راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 16

تایا کے گھر میں قدم رکھتے وہ آئستہ آئستہ چلنے لگا چپل ہاتھوں میں اٹھائے اس نے دیکھا جہاں تائی اور نورِ حرم کے کمرے کا دروازے بند تھا وہ جانتا تھا سوگئی ہیں اس لیے دبے قدموں سیڑھیوں پہ رکھتا تقربیاً کہ اپنے گھر کی چھت پہ تقربیاً رینگتا ہوا گیا صرف اس لیے کہ ابا نہ دیکھ لیں ___”
وہ ماہر کھلاڑی تھا اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوگیا نہ ابا اسے دیکھا اور نہ کوئی ہنگامہ ہوا شیڈز کے نیچے جاتے اس نے جیب سے چابیوں کو نکالا اور نہایت ہی آرام سے دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوگیا تھا سر شار سا چرپائی پہ لیٹتا وہ چابیوں کو اچھالتا اور پھر کیچ کرتا گیا تھا __”
❤❤❤❤❤
دوپہر بارہ بجے کا وقت تھا مانی آج صبح سے گھر تھا ابا جمعے کی تیاریوں میں مصروف تھے وہ سیڑھیوں کے پاس منہ کے نیچے ہاتھ رکھے ابا کی کاروائیوں کو کبھی آنکھ بند کرکے کبھی کھول کہ ایسے دیکھ رہا تھاجیسے سامنے لیب ہو اور وہ کسی تجربے کےلیے تیاری میں مصروف ہو ابا ہمیشہ کی طرح شیو بنا کہ شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتے نامتفق لگ رہے تھے وہ جہاں بھی جاتے خوشی ہو یا غم اپنے آپ کو فٹ فاٹ حلیے میں لے کہ جاتے ان کو اپنے ہر کام میں پرفکٹینس چاہیے ہوتی کوئی بھی خطا جیسے ان کو اپنی اصول پسند طبعیت کےلیے ناگوار ہی گزرتی ابھی بھی جمعے کی تیاریوں کےلیے سہی دل لگا کہ تیار ہو رہے تھے ___”
اپنی تیاری میں مصرفیت کی بناء پہ ان کی ایک نگاہ مانی پہ نہیں پڑی جو آنکھیں چھوٹی کیے پھاپھے کٹینوں ,کی طرح دل میں باتوں کے جال بنتا موقع کی تلاش میں تھا___”
بہت بہت بہت اچھے لگ رہے ہیں ___” ویسے ماسٹر صاحب اس بچارے شیشے نے بھی آپکی نفاست پسند طبعیت سے تنگ آکہ مجبوراً تعریف کر دینی ہے__”
ابا کو بار بار شیشے اٹھا کہ دیکھ خود کو تنقیدی نگاہوں سے اپنے آپ کو تکتا دیکھ کہ وہ اپنی عادت سے مجبور بولے بغیر نہ رہ سکا ___”ابا نے کیٹلی نگاہوں سے اسے صرف گھورا کیونکہ جماعت میں دیر ہونے کے ڈر سے جوتے صاف کرنے لگے__” ابا کو پرسوچ نظروں سے دیکھتا اٹھ کہ سر پہ ہاتھ پھیرتا چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ رکھے تیزی سے کچن کی جانب بڑھ گیا__”
ارے زارا میں کہتا تھا نہ کہ ماسٹر کو سنھبال کہ رکھیں ان کے لچھن مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے لیکن میری باتیں سن کہ آپ کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اب دیکھ لیں ماسٹر صاحب آپ کے ہاتھوں سے نکل گئے ____”
اماں کو کچن میں روٹیاں بناتا دیکھ کہ وہ کرسی پہ بیٹھاتا کسی ماہر تجربے والی عورت کی طرف بولا اس کی باتوں میں اتنی مضبوطی و سنجیدگی دیکھ کہ زارا بیگم نے ٹھٹک اسے دیکھا پیڑہ بناتا ہاتھ خودبخود رک گیا اماں کا دھیان بِٹ کہ اسکی طرف ہوا ___”
دیکھ مانی بکواس بند کر میں تیری ان عادتوں سے تنگ آگئی ہوں تیرے ابا نے زندگی گزاری ہے میرے ساتھ __”
بھلے وہ جتنے غصے والے ہوں مگر میری علاوہ انھوں نے آج تک ایک آنکھ اٹھا کہ بھی کسی کو نہیں دیکھا___”
اماں نے بیلن اٹھا کہ اس کی طرف لہرایا اور تیکھی نظروں سے دیکھتے کافی سخت انداز میں تنہیہ کی ___”
نی زارا تجھے یہ خوش فہمیاں مار دیں گی نی بات سن میری توُ ابھی تیرے شوہر نے ایک نہیں دو آنکھیں اٹھا کہ دیکھا ہے دیکھا بھی نہیں بلکہ گھورا ہے ___”بالکل سنجیدہ ہوکہ اس نے اماں سے اس انداز میں بات کی کہ اماں کا بے اختیار اپنا سر پیٹنے کو دل کیا__”
ویسے ابا جب بھن ٹھن کہ نکلتے ہیں تو آپ کے دل میں ذرا خدشات نہیں آتے کہ ابا کسی کو دل دے بیٹھے ہوں گے ایک پتے کی بات بتاؤ ابا تو شان کی فلموں کے دلدادہ ہیں یہ نہ ہو کوئی صائمہ اپنے لیے ڈھونڈ رہے ہوں مجھے تو لگتا ہے وہ ڈھونڈ چکے ہیں مگر آپ کو تو اپنے بیٹے سے زیادہ شوہر پہ یقین ہے ___”
رک الو کے پٹھے نامراد ___” آواز اونچی کی بناء پہ ابا جو صحن میں کھڑے تھے ان کی بھرپور وحشت نگاہوں نے اسے گھورا اس سے پہلے ابا باہر سے کوئی ہتھیار اٹھا کہ لاتے وہ تیزی سے بھاگا باہر کی جانب __” ایک نگاہ مڑ کہ ابا کو نہ دیکھا تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بھاگا___”
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
نورِ حرم جو ابھی شاور لے کے باہر نکلی ٹھنڈک اور سرد ہوا کی وجہ سے وہ ڈوپٹہ پلنگ پہ رکھے دھوپ لگوا رہی تھی
اچانک دھپ دھپ قدموں کی آواز پہ مڑ کہ دیکھا وہ موصوف چھلاوے کی طرح نیچے آ رہا تھا اس کی یہ ہی غیر اخلاقی حرکتیں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں اس کو دیکھ کہ جلدی سے ڈوپٹہ اٹھا کہ سر پہ کیا کیونکہ اسکی ایکسرے کرتی نگاہوں کا اسے علم تھا اس لیے اچانک سے سر پہ ڈوپٹہ کیا تھا__
مانی تیزی سے اترتا سیڑھیوں سے اچھلتا کودتا اسکو کسی خاطر میں لاتا اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بھی تپ کہ اس کے پیچھے گئی ___”
کیا مسئلہ ہے اب ___؟ تمھارا بندروں کی طرح اچھل کود کرنا مجھے ہرگز منظور نہیں ہے___” اس نے انگلی اٹھا کہ اسے وارن کیا کہ وہ وہاں سے ایک منٹ کے اندر اندر نکلتا بنے ___”
نکلو ایک منٹ کے اندر نہیں تو میں دھکے دے دے کہ باہر نکالوں گی ____” وہ اپنی چادر بار بار سر پہ سیٹ کرتی انگلی سے باہر کا اشارہ کیے جا رہی تھی
ششش___” اس نے انگلی اپنے منہ پہ رکھتے اسے اشارہ دیا کہ وہ بس اپنا منہ بند رکھیں وہ بس اشاروں سے واسطے دیے جا رہا تھا ___”
کیا ششش__شش ___” نکلو یہاں سے مانی ___” میں آخری دفعہ کہہ رہی ہوں نہیں تو میں چاچو کو آواز لگا رہی ہوں سارا فرش گندہ کر دیا ہے تم نے ___”
شہزادی صاحبہ ابا حضور اور ان کے جاہ جلال کا لشکر ہماری خبر گیری کرتا یہیں ہی تشریف لا رہا ہے اس لیے تھوڑی دیر کےلیے میرا یہ پڑاؤ منظور کرلیں میرا آخری پڑاؤ آپکی ہی یہ ہی پناہ گاہ ہے اس لیے جب ابا اور ان کے جاہ و جلال کا لشکر ٹل جائے تو مجھے خبر دار کر دیجئے گا شکریہ ___” وہ شکرانہ انداز میں ہاتھ رکھے سنجیدگی سے اسے مخاطب تھا جیسے جنگ عظیم کا سپاہی وہ ہی ہو اور اناطولیہ کی ریاست کی بنیاد رکھ کہ آیا ہو ___” اس کا طرزِ تخاطب اتنا معصومانہ تھا کہ نورِ حرم کو نجانے کیوں آج پہلی دفعہ وہ بہت اچھا لگا اس لیے کھل کہ گھور بھی نہ سکی اور مسکراتی باہر چلی گئی __”
نور __” مانی یہاں تو نہیں آیا ___” کچھ دیر بعد دیوار سے علیزے کا منہ نظر آیا جو پریشان سی نظر آ رہی تھی __”
آیا تھا مگر کچھ گبھرایا ہوا تھا باہر نکل گیا ہے ___” اس نے بات ٹالی پتہ نہیں کس جذبے کے تحت وہ کہتے کہتے کچھ رک گئی تھی علیزے کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر چلی گئی تھی
ماربل کے فرش پہ دھوپ کے پاس اس نے میشن اپنے نزدیک کی وہ اماں کے کپڑے مکمل کرنے لگی تھی جو انھوں نے کسی شادی کے پہن کے جانے تھے اس نے سوچا کہ قمیض مکمل کرکے اٹھ کہ نماز پڑھ لے گی __”
ابھی وہ تیزی سے کام پہ دھیان کر رہی تھی جب وہ اس سے کچھ فاصلے پہ چوکڑی پہ مارتا نیچے جا بیٹھا___”
آج مجھے کسی پہ اتنا پیار آ رہا ہے کیا بتاؤں اس کو دیکھتے ہوئے بھی میرے دل کو کچھ کچھ ہو رہا ہے کیا اس مرض کی کوئی دوا ہے اسکے پاس کہ وہ علاج کر دیں جو مشکل ہے ناممکن نہیں ___؟ اس کی بات سنتے نورِ حرم نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور غصیلی نظروں سے اسے دیکھا وہ اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھا تھا اس کی آنکھوں کی چمک اس کی گہری نظریں اپنے اوپر محسوس کرتے عجیب سا احساس ہوا وہ اس احساس کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہوئی مگر اس شخص کی باتیں جلتی پہ تیل کا کام کرگئی __”
اس بے غیرتی کی میرے پاس کوئی دوا ہے ہاں ایک تھی جو تمھیں وقت پہ ملی نہیں وہ تو شکر ادا کرو کہ علیزہ کو میں نے ٹال دیا ہے ورنہ چاچو تمھارا وہ حال کرتے کہ تم تاعمر یاد رکھتے اس بے غیرتی کا علاج چاچو کے پاس نہ مشکل تھا اور ناممکن کی تو اس میں بات ہی نہیں تھی وہ ڈوز تو تمھیں رات کو سوتے ، صبح کو اٹھتے دوپہر کو ہر وقت چاچو دے دیتے ہیں ___”
اس نے قینچی اس کی طرف کرتے بے وجہ سی بات کا غصہ نکالا تو ایک ادا سے قینچی پکڑنے کی کوشش کرتا قہقے لگا گیا جو اس نے پیچھے کھینچ لی تھی __”
ہائے ابا کی ڈوز کے کیا کہنے ___” ماسٹر صاحب کی چپل بھی کمال ہے جو بجتی میری کمر پہ ہے اور سکون م تمھیں ملتا ہے ہائے اس دوا کو میں کیا نام دوں__” وہ ایسے چس لیتے بتا رہا تھا جیسے میدان جنگ کا معرکہ مار لیا ہے ___’
ویسے یہ تم چاچو سے سچ میں ڈرتے ہو ___” مجھے تو لگتا ہے تم فضول کی ایکٹنگ کرتے ہو ورنہ تم جیسے ڈھیٹ کو چاچو کی مار سے کیا فرق پڑتا ہے __”ویسے تمھیں دیکھ کہ تو کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ تم بی ایس ڈبل میتھس فزکس کیا ہوا ہے ایسا لگتا ہے پڑھنے نہیں گئے بلکہ ایکٹنگ کی تعلیم حاصل کر کہ آئے ہو___”
نہیں جی یہ تو میری خدا داد صلاحیت ہے __” بڑے فخر سے اس نے کالر جھاڑتے اس کی طرف دیکھ کہ ایفشنسی جھاڑی __”
ویسے سنا ہے کہ باپ یا استاد کی مار جسم کے جس حصے پہ پڑے وہ حصہ بخش دیا جاتا ہے اس پہ دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے___” متانت بھرے انداز میں تیزی سے سلائی کرتی اس نے بڑی خوبصورتی سے کہا___”
پھر تو میں پکا پکا جنتی ہوں کیونکہ جتنا ابا نے بچپن سے مجھے مارا ہے دوسرے لفظوں میں جتنا انھوں نے بخشوایا ہے مجھے تو نہیں لگتا ابا نے مجھے کہیں سے سلامت چھوڑا ہو اب تو جنت واجب ہے مجھ پہ ___”
اسکی بات سنتے اس نے اپنی منطق دی ایک بات تو تھی
جو بھی تھا وہ بلا کا حاضر جواب تھا وہ کئی کئی دفعہ اسکی حاضر جوابی پہ حیران رہ جاتی __”
اس کے بعد وہ نہ بولی اور مانی اسے تکتا رہا کچھ دیر کی طویل خاموشی کے بعد نورِ حرم کو اپنا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے اپنے چہرے پہ تپش کا احساس ہوا اس نے جنجھلا کہ دیکھا تو وہ دیوانہ وار اسے ہی دیکھ رہا تھا نورِ حرم اس شخص کی نظروں سے پزل ہوئی اور ایسا پہلی بار ہوا وہ اپنی خاموش نظروں سے اس پہ وفا کے گہرے راز منکشف کرگیا اسے ایسے لگا اسکا چہرہ جلنے لگا کانوں سے دھواں دہکتا ہوا محسوس ہوا اب کی بار بمشکل اسے نظریں اٹھا کہ دیکھا تو مانی نے اسے آنکھ ونک کی تو نور حرم قینچی اٹھا کہ اٹھ کھڑی ہوئی ___”
ایک منٹ کے اندر اندر سے میری نظروں سے اوجھل ہو اور دوسری بات نگاہوں کو سنبھال کہ رکھنا سیکھو نہیں تو میں نکال پھینکوں گی تمھیں تو جیسے تیسے برداشت کر لیتی ہوں مگر تمھاری ان غلیظ نظروں کو ایک منٹ کےلیے برداشت نہیں کرسکتی ___” وہ اسے کچھ فاصلے پہ قینچی اٹھائے کھڑی تھی جب مانی ایک نظر اس خون خوار جنگلی بلی کو دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا___”
اگر کوئی آنکھوں میں چھپے پاکیزہ احساسات نہیں سمجھ سکتا تو اس کو ہر چیز میں بھی غلاظت نظر آتی ہے تو پھر دیکھنے والے کا قصور نہیں ہے یہ اگلے کی سوچ کا قصور ہے کہ وہ دوسرے کو کس نظر سے پرکھتا ہے کس تروازو میں تولتا ہے خود کو اتنا بھی نیک نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہر شخص ہی گناہ گار نظر آنے لگ پڑے ___” اس سے فاصلے پہ ٹھہرتے وہ نہایت اعتماد سے کہتا اپنا ازلی لاپروائی انداز اپنائے سیڑھیاں کی جانب بڑھ گیا جب کہ نور حرم اس کے الفاظوں پہ غور وفکر کرتی رہ گئی __”
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
رات دس گیارہ کا وقت تھا دن بدن راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہونے لگے اس لیے ابھی ایسے لگ رہا جیسے آدھی رات ہو مگر پھر بھی رونقیں عروج پہ تھیں اس ایرے رات دیر تک ورکر اپنے کام میں مشغول رہتے پلازے کے ساتھ فرنیچر کی دکان تھا جہاں دن بھر لکڑی کا فرینچر بنایا جاتا اب دن کی طرح زیادہ رش تو نہیں تھے جو یہاں دن کے وقت ہوتا اس وقت رونقیں ماند پڑتی دکھائی دے رہی تھیں
وہ جیدے کے انتظار میں نہایت خاموشی سے فرینچر بنتے دیکھ رہا تھا جسے آدھے گھنٹے پہلے میسج کیا مگر وہ ابھی تک نہیں پہنچا اس لیے وہ دکان سے اٹھ کہ باہر آگیا جہاں پہ ایک لکڑی کا بنچ اس طرف کافی اندھیرا تھا شاپ کی پچھلی جگہ پہ اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ روشنی میں ہی کھڑا رہا جیدے نے اسے رات یہ ہی آنے کا کہا تھا مگر اب تک وہ خود نہیں آیا وہ اسی کے انتظار میں ٹہلنے لگا ___”
ٹہلتے جیسے ہی وہ مڑا اسے لگا جیسے بینچ پہ کوئی ہے وہ ایک طرف سے گھومتا اندھیرے کی جانب بڑھا __”
شکر ہے جواد تم آگئے ____” وہ جیسے ہی بینچ کے نزدیک ہوا تو صنفِ نازک کی آواز سنتے چونک گیا اسے لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے آدھی رات کو ایک لڑکی وہ بھی لڑکے کے انتظار میں کھڑا رہنا یقین کرنا مشکل ہوا جہاں دن کے وقت لڑکیاں قدم رکھنا پسند نہیں کرتیں وہاں رات کے وقت تن و تنہا جوان لڑکی کا بیٹھنا اسے بہت عجیب لگا تھا اوپر سے جواد کا نام سن کہ اس کے کان ہی تو کھڑے ہوگئے ___”
میں آج تمھارے لیے ساری کشتیاں جلا آئی ہوں جیسے تم نے کہا تھا میں نے ویسے ہی کیا ہے سب سوگئے تھے میں سارا سونا لے آئی ہوں تم نے ہی کہا تھا کہ میرے ساتھ بھاگ چلو ہم اپنی دنیا بسائیں گے آؤ چلتے ہیں اب ہم اپنی دنیا بساتے ہیں ___وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی تھی
اس نے موبائل کی ٹارچ آن کرکے دیکھنا چاہا کہ وہ کون بدنصیب ہے جو کسی غیر کےلیے اپنے باپ کی عزت رولے تیار کھڑی تھی مگر جیسے ہی اس کے چہرے پہ نگاہ پڑھی تو ساکت رہ گیا وہ تو بالی کی بہن تھی جو شاید سکول یا کالج کی طالب علم تھی جیسے اس کا باپ خود چھوڑنے جاتا تھا دوتین بار اس نے اس نے اس کو دیکھا جو صبح سکول بیگ میں دکھائی دیتی ___” اس لڑکی کا چہرہ دیکھ کہ اس کے تصور میں بخش محمد کا چہرہ لہرایا گیا اس کا دماغ بری طرح خراب ہوگیا__”
وہ سوچ بھی نہ سکا کہ وہ ناعمر لڑکی کیسے عشق محبت کے جال میں پھنستی اتنا انتہائی قدم اٹھا گئی اس نے یہ نہ سوچا کہ اس کا بات صدمہ سہہ جائے گا (ہزاروں کم عمر لڑکیاں اس جال اپنی عزت سمیت خاندانوں کو تباہ و برباد ماں باپ کے منہ پہ کالک لگاتی اپنے ماتھے پہ بے عزتی کا نشان لگائے ایک غلط قدم کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ و بر باد کرکے رکھ دیتی ہیں صرف ایک لڑکی کی وجہ سے ماں باپ اپنی بیٹیوں پہ اعتبار کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے اور وہ تو تالاب گندا کرنے جا رہی تھی آج رات تھی کل صبح تو اس ایک لڑکی کی وجہ سے پورے خاندان کی عزت نیلام ہو جاتی )اسے آج علم ہوا کہ ماں باپ بیٹیوں کی وجہ سے کیوں پریشان رہتے ہیں ___”
تت__تم ___”جواد کک__کہا ہے مانی کو دیکھتے وہ بد حواس ہوئی ___” بدحواس کیسے نہ ہوتی آدھی رات کو گھر سے نکلی تھی
اس کی یہ کہنے کی دیر تھی جب مانی کا الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کا چہرہ گھوما کہ رکھ گیا وہ محلے کا وہ آوارہ شخص تھا جس نے آدھی رات کے وقت ایک لڑکی کو غیر کےلیے گھر چھوڑتا دیکھ کہ اپنے باپ کی عزت نیلام ہوتا دیکھ کہ اسے یہ تھپڑ انعام کی صورت میں دے گیا___”
تم جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو باپ کا سر جھکاتی ہیں ان کی موت کی وجہ بنتی ہیں تمھیں ذرا شرم نہیں آئی ایسی حرکت کرتے ہوئے ___”
ایک ایسا لڑکا جو دن کے اجالے میں عزت سے رخصت کرنے کے بجائے رات کے ا اندھیرے میں اتنے گھٹیا فعل پہ اُکسا رہا ہے تمھیں لگتا ہے کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے
وہ تم سے محبت کرتا تو عزت سے تمھارے باپ سے تمھارا ہاتھ مانگتا تم سے نکاح کرنا ہوتا تو وہ ماں باپ کو لے کہ گھر آتا نا کہ چوروں کی طرح تمھارے ساتھ الگ دنیا بسانے کی بات کرتا ___” پھر تم کہو گی محبت میں دھوکہ ملا ہے حالانکہ دھوکہ تو تم خود دے کہ جا رہی ماں باپ کو بہن بھائیوں کو___”
ایک بات یاد رکھنا جو مخلص رشتوں کو دھوکا دیتے ہیں ان کو پھر تاعمر دھوکے ہی ملتے ہیں تم آج دھوکہ دے کہ جار رہی تھی اس لیے یہ پلٹ کہ تم تک ہی آتا کیونکہ اس دھوکے کو اپنے مقام سے بڑی محبت ہوتی ہے وہ زندگی میں پلٹ کہ ایک بار ضرور آتا ہے اسے پہلے کہ میں تمھیں زندہ درگور کر دوں جن قدموں سے رات کی سیاہی میں یہاں آئی ہو اسی رات کی سیاہی میں واپس چلی جاؤ__”
اسے آج ایسا غصہ آیا کہ اگلے پچھلے حساب بے باک کر گیا اس لڑکی سے اس کا خون کا رشتہ نہیں تھا جو وہ اتنا بھڑکتا مگر شاید ایک بہن کا بھائی تھا تبھی اتنا خطرناک
رد عمل کیا __
میں جو مرضی کروں تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے___” جس کی تم بات کر رہے ہو وہ مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے اس کے ماں باپ نہیں مان رہے تب ہی جواد نے مجھے کہا ہے کہ شادی کروں گا تو بس تم سے ہی __”مجھے تو لگتا ہے تم جواد سے جلتے ہو__”کیونکہ سنا ہے کہ تمھیں تمھاری بیوی بھی منہ نہیں لگاتی ___”مجھے نصحیت کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کہ دیکھو کہ کتنے صاف ستھرے ہو تم __؟
وہ تھپڑ کھاکہ بھی دیدہ دلیری اور نخوت سے بولی اتنی ساری باتیں سن کہ اسے ذرا باتوں کا اثر نہ ہوا کیونکہ وہ اندھی ہوچکی تھی اور کوئی لڑکی نادم ہوتی پیشماں ہوتی مگر وہ اندھی گونگی بہری بن چکی تھی ___ “
؎ابھی تم طفلِ مکتب ہو سنھبالو اپنے جوبن کو
یہ طوطے کچی فصلوں کا بڑا نقصان کرتے ہیں
مانی نے بھاری لہجے میں شعر پڑھتے اس کی بیوقوفی کا احساس دلانا چاہا___”
گھر جاؤ بلکہ میں تمھیں خود چھوڑ آتا ہوں میرا تو دل کر رہا ہے تمھیں تمھارے ماں باپ کے پاس لے کہ جاؤں اور پوچھوں کہ تمھیں زندہ درگور کیوں نہیں کیا میں پہلے سوچتا تھا کہ جو لوگ بیٹیوں کو غیرت کے نام پہ قتل کرتے ہیں کیا ان پہ بیٹیاں بوجھ ہیں لیکن آج سمجھ آ رہا ہے وہ کیوں ایسا کرتے ہیں آج لگ رہا ہے وہ جو کرتے ہیں سہی کرتے ہیں تم جیسی بیٹیاں واقعی بوجھ ہوتی ہیں ___” تمھاری عزت کی پرواہ ہے اس لیے کہہ رہا ہوں صبح ہونے سے پہلے خاموشی سے واپس چلی جاؤ خود کو اور ماں باپ کو رسوائی سے بچالو___”
جو بیٹیاں اپنی قمیتیں خود طے کرتی ہیں وہ اپنی حقیقی قدرو قمیت کھو کہ زندگی بھر کےلیے بے مائیگی و نارسائی خرید لیتی ہیں اپنا معیار گراکے عمر بھر کےلیے بے مایہ ہوجاتی ہیں کیونکہ جوہری کے بغیر ہیرے کی قمیت کا اندازہ لگانا کسی کے بس کی بات نہیں بیٹی کے لیے باپ سے بڑا جوہری کوئی نہیں ہے جو اسکی حقیقی قدر گردان سکے ___” تم نایاب ہو کیونکہ وقت ابھی تمھارے ہاتھ میں ہے ___” افسوس کرنے سے بہتر ہے اچھی طرح سوچ لو _”
اور جہاں تک میری بیوی کی بات ہے جو کہ تم سنا ہے کہ وہ مجھے منہ نہیں لگاتی تو میں سجھتا ہوں وہ ٹھیک کرتی ہے کیونکہ ہمارا ابھی نکاح ہوا ہے جو وہ مجھ سے فرینک ہو اور ویسے بھی عورت میں اتنا وقار ہونا چاہیے کہ وہ فضول میں مرد کو مخاطب ہی نہ کریں یہ ہی تو مضبوط اور حسین ترین عورت کی نشانی ہے ___”
موبائل جیب میں رکھتے اس نے صاف ستھرے انداز میں کہہ رہا تھا تو سامنے نگاہ پڑی کوئی ان کو بڑی معنی خیز نگاہوں سے دیکھا کیونکہ ٹارچ اس نے ادھر لگائی اور تھوڑی دیر ان کو دیکھا پھر آگے بڑھ گیا__”
کوئی ضرورت ہے نہیں میرا باپ بننے کی میں خود چلی جاؤں گی __” وہ یہ کہتی پلٹی __”
میں چاہے لاکھ نصحیتں کرلوں تم پہ کوئی اثر نہیں ہوگا اثر تو تب ہوگا جب تمھیں ٹھوکر لگے گی اس لیے کہتا ہوں ٹھوکر لگنے سے بچ جاؤ سنھبل جاؤ کیونکہ جو ٹھوکریں وقت لگاتا ہے وہ سوچ سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہیں جن کے گھاؤ مرتے دم تک نہیں بھرتے ___”
مانی نے مضبوط لہجے سے کہا تو وہ اسے باتیں سناتے چلی گئی تھی مانی کو لگا وہ سمجھ گئی ہے مگر وہ نہیں جانتا تھا یہ نصحیت اس کےلیے کتنی مہلک ثابت ہونے والی ہے __کبھی کبھی تو دوسروں کے ساتھ اچھا ہونا بھی بہت برا بن جاتا ہے __”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial