دلدار ستمگر

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی ایک حویلی نما بنگلے میں داخل ہوئی تھی پلوشہ نے اپنی نظریں اٹھائے اوپر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی وہ عالیشان طرز پر بنی خوبصورت حویلی آسمانوں سے باتیں کرتی معلوم ہو رہی تھی”….
“بڑے باغ کے بیچ میں بنے روڈ پر چلتی ہوئی گاڑی پارکنگ میں رکی تھی”….
صائم گاڑی سے باہر نکل چکا تھا جبکہ پلوشہ اب بھی حیرت و تجسس سے حویلی کو ہی دیکھ رہی تھی اسکو یوں حویلی کو تکتا پا کر صائم جاندار سا مسکرایا تھا وہ اسے لئے لان میں ہی آیا تھا جہاں گھر کے بڑے موجود آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے خدا جانے ایک دوسرے کی کون کون سی باتوں پر قہقے لگا رہے تھے۔
“اسلام وعلیکم”…
“ایک کرسی کھینچ اس پر بیٹھا تھا وہ اور ساتھ سب کو گھمبیر آواز میں سلام کیے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی”….
“دل بھابھی کو کمرے میں چھوڑ آؤ گی پلیز”….
دلنشین جو کونے میں بیٹھی فون یوز کر رہی تھی صائم کی بات سن حیرت سے اسکی جانب دیکھا اور پھر اس کے پاس کھڑی پلوشہ کو جب کہ اس کے بھابھی کہنے پر گھر کے تمام افراد نے اسکی جانب حیرت کی ذیاتی سے دیکھا تھا۔
شاک سی دلنشین کنفیوژن کا شکار ہوتی پلوشہ کو کمرے میں لے گئی جبکہ اب صائم گھر والوں کے سامنے کسی سنگین مجرم کی طرح بیٹھا تھا اور گھر والے کسی جیلر کی مانند اس کو گھور رہے تھے۔
“ہممم تو برخودار یہ کیا معاملہ ہے”..؟؟
آنکھیں چھوٹی کیے حاشر درانی نے سنجیدگی سے کہا تھا”…
اس معاملے کو مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں بابا جانی”…
“ایک نظر اپنی ماں کی جانب دیکھے وہ حاشر درانی سے مخاطب ہوا تھا کہ وہ گڑبڑائے تھے کیونکہ وہ اپنی کہانی انہیں پہلے ہی بتا چکا تھا اسلئے حاشر صاحب نکاح میں فون کال پر موجود تھے۔
“ک۔۔کیا مطلب حاشر آپ “..؟؟
“فیروزہ بیگم حیرانی سے گویا ہوئیں”…
“ویٹ مام میں بتاتا ہوں”…
“کہتے ہی اس نے تمام کہانی انہیں سنائی کہ کس طرح پلوشہ سے اسکی ملاقات ہوئی ،پھر ندیم کا آنا اور ایٹ دا اینڈ یہ نکاح جو اسکی خواہش تھی”…..
“تمام بات بتانے کے بعد وہ خاموش ہوا اور اپنی ماں اور تائی کی جانب دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھیں”…
“یہ بات ہمیں پہلے نہیں بتا سکتے تھے”..؟؟؟؟
“فیروزہ بیگم نروٹھے پن سے بولی تھیں کہ سب ہنس دیے “…
»»»»»»💖😁««««
کمرے میں گھپ اندھیرا کیے دلنشین ہارر مووی دیکھنے میں محو تھی اور ساتھ ہی ساتھ پاس رکھے باؤل میں سے پوپ کارن اور چپس اٹھا کر کھاتی جا رہی تھی اسکی آنکھوں کا فوکس بتا رہا تھا کہ وہ فلم میں کس قدر محو ہے لیکن کمرے میں پیدا ہوتی ہلکی سی آہٹ نے اسے متوجہ کیا لیکن وہ نظر انداز کیے واپس فلم دیکھنے میں مصروف ہو گئی”..
مشکل سے کوئی پندرہ منٹ گزرے ہونگے کہ دلنشین کو اپنے پیچھے کوئی سایہ سا محسوس ہوا جسے سوچتے ہی اس کی حالت غیر ہوئی تھی وہ تمام ہمت جمع کیے آہستہ آہستہ پیچھے مڑی تھی اسکی سانسیں حلق مین اٹکی اور خوف سے اسکی چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی جب کسی وجود کو بال کھولے اپنے پیچھے کھڑا پایا تھا لیکن وہ ہوش میں آئی تھی جیسے ہی کمرے میں کسی جانی پہچانی آواز کا قہقہہ گونجا تھا اور ساتھ ہی لائٹس اون ہوئی تھیں۔
“ہاہاہاہاہاہا”…..
“احتشام کے قہقہوں پر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں جن میں سے خوف و ڈر کے باعث آنسوں نمودار ہونا شروع ہوئے تھے
اتنی ڈرپوک ہو تو اکیلے ڈراؤنی مووی کیوں دیکھتی ہو”…؟؟؟اسکا مزاق بنائے وہ ابھی بھی ہنس رہا تھا”…
“جبکہ دلنشین ابھی بھی سن کھڑی تھی لیکن ہوش میں آتے ہی وہ غصے سے احتشام کی جانب بڑی “….
“تم جنگلی جاہل انسان تم میں تمیز ہے کہ نہیں”..؟؟؟
“کیوں اپنے رشتے داروں کا بھیس لے کر مجھے ڈرا رہے تھے اگر میں مر جاتی تو”..؟؟؟؟
“وہ پاس رکھا تکیہ اسکو مسلسل مار رہی تھی جبکہ وہ اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ کھڑے کر گیا”….
“ویسے اچھا ہوتا دنیا سے چڑیلیں تو کم ہوتیں”….
“اسکے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ وہ آنکھ ونک کیے بولا جبکہ اب دلنشین کے کانچ کا باول اٹھا لیا تھا اسکو مارنے کے لئے”..
“جبکہ وہ بھاگ چکا تھا لیکن جاتے جاتے ڈرپوک کی ہانک لگانا نہ بھولا”….
»»»»»»😂❤️«««««
پلوشہ کو ابھی کچھ دیر پہلے دلنیشن صائم کے روم میں چھوڑ کر گئی تھی وہ بڑی محویت سے پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی حویلی کی ہر چیز اپنی مثال آپ تھی جن میں ایک یہ کمرا بھی شمار ہوتا ہے سفید و گولڈن رنگ کے امتزاج سے بنا وہ کمرا کافی کھلا کھلا معلوم ہو رہا تھا ہر چیز نہایت نفاست سے رکھی گئی تھی کمرے کے وسط میں موجود بیڈ اسکے سائیڈ پر رکھے دو ٹیبل جن پر الارم کلاک اور صائم کی ہی تصویر رکھی ہوئی تھی بیڈ کے سامنے دیوار والی دیوار کے سہارے رکھا اعلیٰ ڈریسنگ ٹیبل دائیں جانب کانچ کی الماری میں ترتیب سے سجی کتابیں کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔
من من قدم بھرتی وہ بیڈ پر آئی تھی تو نظریں سامنے بالکونی کی جانب اٹھی جن کو آدھا گولڈن رنگ کے پردوں نے اپنی حفاظت میں چھپایا ہوا تھا وہ اٹھتی پردے سائیڈ پر کرتی وہیں رکھے دو صوفوں پر بیٹھ گئی ٹھنڈی ہوا کی تازگی جو بالکنی سے اندر روم میں آرہی تھی خود میں اتارتی اپنے زہن کو ٹھنڈک پہنچانے لگی۔
آج اللہ تعالیٰ نے صائم کو وسیلہ بنا کر بھیجا تھا اور اسے کسی غلط ہاتھوں میں جانے سے بچایا تھا وہ جتنا اس چیز کے لئے شکر کرتی کم تھا لیکن ایک صائم کی ذات کو کے کر اس کے ذہن میں کئی سوال گردش کرنے لگے تھے جو اسے بے چین کیے ہوئے تھے۔
»»»»»»»❤️😍«««««
دل کیا ہے جو اس زلف سے جا کر پلٹ آئے
انسان اسی کوچہ میں کھو کر نہیں ملتا”
غزل اس وقت باتھ لے کر باہر نکلی تھی اس کے کھلے گیلے لمبے بال تولیے میں مقید تھے ہلکے سنہرے رنگ کے سوٹ میں وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی اس کی ناک میں موجود وائیٹ نوز پن ہیرے کی مانند چمک رہی تھی وہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے آئی اور موسٹرائزر لوشن اٹھا کر اپنے ہاتھوں پر لگانے لگی تھی پھر کاجل اٹھائے اپنی آنکھوں میں اسکی باریک لکیر بنائی تھی جو اس کی آنکھوں کو مزید دلکش دکھا رہی تھیں غازی جو ایکسرسائز کر کے ابھی لوٹا تھا غزل کو یوں دیکھ ٹھٹکا تھا اسکے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمایاں ہوئی وہ اس کی طرف بڑھا تھا اور اسے پیچھے سے ہگ کر کے اس نے اس کے گردن پر لب رکھے تھے غازی کے اس لمس پر غزل کے پورے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑا تھا۔
“غا۔۔۔غازی ی۔۔یہ کیا۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔ر ۔۔۔۔رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔!!! شیشے میں سے اسکے عکس کو دیکھ اس نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی ، بلیک ویسٹ اور ٹراؤزر پہنے گلے میں سفید تولیہ لپیٹے وہ کوئی پر کشش لگ رہا تھا اسکا کسرتی جسم صاف نمایاں ہو رہا تھا جو کہ اسکی محنت کا نتیجہ تھا تبھی وہ فٹ تھا وہ جو اپنی آنکھیں بند کیے اس کی گردن پر جھکا اس کی خوشبو اپنے اندر اتار رہا تھا اس کی بات پے ہولا سا مسکرایا اور اس کے تولیے میں قید بالوں کو آزاد کیا جو کہ کسی آبشار کی مانند اسکے چہرے اور پیچھے کمر پر پھیل گئے
میدانِ جنگ میں ملی نغمے گا رہا ہوں۔
آنکھوں میں شرارت سموئے بولا کہ غزل نظریں چراتی رہ گئی تھی۔
دکھ نہیں رہا منِ جانم اپنی بیوی سے پیار کر رہا ہوں جاناں ہو میری تم غازی کی جان۔۔۔
اس کے لب الفاظ ادا کرتے ہوئے غزل کے کان کی لو کو ٹچ کر رہے تھے”….
”غازی ہٹیں نا۔۔۔۔“
اسکی بانہوں میں مچلتی وہ کسمسائی تھی وہ جو غزل کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا اسکے یوں منمنانے پر ایک سرد آ خارج بھرتا رہ گیا۔
”بہت ظالم ہو تم“۔۔۔۔
آنکھوں میں شکوہ سموئے نروٹھے پن سے کہتا وہاں سے واک آوٹ کر گیا۔
»»»»»»❤️😍«««««
آج افطاری کے بعد دل اور احتشام نے واک پر جانے کا پلین بنایا جب کہ اس میں وہ ساتھ صارم اور فریال کو بھی گھسیٹ چکے تھے جو نا نا کرنے کے باوجود بھی اب دلنشین کے بے جا اثرار پر اس کے ساتھ تھی۔
”ویسے بھائی ہم سب خوب رج کر افطاری کر چکے ہیں اس کے بعد اگر کوئی ہمیں میٹھی سی آئس کریم کھلا دے تو مزہ دوبالا ہو جائے“
ہاں تو کھا لو اگر کوئی کھلاتا ہے تو ۔۔۔
دائیں ہاتھ پاکٹ میں ڈال وہ کروفر سے چلتا کندھے اچکاتے بولا کہ دل منہ بسورے کر رہ گئی
”ارے بھائی بڑے ہی بے مروت ہیں آپ“
دلنشین کی بات سن جہاں اس نے لب دبائے اپنی مسکراہٹ دبائی وہیں فریال نے اسے گھوری سے نوازا تھا جس پر وہ دانت نکالتی رہ گئی
”بھائی وہ دیکھیں آئس کریم کارنر“
مزید آگے بڑھتے احتشام اور دلنیشن دونوں نے بیک وقت اس کی توجہ آئسکریم کارنر کی جانب مبذول کروائی
”ہاں تو۔۔۔“
شانِ بے نیازی سے کندھے اچکا گیا تھا
کھلا دیں ۔۔۔۔۔!!! غریبوں کی دعائیں ملیں گی اچھا موقع ہے ویسے بھی آج جمعرات ہے
یہ کہنے والا احتشام تھا جب کہ دل نے اسے گھور کر دیکھا
چلغوزے کہیں کے تم اپنی بکتیسی بند رکھو اگر سلامتی چاہتے ہو تو۔۔۔۔۔
کیا یار ایک تو تمہاری سائیڈ لے رہا ہوں اور تم ہو کے الٹا مجھے ہی کہو ۔۔۔۔
آنکھیں ترچھی کرتا وہ کڑتے ہوئے بولا
کیا تم لوگ لڑنے کے لئے آئے ہو۔۔۔۔؟؟؟
فریال نے پہلی بار اس ساری بات میں حصہ لیا صارم نے اپنی بھوری آنکھیں اٹھائے اس ماہ جبین کو دیکھا جو اپنی عادت کے مطابق دھیمے انداز میں ہی کہہ رہی تھی۔
بھابھی۔۔۔!!
دل نے معصومانہ منہ بنائے دیکھا تھا کہ فریال کو اس کے چہرے کو دیکھ ہنسی آئی۔
”کھلا دو صارم“۔۔۔
فریال نے کہا تو صارم ان دونوں نمونوں کو دیکھتے جیب سے پیسے نکالتے ان کی جانب بڑھائے جو دانت نکالتے ہنس رہے تھے۔
”یاہووو“۔۔۔۔ دل نے خوشی سے نارہ لگایا کہ وہ نفی سے سر ہلاتا رہ گیا ، احتشام اور دلنشین اندر آئس کریم لینے چل دیے جب کہ فریال اور صارم وہیں سائیڈ پر درخت کے نیچے ٹیک لگائے ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔
»»»»»»»❤️🤗««««««
پلوشہ صوفے سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی کہ کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور وہ شہزادہ اپنی شان کے ساتھ چلتا اندر داخل ہوا ایک عجب سے کلون کی خوشبو تھی جو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور ساتھ کھانے کی دلفریب سی خوشبو جس سے اس کی آنکھیں چمکی اس نے فٹ سے آنکھیں کھولیں تو صائم ہاتھ میں ٹرے پکڑے اسے ہی مسکراتے دیکھ رہا تھا کہ وہ نروس سی ہوئی۔
پلوشہ نے اپنی کرسٹل آنکھیں اٹھائے اس کی جانب دیکھا جو مقابل لڑکی کی آنکھوں میں پنپتے سوال کو محسوس کیے مسکرایا
آپ نے افطاری ٹھیک سے نہیں کی تھی تو سوچا آپ کیلئے لے کر جایا جائے۔
نہیں ایسا تو نہیں ہے۔۔۔۔
نظریں چراتے کہا گیا
بس کر دیں جانتا ہوں سب ، صاف ظاہر ہو رہا تھا جھجھک اور کنفیوژن محسوس کر رہی تھیں آپ اس وقت ۔۔۔۔
آنکھیں چھوٹی کرتے وہ مسکراتے ہوئے بولا جب کہ اپنی چوری پکڑنے جانے پر وہ شرمندہ سی ہوئی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے دراصل مجھے اتنی بھوک نہیں لگی تھی۔
انگلیاں مروڑتے بہانا گھڑا گیا۔۔۔۔
انہاں ، اتنے گھنٹے کے روزے کے بعد بھوک نہ ہو نا ممکن سی بات ہے۔۔۔
ابرو اچکاتے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ساتھ ہی باتوں باتوں میں اس نے روٹی توڑ کباب کے ساتھ نوالہ بنائے اس کے لبوں کے سامنے کیا جسے کچھ جھجھک اور شرم سے گھبراتی کھا گئی ۔۔۔۔
یہ سب گھر والے آپ کے اپنے ہیں ، آپ ان کو یوں سمجھیں جیسے خون کے رشتے بس تھوڑی اپنائیت اور عزت کی ضرورت ہے آپ تھوڑی محبت میں پہل کریں سب ان شاءاللہ جلد آپ کے ساتھ گھل مل جائیں گے لیکن پہلا قدم آپ کو خود بڑھانا ہو گا۔۔۔۔۔
”یہ گھر اور یہاں کے بستے افراد پر آپ کا حق ہے اور جن پر حق رکھا جائے ان سے جھجھک محسوس نہیں کی جاتی بلکہ حق جتایا جاتا ہے“۔۔۔۔

نرمی سے اس کے ماتھے پر لب رکھتے اس کو اپنائیت کا احساس دلاتے اٹھ کر بالکونی میں چل دیا تا کہ وہ پر سکون ہو کر کھانا کھا سکے جب کہ پلوشہ اس کے انداز پر کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔

تقریباً بیس منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی ایک حویلی نما بنگلے میں داخل ہوئی تھی پلوشہ نے اپنی نظریں اٹھائے اوپر دیکھا تو دیکھتی رہ گئی وہ عالیشان طرز پر بنی خوبصورت حویلی آسمانوں سے باتیں کرتی معلوم ہو رہی تھی”….
“بڑے باغ کے بیچ میں بنے روڈ پر چلتی ہوئی گاڑی پارکنگ میں رکی تھی”….
صائم گاڑی سے باہر نکل چکا تھا جبکہ پلوشہ اب بھی حیرت و تجسس سے حویلی کو ہی دیکھ رہی تھی اسکو یوں حویلی کو تکتا پا کر صائم جاندار سا مسکرایا تھا وہ اسے لئے لان میں ہی آیا تھا جہاں گھر کے بڑے موجود آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے خدا جانے ایک دوسرے کی کون کون سی باتوں پر قہقے لگا رہے تھے۔
“اسلام وعلیکم”…
“ایک کرسی کھینچ اس پر بیٹھا تھا وہ اور ساتھ سب کو گھمبیر آواز میں سلام کیے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی”….
“دل بھابھی کو کمرے میں چھوڑ آؤ گی پلیز”….
دلنشین جو کونے میں بیٹھی فون یوز کر رہی تھی صائم کی بات سن حیرت سے اسکی جانب دیکھا اور پھر اس کے پاس کھڑی پلوشہ کو جب کہ اس کے بھابھی کہنے پر گھر کے تمام افراد نے اسکی جانب حیرت کی ذیاتی سے دیکھا تھا۔
شاک سی دلنشین کنفیوژن کا شکار ہوتی پلوشہ کو کمرے میں لے گئی جبکہ اب صائم گھر والوں کے سامنے کسی سنگین مجرم کی طرح بیٹھا تھا اور گھر والے کسی جیلر کی مانند اس کو گھور رہے تھے۔
“ہممم تو برخودار یہ کیا معاملہ ہے”..؟؟
آنکھیں چھوٹی کیے حاشر درانی نے سنجیدگی سے کہا تھا”…
اس معاملے کو مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں بابا جانی”…
“ایک نظر اپنی ماں کی جانب دیکھے وہ حاشر درانی سے مخاطب ہوا تھا کہ وہ گڑبڑائے تھے کیونکہ وہ اپنی کہانی انہیں پہلے ہی بتا چکا تھا اسلئے حاشر صاحب نکاح میں فون کال پر موجود تھے۔
“ک۔۔کیا مطلب حاشر آپ “..؟؟
“فیروزہ بیگم حیرانی سے گویا ہوئیں”…
“ویٹ مام میں بتاتا ہوں”…
“کہتے ہی اس نے تمام کہانی انہیں سنائی کہ کس طرح پلوشہ سے اسکی ملاقات ہوئی ،پھر ندیم کا آنا اور ایٹ دا اینڈ یہ نکاح جو اسکی خواہش تھی”…..
“تمام بات بتانے کے بعد وہ خاموش ہوا اور اپنی ماں اور تائی کی جانب دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھیں”…
“یہ بات ہمیں پہلے نہیں بتا سکتے تھے”..؟؟؟؟
“فیروزہ بیگم نروٹھے پن سے بولی تھیں کہ سب ہنس دیے “…
»»»»»»💖😁««««
کمرے میں گھپ اندھیرا کیے دلنشین ہارر مووی دیکھنے میں محو تھی اور ساتھ ہی ساتھ پاس رکھے باؤل میں سے پوپ کارن اور چپس اٹھا کر کھاتی جا رہی تھی اسکی آنکھوں کا فوکس بتا رہا تھا کہ وہ فلم میں کس قدر محو ہے لیکن کمرے میں پیدا ہوتی ہلکی سی آہٹ نے اسے متوجہ کیا لیکن وہ نظر انداز کیے واپس فلم دیکھنے میں مصروف ہو گئی”..
مشکل سے کوئی پندرہ منٹ گزرے ہونگے کہ دلنشین کو اپنے پیچھے کوئی سایہ سا محسوس ہوا جسے سوچتے ہی اس کی حالت غیر ہوئی تھی وہ تمام ہمت جمع کیے آہستہ آہستہ پیچھے مڑی تھی اسکی سانسیں حلق مین اٹکی اور خوف سے اسکی چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی جب کسی وجود کو بال کھولے اپنے پیچھے کھڑا پایا تھا لیکن وہ ہوش میں آئی تھی جیسے ہی کمرے میں کسی جانی پہچانی آواز کا قہقہہ گونجا تھا اور ساتھ ہی لائٹس اون ہوئی تھیں۔
“ہاہاہاہاہاہا”…..
“احتشام کے قہقہوں پر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں جن میں سے خوف و ڈر کے باعث آنسوں نمودار ہونا شروع ہوئے تھے
اتنی ڈرپوک ہو تو اکیلے ڈراؤنی مووی کیوں دیکھتی ہو”…؟؟؟اسکا مزاق بنائے وہ ابھی بھی ہنس رہا تھا”…
“جبکہ دلنشین ابھی بھی سن کھڑی تھی لیکن ہوش میں آتے ہی وہ غصے سے احتشام کی جانب بڑی “….
“تم جنگلی جاہل انسان تم میں تمیز ہے کہ نہیں”..؟؟؟
“کیوں اپنے رشتے داروں کا بھیس لے کر مجھے ڈرا رہے تھے اگر میں مر جاتی تو”..؟؟؟؟
“وہ پاس رکھا تکیہ اسکو مسلسل مار رہی تھی جبکہ وہ اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ کھڑے کر گیا”….
“ویسے اچھا ہوتا دنیا سے چڑیلیں تو کم ہوتیں”….
“اسکے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ وہ آنکھ ونک کیے بولا جبکہ اب دلنشین کے کانچ کا باول اٹھا لیا تھا اسکو مارنے کے لئے”..
“جبکہ وہ بھاگ چکا تھا لیکن جاتے جاتے ڈرپوک کی ہانک لگانا نہ بھولا”….
»»»»»»😂❤️«««««
پلوشہ کو ابھی کچھ دیر پہلے دلنیشن صائم کے روم میں چھوڑ کر گئی تھی وہ بڑی محویت سے پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی حویلی کی ہر چیز اپنی مثال آپ تھی جن میں ایک یہ کمرا بھی شمار ہوتا ہے سفید و گولڈن رنگ کے امتزاج سے بنا وہ کمرا کافی کھلا کھلا معلوم ہو رہا تھا ہر چیز نہایت نفاست سے رکھی گئی تھی کمرے کے وسط میں موجود بیڈ اسکے سائیڈ پر رکھے دو ٹیبل جن پر الارم کلاک اور صائم کی ہی تصویر رکھی ہوئی تھی بیڈ کے سامنے دیوار والی دیوار کے سہارے رکھا اعلیٰ ڈریسنگ ٹیبل دائیں جانب کانچ کی الماری میں ترتیب سے سجی کتابیں کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔
من من قدم بھرتی وہ بیڈ پر آئی تھی تو نظریں سامنے بالکونی کی جانب اٹھی جن کو آدھا گولڈن رنگ کے پردوں نے اپنی حفاظت میں چھپایا ہوا تھا وہ اٹھتی پردے سائیڈ پر کرتی وہیں رکھے دو صوفوں پر بیٹھ گئی ٹھنڈی ہوا کی تازگی جو بالکنی سے اندر روم میں آرہی تھی خود میں اتارتی اپنے زہن کو ٹھنڈک پہنچانے لگی۔
آج اللہ تعالیٰ نے صائم کو وسیلہ بنا کر بھیجا تھا اور اسے کسی غلط ہاتھوں میں جانے سے بچایا تھا وہ جتنا اس چیز کے لئے شکر کرتی کم تھا لیکن ایک صائم کی ذات کو کے کر اس کے ذہن میں کئی سوال گردش کرنے لگے تھے جو اسے بے چین کیے ہوئے تھے۔
»»»»»»»❤️😍«««««
دل کیا ہے جو اس زلف سے جا کر پلٹ آئے
انسان اسی کوچہ میں کھو کر نہیں ملتا”
غزل اس وقت باتھ لے کر باہر نکلی تھی اس کے کھلے گیلے لمبے بال تولیے میں مقید تھے ہلکے سنہرے رنگ کے سوٹ میں وہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی اس کی ناک میں موجود وائیٹ نوز پن ہیرے کی مانند چمک رہی تھی وہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے آئی اور موسٹرائزر لوشن اٹھا کر اپنے ہاتھوں پر لگانے لگی تھی پھر کاجل اٹھائے اپنی آنکھوں میں اسکی باریک لکیر بنائی تھی جو اس کی آنکھوں کو مزید دلکش دکھا رہی تھیں غازی جو ایکسرسائز کر کے ابھی لوٹا تھا غزل کو یوں دیکھ ٹھٹکا تھا اسکے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمایاں ہوئی وہ اس کی طرف بڑھا تھا اور اسے پیچھے سے ہگ کر کے اس نے اس کے گردن پر لب رکھے تھے غازی کے اس لمس پر غزل کے پورے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑا تھا۔
“غا۔۔۔غازی ی۔۔یہ کیا۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔ر ۔۔۔۔رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔!!! شیشے میں سے اسکے عکس کو دیکھ اس نے اٹک اٹک کر اپنی بات مکمل کی ، بلیک ویسٹ اور ٹراؤزر پہنے گلے میں سفید تولیہ لپیٹے وہ کوئی پر کشش لگ رہا تھا اسکا کسرتی جسم صاف نمایاں ہو رہا تھا جو کہ اسکی محنت کا نتیجہ تھا تبھی وہ فٹ تھا وہ جو اپنی آنکھیں بند کیے اس کی گردن پر جھکا اس کی خوشبو اپنے اندر اتار رہا تھا اس کی بات پے ہولا سا مسکرایا اور اس کے تولیے میں قید بالوں کو آزاد کیا جو کہ کسی آبشار کی مانند اسکے چہرے اور پیچھے کمر پر پھیل گئے
میدانِ جنگ میں ملی نغمے گا رہا ہوں۔
آنکھوں میں شرارت سموئے بولا کہ غزل نظریں چراتی رہ گئی تھی۔
دکھ نہیں رہا منِ جانم اپنی بیوی سے پیار کر رہا ہوں جاناں ہو میری تم غازی کی جان۔۔۔
اس کے لب الفاظ ادا کرتے ہوئے غزل کے کان کی لو کو ٹچ کر رہے تھے”….
”غازی ہٹیں نا۔۔۔۔“
اسکی بانہوں میں مچلتی وہ کسمسائی تھی وہ جو غزل کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا اسکے یوں منمنانے پر ایک سرد آ خارج بھرتا رہ گیا۔
”بہت ظالم ہو تم“۔۔۔۔
آنکھوں میں شکوہ سموئے نروٹھے پن سے کہتا وہاں سے واک آوٹ کر گیا۔
»»»»»»❤️😍«««««
آج افطاری کے بعد دل اور احتشام نے واک پر جانے کا پلین بنایا جب کہ اس میں وہ ساتھ صارم اور فریال کو بھی گھسیٹ چکے تھے جو نا نا کرنے کے باوجود بھی اب دلنشین کے بے جا اثرار پر اس کے ساتھ تھی۔
”ویسے بھائی ہم سب خوب رج کر افطاری کر چکے ہیں اس کے بعد اگر کوئی ہمیں میٹھی سی آئس کریم کھلا دے تو مزہ دوبالا ہو جائے“
ہاں تو کھا لو اگر کوئی کھلاتا ہے تو ۔۔۔
دائیں ہاتھ پاکٹ میں ڈال وہ کروفر سے چلتا کندھے اچکاتے بولا کہ دل منہ بسورے کر رہ گئی
”ارے بھائی بڑے ہی بے مروت ہیں آپ“
دلنشین کی بات سن جہاں اس نے لب دبائے اپنی مسکراہٹ دبائی وہیں فریال نے اسے گھوری سے نوازا تھا جس پر وہ دانت نکالتی رہ گئی
”بھائی وہ دیکھیں آئس کریم کارنر“
مزید آگے بڑھتے احتشام اور دلنیشن دونوں نے بیک وقت اس کی توجہ آئسکریم کارنر کی جانب مبذول کروائی
”ہاں تو۔۔۔“
شانِ بے نیازی سے کندھے اچکا گیا تھا
کھلا دیں ۔۔۔۔۔!!! غریبوں کی دعائیں ملیں گی اچھا موقع ہے ویسے بھی آج جمعرات ہے
یہ کہنے والا احتشام تھا جب کہ دل نے اسے گھور کر دیکھا
چلغوزے کہیں کے تم اپنی بکتیسی بند رکھو اگر سلامتی چاہتے ہو تو۔۔۔۔۔
کیا یار ایک تو تمہاری سائیڈ لے رہا ہوں اور تم ہو کے الٹا مجھے ہی کہو ۔۔۔۔
آنکھیں ترچھی کرتا وہ کڑتے ہوئے بولا
کیا تم لوگ لڑنے کے لئے آئے ہو۔۔۔۔؟؟؟
فریال نے پہلی بار اس ساری بات میں حصہ لیا صارم نے اپنی بھوری آنکھیں اٹھائے اس ماہ جبین کو دیکھا جو اپنی عادت کے مطابق دھیمے انداز میں ہی کہہ رہی تھی۔
بھابھی۔۔۔!!
دل نے معصومانہ منہ بنائے دیکھا تھا کہ فریال کو اس کے چہرے کو دیکھ ہنسی آئی۔
”کھلا دو صارم“۔۔۔
فریال نے کہا تو صارم ان دونوں نمونوں کو دیکھتے جیب سے پیسے نکالتے ان کی جانب بڑھائے جو دانت نکالتے ہنس رہے تھے۔
”یاہووو“۔۔۔۔ دل نے خوشی سے نارہ لگایا کہ وہ نفی سے سر ہلاتا رہ گیا ، احتشام اور دلنشین اندر آئس کریم لینے چل دیے جب کہ فریال اور صارم وہیں سائیڈ پر درخت کے نیچے ٹیک لگائے ان کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔
»»»»»»»❤️🤗««««««
پلوشہ صوفے سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی کہ کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور وہ شہزادہ اپنی شان کے ساتھ چلتا اندر داخل ہوا ایک عجب سے کلون کی خوشبو تھی جو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور ساتھ کھانے کی دلفریب سی خوشبو جس سے اس کی آنکھیں چمکی اس نے فٹ سے آنکھیں کھولیں تو صائم ہاتھ میں ٹرے پکڑے اسے ہی مسکراتے دیکھ رہا تھا کہ وہ نروس سی ہوئی۔
پلوشہ نے اپنی کرسٹل آنکھیں اٹھائے اس کی جانب دیکھا جو مقابل لڑکی کی آنکھوں میں پنپتے سوال کو محسوس کیے مسکرایا
آپ نے افطاری ٹھیک سے نہیں کی تھی تو سوچا آپ کیلئے لے کر جایا جائے۔
نہیں ایسا تو نہیں ہے۔۔۔۔
نظریں چراتے کہا گیا
بس کر دیں جانتا ہوں سب ، صاف ظاہر ہو رہا تھا جھجھک اور کنفیوژن محسوس کر رہی تھیں آپ اس وقت ۔۔۔۔
آنکھیں چھوٹی کرتے وہ مسکراتے ہوئے بولا جب کہ اپنی چوری پکڑنے جانے پر وہ شرمندہ سی ہوئی۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے دراصل مجھے اتنی بھوک نہیں لگی تھی۔
انگلیاں مروڑتے بہانا گھڑا گیا۔۔۔۔
انہاں ، اتنے گھنٹے کے روزے کے بعد بھوک نہ ہو نا ممکن سی بات ہے۔۔۔
ابرو اچکاتے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا ساتھ ہی باتوں باتوں میں اس نے روٹی توڑ کباب کے ساتھ نوالہ بنائے اس کے لبوں کے سامنے کیا جسے کچھ جھجھک اور شرم سے گھبراتی کھا گئی ۔۔۔۔
یہ سب گھر والے آپ کے اپنے ہیں ، آپ ان کو یوں سمجھیں جیسے خون کے رشتے بس تھوڑی اپنائیت اور عزت کی ضرورت ہے آپ تھوڑی محبت میں پہل کریں سب ان شاءاللہ جلد آپ کے ساتھ گھل مل جائیں گے لیکن پہلا قدم آپ کو خود بڑھانا ہو گا۔۔۔۔۔
”یہ گھر اور یہاں کے بستے افراد پر آپ کا حق ہے اور جن پر حق رکھا جائے ان سے جھجھک محسوس نہیں کی جاتی بلکہ حق جتایا جاتا ہے“۔۔۔۔
نرمی سے اس کے ماتھے پر لب رکھتے اس کو اپنائیت کا احساس دلاتے اٹھ کر بالکونی میں چل دیا تا کہ وہ پر سکون ہو کر کھانا کھا سکے جب کہ پلوشہ اس کے انداز پر کافی بہتر محسوس کر رہی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial