قسط: 9
ایک زخمی پرندے کی طرح جال میں ہم ہیں !
اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ہم ہیں !
اور ہستے ہوئے چہرے نے بھرم رکھا ہمارا !
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ہم ہیں !
##################################
یونیورسٹی والے دن کے بعد غزان دوبارہ دل روز کے سامنے نہیں گیا تھا – اس نے خودکو کام میں مگن کرلیا تھا – اپنی ڈیوٹی کے بعد وہ آفس چلا جاتا رات کے بار بجے گھر واپس آتا – اگر قسمت میں ہوتی تو نید آتی ورنہ رات. ساری جاگ کر گزارتا اور پھر صبح سات بجے واپس ڈیوٹی پر –
بس یہی روٹین تھی اس کی – وہ ایک تو گھر دل روز کی وجہ سے کم ہوتا یاں گھر والوں کی وجہ سے کہیں وہ اس کے ںندر کی تکلیف کو چہرے پر نہ دیکھ لیں – دل کی شادی میں اب کچھ ہی دن رہ گئے تھے اور پورے گھر میں شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں –
صبا کو تو شاید دل روز سے بھی زیادہ اس کی شادی کی خوشی تھی اخر اس کو دل روز سے چھٹکارا جو ملنے والا تھا کیونکہ وہی تو اس کے اور غزان کے ایک ہونے میں رکاوٹ تھی اس لیے وہ خوشی خوشی اس کی شادی کی ہر تیاریوں میں شرکت کر رہی تھی جبکہ اس کی ماں کا بھی یہی حال تھا –
گھر والوں کو تو اس بات کی حیرانگی تھی کہ دل روز ابھی تک غزان سے ناراض ہے – انہیں تو لگا تھا کہ وہ غزان کے واپس ا جانے پر اپنی ناراضگی بھلا دے گی لیکن دل روز کی ناراضگی تو جوں کی تو تھی – ایوب ملک نے تو ایک دو بار جو دل روز سے بات کرنے کی کوشش بھی کی لیکن غزان نے انہیں منع کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ معاملہ ان دونوں کا ہے تو گھر والوں کو اس میں بولنے کی ضرورت نہیں اس لیے گھر والے ان دونوں کو ان کے حال پر چھوڑتے شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے –
دانیال نے تو کچھ دن کے لیے افس سے اف لے لیا تھا کیونکہ اسے سب خواتین کو بازار جو لے کر جانا ہوتا تھا – فریاد ملک نے تو بہت مرتبہ ڈرائیور رکھنے کا کہا تھا مگر گھر کی خواتین ڈرائیور کے ساتھ کمفرٹیبل فیل نہیں کرتی تھیں اس لیے انہوں نے ڈرائیور نہیں رکھا تھا اج تک –
اس لیے جب بھی انہیں ضرورت پڑتی تو گھر کے مردوں میں سے کسی ایک کو ہی ڈرائیور کی سیٹ سنبھالنی پڑتی تھی اور ابھی یہی سیٹ دانیال نے سنبھال رکھی تھی کیونکہ غزان کو اپنی جاب سے اف لینا کافی مشکل تھا اس لیے اصف ملک نے یہ ڈیوٹی دانیال کے سر ڈال دی تھی –
اگر وہ پرانے والا دانیال ہوتا تو چاہے سارے گھر کے لوگ اسے مل کر بھی ڈرائیور کی سیٹ سنبھالنے کا کہتے تو دانیال کبھی بھی نہ مانتا مگر اب وہ پرانے والا دانیال نہیں تھا اس لیے فرمانبردار بچوں کی طرح فورا اپنے باپ کی بات مان گیا تھا –
شادی کی اب تو ساری شاپنگ تقریباً پوری ہو گئی تھی بس کچھ کچھ سامان رہ گیا تھا اور دل روز کی کچھ شاپنگ رہ گئی تھی جو اس نے حماد کے ساتھ جا کر کرنی تھی-
اج حماد انے بھی والا تھا اسے شاپنگ پر لے جانے کے لیے – شوپنگ کے ساتھ ان دونوں نے ڈیزائنر سے لہنگا بھی ریسیو کرنا تھا – دل روز بظاہر تو بہت خوش نظر ارہی تھی اپنی شادی کو لے کر لیکن اس کے اندر کیا چل رہا تھا یہ وہی بہتر جانتی تھی – اسان نہیں ہوتا کہ شروع سے جس کی بیوی بننے کے خواب دیکھے تھے اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی بیوی بننا –
وہ جب جب یہ سوچتی کہ حماد سے شادی کے بعد وہ غزان کو یاد کر کے رونے کا بھی حق کھو دے گی تو اور زیادہ اسے دکھ ہوتا تھا لیکن اب وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے والوں میں سے بھی نہیں تھی چاہے وہ تکلیف میں ہی کیوں نہ ہوتی لیکن وہ حماد سے شادی کر کے ہی رہے گی –
ہاں وہ اسے محبت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ وہ تو عشق کر چکی تھی لیکن کسی اور سے اور اب وہ دوبارہ کسی سے بھی محبت پیار کا جذبہ نہیں رکھ سکتی تھی لیکن ہاں اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حماد کو اپنی وفاداری ضرور دے گی اور یہ بات اس نے حماد کو بھی کہی تھی جس پر حماد کا جواب کچھ یوں تھا کہ مجھے تمہاری وفاداری ہی چاہیے کیونکہ ہمارے رشتے کو نبھانے کے لیے میری محبت ہم دونوں کے لیے کافی ہوگی –
##################################
دل روز اور حماد ساری شاپنگ کرنے اور لہنگہ رسیو کرنے کے بعد واپس گھر جا رہے تھے – اس وقت ایک تو مغرب کا ٹائم ہونے کی وجہ سے اندھیرا ہو رہا تھا اور دوسرا مری کی سردی میں پڑ رہی برف باری کو دیکھتے گھر جلدی پہنچنے کے لیے حماد نے شارٹ کٹ راستے پر گاڑی ڈال لی تھی –
یہ کافی سنسان سڑک تھی جہاں پر مشکل سے ہی کبھی کبھار کوئی گاڑی گزرتی تھی – ابھی انہیں اگے گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ انہیں سامنے سڑک پر ایک گاڑی رکی ہوئی نظر ائی اور گاڑی کے پاس ہی دو سے تین لوگ کھڑے تھے دیکھنے میں ایسے لگ رہا تھا جیسے جیب قطروں نے گاڑی والے کو لیا روک رکھا ہو –
حماد نے سامنے دیکھتے گاڑی وہیں روک لی تھی اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا اگے جانے کا کیونکہ اس کے ساتھ دل روز بھی تھی اور وہ دل روز کو کسی خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا – اسی لیے اس سے پہلے ان ڈاکوں کی نظر اس پر پڑتی وہ گاڑی واپس یوٹرن کرنے لگا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گاڑی یوٹرن کرتا دل روز جو ڈرنے کے باوجود بڑی غور سے سامنے دیکھ رہی تھی اس کی انکھوں نے گاڑی کو پہچان لیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ گاڑی کے پاس کھڑے شخص کو بھی –
رکیں حماد ! دل روز نے ایک دم چیختے ہوئے کہا جب کہ اس کے یوں اونچا بولنے پر حماد نے حیران ہوتے اسے دیکھا – کیا ہوا ؟؟ حماد نے پریشان ہوتے پوچھا مگر دل روز اس کی بات کا کوئی بنا کوئی جواب دیے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولتی بنا برف باری کے سبب سڑک پر ہوئی تلکن کی پرواہ کرتی پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے سامنے والی گاڑی کی طرف گئی تھی –
جبکہ حماد انکھیں پھاڑے اسے بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور پھر خود بھی فورا گاڑی سے باہر نکلا تھا – دل روز سامنے موجود ادمیوں کے پاس جاتی ایک کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہو گئی تھی جس کے اوپر سامنے والوں نے گن تان رکھی تھی –
حماد روز کو یوں کسی کے سامنے ڈھال بنتا دیکھ حیران ہوا تھا مگر جب اس نے دل روز کے پیچھے کھڑے شخص کا چہرہ دیکھا تو اس کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں کیونکہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ غزان ہی تھا – دراصل غزان کو امی نے جلدی گھر آنے کا کہا تھا آج اس لیے وہ جلدی گھر پہنچنے کے لیے شارٹ کٹ رستے سے ہی گھر جا رہا تھا مگر تبھی اچانک ڈاکوں نے اس کا رستہ روک لیا تھا –
آج عزان کے پاس اپنی گن بھی نہیں تھی اور ڈاکوں کے پاس تھی – وہ گاڑی سے نکلا تو ڈاکو اس سے قیمتی سامان مانگنے لگے – اس سے پہلے وہ ان کی اچھے سے دھلائی کرتا اچانک سے اپنے اگے دل روز کے آ جانے پر کافی حیران ہوا – تم یہاں کیا کر رہی ہو دل ؟؟ ہٹو سامنے سے ! غزان دل روز کو کندھے سے پکڑ کر سائیڈ کرنے کی کوشش کرتا بولا مگر دل روز میں نہ جانے کہاں سے اتنی طاقت اگئی تھی کہ وہ غزان کے ہٹانے پر بھی اس کے سامنے سے نہیں ہٹ رہی تھی – نہیں اگر ہم یہاں سے ہٹے تو یہ اپ کو مار دیں گے –
دل روز نے روتے ہوئے کہا – اوراگر تم نہ ہٹی تو یہ تم پر گولی چلا دیں گے – غزان نے اس پر غصہ ہوتے کہا مگر دل روز روتے ہوئے نہ میں سر ہلائی جا رہی تھی – حماد ان سے تھوڑا دور کھڑا خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہا تھا – اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی اگے جانے کی یہ دیکھ کر کہ دل روز کیسے اج بھی غزان سے محبت کرتی ہے – اتنی محبت کہ اس کی خاطر وہ اپنی پرواہ بھی نہیں کر رہی –
اے لڑکی ہٹ سامنے سے – سامنے کھڑے ایک ڈاکو نے دل روز کو غصے سے کہا تو دل روز نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے تھے – پلیز پلیز میرے جان کو کچھ مت کہیے گا – اپ کو کیا چاہیے اپ مجھے بتائیں میں اپ کو جتنے پیسے مانگو گے اپ کو دوں گی لیکن پلیز میرے جان کو کچھ مت کہیں اور یہ پسٹل نیچے کر لیں –
دل روز روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر ان سے منتیں کرتی بولی جبکہ اس کے یوں ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے پر غزان نے اس کی پشت کو حیرت سے دیکھا – دل روز کچھ نہیں ہوتا مجھے تم سامنے سے ہٹو –
غزان اس بار اپنا پورا زور لگاتے دل روز کو اپنے سامنے سے ہٹاتا بولا جبکہ دل روز اب کی بار اس کی طرف رخ کرتی اس کے گلے لگ گئی تھی – نہیں جان وہ خطرناک ادمی ہے ان کے پاس گن ہے وہ اپ کو مار دیں گے –
ہم اپ کو کھونا نہیں چاہتے ہم اپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے – آپ سے پہلے ہم گولی کھائیں گے – دل روز اس کے گلے لگتی روتے ہوئے بولی جب کہ غازان نے تو اب غور کیا تھا کہ دل روز اسے جان پکار رہی ہے -جبکہ اس کا جان پکارنا حماد کو بھی سنائی دے رہا تھا –
اس کے منہ سے ایک سال بعد خود کے لیے جان لفظ سن کر غزان کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ ائی تھی – او لیلی مجنوں اپنی عشق محبت کی ڈرامے بازیاں بعد میں کرنا پہلے نکالو جو کچھ ہے تم لوگوں کے پاس – ایک ڈاکو بولا تو دل روز فورا غزان سے دور ہوتی ان ڈاکوں کی طرف متوجہ ہوئی –
ہاں ہاں اپ لے لو اپ کو جو لینا ہے اپ لے لو بس اپ چلے جاؤ یہاں سے – یہ یہ سونے کی چین ہے یہ لے لو یہ رنگ بھی سونے کی ہے یہ یہ اس میں ڈائمنڈ بھی ہے یہ لے لو سب لے لو لیکن پلیز چلے جاؤ – دل روز اپنے گلے سے سونے کی چین اور ہاتھ سے انگوٹھی اتار کر انہیں دیتی بولی جب کہ حماد کے دل کو کچھ ہوا تھا اس کے یوں چین اور انگوٹھی اتار کر دینے پر کیونکہ وہ چین حماد نے اسے گفٹ کی تھی اور وہ انگوٹھی ان دونوں کی منگنی کی انگوٹھی تھی جسے دل روز بنا حماد کی فیلنگز اور محبت کی پرواہ کیے غزان پر وار رہی تھی –
یہ سب دیکھتے حماد کی انکھوں میں خود بخود انسو اگئے تھے – اسے پتہ چل رہا تھا کہ اصل تکلیف کسے کہتے ہیں کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی تکلیف یہی ہے کہ آپ کا محبوب اپ کے سامنے اپنے محبوب کی خاطر خود کو بھی اس پر وار دینے کے لیے تیار ہو اور اپ دور کھڑے اپنی یک طرفہ محبت کا درد سہتے رہیں – وہ دونوں ڈاکو دل روز سے چین اور انگوٹھی لے کر وہاں سے چلے گئے تھے جبکہ ان کے جاتے ہی دل روز واپس غزان کی طرف پلٹتی اس کا چہرہ اور اس کے بازو چھو کر دیکھنے لگی کہ کہیں اسے کہیں پر چوٹ تو نہیں لگی –
دل میں بالکل ٹھیک ہوں کیوں فکر کر رہی ہو ؟ اور تم یہاں پر اس وقت کیسے ؟؟ یوں سامنے آتے ہیں کسی کے ؟؟ اگر تمہیں لگ جاتی تو ؟؟ کیا ضرورت تھی تمہیں یوں ڈاکوؤں کے سامنے انے کی –
غزان دل روز کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتا بولا جب کہ اس کے سوال پر دل روز جو غزان کی فکر میں سب کچھ بھولے بیٹھی تھی اسے اچانک سے یاد ایا کہ وہ تو یہاں حماد کے ساتھ تھی اور وہ غزان کی فکر کیوں کر رہی تھی یہ سب یاد اتے وہ ایک دم غزان سے دور ہٹی تھی –
اس نے چہرہ مورے دیکھا تو حماد وہیں کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا – بنا غزن کی بات کا جواب دیے وہ حماد کی طرف بڑھنے لگی مگر غزان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا – کہاں جا رہی ہو ؟؟ چلو میرے ساتھ میں ابھی گھر ہی جا رہا ہوں –
غزان نے اسے کہا تو دل روز نے اپنے دوسرے ہاتھ کا استعمال کرتے غزان کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڈایا تھا – کسی کو فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے اپ کو بس موقع ہی ایسا تھا کہ مجھے اس طرح سے بیہیو کرنا پڑا کیونکہ آپ کی ماں آپ کا انتظار کر رہی ہے – اسے آپ سے محبت ہے اور میں تائی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی –
اس سب کو دیکھتے یہ مت سوچیے گا کہ میں نے اپ کو معاف کر دیا ہے – میں اب بھی اپ سے نفرت کرتی ہوں اور کرتی رہوں گی – رہی بات گھر جانے کی تو واپس گھر بھی میں حماد کے ساتھ ہی جاؤں گی مجھے اپ کے ساتھ سفر کرنے کا کوئی شوق نہیں – دل روز اسے کہتی ہوئی حمادکی طرف بڑھ گئی جبکہ غزان کے چہرے پر اس کی باتوں سے درد بھری مسکراہٹ پھیلی تھی –
اگر نفرت کرتی ہو تو پھر یہ سب کچھ کیا تھا کیوں میری فکر ہو رہی تھی تمہیں یہ سب تو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمہیں ابھی بھی مجھ سے محبت ہے – غزان نے اس کے پیچھے سے اونچی اواز میں کہا تو دل روز کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی لیکن اس نے پلٹ کر غزان کو نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کی بات کا جواب دیا –
دل حماد کے ساتھ اس کی گاڑی کی طرف بڑھتے گاڑی میں بیٹھ گئی جبکہ حماد خاموشی سے بنا اسے کوئی طعنہ دیے اسے کوئی بات کہے نارملی بیہیو کرتا گاڑی میں بیٹھتا گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا اور دوسری طرف غزان بھی اپنے اندر کی تکلیف کو سہتا اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا –
##################################
اج دل روز اور حماد کی مہندی کی رسم تھی اور پورے ملک ولا میں ہلچل مجی ہوئی تھی – مہمانوں کے ساتھ ائے ہوئے بچے ادھر ادھر بھاگتے کھیلتے ہوئے شور مچا رہے تھے جبکہ اور بڑی عمر کی عورتیں گلی محلوں کی چغلیوں میں مصروف تھیں – میک اپ کی شوقین تیار ہونے میں مگن تھی اور ہر طرف شور و گل تھا –
اسی شور شرابے میں کہیں سے اپنی گم ہوئی لپسٹک کے بارے میں پوچھتی عورت کی اواز اتی تو کہیں اپنے بچوں کو ڈانٹتی ہوئی ماں کی اواز گونجتی – کہیں کوئی مرد اپنی بیوی سے اپنے جوتوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا تو کہیں کنوارے لڑکوں کی مائیں انہیں ڈانٹتی ہوئی تیار ہونے کا کہہ رہی تھیں – عرض یہ کہ پورے ملک والا میں اس وقت مچھلی منڈی کا ماحول بنا ہوا تھا –
وہیں اگر ہم دل روز کے کمرے میں جائیں تو وہ شیشے کے سامنے بیٹھی تھی – پالر والی اسے تیار کر جے جا چکی تھی اور وہ پارلر والی کے تیار کرنے کے بعد نظر انے والا اپنے چہرے کا عکس شیشے میں دیکھ رہی تھی – اس کا میک اپ ہلکا ہلکا کیا گیا تھا کیونکہ مہندی کی نسبت سے دلہن لائٹ میک اپ میں اچھی لگتی ہے –
اس وقت ملٹی شیڈ لہنگا اور کلر کی کرتی پہنے موقع کی مناسبت سے لائٹ میک اپ کیے ہوئے وہ کسی حور پری سے کم نہیں لگ رہی تھی لیکن اس کی انکھوں کی چمک مدھم تھی –
اس کی انکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو ہونی چاہیے تھی – ہوتی بھی کیسے اس دن کے لیے اس نے کسی اور کے خواب سجائے تھے لیکن وہ کسی اور کے نام کی دلہن بننے جا رہی تھی تو پھر کیسے اس کی انکھوں میں چمک اور چہرے پر رونق ہوتی – ابھی وہ کمرے میں اکیلی تھی اس لیے اسے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ کی بھی ضرورت نہ تھی – مگر کچھ ہی دیر میں حماد لوگ بھی ان کی طرف ا رہے تھے کیونکہ مہندی کا فنکشن ایک ساتھ ہی ہونے والا تھا –
حماد لوگوں کے اتے ہی دل روز کو بھی باہر سٹیج پر لا کر بٹھا دیا جاتا اور پھر دل روز کو اپنے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجانی پڑتی – لہذا ابھی تو وہ اپنا وہ عکس دیکھ سکتی تھی جو حقیقت تھا کیونکہ یہاں اس کی جھوٹی مسکراہٹ دیکھنے والا کوئی نہیں تھا – ماشاءاللہ ماشاءاللہ اج تو میری بہن کا کوئی جواب نہیں کوئی بھی نہیں ٹکر دے پائے گا تمہیں اتنی پیاری لگ رہی ہو تم –
دانیال جو دل روز سے ملنے اس کی کمرے میں ایا تھا اسے تیار بیٹھا دیکھ فورا اپنے کرتے کی جیب سے پیسے نکالتا اس پر وارتے ہوئے اس کی تعریف کرتا بولا تو دل روز نے اپنی خالی نظریں اٹھائے اسے دیکھا تھا – ایک وہی تو تھا جو اسے سمجھتا تھا جس کے سامنے ہوتی بھی تو وہ اپنے چہرے پر بناوٹی مسکراہٹ نہیں لاتی تھی – کیا بات ہے دل روز کسی نے کچھ کہا ہے تمہیں ؟؟
مجھے بتاؤ کیا بات ہے ایسے اداس کیوں بیٹھی ہو ؟؟ دانیال فورا اس کی فکر کرتا اس کے پاس نیچے زمین پر بیٹھتا بولا – تو دل روز کی انکھوں میں خود بخود انسو اگئے میں کیسے کروں گی دانیال بھائی یہ شادی ؟؟
مجھ سے نہیں ہوگی میں کہتی تو تھی کہ میں یہ شادی کر لوں گی لیکن میری ابھی یہ حالت ہو رہی ہے حلانکہ اج تو مہندی ہے اور میرا دل کر رہا ہے میں کہیں دور چلی جاؤں چھپ جاؤں جہاں جا کر کم سے کم مجھے یہ شادی نہ کرنی پڑے –
مگر میں کیا کروں میں نے حامی بھی تو خود ہی بھری ہے شادی کے لیے مجھے تو کسی نے فورس بھی نہیں کیا لیکن یہ مجھ سے نہیں ہو پائے گا دانیال بھائی –
ایسے لگتا ہے جیسے ہی میرا نام کسی دوسرے کے نام کے ساتھ جڑے گا میرا دل پھٹ جائے گا دل روز مر جائے گی اسی وقت – دانیال بھائی میں کیا کروں کچھنہیں سمجھ آرہا – دل روز باقاعدہ ہچکیوں سے روتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپاتی دانیال سے بولی تو دانیال کو دل روز کی اور زیادہ فکر ہونے لگی –
ایسے نہیں کہتے بچہ شادی تو کرنی ہے نا حماد سے نہیں تو کسی اور سے اور اگر تمہیں نہیں شادی کرنی ہے تو تم بتاؤ مجھے – تمہارا بھائی ہے نہ سب کچھ سیٹ کرنے کے لیے لیکن یہ بات تم بھی جانتی ہو کہ حماد بہت اچھا لڑکا ہے اور وہ تمہیں بہت زیادہ خوش رکھے گا وہ کبھی تمہیں تمہارے ماضی کا طعنہ بھی نہیں دے گا –
باقی ابھی بھی وقت ہے اگر تم نہیں راضی شادی کے لیے تو تمہارا بھائی تمہارے ساتھ ہے – دانیال کھڑا ہوتا اس کے سر پر ہاتھ رکھتے بولا تو دانیال کے بھائی والا مان دینے پر دل روز کے اندر سکون اترا تھا – کم سے کم کوئی تو تھا جس کے سامنے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی تھی –
کاش میں کرسکتی مگر دانیال بھائی اب تو چاہے کچھ بھی ہو جائے مجھے یہ شادی کرنی ہے اور کسی کو دکھانا ہے کہ دل روز اسے کہیں پیچھے چھوڑ کر اب اگے بڑھ چکی ہے – دل روز نے پختہ لہجے میں کہا تو دانیال نے مسکراتے ہوئے تھمز اپ کا اشارہ کرتے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا –
اوئے تمہارا میک اپ کیوں نہیں خراب ہوا اتنا رونے کے باوجود – دانیال نے روز کے میک اپ کو جوں کا تو دیکھتے حیران ہوتے پوچھا تو دل دل روز دھیرے سے ہنس پڑی – واٹر پروف ہے بھائی اس لیے –
دل روز کے جواب پر دانیال نے ہونٹوں کو او کی صورت دی تھی – کچھ دیر وہ اور دل روز کے پاس بیٹھا اس کا موڈ ٹھیک کرتا رہا اور پھر مسرت بیگم ایوب ملک اور فریاد ملک دل روز کے کمرے میں ائے تھے تاکہ اسے باہر لے جا سکیں کیونکہ حماد لوگ بھی ا چکے تھے –
##################################
ارے یہ عزان کہاں ہے؟؟ شام سے نظر نہیں ارہا – ہے کوئی اسے فکر کہ گھر میں شادی ہے اور وہ بھی اس کی دل کی – مسرت بیگم جو شادی کے جھمیلوں کی وجہ سے الجھی پڑی تھی شام سے غزان کو گھر میں نہ دیکھ انہیں غزان پر بے حد غصہ آیا تو دانیال کے پاس جاتیں پوچھنے لگیں –
مجھے نہیں پتہ تائی امی اپ کو پتہ تو ہے کہ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے اور ویسے بھی اس کی اور میری اتنی کہاں بنتی ہے کہ وہ کہیں جاتے ہوئے مجھے بتا کر جائے – دانیال نے کندھے اچکاتے مسرت بیگم کو جواب دیا اور پھر سے مسکراتے ہوئے سٹیج کی جانب دیکھنے لگا جہاں دل روز اور حماد کی مہندی کی رسم جاری تھی – مہندی کا فنکشن گھر کے پچھلے لون میں ہی کیا جا رہا تھا –
پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے یہ لڑکا ؟؟ موبائل فون بھی اس کا اف ہے – مسرت بیگم کو غازان پر بے حد غصہ ارہا تھا اس کی اتنی لاپرواہی پر – دانیال کے جواب کو سن کر وہ منہ میں ہی بڑبڑاتیں پیچھے مڑیں تو انہیں غزان نظر ایا جو اسی طرف ا رہا تھا – وہ فورا غصے سے غزان کی طرف بڑھی تاکہ اس کی کلاس لے سکیں کہ کہاں تھااور یہ کیا حالت بنائی ہوئی تھی اس نے – تیار بھی نہیں ہوا تھا وہ –
وہ غصے سے تیزتیز چلتیں اس کے پاس جا ہی رہی تھیں مگر غزان کے چہرے پر نظر جاتے ہی ان کے قدم خود بخود اہستہ ہوئے تھے کیونکہ وہ ایک ماں تھی اور اپنے بیٹے کے چہرے پر پھیلا کرب دیکھ رہی تھیں جو دل روز کو حماد کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اس کے چہرے پر چھایا ہوا تھا –
اتنے دنوں سے غزان خود کو ان کے سامنے نارمل ظاہر کر رہا تھا لیکن اج خود بخود اس کے چہرے نے اپنے اندر کی اذیت کو خود پر واضح ہونے دیا تھا – سٹیج پر بیٹھی دل روز کی بھی اچانک نظر غزان پر پڑی تو اس کے دل کو کچھ ہوا تھا کیونکہ اس نے غزان کی ایسی حالت تو کبھی نہیں دیکھی تھی –
لیکن پھر خود کو پتھر ظاہر کرتی وہ اپنی نظریں پھیر گئی تھی اور اس کا نظریں پھیرنا غزان کے دل پر چھریاں چلا گیا تھا – اس بار تو غزان کے انسوؤں نے بھی اس کے ساتھ دغا کی تھی اور ایک ساتھ کئی انسو موتی کی صورت میں اس کی انکھ سے بہتے چلے گئے تھے جبکہ سے تھوڑا دور کھڑی اس کی ماں اس کی انکھوں سے گرتے آنسوں دیکھ ترپ اٹھی تھی –
جب اور وہاں کھڑا ہونا محال ہوا تو غزان فورا وہاں سے چلا گیا تھا اور اس کے پیچھے ہی مسرت بیگم بھی بھاگنے والے انداز میں گئی تھیں –
##################################
کیا ہو رہا ہے ڈئیر دانیال جی – دانیال کو اکیلا کھڑا دیکھ ورشہ فوراً اس کے پاس جاتی بولی تو دانیال نے اسے دیکھا تھا جو گرین کلر کی لونگ ویلوٹ کی فراک پہنے بال کھلے چھوڈے میک اپ سے پاک چہرے پر مسکراہٹ سجائےاسے دیکھ رہی تھی – کیوں تنگ کرتی ہو مجھے ؟؟
جاو فنگشن میں موجود عورتوں لڑکیوں کے بیچ بیٹھو پر میرے پاس نہ کھڑی ہو – دانیال نے چڑچڑے پن سےکہا تو ورشہ نے کچھ پل خاموشی سے اسے دیکھا – آپ کو پتا ہے دانیال اس وقت آپ پر ایک شعر بلکل فٹ بیٹھ رہا ہے اور وہ یہ کہ
نور ظلمات میں نہیں رہتا
دن کبھی رات میں نہیں رہتا
عشق کرنےمیں ایک خرابی ہے
حُسن اوقات میں نہیں رہتا
ورشہ نے شعر پڑھا تو اس بار دانیال کو چپ لگی تھی – جو بھی ہو پر مجھے کوئی شوق نہیں تم سے بات کرنے اور محبت کی پینگیں چڑھانے کا – دانیال نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا تو ورشہ نہ اسے گھورا –
میں نےکہا کہ تم مجھ سےمحبت کی پینگیں چڑھاو – ورشہ نے لڑاکا عورتوں کی طرح پوچھا تو دانیال نے بھی اسے گھورا – پہلے تو تم یہ بتاو کہ تم مجھے کبھی آپ اور کبھی تم کیوں کہتی ہو ؟؟ ایک قول رکھو یاں تو اپ یاں تو تم – دانیال کے سوال پر ورشہ ہسی تھی – وہ تو جب پیارے لگتے ہیں تو اپ کہتی ہوں اور جب غصہ اتا ہے اور زہر لگتے ہیں تو تم کہتی ہوں –
ورشہ نے اپ اور تم کا کونسپٹ بتایا تو دانیال اس کے کونسپٹ پر قربان ہوا تھا – واہ صدقے تمہارے – دانیال نے کہا تو ورشہ نے جھکتے ہوئے باقاعدہ داد وصول کی – جاو اب کسی عورت کے پاس بیٹھو مجھے بھی بہت کام ہیں –
دانیال اسے کہتا جانے لگا تو ورشہ نے اسے روکا – ہر وقت اگنور کرتے ہیں نہ مجھے تو میری ایک بات سن لیں پھر چلے جانا – ورشہ نے کہا تو دانیال نے اسے بولنے کا اشارہ کیا جس پر ورشہ نے گلہ کھنگارا – –
میرا معیار نہیں ملتا میں آوارہ نہیں پھرتا
مجھے سوچ کر کھونا میں دوبارہ نہیں ملتا
ورشہ کے شعر پر دانیال نے محض اسے گھورا تھا مگر کون جانتا تھاکہ واقع وہ ورشہ کو کھونے والا تھا –