راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

ہٹو میرے رستے سے ۔۔۔۔” وہ پہلے خوفزدہ ہوئی مگر پھر
اس کو اپنے سے کچھ فاصلے پہ دیکھ کر ڈھارتی ہوئی بولی۔۔۔”
اگر نہ ہٹوں تو کیا کرو گی بیوی۔۔۔۔؟ وہ ایک آنکھ مارتے راز دانہ انداز میں کہتے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔”
تو میں چاچو کو بتاؤں گی مانی ۔۔۔۔! وہ چادر مزید ٹھیک کرتے میٹھیاں بھینچتے بولی خود کو پرسکون کرنے کی ناکام سی کوشش تھی
ہاں میں تو جیسے تمھارے چاچو سے ڈرتا ہوں نا۔۔۔” کوئی ڈھنگ کا بندہ بتایا کرو مسز ۔۔۔” جو مجھ جیسے گھٹیا انسان کو قابو کرسکے۔۔۔” گریبان میں پڑی چین کو چھیڑتا اس نے بڑے ہی کمینے پن سے مسکراکہ پھر سےآنکھ مارتے کہا۔۔ “
پتہ ہے کچھ لوگ ہوتے ہیں شیطان ۔۔۔” جنھیں کسی کے خلوص کسی کی خوشیوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔۔۔”
بے شک کوئی جی رہا ہو یا کوئی مر رہا ہو ۔۔۔۔” جن کے دلوں پہ اللہ مہر لگا دے ۔۔۔جن کے دل میں اللہ برائی کی چھاپ چھوڑ دے ۔۔۔۔” وہ پھر گونگے بہرے ہو جاتے ہیں جس طرح تم ہوگئے ہو ۔۔۔پتہ ہے اُس خدا نے تمھارا دل گناہوں سے سیاہ کر دیا ہے ۔۔۔۔” جب تک وہ نہ چاہے تم ہدایت کی طرح ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔۔۔” وہ چہرے پہ غضب و غصہ لیے پھنکارتی ہوئی بولی۔۔۔”
مسز ختم ہوگئی قسط……تو بندہِ ناچیز کچھ عرض کروں۔۔۔۔”
میں کچھ نہیں سننا چاہتی ہٹو میرے راستے سےفضول انسان ۔۔۔۔” نور حرم کو اس سے کچھ بھی سرو کار نہ تھا اس لیے کہہ دیا کہ وہ اسکی فضول پیشن گوئی دیکھ کر نکل جائے گی۔۔
اوہ اوہ بیگم ۔۔۔۔شوہر کو عزت سے مخاطب کرتے ہیں بیوی تمھاری اماں نے نہیں سکھایا کہ شوہر کی عزت کیا کرو۔۔کوئی نہیں میں چاچی سے بات کروں گا کہ تربیت وربیت سکھا دیں تمھیں۔۔وہ ہاتھ نچاتا پھر سے آنکھ مارتا خباثت سے بھرپور لہجے میں بولا۔۔۔!
شوہر عزت کے قابل ہو تو اسے عزت دوں نا۔۔”شکل دیکھ لو ایک دفعہ اپنی شیشے میں جاکہ ۔۔۔۔حور کے پہلو میں کھڑے لنگور لگتے ہو۔۔۔۔” اور دوسری بات میری ماں نے ہر بات سمجھائی ہے مجھے اور میری تربیت بہت اچھی کی اس لیے میں نہیں چاہتی کہ میں اپنی یہ تربیت کا پرچارفضول لوگوں کے آگے کروں۔۔۔۔” وہ اسے پسپا کرنے کی خاطر بولی تاکہ وہ مایوس ہوجائے اور آئندہ پھر سے اسے تنگ نہ کرے یا اس کا رستہ نہ روکے۔۔ “
چلو مسز حور جی….اس بندہِ ناچیز کےلیے یہ ہی اعزاز کی بات ہے کہ تم نے مجھ جیسے لنگور کو اپنے پہلو میں کھڑا ہونے کا اعزاز تو بخشا۔۔۔۔” معنی خیزی سے مسکراتا اپنی گردن کے پیچھے سے ہاتھ گزارتا وہ اس کے تاثرات جانچ رہا تھا
تمھیں دیکھ کہ ایسا ویسا احساس کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ جس سے لگے کہ تم میرے شوہر ہو گلی میں بیٹھے کتے سے بھی تحفظ کا سکون پیدا ہوتا ہے مگر تم سے نہیں شوہر تمھاری طرح فضول نہیں ہوتے ایک دفعہ اپنے آپ کو دیکھ کہ سوچ لینا ۔۔۔وہ یہ کہتی پیر پٹختی چلی گئی۔۔۔”
اچھا بیگم ۔۔۔۔رکو میں چھوڑ دیتا ہوں تمھیں۔۔۔وہ جینز کی جیب سے سییگریٹ اٹھاتا ہوا اس کے پیچھے لپکا۔۔۔”
جو اپنی بہن کا محافظ نہیں بن سکتا وہ دوسرے کے آگے اچھا بننے کی کووش میں اپنی انسانیت دکھانے آجائے ۔۔” تو اس شخص کی انسانیت پہ لعنت ہے ۔۔۔”
میرا ایک مخلص مشورہ ہے تمھارے لیے ۔۔۔۔” چوڑیاں علیزے سے لو اور ایک زارا چاچی کا ڈوپٹہ لے کہ گلی میں ناچ لو ۔۔۔۔ ” حرکتیں بھی خواجہ سراؤں کی طرح ہے تمھاری اور شکل بھی ایسے بنا رکھی ہے ۔۔۔۔ ” یہ کام تمھارے لیے بہت بہترین رہے گا۔۔۔”
ہے تو اچھا مشورہ لیکن یہ بتاؤ بیگم۔۔۔۔” اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔۔۔۔۔” سگریٹ سلگا کہ پھونک مارتا منہ میں رکھتا وہ ہاتھوں سے دھواں اڑاتا ہوا بولا۔ “
اس سے کسی اور کو تو نہیں چاچو کو فائدہ ہو جائیگا کہ
دو چار چھلکے ان کے ہاتھ میں آئیگے ۔۔۔” تو ان کو کم از کم تمھیں پیدا کرنے پہ کوئی افسوس تو نہیں رہے گا نہ۔۔۔” ویسے بھی جب جوتوں کی آواز روز تمھاری کمر پہ بجتی ہوئی میرے کانوں کو راحت پہنچاتی ہے ۔۔۔اصل ٹھنڈ تو اس وقت نورِ حرم کے دل میں پڑتی ہے ۔۔۔” وہ آواز اتنی دلکش ہوتی ہے دل کرتا ہے دیوار سے جھانک کر روز تماشہ دیکھوں تمھارا۔۔” اب کی بار محض اسے شرمندہ کرنے کےلیے بولی ۔۔۔”لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اس شخص کاشرمندگی سے تو دور دور سے واسطہ نہیں تھا۔۔ “
چلو جی ۔۔۔کوئی چیز تو تمھیں راحت پہنچاتی ہے نہ ۔۔” چاہے پھر وہ میری کمر پہ بجتے میرے ابا کے جوتوں کی آواز کیوں نہ ہو ۔۔۔۔تمھارے چہرے پہ چھلکتی کسی خوشی کا احساس تو مانی سے جڑا ہوا نہ مسز ۔ مانی نے چین کو گمھاتے ایسے کہا ۔۔۔۔جیسے ان دونوں کے درمیان محبت کا گہرا تعلق رہا ہو ۔۔۔۔”
ویسے ماسٹر صاحب مجھ سے پیار بہت کرتے ہیں ۔۔۔لیکن ان کے پیار کا اظہار اور باپوں کے مقابلے میں مختلف ہے
اب کی بار باپ کی شان میں قصیدا پڑھا گیا۔۔ “
ہاں بہت ۔۔۔میں دیکھتی رہی ہوں تمھارے ابا کے پیار کا طریقہ بہت اعلٰی ہے۔۔۔وہ اب کی بار طنزیہ ہنسی ہنس کر بولی۔۔
وہ تو پیار کرتے وقت ان کا میڑ تھوڑا سا زیادہ گھوم جاتا ہے ۔۔۔” کیا کروں ابا ہیں ورنہ پیار کا اظہار میں بھی بہت اچھے سے کر سکتا ہوں ۔۔۔ ” بڑی کمینگی سے کہتے اس نے لمبے بالوں کو کان کے پیچھے کرتا سرگوشی سے کہا۔۔۔ “
فضول میں میرا اتنا وقت برباد کر دیا ہے تم نے لوفر انسان ۔۔۔۔” دراصل تمھیں ڈوب کہ مرجانا چاہیے۔۔۔” وہ تو جیسے چاچو کے بارے میں سن کر حیرت سے بت بن گئی پھر چیخ کہ بھڑاس نکالی۔۔۔ “
ویسے دو عدد جذباتی لیکچرار صاحبہ اور صاحب میرے گھر میں بھی پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔” میں ان فضول کی باتوں سے تنگ آگیا ہوں اگر کچھ لیکچر دینا ہے تو عشق پہ دے دو بڑا مزہ آئیگا استانی صاحبہ ۔۔۔! وہ اس کی بات کو اپنی بات کا رنگ دیتے ہوئے بولا ۔۔۔۔”
اللہ کرے کسی گاڑی کے آگے مرو تم۔۔۔تمھاری ہڈیاں بھی نہ ملے کسی ۔۔۔۔ کوئی پہچان بھی نہ سکے تمھیں۔۔۔۔” ایسی موت مرو تم ۔۔۔” وہ اس کی وہیں ڈھیٹ حرکتیں اگلے پچھلے لحاظ بے باک کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف بڑھنے لگی۔۔”
ہائے ہائے مزہ آگیا ۔۔۔ ” ویسے یہ تمھاری اور علیزے کی بد دعا ایک جیسی ہی کیوں ہوتی ہیں ۔۔۔۔ جیسے بھی ہوں لیکن ایک بات ہے خالص ہوتی ہیں ۔۔۔” وہ اسے دیکھتے بلند آواز میں بولا چہرے پہ وہی خبیثانہ مسکراہٹ تھی۔۔۔”
ایک جیسی اس لیے ہوتی ہیں ۔۔۔۔” کیونکہ تمھاری حرکتیں ہی چیپ ہیں جو مجھے اور اسے مجبور کر دیتی ہیں۔اور ویسے بھی خالص بدعاؤں میں اثر بہت ہوتا ہےوہ اب گھر میں داخل ہوئی یہ کہہ کر دروازہ اس کے منہ بند کرنے لگی۔۔
نورِ حرم نفرت برائی سے کرنی چاہیے ۔۔۔۔انسان سے نہیں اور مجھ جیسے بے ضرر انسان سے محبت کرو محبت ۔۔۔۔ اب کی بار وہ سر کجھا کر ڈاڑھی پہ ہاتھ رکھتا بولا اور پھر آخر میں وہیں خباثت سے بھرپور مسکراہٹ۔۔۔ “
کی تھی برائی سے نفرت ۔۔مگر تم جیسا انسان محبت تو کیا ہمدردی کے قابل بھی نہیں ہے۔۔۔” وہ بیگ کی سٹریپ کندھوں پہ ٹھیک کرتی ہوئی بولی۔۔
اور تم جیسے دو اور بے ضرر انسان دنیا میں پیدا ہوگئے نا ۔۔۔” تو پھر محبت نہیں محبتیں ہوں گی محبتیں ۔۔۔” وہ یہ کہتی زور سے پٹخ کر دروازہ بند کر گئی ۔۔” مگر اس کا مکروہ قہقہ اس کا دل بری طرح سے جلا کہ رکھ گیا۔۔۔وہ دروازے کے ساتھ سرٹکاتی بے بسی سے رو پڑی۔۔۔” اللہ نے یہ کیسا شخص اس کی قسمت میں لکھ دیا جس کا احساس سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔۔۔مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اللہ اس کی زندگی میں بہت جلد ایک اچھا اور پاک ہمنواہ بھجنے والا تھااللہ تو بہتر کرتا ہے۔۔۔۔
نورِ حرم تُو آگئی ۔۔۔اندر سے ماں کی آواز آئی تو وہ سیدھی ہوکہ بہانے سے دروازہ ٹھیک کرنے لگی ۔۔”
جی امی آگئی ہوں ۔۔۔۔وہ دروازے سے ہاتھ ہٹاتی گہری سانس لیتے ہوئے پلٹی ۔۔۔”
اچھا آجاؤ شاباش کھانا کھالو۔۔۔۔” آگے ہی کافی دیر ہوگئی ہے تمھیں ۔۔۔۔” میں پریشان ہوگئی تھی۔۔۔ اسکی ماں کی آواز کافی فکر تھی۔۔
نہیں امی مجھے بھوک ہے میں تھک گئی ہوں ۔۔۔۔آرام کروں گی۔۔۔” اور آپ پریشان مت ہوا کریں کام کافی زیادہ ہوتا ہے میرا ۔۔۔وہ آگے بڑھ کہ ان کے ہاتھ دیتے ہوئے بولی۔۔۔”
اچھا کرلو آرام ۔۔۔میں نے تمھارے لیے چائے بنا کر رکھ دی ہے اٹھ کر کھانے کے بعد پی لینا ۔۔۔” شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور وہ جانتی تھی وہ سوئے گی انھوں نے کتنی دفعہ اسے منع کیا مگر وہ اس وقت نیند لینے کی عادی تھی ۔۔۔اب وہ جان گئی تھیں کہ وہ اس پہ کام کا بوجھ زیادہ اس لیے انھوں نے اسے ٹوکنا چھوڑ دیا تھا۔۔”
نورِ حرم اثبات میں سر ہلاتی کمرے کی طرف بڑھ آئی
بیگ بیـڈ پہ رکھتی وہیں لیٹ گئی تھیں اس نے وہیں چادر اپنے اوپر کی ۔۔۔۔تایا ابو کی روازنہ کی طرح اونچی اونچی آوازیں آ رہیں تھیں ۔۔۔۔” اس نے کانوں پہ ہاتھ رکھ لیا یہ تو روازنہ کا تماشہ ہوتا تھا ۔۔۔۔” وہ جانتی تھیں کہ وہ اس وقت زار وقت پہ برہم تھے ۔۔۔”
ایک دن ہوتا تو وہ گبھراتی ۔۔۔یہ تو روز کا معمول تھا وہ تھوڑی دیر ان آوازوں سے پریشان ہوئی۔۔مگر ہمیشہ کی طرح نیند کی مہربان دیوی اسے خوابوں میں لے گئیں ۔۔۔”
****
اوہ مانی ۔۔۔۔ایک سوٹہ ہو جائے۔۔۔۔” مانی جو ابھی ابھی دکان نکلا تھا اسے شانوُ کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔”
ادھر نہیں چل اڈے پہ چلتے ہیں ” وہاں سوٹے لگانے کا اپنا ہی مزہ ہے اصل جگہ ہی وہ ہے۔۔وہ اس کے ہاتھوں سے پیکٹ لیتا ہوشیاری سے اپنی جیب میں رکھ گیا۔۔”
یہ بے ایمانی ہے مانے ۔۔۔۔۔تو ہر روز ایسے ہی سب سے چھین کہ خود عیش کرتا ہے ۔۔۔۔” شانو نے اس سے پیکٹ چھین کے گریبان کے پچھے حصے سے پکڑا۔۔۔ “
تم سب ہو بہت حرامی بیٹا ۔۔ چھپ چھپ کے پیتے ہو وہ بھی مانے سے ۔۔۔” وہ دانت نکالتا بڑی بیغرتی سے دوسری جیب سے سیگریٹ نکالتا شانو کے موٹر سائیکل پہ جا کہ سوار ہوا۔۔۔”
اور توُ لعنتی کردار ہم سب حرامیوں کا سرادر ہے ۔۔۔شانوُ اس کے کندھے پہ ہاتھ زمین پہ تھوکتا ہوا بولا۔۔۔!
ھاھاھاھا۔۔۔۔۔شکر ہے توُ نے مانا تو سہی توُ حرامی ہے ۔۔۔مانی کا بے ڈھنگا قہقہ مار کہ کہتے شانو کو لگائے ۔۔۔اور وہ ان کاموں میں بہت ماہر تھا۔۔۔!
اس نے بائیک کو فل سپیڈ پہ رکھا ۔۔۔۔اور خطرناک طریقے سے چلاتا ۔۔۔طارق موالی کے اڈے پہ پہنچا ۔۔۔۔” جہاں چار یا پانچ مرد بیٹھے پی رہے تھے اس کو دیکھتے سب کے قہقے گونجے ۔۔۔۔کیونکہ اصل مزہ تو اب آنے والا تھا ۔۔
اوہ مانے ۔۔۔۔۔اوہ جگر ۔۔۔اوہ ادھر میری طرف آ۔۔۔۔طلال نے اٹھتے ہی اسے گھیرے میں لیا۔۔۔کچھ ہی پل میں وہ زمین پہ بیٹھ گیا۔۔!
آج خیر ہے نکھرا نکھرا لگ رہا ہے۔۔۔۔” سب نے اس کے لمبے ملنگ نما چولے کو دیکھتے کہا ۔۔۔بالوں میں بھر بھر کے تیل لگائے جو کانوں کے پیچھے سے واضح نظر آرہا تھا۔۔
وہ شلوار کے پانچوں کو اوپر کیے کھلی سی جوتی پہنے سوٹے لگا رہا تھا ٹانگوں کے بال صاف نظر آرہے تھے ۔۔۔جب سب سنگھیوں کے قہقے گونجے ۔۔ “
ہائے کیا میں واقعی بہت اچھا لگ رہا ہوں۔۔۔۔؟سب کے منہ پہ دھواں چھوڑتے اس نے سوال کیا۔۔۔”
غجب لگ رہا ہے ۔۔۔۔ (غضب لگ رہا ہے ) فیقے نے اپنی توتلی آواز سے کہا تو سب کے قہقے گونجے۔۔”
اوئے مانے۔۔۔۔” کل تیرے باپ نے تجھے دیکھ لیا ۔۔۔۔ ” اس کے بعد تُو بچ کیسے گیا۔۔۔؟ یہ سوال چودھری صداقت کا تھا جو چرپائی پہ چائے کی چسکی لیتے ان لفنگوں کو دیکھ رہے تھے۔۔”
چاچا۔۔۔۔کیا میں تجھے زندہ نظر آ رہا ہوں۔۔؟اس نے صداقت کو دیکھا پھر بندر کی طرح اچھلتے ان کے ہاتھوں سے چائے لے لی ۔۔تو اس کی عجیب سی منطق سے سب کے قہقے پھر سے ابل پڑے ۔۔۔”
اچھا میں چائے پیتا ہوں چاچا توُ بیٹھ کہ سوٹا لگا لے ۔۔۔۔ ” وہ یہ کہتا ان کے ساتھ ٹک گیا۔۔جب کہ چودھری صداقت کا منہ بری بری طرح بنا۔۔۔”
پتر توُ صبر رکھ ۔۔۔۔تیرا باپ روز مجھ سے ملتا ہے ۔۔۔وہ شاید اس کی حرکتوں پہ نظر رکھے اس کی چائے چھننے پہ بھڑاس نکالتے نکل گئے۔۔۔جبکہ مانی کہ دانت نکلے وہ پھر سے ان سب کے ساتھ بیٹھ گیا تھا ۔۔
***
کمرے میں جامد خاموشی تھی کپٹن ارمغان عالم کسی کیس کی فائل کھول کہ بیٹھا ہوا تھا جب فون کی بیل بجی ۔۔۔”
السّلام علیکم سر..؟ کپٹن ارمغان عالم نے اپنے مخصوص بھاری آواز میں سلام میں پہل کی تھی۔۔
وعلیکم سلام …کپٹن جو کام آپ نے ایک منتھ پہلے شروع کیا تھا وہ کام آپ نے چھ مہنیوں کے تک مکمل کرنا ہے کام بے شک مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔۔۔
جی سر ان شاء اللہ میری کوشش ہوگی آپ کی امیدوں پہ پورا اترنے کی ارمغان چوک وچابند ہوتے ہوئے کہا…
اللہ آپ کا اس کام میں حامی و ناصر ہے اور مجھے آپ سے ہی توقع کہ آپ یہ کام مکمل کریں گے انشاللہ ۔۔۔آپ کے ساتھ سیکورٹی فورسز نہیں ہوگی ۔۔
آپ نے اکیلے کام کرنا ہے یہ کام ہی ایسا ہے اگر کسی کو
اس مشن کی بھنگ بھی پڑ گئی تو یہ مشن ادھورا
رہ جائے گا انہوں حالات سےآگاہ کرتے ہوئے کہا …”
سر آپ فکر نہ کریں ۔۔ کپٹن ارمغان عالم کو بھی ایسے ادھورے کاموں سے نفرت ہے ۔۔۔
انشاء اللہ یہ مشن مقررہ وقت سے پہلے ہی تکمیل تک پہنچے گا یہ کپٹن ارمغان کا آپ سے وعدہ ہے۔۔۔اس نے پورے جوش و جذبے اور ہمت سے کہا۔۔۔”
اوکے نو جوان مجھے آپ سے اسی جوش ولگن کی امید تھی
کپٹن فاروق نے اختتامی کلمات کرے فون آف کر دیا
جبکہ ارمغان بھی فو ن آف کرنے کے بعد دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہوا۔۔۔اب کی بار ڈور ناک ہوا تھا۔۔
تو اس نے پرمیشن دی تھی اندر آنے والی شخصیت کو دیکھ کر اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا ۔۔۔وہ پچھتایا کہ اس نے اجازت کیوں دی تھی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔۔۔؟
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial