دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

امی ابو ہم شاپنگ پر کب جائیں گے۔۔۔؟؟
کھانے کے دوران فائقہ نے سعدیہ اور زید صاحب سے پوچھا تھا زید صاحب کا کھانا کھاتا ہاتھ چند پل کو ساکت ہوا دل میں ہوک سی اٹھی تھی ان کی ہمت نہ ہوئی تھی کہ سر اٹھا کر جواب دے دیتے جب کہ ساتھ بیٹھی ان کی زوجہ ان کی کیفیت اچھے سے سمجھ رہی تھی۔
کس چیز کی شاپنگ”..؟؟؟
عام سے لہجے میں مخاطب ہوتیں سعدیہ بیگم نے پانی کا گلاس اپنے حلق میں انڈیلا
عید کی شاپنگ ماما کیونکہ ویسے بھی عید آنے میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں میری دوستوں نے تو خریداری شروع بھی کر دی ہے۔
چہک کر کہتی وہ بنا اپنے والدیں کے تاثرات کا جائزہ لیے کہتی چلی جا رہی تھی۔
کوئی ضرورت نہیں ہے شاپنگ کی
“پانچ مہینے پہلے جو جوڑے لے کر دئے تھے انہیں پر گزارا کرو۔۔۔۔
پیسے درختوں پر تھوڑی لگے ہیں جو ہر بار نئے جوڑے دلائیں گے۔
سپاٹ سے تاثرات کے ساتھ سعدیہ بیگم نے کرخت لہجے میں کہا تھا کہ فائقہ کی آنکھوں میں پانی تیرنے لگا۔
میں اس بار پرانے کپڑوں میں عید نہیں مناؤں گی مجھے نہیں پتہ مجھے آپ لوگ نئے کپڑے لے کر دو گے پہلے بھی آپ نے وعدہ کیا تھا مگر لے کر نہیں دیے۔۔
فائقہ موٹے موٹے آنسوں بہاتی روئے جا رہی تھی ساتھ ہی پلیٹ کھسکا کر اس نے سائیڈ پر کی جیسے اپنی ناراضگی جتانا چاہتی ہو جب کہ اس کی یہ حرکت سعدیہ بیگم نے کافی ناگواری سے دیکھی تھی ۔
فائقہ خاموشی سے کھانا کھاؤ نہیں تو مجھ سے جوتے مت کھا کینا ویسے رزق پر رو رہی ہو شرم آنی چاہیے تمہیں گھر سے رزق اٹھ جاتا ہے جو مل رہا ہے وہ بھی چھین جانا ہے۔۔۔۔۔
سعدیہ بیگم نے بنا لحاظ کیے اسے ڈانٹا شروع کر دیا تھا۔
بس کر جاؤ سعدیہ۔۔۔۔
اس تمام گفتگو میں پہلی بار تھا جب وہ درمیان میں بولے تھے انہوں نے نرمی سے کہتے اپنی بیگم کو خاموش کروانا چاہا
جبکہ فائقہ غصے میں کھانا چھوڑے اٹھ کر کمرے میں جا چکی تھی۔
نالائق اولاد زیادہ ہی سر چڑھا لیا ہے اسے۔۔۔
اس کی پشت کو غصے سے گھورتی وہ چنگھاڑی تھیں۔۔۔
اب آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟
زید صاحب کو بھی اٹھتا دیکھ سعدیہ نے پوچھا۔
کچھ نہیں بس بھوک مٹ گئی۔۔۔۔
وہ بھی چلے گئے تھے وہاں سے جبکہ سعدیہ بیگم اپنا سر تھام کر رہ گئی تھیں۔
»»»»»»»»»»🤗❤️««««««««
شام افطاری کے بعد سب گھر والے سو چکے تھے لیکن زید صاحب آنگن میں بیٹھے کسی بہت گہری سوچ میں گم تھے اپنی چھوٹی بیٹی فائقہ کی فرمائشیں اس کے وہ آنسوں اب بھی ان کے ذہن پر سوار تھے۔
انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ ایسا کیا کریں جس سے ان کی بیٹیوں کی خواہشیں پوری ہو سکیں کیونکہ جو نوکری وہ کرتے تھے بمشکل ہی ان کے گھر چولہا جلتا تھا۔
آنکھوں کو بند کیے کھولا تھا ان نے جیسے کوئی خیال ان کے ذہن میں آیا ہو ہاں ایک خیال تھا جو ان کے ذہن میں آیا تھا بے شک وہ کام رسکی تھی لیکن وہ لے لینا چاہتے تھے وہ رسک اپنی بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے۔۔۔۔
»»»»»»»»❤️🤗«««««««
مما مجھے تھوڑا سا یہ سوال سمجھا دیں گی۔۔۔۔؟؟؟
کتاب کو ہاتھ میں تھامے بال پوائنٹ منہ میں دبائے دلنشین کیچن میں داخل ہوتی ساحرہ بیگم سے مخاطب ہوئی تھی جو کہ رات کے کھانے کی تیاریاں کر رہی تھی۔
بیٹا میں تو ابھی مصروف ہوں بعد میں سمجھا دوں گی۔۔۔۔
“ساحرہ بیگم سموسے کی کی پٹیوں میں مصالحہ بھرتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولی تھیں کہ وہ منہ بسورے سائیڈ پر ہوئی۔۔۔۔
بھابھی آپ ہی سمجھا دیں۔۔۔۔
اب کے اس نے فریال سے منت کی تھی لیکن فریال نے اپنے آٹا گوندھتے ہاتھوں کو اٹھاتے کاندھے اچکائے جیسے بتا رہی ہو کہ میں بھی مصروف ہوں ابھی۔۔۔
“اوففف”..!!!
کل پیپر ہے میرا اور یہ سوال میری سمجھ سے باہر ہے وہ روہانسی ہوئی تھی۔۔۔۔
“کیا ہو رہا ہے لیڈیز”…
احتشام نے بھی آ کر اپنا حصہ ڈالنا لازمی سمجھا تھا تبھی ان کو کیچن میں دیکھ وہ بھی وہاں ہی چلا آیا۔۔۔
ڈانس ہو رہا ہے۔۔۔۔
کرنا ہے ؟؟؟
“دلنشین چڑ کر بولی تھی کہ فریال نے اپنی امڈ آنے والی ہنسی ضبط کو کیا اور ساحرہ بیگم نے دلنشین کو آنکھیں دیکھائی تھیں جیسے کہنا چا رہی ہوں کہ اپنا منہ بند رکھو۔۔۔
احتشام بیٹا ایک کام کرو یہ دلنشین کو تھوڑا سا سبق سمجھا دو کل پیپر ہے اسکا اور میرے پاس وقت نہیں اگر اسے سمجھانے بیٹھی تو افطار کے لئے دیر ہو جائے گی۔۔۔۔
“وہ عجلت میں بولی تھیں”۔۔۔
جی بڑی مما کوئی مسئلہ نہیں میں سمجھا دوں گا آپ اس کو روم میں بھیج دیں۔۔۔۔
وہ کندھے اچکائے جا چکا تھا جبکہ پیچھے کھڑی دلنشین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
مما بھئی میں نے نہیں سمجھنا اس سے۔۔۔
وہ کتابیں وہیں ٹیبل پر پٹخ کر بیٹھ گئی تھی۔
دل نکھرے نہیں کرو اب بچہ سمجھا رہا ہے تو جاؤ ورنہ بیٹھی رہو ایسے ہی۔۔۔
وہ تھوڑا غصے سے بولی تھیں کہ وہ پیر پٹختے ہوئے اوپر کی جانب چل دی جب کہ احتشام تو مغرور سے چال میں اکڑ کر اپنے روم میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔
پیچھے دلنشین بھی دروازے کو لاپرواہی سے دھکیل اندر داخل ہوئی تھی کہ احتشام کے گلا کھنکھارنے پر اس کی جانب دیکھا جو اس ہی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔
مس دلنشین آپ میں منیرز نہیں ہیں کہ کسی کے بھی روم میں دروازہ نوک کر کے داخل ہوتے ہیں اور انسان بھی وہ جو آپ کا استاد ہے اس وقت۔۔۔۔
ٹانگ پر ٹانگ بڑھائے کروفر سے بیٹھتے کچھ اکڑو سا مخاطب ہوا تھا کہ دلنشین نے آنکھیں کھول حیرت سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔
او دو نمبر استاد بعد میں اپنی اکڑ دیکھانا اور۔۔۔۔۔
خاموش۔۔۔۔!!
دلنشین کی آدھی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی کہ اس کی دھار گونجی اپنی نشست سے کھڑے ہوتے ہاتھ پیچھے کمر پر باندھ گردن ترچھی کیے اس کی جانب دیکھ دھاڑا
باہر جاو دروازہ ناک کر کے واپس اجازت لے کر آؤ۔۔۔۔۔
دلنشین تو اس کے انداز سے صدمے سے بے ہوش ہونے کو تھی البتہ احتشام اس تاثرات کو خاصا انجوائے کر رہا تھا اور امڈ آنے والے قہقے کو ضبط کیے بیٹھا تھا ۔۔۔۔
مرو تم بھاڑ میں جاو ۔۔۔۔۔
چڑ کر کہتی وہ واپس باہر جانے کو تھی کہ احتشام نے برق رفتاری سے اس کا ہاتھ پکڑے واپس اندر کی جانب کھینچا یوں اچانک ہوئی کاروائی پر وہ اپنا توازن برقرار نا رکھ سکی اور سیدھا اس کے چٹانی سینے سے ٹکراتی بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔۔۔۔
ج۔۔۔جاہل انسان ۔۔۔۔
دانت کچکاتی وہ بوکھلاہٹ میں پیچھے ہوئی تھی احتشام نے آج زندگی میں پہلی بار وہ منظر دیکھا تھا جو اس کے دل کی دنیا میں اٹھتے جذبات کو تہہ و بالا کر گیا۔
اس کی گرفت سے نکلتی اپنی حالت پر قابو پاتے وہ کتابیں ٹیبل پر رکھ بیٹھ گئی
جب کہ سرد سی آہ خارج کرتے وہ بھی صوفے پر براجمان ہوا۔۔۔۔
بندا کبھی غلطی سے ہی صحیح عزت ہی دے دیتا ہے۔۔۔۔۔
منہ بسورے وہ آنکھیں ترچھی کیے گویا ہوا جب کہ ناخنوں کو پھونک مارتی دلنشین نے بڑی ہی ادا سے آنکھیں مٹکاتے اس کی جانب دیکھا۔
آنہاں۔۔۔!! بشرطیکہ بندا عزت کے لائق ہو۔۔۔
اس کی بات سن احتشام نے اچھی خاصی گھوری سے نوازا تھا اسے جس کا اس پر خاطر خواہ اثر نہ ہوا وہ بھی دل ہی دل میں کلس کر رہ گیا۔۔۔م
»»»»»»»»»»❤️😘«««««««««
دوپہر کے وقت پلوشہ اسکول سے چھٹی کرنے کے بعد گھر جا رہی تھی کہ آگے جا کر بیچ راستے میں ندیم نے اسکا راستہ روکا تھا ندیم جو ان کے محلے کا گنڈہ ٹائپ آدمی تھا وہ ہمیشہ سے اسے ایسے ہی پریشان ہیا کرتا تھا لیکن پلوشہ اگنور کر دیا کرتی دیتی تھی اور یہی اس کی سب سے بڑی بھول تھی کیونکہ اگر ایسے لوگوں کو اگنور کیا جائے تو ان کی ہمت اور بڑھ جاتی ہے۔۔۔
او بے بی کدھر جا رہی ہیں۔۔۔؟؟؟
آو میں گھر چھوڑ دوں اتنی دھوپ میں جاو گئی کہیں یہ چمکیلا رنگ مانند ہی نہ پڑھ جائے۔
اس کو اگنور کیے پلوشہ نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا تھا۔
ارے ارے آرام سے کیوں ان خوبصورت پیروں کو تکلیف دے رہی ہو۔۔۔۔
اسکے ہاتھوں کو ندیم نے جیسے ہی پکڑنا چاہا تھا بوکھلاتے اپنی چادر سنبھالتے اس نے بھاگنا شروع کر دیا وہ بھاگتے بھاگتے ندیم کی نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک کار کے پیچھے چھپ کر پناہ لی اور ساتھ ہی گہرے گہرے سانس لیتی خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
اسکی آنکھیں بند تھیں جبکہ وہ کھینچ کھینچ کر سانس لے رہی تھی۔۔۔۔۔
مجھ کو دے تو مٹ جانے
اب خود سے دل مل جانے
کیوں ہے یہ اتنا فاصلہ؟
جبکہ گاڑی میں بیٹھے شخص کی آنکھوں کی چمک ابھری تھی اس ماہ وش کو دیکھ جو گلابی رنگ کی شوار قمیص میں جامنی رنگ کا ڈوپٹہ سر پر اوڑھے کافی حسین معلوم ہو رہی تھی۔۔
اس پر چلتی اسکی تیز رفتار سانسیں۔۔۔۔
آنکھوں پر موجود رقص کرتی وہ سایہ فگن ، چہرے پر بکھری وہ آوارہ زلفیں اسے مزید دلکش بنا رہی تھیں۔۔۔۔
لمحے یہ پھر نہ آنے
ان کو تو نہ دے جانے
اس نے آہستگی سے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تھا وہ خواب سی کیفیت میں سامنے کھڑی پلوشہ کو دیکھ رہا تھا۔
شش۔۔۔۔
اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ پلوشہ نے گاڑی میں بیٹھے صائم کو خاموش رہنے کی التجا کی تھی۔
م۔۔میرے ب۔۔بارے م۔۔میں کوئی پوچھے پلیز م۔۔مت بتا۔۔بتائیے گا۔۔۔۔
آنکھوں میں بہتے آنسوں کے ساتھ وہ بکھرے ٹوٹے لہجے میں بولی تھی۔
پلوشہ کی بات سن اسکو تشویش لاحق ہوئی تھی لیکن اسکی سوچوں کا تسلسل کسی آدمی کی آواز پر ٹوٹا تھا۔
یہاں سے کسی لڑکی کو جاتے دیکھا۔۔۔۔؟؟
صائم کی گاڑی کے پاس جھک ندیم سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
نہیں تو۔۔۔۔
صائم اپنے موبائل میں جھکا مصروف سے انداز میں بولا کہ وہ شخص لب بھینچے منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا آگے نکل گیا۔
اب تم سامنے آ سکتی ہو وہ جا چکا ہے۔۔۔۔
وہ جو ندیم کی آواز سن جھک گئی تھی اسکے جانے پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے کھڑی ہوئی۔
مس آئیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔
اسکو واپس جاتا دیکھ صائم نے کہا تھا۔
ن۔۔نہیں اٹس اوکے۔۔۔
وہ تھوڑا جھجھکتے ہوئے بولی تھی
مس دوپہر کا ٹائم ہے آپ اکیلی ہیں اور وہ شخص ابھی تک گیا نہیں ہو گا اسلئے آئیں میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔
صائم اسکو سمجھانے کے سے انداز میں بولا جب کہ اس کی بات سن وہ سوچنے لگی پھر خاموشی سے اسکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
تھوڑی جھجک بھی تھی تھوڑی شرم بھی
لیکن ندیم کی فضول حرکتوں کو برداشت کرنے سے بہتر صائم کے ساتھ جانا اسے بہتر لگا تھا۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں مس۔۔۔؟؟
کہ وہ شخص کون تھا اور آپ کا پیچھا کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔؟؟
گاڑی کی گہری خاموشی کو صائم کی مردانہ آواز نے توڑا تھا۔۔۔
و۔۔وہ ہمارے محلے میں رہتا ہے بہت ہی بدتمیزی اور چھیچھورا اور آوارہ لڑکا ہے
وہ پچھلے کئی دنوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے۔۔۔۔
نظریں جھکائے وہ بھاری آواز بولی تھی۔
اسٹیرنگ پر صائم کی گرفت مضبوط ہوئی تھی وہ نہیں جانتا تھا کیوں لیکن ندیم کی نظروں اور نیت کے بارے میں سن اس کے دماغ میں سوئیاں سے چبھی تھیں۔۔۔۔
تو آپ نے اپنے گھر میں سے کسی کو نہیں بتایا۔۔۔۔۔؟؟؟
نہایت حیرانی کے عالم میں یہ سوال پوچھا گیا تھا۔۔۔
بتایا تھا امی کو۔۔۔۔
م۔۔مگر انہوں نے کہا اگنور کر دوں۔۔۔۔
گود میں موجود ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا اس نے
واٹ۔۔۔؟
سیریسلی مس۔۔۔؟؟
ایسے لوگوں کو اگنور کرنا یعنی ان کو دعوت دینا ہوتا ہے۔آپ کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے ورنہ یہ آپ کی زندگی کے لئے نقصان دہ ہے۔۔۔۔
وہ نہایت سنجیدگی سے بولا تھا۔
پلوشہ جواباً کچھ نہ بولی تھی صائم نے بھی مزید بات کرنا ضروری نہ سمجھا بلکہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرنے لگا تھا۔
»»»»»»»»»❤️🙈«««««««
دلنشین پچھلے دس منٹ سے کانچ کے ٹیبل پر کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی آخر تنگ آ کر احتشام نے ہی اس خاموشی کو توڑا تھا۔
اب بتاؤ بھی کیا سمجھنا ہے تم نے یا یونہی بیٹھنے کیلئے آئی ہو۔۔۔۔؟؟
اسکو یونہی بیٹھے دیکھ احتشام گھور کر بولا تھا۔۔۔
سمجھانا تو آپ نے ہے استاد جی آپ بتائیں میں کیا بولوں بھلا۔۔۔۔
وہ شانِ بے نیازی سے کہتی کندھے اچکا گئی جب کہ اس کے انداز پر وہ اچھا خاصا تپا تھا۔۔۔۔
محترمہ سوال بتائیں کون سا سمجھنا ہے۔
احتشام نے دانت کچکچائے تھے دلنشین کی بات سن۔۔۔۔
یہ والی میتھ کی ایکویشن سمجھنی ہے۔
کتاب کو کھول اس کے سامنے رکھا تھا جبکہ وہ سوال دیکھ احتشام کے چہرے کا رنگ بدلا تھا جسے دیکھ دلنشین فاتحیب سی مسکرائی تھی۔
کیونکہ وہ جانتی تھی کہ احتشام کو یہ سوال یقیناً نہیں آتا ہو گا کیونکہ پیچھلے سال وہ اسی سوال کی وجہ سے صارم سے نو سے دس بار بے عزت ہو چکا تھا۔
لیکن اسکی یہ خوش فہمی بھی جلد ہی دور ہوئی تھی جیسے ہی احتشام نے اوکے کہتے اس سے رف کاپی مانگی۔
چلو اب فوکس سے سمجھنا۔۔۔۔
دلنشین کا فتح سے مسکراتا چہرا کسی غبارے کی مانند پھولا تھا۔ایک گہرا سانس لیے وہ خاموشی سے سوال سمجھنے لگی تھی۔۔۔۔۔
میتھ ایک ایسا مضمون تھا جس سے اس کی جان جاتی تھی مگر پڑھنا اسکی مجبوری تھا۔
چلو اب شیٹ پر تین بار اس کی پریکٹس کرو اور دو مرتبہ ٹیسٹ دو۔
سمجھانے کے بعد وہ اپنی اسائمنٹ لے کر بیٹھ گیا تھا جبکہ اتنی بڑی ایکویشن کو پانچ مرتبہ لکھنے پر اسکی آنکھیں حیرت کی زیاتی سے پوری کی پوری کھل چکی تھی۔
بس سمجھا دیا ہے نا کافی ہے اب زیادہ سچ مچ کے استاد مت بنو۔۔۔۔
کاپی اٹھاتے اس نے تڑخ کر کہا تھا کہ احتشام نے بھنونے سکیڑے اس کو دیکھا۔
باتیں مت کرو جتنا کہا ہے اتنا کرو۔۔۔۔
آنکھیں چھوٹی کرتے اس نے پاٹ چہرے کر ساتھ کہا تھا۔۔۔
دماغ ٹھیک ہے آپکا۔۔۔۔؟؟؟
پانچ مرتبہ کون پاگل لکھے گا میں نہیں کر رہی بس ایک بار لکھوں گی۔
احتجاج کرتی وہ دبا دبا چیخی تھی۔
دلنشین خاموشی سے کر لو ورنہ مما کو شکایت لگا دوں گا
اسکو گھوری سے نوازتے وہ سنجیدگی سے بولا تھاجبکہ وہ منہ کے الٹے سیدھے زاویے بنائے کتاب پر جھک چکی تھی اور ساتھ ہی میں احتشام کو نئے نئے القابات سے نوازنا نہ بھولی۔
یونہی پورے پانچ گھنٹے اسے پڑھانے کے بعد دلنشین کی جان چھوڑی تھی اس نے جبکہ وہ توبہ کر چکی تھی کہ دوبارا اس نکھریلے سے نہیں پڑھے گی جس نے اس کے دماغ کا ستیاناس ہی کر ڈالا تھا ایک تو روزہ تھا اوپر سے امتحان سونے پر سہاگا اس سر پھرے سے تیاری میں مدد۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial