راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 14

اس الوّ کے پٹھے نے میری زندگی حرام کرکہ رکھ دی ہے
تمھارا یہ صاحبزداہ آج ہاتھ لگے سہی میرے ہاتھ میں نے اس کو پوری گلی میں نہ گھسیٹا تو میں بھی باپ نہیں ہوں وہ سجھتا ہے کہ وہ ایسی بے غیرتیاں کرکے بچ جائے تو یہ تمھارے لاڈلے کی بھول ہے ___”
آج پھر اسی طرح ابا کا قہر نازل تھا کل شام تو شیشہ اور کنگھی دونوں یہی موجود تھے مگر آج دونوں کو غائب دیکھ کہ ان کے دماغ کا میٹر گھوم کہ رہ گیا ___”
اب کیا کیا اس معصوم نے ماسٹر جی توبہ ہے آپ سے بھی ___” ہر وقت کا غصہ اچھا نہیں ہوتا اب ہر وقت میرے معصوم بیٹے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کچھ تو خیال کر لیا کریں وہ بیٹا ہے آپکا آپ ہر وقت اس کے ساتھ سویتلوں کا سلوک کرتے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے میں اسے جہیز میں ساتھ لے کہ آئی ہوں اور دونوں بھی ہیں ان کے ساتھ اتنی سختی نہیں کرتے آپ__”
پھر اسے ہی کیوں ہروقت اپنے عتاب کا نشانہ بنائے رکھتے ہیں کبھی کبھی لگتا ہے اسے آپ بیٹا کم دشمن زیادہ سمجھتے ہیں ___”
بیٹے کے لیے دلبرداشتہ ہوئی تو باتیں خود بخود منہ سے نکلتی چلیں گئی تلخ رویے ان کے لہجے میں مانی کےلیے ممتا کی تڑپ تھی صبح دس بجے کا وقت تھا زارا بیگم ہر روز کی طرح گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف تھی علیزے بھی سکول گئی تھی ماسٹر صاحب جو کئی جانے کےلیے تیار ہونے اپنی مخصوص ڈیوڑھی میں گئے تو دھاگے سے کنگھی غائب تھی شیشہ بھی نہیں تھا ابھی پرسوں ہی تو دونوں چیزیں غائب تھیں وہ اسی دن نئے شیشہ کنگھی لے کہ انھوں نے سیٹ کیے تب جاکہ ان کے دل میں ٹھنڈ پڑی تھی ___”
ابھی بھی دونوں چیزوں کو غائب پاکہ ان کی اصول پسند طبعیت پہ گراں گزرا تو ہیمشہ کی طرح توپوں کا رخ زوجہ کی جانب ہوا ہر روز کی طرح ان کا سختی کا عنوان اُن کا موضوع مانی ہی تھا __”
یہ پوچھو کیا نہیں کیا تمھارے اس لاڈلے نے ___” دیکھو بیگم میرے نام کے بینک نہیں کھلے جو میں روز شیشے کنگھیاں لے کہ سیٹ لگاتا رہوں اسے سمجھاؤ نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ویسے بھی نیک بخت اگر تم اسے جہیز میں لے آتی تو ابھی تک تمھارے جہیز کے برتنوں کی طرح ٹوٹا ہوا کسی کباڑ خانے میں پڑا ہوتا ___” کنگھی سے بال سیٹ کرتے اب کی بار بلند آواز میں کہا گیا تھا __”
توڑ تو دیا ہے اسے آپ کی مار ڈھار آپ کے رویوں نے ، آپ کی بے جا سختیوں نے ، بھلے وہ جتنی بک بک کرکے قہقے لگائے نہ ماں ہوں میں __” اسکی آنکھوں کی بے رونقی پڑھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے مگر آپ ہیں ہر وقت اسے آگے لگائے رکھتے ہیں ___”
وہ بھی جھاڑو لگا کہ رکھتی تلخی سے بولیں ہر وقت ان کی بحث کو لے کہ ہر وقت خاموش رہنے والیں زارا بیگم ناچاہتے ہوئے پھٹ پڑی تھیں ساری زندگی وہ اپنی زندگی کے فیصلے نہ لے سکی اولاد کے کیسے لیتی __”
مگر مانی واحد تھا جو اپنی غلط حرکتوں دونوں بیٹے سے پیارا اور دل کے قریب تھا __”
یہ جو تم ہروقت اس کی حمایت میں بولتی ہو دیکھنا کسی دن چاند چڑھائے گا لگ تمھیں سمجھ جانی ہے میری باقی دو اولادوں میں کچھ ہے تو میں انھیں کچھ نہیں کہتا لیکن بیگم مجھے لگتا ہے تمھارا یہ لاڈلا اپنے ننھیالی خاندان پہ چلاگیا ہے تب ہی اتنا ڈھیٹ ہے جتنا بھی پیٹ لو کونسا اس پہ اثر ہونا ہے ___” وہ یہ کہتے نکل گئے جبکہ زارا بیگم دل مسوس کرکے رہ گئیں تھیں
❤❤❤❤
دن گزرتے گئے آج تیسرا دن تھا اس نے اُس گھٹیا انسان کو نہیں دیکھا دل کی بے چینی نے شدت پکڑ لی دل کا احساسِ زیاں تھا جو بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا نورِ حرم اُس سے کس منہ سے معافی اتنی بری بھلی باتیں سنائی تھی تین دن سے غیر دماغی کی کیفت پہ تھی
وہ شخص جیسے کسی زہر کی طرح اثر انداز ہو رہا تھا اور زہر بھی جو مرنے نہیں رہے تھا بس آہستہ آہستہ دل و دماغ پہ اثر کر رہا تھا ان تین چار دنوں میں جانے کتنی بار اُس نشئی شخص کی یادوں نے اس پہ اثر کیا تھا کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں تھا جب اس کا چہرہ اسکی نگاہوں میں نہ آیا ہو وہ چاچو کے گھر علیزہ سے کام کے کئی بار چکر لگا چکی تھی کہ ایک دفعہ اس کا پوچھ لے کہ گھر کیوں نہیں آیا پر علیزے مانی کے نام پہ دوسری باتیں شروع کر دیتی تھی وہ حیران تھی بہن ہوکہ بھی اسے بھائی کے خبر نہیں تھی
اس سے قبلتو وہ بھی بھی مانی سے وہ خار کھاتی تھی مگر اس واقع کے بعد وہ سوچتی تھی کہ اُس فضول سے شخص کی بھلا کیا اہمیت ہو یہ تو محض اس کے دل میں اپنی حرکت پہ پچھتاوا تھا__”
مگر دل کے کسی کونے کھدرے میں اس کی یاد کی کونپلیں پُھوٹ رہیں تھیں آج وہ بری طرح یاد آ رہا تھا
وہ آج اسے یاد کر رہی تھی مگر اب تو وہ کہیں نظر بھی نہیں آرہا تھا جو بوجھل دل کی بھڑاس نکال لیتی تھی__””
❤❤❤❤
بھاگ سالے آئی ہے ” یا “جوج ما “جوج کی قوم ___” مانی جو آج تیسرا چوتھا دن گھر نہیں گیا ان کے ساتھ ہی آوارہ گردیوں میں مصروف تھا ابھی وہ جیدے کے ساتھ ہی سیگریٹ کے سوٹے بڑی دلچسپی سے لینے میں مصروف تھا جب محمود اور بلال عرف بالی کو کیچڑ میں لت پت دیکھا جو شاید کسی راہ گزر سے اپنی خاطر تواضع کرواکہ آئے تو مانی نے قہقے لگا جیدے کا دھیان بٹاتے سیگریٹ اس کی جیب سے کھینچ لیا تھا
چل ہٹ کمینے انسان تُو صرف ہم پہ ہنس ہی سکتا ہے تیرے جیسے کیمنے دوست ہو دشمنوں کی ضرورت ہی پڑے ___” پریشان سے بالی نے اپنی آسستین سے منہ صاف کرتے اس پہ لعنت بھیجی تھی__”
چل ادھر بیٹھ میرا بچہ تیری تصویر بنائی تو توُ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ جائے گا ___” مانی نے آنکھ مارتے اسے ماں کی طرح پچکارتے ہوئے مٹی کے بنے تھڑے پہ بٹھایا تو بالی کو تو گویا آگ ہی لگ گئی
چل ہٹ دفعہ ہو کمینہ انسان بغیرت کہیں کے __” شکل ذرا سی کیا اچھی ہے بڑا غرور ہے پر جتنا بھی غرور کرلے ہے تو ہمارا جیسا سالا نشئی نہیں نہ ہوطتو __” بالی ہمیشہ سے مانی سے خار کھاتا تھا کیونکہ وہ جہاں بھی جاتا اپنی حکومت کا سکہ بیٹھا لیتا تھا اور اسی بات سے بالی کو اس سے چڑ تھی ___”
ماں صدقے ___”میرا پتر پریشان نہ ہو یہ جو کریمیں ل آجگوا کہ آیا ہے نا کل تک تیرے چہرے پہ ان کا اثرہوگا فئیر لولی کریم والی لڑکی سے بھی زیادہ نکھار آئے گا ___” اس کے کندھے سے مٹی ہٹاتے اس نے قہقہ لگاتے کہا تو بالی نے فٹ سے جیدے کو دیکھ کہ گھورا وہ بھی قہقہ لگا کہ ہنس پڑا تھا __”
جبکہ بلال نے خونخوار نظروں سے مانی کو گھورا اور اٹھ کہ منہ دھونے کی غرض سے اندر چلا گیا جبکہ مانی کا قہقہ پھر سے ابل پڑا__”
❤❤❤
وہ آج پھر سے دھڑکتے دل سے عالم پیلیس آئی تھی دل میں دشمنِ جاں کی تصویر آئی تو رہا نہیں گیا وہ دشمن جاں جو اسے ایک نظر دیکھنا گوارا نہیں کرتا تھا مگر پھر بھی بابا سے ارمغان عالم کی پیلس میں آمد کا پتہ چلا تسر پہ پاؤں رکھے بھاگی ہوئی چلی آئی تھی دماغ لاکھ سمجھاتا کہ اب ارمغان عالم سے کنارہ کشی کرنی ہے وہ خود سے لاکھ عہد کرتی مگر سینے میں موجود ڈھڑکتا دل سارے عہدوں پہ پانی پھیر دیتا پھر سے تذلیل کروانے وہ ارمغان عالم کے در کا دروازہ کٹھکانے چلا آتا __”
بی بی جی آپ اس وقت یہاں ___” مجائد جو معمول کی طرح کچن میں ارمغان کےلیے کھانا تیار کر رہا تھا وہ حیران تھا گیٹ پہ بھاری سکیو”رٹی کے باوجود وہ اتنی رات کو کیسے اندر داخل ہوئی تھی ___”
وہ مجائد بھائی مجھے میجر سر سے ملنا تھا کیا میں ان کے روم میں جاسکتی ہوں ___”
معذرت بی بی جی __” مگر آپ ان سے نہیں مل سکتیں ایک تو ان کی سخت قسم کی طبعیت خراب ہے دوسرا ان کا پھر سے موڈ خراب ہے وہ جب سے واپس آئے ہیں تب سے باہر نہیں آئے میری بہترین صلاح ہے اس وقت آپ اُن کے روم میں ہرگز نہ جائیں وہ اس وقت غصے میں ہیں اور ان کا غصہ آپ کےلیے بہت برا ثابت ہوسکتا ہے
مجائد نے اس کے چہرے کے نارمل تاثرات کو دیکھا جو اس کی طبعیت کا سن کہ پریشانی میں بدلتے جا رہے تھے
وہ میجر کرنل فاروق کی صاحبزادی کے اتنے پریشان حال چہرے کو دیکھتے حیران ہوئے بغیر ہرگز نہ رہ سکا__”
مجائد بھائی ان کی طبعیت خراب ہے اور آپ نے بابا کو بتانا بھی گوارا نہیں کیا دز از ناٹ فیئر مجائد بھائی میں جا رہی ہوں __” وہ یہ کہتی مزید اس کی سنے بغیر پورچ سے گزرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی پیچھے کھڑا مجائد کچھ دیر بعد ہونے والے ہنگامے کو سوچ رہا تھا ___”
❤❤❤❤
یا اللہ میجر سر بالکل ٹھیک ہو ان کو کچھ نہ ہو ___” ایمن فاروق نے بڑبڑاتے ہوئے اس کے روم ہینڈل بٹن پش کیا دل کی حالت ایسے تھی جیسے ابھی ابھر کہ باہر آجائے گا پھر بھی خود پہ قابو پاتے اندر داخل ہوئی مگر ہاتھوں کی لرزش برقرار تھی ___”
پہلی نظر اس کے روم پہ پڑی تھی جس کی سٹینگ وہی تھی مگر نجانے کیوں اسے بدلاؤ سا محسوس ہوا تھا وہ جب یہاں آتی تو اسے کمرہ نئے سرے سے بدلا ہوا نظرا آتا یا پھر یہ اسکی نظر کا کمال تھا ___”
پھر اسکی نظر بیڈ کی طرف گئی گاؤ تکیےکے ساتھ ٹیک لگائے جہاں سینے کے ساتھ ایک اسلامک بُک لگائے وہ مکمل رف حلیے نیم محو استراحت تھا چپل تو اسکی ڈور میٹ پہ ترتیب سے پڑی تھی ___”
میں آپ کا محافظ ضرور ہوں مس ایمن بنتِ فاروق مگر ہوں نامحرم ہی اس لیے ذرا فاصلے پہ رہیے گا تو آپ کےلیے بہتر ہوگا ورنہ مجھ سے نرمی کی اُمید بھول جائیے گا __”
وہ آہستہ آئستہ چلتی بیڈ کی جانب بڑھی اس شخص کے کچھ ماہ پہلے کے الفاظ ذہن کے تخیل میں گھومے تو وہی رک گئی تھی جب اس نے دوستی کی پشکش کی تھی
ایمن فاروق کی زندگی میں وہ شخص کسی پہیلی کی طرح داخل ہوا تھا جس کو سلجھانا اس جیسی نازک لڑکی کی بس کی بات نہیں تھی مگر پھر بھی وہ اسکی ذات میں گُھسنے کی ادنیٰ کوشش کر رہی تھی جس سے شاید اس نے ٹوٹ جانا تھا وہ بغیر اس شخص کو دیکھ رہی تھی __”
اس سے پہلے وہ آگے بڑھتی جب ارمغان عالم کے فون کی شاید مسیج رنگ نے تھر تھراہٹ کی تو ساتھ ہی ارمغان عالم کی آنکھ کھلی تھی اس نے فون اٹھا کہ دیکھا جیسے ہی سامنے نگاہ پڑی آنکھوں میں پہلے بے یقینی اتری اور پھر بیک غصہ بھی عود آیا تھا۔۔۔”
مس ایمن بنتِ فاروق آپ یہاں کیا کر رہی ہیں ___؟ ارمغان عالم کتاب ٹیبل پہ رکھے بیڈ سے اترا تھا
وہ __ وہ آپ کی طبعیت خراب تھی ممم۔۔مجھے پتہ چلا تو آپکی عیادت __ایمن فاروق کی زبان لڑکھڑا گئی تھی زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا ___”
کس ناطے سے ___؟ سرد لہجے میں آنکھوں میں چھائی سرخی لیے وہ غصہ ضبط کرنے کی کوشش میں تھا چہرے پہ شکنوں کا جال تھا اس وقت وہ مہذب سا میجر ارمغان عالم نہیں بلکہ ٹوٹا بکھرا عام سا انسان لگ رہا تھا
انسانیت کے ناطے ___” ایمن فاروقی کو اس شخص کےلیے بہت دکھ محسوس ہوتا جو ہر وقت اذیت میں گھرا نظر آتا __”
جب اس دنیا میں نہ رہا نہ تو صرف اُس وقت انسانیت نبھانے کے ناطے تعزیت کرنے آجائیے گا زندہ تو پہلے بھی نہیں ہوں لیکن سانس کے ٹوٹنے سے پہلے میرا اور آپکا انسانیت کا بھی رشتہ نہیں ہے سو اب آپ جا سکتی ہیں ___” ارمغان عالم نے باہر کی جانب اشارہ کیا تو اس نے قدم بڑھائے مگر پھر رک گئی تھی ___”
پھر کچھ سوچتے اسکی طرف قدم بڑھاتے ایسا سوال کیا جو ارمغان عالم کو گہرے اندھیری کھائی میں دھکیل گیا وہ کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا___”
❤❤❤
چاند کی چاندنی رات کے اندھیروں کو ختم کرتے دل میں راحت سی پھیلائے اس کےلیے ہمیشہ سے سکون کا بحث بنتی تھی مگر اب تو وہ بھی بھلی محسوس نہ ہوتی اگر دل میں ویرانی ہو تو پھر کیا چیز اچھی لگ سکتی بھلا؟
برآمدے کی لائیٹ آن تھی وہ ہمیشہ سے دس بجے سو جایا کرتی بمشکل نیند نہ آئے تو کبھی کبھاع تاخیر ہوجایا کرتء آج پانچواں دن تھا اسے نیند نہیں آتی اگر نیند کی دیوی مہربان ہو بھی جاتی تو بہت حلوں بہانوں اور دیر سے ہوتی ___”
وہ انتظار کر رہی تھی اور انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی جا رہیں تھیں گھڑی کی سُویوں نے بھی گویا اس کے ان زندگی کے بکھرے سے شب و روز میں خفا ہوکہ ضد باندھ لی ہو اور آگے چلنے کا نام ہی نہ لے رہی ہو__”
اماں سوگئیں تھیں آج ماسٹر صاحب بھی شاید صحن میں ٹہل نہیں رہے تھے ورنہ وہ بھی تا دیر ٹہلا کرتے تھے مگر بدلتے موسم اور ٹھنڈک کی وجہ سے اس وقت کوئی بھی ذی نفس رات کو صحن میں موجود نہیں ہوتا __”
اسے کبھی سونے میں اتنی تاخیر نہیں ہوئی مگر اس شخص نے اس کی نیندیں ان پانچ دنوں سے اڑا رکھی تھیں کہنے کو تو وہ چار تھے مگر اس کےلیے صدیوں پہ محیط تھی وہ پانچ راتوں سے مسلسل اسکا انتظار کررہی تھی اب تو دل اور دماغ کی چھڑتی جنگ نے اسے کافی حد تک خالی الذہن کر دیا تھا وہ ایک شخص پہ لگائے گئے غلط الزام کی وجہ سے یہاں تھیں دماغ مگر آج اُس پہ یہ سب کچھ گزر رہا تھا ___”
مزید دس منٹ گزرے تو اسے محسوس ہوا کہ کسی نے ماسٹر صاحب کی صحن میں چھلانگ لگائی تھی اس کے گم صم اور ساکت وجود میں حرکت ہوئی ستون سے ہٹتی وہ زمین سے بغیر چپل پہنے اٹھ کہ سیڑھیوں کی جانب بھاگی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ سب سے پہلے تو چھت کی ہی جانب آئے گا اس انا پرست لڑکی کو ڈوپٹے کا ہوش بھی نہیں رہا تیزی سے بڑھتے ڈوپٹہ سر سے سرک گیا وہ بس ایک بار اپنے لفظوں کا مداواہ کرنا چاہتی تھی وہ جو دن کے اجالے میں سب کی موجودگی میں اس گھٹیا شخص پہ اعتبار نہیں کرتی آج آدھی رات بارہ بجے رات اندھیرے میں بھاگی تھی شاید مداواہ کرنے __؟ مانی کے قدموں کی دھیمی سی ٹاپ بھی رات کے اس وقت بہت اونچی محسوس ہو رہی تھی اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ بھاگ کہ اس کی جانب جائے بمشکل پہلی سیڑھی کے اسٹیپ پہنچی وہ مکمل ہانپ رہی تھی __”
نور تم___” ایک بار تو مانی کو حیرت کا جھٹکا لگا وہ جو اپنے دھیان میں چیز جیب سے کوئی چیز نکال رہا تھا جلدی سے پھر اسے دوبارہ سے جیب میں گھسا دی وہ جس کی مشکوک نظریں پیچھے بھی تھیں شاید دل میں ابا کا ڈر تھا بچتا بچاتا دبے قدموں سے جیسے دو سیڑھیاں اوپر تو وہیں کھڑے کا کھڑا رہ گیا __”
اتنی رات کو اسے اپنے گھر کی سیڑھیوں پہ بیٹھے دیکھ کہ مانی کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا اور پھر جھٹکے در جھٹکے ___” پھر وہ اسی حیرت سے اُس کی جانب بڑھا اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوکہ یہاں آئی تھی
مانی لبوں سے ایک سسکی بر آمد ہوئی وہ ایک قدم بڑھاتی اسکے مقابل ہوئی __”
کیا ہوا ہے اتنی رات کو تم یہاں ___” اس نے کہا تو مانی کے چہرے نامحسوس کن تاثرات واضح ہوئے جیسے اس نشاندہی میں ہو اس کا اس وقت یہاں آنے کا مقصد کیا تھا وہ تو اپنے مسائل میں پھنس کہ بھی بمشکل کوئی راہ نکلوانے کےلیے آتی اور مانی کےلیے یہ ہی خوش قسمتی تھی وہ کسی بہانے سے اس کی طرف آتی تو سہی مانی اکثر اسے منہ پھٹ لہجے میں کہہ بھی دیتا ہے کہ شکر ہے تم مجبوری کی بدولت ہی سہی مگر تم میرے پاس تو آتی ہو اکثر اوقات وہ بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا کرتا __
(شکر ہے نور حرم اس دنیا میں غرض نام کی چیز موجود ہے ورنہ تو یہ دنیا دوسرے انسان کو مخاطب کرنا گوارا نہیں سمجھتی __” )
خیر ہی تو نہیں ہے ___” کہیں پہ پڑھا تھا کہ قیامت کا ایک دن پچاس ہزار لمبا ہوگا میرے لیے یہ پانچ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھے مانی __” پھر خود تصور کرلو کہ میرے ڈھائی لاکھ ہزار سال کیسے گزرے ہوں گے مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میں کسی پُل صراط سے گزار کہ آئی ہوں ___” آنکھوں میں گہری یاسیت لیے عام سے لہجے میں کہتی وہ مانی کو کشمکش میں ڈال گئی تھی ___”
نور اللہ کی قسم پورے بیس ہزار گن کہ تائی امی کو کہ دے کہ گیا تھا کیا تائی امی نے تمھیں پیسے نہیں دیے __” یہ پوچھتے مانی کے لہجے میں ڈگمگائٹ سی تھی
کیوں ہو تم نشئی انسان ___؟ کاش تم تھوڑے سے سلجھے ہوتے تو پھر شاید میرے دل میں تمھارے لیے تھوڑی ہی سہی مگر گنجائش نکل آتی ___” یا پھر تم جیسے نظر آتے ہو ویسے دل سے بھی ہوتے تو تمھیں چھوڑنے میں تو آسانی ہوتی تم سے راہ الگ کرنے پہ مجھے ذرا بھی ہچکچانا نہیں پڑتا سب کے سامنے خاموش نہیں رہنا پڑتا میں بدتمیز بن کہ ہی مگر تم سے راہیں الگ کرلیتی تم کس نوعیت کے انسان ہو یہ مجھے آج نہیں پتہ چلا اور نہ پتہ چلے گا ___” یہ کہتے وہ خود بھی مکمل الجھن کا شکار لگ رہی تھی
آگے بڑھتے ایک نظر اس کے حلیے پہ ڈالتے اس نے کہا تو مانی بھی اسکے لفظوں پہ ٹھٹک کہ رہ گیا وہ آج بھی اسے فاصلے پہ تھی وہ جان گیا چہرے پہ ایک مسکراہٹ ٹھہری اس مسکراہٹ میں بھی ہزاروں راز دفن تھے رات کے اس کے پہر اس لڑکی کو یہاں دیکھنا یہ فلحال اُس نشئی شخص کی سمجھ سے باہر تھا __”
اگر کوئی کام نہیں ہے تو چلی جاؤ نہیں تو ابا نے اس وقت تمھیں اور مجھے یہاں دیکھ لیا تو پھینٹی واجب ہے اور پھر مجھ پہ بھی تو احترام واجب ہے اور ویسے بھی پانچ بعد گھر آیا ہوں خاطر تواضع ذرا شاندار انداز سے کی جائے گی میری ___” وہ کچھ دیر سنجیدگی کے خول میں لپٹا رہا مگر پھر تھوڑی دیر بعد بال کجھاتے ایک نظر سیڑھیوں کے آخری کونے پہ رکھے ازلی نٹ کھٹ لہجے میں بولا __”
مانی اللہ کا واسطہ ہے اس وقت مذاق مت کرو میری سن لو میں اس وقت صرف اور صرف تمھارے لیے آئی ہوں __” لہجہ ملتجیانہ سے لیے وہ بولی مگر اس لڑکی کا اپنے لیے پریشان ہونا مانی کو کھٹکا تھا چھت کی ٹھنڈی سیڑھیوں پہ وہ پانچ منٹ تو اس کے چپل سے بے نیاز پاؤں کو دیکھتا رہا وہ دیکھ رہا تھا وہ لڑکی سکون میں نہیں تھی اور وہ وجہ جاننے سے بھی وہ قاصر تھا ___”
مسسز کہیں آپ ہم جیسی بندہ ناچیز سے محبت کے عارض میں تو نہیں مبتلا ہوگئیں ___” ایک قدم اس کی طرف بڑھاتے پرُ اسرار لہجہ ، بھاری آواز ، بکھرے بال ، لہو رنگ آنکھیں وہ اس کی طرف ہلکا سے جُھکتے ہوئے کچھ فاصلے پہ تھا اسکے لہجے میں پراُسراریت نمایاں تھی
نورِ حرم ایک دم پیچھے ہوئی دل میں ہزاروں خدشات جاگ اٹھے اسکے خبیث پن کو دیکھتے دل کانپ اٹھا کچھ انہونی کا خدشہ جاگا دماغ نے دل کو ہزاروں صلوتوں اور لعنتوں سے نوازا کہ اور کرو اپنی مرضی ___” وہ اس کا اپنی طرف جھکنا دیکھ کہ گبھرا کہ سرک کہ پیچھے ہوئی تھی اس کے اندر کی انا پرست لڑکی مانی کے بدلتے لہجے کی وجہ سے جاگ اٹھی تھی___”
گگ۔۔۔۔گھٹیا انسان تت۔۔۔تم نے پی ہوئی ہے نہ ___” وہ پیچھے ہوئی تھی مانی کے ڈر سے پھر سے پیچھے ہوئی معافی ، مداواے سارے دھرے کے دھرے رہ گئے عزت ہر چیز پہ غالب آگئی __
نہیں تم نے پلا دی ہے ___” شوخ لہجے میں کہتے مانی اسکے لفظوں کی تصیح کی تو اس کا ازلی غصہ عود آیا تھا وہ تقربیا پانچ بولنے کے قابل ہوئی تو ساری بھڑاس نکالی ___”
تم پہ اعتبار کرنا ، تمھاری لیے اچھی سوچ رکھنا نورحرم کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی ، بیوقوفی تھی ، گناہ تھا میں سانپ پہ اعتبار کرلیتی مگر تم پہ کیوں کیا مجھے ان دنوں لگا تھا جو شاید تم بظاہر نظر آتے ہو وہ تم ہو نہیں لیکن تم تو اس سے بھی گھٹیا ہو___”
یہ میری غلطی تھی __” سر پہ ڈوپٹہ لپپیٹے اس نے اپنے لفظوں سے بھڑاس نکالنی چاہی تھی ___”
اب کیا ہوسکتا ہے اب تو کرلیا اعتبار یہ تو آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا گرا شخص ہوں گھٹیا حرکتوں میں ماہر ہوں آج تو لگتا ہے ماسٹر صاحب بھی سوگئے ___” اس نے جیسے ہی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لہجے میں خباثت جھلک رہی تھی اس کی قدموں کی لڑکھراہٹ نے نورِ حرم کو بالکل کسی ننھے بچے کی طرح ڈرا کہ رکھ دیا وہ پیچھے ہوئے بھاگنے کےلیے اس نے قدم پیچھے لے کہ بھاگنا چاہا مگر اس کی قسمت بری تھی وہ سیڑھیوں پہ گری تھی اس کی کہنی میں شدید درد اٹھا اتنا درد کہ ایک دفعہ تو پورے جسم میں تکلیف کی لہر دوڑی مگریہ
درد اپنی عزت و ناموس سے کم تھا وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے آج اسے کتنی دفعہ پریشرائز کر چکا تھا اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آئے تھے وہ اٹھ بیٹھی __”
آٹھ سال ___آٹھ سال کم نہیں ہوتے نورِ حرم کسی کو پہچاننے کےلیے پانچ سال ہوگئے ہیں تایا کی وفات کے بعد نیت میں کوئی فتور کوئی فریکچر دیکھا ہے تم نے ___”
ایک سال __ پورا ایک سال نکاح کو ہوگیا چار موسم گزر گئے تمیہں میرے نام سے جڑے ہوئے __” تایا کی وفات کو پانچ سال ہوگئے عزتوں کے لیٹرے تو بدنام کرنے میں ایک پل بھی نہیں لگاتے ___” کہاں ایک پل اور کہاں چوبیس سال کا ساتھ ___” اس سے نچلی والی سیڑھی پہ محتاط انداز میں بیٹھتے اس نے اس کی نم آنکھوں میں جھانگ کہ نشیلے لہجے میں جواب دیا تو نورِ حرم کے سر سے بوجھ اسکی باتیں سن کہ اترا تھا
ویسے تم جیسا حسن ہو تو تو نیت میں فتور آنے میں اک لمحہ بھی لگتا ___” پھر سے قہقہ لگاتے وہ بولا تو ہمیشہ کی طرح آنکھوں نے قہقے کا ساتھ نہیں دیا ___”
چاچو کا قصور نہیں ہے نشئی انسان تم ہو ہی واجب القت”ل___” اب کی بار نورحرم نے ہلکے پھلکے لہجے میں بغیر ڈرے جواب دیا __”
میں جا رہی ہوں صبح بات ہوگی دیر ہوگئی ہے کوئی دیکھے گا تو مجھے ہی قصور وار ٹھہرائے گا __” وہ یہ کہتی اٹھنے لگی جب مانی نے ہاتھ پکڑا مگر پھر ساتھ ہی چھوڑ دیا اس نے رئیکٹ ہی ایسے کیا کہ نور حرم کو لگا جیسے اُس شخص کوئی گناہ سر زد ہوگیا ہو یا پھر وہ اس سے ڈر گیا ہے کم از کم اسے اتو ایسا ہی لگا تھا___”
ایک شعر تمھاری شان میں پیش کرنا چاہوں گا سنا رہا بس اب خاموش رہنا___
یوں بات بات پہ آنکھیں بھگویا نہیں کرتے محسن
یوں بات بات پہ آنکھیں بھگویا نہیں کرتے محسن
ہاتھ کو کان کے ساتھ لگاتے اس کی نم آنکھوں میں جھانکتے پہلی دوبار تو مصرعے کو خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ نورِ حرم نا چاہتے ہوئے بھی اس کی جانب متوجہ ہوگئی اسکا پہلی دفعہ دل کیا وہ اس سے سنے ___”
یوں بات بات پہ آنکھیں بھگویا نہیں کرتے محسن
آگے بھی بکواس کرو ___” نورِ حرم تنک اٹھی تھی تیسری بار وہ بیچ میں اسے ٹوکے بغیر نہ رہ سکی تھی اس کی کہنی میں درد ہو رہا تھا __”
سنو تو ___” مزہ تو خراب مت کرو اس نے پھر سے شعر پڑھا__”
یوں بات بات پہ آنکھیں بھگویا نہیں کرتے محسن
آگے__”” وہ پہلی بار ہی تو اسے سن رہی تھی وہ ہر بار کی طرح اسے ستا رہا تھا ___”
اگلا مصرعہ پڑھنے سے پہلے ٹرک ہی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا تم جانتی ہو نہ میری اردو کمزور ہے
دوسرا مصرعہ پڑھنے کی کوشش بہت کی جیدی کو کہہ کہ موٹر سائیکل بھی اس ٹرک کے پیچھے بھگایا مگر وہ کہیں غائب ہوگیا چلو کوئی نہیں تمھیں اچھا لگا تو اگلا مصرعہ ابا سے پوچھ لینا غالب کی طرح ان کو بڑی دلچسپی ہے شعروں__”
اس نے سر کجھاتے اپنی نالائقی کا قصہ جھاڑنے کے ساتھ اسے اگلی راہ بھی بتائی __”
.شرم تو نہیں آتی ایسی بکواس تم ہی چاچو سے پوچھ لینا ہر بار کی طرح جواب بھی بہت اچھا ملے گا مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے میں جا رہی ہوں __” وہ جنھجھلا کہ اٹھی تھی دل میں صبح اس کے پیسے واپس کرنے کا عہد تھا __
اچھا دو منٹ بس دو منٹ رکو میں آیا ___” وہ یہ کہتے نیچے بھاگا تھانورِ حرم بیزاری سے وہیں رک گئی
اور پھر پانچ بعد سیڑھیوں سے بھاگتا ہاتھ میں کوئی چیز اٹھائے نمودار ہوا اسے خدشہ تھا کہیں وہ نکل ہی نہ گئی ہو,___”
یہ لگا لینا کہنی پہ ____” بڑی مشکل سے ابا کے دراز سے نکال کہ لایا ہوں ابھی تک ابا کے شیشے دلہا میاں کا امتحان باقی ہے مگر خیر چھوڑو___” سادہ سے لہجے میں کہتے برنال اس کی طرف بڑھائی تھی تو اس نے پکڑ لی تھی
تمھیں کیسے پتہ چلا گا زخم ہوا مجھے___؟ اسکی حیرت سے آنکھیں کھل گئی وہ پہلے تو گڑبڑا گئی اس شخص سے اس نے خیر کی امید بھلا کب رکھی تھی ___؟
خود ہی تو چھوٹے ہوتے وقت ہامون جادوگر کے نام سے بلایا کرتی تھی اتنی جلدی بھول گئی جادوگر ہوں جادو تو کرتا ہوں تمھارے زخم سے پہلے موکل مجھے خبر دار کرگئے تھے ___” چہرے کے ٹیڑھے میڑھے زوایے لیے وہ بات کو مذاحیہ انداز میں پیش کرتے بولا ___”
جزاک اللہ ___” اس کی بات سنتے بغیر تصدیق کیے شکر ادا کیا تھا اور مڑی تھی __”
سنو__”
؎ یوں بات بات پہ آنکھیں بھگویا نہیں کرتے محسن
سنو ایسا نہیں کرتے زمانہ بیچ کھائے گا____”
وہ جو مڑی ہی تھی اس کا مکمل شعر سنتے حیرت سے مڑی اور نجانے کتنی بار اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتی جس نے ہر بار کی طرح روپ بدلے شعر سنایا تھا اسے معلوم تھا وہ اسکے رونے کی بات کر رہا تھا وہ کتنی دیر اس کے شعر میں کھوئی رہی اور پھر تیزی سے اپنی چھت کی طرف آتے سیڑھیاں اتر گئی تھی ___”
پیچھے دو مسکراتی مگر ویران آنکھیں اوجھل ہونے سے پہلے اس کے ہیولے کو تکتی رہی تھی __”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial