قسط: 5
ایکسکیوز می۔۔۔۔
گراؤنڈ میں موجود احتشام کے فون کی چنگھاڑتی آواز نے سب کو متوجہ کیا تھا
وہ جو دوستوں کے ساتھ گراؤنڈ میں بیٹھا فوٹ بال میچ دیکھ رہا تھا سب سے معذرت کرتا سائیڈ پر آیا۔۔۔
ہاں بولو صارم؟؟؟
ایک ہاتھ بالوں میں پھیرے دوسرے ہاتھ سے فون کان پر لگائے وہ کروفر سے چلتا سائیڈ پر آیا۔
کہاں ہے اس وقت؟؟
گراؤنڈ میں ہوں کیوں،کیا ہوا؟؟؟
گلے میں پہنے لاکٹ کو گھوماتے تشویش کن لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔
واٹ؟؟
تم ابھی بھی وہاں پر ہو؟؟؟
جانتے ہو نا، گھر آنا ہے کتنے دنوں سے نکلے ہوئے ہو کچھ ہوش ہے یا نہیں
ماما پوچھ رہی ہیں کب سے ۔۔۔۔
صارم تپ ہی گیا تھا احتشام کی بات سن کر جب کہ وہ دلکشی سے سائیڈ سمائل ہنستا فون کو کان سے ہٹائے اسکرین کی جانب دیکھنے لگا۔
احتشام میچ کی پریکٹس کیلئے ایک تین دن سے اپنے دوست کے فارم ہاوز میں رہ رہا تھا یہی وجہ تھی کہ صارم تپ گیا تھا جسے گھر کا کوئی ہوش ہی نہ تھا اپنی دنیا میں مگن رہنے والا وہ شوخ و چنچل مگر جنون و غصے سے بھرا شخص جو تھا تو بالکل پانی مانند نرم و ٹھنڈے مزاج کا لیکن اگر ایک بار اس میں طوفان آ جائے تو سب کچھ تہس نہس کر دینے والا۔
ہاہاہاہا ریلیکس بڈی۔۔۔
یاد ہے مجھے ویسے بھی اپنے گھر کو کون بھولتا ہے،تھوڑا سا میچ رہ گیا ہے۔
بس تم ایک کام کرو کسی طرح موم کو ہینڈل کرو میں کچھ ٹائم میں پہنچتا ہوں۔
لاڈ بھرے انداز میں کہتے وہ لب دبائے صارم کے جواب کا منتظر تھا۔۔
جی نہیں میچ کو مارو گولی اور آدھا گھنٹہ ہے فوراً گھر پہنچو۔۔۔۔
احتشام کو حکم دینے کے انداز میں کہتا وہ فون رکھ گیا تھا جب کہ گھر کے نام سے اچانک ہی کسی مہربان وجود کا وہ ہنستا مسکراتا عکس اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا جو پچھلے کچھ مہینوں سے اسکے ذہن پر کسی ساحرہ کی مانند سوار تھی۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے سر جھٹک گیا پھر سب سے معذرت کرتا وہاں سے جا چکا تھا
»»»»»»»
«««««««


شام کے اس وقت آہستگی سے چلتا لان کے اس حصے میں آیا جہاں اکثر وہ اور فریال کھیلا کرتے تھے۔
ایک ہاتھ ٹراؤزر کی پاکٹ میں ڈالے وہ من من قدم بھر رہا تھا ذہن میں کہیں بچپن کے وہ مناظر گھومنے لگے۔
فری تم دیکھو میں تمہارے لئے کتنے سارے پھول لایا ہوں۔
وہ کیوٹ سا بچہ بھاگتے ہوئے لان میں داخل ہوئے نیچے گھاس پر بیٹھا جہاں فریال بھی نیچے بیٹھی پلاسٹک کے بلاکس سے کھیل رہی تھی۔۔
واہ۔۔۔۔صارم یہ تم میرے لئے لائے ؟؟
اس کی آنکھوں میں ستائش سی ابھری ، فریال کے سوال پر اس نے معصومیت سے سر زور زور سے ہاں میں ہلاتے جواب دیا۔
تم میرے کتنے پیارے دوست ہو۔۔۔
ننھے سے ہاتھوں کو پیالے کی شکل دیتی اس پر چہرا ٹکائے صارم کو دیکھنے لگی جو ماتھے پر بکھرے اپنے سلکی بالوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
فری تم صرف میری دوست ہو نا۔۔۔۔؟؟؟
ہاں بالکل۔۔۔۔۔!!
فری صرف صارم کی ہی دوست ہے۔
وہاں بکھرے بلاکس کو سمیٹتے واپس بیگ میں رکھتے اس نے معصومیت سے جواب دیا جس پر صارم خوش ہوتا اس کی مدد کرنے لگا۔
آنکھیں کھول ماضی کے دریچوں سے باہر آیا جہاں کتنی خوبصورت یادیں محفوظ تھیں گھٹنوں کے بل بیٹھتا وہ اس کی جگہ پر ہاتھ پھیرتا آسودگی سے مسکرایا تھا اس کی آنکھیں نم تھیں جب کہ اس وجیہہ چہرے پر عجب مسکان۔۔۔۔
»»»»»»»»
««««««


پلوشہ آپکا نکاح ندیم بادامی سے طے پایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟؟؟؟
یہ الفاظ نہیں پلوشہ کو کوئی سیسہ معلوم ہو رہے تھے جو اسکے کانوں میں ڈالے جا رہے ہوں اس نے گھونگھٹ کی اوٹ سے ہی ایک نظر ساتھ بیٹھے ندیم پر ڈالی تھی جس کے ایک ہاتھ میں بندوق تھی۔۔۔
کالے رنگ کی شلوار قمیض پر سفید پرنا کاندھے پر ڈالے وہ تقریباً پھیل کر چارپائی پر بیٹھا تھا جبکہ اسکا بندہ اسکی پوری فیملی کو گھیرے ہوئے تھا۔۔۔
جانِ من بولو خاموش کیوں ہو۔۔۔؟؟
مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں بندوق کی نال سے ہی اس کے ہاتھوں پر دباؤ بڑھایا تھا کہ وہ سسک اٹھی۔۔۔۔
دل چاہا رہا تھا کہ بول دے نہیں ہے قبول اور اٹھ کر چلی جائے کہیں غائب ہو جائے لیکن وہ صرف سوچ کر رہ گئی دل ہی دل میں دعا کی کہ کسی طرح یہ نکاح رک جائے اللّٰہ سے مدد مانگنے لگی کیونکہ وہ اس زبردستی کے رشتے میں بندھنا نہیں چاہتی تھی وہ بھی ایک گنڈے کے ساتھ
پلوشہ۔۔۔!!
ندیم کی گرج دار آواز اس کے لرزنے پر مجبور کر گئی۔۔۔
ق۔۔۔قبول ہے۔۔
وہ بہتی آنکھوں کے ساتھ بول رہی تھی۔
ق۔۔قبول ہے۔
“دوسری مرتبہ کہتے ہوئے دل میں دعا کی کہ اسکی روح پرواز کر جائے لیکن نادارا
“قب۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ تیسری بار بھی قبول ہے کہتی پولیس کے سائرن کی آواز چار سو گونجنے لگی۔
»»»»»»»
«««««««


صارم اپنی ہی دھن میں سر جھکائے لان سے گزرتا اندر کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اس کی نظر اس ماہ جبین پر جا ٹکرائیں جو اپنی ہی سوچوں میں گم جھولے پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی ساتھ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔
سفید رنگ فراک پہنے ڈوپٹے کو اچھے سے اپنے وجود پر لپیٹے بالوں کو ہالف کیچر میں مقید کیے میک اپ سے پاک چہرا صارم یک ٹک اسے دیکھے گیا پھر اچانک ہی نظروں کا زاویہ بدلے اسکے پاس آیا۔
کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔
ایک ہاتھ جھولے کے اسٹینڈ پر رکھ اس پر ماتھا ٹکائے فریال کو دیکھ استفسار کیا جو اس کی آواز سن ہوش کی دنیا میں آئی۔۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔
اسکو دیکھ وہ اپنی ہی دھن میں مسکراتے ہوئے بولی۔
بالکل کوئی اداس پری لگ رہی ہو جو یوں اپنی پری ساتھیوں سے روٹھ کر بیٹھی ہوتی ہے۔۔۔۔
اسکے وجود کو دیکھ وہ گھمبیر لہجے میں بولا تھا وہ واقعی سفید رنگ کوئی پاکیزہ سی پری ہی لگ رہی تھی اور چہرے پر چھائی ہلکی ہلکی اداسی اسے مزید دلکش بنا رہی تھی۔
ہاہاہا صارم تم بھی نا۔۔۔۔
فریال کو قہقہ گونجا تھا جس سے اسکے بائیں گال کو ڈمپل گہرا ہوا اور سامنے بیٹھے شخص کے دل پر بجلیاں گرا گیا تھا لیکن وہ جلد ہی اپنی نظریں اس سے چرا گیا گو کہ کہیں وہ اسکے راز سے واقف نہ ہو جائے۔۔۔۔
ہنستی مسکراتی رہا کرو ذیادہ اچھی لگتی ہو۔۔۔
مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ سنجیدگی سے بولا تھا اور اندر کی جانب بڑھ گیا
ہوا ہے آج پہلی بار جو ایسے مسکرایا ہوں
تمہیں دیکھا تو جانا یہ کہ کیوں دنیا میں آیا ہوں
»»»»»»»
««««««


اس سے پہلے وہ تیسری بار بھی قبول ہے کہتی پولیس کے سائرن کی آواز چار سو گونجنے لگی اور ساتھ ہی مین گیٹ سے کوئی شخص پولیس کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
پولیس کو دیکھ سب پریشان ہوئے لیکن صحیح معنوں میں جس کے چہرے پر پریشانی کے اثار تھے وہ تھا ندیم بادامی۔
انسپیکٹر صاحب گرفتار کر لیں اس شخص کو جو میری بیوی سے زبردستی نکاح کر رہا ہے۔
صائم کی آواز جیسے ہی گونجی تھی وہاں پلوشہ سمیت سب ہی افراد ششدر ہوئے تھے صرف اس ایک لفظ بیوی پر
ی۔۔یہ یہ کیا بکواس ہے۔۔۔؟؟
اب کے ندیم اپنے جلال میں آئے کھڑا ہوا تھا اور گرج کے بولا
یہ بکواس نہیں سچ ہے گھٹیا انسان تم میری بیوی سے یوں زبردستی نکاح کرو گے اور میں تمہیں یوں ہی چھوڑ دوں گا
ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ نخوت سے بولا تھا۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا کیا ثبوت ہے تمہارے پاس۔۔۔۔
اپنا ماتھا مسلتے ہوئے وہ بھنویں اچکائے بولا کے صائم بے ساختہ ہنسا
ہنہہ۔۔۔۔۔جانتا تھا ثبوت مانگو گے تب ہی ساتھ لایا ہوں کر لو اپنی تسلی۔
سرد مہری سے کہتے کوٹ میں موجود کاغذات اس کی آنکھوں کے سامنے کیے تھے جسے اس نے جھپٹنا چاہا لیکن وہ فوراً ہی ہاتھ پیچھے کر گیا تھا۔۔۔۔
ایسا نہیں ہو سکتا یہ میری تھی ، ندیم کی تھی صرف ندیم کی۔۔۔۔
کیوں تم اوپر سے بک کروا کر آئے تھے؟؟
صائم نے اسے نخوت سے دیکھتے کہا
اگر یہ میری نہیں ہوئی تو تیری بھی نہیں رہے گی میں،میں اسے ز۔۔زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا۔
جنونی و پاگل کی سی کیفیت میں کہتا اس نے بندوق خوف سے کانپتی پلوشہ کے سر پر رکھی تھی جب کہ سعدیہ بیگم کی چیخ بلند ہوئی۔
ڈارلنگ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ بندوق چلاتا صائم کی ٹانگ سے پڑنے والے دھکے سے وہ اندھے منہ زمین پر گرا تھا اور بندوق کہیں دور جا گری۔۔۔۔۔
اور اسی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس نے اسے اور اسکے بندے کو حراست میں لیا تھا اس نے خود کو چھڑوانا چاہا لیکن انسپیکٹر نے اسکے ہاتھ پیچھے لے جاکر ہتھکڑی سے باندھ دیے اور آنکھوں کے گرد کالی پٹی لپیٹ دی
وہ مچل رہا تھے ان کی گرفت میں ، گالیاں دے رہا تھا لیکن پولیس انہیں وہاں سے لے جا چکی تھی۔
میں میں چھوڑوں گا نہیں تم سب کو۔۔۔۔
دھوکہ دھوکہ دیا ہے مجھے ،ندیم بادامی کو دھوکہ دیا ہے۔
نیم پاگل سا وہ چلا رہا تھا کہ اسکی صدائیں ابھی بھی سنائی دے رہی تھیں جنہیں وہاں موجود ہر کوئی نظر انداز کر گیا اس کے جاتے ہی سب نے سکھ کا سانس لیا ، لیکن پھر ایک نئی الجھن کے تحت صائم کی جانب دیکھا
ب۔۔بیٹا ک۔۔کیا یہ سچ۔۔۔۔؟؟؟
کافی دیر بعد ذید صاحب کے ٹوٹے ہوئے الفاظ وہاں گونجے تھے جسے سن اس نے نفی میں سر ہلایا تھا
نہیں انکل ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو بس میں نے آپ لوگوں کو اس گھٹیا انسان کی سازش سے بچانے کے لیے یہ ناٹک رچایا تھا۔
کس رشتے سے بچے۔۔۔۔؟؟
وہ صائم کو جانچتے ہوئے بولے تھے۔
انسانیت کے رشتے سے انکل۔۔۔۔
سامنے سے دوبدو جواب آیا وہ کچھ پل کو ٹھہرا اور پھر خود میں ہمت مجتمع کر دوبارہ گویا ہوا۔
لیکن اگر آپ چاہیں تو ہم ان کاغذات کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں ذید صاحب کی آنکھوں میں دیکھے ہوئے وہ پر امید لہجے میں بولا تھا۔
صائم کی بات سن کر ذید صاحب نے نا سمجھی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔
ب۔۔بیٹا یہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟
ہاں انکل میں سچ کہہ رہا ہوں ہو میں آپ کی بیٹی پلوشہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ خوش رکھونگا میری جانب سے کبھی کوئی شکایت کا موقع نہیں دوں گا
انکل باقی آپ لوگوں کا جو فیصلہ ہو گا وہ مجھے منظور ہے۔۔۔۔
ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔صائم کی بات سن ذید صاحب نے سعدیہ بیگم کی جانب دیکھا تھا جو بہت ہی کھوئی ہوئی نظروں سے صائم کو دیکھ رہی تھیں انہیں اس میں کسی بہت اپنے کی جھلک دکھائی دی۔۔۔۔
ب۔۔بیٹا تم وہی ہو نا جس نے۔۔۔۔
سعدیہ بیگم نے سوال ادھورا چھوڑا جب کہ ان کی بات سن اس نے یکدم اثبات میں سر ہلائے جواب دیا۔۔۔۔
جی آنٹی ! ان کی بات سمجھ وہ مدھم سا مسکراتے بولا کہ ان کے چہرے پر کچھ اطمینان بھرے تاثرات آئے نا جانے کیوں ان کا دل سامنے کھڑے لڑکے پر بھروسہ کرنے کو کہہ رہا تھا۔
بیٹا مجھے کوئی اعتراض نہیں بس تم ہمارے بھروسہ کو قائم رکھنا۔۔۔
کچھ لمحے کے لئے وہاں زید صاحب کی سپاٹ و التجائیہ آواز گونجی تھی جب کہ ان کی بات سن صائم کی تو مانو عید ہو گئی۔
اس نے بے ساختہ پلوشہ کی جانب دیکھا تھا جو ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی وہ گھونگھٹ اٹھا چکی تھی البتہ سر پر ڈوپٹہ ابھی بھی موجود تھا۔
کچھ ہی دیر میں نکاح طے پایا گیا وہ پلوشہ ذید سے پلوشہ صائم بن چکی تھی
ایک ہی لمحے میں اپنی زندگی کے اختیارات کسی اور کے نام لکھ چکی تھی۔
سعدیہ بیگم اس تمام کاروائی میں بالکل خاموش تھیں وہ بس یک ٹک صائم کو دیکھے جا رہی تھیں۔
نکاح ہوتے ہی وہ اسے اپنے ساتھ لئے گاڑی تک لایا تھا پلوشہ کنفیوژ سی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ سب ہو کیا رہا ہے
زندگی بھی نا جانے کیا کیا موڈ لیتی ہے اس نے تلخی سے سوچا۔
زید صاحب سے ملنے کے بعد وہ سعدیہ بیگم کی جانب آیا جنہوں نے پلوشہ کا ماتھا چوم صائم کی جانب دیکھا اور نرمی و عقیدت سے اس کے ماتھے پر بھی لب رکھتیں اسے ممتا سے بھرپور مان بخش گئیں ، صائم کے لبوں پر دلکش سی مسکان نے احاطہ کیا تھا۔
”ہمیشہ خوش رہو“۔۔۔۔
ذید صاحب اور سعدیہ بیگم سے ملنے کے بعد انہوں نے اسے دعاوں تلے رخصت کیا وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
پورا راستہ خاموشی سے کٹا تھا دونوں نے ایک دوسرے سے بات کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔
تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی ایک حویلی نما بنگلے میں داخل ہوئی تھی پلوشہ نے اپنی نظریں اٹھائے اوپر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی وہ عالیشان طرز پر بنی خوبصورت حویلی آسمانوں سے باتیں کرتی معلوم ہو رہی تھی لمبے باغ کے بیچ میں بنے روڈ ہر چلتی ہوئی گاڑی پارکنگ میں رکی تھی۔