راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 11

چل فیقے چوان کے اڈے پہ چلتے ہیں وہاں پہ سوٹے لگانے میں مزہ بھی اے ون آئے گا___”
اوہ جگر توُ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی چل لیکن سیگریٹ تو میرے واپس کرے گا یہ بات بھولنا مت__”
ویسے تیرے لیے جو مہ تیار کر رکھی ہے اتنی تو توُ زندگی میں کبھی دیکھی بھی نہیں ہوگی
جیدی نے آگے پیچھے گزرتے لوگوں کو دیکھتے مشکوکانہ انداز میں ایک زور دار جھانپڑ مانی کی پشت پہ مارتے گویا اسے عید کے چاند کی نوید سنائی اور مانی کےلیے خبر تو عید کے چاند جیسی ہی تھی __”
اوئے ارسطو کی اولاد عظیم جلدی کر پہلیاں مت بجھوا ___ ” مانی بھی جواباً کندھے پہ ہاتھ رکھے سیگریٹ کے سوٹے لگاتا اس کے ساتھ چل دیا__”
پہلیاں نہیں بجھوا رہا میرے ساتھ چل تجھے سب پتہ چل رہا ہے نا تو سب پتہ چل جائے گا___”
تقربیاً پانچ منٹ بعد وہ وہاں پہنچے تو ان کے چچھورے دوست کی باچھیں چیرے انہی کے انتظار میں کھڑے تھے
بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے ___” محمود ترکھان نے قہقہ لگاتے اس کے گلے لگتے زور سے کہا تو باقی سب بھی دانت نکالے بغیر نہ رہ سکے ___”
بڑی بات ہے جگر توُ آگیا یہاں ___” ورنہ اس دن کی لڑائی کے بعد تو ہم نے امید ہی چھوڑ دی تھی زبیر پیچھے نہ رہ سکا اور ایک شوشہ چھوڑا ___”
وہ اس شب کی لڑائی والے واقع کا کہہ رپے تھے جس شب ان کے جھگڑے مانی نے سگریٹ کی وجہ سے ان سے ہاتھا پائی کی تھی وہ اندر ہی اندر جیدے کے اناڑی پن کو سرا رہے تھے کہ وہ کیسے چال میں پھنسا کہ اسے لے آیا تھا ورنہ جس طرح انھوں نے ایک دوسرے کو زخمی کیا تھا اس طرح تو انھوں نے ایک دوسرے سے ملنے کی امید ہی چھوڑ دی تھی ____”
چاچا ایک ہفتہ تیرے ہاتھوں کی چائے مطلب جمال گوٹا نہیں پیا اور ایسے لگتا ہے تیرے ہاتھوں کے جمال گھوٹے کو پیے کئی برس بیت گئے ذرا لے تو آ____” وہ آنکھ مارتا لوفرانہ انداز میں بولتا ان کو لیے اندر چلا گیا ___”
چل جیدے اب تیرا وعدہ نبھانے کا وقت آگیا ہے ___” مانی نے سگریٹ جیب سے نکال کہ سلگاتے سوٹے لگاتے بے تابی سے کہا __”
کونسا وعدہ اور کیسا وعدہ ___؟ بشیرے نے پر اسرار لہجہ لیے مانی کی طرف سوالیہ انداز سے دیکھتے محمود ترکھان اور ہنستے ہوئے جیدے کو پوچھا انھیں جیسے دال میں کچھ کالا لگا___”
ارے لسوڑوں کر لیا ہے اسے بھی اپنے کھیل میں
شامل __”
آج رات سے مانا بھی ہمارے ساتھ ہی بوہڑ والے درخت کے نیچے ہوگا سب کچھ بتا دیا ہے اسے میں نے اب سے یہ کتا بھی ہمارے ساتھ ہوگا تم لوگوں نے جواد عرف جیدے کو اتنا ہلکا سمجھ لیا تھا___” وہی پراسرارئیت اب مانے کے چہرے پہ بھی موجود تھی
وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اسے ٹرین کیا تیرا باپ کرے گا__؟ بشیرے نے موٹے موٹے ڈھیلے نکالتے اپنی شرابی آنکھوں سے مانی کو اوپر سے نیچے گھورتے جیدے کی آنکھوں کی میں آنکھیں ڈال کہ یہ پوچھتے اس کی کم عقلی پہ ماتم کیا__”
اور کچھ نہیں رکھوالی تو کرسکتا ہے ___” ٹرین تو آئستہ آئستہ وقت کے ساتھ ہی ہوگا یہ کمینہ بھڑوا انسان
چل رکھوالی کرنے والا کتا بھی تو ہونا چاہیے جو دشمن کو اپنے سامان کی طرف آتا دیکھ کہ بھونک کہ خبر دار تو کرسکے ___” اب کی محمود ترکھان نے ایک جانچتی نگاہ مانی جبکہ فخریہ جیدے کی طرف ڈورائی کمال ہی جس کا اس اس پلاننگ میں تھا پھر وہ داد تو دیے رہ نہیں سکتے نہ ___”
جیدے جس چیز کےلیے توُ مجھے یہاں گھسیٹ کہ لایا __” پہلے مجھے وہ انعام میں دے پھر ڈیل منظور کروں گا ___”
چل اوہ اس کےلیے ہڈی لے کہ آ__” دیکھ رالیں کیسے ٹپک رہیں ہیں اسکی __” جیدے نے کن اکھیوں سے دیکھتے بشیر کو کہا تو کچھ دیر بعد انھوں نے پہلی دفعہ بوتل مانی کو تھمائی تھی
مانی تو بڑی فتح کن نگاہ سے بوتل کو دیکھ رہا تھا__”
گویا یہ بوتل ہر جذبے ہر احساس سے بھاری اسکی زندگی کی واحد جمع پونجی تھی___”
اگلی بار دو ہوگی اگر تیرا کام اچھا ہوا تو____؟جیدے نے گویا لالچ دیتے اسے حقیقتا کتا مانتے پچکار کہ کہا تھا جو اب پریشانی سے بوتل کی جانب دیکھ رہا تھا___”
وہ تو بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی پر یہ گھر کیسے لے کہ جاؤں گا__” ابا نے دیکھ لیا تو کلیشن کوپ سے اڑ دے گے مجھے ___اب کی بار مسکینت سے کہتے پریشانی سے بوتل کی طرف دیکھ رہا تھا پڑیاں تو وہ جیب میں چھپاکہ لے جاتا تھا مگر اس اتنی بڑی بوتل کو کہاں لے کہ جاتا___”
اوہ جتنا ماسٹر صاحب سے ڈرے گا اتنا ہی وہ تو تجھے ڈرائیں گے اس لیے اپنے لہجے میں چھپی ساری بغاوت کو باہر لائے گا جتنا اپنی چڑھتی جوانی کے زور سے ان کے سامنے سینہ تن کہ کھڑا ہوگا وہ اتنا ہی پسپا ہوں گے مایوس ہو کہ مارنے چھوڑ دیں گے اور پھر کچھ کہنا بھی ترک کر دیں گے ____”
یہ صلاح بشیرے کی تھی جو لگ بھگ چونتیس پنتیس سال کے قریب تھا___”
یہ جتنی بڑی بڑی باتیں توُ کر رہا ہے نہ ___” ایک دن میرے گھر میں میری جگہ تو چلا جا چڑھتی جوانی کے زور نکلوا کہ جب ٹانگیں توڑوا کہ وہیل چئیر پہ میرے پاس آئے گا نہ ___”
پھر میں پوچھو گا بیٹا تجھ سے کہ میرے باپ نے تجھے پسپا کیا ہے یا توُ نے انھیں ___؟ وہ چین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے سگریٹ کے دوائیں کو فضا میں تحلیل ہوتے دیکھ کر کہا __”
اس کا مطلب ہے توُ ڈرتا ہے ماسٹر صاحب سے ؟ اس کی بات سن کہ بشیرے کے جسم میں سنسی ہوئی وہ کیسے بھول گیا تھا ماسٹر صاحب کی مار کو __” پانچ جماعتیں تو ان کے پاس ہی پڑی تھیں
اپنے باپ کو چھوڑ کہ میں کسی باپ سے بھی نہیں ڈرتا گیڈروں ___” یہ بات تم بھی جانتے ہو __” جوش سے بولتے مانی کا لہجہ آخر میں مدھم پڑا تو تینوں کے قہقے بے ساختہ تھا___”
چاچا فیقے کا جمال گوٹا آیا تو سارے چاۓ کی چسکیاں لگانے لگے جب کہ مانی اس سوچ میں تھا کہ وہ اپنا ہاتھ میں موجود اپنی زندگی کی واحد جمع پونجی کہاں چھپائے گا کچھ دیر بعد ممٹی کا سوچتے اس کا چہرے پہ ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ کا احاطہ لیے ہوئے تھے __”
(بیچارہ ماسٹر یہ سوچ کر جتنا اکڑ کہ چلتا ہے کہ بہت شریف النفس انسان ہے اور اولاد کو حلال کھلا کہ خود کو بہت طرم خان سممھتا ہے تین سال پہلے بڑا اکڑتا تھا کہ میرے بیٹے نےچودہ پاس کرلیں ہے چچ جتنا بھی پڑھا لیا بنا تو آخر نشئی نہ ___” بڑا آیا مجھے طعنے دینا والا اب اصل تباہی تو اس ماسٹر کی تب ہوگی جب مانی یہ پی پی کہ ماسٹر کا سر شرم سے جھکا دے گا)
محمود ترکھان مانی کے چہرے میں چھپی بے تابی کو دیکھتا دل میں کچھ سابقہ ادھار چکانے کا سوچ رہا تھا وہ لگ لگ پنتالیس پچاس سال کا شکل سے ایک شاطر مرد نظر آتا تھا__
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
اماں میں نے نہیں کہیں جانا آپکی اس ذلیل اولاد کے ساتھ ___” علیزے کو جب سے پتہ چلا تھا کہ ابا نے مارکیٹ جانے اسے مانی کے ساتھ جانے کا کہا وہ تب سے واویلا کیے جا رہی تھی __”
تھکی تھکی زندگی کی سبک روی سے چلتی اس زندگی میں کچھ دن پہلے اس کا رشتہ طے پایا اتوار کو نکاح کی تقربی تھی لڑکا ماسٹر صاحب کے دوست کا بیٹا تھا ماسٹر صاحب کو لڑکا خوب سیرت ، نیک عادات و اطوار کا مالک لگا تو انھوں نے مثبت جواب کہنے میں دیر نہ لگائی وہ پبلک کمپنی کی کسی فرم میں اکاونٹنٹ تھا لڑکے والوں کو بھی علیزے بہت پسند آئی اس لیے جلد ہی آناً فاناً جلد ہی نکاح طے کر دیا گیا ماسٹر صاحب نے فون کرکے خصوصاً اپنے بڑے صاحبزادے سے پوچھا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے اپنی بہن کے رشتہ کے رضا مندی کا عندیہ زہر کیا لیکن فنکشن پہ نہ آنے پہ اپنی مصروفیت کا بتایا تو ماسٹر صاحب سمجھ گئے تھے اس لیے اسے کچھ نہ کہا وہ اس پہ پڑی ذمہ داریوں کو جانتے تھے__”
ماسٹر صاحب کے چہرہ طمانیت و سکون کے احساس سے مغلوب تھا زارا بیگم تو ساری زندگی اولاد کےلیے ہی جی تھی علیزے بھی ماں باپ کے چہرہ پہ چھایا پرسکون احساس دیکھ کر بہت خوش تھی نکاح کا سازو سامان تو اس کے سسرال والے دے گئے تھے لیکن اپنی اکلوتی بیٹی ہونے کی حثیت سے اماں سے ضد کی تو ابو نے سن لیا انھوں نے نہ صرف اجازت دے ڈالی بلکہ پیسے بھی اس کے ہاتھ میں تمھا دیے انھوں نے اسے پیسے دے کہ نورِ حرم کےلیے سوٹ کا کہا تھا تو وہ تو نورِ حرم کا سرپرائز دینے کا سوچ کہ خوش ہوگئی تھی اس کے چہرے پہ دیدنی چمک دیکھنے کےلیے بے تاب تھی ___”
اماں اس بل بتھوڑی سے پوچھ کہ یہ میرے ساتھ جا رہی ہے کہ نہیں ___” مانی نے ایک آنکھ بند کر کہ دوسری آنکھ سے علیزے کو دیکھ کہ سوز انداز میں پوچھا___”
ماسٹر صاحب کی قمیض پہ بٹن لگاتی زارا بیگم نے بیٹی کا اترا چہرہ دیکھا وہ جانتی تھی کہ اسے کیوں مانی کے ساتھ جانے سے کترا رہی تھی ___”
اماں تجھے پتہ ہے یہ بچپن والی حرکت کرے گا میرے ساتھ اس لیے میں اس کے ساتھ ہرگز کہیں نہیں جاؤں گی __”
اماں رات گئی بات گئی چھوٹے ہوتے وقت میری جیب میں ایک آنہ بھی نہیں تھا وہ تو آج بھی نہیں ہے مگر آج تو یہ بل بتھوڑی بہت سارے اثاثوں کی مالک لگ رہی ہے___”
ایک گھورتی نگاہ اس کے ہاتھ کے پیسوں پہ ڈالتے اس نے معنی خیزی سے کہا تھا___”
اماں دیکھ لیں میں سمجھ گئی تھی اس کی بے غیرتیوں کو___” علیزے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کرتی مشکوک اس پہ ڈالتی غصے سے بولی __’
بات پیسوں کی نہیں تھی مانی تم اس وقت تھے ہی شیطانی پر ___” اماں نے اسے احساس کروانے کےلیے یہ کہا وہ آئندہ ایسی حرکت بہن کے ساتھ نہ کرے___”
یہ قصہ ان کے بچپن کا ہی تھا وہ تیرہ سال کا تھا اور علیزے اس وقت گیارہ سال کی تھی وہ علیزے کو یہ کہہ کہ دکان پہ لے گیا کہ وہ جتنی چاہے چیز لے پیسے وہ دے گا ۔۔”
علیزے کو دکان کی دہلیز پہ کرتے اس نے کہا کہ وہ چیز لے لے پیسوں کی وہ ٹنشن نہ کرے __” وہ باہر کھڑا ہوا ہے جب وہ چیز لے لے تو اسے بتا دے تو وہ پیسے منظور چاچا کو دے دے گا__”
علیزے نے خوشی خوشی اپنی پسند کی کھانے والی ہر چیز لی تین چار سو کی چیز جب اس نے شاپر میں پیک کروا لیں تو مانی کو آواز لگائی مگر مانی کیا وہاں تو مانی کے فرشتے بھی نہ تھے ___”
اس نے باہر جھانک کے دیکھا تو مانی کا گلی میں نام و نشان تک نہ تھا منظور چاچا نے غصیلے نظروں سے جب علیزے سے پیسوںکا کہا تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں وہ چیز کا شاپر کاونٹر پہ رکھتی ڈھاڑیں ماڑ ماڑ کہ رونے لگی __”
اس کا رونا دیکھ کہ منظور چاچا تھوڑے سے نرم پڑے اور کچھ کھانے کی چیزیں اسے دے کہ گھر بھیجا کیونکہ ان کی ماسٹر صاحب سے اچھی جان پہچان تھی اس لیے کچھ نہ کہا __”
مگر یہ دن اور آج کا دن اس نے مانی کی کسی بات کا اعتبار نہ کیا تھا گھر آکہ اس نے ابا کو بتایا تو پھر جو مار مانی کو پڑی وہ مانی کی نسلیں یاد رکھتیں مگر وہ مار یاد رکھنے والا بندہ ہوتا تو آج تک سلجھ چکا ہوتا__”
سب جانتے تھے وہ ماسٹر صاحب کا بگڑا نواب تھا __”
علیزے کو ابا کی طرف سے اجازت تو مل گئی مگر مسئلہ اب مانی کے ساتھ جانے کا تھا مانی کے ساتھ تو مر کہ بھی نہ جاتی لیکن نورِ حرم کے سرپرائز کا سوچ کہ پیسے بٹوے میں ڈالتی اس کے ساتھ جانے کےلیے رضا مندی ہوگئی تھی _
❤❤❤❤❤❤
میں اُداس رستہ ہوں شام کا
مجھے آہٹوں کی تلاش ہے__”
یہ ستارے ہے بجھے بجھے__”
مجھے جگنوؤں کی تلاش ہے
یہ خوشی ہے مجھ سے خفا خفا
مجھے زندگی کی تلاش ہے__”
میری پیاس میں وہ طلب نہیں
مجھے تشنگی کی تلاش ہے__”
اک ہجوم ہے میرے رواں دواں
مجھے دوستوں کی تلاش ہے
ارمغان بھائی کیا ہوا ہے آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نہ_؟ مجائد آج تیسری دفع اسکےہ
کمرے میں آیا تو اسے صوفے سے ٹیک لگائے سوچو میں گم پایا دیکھا اس کی غلافی مگر سرخ آنکھیں دیکھ کہ وہ پوچھے رہ نہ سکا آج مجائد کو اس کی طبعیت میں واضح فرق محسوس ہوا تھا
گرے کلر کی ٹی ہاف ٹی شرٹ پہنے وہ شہادت کی انگلی سے اپنی کشادہ پیشانی کو بے چینی سے مسل رہا تھا پیشانی پہ بکھرے چھوٹے مگر گھنے بال ، غلافی مگر سرخ آنکھیں کئی دن کے رتجگے کی خمیازی کا ثاثر پیش کر رہیں تھیں چپل سے بے نیاز سفید پاؤں پہ زخم دیکھ کہ مجائد کو حقیقتاً دکھ ہوا تھا کتنی مشکل تھی اس کےلیے آئی _ایس_آئی کی جاب__” ویسے مجائد جانتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بہت فٹ رکھتا ہے لیکن آج نجانے کیوں اُسے بکھرا بکھرا ہجوم سے الگ الگ ، ماں باپ سے بچھڑا ہوا ایک گمشدہ سا پریشان سا بچہ لگا تھا۔۔۔
مجائد سوچ رہا تھا کہ وہ پندرہ بیس دنوں بعد آتا بھی ایک دو دنوں کےلیے ہے مگر وہ بھی نہ کھانے کا دھیان نہ پینے ہر وقت لیپ ٹاپ پہ بیٹھ کہ کسی کام میں غرق ہی تھا __”
ارمغان بھائی آپ کے سر پہ مساج کروں __؟ شہادت انگلی سے اس کو اپنی پیشانی مسلتے دیکھ کہ فکر مندی کے عالم میں کہا تو ارمغان عالم نے نفی میں سر ہلایا تھا
اچھا تو ایک کپ چائے پی لیں آپ کو آرام مل جائے ___” وہ جانتا تھا وہ چائے سے انکار نہیں کرے گا__”
ٹھیک ہے مجائد میں لان میں ہی آ رہا ہوں جاؤ بنالو ___” میں کچھ دیر میں نماز پڑھ کہ آتا ہوں ارمغان عالم نے اسے بھیج کہ خود پھر صوفے پہ لیٹ گیا تھا___”
آج نجانے کیوں اپنے اندر کے خالی پن سے وہ بکھر سا گیا تھا وہ باتیں دل میں رکھنے والا بندہ تھا اس لیے دل میں جمع شدہ ایک غبار سا بھرا پڑا تھا وہ جانتا تھا ایک دن اس کی روح ساری باتیں دل میں رکھے عالمِ ارواح کی طرف سفر کر جائیں گے آج ناجانے کیوں نامعلوم سی ہاسیت اپنے دل کے اندر کُبھتا محسوس ہو رہا تھا_
سر میں شدید درد کی وجہ سے وہ نماز گھر ہی ادا کرنے کا سوچ رہا تھا اس کے بعد کچھ دیر بعد عصر کی نماز ادا کرتا قرآن پاک اٹھائے لان میں چلا آیا تھا تاکہ اپنی بےچین روح کو تلاوت سے ترو تازہ کرسکے ___”
❤❤❤❤❤
یہ تمھارا بھائی الوؤں کی بستی میں تو نہیں رہے کہ آیا سارا دن سویا رہتا ہے یا پھر فون یا لیپ ٹاپ پہ لگا رہتا ہے اور شام کو گھر سے نکل کہ ساری جاگ کہ الوؤں کی طرح نحوست پھیلائے رکھتا ہے ___” نورِ حرم علیزے کے کہنے چاچو کے گھر آئی تھی کیونکہ نور حرم کا نکاح تھا اس لیے اس نے مہندی کےلیے نورِ حرم کو گھر بلوایا تھا __”
ماسٹر صاحب ، زارا بیگم اور صائمہ بیگم علیزے کے سسرال لڑکے سے ملنے اور تحفے تحائف وغیرہ لے کہ گئے تھے اب تو تقربیاً رات کا وقت تھا علیزے کت سسرال والوں نے انھیں کھانے کا انوٹیشن بھی دیا تھا ___”
وہ دونوں علیزے کے کمرے میں بیٹھیں تھیں نورِ حرم علیزے کو مہندی لگا چکی تھی جب اس نے منہ بناکہ علیزے سے سنجیدگی سے پوچھا__”
مسافر شب کو اٹھتا ہے جب جانا دور ہوتا ہے __” اس کا جواب علیزے کی بجائے باہر سے ہوا کی تیزی سے گزرتے دروازہ پہ توقف کہ رک کہ کہتے مانی نے دے کہ پھر اسی تیز کہتے سامنے والے کمرے میں گھس گیا تھا ___”
بڑا آیا شاعر کا جان نشین ___” مسافر شب کو اٹھتا ہے جب جانا دور ہوتا ہے __” نورحرم نے اس کی باقدہ نقل اتاری تو علیزے ہنس پڑی تھی
نور یار اب تو مہندی سوکھ گئی ہے میں اب ذرا ہاتھ پاؤں دھولوں __” پھر تمھیں تفیصل سے مہندی لگاؤں گی یہ کہتی وہ گلے میں ڈوپٹے رکھے باہر چلی گئی اس کے جانے کے بعد نورِ حرم مہندی ہاتھوں میں رکھے بیڈ کراؤن کے ساتھ سرٹکائے آنکھیں موند گئیں سارے دن کی تھکی وہ صرف علیزے اور زارا چاچی کے کہنے پہ یہاں آئی تھی اب تو جیسے نیند آنکھوں میں بھر گئی تھی __”
دومنٹ اس کو ایسے ہی گزرے تو کوئی اس کے پاس بیڈ پہ بیٹھا تھا__”
شکر ہے تم جلدی ہی آگئیں ورنہ مجھے تو نیند آنے لگی ___” اس نے یہ کہتے آنکھیں کھولی مگر اپنے نزدیک مانی کو حلق کڑوا ہوگیا وہ تلملا کہ رہ گئی تھی وہ اس کے پاس ہی بیڈ پہ بیٹھا تھا__”
تمھاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی بدتمیز انسان __”
زبان دانتوں میں دبائے اس نے ہلکا سا پیچھے ہوتے کہا تو مانی قہقہ لگا کہ ہنس پڑا تھا_
خیر تو ہے مسسز اتنا برا تو نہیں ہوں ___” اس کی طرف دیکھتے مانی نے نشیلی انداز اپنائے کافی ترنگ سے کہا __”
تم ٹھیک کہہ رہے ہو مجھے غلطی مجھ سے ہوئی مجھے یہاں آنا نہیں چاہیے تھا___وہ یہ کہتی بیڈ سے اترتی جب مانی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا نورِ حرم کا دل کیا کہ ایک کرارا سا تھپڑ اس کے رخسار کی زینت بنائے مگر پھر اس کے بعد اس کے ری ایکشن کا سوچتے وہ خوف زدہ سی ہوگئی___”
مانی میں کہہ رہی ہوں چھوڑو مجھے___” اس نے زور زور سے ہاتھ چھڑا کہ دروازے کی طرف دیکھ کہ کہا کہ شاید علیزے کے آنے کا امکان نکل آئے مگر اس کے آنے کے امکان تو دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا__”
ٹھیک ہے چھوڑ دوں گا مگر تم پہلے میری ڈیمانڈ پوری کروگی ___” اپنے ہاتھ چھڑواتی نورِ حرم کو گہری نظر سے تکتے اس نے کافی معنی خیزی سے کہا جو مسٹرڈ کلر کےسوٹ پہنے سر پہ سلیقے سے ڈوپٹہ ، نیند سے بھری آنکھیں لیے غصے سے لب بھینچتی اپنے ہاتھ چھڑوا رہی تھی نورِ علیزے سے بھی دو سال چھوٹی تھی مگر کئی ذمہ داریوں نے اسے سمجھ دار بنا دیا تھا اس لیے وہ علیزے کی خواہش چھوٹا بچہ سمجھ کہ پورا کرتی تھیں __”
بے ہودہ انسان میں تمھیں تمھارے ارادوں میں ہرگز نہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گی__” وہ ایک قسم کی چیخ ہی پڑی تھی
ٹھیک ہے پھر بیٹھی رہو___” یہ کہتے مانی نے اس کا ہاتھ تب بھی نہ چھوڑا تھا__”
ویسے ایک نام ہی تو لکھنا ہے لکھ دو گی تو مر تو نہیں جاؤ گی نا ___” کچھ دیر کے توقف کے بعد گہری سانس لیتے اس نے اب کی بار سنجیدگی سے کہا__”
کیا مطلب ___؟ اسکی بات پہ نورِ حرم کے ذہن سے ایک دم سے بوجھ ہٹا تھا وہ کیا سمجھ رہی تھی اور اس نے کونسی ڈیماند کی ___” مگر جلد ہی اپنے تاثرات پہ قابو پاتے وہ پھر سے سنجیدہ ہوئی تھی __”
میرے ہاتھ پہ میرا نام لکھنے کا کہہ رہا ہوں___” ناکہ تمھاری جائیداد اپنے نام لکھوانے کا کہا ہے جو یوں گن گن کے سانسیں لے رہی ہو___” اس کی اڑی اڑی رنگت پہ طنزیہ چوٹ کرتے اس کے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کھولتے اپنا مرادنہ گندمی ہاتھ اس کے سفید ملائم ہاتھ پہ رکھا تو نورِ حرم کی ریڑھ کی ہڈی سنسا اٹھی اس نے غصے اور گبھرائٹ کی کیفت میں اپنے ہاتھ میں موجود اسکے ہاتھ کی پشت کو دیکھتے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہا مگر مانی کر گرفت مضبوط ہوگئی تھی__”
لکھو تب ہی چھڑا پاؤ گی نہیں تو میں علیزے کے آنے کے بعد بھی یوں ہی ہاتھ تھام کے بیٹھا رہوں گا__”
ٹھیک ہے پھر اتنے مرد کی بچے ہوئے تو چاچو کے سامنے بھی ان ہاتھوں کو پکڑ کہ رکھنا ___” نورِ حرم نے خونخوار نظروں سے دیکھتے تلملا کہ کہا___”
چلو پھر ابا کو آنے تو دو__” مگر تب تک میرے پاس بیٹھنا برداشت کرنا پڑے گا اور ویسے بھی تم جانتی ہو میں مار کھالوں گا مگر اپنا نام لکھوا کہ جب تک تمھارا نام تمھارے ہاتھوں پہ لکھ کہ جاؤں گا___” وہ بھی مانی تھا دھمکیوں میں تو اس کا کوئی بھی ثانی نہ تھا__”
اس کی بات پہ گبھرا کہ نورِ حرم نے منہ میں کچھ بڑ بڑاتے اس کا نام اسکے انگھوٹے سے کچھ نیچے نفاست سے لکھا کہ کئی وہ ذرا سی خطا دیکھ کہ دوسرے ہاتھ پہ لکھوانا شروع نہ کرے __” نورِ حرم کے چہرے کو دیکھتے اس کی نظر اپنے نام پہ پڑی تو ساکت رہ گیا __”
ایک نظر اپنے دائیں ہاتھ کی پشت کو دیکھ کر خوشی کے احساس سے جھک کہ نورِ حرم کی پیشانی پہ بوسہ دیا تھا اس کے اتنے آناً فانا انداز پہ نورِ حرم کی چلتی سانسیں رک گئی اپنی پیشانی پہ اس کے لبوں کے نرمی محسوس ہوتے اس نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچے تھے
کچھ دیر اس کے تاثرات دیکھنے کے بعد اس کے ہاتھوں سے مہندی کھنچھتے اس کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ پہ رکھ کہ اس کی دائیں ہاتھ کی پشت کے انگوٹھے سے کچھ نیچے اپنا نام لکھ دیا ___”
اور پھر اس کے خونخوار تاثرات دیکھتا خود کو بچانے کےلیے بندر کی طرح اچھلتے جلدی سے باہر بھاگا ___”
پیشانی پہ اس کا لمس محسوس کرتے اس کے نام کو دیکھتے اس نے اپنی اس جلتی پیشانی پہ ہاتھ رکھا جہاں وہ پہلی دفعہ ایسی گستاخی کر کہ گیا تھا_
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial