دل جان

maya khan

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

تین سال بعد
جان جلدی کریں ہم تیار ہیں دیر ہو رہی ہے کالج کے لیے ہمیں – دل روز کالج یونیفارم میں تیار اپنے لمبے بالوں کی تیل پونی کیے غزان کے کمرے میں اتی بولی جبکہ ہاتھ میں پکڑا بیک اس نے اس کے بیڈ پر پھینکنے کے انداز میں رکھا تھا – بس ہو گیا میں تیار دل –
غزان نے اپنے ارمی یونیفارم کی کیپ سر پر لیتے اس سے کہا – ہائے غزان اب کتنے پیارے لگتے ہو نا ارمی کی یونیفارم میں – دل روز اس کو دیکھتے ہوئے بولی تو غزان ہنس پڑا – میری دل کون سا کم لگتی ہے اپنے کالج یونیفارم میں –
بالکل فیری لگتی ہے وہ بھی – غزان اس کی ناک دباتا بولا تو دل روز نے اپنے منہ کے زاویے بگاڑے تھے – خاک اچھی لگتی ہوں ہمیں تو بالکل نہیں اچھی لگتی یہ یونیفارم – دل روز نے اپنی یونی فارم کو دیکھتے کہا جب کہ اس کے انداز پر غزان نے قہقہ لگایا تھا –
وہ اچھے سے جانتا تھا کہ دل روز کو کتنی جلدی تھی یونیورسٹی جانے کی تاکہ اس کی یونیفارم سے جان چھوٹے – یہ اس کا لاسٹ ایئر تھا کالج میں پھر نیکسٹ وہ یونیورسٹی ہی جانے والی تھی – ویسے اپ کو یاد ہے غزان ہماری سالگرہ میں صرف دو دن رہ گئے ہیں –
دل روز نے اسے اپنی سالگرہ کے بارے میں پوچھا ویسے تو وہ جانتی تھی کہ غزان کبھی بھی اس کی سالگرہ نہیں بھولتا لیکن پھر بھی اس نے بات ہی بات اسے یاد کروایا تھا – جی میرا دل مجھے یاد ہے –
بھلا میں اپنے دل کی سالگرہ بھول سکتا ہوں ؟؟ غزان اس کا چہرہ تھپتھپاتا بولا تو دل روز کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ پھیلی تھی – تحفہ اس بار ہم اپنی مرضی کا لیں گے – دل روز نے تحفے کا کہا تو غزان ہنس پڑا –
پہلے کب میں اپنی مرضی سے دیتا ہوں اپ کی مرضی کا ہی تو دیتا ہوں – غزان نے اسے کہتے بیڈ پر پڑا اس کا بیگ اٹھایا تھا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے – ہاں لیکن اس بار کا تحفہ تھوڑا مختلف ہے لیکن اپ کو دینا پڑے گا –
دل روز نے اس کے پیچھے پیچھے چلتے کہا – ٹھیک ہے بابا جو مانگو گی دوں گا پہلے کب انکار کیا ہے میں نے – غزان نے مسکراتے ہوئے کہا تو دل روز خوشی سے بھاگتے ہوئے اس کے ہم قدم ہوئی تھی – اب یہ تو وہی جانتی تھی کہ اس نے اپنی سالگرہ پر کیا مانگنا تھا جو وہ اس قدر خوش تھی –
##################################
عزان کو رات چائے پینے کی عادت تھی – دل روز نے صرف اس کے لیے چائے بنانی سیکھی تھی اور روز رات کو وہ ایک کپ اس کے لیے اور ایک کپ اپنے لیے چائے بنا کر اس کے کمرے میں لے جاتی اور پھر سارے دن کی اپنی روٹین اس کے ساتھ شیئر کرتی-
اس کی گھر میں کسی کے ساتھ زیادہ اٹیچمنٹ نہیں تھی حتی کہ اپنے بابا سے بھی نہیں تھی جس قدر اس کی اٹیچمنٹ عزان سے تھی – پیار تو اسے سب ہی کرتے تھے لیکن غزان کے پیار کا ایک الگ ہی لیول تھا اسی لیے وہ زیادہ اسی کے ساتھ اٹیچ تھی – اج بھی وہ اس کے لیے چائے بنا کر کپ میں ڈالتی کچن سے نکلی ہی تھی کہ دانیال کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ اس کا چہرہ ایسے ہوا جیسے اس نے کوئی کڑوا بادام کھا لیا ہو –
ارے واہ اج تو گھر داخل ہوتے ہی خوبصورت لوگوں کے چہروں کا دیدار ہو رہا ہے – دانیال نے اسے دیکھتے کہاں تو دل روز نے بنا اس کی بات کا جواب دیے اپنے قدم غزان کے کمرے کی جانب بڑھائے تھے –
غزان کا کمرہ نیچے والے پورشن میں ہی تھا اس نے شروع سے ہی اپنا کمرہ نیچے والے پورشن میں رکھا تھا کیونکہ دل روز ہر وقت اس کے کمرے میں ہی پائی جاتی تھی اس لیے عزان کا کہنا تھا کہ دل روز کے سیڑھیوں سے گرنے کا ڈر ہے اسے اسی لیے وہ اپنا کمرہ اوپر والے پورشن میں نہیں رکھے گا – کبھی ہم سے بھی بات کر لیا کرو ہم بھی تمہارے کچھ لگتے ہیں – دل روز کے خود کو اگنور کر کے جانے پر دانیال بھاگ کر اس کے سامنے اتا بولا – دانیال بھائی اپ کو کوئی اور کام نہیں ہے ؟؟
جب پتہ ہے کہ ایک انسان اپ سے بات نہیں کرنا چاہتا تو کیوں زور زبردستی خود سے بات کرنے پر اس سے مجبور کرتے ہو ؟؟ دل روز نے اس کے راستہ روکنے پر سخت انداز میں بولی – ارے بھائی مت کہا کرو نا مجھے –
کتنی بار منع کیا ہے کہ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں – غزان کو بھی تو تم بھائی نہیں کہتی تو مجھے کیوں ؟؟ دانیال نے اس کے بھائی کہنے پر برے برے منہ بناتے کہا – غزان کو ہم جو مرضی کہیں کسی کو اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیے اور اپ کو ہم بھائی ہی کہیں گے کیونکہ اور کسی قسم کا رشتہ آپ سے بنانے میں ہم انٹرسٹڈ نہیں ہیں –
وہ اسے کہتی سائیڈ سے ہو کر گزر گئی جبکہ دانیال نے اسے غزان کے کمرے میں جاتے دیکھ غصے سے اپنی مٹھیاں میچی تھیں – یہ نہیں تھا کہ اسے کوئی شدید قسم کی محبت تھی اس سے –
وہ تو بس اس کی خوبصورتی کا اسیر تھا – وہ ان مردوں میں سے تھا جنہیں خوبصورتی چند دنوں کے لیے اٹریکٹ کرتی ہے اور انہیں صرف عورت کی خوبصورتی سے ہی مطلب ہوتا ہے –
دل روز کی بھی خوبصورتی ہی تھی جو دانیال کو اس کی طرف اٹریکٹ کرتی تھی لیکن دل روز بالکل بھی دانیال کو منہ نہیں لگاتی تھی اور یہی بات دن بدن دل روز کو دانیال کی ضد بناتی جا رہی تھی –
##################################
دل روز اپنے کمرے میں لیٹی موبائل یوز کر رہی تھی کہ تبھی اس کی نظر ٹائم پر گئی جو رات کے 59 : 11 بجا رہے تھے – ٹائم دیکھتے ہی دل روز نے جلدی سے اپنا موبائل بند کر کے تکیے کے نیچے رکھا اور خود بیڈ پر چونکری مار کر بیٹھ گئی تھی –
کیونکہ وہ جانتی تھی اگلے ایک منٹ بعد اس کے کمرے کا دروازہ کھلنے والا ہے اور بالکل وہی ہوا تھا پورے 12 بجے اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور غزان ہاتھ میں کیک لیے داخل ہوا – ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی بڑھ ڈے ڈئیر دل روز ہیپی برتھ ڈے ٹو یو –
غزان برتھ ڈے سونگ گاتا اس کے پاس پہنچا تھا جب کہ دل روز کے چہرے سے مسکراہٹ جدا ہی نہیں ہو رہی تھی – او میرا بچہ میری گڑیا 18 سال کی ہو گئی ہے مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا – عزان اس کے پاس کیک رکھتا اس کے سر پر بوسہ دیتا بولا – بس دیکھ لیں اب میں نے بڑی بھی تو ہونا ہے نا کہ وہی چھوٹی دل روز رہنا ہے –
دل روز نے انکھیں ٹپ ٹپاتے کہا تو عزان ہس پڑا – تم جتنی مرضی بڑی ہو جاؤ میرے لیے بچی ہی رہو گی – خیر چلو اب جلدی سے کیک کاٹو – غزان کے کہنے پر دل روز نے اس کے ہاتھ سے چھری پکڑ کے کیک کاٹا تھا اور پھر تھوڑا سا پیس اٹھا کر غزان کو کھلایا تھا –
اچھامیرا بچہ ابھی سو جاؤ کل صبح مجھے بتانا کہ تمہیں کیا گفٹ چاہیے – غزان اسے کیک کھلاتا بولا تو وہ اچھے بچوں کی طرح سر ہلاتی واپس لیٹ گئی تھی جبکہ غزان اس کے پاس سے کیک اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا –
##################################
اج اتوار تھا اس لیے دل روز کو چھٹی تھی جبکہ غزان نے خود چھٹی کی تھی دل روز کی برتھ ڈے پارٹی سیلیبریٹ کرنے کے لیے – دل تو بہت ہی زیادہ خوش تھی کیونکہ اس بار غزان نے اور بھی زیادہ اچھے سے اس کی برتھ ڈے پارٹی اورگنائز کی تھی –
وہ سب گھر والے ہی صرف شامل ہوتے تھے پارٹی میں لیکن پھر بھی غزان بہت اچھے سے گھر ڈیکوریٹ کرواتا کیونکہ اس کی دل کو پسند تھا اپنی برتھ ڈے پارٹی پر گھر سجا ہوا – ابھی دل روز کیک کاٹنے ہی لگی تھی کہ اسے اپنے سے سینیئر ارمی افیسر کی کال ائی جبکہ وہ دل روز کو دو منٹ رکنے کا اشارہ کرتے سائیڈ پر جا کر کال سننے لگا –
ارمی افیسر کی بات سن وہ پریشان ہو گیا تھا کیونکہ ان کے مطابق اس کی پوسٹنگ ہو رہی تھی کوئٹہ میں – اسے ارمی جوائن کیے چھ سال ہو گئے تھے اور ان چھ سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اس کی کسی دوسرے جگہ پر پوسٹنگ ہو رہی تھی ورنہ وہ تو ہمیشہ یہیں مری میں ہی اپنی ڈیوٹی دیتا تھا –
اسے یہ پریشانی نہیں تھی کہ اس کی پوسٹنگ دور ہو رہی ہے بلکہ اسے یہ پریشانی تھی کہ دل روز کس طرح سے ری ایکٹ کرے گی – جان آ بھی جائے نا کیک کٹ کرنا ہے – وہ اپنی ہی سوچوں میں تھا کہ دل روز کی اواز پر چہرے پر مسکراہٹ لاتا اس کے پاس پہنچا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا دل روز اس کے بغیر کیک بالکل بھی نہیں کٹ کرے گی –
##################################
جان ہم نے اپ سے کہا تھا نا کہ ہمیں اپ سے اپنی پسند کا تحفہ چاہیے اور اپ نے کہا تھا ہم جو مانگیں گے اپ دیں گے – رات جب دل روز اس کے لیے اور اپنے لیے چائے بنا کر اس کے کمرے میں گئی تو اس سے بولی جس پر غزان نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہاں میں سر ہلایا تھا – جی بالکل میں نے کہا تھا مانگو کیا مانگنا ہے –
غزان نے چائے کا کپ واپس ٹرے میں رکھتے کہا – اپ کو یاد ہے میں نے اپ سے تین سال پہلے کہا تھا کہ جب اٹھاراں کی ہو جاوں گی تو میں اپ سے شادی کروں گی – دل روز نے تین سال پہلے کی بات یاد دلائی تو غزان نے حیران ہوتے اسے دیکھا – ہاں تم نے کہا تھا مگر اس بات کا کیا تعلق وہ تو تم نے یوں ہی کہا تھا نا اپنے بچپنے میں –
غزان نے نہ سمجھی سے کہا – اپ سے کس نے کہا کہ وہ میں نے اپنے بچپنے میں کہا تھا ؟؟ نہیں میں نے اپنے پورے ہوش و حواس میں کہا تھا – وہ میرا بچپنا نہیں تھا وہ میرے احساسات تھے میرے جزبات تھے – میں اج بھی وہی کہتی ہوں کہ مجھے اپ سے ہی شادی کرنی ہے اور میں اپنی سالگرہ پر اپ سے یہی مانگنے والی تھی کہ اپ مجھ سے شادی کر لیں –
دل روز نے اس کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا تو عزان کو جھٹکا لگا تھا اس کی باتوں پر – وہ ایک دم صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا – تمہیں پتہ بھی ہے دل روز تم کیا بول رہی ہو ؟؟ جانتی ہو نا شادی کا مطلب ؟؟ غزان نے اس سے پوچھا تو دل روز بھی صوفے سے کھڑی ہوئی تھی –
بالکل میں جانتی ہوں اسی لیے تو اپ سے کہہ رہی ہوں کہ مجھے اپ سے شادی کرنی ہے – غزان میں اپ سے بہت محبت کرتی ہوں میں اپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ساری زندگی – اپ پلیز امی سے بات کریں نا ہماری شادی کی – اس نے اس کا بازو پکڑتے اپنی محبت کا یقین دلاتے کہا تو عزان نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا تھا – تم پاگل ہو گئی ہو دل –
بند کرو اپنی یہ بکواس فضول باتیں – دیکھو دل روز یہ تمام باتیں اپنے دماغ اور دل سے نکال دو – میں نے کبھی تمہیں اس نظر سے نہیں دیکھا میں تمہیں چھوٹے بچوں کی طرح دیکھتا ہوں چھوٹے بچوں کی طرح میں نے تمہیں پالا ہے اس لیے میں تم سے پیار کرتا ہوں – میں تم سے دوسرے والی محبت نہیں کرتا اور تم بھی ابھی بچی ہو اس طرح کی باتیں نہیں سمجھتی لہذا اپنے دماغ سے یہ فطور یہ فضول باتیں نکال دو –
غزان کے سختی سے بولنے پر دل روز کی انکھوں میں انسو ائے تھے جبکہ زیادہ دکھ اسے اس کے الفاظوں پر ہوا تھا – یہ فطور نہیں ہے یہ محبت ہے ہماری خدا کے لیے ہمارے جذبات سمجھیں اپ کیوں نہیں سمجھ رہے اپ تو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں نا ہمیں – اور ایسے کیوں کہہ رہے ہیں کہ اپ کو ہم سے محبت نہیں محبت تو محبت ہوتی ہے محبت کی کون سی قسمیں ہوتی ہیں –
دل روز روتے ہوئے بولی تو عزان نے لمبے لمبے سانس لیتے خود کو نارمل کرنا چاہا تھا – دل اب تم مجھے غصہ دلا رہی ہو – بند کرو اپنا یہ بچنا – نہیں ہے مجھے تم سے محبت – نہ جانے کون سا وقت تھا جب تم اس طرح سے سوچنے لگی میرے بارے میں اور خبردار جو تم نے اج کے بعد یہ بات کہی تو –
اگر زیادہ ہی تمہیں شادی کا شوق چڑھا ہے تو کرتا ہوں میں چاچو سے بات ڈھونڈتا ہوں تمہارے لیے کوئی اچھا سا لڑکا – غزان اسے غصے سے ڈانٹتے ہوئے بولا – نہیں ہمیں کسی اور سے شادی نہیں کرنی ہمیں اپ سے شادی کرنی ہے کیونکہ ہمیں اپ سے محبت ہے – ہم نہیں رہ سکتے نہ آپ کے بغیر – مر جائیں گے ہم –
آپ کو کسی اور سے بھی تو شادی کرنی ہے اپ ہم ہی سے شادی کر لیں – دل روز نے روتے ہوئے پھر سے اس کا بازو تھاما تھا جسے تھوڑی دیر پہلے غزان غصے میں ایک جھٹکے سے چھڑا چکا تھا – دل روز دفع ہو جاؤ یہاں سے – تم میری ڈھیل اور میرے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو –
نہیں کرنی مجھے تم سے شادی نہیں سوچتا میں تمہارے بارے میں اس طرح سے – بچی ہو تم ابھی -؛ غزان نے پھر اسے اپنا بازو اس سے چھڑاتے اس کو دونوں کندھوں سے تھامتے بے حد غصے سے کہا تو دل روز کے رونے میں اور اضافہ ہوا تھا – مگر ہمیں تو اپ ہی سے شادی کرنی ہے اگر اپ ہمارے نہ ہوئے تو ہم مر جائیں گے ہم سچ کہہ رہے ہیں ہم اپ کے بغیر نہیں رہ سکتے ہم مر جائیں گے اپ کے بغیر –
دل روز روتے ہوئے بولی تو عزان نے جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا – تو مر جاؤ غزان نے اس کی بار بار مرنے والی رٹ پر بنا سوچے سمجھے غصے سے کہا لیکن جب اسے سمجھ ائی کہ وہ اس نے کیا بولا ہے تو اس کے دل کو کچھ ہوا تھا اپنے ہی الفاظ پر جبکہ اس کے جواب پر دل روز نے اسے بے یقینی بھری نظروں سے دیکھا تھا –
اپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ہمارے مرنے سے ؟ ہم اپ کے دل ہیں جان ! ہم اپ کے دل ہیں دیکھیں ہمیں اپ کس طرح سے بات کر رہے ہیں ہم سے – وہ عزان کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہی بولی تو عزان نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا – تم میری دل نہیں ہو میری دل معصوم تھی اور اج کے بعد مجھے جان مت کہنا تم میری محبت کو غلط رنگ دے رہی ہو – دفع ہو جاؤ یہاں سے –
وہ غصے سے کہتا اس کی بازو پکڑ کر کمرے کے دروازے کے پاس لاتا بولا جبکہ دل روز نے روتے ہوئے غزان کو دیکھا تھا – ہم سچ میں مر جائیں گے غزان – دل روز نے بے بسی سے کہا لیکن غزان پر بالکل بھی اس کی باتیں اثر نہیں کر رہی تھیں – کچھ دیر غزان کو دیکھتے وہ روتے ہوئے اس کے کمرے سے نکلتی اپنے کمرے میں چلی گئی جو غزان کے ساتھ والا ہی کمرہ تھا –
پیچھے غزان بیڈ پر سر ہاتھوں میں گراتے بیٹھا تھا – یہ کیسے ہوا وہ نہیں جانتا تھا کہ کب دل اس کے لیے ایسے جذبات رکھنے لگی جب کہ وہ بالکل بھی دل کے بارےمیں ایسے نہہں سوچتا تھا – ابھی بھی اسے یہی بہتر لگا تھا کہ وہ دل کو خود سے دور کر دے تاکہ وہ ان جذباتوں کو اپنے اندر ہی ختم کر دے جو اپنی نادانی میں وہ پال بیٹھی تھی – لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ محبت کا جذبہ محبوب کی بے رخی پر بھی ختم نہیں ہوتا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial