دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

مے آئے کم ان سر”۔۔۔
دروازے کو ہلکا سا کھول پلوشہ نے اندر آفس میں آنے کی اجازت طلب کی تھی۔
پرنسپل اور صائم جو دونوں باتوں میں مشغول تھے کسی شناسا سی آواز پر دروازے کی جانب دیکھا جہاں مس پلوشہ کھڑی اندر آنے کی اجازت طلب کر رہی تھیں۔۔۔
پرنسپل نے سر اثبات میں ہلائے اندر آنے کی اجازت دی تو وہ خاموشی سے چلتی وہاں سامنے جا کر کھڑی ہو گئی تھی لیکن کسی کی نظریں خود پر بخوبی محسوس کر رہی تھی چال میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ واضح ہوئی لیکن وہ جلد ہی سنبھال گئی تھی خود کو۔۔۔۔
صائم کی نظریں تو مانو پلٹنا ہی بھول گئی تھیں سامنے کھڑی اس پری پیکر کو دیکھ وہ اسکی نظروں کے طواف میں چلتی ہوئی سامنے ٹیبل تک آئی تھی۔
“مس یہ نوٹس ہیں آپ کلاس کے بچوں میں تقسیم کر دیں”…
پاس رکھی کچھ فائلز اٹھا کر پلوشہ کی جانب بڑھائی تھیں جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا تھا اور خاموشی سے وہاں سے چل دی جب کہ کسی وجود کی نظروں کی آتشیں تپش اپنی پشت پر اب بھی محسوس کر رہی تھی لیکن اس میں ہمت نہ تھی کہ نظریں اٹھا کر دیکھ لیتی اسلئے وہ خاموشی سے وہاں سے کلاس کی جانب ہو لی۔
”بھائی نظروں کا رخ اب ادھر کر لے وہ جا چکی ہیں“۔
دروازے کو تکتے دیکھ پرنسپل (تیمور) جو کہ صائم کا دوست تھا اس نے کہا تھا۔
“کون تھی یہ “…؟؟؟
“وہ ٹرانس سی کیفیت میں مسکراتے ہوئے بولا تھا ”ہمارے اسکول کی ٹیلنٹڈ ، میچور ، آئیڈیل ٹیچر مس پلوشہ جو دوسروں کو اپنا اسیر بنانے کا ہنر جانتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے طالبِ علم بھی ان سے مانوس ہیں”۔۔۔۔
تیمور پلوشہ کی تعریف بیانی کرنے لگا تھا جبکہ صائم کے چہرے پر ایک دلفریب مسکان آئی تھی۔
»»»»»»»»😉❤️«««««««
بھابھی ، بھابھی
سرپرائز۔۔۔۔!!
دلنشیں چہکتے ہوئے لان میں آئی تھی اور پھولوں کو پانی دیتی فریال کو خوشی سے گول گھومایا تھا۔
(” I am so happy So,So happy)
“میں بہت ,بہت بہت خوش ہوں”۔۔۔۔
کسی چڑیا کی مانند چہک رہی تھی وہ جبکہ فریال حیران کن نظروں سے اس جھلی کو دیکھ رہی تھی۔
ک۔۔کیا ہوا؟
فریال نے حیرانی سے پوچھا تھا۔
سرپرائز۔۔۔۔
وہ آنکھ مارتے ہوئے بولی
سرپرائز؟؟ مگر کیسا؟؟
اس نے مزید حیرت ظاہر کی تھی کیونکہ دلنشین کو رویہ اس کو چونکا گیا تھا۔
اگلے ہفتے موحد بھائی آ رہے ہیں۔۔۔۔۔
دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے تالی بجاتے وہ گول گھومے ایک ادا سے بولتی فریال کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی دے گئی۔
سچ؟؟
اب چہرے کے ایکسپریشن فریال کے دیکھنے والے تھے جس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکان آن ٹھہری تھی دلنشین کی بات سن کر
مچ بھابھی۔۔۔۔
