راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

ارمغان عالم کے چہرے پہ مسکراہٹ لانے والی پہلی لڑکی تھی وہ دن اُسے آج بھی نہیں بھولتا تھا جب پہلی دفعہ وہ لڑکی اپنی معصومیت کی وجہ سے اس کے سنجیدہ چہرے پہ مسکراہٹ بکھیر گئی ۔۔
یہ آج سے تقریباً چار پانچ سال پہلے کی بات تھی جب وہ نیا نیا آرمی میں بھرتی ہوا تھا اس وقت وہ چھوٹے رینک کا سپاہی تھا ان دنوں وہ ایک اے _پی _ایس سکول کے باہر ڈیوٹی پہ تھا۔۔۔
یہ کالج آرمی آفیسر کی جانب سے خواتین کا ادارہ تھا جہاں بڑے بڑے آفیسر کی صاحبزادیاں زیرِ تعلیم تھیں
چلچلاتی گرمیوں کے دن تھے سورج مکمل اپنے جوبن پہ تھا وہ دھوپ میں کھڑا لڑکیوں کے کالج سے فاصلے پہ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا کیونکہ بڑھتے کرائم کے پیشِ نظر یہاں واردتیں بڑھتی جا رہی تھیں کئی نوجوان لڑکیاں غائب ہو چکی تھی لڑکیوں کو غائب کروا کہ آفیسر کو بلیک میل کیا جاتا ۔۔۔۔۔”
اس لیے حفاظت کےلیے یہاں آرمی کی اک بھاری نفری مقرر کی گئی جو تقربیاً کئی اے ۔۔پی ۔۔ایس سکول اور کالجوں سے کچھ فاصلوں پہ مقرر کی گئی ۔۔۔”
کالج سے چھٹی ہوئی تو سب لڑکیاں آرمی وین پہ ڈرائیور پہ بیٹھ کہ روانہ ہو رہی تھیں ایمن فاروقی باہر نکلی تو اس کا ڈرائیور ہمیشہ کی طرح غائب تھا چوکیدار نے اسے باہر جانے سے منع کیا لیکن وہ اپنی ضدی طبعیت کے برعکس ان سے لڑتی جھگڑتی گیٹ سے باہر نکلی تھی
تو درختوں کے نیچے بیٹھے دو اوباش لڑکے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔”
اے قاتل حسنیہ _____”
لونگ ڈرائیو پہ چلو گی _____” وہ لڑکے دانت نکالتے اسے دیکھ کہ بلند آواز میں چھیڑنے لگے وہ بظاہر تو بہادر بنتی ان کو آنکھیں نکال کہ آگے جانے لگی مگر دل ہی دل میں ڈرتی تیز تیز چلنے لگی وہ بہت خوفزدہ ہوگئی تھی وہ ابھی مزید خوفزدہ ہوکہ بھاگتی جب اس کی نظر ایک آرمی آفیسر والے پڑی جس کی اس کی جانب پشت تھی امید کا دامن تھامے وہ خوشی سے اسکی جانب بڑھ گئی ۔۔۔”
بات سنیں ___؟ اس نے اس لڑکے کو مخاطب کیا جو آرمی یونیفارم میں ملبوس تھا شکل سے وہ اکیس بائیس سال کا لگ رہا تھا ۔۔
جی فرمائیے ۔۔۔۔صنف نازک کی باریک سی آواز پہ کپٹن ارمغان عالم نے مڑتے سنجیدگی سے پوچھا____”
وہ وہاں لڑکے مجھے تنگ کر رہے تھے ۔۔۔سرخ و سفید چہرے والی لڑکی کالج یونیفارم پہنے ہاتھ میں کچھ کتابیں پکڑے سر پہ بلیک حجاب اوڑھے وہ لڑکی کپٹن ارمغان کو کچھ گبھرائی سی لگی جو شکل سے محض سترہ اٹھارہ سال کی معلوم ہو رہی تھی ____”
تو میں کیا کروں محترمہ ۔۔۔؟ اس نے کندھے اچکاتے اجنیبت سے کہا ___”
تو بات بالکل سمپل سی ہے میں اس قوم کی عزت ہوں اور آپ محافظ ___” جائیں اور ان لڑکوں کے ہوش ٹھکانے لگا کہ آئیں ___”
اس کی پٹر پٹر سنتے ہلکے سے مسکراتا ان لڑکوں کی جانب بڑھا تھا جس نے اس نے اس محافظ کی قوم کی عزت کو چھیڑا تھا وہ اس کی بتائی گئی جگہ پہ گیا تو وہاں کوئی نہیں تھا ___” وہ جان گیا تھا کہ کہ وہ محض اوباش لڑکے لڑکیوں کو متاثر کرنے یہ سب کچھ کرتے تھے___”
پیچھے کھڑی ایمن فاروقی اس شہزداے کو مسکرا کہ اس کو دیکھنے لگ پڑی ____”
اب کیا مسئلہ ہے آپکو محترمہ ____”
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو جہاں وہ اسے چھوڑ کہ گیا وہاں سے کچھ دور گھنے سایہ دار درخت کی نیچے کھڑا پایا تو آہستہ آہستہ سے چلتا وہ بھی درخت کے سائے کے نیچے کھڑا ہوتے بھاری و سنجیدہ آواز سے اُسے مخاطب کیا____”
پہلے تو آپ یہ اپنی آفیسری کا روعب مجھ پہ مت جھاڑیں اور کان کھول کہ سن لیں ایمن فاروقی نام ہے میرا محترمہ نہیں ____”
اور دوسری بات ہم پیشے کے لحاظ سے جدی پشتی فوجی ہیں اور آپ ایسے رئیکٹ کر رہے ہیں جیسے میں نے پہلی بار آرمی آفیسر کو دیکھا ہے اور دوسری بات مجھے ذرا اپنا سیل دیجئے گا میں نے کال کرنی ہے ____”
وہ آنکھیں جھپکا کہ بولتی اس کی بولتی بند کرنے کی خاطر بولی مگر وہ بھول گئی کہ اس کے مقابل بھی آرمی آفیسر کھڑا ہے ۔۔۔”
سوری محترمہ ۔۔۔یوں ڈیوٹی کے دوارن فون استعمال کرنا آلاؤ نہیں ہے ___” آپ کو اگر کوئی مسئلہ ہے تو آپ واپس اپنے کالج جائیں اور ان سے رابطہ کریں ___”
آپ بھول رہے ہیں کپٹن میں اس قوم کی عزت ہوں اور آپ محافظ ۔۔۔۔” اپنے مصنوعی آنسوؤں کو رومال سے صاف کرتے اس نے پھر سے یاد دہانی کروائی ایک قسم کا ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا ____”
آپ یوں مجھے بلیک میل نہیں کرسکتی ____” مجھے علم ہے میں محافظ ہوں اس قوم کا مگر آپ کا نہیں پتہ ۔۔کیا پتہ آپ کا تعلق طا”لبان گروپ سے ہو اور آپ کسی بڑے گینگ کے ساتھ ملی ہوئی ہوں اور کیا پتہ مجھے اکیلا دیکھ کہ لوٹنا چاہ رہی ہوں ____” وہ کیپ کو سر پہ رکھتے اپنی ازلی سنجیدگی سے جان بوجھ کہ بولا حالانکہ با زیرک آفیسر تھا پل میں مجرم کو جان جاتا تھا
واٹ ۔۔۔۔۔۔۔” میں معصوم شکل سی آپ کو د۔۔ہشت گر “د نظر آ رہی ہوں____” حیرت و صدمے کی زیادتی سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ___”
معذرت محترمہ ۔۔۔۔ مگر فوجی شکلوں سے دھوکا نہیں کھاتے ۔۔۔” آر پار سڑکوں پہ نگاہ ڈواڑتے اس نے بھنویں اچکا کہ کہا۔۔۔۔”
پھر تو آپ کھانا بھی منہ دھو کہ نہیں کھاتے ہوں گے ۔۔۔ایسے ہی گندی شکل سے کھالیتے ہوں گے ۔۔۔۔”
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپاتے سنجیدگی سے بولتی ارمغان عالم کو لاجواب کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔”
اس سے بہتر ہیں کہ آپ کال کرلیں___” اس سے پہلے وہ اس کو دیکھ مزید گوہر افشانی کرتی کہ لب بھنچتے ارمغان عالم نے اکتاہٹ سے اپنی پاکٹ سے نوکیا کا فون نکال کہ اس کی جانب کیا ۔۔۔”
ویسے شکل سے آپ اتنے غریب لگتے تو نہیں ہیں۔۔۔” وہ فون لیتے اچھی خاصی دیر چھوٹے سے بٹنوں والے فون کو الٹ پلٹ کرتے ٹیڑھے میڑھے منہ کے زوایے بناتے ہوئے بولی ۔۔۔”
آپ ایسا کریں یہ فون مجھے دیں اور یہاں سے چلتی بنیں میرا دماغ مت کھائیں ۔۔۔” مسلسل اس کو بولتا دیکھ کہ وہ تنگ ہی تو آگیا۔۔۔”
نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے دراصل مجھے یہ چلانا نہیں آتا ۔۔۔۔۔” ایمن فاروقی اب کی بار کچھ جھجھکتے ہوئے بولی____”
پتہ نہیں کس سیارے پہ رہ رہی ہیں آپ ۔۔۔۔” باتیں تو آپ بہت بڑی بڑی کررہی ہیں چلانا آپ کو یہ چھاٹا سا فون نہیں آرہا ۔۔۔
ادھر دیں مجھے ۔۔۔۔اس سے فون لیتے جنجھلائٹ سے بولا پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ اس کی پٹر پٹر بولتی سن کہ تھک گیا تھا ۔۔”
اس تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ میں نہیں آپ سیارے پہ رہے ہیں ____” جن کے پاس یہ چھوٹا سا بٹنوں والا فون ہے میں تو لیٹسٹ آئی فون یوز کرتی ہوں ۔۔۔یہ بات آپ ذہن نشین کرلیں ۔۔۔۔”
محترمہ یہ چھوٹا سا فون آپ کے محافظوں کی جاب کا حصہ ہے ہم یہاں ڈیوٹی کےلیے کھڑے ہوتے ہیں ناکہ سلفیاں لینے کےیے ۔۔۔سو اسی پہ گزارہ کریں ۔۔۔”
کچھ دیر کے بعد ایمن فاروقی نے نمبر ڈائل کروایا تو اس کے فون پہ کپٹن فاروق کے نام سے وہ نمبر شو ہوا تھا ۔۔۔” اس کے دماغ میں جلدی سے کلک ہوا لمحے ہزروایں حصے میں وہ پہچان گیا کہ یہ کپٹن فاروق کی صاحبزادی ہے۔۔
آفیسر ______” انکل مجھے لینے کےلیے آگئے ہیں آپ کا شکریہ میری مدد کےلیے ۔۔۔” وہ ابھی کال کےلیے بٹن پریس کرتا جب ایمن فاروقی اس کا شکریہ ادا کرتی کالج کے سامنے کھڑی کرولا کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔”
آپ کا بھی شکریہ۔۔۔۔میرا ٹائم ویسٹ کرنے کےلیے ۔۔۔۔ ” وہ نفی میں سر ہلاتا دل ہی دل میں مخاطب ہوا ر” ائفل ساتھ لٹکائے وہ مٹر گشت کرنے لگا۔۔۔ “
قہر برستی گرمی میں بھاری وردی اور بوٹ پہنے ۔۔۔وردی کی بقا کی سلامتی ملک و قوم کی عزت و نفوس کےلیے پرُ آسائش زندگی کیا سانسیں تک چھوڑنی پڑھتی ہیں ان کےلیے یہ زندگی نہیں موت ہے نفس امارہ کی موت۔۔۔۔”
مشن کے دوارن اپنے آخری سفر کی طرف روانہ ہونے سے کچھ دیر قبل کپٹن ضیاء مصطفیٰ کے الفاظ اس کے ذہن کے پردوں کے تخیل گونجے تھے اور ان چار پانچ سالوں کےصفر میں وہ الفاظ اسے آج تک حفظ تھے …
معرفت الہی کا مقام پانے کےلیے وطن کے مجائدوں کو ہر قسم کی ریاضیتوں سے گزرنا پڑتا ہے طبعی موت اور نفس امارہ کی مو”ت میں زمین آسمان کا فرق ہے کپٹن
طبعی مو” ت میں محض انسان کے جسم اور روح کا تعلق ٹوٹتا ہے ایک مجائد جب سینہ چھلنی کروا کہ وطن کی بقا کےلیے مر”تا ہے تو سانسیں دم توڑتی ہیں اور دل دھڑکنا بند ہوجاتا ہے ان کی روح عالمِ ارواح کی جانب پرواز کر جاتی ہیں ایسے سپائیوں کو شہیدِ کا نام دیا جاتا ہے
دوسری موت نفسِ امارہ کی مو “ت ہے جو سپائیوں کے نزدیک اصل موت ہے ایک مجائد جب دنیا کی آرائشوں سے بیگانہ ہو کر اپنے دل کی خواہش کو مارتا ہے ایک مجائد بس دنیاوی زندگی سے اتنا ہی واسطہ رکھتا ہے کہ بس جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے ۔۔۔۔ تو اسے غازی کے نام سے جاناجاتا ہے پھر ان میں شہیدوں اور غازیوں میں فرق نہیں رہتا کپٹن ۔۔۔”
اصل اور مشکل مو” ت نفسِ امارہ کی موت ہے یہ مو”ت قسمت والوں کو ملتی ہے کپٹن ۔۔۔۔۔” اور ان الفاظ میں کپٹن ارمغان عالم بالکل ڈوب کہ رہ گیا تھا اس کے بعد وہ اپنی زندگی بھول ہی گیا تھا۔۔
*******
کچھ لوگ ہمیں بلا نہیں رہے مقصد جان سکتا ہوں ۔۔۔۔” مانی ماں کو دیکھ کہ کہتا دانت نکالتا بولا جو پچھلے دو دن سے اسے بلا تک نہیں رہی تھی اور وہ بھی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا انھیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔۔۔۔”
علیزے اسے کہو یہ میری نظروں سے اوجھل ہو جائے ۔۔۔ ” اماں کروٹ بدلتیں منہ پھیر کہ انگلی سے اس کی جانب اشارہ کرتی ناراضگی سے بولیں ۔۔۔۔جب سے انھوں نے اس کے کرتوت دیکھے تھے تب سے وہ اس سے کافی دلبرداشتہ تھیں ۔۔۔ “
اماں وہ خود سن رہا ہے اگر اس میں شرم ہوتی تو اٹھ جاتا نہ ۔۔ اور دوسری بات بہرہ ہوتا تو اشاروں کنایوں میں بتا دیتی ۔۔۔” وہ آٹا گوندھتے سنجیدگی سے بولی ۔۔۔”
تم اپنی زبان بند رکھو بل بتھوڑی ۔۔۔۔۔” ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا اور میں اپنی اماں سے بات کر رہا ہوں ____” وہ اسے دھمکی دیتا اب اماں کے پاس چرپائی پہ ان کے پاؤں کی جانب بیٹھتا ہوا بولا ۔۔۔”
اماں آپ دشمنوں کی باتوں پہ یقین مت کیا کریں ۔۔۔لوگ تو آپ کو مجھ سے بدظن کرنے کی بھرپور کوشش میں لگے ہوئے ہیں لوگ تو ماں اور بیٹے کے مثالی پیار کو دیکھ کہ اپنی جلن نکالے بغیر نہیں رہ سکتے ____” اسے لگا کہ علیزہ نے اس کے کرتوت اماں کو بتائیں ہیں
الوُ کے پٹھے اب باپ دشمن بن گیا ہے ۔۔۔۔” اندر بجلی کے بورڈ کو ٹھیک کرتے ماسٹر صاحب اس کی بات سنتے اندر سے ہی مصروف سے بلند آواز میں بولے ۔۔۔”
ا۔۔۔۔۔ابا آ۔۔آپ کو کیسے پتہ چلا ابا کی بھاری گرجدار آواز سنتے اس کے تو ہوش اڑ گئے وہ تو سمجھا کہ ابا گھر میں موجود ہی نہیں ہیں اب اسے پتہ چلا تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے یعنی اس کے کرتوت ابا نے بھی دیکھ لیے تھے ۔۔
مجھے تم سے یہ امید نہیں مانی ۔۔۔۔اماں آنکھوں پہ پڑے ڈوپٹے کو پیچھے کرتیں غم و غصے سے بولیں___”
بیگم اس سے امیدیں باندھنا چھوڑ دو یہ بس ہمارے سروں میں خاک ہی ڈالے گا۔۔۔۔ایک بار پھر سے ابا کی جنجھلائٹ سے بھرپور آواز آئی ___”
ہائے یہ سب تو ایسے رئیکٹ کر رہے ہیں ایسے لگ رہا ہے جیسے میں ان کی مظلوم بہو ہوں جیسے میرے سات آٹھ بچے ہیں اور میں پھر امید سے ہو گئی ہوں ___” وہ پہلو بدلتا صرف بڑ بڑا ہی سکا اونچے کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی ___”
اونچا کہتا تو اب تک گلی کے کونے سے نکل گیا ۔۔۔۔یہ اس کے بچپن کی عادت تھی جیسے ہی ابا جوتا اتارتے وہ مین گیٹ سے باہر ہوتا ۔۔۔۔”
اماں آخری دفعہ معاف کر دیں ___اس کے بعد ایسی حرکت نہیں ہوگی ____آنکھوں میں چور رکھے وہ جھوٹی تسلی ماں کو دیتا ہوا بولا___”
(صبحت صالح ترا صالح کُند __صحبت طالع ترا طالع کند)
اچھے صبحت تجھے نیک اور بری صحبت تجھے برا بنائے گی ۔۔۔۔”
اندر سے نکلتے ماسٹر صاحب نے آج پہلی دفعہ معمول سے ہٹ کہ کچھ نرم لہجے سے کہا اور پھر ٹوپی سر پہ پہنتے مسجد جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے__”
تم دفعہ ایسی حرکتیں کرتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ یہ آخری دفعہ ہے __” وہ اسے دانت نکالتے دیکھ کہ پھر سے بولیں __”
بس علیزے آج اسے کھانا مت دینا ۔۔۔۔کھائیں اپنے آوارہ دوستوں کے پاس سے ___” مانی ان کی بات سنتا ڈھیٹوں کی ہنستا اٹھ کہ چھت کی جانب بڑھ گیا___”
****
تائی نورِ حرم گھر ہی ہے____؟
.
وہ سیٹرھیاں چڑتا چھت پہ جا رہا تھا جب ان کے گھر میں جھانکے بغیر نہ رہ سکا ساڑھے سات بجے کا وقت تھا تائی اماں صحن میں بیٹھیں تسبیح پہ کچھ ورد کر رہی تھیں ___”
دیکھو بیٹا ____” اسطرح پکارنا بہت معیوب ہے ایسے اونچی آواز میں مت بلایا کرو اور نہ یوں جھانکا کرو ۔۔۔۔”
اس کی آواز دھیمی تھی مگر پھر بھی وہ ٹوکے بغیر نہ رہ سکیں حالانکہ ان کے گھر کی اونچی فصلیں تھیں کوئی نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ جھانک کہ خبر گیری رکھ سکتا تھا ____”
تائی امی ____” میں بس یہ یہ پوچھنا تھا کہ سالن کیا بنا ہے ___؟
اپنی گھٹیا طبعیت کے برعکس تائی کو دیکھتا وہ تمیز دکھانے لگا____”
ایک چائے والا ادھار ہی بہت ہے اب میں سالن نہیں کا کوئی ادھار نہیں رکھوں گی یہ بات کان کھول کہ سن لو ۔۔۔۔کچن میں کھانا بنانے کے ساتھ بچوں کے ٹیسٹ کرتی نورِ حرم باہر نکل آئی ۔۔۔”
تائی ___اماں نے آج کھانے کا بائیکاٹ کر دیا ہے تو لہذا اپنی بیٹی سے کہیے کہ میں یہاں پہ بیٹھا ہوا ہوں مجھے دو روٹیاں اور سالن جو بھی ہے دے کہ جائے ۔۔۔” حکمانہ انداز میں کہتے وہ ان کی پہلی سیٹرھی پہ ہی آکہ بیٹھ گیا ___”
اماں اسے کہیے _____” میں اسکی ملازمہ نہیں ہوں۔۔نورِ حرم سالن کی ڈوئی سے اس کی جانب اشارہ کرتی چڑ کہ بولی ۔۔۔”
تائی اماں اسے کہیے کہ میں اسکا شوہر ہوں ___” اور شوہر کی عزت کرنا مسلمان بیوی پہ فرض ہے ۔۔۔۔۔”
وہ بھی بلند آواز میں کہتا لڑاکا عورتوں کی طرح اس کی جانب اشارہ کرتا ہوا بولا___”
مانی اگر کھانا کھانا ہے تو نیچے آجاؤ بچے__” اور تم جاؤ اس کےلیے دو روٹی بنالو گی تو گھٹ نہیں جاؤ گی انسان کا جہاں دانہ پانی لکھا ہے وہ اللہ نے پہلے ہی مقرر کر رکھا ہے یہ بس اس کا نصیب اسے یہاں لے کہ آیا ہے فضول باتیں مت کرو اور جاؤ اس کےلیے کھانا بناؤ ___” انھوں نے اسے ٹوک کہ تھوڑی سی سختی سے کہا تھا
دیکھو یہ ہوتے ہیں ادب و آدب اور تمیز ارے میں کہتا ہوں کچھ سیکھ لو ان سے ۔۔۔۔۔”
وہ ٹیڑھے میڑھے منہ بناتی کچن میں جانے لگی __” جب سیڑھی اترتے مانی آنکھوں میں فتح کی سرشاری رکھتے ہوئے بولا __”
کچھ دیر سیڑھیاں عبور کرتے وہ تائی اماں کے سامنے ساتھ والی چرپائی پہ جابیٹھا ۔۔۔۔” پھر دس منٹ بعد پانی کے بہانے سے اٹھتا کچن میں جاگھسا____”
کتنی سست ہو تم مسسز___” دس منٹ ہوگئے ہیں اور تمھارا ابھی چولہا گرم نہیں ہوا ___” وہ جب کچن میں پہنچا تو وہ پیڑے بناتے ساتھ اسے برے برے لقب سے نواز رہی تھی وہ ڈھیٹ مسکراہٹ لیے دروازے میں ہی جم گیا___”
تمھاری وجہ سے مجھے پھر سے روٹیاں بنانی پڑ رہی ہیں زندگی عذاب کہ رکھ دی ہے تم نے میری ____” گیس آن کرتی وہ بازؤں کی آستنیوں سے منہ صاف کر رہی تھی
ویسے تمھیں ذرا شرم نہیں آتی ذرا سا چاچی پہ رحم کر لیا کرو پرسرں میں گئی تھی میں نے چاچی کو بہت پریشان حال دیکھا وہ صرف اور صرف تمھاری وجہ سے رو رہی تھیں اور چاچو کو بھی میں نے بہت فکرمند ہوتے دیکھا ہے تمھارے لیے” چاچو چاہتے ہیں کہ تم بس بدل جاؤ اور انھیں رزقِ حال کما کہ کھلاؤ اور تو وہ کچھ بھی نہیں چاہتے __ ” وہ پیڑھے بناتی اس کی طبعیت صاف کرنے کی خاطر بڑی بزرگوں کی طرح بولی ۔۔۔۔”
اور ان سب کےلیے مجھے کیا کرنا ہوگا ____؟ مانی بظاہر تو سنجیدہ تھا مگر آنکھوں میں واضح شرارت ناچ رہی تھی ____”
خود کو بدلنا ہوگا سیگریٹ” شر “اب جیسی لت چھوڑ دو
بے شک تم نیکیاں مت کرو مانی مگر برائی کو چھوڑ دو تو یقین مانو ۔۔۔۔۔نیکیاں خود تمھیں ڈھونڈ لیں گی ___” وہ اب روٹی پہ دستر خوان کا چھوٹا سا کپڑا پریس کرتی اسے سمجھا رہی تھی ۔۔۔۔”
شراب پینے کی عادت تھی ۔۔۔ “
تم نے اپنی قسم دے کہ چھڑا دی
جب یاروں کی محفل میں بیٹھے
تو انھوں نے تمھاری قسم دے کہ پلا دی
وہ معنی خیزی سے شعر پڑھتا اس پہ یہ واضح کر چکا تھا کہ اس کے گھنٹہ بھر کہ لیکچر کا کوئی اثر نہیں ہونا اس لیے وہ اپنی انرجی ضائع مت کرے ۔۔۔۔” شعر کا حوالہ دے کہ سارا الزام اس پہ انڈیلا گیا
جیسے تم ہو ایسے ہی تمھارے گھٹیا یار ہیں ۔۔۔۔میری مت ماری گئی تھی سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی حالانکہ تمھارے کرتوتوں کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی یہ امید لگا لیتی ہوں کہ شاید تم سدھر جاؤ۔۔۔۔”
وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اسے اچھا غصہ دلا چکا تھا وہ سالن خود ڈال کے اس کے پاس سے روٹی اٹھا کہ پلیٹ میں رکھتا کرسی کو نزدیک کرتا کھانا کھانے لگا ۔۔۔۔”
میری زندگی کے کچھ شاہانہ اصول ہیں بیوی جن سے تم ناواقف ہو مسسز ____” وہ نوالہ منہ میں ڈالتے ایسا بولا جیسے نوبل پرائز اس نے جیتا ہو___”
تم رہنے دو میں بتاتی ہوں تمھیں تمھاری زندگی کے شاہانہ کرتوت____”
پہلا کرتوت سیگریٹ کےلیے نشئی دوستوں سے گریبان چاک کروانا ۔۔۔۔۔
دوسرا کرتوت مستقبل کا نشئی بننے کےلیے باپ کے پیسے چرانا۔۔۔
تیسرا کرتوت ہر روز مجھ سے چائے مانگ کہ پینا ___
چوتھا کرتوت لڑکیوں کو سیٹیاں مارنا ، پانچواں کرتوت باپ کی مار سے بچنے کےلیے دیوار کہ رستے گھر آنا ___”
وہ کچن صاف کرتی اس کے سارے عیب گنوا رہی تھی اور گریبان کا کالر بڑے فخریہ انداز میں جھاڑنے میں مصروف تھا ۔۔
چھٹا اور آخری کرتوت تو تم سرے سے بھول ہی گئی بیگم ۔۔۔۔۔” دانتوں کی نمائش کرتے ہنس کہ کہا گیا تھا ۔۔۔ “
کیوں کوئی رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔؟ وہ جو کچن سمیٹ چکی تھی حیرت سے مڑتی یہ کہتی باہر جانے لگی ___”
ہاں تمھاری رخصتی کروانے اور ننھے منھے بچوں کا حصول ۔۔۔۔۔” بڑی ترنگ سے کہتے اسے روکنے کی خاطر بولا اور وہ رک بھی گئی تھی ۔۔”
کاش ایک قت”ل معاف ہوتا تو میری زندگی کی بھی پہلی اور آخری خواہش پوری ہو جاتی ___” اس نے غصے سے کہتے خود پہ کنڑول پاتے بمشکل کہا ورنہ دل تو کر رہا تھا کہ چھر”ی اٹھا کہ اس کے سینے میں گھو”نپ دے ___”
ویسے سنا ہے رات کو چائے پینے سے انسان کی زندگی لمبی ہوتی ہے۔۔۔۔اس سے پھر سے نکلتے دیکھ کہ اس نے اپنی فلاسفی جھاڑی ۔۔۔۔۔”
نشئی انسان میں سب سمجھ رہی ہوں ____” اگر چائے کا اتنا ہی چسکا ہے تو بے شک سگریٹ کے سوٹے بھر لو مگر یہ بھول جاؤ کہ اب نورِ حرم تمھیں چائے بنا کہ دے گی ۔۔۔۔۔”
کھا کہ برتن سمیٹ کہ ایک منٹ کے اندر اندر چلتے نہ بنیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا____”وہ یہ کہتی کمرہ کی جانب بڑھ گئی جب کہ وہ چسکے لگاتا کھانا کھانے لگا ۔۔۔۔”
کچھ دیر بعد وہ خود چائے بنا کہ پی رہا تھا بس اسکی زندگی کھانا ، پینا ، سونا اور سوٹے ہی لگانا تھا۔۔۔
*******
مانی ایسے نہ کر____” مجھے واپس کر ___” جیدی اس پہ جھپٹتا اس سے سیگریٹ چھننے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ____”
یار ابا نے لے لیا سب کچھ ___”بس یہ مجھے دے دے ۔۔۔۔” پکا ادھار ہے میں تجھے لُٹا دوں گا____”
منہ پہ حد درجے مسکنیت طاری کرتے مانی نے کافی بیچارگی سے کہا___”
توُ ہر دفعہ ایسے ہی کہتا ہے ___” پھر دو ٹکے بھی تیرے پاس بھی نہیں ہوتے اور تو پھر چھین لیتا ہے___”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial