہ نہ تھا لیکن اس نے زید صاحب سے کہہ کر ایک کیاری بنوائی ہوئی تھی جہاں وہ اپنا یہ شوق پورا کیا کرتی تھی”….
“ابھی بھی وہ ایک ایک پودے کو صحیح سے لگاتے ہوئے نئے پودوں کے لئے جگہ بنا رہی تھی اس کے ہاتھ پورے بھالو مٹی سے بھرے ہوئے تھے”…
“کام کے دوران پلوشہ کو خود پر کسی کی نظریں محسوس کیے اس نے آس پاس دیکھا لیکن کسی کو نہ پا کر وہ واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی”….
“صائم کمرے کی بالکونی میں کھڑا کب سے اپنی زوجہ محترمہ کو کام کرتے دیکھ رہا تھا “….
“اس کے چہرے پر ایک تبسم ابھرا تھا”….
“جب پلوشہ کو اس کے بالوں سے الجھے دیکھا کیونکہ کام کے دوران اس کے بالوں کی کچھ ظالم زلفیں اسکے چہرے پر آ پھیلی تھیں”….
“ہاتھ مٹی میں جکڑے ہونے کے باعث وہ بالوں پر لگا نہ پا رہی تھی چہرے دائیں بائیں کیے ان زلفوں کو ہٹانے کے نا کام کوشش کر رہی تھی “…
“لیکن نا کام”…..
“وہ کافی دیر اس کو یوں ہی کوشش کرتے دیکھتا رہا لیکن پھر کچھ سوچ نیچے آیا تھا “…
“کیا ہوا بیگم جاناں”..؟؟
“اسکے عقب میں آئے وہ گھمبیر آواز میں بولا “…
“بالوں میں موجود پلوشہ کا ہاتھ ساکت ہوا تھا جب صائم کی آواز سنی وہ لمحوں میں پلٹی تھی جب کہ ہاتھ ابھی بھی سر پر ہی تھا”…..
“و۔۔وہ کچھ نہیں میں یہ سیٹ کر رہی تھی نئے پودوں کے لئے جگہ بنا رہی تھی “…
“اوو “….
“ویری نائس”…
“سر کو سمجھنے کے انداز میں جنبش دی تھی”…
“میری کوئی ہیلپ چاہیے”..؟؟؟
“مسکرا کر پوچھا تھا”…
“ن۔۔نہیں م۔۔میں ک۔۔۔۔۔۔
“وہ ابھی بول ہی رہی تھی کہ صائم آگے بڑا اور ان ظالم زلفوں کو پیچھے کیا جو اس وقت پلوشہ کی دشمن بنی اسے تنگ کر رہی تھیں”…
“پھول بہت ذیادہ پسند ہیں کیا جو پچھلے ایک گھنٹے سے شوہر کو بھلائے انہیں کے ساتھ لگی ہو “…
“آنکھیں چھوٹی کو دھیمے محبت بھرے میں لہجے میں بولا”…
“ن۔۔نہیں ایسی بات نہیں “…
“پھول پودے تو خود اپنا پیار وصول کرتے ہیں “…
“ان کی مہک اور احساس خود مجھے اپنا اسیر بنا لیتے ہیں”…
“وہ سر جھکائے بولی تھی”….
“ویسے تو اللہ تعالیٰ کی ربویت یوں تو کائنات کی ہر شئے میں عیاں ہے لیکن خوش رنگ و خوشنما پھول قدرت کی صناعی کا بہترین مظہر ہیں اور جو خوبصورتی ،دلکشی،رنگینی اور حساسیت قدرت نے پھولوں کو بخشی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔رنگوں کی بہاریں بکھیرتے اور خوشبو لُٹاتے پھول اس کائنات کا اصل حسن ہیں جو زمین کا زیور ہی نہیں بلکہ گھروں کی شان،محفلوں کا حسن طب کا حصّہ اور خوبصورتی کی علامت بھی ہیں”….
“رنگوں میں جادو ہے اور پھولوں کی رنگینی انسانی عادات ،مزاج اور شخصیت پر خاصی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔اور اس سائینسی دور میں بھی پھولوں اور رنگوں کی پراسراریت پر بہت کچھ دریافت کیا جا چکا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ پھولوں اور رنگوں کی پسندیدگی انسانی فطرت کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے”…..
“پھول بے شک نہیں بولتے لیکن یہ ہمارے جذبات کی عکاسی کر دیتے ہیں”…
“کیونکہ پھول اظہار کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے دلی جذبات و احساسات دوسروں تک باآسانی پہنچا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ مدِ مقابل بھی پھولوں کی خاموش زبان اور ان کے ذریعے پیغامات کی ترسیل کو بخوبی سمجھتا ہو”…..
“وہ اب پودوں کی جگہ بنا چکی تھی وہاں بیچ ڈالنا شروع کیے تھے اس نے”…..
“جیسے سرخ پھول خود سے محبت کرنے والوں کو دیا جاتا ہے”….
“اگر کوئی آپ کو سرخ گلاب دے تو سمجھ جائیں وہ گلاب نہیں اس کی محبت کا پیغام ہے”….
“وہ مسکرا کر بولی تھی جب کہ صائم نے اسکی آنکھوں میں ایک چمک محسوس کی تھی”….
“لیکن صائم کی حیرت مزید خوشی میں بدلی تھی جب پلوشہ نے اس کی جانب سرخ گلاب بڑھایا جسے وہ فوراً ہی تھام گیا تھا”…
“لیکن اگر اسی طرح سفید پھولوں مثلاً چنبیلی کا پھول یا گُلِ یاسمین اور موتیا وغیرہ کا تحفہ دیا جائے تو یہ پاکیزہ جذبات و احساسات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں”……
“کیونکہ سفید رنگ پاکیزگی کی نشانی ہوتی ہے”….
“وہ اب کے صائم کی آنکھوں میں دیکھتے بولی ہوئے بولی تھی”…..
“اور نیلے رنگ کے پھول ایک سچّے دوست کی دوستی کا اقرار ہوتے ہیں۔یعنی پھول اپنی خاموش زبان سے ان تمام جذبوں کا اظہار کر دیتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے الفاظ تلاش کرنا پڑتے ہیں”……
“لیکن”…….
“وہ کچھ لمحے کے لئے ٹھہری تھی”….
“صائم نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا اسے”….
“نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ہم انسانوں کی طرح کچھ پھول بھی نفرت کی نشانی ہوتے ہیں”…
“جن کو دیکھ نفرت و نا پسندگی کا احساس ہوتا ہے”….
جیسے “…..
“زرد رنگ کے پھول پیش کرنا نفرت،رقابت اور حسد جیسے منفی جذبات کا مظہر سمجھا جاتا ہے “…….
“وہ افسوس سے بولی تھی اس کے چہرے پر اداسی رقصاں تھی “….
“لیکن جانم ہم اس نفرت کے احساس کو ختم کر سکتے ہیں”…
“اس کو وہاں سے اٹھائے اپنے سامنے کیا تھا”….
“کیسے”..؟؟؟
“سوال داغا گیا”….
“دوسرے احساسات اس ایک احساس پر بھاری کر کے”…..
“وہی گلاب کا لال رنگ پھول صائم نے اسکے چہرے پر پھیرا تھا جس پر وہ ہولا سے مسکرائی تھی”…..
“آئی لو یو جاناں “….
“وہ خمار آلود آواز میں کہتا اس کے چہرے پر رقص کرتی وہ زلفیں پرے کی تھیں”….
“یو ٹو”…
“شرما کر کہتی وہ سر اس کے سینے سے ٹکرا گئی”…..
“مجھے تو عشق ہے پھولوں میں صرف خوشبو سے
بلا رہی ہے کسی لالہ کی مہک مجھ کو “
💜❤️
“دلنشین کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا احتشام حبیب کو سریلیک کھلانے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ حبیب کھا کم گرا زیادہ رہا تھا کیونکہ اسکا دھیان ہاتھ میں موجود فون پر تھا جس میں وہ کارٹون دیکھ رہا تھا “….
“حبیب”…
“احتشام نے اسکی توجہ کھانے کی جانب مبذول کروانی چاہی تھی جبکہ وہ کارٹون دیکھنے میں ہی مصروف رہا کہ وہ دانت پیستے رہ گیا”….
“افف کیا عجیب چیز ہے یہ بندہ کھانے کے وقت تو فون سے نظریں ہٹا لے”…
“احتشام نے تنگ آ کر کہا تھا اور ہاتھ میں موجود رومال سے اس کا چہرا صاف کرنے لگا”…
“ہاہاہاہاہاہا “…
“دلنشین کا قہقہ گونجا تھا احتشام کی صورتحال دیکھ”…
“شاباش میرے لال یوں ہی تنگ کرو اپنے پاپا کو”….
“دلنشین نے حبیب کے گالوں پر پیار کیے اس کو شاباشی دی تھی جب کہ وہ کھلکھلایا تھا اپنی ماں کی بات سن جیسے اسے بہت کچھ سمجھ آیا ہو”….
“دیکھا شام یہ میرا بیٹا ہے دلنشین کا”….
“وہ غرور سے احتشام کو چڑاتے ہوئے بولی تھی کہ احتشام نے اسکے ہاتھ کو جھٹکا دیے اپنی عور کھینچا”….
“دلِ شام”….
“بیٹا ماں کا ہے تو کیا ہوا ماں تو پوری کی پوری میری ہے نا”…؟؟
“وہ گھمبیر لہجے میں کہتا ایک محبت سے بھرپور گستاخی کر گیا تھا کہ وہ گڑبڑائی “…
“کی۔۔کیا ہ۔۔ہے شام۔پیچھے ہوں آپ تو فری ہی ہو گئے ہیں”…
“دھڑکتے دل کو سنبھال کو پیچھے ہوئی تھی جبکہ احتشام اسے دیکھ مسکرا دیا “…
💙🧡
“فیری ماما بولیں”…..
“غزل نے بیڈ پر کھلونے سے کھیلتی اپنی بیٹی سے کہا تھا “….
“م۔۔۔م۔۔ما۔۔م۔۔ماما”…
“ہاتھ میں موجود کھلونے کو زور و شور سے اپنے ننھے ہاتھوں سے ہلاتے ہوئے بولی اور ساتھ ہی اس کی کھکھلاہٹ گونجی تھی جو کہ اس کے ماں باپ کی مسکراہٹ کا باعث بنے”…..
“م۔۔ما۔۔ما۔۔ماما”….
پرنسس اب بابا بولیں….
ب۔۔ب۔۔با با۔۔۔
“وہ چھوٹی سی معصوم سی بچی اپنے ننھے باریک لبوں سے اپنے ماں اور باپ کو پکارنے کی کوشش کر رہی تھی “…
“اس بچی کا اندازِ بیان یہ بتا رہا تھا کہ وہ ابھی بولنا سیکھ رہی ہے”…
” غازی نے ںے ساختہ اپنی بچی کو ہنستے کو اٹھایا اور اسکے گالوں کو محبت سے چوم لیا”….
“بابا کی پرنسس”…
“غزل اور غازی کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا تھا جس کا نام انہوں نے حبہ رکھا “یعنی اللہ کا تحفہ”….
“وہ معصوم سے پری اپنے باپ کی پرنسس جبکہ ماں کی فیری تھی”….
“ان دونوں کی جان اس میں ہی بستی تھی کیونکہ حبہ ہی اب ان کی کل کائنات تھی”…
“اپنی گود میں حبہ کو بیٹھائے جبکہ اپنے دائیں بازوؤں کے حصار کو غزل کو لیا تھا “…
“میری زندگی کو ان خوشیوں سے بھرنے کا شکریہ جانم”…..
“یہ خوشیاں یہ مسکراہٹیں تمہارے دم سے ہیں”….
“محبت سے اپنے لب غزل کے ماتھے پر رکھتے ہوئے کہا تھا اس نے”…
“غازی میں صرف ذریعہ ہوں مگر یہ سب اس واحد ہستی کا عطا کردہ ہے”..
“اس کے کندھے پر سر ٹکائے کہا تھا غزل نے اور ساتھ ہی اپنی آنکھیں موند گئی”….
پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل
لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل
دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے
چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل
”عید اپنوں سے ملنے کا دن ہوتا ہے جس میں تمام رشتے ، ہر شکایت کو دور رکھتے ہوئے ملتے میں یہ موقع رب تعالیٰ نے اسی لئے بخشا ہے جس میں تمام گلے شکوے دور کرتے ہوئے سب ایک ہو سکیں بالکل اسی طرح یہ عید کا موقع دو بہنوں کو اپنے بھائیوں سے ملا گیا ، کسی کی محبت کو اس کی دسترس میں سونپ گیا ، اولاد کے لئے ترستے ہوئے جوڑے کو ننھی سی جان سے نواز گیا۔۔۔۔
یہ عید مبارک تھی کہنا غلط نہ ہو گا۔۔۔۔
فریال فیملی میں ہال میں کھڑی ، اس مکمل فیملی فوٹو فریم کو دیکھ سوچ رہی تھی جس میں سب مکمل تھا۔۔۔
اسکی دونوں فیملیاں ساتھ تھیں اس فریم میں وہ سب مکمل لگ رہے بالکل۔۔۔۔
اللہ پاک اس خاندان کو یوں ہی جوڑے رکھے۔۔۔۔
دل سے ایک سدا سے اٹھی تھی جس پر بے اختیار آمین کہتے اس نے سرد سانس بھرا۔۔۔۔
ختم۔شد…..

 

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial