دل جان

maya khan

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

میں گیت ہوں اُداسی کا
میری رگ رگ میں غم بستا ہے
میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں
میرے سامنے جب کوئی ہستا ہے
میری کھو جاؤں اپنے ماضی میں
جب میں بھی چنچل لڑکی تھی
میں کُھل کے زندگی جیتی تھی
اور کِھل کِھل کر میں ہستی تھی
کوئی مجھ کو کھلی کتاب کہتا
تو کسی کے لیے الجھلی پہیلی تھی
میں من موجی سی لڑکی تھی
میں خود کی خود سہیلی تھی
اپنی خوشیوں بھری دنیا کو جلا بیٹھی
میں خود کو محبت کا روگ لگا بیٹھی
باقی سب کی طرح میرا بھی وہی انجام ہوا
محبت کے بدلے دھوکہ میرا انعام ہوا
چین سکون گم ہوئے بے چینیوں نے پہرا ڈال لیا
خوشیاں مجھ سے روٹھ گئیں غموں نے گھیرا ڈال لیا
میں بن گئی گیت اداسی کا ، میرا چنچل پن کھو گیا
وہ کب پھر کھل کر ہستا ہے جو مریضِ عشق ہو گیا
از خود
از قلم : مانیہ خان
##################################
دانیال افس میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ تب ہی اس کے افس میں ورشہ داخل ہوئی جبکہ اسے دیکھ کر دانیال کے چہرے کے زاویے بگڑے تھے – ورشہ ان کے بزنس پارٹنر کی بیٹی تھی اور دانیال کو اس سے بہت ہی زیادہ چڑ تھی –
ورشہ کا یہاں افس میں کوئی کام تو نہیں ہوتا تھا لیکن وہ اپنے بابا کے ساتھ ویسے ہی افس میں ا جاتی تھی اور پھر دانیال کا سر کھاتی رہتی تھی – اس کا اپنے بابا کے علاوہ کوئی نہیں تھا دنیا میں –
اتنی زیادہ اپنے بابا کی لاڈلی ہونے کے باوجود وہ بہت سلجھی ہوئی تھی بس وہ دانیال کے لیے بلکل بھی سلجھی نہیں تھی – تقریبا کوئی چار مہینے پہلے وہ پہلی بار افس میں ائی تھی اپنے بابا کے ساتھ –
اسی دن اس نے دانیال کو پہلی بار دیکھا تھا اور بس پھر وہ لو ایٹ فرسٹ سائیٹ کر بیٹھی تھی دانیال سے -اس دن کے بعد سے تو اس کا معمول ہی بن گیا تھا ہر دوسرے تیسرے دن افس ا جانا جبکہ دانیال کو وہ ایک انکھ نہیں بھاتی تھی – ورشہ تمہیں کوئی کام نہیں ہے ؟؟
جب دیکھو منہ اٹھا کر افس ا جاتی ہو تمہارے باپ کے ساتھ ہماری بزنس ڈیل ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا افس تمہارے باپ کا افس ہی بن گیا کہ جب تمہارا دل کیا تم بے شرموں کی طرح منہ اٹھا کر ہمارے افس میں اگئی –
دانیال نے تو ورشہ کے افس میں داخل ہوتے ہی اس کی اپنی طرف سے بڑے اچھے سے بےعزتی کی لیکن ورشہ کو دانیال کی کوئی بات کب بری لگتی تھی – کیا کروں میرا دل ہی نہیں لگتا گھر میں اور اپ میرا فون بھی تو نہیں اٹھاتے اس لیے جب بھی اپ کو دیکھنے کا دل کرتا ہے میں اپ کے افس ا جاتی ہوں –
ویسے بھی فریاد انکل لوگوں کو بھی میرے یہاں انے سے کوئی پرابلم نہیں ہے تو پھر اپ کو کیا پرابلم ہے – ورشہ نے بنا دانیال کی بات کا برا مانے مسکراتے ہوئے جواب دیتے بعد میں اپنا سوال پوچھا – بابا اور تایا لوگوں کو اس لیے کوئی پرابلم نہیں ہے کیونکہ تم جا کر ان کا سر نہیں کھاتی –
تم یہاں میرے افس میں ا کر فری میں میرا بی پی ہائے کرتی ہو تو مجھے اعتراض ہے تمہارے آنے سے -دانیال نے اسے گھورتے ہوئے جواب دیا تو ورشہ نے اپنا منہ پھلا لیا – میں اتنی دلی چاہت سے اپ سے ملنے اتی ہوں اتنے پیار سے اپ سے بات کرتی ہوں اور ایک اپ ہیں اپ کو میری کوئی قدر ہی نہیں –
آپ کو تو جیسے نہیں پتہ چلتا نہ کہ میں اپ کو پسند کرتی ہوں – ورشہ نے ناراضگی بھرے لہجے میں کہا تو دانیال نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے – او بی بی مجھے معاف ہی رکھو تم اپنے پیار محبت سے مجھے نہیں چاہیے تمہاری محبت اور چاہت جاؤ اپنا کام کرو –
جان چھڑانے والے انداز میں کہتے دانیال نے پاس پڑی فائل اٹھا کر ریڈ کرنا شروع کیا جبکہ ورشہ نے پہلے تو کچھ پل خاموشی سے انکھیں چھوٹی کیے دانیال کو گھورا اور پھر کھڑی ہوتی اپنے کندھے پر ڈالا ہوا دوپٹہ اپنے گلے کے گرد لپیٹنے لگی –
دانیال نے فائل سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھا تو ورشہ گلے کے گرد لپیٹے گئے دوپٹے کے دونوں سروں کو کھینچ کر اپنے گلے پر دباؤ بڑھا رہی تھی – فائل واپس بند کر کے رکھتے اپنی کہنیاں ٹیبل پر ٹکا کر دانیال دونوں ہاتھوں کو اپس میں جوڑ کر ان پر اپنی تھوڑی رکھتا فرصت سے اسے دیکھنے لگا –
تم میری قدر نہیں کرتے نا تو ٹھیک ہے دیکھنا ابھی اور اسی وقت میں اپنی جان دے رہی ہوں – اس نے دانیال کو وارن کرتے ہوئے کہا جب کہ اس کے بولنے پر دانیال لنے اسے انکھوں سے اشارہ کیا جیسے کہنا چاہتا ہو جلدی کرو اور مرو –
دانیال کے یوں اشارہ کرنے پر ورشہ کو اپنا پلان ناکام ہوتا نظر ایا لیکن پھر بھی خود کو کانفیڈنٹ ظاہر کرتے وہ ہلکا ہلکا دوپٹے کا دباؤ اور بڑھانے لگی – جب دباؤ کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگا تو اس کا سفید چہرہ لال پڑ گیا تھا جبکہ دانیال نے اسے ابھی تک نہیں روکا تھا
د..دا..نیال !
د..دا..دا….نی…ال !
دانیال کو خود کو روکتا نہ دیکھ اخر ورشہ نے مشکل سے اٹکتے اٹکتے اس کا نام پکارا تھا کہ وہ اسے ابھی بھی روک لے مگر دانیال بھی اچھے سے اس کے سارے ڈرامے جانتا تھا – کیا دانیال دانیال لگا رکھی ہے تم نے مرو جلدی کرو جب تم مر جاؤ گی تو میں تمہیں اٹھا کر تمہارے باپ کے گھر پہنچا دوں گا اب جلدی مرو میرا ٹائم ویسٹ نہ کرو مجھے بہت کام ہیں – میں کب سے انتظار کر رہا ہوں تمہارے مرنے کا –
دانیال اسے کہتا اپنی گھڑی پر باقاعدہ ٹائم دیکھنے لگا جب کہ دانال کو بالکل سیریس دیکھ ورشہ نے خود ہی اپنے گلے سے دوپٹہ نکال لیا تھا اور پھر اپنے گلے پر ہاتھ رکھتی بری طرح سے کھانسنے لگی – ارے ہٹا کیوں دیا دوپٹہ مر تو لیتی اچھے سے مجھے تو تم ابھی بھی زندہ نظر ارہی ہو –
دانیال نے اسے تنزیہ کہا تو ورشہ نے اسے اپنی سرمئی انکھوں سے گھور کر دیکھا – بہت ہی کوئی تم بے حس انسان ہو – جا رہی ہوں میں تمہیں تو میری قدر ہی نہیں ہے – ورشہ غصے سے کہتی افس سے باہر جانے لگی –
جاؤ میری جان چھوڑو اور پلیز اب دوبارہ مت انا – دانیال نے بھی ہاتھ جوڑ کر اسے کہا جب کہ ورشہ جو دروازے کے پاس پہنچ چکی تھی اس نے واپس پلٹ کر دانیال کی طرف گھورتے دیکھا –
ہاں نہیں اؤں گی تم نے سمجھ کے رکھا ہے ورشہ کو ؟؟ میں بھی تمہیں بتا کے جا رہی ہوں کہ میں اب تمہارے افس میں نہیں اؤں گی پورے دو دن بعد اؤں گی میرا انتظار کرنا – پہلے سیریس انداز میں غصے سے کہتے اخر میں ورشہ نے شرارتی انداز میں کہتے دانیال کو انکھ ماری تھی اور پھر اگلے ہی لمحے وہ افس سے باہر تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ دو سیکنڈ اور اندر رہتی تو دانیال ضرور کوئی چیز اٹھا کر اس کے سر میں دے مارتا –
دوسری طرف دانیال جو ورشہ کے پہلے بولوں پر تو بہت زیادہ خوش تھا کہ چلو اچھا ہوا اب وہ اسے تنگ نہیں کیا کرے گی لیکن اس کی اخری بات پر دانیال کا دل کیا ورشہ کا تو نہیں مگر اپنا سر پھاڑ لے – پاس پرا پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیتے اس نے واپس سے فائل کھولتے اس کا معائنہ جاری کیا لیکن پھر ورشا کا ابھی کیے جانے والا ڈرامہ یاد اتے ہی اس کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ ائی تھی – پاگل لڑکی ! اس نے ہلکی آواز میں ورشہ کو ایک نام سے نوازہ تھا –
##################################
امی اخر کب کرنے والی ہیں اپ تائی امی سے میرے اور غزان کے رشتے کی بات ؟؟ اب تو دل روز نام کا کانٹا بھی نہیں ہے ہمارے درمیان کیونکہ اس کا بھی رشتہ طے ہو چکا ہے اور جہاں تک مجھے لگ رہا ہے غزان اور دل روز میں بہت بڑا کوئی جھگڑا چل رہا ہے – اس سے پہلے کہ ان کا جھگڑا ختم ہو اور ان کے درمیان سب کچھ پہلے کی طرح ہو جائے اپ تائی امی سے کہہ کر میرا اور غزان کا رشتہ پکا کریں –
صبا اپنی ماں کے سر پر سوار کب سے اپنے اور غزان کے رشتے کی بات کرنے کا ان سے کہہ رہی تھی- ہاں میں کروں گی بات میں بھی دو تین دن سے سوچ رہی ہوں کہ اب مجھے بات کر لینی چاہیے تمہاری بھی عمر ہو گئی ہے شادی کی –
وہ دل روز تم سے کتنے سال چھوٹی ہے اور دیکھو دو مہینے بعد اس کی شادی ہے اور تم تو اس سے کافی بڑی ہو تو اس لیے میں کرتی ہوں تمہاری تائی سے تمہارے اور غزان کے رشتے کی بات –
مجھے امید ہے کہ تمہاری تائی مان ہی جائے گی اخر میری بیٹی ہے بھی تو اتنی پیاری – ہاجرہ بیگم نے صبا کو جواب دیتے اخر اس کی بلائیں لیتے کہا جس پر صبا نے اتراتے ہوئے سر اکڑایا تھا – اچھا یہ دانیال اگیا افس سے واپس ؟؟ ہاجرہ بیگم نے صبا سے پوچھا تو صبا نے انکھیں گھمائی تھیں –
مجھ سے مت پوچھا کریں اس کے بارے میں جا کر اس کی چہیتی دل روز سے پوچھا کریں اسے سب پتا ہوتا ہے – نہ جانے کون سا ایسا اس نے جادو کیا کہ وہ میرا بھائی جو اس کو اچھا نہیں سمجھتا تھا کیسے اب اس کو ہتھیلی کا چھالا بنائے پھرتا ہے – ہے ذرا اسے کوئی فکر کہ میں اس کی بہن ہوں وہ نہیں ؟؟
جب دیکھو اس کے نخرے اٹھانے پہ ہی اس کی توجہ ہوتی ہے – کبھی اس نے ا کر مجھ سے پوچھا کہ صبا تمہیں کیا چاہیے ؟؟ پتہ نہیں کون سا جادو اتا ہے اس دل روز کو کہ پورے گھر کے مردوں کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے –
صبا ہاجرہ بیگم کے دانیال کے بارے میں پوچھنے پر دانیال کے ساتھ دل روز کو برا بھلا کہتی ہاجرہ بیگم کے کمرے سے نکل گئی جبکہ پیچھے ہاجرہ بیگم کے بھی دل روز کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیال تھے – دونوں ہی ماں بیٹیوں کو دل روز سے بلا وجہ کا ویر تھا حالانکہ اس معصوم نے تو کبھی انہیں کچھ کہا بھی نہیں تھا –
##################################
دل روز کمرے میں بیٹھی بور ہو رہی تھی تبھی اس نے کمرے کی صفائی کرنے کے بارے میں سوچا تا کہ وقت گزر جائے – حالانکہ اس کا کمرہ پہلے سے صاف تھا لیکن پھر بھی وہ پہلے سے ترتیب سے رکھی چیزوں کو اٹھا کر ان کی تھوڑی سی سیٹنگ چینج کرنے لگی –
صفائی کرنے کے دوران اسے الماری سے اپنی پرانی فوٹو البم ملی تو اس نے مسکراتے ہوئے اسے کھولا جبکہ پہلی فوٹو ہی اسے اپنی اور غزان کی نظر ائی تھی – تصویر میں دل روز جھولے پر بیٹھی تھی جبکہ غزان اسکے پیچھے کھڑا اسے جھولا دے رہا تھا – تصویر کو دیکھتے دل روز کی انکھوں سے انسو ٹپکنا شروع ہو گئے تھے –
روتے ہوئے ایک ایک کرتے اس نے ساری تصویریں دیکھیں تو ہر تصویر میں غزان اس کے ساتھ تھا اور ہر تصویر میں ہی دل روز کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی جو مسکراہٹ اپنا جانے کہاں کھو گئی تھی – وہ ہستی مسکراتی تو تھی لیکن پہلے جیسی بات اب اس کی مسکراہٹ میں نہیں تھی –
البم واپس بند کر کے اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اور اپنے انسو بے دردی سے صاف کیے تھے لیکن انکھوں نے تو اج شاید قسم کھا لی تھی کہ انہیں جی بھر کر برسنا ہے جبکہ دل میں الگ سے تکلیف کا احساس ہو رہا تھا اسے – اس نے لمبے لمبے سانس لیتے اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تکلیف تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی –
وہ دعوی تو کرتی تھی کہ اب غزان اس کی زندگی میں پہلے جتنی اہمیت نہیں رکھتا اور اب وہ غزان سے نفرت کرتی ہے لیکن یہ بات اس کا دل بہت اچھے سے جانتا تھا کہ یہ سب دعوے جھوٹے ہیں –
محبت تو بھلائی بھی جا سکتی ہے لیکن یہاں تو عشق تھا وہ بھی بچپن کا عشق – عشق کبھی بھلایا نہیں جاتا کیونکہ وہ تو ایک ناسور کی طرح انسان کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اسے ہمیشہ کے لیے تکلیف دینے کے لیے اور یہی حال دل روز کا بھی تھا –
پکڑ کر نبض میری حکیم بولا
وہ زندہ ہے تجھ میں تو مر چکا ہے جس میں
##################################
غزان چھٹی سے کافی دیر پہلے ہی دل روز کی یونیورسٹی پہنچ گیا تھا – اس کا ارادہ تھا کہ وہ دل روز سے باہر کہیں تحمل سے بات کر کے گا کیونکہ گھر میں تو دل روز اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس سے بات نہیں کرتی تھی جبکہ سب بڑوں کے سامنے غزان کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ انہیں نہیں بتا سکتا تھا کہ دل روز کی اس سے ناراضگی کی وجہ کیا تھی –
ابھی بھی وہ اس کی یونیورسٹی میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر اسے وہ مل ہی نہیں رہی تھی اخر کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد اسے وہ اپنی کلاس کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ کھڑی نظر ائی اور شاید وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی اس لیے دل روز نے اپنا رخ اس کی جانب سے موڑ لیا تھا تاکہ غزان اس سے نہ دیکھ سکے لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ غزان سے چھپ رہی ہے اس غزان سے جو اسے چھو کر انے والی ہوا سے بتا دیتا تھا کہ دل روز کہیں اس پاس ہے –
ان کے ہونٹوں کو تکلیف نہ جی نہ
ہم تو ان کی بات ان کی انکھوں سے جان لیتے تھے
اور انہوں نے ہمیں دیکھ کر منہ تو موڑ لیا
وہ یہ بھول گئے کہ ہم تو انہیں ان کی پرچھائی سے پہچان لیتے تھے
لمبی لمبی پھلانگیں بھرتا وہ دل روز کے پاس پہنچا تو دل روز اپنی دوستوں سے ایکسکیوز کرتی وہاں سے آگے بڑھ گئی مگر غزان نے جلدی سے اس کے پاس پہنچ اس کی کلائی پکڑتے اسے روکا تھا – رکو دل مجھے تم سے بات کرنی ہے – غزان نے اسے کہا جبکہ دل روز نے اس کی گرفت سے اپنی کلائی ازاد کروائی تھی –
اپ کو سمجھ نہیں اتی غازان بھائی کہ مجھے اپ سے بات نہیں کرنی کیوں میرے پاس بار بار اتے ہیں بات کرنے کے لیے- گھر میں اپ کی بات نہیں سنی تو اپ یونیورسٹی میں پہنچ گئے لیکن یہاں پر بھی میرا جواب وہی ہے کہ مجھے اپ سے بات نہیں کرنی –
دل روز غصے سے کہتی جانے لگی مگر غزان نے پھر سے اس کی کلائی پکڑتے اسے روکا اور پھر اسے اپنے ساتھ لے جاتا یونیورسٹی کے اس حصے میں لے ایا جہاں پر زیادہ رش نہیں تھا – کیوں نہیں سننی تمہیں میری بات بھولو مت میں تمہارا جان ہوں وہ جان جس سے بات کیے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہوتا تھا اور اب تم اسی جان کی بات بھی نہیں سنتی –
غزان نے اس کی کلائی چھوڑ کر اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوئے یاد کروایا کہ وہ اس کا جان ہے جب کہ دل روز اس کی بات پر تنزیہ مسکرائی تھی – ماضی کو بھول جائیں گا غزان بھائی کیونکہ ماضی کو یاد رکھنے سے اپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا اور رہی بات بات سننے کی تو مجھے نہیں سننی بالکل ویسے جیسے ایک سال پہلے اپ نے میری نہیں سنی تھی –
دل روز اس سے دور ہوتی بولی تو غزان نے اپنے کان پکڑے تھے – ائی ایم سوری دل روز اپنے جان کو معاف کر دو اتنی بڑی سزا تو مت دو مجھے – اگر میں نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے تو میں اس تکلیف کا ازالہ بھی کروں گا – میں واپس سے پرانا والا جان بن جاؤں گا بس تم میری دل مجھے واپس لوٹا دو –
مجھے دل روز نہیں چاہیے یہ دل روز میری دل جیسی نہیں ہے میری دل تو میری ہر بات سنتی تھی میری بات مانتی تھی مگر دل روز تو میری طرف دیکھتی بھی نہیں بلکہ مجھے دیکھ کر اپنا رخ موڑ لیتی ہے – غزان نے منت بھرے لہجے میں اس سے کہا تو دل روز خود اذیتی سے مسکرائی –
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
وہ دل تو ایک سال پہلے ہی مر گئی تھی غزان بھائی اور اسے مار کر جانے والا بھی اس کا جان ہی تھا اس لیے اس جان کو کبھی بھی وہ دل واپس نہیں ملے گی – ابھی جو اپ کے سامنے کھڑی ہے وہ ایک مضبوط لڑکی ہے جس نے محبت میں چوٹ کھانے کے بعد خود کو مضبوط کیا ہے
خود کو ترتیب دیا آخرِ کار از سرِ نو
زندگی میں تیرا انکار بہت کام آیا
✍🏻 ظفر اقبال
دل نہیں اب اپ کو دل روز ہی نظر ائے گی اور دل روز ہر اس انسان سے دور رہتی ہے جس انسان نے اسے تکلیف پہنچائی ہے – مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب میں میری محبت سمیت منہ کے بل گرائی گئی تھی تو میں نے خود کو خود ہی اٹھایا تھا اور اپنی زندگی میں آگے بڑھی تھی بنا کسی کے سہارے کے –
اس لیے اب بھی کسی کو ضرورت نہیں – اور اپکو بھی میری تکلیفوں کو کم کرنے کے دعوے کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میںاب ان دعوں میں نہیں آنے والی – دل روز کچھ ہی لفظوں میں اسے لاجواب کرتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ پیچھے غزان خود کو شرمندگی کی گہرائیوں میں محسوس کر رہا تھا –
بچھر کے زاتِ عشق میں ہوئے تنہا
تھکے تنہا ، گرے تنہا ، اٹھے تنہا اور پھر چلے تنہا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial