قسط: 10
ہم ان کی بستی میں
پانچوں انگلیاں گھی میں
ان سے شادی کرنی ہے
ہم ہیں جن کی شادی میں
##################################
دل روز کی اج بارات تھی اور غزان کے لیے یہ بارات اس کے دل اور اس کی محبت کے جنازے کی اہمیت رکھتی تھی لیکن اج وہ اپنا ضبط ازمانا چاہتا تھا – اخر غلطی تو اسی کی تھی نا کیونکہ پہلے دل روز کا دل اسی نے توڑا تھا –
تو اب پھر اپنے دل کی تکلیف پر شکایت کیسی ؟؟ بارات کا فنکشن مری کے بہت بڑے میرج ہال میں ہونے والا تھا اور ابھی تھوڑی دیر تک سب لوگ میرج ہال کے لیے نکلنے ہی والے تھے – غزان نے شیشے میں تیار ہو کر اپنا عکس دیکھا تو خود پر ہی تکلیف سے ہنس پڑا – تو پھر غزان ملک اج اپنی محبت کو کسی اور کے ساتھ رخصت ہوتا دیکھیے گا –
اگر یہی سزا تھی میری تو اس سے بہتر مجھے موت ہی ا جاتی کیونکہ جیتے جی مرنے سے بہتر موت کی نیند ہی سو جانا ہے – وہ شیشے میں نظر اتے اپنے عکس سے مخاطب تھا جبکہ اس کا عکس بھی اس کو افسوس اور ترس بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا –
دیکھا جو برسوں بعد ائینہ پہچان نہ پایا خود کو
انکھوں میں انسو لے کر میرا عکس بھی دیکھ رہا تھا مجھ کو
افسوس کرتا اپنی حالت پر میں یہ سمجھ نہ پایا
خود ہی ہوں قصور وار یا دوشی ٹھہراؤں تجھ کو
( ازخود )
از قلم : مانیہ خان
انکھوں میں ائی ہلکی سی نمی کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے غزان نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا اپنا فون اور وائیلٹ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گیا – وہ ابھی ہال نہیں جا رہا تھا کیونکہ اسے اپنے ارمی آفس کچھ کام تھا –
##################################
اس وقت سب لوگ میرج ہال میں موجود تھے جبکہ دلہن بنی دل روز برائیڈل روم میں بیٹھی تھی – مسرت بیگم کا تو حال خود غزان والا تھا ان کا کسی بھی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا اور یہ سوچ سوچ کر ان کا بھی دل دہل رہا تھا کہ دل روز تھوڑی دیر بعد حماد کے نام ہو جائے گی اور ان کا بیٹا جس نے کل رات ہی ان کے اصرار کرنے پر اپنے دل کی حالت انہیں بتائی تھی وہ خالی ہاتھ رہ جائے گا –
ان کا دل کر رہا تھا وہ دل روز کے پاس جائیں اور اس کے سامنے گڑگڑائیں کہ خدارا وہ ان کے بیٹے کے ساتھ اتنا بڑا ظلم مت کرے – ہاں وہ جانتی تھیں غزان نے غلط کیا تھا لیکن اس کی اتنی بڑی سزا تو نہیں بنتی تھی –
وہ فل سے بات کر بھی لیتیں لیکن غزان نے کل رات ان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ دل روز سے کسی قسم کی بات نہیں کریں گی – خود میں ہمت جمع کرتیں وہ برائیڈل روم میں ائیں –
ان کے لیے بھی مشکل تھا دل روز کو کسی دوسرے کے نام کی دلہن بنے بیٹھا دیکھ کر لیکن وہ غزان کے ساتھ ساتھ دل روز کی بھی تو ماں تھیں اس لیے ابھی وہ غزان کی ماں نہیں بلکہ دل روز کی ماں بن کر اس کے کمرے میں گئی تھیں –
برائیڈل روم میں داخل ہوتے ہی انہیں دل روز وہاں رکھے صوفے پر بیٹھی نظر ائی جو نہ جانے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں کیا دیکھ رہی تھی –
دل روز !
مسرت بیگم نے اسے پیار سے پکارا تو اس نے اپنی اداس نظریں ہاتھوں کی لکیروں سے ہٹا کر مسرت بیگم کی جانب اٹھائی تھیں اور انہیں دیکھ کر مسکرائی تھی مگر مسرت بیگم جانتی تھی کہ اس کی مسکراہٹ بناوٹی تھی –
دلہن کے روپ میں تیار ہو کر بیٹھی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی – اتنی حسین کہ کوئی شاعر اس کی خوبصورتی اپنی شاعری میں بھی بیان نہ کر پاتا اور کوئی مصور اس کا عکس تیار نہ کر پاتا لیکن اس کے اس حسین چہرے پر ایک اداسی تھی –
کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے بلکہ اس کے چہرے کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی نئی زندگی شروع کرنے نہیں جا رہی بلکہ اپنی زندگی کو ختم کرنے جا رہی ہے –
کیا بات ہے دل روز اتنی اداس کیوں بیٹھی ہو ؟؟ اج تو تمہاری شادی ہے نا اور وہ بھی تمہاری پسند سے تو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے – مسرت بیگم اس کے پاس جا کر صوفے پر بیٹھتیں اس کی گال پر ہاتھ رکھتے پوچھنے لگیں جب کہ دل روز ان کےسوال پر اگے ہو کر ان کے گلے لگی تھی اور اس کہ یوں اگے ہونے پر برائڈل روم میں اس کے ہاتھوں میں پہنی کانچ کی چوریوں کی چھنچھناہٹ گونجی تھی –
مجھے امی کی بہت زیادہ ارہی ہے – دل روز نے بھاری لہجے میں کہا تو مسرت بیگم نے اس کی کمر پر تھپکی دیتے اسے دلاسہ دیا تھا – میں بھی تو تمہاری امی ہی ہو نا میری جان اور اگر تم ایسے اداس ہوگی تو تمہاری ماں کو برا لگے گا نا تمہارے اداس ہونے سے وہ بھی اداس ہوگی تو ایسے اداس نہیں ہوتے –
مسرت بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو دل روز سیدھی ہو بیٹھی اور اپنے انسو صاف کرنے لگی – اب نہیں رونا میرا پیارا بچہ – مسرت بیگم اس کے ماتھے پر پیار کرتی بولیں تو دل روز نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا – اچھا مجھے یہ بتاؤ تم خوش ہو اس شادی سے ؟؟
مسرت بیگم زیادہ دیر خود کو روک نہ سکیں اسی لیے انہوں نے نے دل روز سے پوچھ ہی لیا تھا جب کہ ان کے سوال پر دل روز کی انکھیں پھر سے نم ہوئیں تھیں – اس کا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ دل روز بتا دو کہ تم خوش نہیں ہو اس سے پہلے وہ مسرت بیگم کو جواب دیتی برائڈر روم کا دروازہ کھلا تھا اور صبا اندر ائی تھی –
تائی امی اپ کو امی بلا رہی ہیں وہ بابا لوگوں کے کچھ دوستوں کی فیملی ائی ہے تو ان سے ملنا ہے – صبا نے اتے ہی مسرت بیگم کو ہاجرہ بیگم کا پیغام دیا تو مسرت بیگم اٹھ کھڑی ہوئیں –
اچھا دل روز میں ذرا جا کر باہر مہمانوں کو دیکھ لوں – وہ دل روز کے گال تھپتھپاتیں صبا کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئیں جبکہ پیچھے دل روز نے اپنی اداس انکھیں واپس سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹکا لی تھی –
#####@############################
بارات کا ٹائم رات نو بجے کا تھا لیکن اب 10 بجنے والے تھے اور ابھی تک بارات نہیں ائی تھی – سب لوگ ہی کافی پریشان تھے ابھی تک بارات کے نہ انے پر – حماد سمیت اس کے سب گھر والوں کے موبائل فون بھی سوئچ اف ا رہے تھے –
غزان ابھی تک میرج ہال نہیں پہنچا تھا کیونکہ وہ میرج ہال سے پہلے اپنے ارمی افس گیا تھا کچھ کام کے سلسلے میں مگر وہاں پر اسے کافی دیر لگ گئی تھی اور وہ ابھی تک نہیں پہنچ پایا تھا – مسرت بیگم بھی اسے کال کر کے بار بار انے کا کہہ رہی تھیں اس لیے وہ اپنا باقی کام پینڈنگ پہ رکھتا جلدی سے میرج ہال کے لیے نکلا تھا – وہ کبھی بھی نہ جاتا میرج ہال اب تو اس کے پاس بہانہ بھی تھا لیکن وہ دل روز کو دلہن بنی دیکھنا چاہتا تھا –
ہائے کمبخت یہ عشق اچھے سے اچھے انسان کو بھی کسی کام کا نہیں چھوڈتا – ادھر دوسری طرف دانیال کا تو غصے سے برا حال تھا برات کے ابھی تک نہ انے کی وجہ سے اس لیے وہ فورا اپنی گاڑی میں بیٹھتا حماد کے گھر کی طرف روانہ ہو چکا تھا – دانیال کو گئے ابھی 15 منٹ ہی گزرے تھے کہ ایوب ملک کے موبائل پر ان کے دوست یعنی حماد کے والد کی کال انے لگی –
حماد کے والد کی کال دیکھتے ہی ایوب ملک نے بنا دیر کیے ان کی کال پک کی تھی – کہاں پر ہو یار ابھی تک پہنچے نہیں بارات لے کر ؟؟ 10 بج رہے ہیں لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں کب تک پہنچ رہے ہو تم لوگ بارات لے کر ؟؟ ایوب ملک نے کال اٹھاتے ہی بولنا شروع کیا جبکہ ان کی بات ختم ہوتے ہی ان کے دوست نے ان کا نام اہستہ اواز میں پکارا تھا –
ان کی اواز ایسے نکل رہی تھی جیسے کوئی بہت ہی زیادہ شرمندہ ہو – ایوب مجھے معاف کرنا میں بہت ہی زیادہ شرمندہ ہوں مگر ہم لوگ بارات نہیں لا سکتے – حماد کے والد کی بات سن کر ایوب ملک تو سکتے میں ہی اگئے تھے –
کیا مطلب کیوں نہیں لا سکتے تم لوگ بارات؟ ایوب ملک نے حیرانگی اور پریشانی سے ملی جلی کیفیت سے پوچھا – حماد پاکستان چھوڑ کر چلا گیا ہے کل رات کا –
حماد کے والد نے وجہ بتائی تو ایوب ملک اور زیادہ حیران ہوئے – ایسے کیسے ملک چھوڑ کر چلا گیا ہے کل رات تو وہ یہیں تھا نا مہندی کا فنکشن اٹینڈ کیا تھا اس نے اور وہ تو اس شادی سے راضی تھا بلکہ اس کی اپنی مرضی سے شادی ہو رہی تھی پھر اس نے ایسا کیوں کیا ؟؟
ایوب ملک کا تو ایسے جیسے دل ہی بند ہو رہا تھا جبکہ ان کے پاس کھڑے فریاد ملک بھی کافی پریشان ہو گئے تھے ان کی باتیں سن کر – میں نہیں جانتا کہ اخر کیا وجہ بنی کہ وہ راتوں رات ملک چھوڑ کر چلا گیا –
مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ اج صبح سے میں نے جب اسے گھر نہیں دیکھا تو اخر دوپہر کے وقت میں نے اسے کال کر کے اس کا پتہ کرنا چاہا تو اس کا موبائل نمبر بند تھا میں قسم کھا کر کہتا ہوں ایوب میں نے نہ جانے کہاں کہاں نہیں اس کا پتہ کیا اس کے ہر دوست کو فون کیا جس کے پاس وہ جا سکتا تھا بلکہ بہت سی جگہ میں خود جا کر پتہ کر کے ایا لیکن مجھے حماد کا کوئی پتہ نہیں چلا مجھے فکر ہو رہی تھی کہ اخر میں تمہیں کیسے بتاؤں گا کہ حماد نہ جانے کہاں چلا گیا ہے –
میرے میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ میں ایک باپ کو فون کر کے اسے بتا سکتا کہ معاف کرنا تمہاری بیٹی کی بارات نہیں ائے گی میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کہیں سے مجھے حماد کا پتہ چل جائے لیکن میں ناکام رہا اور ابھی ایک گھنٹے پہلے حماد کا مجھے فون ایا اور اس نے مجھے کہا کہ میں تمہیں کال کر کے بتا دوں کہ حماد معافی مانگتا ہے تم سے لیکن وہ بارات لے کر نہیں ائے گا کیونکہ وہ دل روز سے شادی نہیں کر سکتا – بہت مشکل سےمیں نےتمہیں کال کی ہے –
حماد کے والد نے ایوب ملک کو سارا قصہ سنایا جبکہ ان کی اواز خود شرمندگی اور فکر مندی کے سبب کامپ رہی تھی اور ایوب ملک کو تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کا دل بند ہو رہا ہو اور ان کی جان نکل رہی ہو – ان کی طبیعت خراب ہوتی دیکھ فریاد ملک نے جلدی سے پاس پڑی کرسی اور انہیں بٹھایا تھا – کیا بات ہے ایوب کیوں نہیں لے کر ا رہے اب وہ بارات اور حماد کہاں گیا ہے ؟؟
فریاد ملک کو ایوب ملک کی باتوں سے جہاں تک سمجھ ایا انہوں نے ان سے پوچھا جب کہ ایوب ملک تو سر ہاتھوں میں گراتے رونے لگ گئے تھے – وہ لوگ بارات نہیں لا رہے بھائی حماد ملک چھوڑ کر جا چکا ہے اور اس کا کہنا ہے وہ دل روز سے شادی نہیں کرے گا – نہ جانے ایک ہی رات میں کیا ہوا اور اس نے شادی سے انکار کر دیا مجھے سمجھ نہیں ارہی میں اپنی بیٹی کو کس منہ سے یہ بات بتاؤں گا –
میری بیٹی کی تو زندگی برباد ہو گئی بھائی میں کیا کروں میرا دل کر رہا ہے میں خود کو ختم کر لوں کم سے کم اپنی بیٹی کی انکھوں میں انسو تو نہیں دیکھنے پڑیں گے – ایوب ملک تو باقاعدہ رو پڑے تھے – اس وقت ہر باپ کی یہی حالت ہوتی ہے – خدا کسی دشمن پر بھی ایسا وقت نہ لائے کہ اس کی بیٹی دلہن بنی بیٹھی ہو اور اس کی بارات نہ ائے – ایسے کیسے کر سکتے ہیں وہ لوگ اگر ایسی بات تھی تو انہیں ہمیں صبح ہی بتانا چاہیے تھا یہ کوئی وقت ہے ؟؟
جب سارے رشتے دار سب لوگ جمع ہیں اور اب ہمیں وہ فون کر کے بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ بارات نہیں لا سکتے بیٹا تو ان کا صبح سے غائب تھا نا تو ہمیں صبح ہی بتاتے کم سے کم ہماری بیٹی کی بدنامی اتنی زیادہ تو نہ ہوتی – فریاد ملک کو تو بے حد غصہ ایا تھا حماد اور اس کے فیملی پر اخر یہ کہاں کی تک بنتی تھی کہ وہ اب بتا رہے تھے کہ ہم بارات نہیں لا رہے – وہ صبح بتاتے یا جب بھی بتاتے لیکن بات تو وہی ہے نا بھائی میری بیٹی کی بارات نہیں ارہی وہ بھی اس کے عین شادی والے دن –
ایوب ملک بے بسی سے بولے تو فریاد ملک نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور تب ہی اصف ملک بھی وہاں پہنچے تھے جو دور سے ہی ان دونوں کے چہروں پر پریشانی دیکھ چکے تھے – کیا بات ہے اپ دونوں اتنے پریشان کیوں ہیں اور ایوب تم کیوں رو رہے ہو ؟؟ انہوں نے ان دونوں سے پریشانی سے پوچھا جس پر فریاد ملک نے انہیں ساری بات بتائی تو اصف ملک بھی سر پکڑ کر رہ گئے تھے –
انہیں کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا کہ اخر وہ کیا کریں تھوڑی دیر تاکہ یہ بات سب لوگوں میں پھیل گئی تھی کہ دل روز کی بارات نہیں ا رہی – کچھ لوگوں کے چہرے پر پریشانی اور افسوس تھا جبکہ کچھ لوگ تو اپنی طرف سے ہی باتیں بنانے میں اور لڑکی کے کردار میں ہی نقص نکالنے میں مصروف ہو گئے تھے –
ایسے حالات میں تو ہاجرہ بیگم اور صبا بھی پریشان ہو گئی تھی جبکہ مسرت بیگم بھی کافی پریشان تھیں – ایک حل ہے میرے پاس مسرت بیگم اچانک بولی تو سب نے ان کی طرف دیکھا جبکہ ہاجرہ اور صبا کے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجھی تھیں – کیا حل ہے بھابھی ؟؟ آصف ملک نے پوچھا –
ایوب بھائی میں اپ سے ابھی اور اسی وقت دل روز کا ہاتھ اپنے بیٹے غزان کے لیے مانگتی ہوں اگر اپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو – مسرت بیگم کے الفاظوں پر وہاں کھڑا ہر شخص حیران ہوا تھا جبکہ صبا نے فورا اپنی ماں کو دیکھا تھا جو خود بہت پریشان ہو گئی تھیں –
مگر بھابھی غزان تو دل روز سے 12 سال بڑا ہے اور اگر میں ہاں کر بھی دوں تو کیا غزان مانے گا اور کیا دل روز مانے گی اس شادی کے لیے ؟؟ ایوب ملک نے مسرت بیگم سے کہا تو ہاجرہ بیگم نے جلدی سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی تھی –
تو کیا ہوا اگر وہ 12 سال بڑا ہے اپ بھول گئے کہ میں بھی اپ کے بھائی سے 12 نہیں بلکہ 13 سال چھوٹی تھی اور غزان کیوں نہیں مانے گا وہ فوراً مان جائے گا اور اپ کو سچ بتاؤں تو میری شروع سے خواہش تھی دل روز کو اپنی بہو بنانے کی مگر میں بھی یہی سوچ کر چپ ہو گئی کہ غزان اور دل روز نہیں مانیں گے مگر مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ دونوں تو پہلے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے لیکن غزان کی ہی ایک غلطی کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہو گئے –
مسرت بیگم کی بات پر سب نے حیران ہوتے انہیں دیکھا – کیا مطلب وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور غزان کی غلطی کی وجہ سے دور ہو گئے پوری بات بتاؤ ہمیں – فریاد ملک نے مسرت بیگم سے کہا تو مسرت بیگم نے انہیں وہ ساری بات بتا دی جو غزان نے انہیں بتائی تھی – جسے سن کر سب لوگ ہی شوقڈ ہو گئے تھے – صبا اور ہاجرہ بیگم کی حالت تو بہت ہی زیادہ بری تھی –
غزان کو اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن اب دل روز اسے معاف نہیں کر رہی لیکن وہ اب بھی غزان سے محبت کرتی ہے – اپ سب نے دیکھا نہیں اس کے چہرے پر وہ خوشی وہ رونق ہے ہی نہیں جو لڑکیوں کے چہرے پر ہوتی ہے شادی کے وقت خاص طور پر پسند کی شادی کے وقت – مسرت بیگم کی بات پر سب ہی سوچ میں پڑ گئے تھے جبکہ صبا اپنی ماں کو اشارے کر رہی تھی کہ وہ کچھ کہے اور روکیں ان سب کو –
اگر غزان نے دل روز کا دل توڑا ہے تو دل روز کبھی بھی اس سے شادی نہیں کرے گی اور صحیح بات بھی یہی ہے کرنی بھی نہیں چاہیے دل روز کی غزان سے شادی – فائدہ کیا جب بعد میں اسے اپنی محبت کا احساس ہوا پہلے تو اس نے بچی کا دل توڑ دیا نا – ہاجرہ بیگم جلدی سے بولیں تو اصف ملک نے انہیں گھور کر دیکھا تھا –
بات تو اپ کی صحیح ہے بھابھی لیکن غزان نے دل روز سے محبت بھی تو کتنی کی ہے ہم سبھی جانتے ہیں اس نے دل روز کو کس قدر لاڈ اور پیار سے رکھا ہے ساری زندگی اور اگر اس نے دل روز کو منع کیا بھی تو یقینا تب اس نے کچھ سوچ کر ہی دل روز کے ساتھ اپنا رویہ سخت رکھا ہوگا ورنہ غزان تو دل روز کو اونچی اواز میں پکارتا بھی نہیں ڈانٹنا تو بہت دور کی بات اور مجھے بے حد خوشی ہوگی اگر میری بیٹی ایک ایسے شخص کی بیوی بنے جو اسے سر انکھوں پر بٹھا کر رکھے –
ایوب ملک کی بات پر جہاں فریاد اصف اور مسرت بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی وہیں صبا اور ہاجرہ بیگم اپنا ڈر صحیح ہوتا نظر ایا – مگر دل روز نہیں مانے گی – ہاجرہ بیگم نے پھر سے کہا تو ایوب ملک مسکرا پڑے – میں ہوں نا بھابھی میں منا لوں گا اپنی بیٹی کو اور مجھے یقین ہے میری بیٹی مان بھی جائے گی – ایوب ملک ان سے کہتے وہاں سے چلے گئے تھے کیونکہ اب وہ دل روز کے پاس جا رہے تھے اسے غزان سے شادی کے لیے منانے کے لیے جبکہ مسرت بیگم بھی جلدی سے غزان کو فون کرنے لگی تاکہ وہ جلدی پہنچے –