اور ہاں سب سے بڑی بات وہ عید تک ہمارے ساتھ رہیں گے۔
آنکھ ونک کرتی وہ فریال کو چھیڑتے بولی جو مسکراتے ہوئے موحد کے نام پر ہی بلش کر رہی تھی۔
یا اللہ ! دعائیں ایسے بھی قبول ہوتی ہیں
آسمان کی جانب دیکھتے خوشی سے سوچا تھا اس نے دل میں ایک سکون سا جاگا تھا موحد کے آنے کی خبر سن کر۔۔۔
ایک اور راز کی بات ہے۔۔۔۔
رازداری سے کہتی وہ فریال کے کان کے پاس جھکی تھی۔
فریال نے استہفامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا جیسے جاننے کے لئے بے تاب ہو کہ اب کون سی بات بتا رہی ہے۔
پہلی عید پر آپ کی رخصتی بھی رکھنے کا کہہ رہی ہیں مما۔
اس کی بات سن فریال کے چہرے پر محبت کے رنگ کھلے تھے اور چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکان چھائی تھی۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔
اسکو یوں شرماتے دیکھ دلنشین کا قہقہہ گونجا تھا دلنشین کے یوں ہنسنے پر فریال بھی ہنس دی تھی”…
دور ٹیرس پر کھڑے کسی وجود نے بہت چاہت سے اسکی اس مسکان کو دیکھا تھا اور صدا اس کے خوش رہنے کی دعا کی۔
»»»»»»»»»»❤️😘««««««««
وہ کالے رنگ کی کلیوں والی فراک جس پر گولڈن ایمبرائیڈری ہوئی تھی ، ڈوپٹہ کو سر پر نفاست سے خود پہ سیٹ کیے ، اپنے لمبے بالوں کو میسی جوڑے میں قید کیے ہونٹوں کو سرخ لپ گلوز سے رنگے کھڑی کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی۔
چھت پر کھڑی غزل سامنے موجود پارک میں کھیلتے بچوں کو بہت حسرت سے دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک رشک سا تھا وہ بہت ہی محویت سے وہ مناظر دیکھ رہی تھی کہ کسی نے آکر پیچھے سے اسے اپنے مضبوط حصار میں باندھا تھا۔
غازی جو آفس کے کام نمٹا کر جلدی آ گیا تھا مگر غزل کو یوں ہی چھت پر کھڑے دیکھ وہ کمرے میں جانے کے بجائے سیدھا اوپر ہی آ گیا غزل کو یوں ہی محویت سے باہر تکتا پا کر وہ دبے قدموں سے آ گے بڑھا تھا چہرے پہ تبسم بکھرا ہوا تھا اپنی بیوی کی اس لا تعلقی پر ۔۔۔۔
مطلب اپنے خیالوں میں اتنی کھوئی ہوئی تھی کہ شوہر کے آنے کی بھی خبر نہ ہو سکی لیکن یہ صرف اسکی سوچ تھی۔
وہ تو غازی کے قدموں کی چاپ اسکے کلون کی اٹھتی مخصوص مہک سے ہی پہچان چکی تھیاس نے آگے بڑھ غزل کے گرد بازو حائل کیے اسے اپنی محبت کے حصار میں باندھا۔
“کیا بات ہے بیگم جانی اتنی سائیلنٹ ہو کر کیا دیکھ رہی ہیں؟
“ٹھوڑی اسکے کاندھے پر ٹکائے اس پر گرفت مزید سخت کیے بولا
“کچھ نہیں بس یہ دیکھ رہی ہوں کہ وہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں جن کے پاس اولاد جیسی نعمت ہے”۔۔۔
“اگر آج ہماری پاس بھی اولاد ہوتی تو ہم بھی اس طرح ان کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔
ہوا کے باعث اڑتی زلفوں کو کان کے پیچھے کیے ڈوپٹہ صحیح کیا تھا اس نے اور خیالوں کی سی کیفیت میں گویا ہوئی۔
جب کہ اسکی بات سن غازی مسکرا دیا
”غازی کی جان ، جانتی ہو ہم ذیادہ خوش قسمت ہیں اس معاملے میں“۔۔۔۔۔
“اسکا رخ اپنی جانب موڑ شہادت کی انگلی سے اس کے ماہ جبین سے چہرے کو اوپر کیا تھا غازی کی لو دیتی نظریں اس کے چہرے کے ہر ایک نقش کا طواف کر رہی تھیں۔
اس کی بات پر غزل نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا جب کہ وہ دھیرج سا مسکرایا تھا اسکی آنکھوں میں ابھرتے سوال کو سمجھ
“جانتی ہو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد اسلئے نہیں دی تاکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکیں ورنہ جب اولاد ہو جاتی ہے تب میاں بیوی ایک دوسرے کو وقت نہیں دے سکتے نا۔
محبت سے چور لہجے میں کہتا وہ اس کی سانسوں کو اپنی سانسوں میں قید کر گیا تھا کہ وہ بوکھلائی تھی سینے پر ہاتھ رکھ اس کو پرے دھکیل چھت کی دیوار سے ٹیک لگا گئی۔۔۔
اس کے رخ موڑنے پر وہ باآواز بلند قہقہ لگاتا وہیں اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا تھا نظریں غزل کے لال گلابی چہرے پہ ٹک گئی تھیں جہاں حیا کے رنگ واضح تھے لیکن اسکی آنکھوں میں مصنوعی غصہ بھی واضح تھا۔
غازی نے غزل کے یوں غصے سے گھورنے پر اسکو گھوما کر اس اپنے سینے سے لگایا تھا کہ غزل کی سانسیں لمحے بھر کے لئے تھم سی گئی تھیں جب اس نے غازی کی دہکتی سانسیں اپنی گردن پہ محسوس کی تھیں۔۔۔
“جانِ جاں جا کر جلدی سے تیار ہو جائیں کیونکہ آج کی افطاری ہم باہر کریں گے”۔۔۔۔
دھیمی سی سرگوشی نما آواز میں کہتا وہ اس چھوڑ پیچھے کھڑا ہوا تھا پھر مسکراتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔
»»»»»»»»»»❤️😘««««««««««
ڈارک بلو جینس پر گرے رنگ کی شرٹ پہنے وہ لاؤنچ کے صوفے پر بے ترتیب سا ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر عجلت میں سیڑھیاں اترتی فریال کی جانب گئی جو نارنجی رنگ کے سوٹ پر نفاست سے ڈوپٹہ اوڑھے بیگ تھامے باہر کی جانب جا رہی تھی اس کو دیکھ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
کیا ہوا فریال کہاں جا رہی ہیں؟
اپنے عقب سے آتی صارم کی آواز پر پیچھے مڑی تھی وہ اور مسکرا کر اس کی جانب دیکھا
”وہ دراصل مجھے مارکیٹ جانا تھا کسی کام سے“۔
کہتے اس نے باہر کی جانب قدم بڑھائے تھے لیکن پھر اس کی اگلی بات سن وہ پھر سے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
ڈرائیور تو ہے نہیں ، کس کے ساتھ جائیں گی؟
صارم نے کندھے اچکائے پوچھا اور ہاتھ میں تھامے ریموٹ کو صوفے پر رکھا
ڈرائیور نہیں ہے تو کیا ہوا؟
ابھی رکشے میں چلی جاوں گی واپسی پر کیب کروا لوں گی۔
بہت عام سے لہجے میں وہ اپنی بات کہہ گئی تھی لیکن مقابل کھڑے صارم کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے تھے جسے فریال دیکھ نہ سکی تھی”
آپ کسی غیر شخص کے ساتھ جائیں گی فریال وہ بھی اکیلی؟؟
دماغ ٹھیک ہے آپ کا؟
وہ اپنے امڈ آنے والے غصے کو قابو کرتے بولا۔۔
کیا ہو گیا صارم ؟ کیوں اتنا اسٹرینج بیہو کر رہے ہو؟آج سے پہلے تو کبھی تم اس طرح روڈ نہیں ہوئے
فریال کو اس کا یہ رویہ بہت برا لگا تھا کیونکہ وہ انسان جو ہمیشہ اس سے ہنس کر بات کیا کرتا تھا جس نے ہمیشہ اس سے نرمی برتی ہو آج اپنے لئے اس کا تلخ لہجہ محسوس کر اسے عجیب سا لگا۔
چھوڑیں اس سب کو ،آپ کی سمجھ سے باہر ہے یہ باتیں۔۔۔۔۔
آپ باہر آئیں میں ڈراپ کر دیتا ہوں کیونکہ میرے ہوتے ہوئے آپ ، اکیلے جائیں گی مجھے بالکل اچھا نہیں لگے گا
سپاٹ چہرے کے ساتھ کہتا بنا اس کی جانب دیکھے وہ باہر پارکنگ میں گیا تھا وہ بھی سر جھٹکتے اس کے پیچھے چل دی تھی۔۔۔۔
صارم نے گاڑی اسٹارٹ کرتے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ بھی وقت ضائع کیے بنا خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔
گلشن سے گاڑی نکلتی سیدھا لکی ون مال کے سامنے رکی تھی صارم نے پارکنگ میں جا کر گاڑی کھڑی کی تھی اور فریال کے ساتھ اندر مال میں گیا۔
اندر اینٹر ہوتے فریال کی نظر ایک جینٹس شاپ پر گئی جہاں مختلف اقسام کی شرٹس اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہی تھیں۔
”صارم دیکھو یہ ،شرٹ کیسی لگے گی موحد پر“؟
فریال نے کالے رنگ کی سمپل شرٹ کو تھامے اسے دیکھایا جس نے سنجیدگی بھرے چہرے پر ہلکی سی مسکان سجائے اثبات میں سر ہلائے جواب دیا۔۔۔۔
جی بہت اچھی ہے۔۔۔
مسکرا کر کہتا وہ دوسری جانب مصروف ہو گیا جبکہ اس کے علاوہ ایک دو اور شرٹیں لینے کے بعد وہ دونوں شاپ سے نکلے تھے اب ان کا رخ اوپر کی جانب تھا۔
وہ دونوں الیکٹرانک اسٹیر پر چڑھنے لگے تھے کہ صارم نے رخ موڑے اس کے دائیں ہاتھ کو نرمی سے تھاما وہ جانتا تھا کہ اسے ان اسٹیرز سے خوف آتا ہے ہمیشہ وہ ماما کے ساتھ آیا کرتی تھی اور ان کا ہاتھ تھام چڑھا کرتی تھی۔۔۔۔
صارم کے ہاتھ تھامنے پر اس نے تذبذب کا شکار ہوتے اس کی جانب دیکھا تھا جو رخ موڑے شائید نیچے کا ماحول ملاحظہ فرما رہا تھا۔
بھائی کے لئے شاپنگ کرنے آئی تھیں؟؟
آخری اسٹیپ پر پہنچتے صارم کی مسرت آواز اس دلربا کے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔
جی بالکل ! وہ اتنے دنوں بعد آ رہے ہیں
عید پر تحفہ دینا تو بنتا ہے۔۔۔
آخر منکوحہ جو ٹھہری۔۔۔۔
ٹھہر ٹھہر کر اس نے اپنے مخصوص لہجے میں بات مکمل کی تھی کہ وہ آسودگی سے مسکرا دیا۔۔۔۔
بالکل۔۔۔۔اس کی مسکراہٹ میں کچھ عجیب سا محسوس ہوا فریال کو لیکن وہ نظر انداز کر گئی۔
تھوڑی دیر مال میں گھومنے کے بعد کچھ شاپنگ مکمل کر کے اب ان دونوں نے گھر کی راہ لی تھی جہاں دلنشین اسے بار بار کالز کر کے ماما کے پیغامات دے رہی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial