قسط: 20 پارٹ ٹو
زندگی میں پہلی بار اسے اپنا نام اتنا اچھا لگا جو محبت و شدت سے پکارا گیا وہ شاید ہوش میں نہیں تھی مگر صالح سے کچھ پل کےلیے سانس لینا محال ہوا ___”
صالح ___صالح ___” وہ تکلیف میں جکڑی اپنے آپ کو چٹان جیسی مضبوط ہستی کے سپرد کرتی روتی اسے پکارنے لگی جو مقابل کو ہیجانِ کیفت میں ڈال گئی جب وہ شعور آگہی کی منزلوں سے نافہم تھا وہ تب سے اس کے دل میں وقوع پزیر تھی مگر جرم و بدکرداری کی پاداش میں ڈوبے انسان سے وہ عقل و فراست رکھنے والی لڑکی ہمہ وقت اس سے نفرت کی حق دار رہی __
اس دنیا میں اللہ کے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ہے جو میرے لیے لڑسکے جو کسی کی غلیظ نگاہوں کو نکال کہ پھینک سکے جن بہنوں کے بھائی ہوتے ہیں نہ صالح وہ بہنیں بڑی خوشنصیب تصور کی جاتیں ہیں کیونکہ وہ انھیں زمانے کی بری پرچھائیوں سے بچا کہ خود اعتمادی کا سبق پڑھاتے ہیں تم کہتے ہو مجھ میں انا کوٹ کوٹ کہ بھری ہے پتہ ہے خودی بھی یقین محکم کے پہیوں پہ انحصار کرتی ہے مجھے اپنی خودی سے بہت محبت ہے مانی کیونکہ یہ واحد ہے جو مجھے ٹوٹنے نہیں دیتی میرے اندر حوصلوں کے پہاڑ بلند رکھتی ہے مگر اب جیسے یہ ماند پڑ رہی ہے میں سے اندر شکست و ریخت ہوتی جا رہی ہوں میں خود میں جی رہی ہوں میں خود کو کھا رہی ہوں پر یہ بات تمھاری سمجھ سے باہر ہے __”
وہ بولتی جا رہی تھی وہ سنتا جا رہا تھا پھر اسے خود سے علحیدہ کیا ___”
تمھیں کسی نے کچھ کہا ہے ___؟؟ اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے وہ بلند آواز میں مخاطب ہوا مرد تھا انا اور غیرت کے عناصر رگ رگ میں رکھتا تھا ازل سے اس کی فطرت کو زیب نہیں دیتا تھا کہ اس کی عورت یوں رو رہے وہ اس آواز کی بلندی دیکھتی سہم گئی کچھ دیر سوچ کے پنجروں میں بند بتانے یا نہ بتانے کی دھن میں گم میں مگن تھی پھر نفی میں سر ہلاتے وہ اس سے دور ہوتی چلتے چلتے بیڈ پہ بیٹھ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے جذبات میں آکے اسے کوئی نقصان پہنچا دیا تو قصہ مشہور ہوتے بدنامی کا بوجھ ساری زندگی اس کے سر پہ سائے کی مانند منڈلاتا رہے گا مانی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا کمرے کے وسط میں کھڑا ہوگیا ___”
تمھاری وجہ سے آج مجھے بہت خوار ہونا پڑا مانی میں وہاں تمھارے انتظار میں کھڑی رہی مگر میرا انتظار انتظار ہی رہا اور پھر جو ذلالت مجھے کاٹنی پڑی وہ تم سوچ نہیں سکتے اور تم سوچنا چاہوگے بھی نہیں کیونکہ تم مرد عورتوں کےلیے اتنے دور اندیش نہیں ہوتے ہو __”
آرام آرام سے الفاظ کو تول کہ بولتی اب وہ ہی سرد رویے کی مالک نورِ حرم نظر آ رہی تھی وہ اسے کتنے ثانیے یوں ہی دیکھتا رہا کچھ دیر پہلے خود میں پناہ لینے والی لڑکی کو دیکھا جسے وہ اپنی پوری دنیا تصور کر رہی تھی اور اب جیسے اس کے آگے اس کی صفر کی بھی اہمیت نہ تھی جس نے حالات کے مدنظر رکھتے خود کو ایسے کمپوز کرلیا جیسے دور دور تک اسے کوئی واسطہ نہیں تھا __”
تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو مرد اگر دور اندیش نہ ہوتا تو آج تک عورتوں کے سروں پہ چھت کا نام و نشاں تک نہ ہوتا ویسے تم عورتوں کےلیے کتنا آساں ہے مرد ذات کو ٹارگٹ بنانا کہ تم مرد ایسے ___تم مرد ویسے ؟؟؟
تم تم نے مجھے عورت کہا بھی تو کیسے ؟ میں تمھیں عورت نظر آتی ہوں ___” حیرت کی زیادتی سے وہ اسکے عورت لفظ پہ اٹک کہ رہ گئی جیسے یقین نہ ہوا اسکی آواز قدرے بلند ہوئی کن اکھیوں سے اسے گھورا __”
یہ ہی مسئلہ ہے تم عورتوں کے ساتھ ___” بات چاہے جتنی اہم ہو وہ تم عورتوں کےلیے اہم نہیں ہے مگر اپنی ذات پہ نکتہ چینی برداشت نہیں اب تم یہ بھی دلائل دے سکتی تھی کہ مرد کیوں برا ہے مگر محترمہ میرے ابتدائی لفظ عورت پہ اٹک گئی باقی اس میں کیا تھا یہ تمھارا مسئلہ نہیں ہے ___” ویسے تم عورتیں حد درجہ کی بیوقوف ___
عورت ہوگے تم ، عورت ہوگی تمھاری اماں ، عورت ہوگی تمھاری بہن ، عورت ہوں گے تمھارے ابا ، عورت ہوگی تمھاری بیوی مگر مجھے عورت کہا تو زندہ نہیں بچوگے ___وہ خطرناک انداز میں اٹھتی اس کی طرف بڑھی جس نے قدم پیچھے کی طرف بڑھائے وہ جیسے جیسے اسکی طرف بڑھتی وہ ویسے ویسے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوا اور لگی وہ اس کے چہرے کے نقوش میں کھوگیا جو غصے کے سبب سب کچھ فراموش کیے اس کے قریب آگئی ___”
مگر اپنی بیوی مانتی کہاں ہے کہ وہ عورت ہے ___” اسے عورت کہو تو مرنے مارنے پہ تل جاتی ہے ___”وہ دیوار کے ساتھ لگے کھڑا اس سے محو گفتگو تھا نگاہیں اس کے چہرے پہ مرکوز تھی جو نارنجی رنگ کے سوٹ میں ملبوس کچھ دیر پہلے کے منظر سے بالکل مختلف دھنک رنگوں کا امتزاج معلوم ہوئی تھی ہمیشہ کی طرح وہ اس زمانہ بدنام شخص کے آنکھوں میں محبت و خلوص کے گہرے رنگوں کی چھاپ چھوڑ گئی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ جب ایسے روپ میں ہوتی تو اس کے دل میں محبت و الفت کی چاشنی کے کئی رنگ اتر آتے جو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر تھا وہ ایسی محبت رکھتا تھا اسے ___”
کسی سے لڑ کے آئے ہو ___؟؟ اس کے کھلے گریباں اس کے بالوں کو خراب حال ، چہرے پہ تھپڑوں کے نشان دیکھے بے اختیار پوچھ گئی بہتریہ حالت میں تو وہ پہلے بھی کبھی نہیں دیکھائی دیا لیکن قابلِ غور حالت میں اب بھی بالکل نہیں تھا وہ پیچھے مڑتی ڈوپٹہ کندھوں سے اٹھا کہ سر پہ کرتی اس کے جواب کی منتظر تھی جس کی نگاہیں نورِ حرم کی ہاتھوں کی بنی خوبصورت کیلگرافی کی جانب متوجہ ہوگئیں ___
کبڈی کھیل کہ آیا ہوں ابا کے ساتھ اور کچھ __؟؟ نگاہیں ایک ہی نکتے پہ جمائے وہ کمال سنجیدہ لہجے میں اسکے سوال کا جواب دیتا بولا ___”
وہ تو روز ہی کھیلتے ہو آج کے معاملے کی نزاکت کا پوچھ رہی ہوں ___” صالح کا اتنا ٹھنڈا رویہ اسے جیسے خالصتا اسے شش و بنج میں ڈال گیا___”
تائی گھر آئی تھیں میں آج سارا دن گھر سے غائب تھا گھر میں داخل ہوا محبوبہ میری منتظر تھی جیسے ہی قدم آگے بڑھائے محبوبہ نے گریباں سے پکڑ کہ میدان میں اتار لیا اور گھورتے ہوئے دو چپیڑ لگاتے ہوئے بس اتنا کہا ___”
آ پتر کبڈی کھیلتے ہیں بس پھر کیا ___” محبوبہ جیت گئی اور صدا کا نکما بیروگار عاشق ہار گیا ___” لہجے تمسخر آمیز سنجیدگی کی آمیزش لیے ہوئے تھے وہ کچھ پل اس کی چہرے کو تکتی رہی جو خود میں مگن اس کے دل کی دنیا کا نظام الٹ پلٹ کہ رکھ گیا وہ نجانے کتنے زوایے اسے یوں ہی دیکھتی رہی پھر خود سے ہی گبھراتے نظریں چرا گئی تھی وہ اس وقت کسی ریاست کا شہزداہ تو ہرگز نہیں لگ رہا تھا یہ چہرہ ہمیشہ سے اسکےلیے عام رہا یا شاید عام سے بھی کام اسکی نظروں میں صفر کی تو اہمیت تھی مگر اس شخص کی __
آج شاید اسے باطن کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی اور اس آنکھ کےلیے یہ چہرہ عام ہرگز نہیں تھا بلکہ خاص اور سیپ میں بند موتی کی طرح انمول اور نایاب لگا وہ شوہر تھا اُسکا وہ جان گئی کہ جو حفاظت وہ کرسکتا تھا کوئی دوسرا تیسرا نہیں کرسکتا تھا ____”
تم روتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے __” نورِ حرم نے جھٹکے سے نظریں اٹھا کہ اسے دیکھا اسے یقین ہی نہیں ہوا کہ یہ صالح کہہ رہا ہے وہ صرف اس کے رونے پہ تکلیف میں رہتا تھا یہ احساس ہی اسکےلیے خوشگوار سا تھا__
ظاہری بات ہے ابا کو ہرگز گواراہ نہیں ہے کہ ان کا بد کردار بیٹا ان کی بھیتجی کے پاس پھٹکے لیکن میں ٹھہرا صدا کا ڈھیٹ بغیرت شخص __” تمھارے دیدار کے بدلے میں مار کیا اور کردار کیا ___؟؟
بد نامِ زمانہ تو میں اول روز سے تھا اب کردار پہ بات آئی تو بلبلانے کا کیا فائدہ ___؟؟؟ لیکن انسان ہوں نہ زیادہ تو نہیں تھوڑی تھوڑی تکلیف ہوتی ہے جب جب ابا سے مار پڑھتی ہے ___”
وہ بنا پلکیں جھپکے اس کے کھری باتیں سنتی اسے دیکھتی ہی رہ گئی اسکی باتوں سے اسکا دل لرزا تھا کہ کیسے وہ سارے الزام اپنے ذمے ڈال لیتا پہلی دفعہ یوں اسکی باتوں سے اسکے وجود میں سنسنی سی ڈوری__”
ویسے میں سوچتا ہوں کہ ہر چیز جدید ہوگئی مطلب لوگ بھی زمانہ بھی ہر شے بدل گئی ___” نہیں بدلہ تو ابا کی مار کا سٹائل ___وہ بس وہی ٹپیکل دقیانوسی ہے ___” اب ان کی گرج میں وہ جاہ و جلال وہ طاقت نہیں رہی سچ بتاؤں اب وہ چس نہیں آتی جو پہلے آتی تھی مطلب پہلے دل میں ڈر رہتا تھا اب تو جیسے پتہ ہی نہیں ہے وہ شے کیا ہے بس دل اوب گیا ہے میرا__؟؟؟
کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں جدت آگئی ہے اگر نہیں آئی تو اُن کی مار میں ___” ان کو چاہیے تھوڑا سا طریقہ تبدیل کریں پہلے جوتے ، وائپر ، ہینگر ، سوتی ، گھونسے سے مارتے تھے کان بھی پکڑوا لیتے تھے لیکن یہ تو سارے اب اولڈ فیشن ہوگئے ہیں اب دیسی مار کھا کھا کہ اکتا گیا ہوں تھوڑا سا ولایتی انداز اپنائیں تاکے ہمیں بھی پتہ چلے کہ کچھ تو نیا ہے زندگی میں کچھ تو ٹوسٹ آیا ہے__”
ویسے یار تم تو ان کی بھیتجی ہو انھیں سمجھاؤ کہ بازار سے جاکہ ان ساری چیزوں کا نعم البدل کوئی اچھی سی پیاری اور مضبوط ٹیکنالوجی کی ایجادت لے کہ آئیں تاکہ ایک دفعہ لگے تو ہڈی یا پسلی تو ٹوٹے تب پتہ چلے کہ جیسے ملک ترقی کر رہا ہے ویسے ابا کے دماغ کے سارے پرزے کام کر رہے ہیں ___”
بہت فضول بولتے ہو تم صالح __” وہ اس کے پاس سے گزرا تو اس نے گھورتے ہوئے اسے دیکھ کہ کہا جو پتہ نہیں اتنے سخت الفاظ کے ذخیرے لاتا کہاں سے تھا __
فضول ہی سہی کہہ سچ رہا ہوں ___” وہ یہ کہتے بیڈ پہ بیٹھ گیا ہاتھوں سے اشارے کرتے پہلے کی طرح طرح ایک ایک بات اطمینان سے کہتا چلا جا رہا تھا اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو وہ بخوبی دیکھ رہی تھی لفظوں کی خوبصورتی کو بڑھانے کےلیے وہ بھی جیسے بڑی مہارت سے بدلتے جا رہے تھے __”
تم نے آج کل کے آٹھ نو سال کے بچوں کو نہیں دیکھا ___” ایک تھپڑ پڑ جائے تو اسی وقت رونا دھونا شروع بھاگ کہ دوسرے کمرے میں جاکے دروازہ بند کرلیتے ہیں اور تین تین چار چار گھنٹے نہیں کھولتے چاہے باہر قیامت ہی آجائے___”
اور ایک ہم تھے ہمارے پاس تو دوسرے کمرے کا تو کوئی آپشن ہی نہیں تھا رونا ہوتا تو صحن میں دو دو چار پاؤں زمین پہ مار لیتے نہیں تو کونے میں چھپ کہ رو لیتے کہ کہیں بہن بھائی کوئی آنسوؤں دیکھ کہ تمسخر نہ اڑائے __”
ویسے آج کل کے بچے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ایک تھپڑ کھاکے ڈھیر ساری خاطر و مدارت کروا لیتے ہیں بلکہ تھپڑ پڑا تو پیزے برگر لاکے بڑی منتوں سے یہ کہہ کہ دروازہ کھلوایا جاتا ہے کہ مما کی جان ، پاپا کی جان ڈور اوپن کرو __اور جب دروزاہ کھول لیا جائے تو چہرہ چوم چوم کے خود کو کوسنے لگتے ہیں کہ کیوں مارا اپنا پھول سے بچے کو ___”
اور ایک ہم یہاں ہمیں تو کُھل کہ رونے بھی نہیں دیا جاتا تھا کوئی بھولا بسرا بچارا بھٹکتا آنسو باہر نکل آیا تو اس بچارے کی بھی کی خیر نہیں ___” پھر سے وہی طریقہ دہرایا جاتا ہے معذرت کا تو دور دور تک کوئی سین ہی نہیں ہوتا تھا کبھی کبھی رات مار کھانے کے بعد رو لیتے جہاں آنکھ لگ جاتی یا اماں ابا کے دل میں کوئی ہمدردی جنم لیتی تو صبح بس یہ معلوم ہوجاتا کہ کچھ بھی ہو جائے ہیں اپنے گھر میں ہی ہیں __”
اور پھر زندگی کی وہیں روٹین ___” دو دن مار نہ پڑے تو خارش سی ہونے لگ پڑتی کہ کئی والد صاحب کی طبعیت تو خراب نہیں ہوگئی لیکن یہ خیال تب غلط ثابت ہوتا جب دو تین دن کی اکھٹی مار کو ایک ساتھ ہمارے سپرد کرکے کہا جاتا ___” اس بغیرت کی حرکتیں ہی ایسی ہیں یہ ہے ہی مار کہ قابل اور تو اور کھانا کھانے کے وقت بھی مار کی غذا فراہم کی جاتی ___” پھر خود ہی بتاؤ ڈھیٹ نہ بنیں تو کیا بنیں __”
تمھیں پتہ ہے نورِ حرم ___؟؟ روانی سے کہتے اس نے لمحہ رک کہ اسے جیسے پوچھنا مناسب سمجھا جس نے اسکی بات کو سنتے نفی میں سر ہلایا __” بچوں کے بچپنے کو جو چیز مارتی ہے وہ صرف اور صرف کمپریزن ہے جو اُن کے اعتماد کو مسخ کر کہ رکھ دیتا ہے بچپن سے ہمارے ذہن میں ایک سوچ بیٹھا دی جاتی ہے کہ وہ ” بہتر ” ہے اور خود سے بہتر لفظ معصوم ذہن تسلیم نہیں کرتا چاہے کچھ بھی ہو ___” جیسے شیطان انسان کو ہر وقت گناہ کروانے کی سر توڑ کوشش میں لگا رہتا ہے اسطرح ” موازنہ ” معصوم ذہنوں کو نفرت اور کدورتوں کی جنگ پہ تیار کرنے پہ آمادہ کرواتا ہے میں اپنے بڑوں کو غلط نہیں کہہ رہا لیکن _____؟؟؟ اس نے گہری سانس بھری لہجے میں عجب بے نیازی کا خول سا تھا وہ اس بے اختیاری میں اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھ گئی آج ہوش و حواس کا مادہ اس میں ذرا کم ہوگیا__
ہم ان کے گوش گزاریں یا نہ گزاریں یا چاہے وہ مانیں نہ مانیں لیکن یہاں قصور اُن کا ہے انجانے میں ہی سہی مگر نفرت کا بیج ہمارے دلوں میں وہی بوتے ہیں اور پھر تمنا محبتوں کی رکھتے ہیں لیکن پھر یہ تو ناممکن ہے نا __؟؟ کیونکہ کانٹے بو کہ پھول امید کی رکھنا یہ تو سراسر بیوقوفی ہے نا ___” لیکن اکثر اوقات پھول تو کچرے کے ڈھیر پہ بھی جنم لے لیتا ہے ___”
ویسے چھوڑو یار جو کچھ ہونا تھا ہوگیا ختم کرتے ہیں دو منٹ کے جذباتی ڈرامے کو ___” وہ جو اسکی بے دھیانی کا فائدہ اٹھاتے اسے دیکھے جا رہی تھی اسکے ان الفاظ پہ ہوش میں آئی اور جو کچھ دیر پہلے اسکے ذہن میں آیا وہ پوچھنے کا ارادہ کرتے منہ کھول گئی مگر اس شخص سے کوئی بات اگلوانا اونٹ کو رکشے پہ بیٹھانے کے مترداف تھا __
سچ سچ بتانا اماں نے جاکہ کیا کہا ہے چاچو کو ___؟؟؟ وہ اس کے بکھرے حلیے کو دیکھتی اسے پوچھے بغیر نہ رہ سکی سوال کا جواب سننے کےلیے بےتابی اسکی آنکھوں سے جھلک رہی تھی ___”
یہ ہی کہ آج کہ بعد اگر مانی نے میری بیٹی کو چھیڑا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ____ دانت نکالتا لمحے میں ایک نیا روپ اختیار کرگیا ___”
مگر تم نے مجھے کب چھیڑا ___؟؟؟ سوالیہ انداز لیے وہ سر ہاتھوں میں تھام گئی اماں کو بتایا کیا تھا؟؟ اور اماں نے سمجھ کیا لیا ___؟؟؟
وہ تو ہی سب کو بتاؤ نہ کہ میں چھیڑنے دیتی ہی کب ہوں __” ایک دم سے آنکھ مارتے وہ سنجیدگی کے لبادے سے باہر نکلتا گلی کا نشئی مانی بن گیا __
یعنی آج پھر تم نے میری وجہ سے بنا قصور کے چاچو سے مار کھالی ___” ڈفر انسان ___ایک تو تمھیں ہیرو گیری کرنے کا بڑا شوق ہے چاچو کو بتا تو دیتے انھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے مار سے تو بچ جاتے ___”
جانتی ہو مرد کب خوار ہوتا ہے جب وہ محبت میں مبتلا ہوتا ہے جب محبت کی جانب اس کا پہلا قدم اٹھتا ہے تب اس کے دل کی تباہی کا آغاز ہوتا ہے ___” وہ خود سے انجان کچھ الفاظوں کے پھول اس کے گوش گزارتا وفا کا گہرا راز اس پہ منکشف کرگیا تو یعنی وہ بچپن سے اسکی محبت میں گرفتار تھا ____
اور تم جانتے ہو ___ عورت کا برا وقت کب شروع ہوتا ہے جب وہ محبت میں مبتلا ہوتی ہے جب وہ اپنے من پسند مرد کے آگے جھک جاتی ہے جب محبت کا اظہار کرتے کہتی ہے کہ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی تب عورت پہ زوال کی ابتدا ہوتی ہے اور یقیناً تمھیں معلوم ہے کہ میں مر تو جاؤں گی لیکن اپنے اوپر زوال کا وقت آنے نہیں دوں گی ___وہ بھی دو بدبہ جواب دیتی خاموش ہوگئی دونوں کی باتوں میں مختلف کچھ بھی نہیں تھا بس لفظوں کا ہیر پھیر تھا ___”
مگر میری ڈکشنری کے مطابق من پسند مرد تو عورت پہ زوال آنے دیتا ہی نہیں ہے میرے نزدیک وہ مرد ہی نہیں ہے جو محبت میں عورت کو جھکاتا ہے عورت کا جھکنا اس کےلیے مات نہیں مگر اس من پسند شخص کی شکست ہے ___”
یہ اللہ یہ کیسا شخص ہے لفظوں کی جیت کا ہنر تو کوئی اس سے سیکھے ___” وہ دل میں سوچتی رہی جو اب خاموش تھا یعنی اس کے بولنے کے انتظار میں تھا
اس وقت حسد و رقابت جیسے جذبے کے مفہوم سے بالکل نا آشنا تھا کہ وہ کیا شے ہے؟ لیکن بچپن میں جب تم اس کے ساتھ کھیلا کرتی تو مجھے بہت برا لگتا تھا دل کرتا تھا اسے فنا کردوں جب تم مجھے نظر انداز کرکے اسکی سائیکل پہ اس کے پیچھے بیٹھتی تھی ___”
میں اس وقت چھوٹی تھی مانی ___” وہ جیسے اس کو ان لمحوں کے زیرِ اثر جاتا دیکھ کہ نزدیک ہوتی اس کے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ گئی __”
اور جب بڑی ہوئی تو تمھیں اس نشئی سے گھن آنے لگی __” ہیں نا___؟؟ اس کی اس بات سے جیسے وہ شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلی گئیں __
تم جانتے ہو تمھارے حلیے کی وجہ سے ___” وہ نظریں اس کے ہاتھ میں پڑے اپنے ہاتھوں پہ ٹکاتی بولی __
حلیہ تو اب میرا ویسا ہی ہے نورِ حرم تو پھر آج کیا فرق ہے __؟؟؟ وہ اس کی شرمندگی دیکھ سکتا تھا جو اس کے چہرے پہ اسے ذرا بھی اچھی نہیں لگی محبوب کی نظریں چرانابھلا کسے پسند تھا مگر اس کے الفاظ اسے الجھا رہے تھے
کیونکہ پہلے مجھے تم میں چھپا صالح کبھی نظر ہی نہیں آیا یا پھر میں تمھیں دیکھا ہی باطن کی نگاہ سے آج ہے ___” ایک پل کےلیے براہ رست اسکی نگاہوں میں دیکھا پھر گبھرا کہ نظریں جھکاگئی ___وہ جواباً کچھ کہتا ہی جب اسکی جیب میں پڑا فون بج اٹھا وہ ہلکے سے ہاتھ اس کے بازؤں سے نکالتا باہر نکل گیا __نورِحرم پیچھے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگی __”







ابا کی بہت زیادہ لعنتوں ملامتوں پہ وہ واشنگ مشین رئپیر والی دکان پہ لے کہ چلا آیا ___” یہ الگ بات تھی کہ ابا اپنے کام کے علاوہ اسے مخاطب نہیں کرتے تھے مگر جب کوئی چھوٹا موٹا کام ہوتا تو اسے ہی ٹھیک کروانے بھیجتے ____”
صبح بھی ابا سے اس کا اچھا خاصہ بحث مباحثہ ہوا __” وہ رئیپر دکان پہ مشین ٹھیک کروانے کےلیے مان ہی نہیں رہا تھا کیونکہ وجہ مشین کا خستہ حال ہونا تھا جو مشین لوہے کی اور بہت پرانی تھی ویسے تو ابا سب کو بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ یہ تو میں نے آج سے بیس سال پہلے لی تھی اب تو ایسی پائیدار اور مضبوط چیزیں کہیں میسر ہی نہیں ہے وہ بہن بھائی بہت دفعہ ابا کے منہ سے یہ قصہ سن چکے تھے ___”
تینوں بہن بھائی جانتے تھے کہ ابا کو اپنی چیز سے بہت عقیدت ہے مانی واحد تھا جو اُن کی اس عادت سے چڑتا تھا اس لیے ابا کہ منہ پہ صاف ستھرے انداز میں کہہ دیتا کہ ہمیں کچھ ہوجائے آپ کو ذرا پرواہ بھی نہیں ہوگی جتنی آپکو اپنے بیس سالوں پرانے قمیتی خزانے کے لٹنے کا افسوس ہوگا___” وہ اتنا سیدھے انداز میں جواب دیتا کہ ابا کبھی کبھی خاموش ہو جاتے __”
وہ بہت کترایا ہر ممکن کوشش کی کہ کہیں یہ بات سچ نہ ہوں مگر ابا کی ڈانٹ پھٹکار پہ مشین کو رئیپر والی دکان پہ لے آیا ہر طرف گرڑ گرڑ کی آواز آ رہی تھی مصروفیت ہی مصروفیت تھی افراتفری مچی تھی کوئی بھی سر اٹھانے کو نہیں تیار تھا کیونکہ مختلف چیزوں کی رئیپر کا کام یہاں تسلی بخش کیا جاتا ہے اس لیے یہاں رش بہت زیادہ پایا جاتا اس کو دیکھتے ہی مکنیک گاڑی کی طرف آئے ___”
دو تین مکینک نے مشین کو دکان میں رکھوایا تین چار چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں کے ساتھ جن کی عمر سولہ سولہ ، سترہ سترہ برس تھی وہ اس کے اردگرد اکھٹے ہوتے بڑے جوش سے اپنی کارکردگی کے جوہر دکھانے میں مصروف ہوگئے ___” ان کو دیکھتے مانی کے چہرے پہ بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی ___
ماہر کاریگرد نے اسے مشین کی تندرست حالت کا اطمینان دلایا تو حیران ہوتے بمشکل اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے باہر نکل آیا تھا ___”





مانی پتر ____” بنا قدموں کی آواز کیے وہ آہستگی سے گزرا اپنے نام کی پکار وہ حیرانگی سمیٹے پلٹا لیکن پھر آنکھوں میں اُبھرتی حیرت کم ہوگئی رازق چاچا کو اپنے سٹور میں کھڑا پایا جو اسکی جانب دیکھ رہے تھے انھوں نے اشارے سے اپنی طرف اشارہ کیا وہ ان کی شفیق سی مسکراہٹ دیکھتا کچھ سوچتا سٹور کے اندر قدم بڑھا آیا اسے اندر آئے زیادہ دیر نہ ہوئی رازق چاچا نے اسکے ہاتھ چوم لیے پھر اسے کرسی پہ بیٹھایا ____”
خیریت چاچا ___اتنی محبت کہیں آپکی ہیر تو نہیں روٹھ گئی ___؟؟؟ وہ ان کی آنکھوں کی طرف دیکھ کہ بولتا قہقہ لگایا گیا جہاں پہ بڑھاپے کے سائے دن بدن گہرے ہوتے جا رہے تھے ___”
مانی پتُر مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں تیرا شکریہ کیسے ادا کروں ___” توُ اس دن کے بعد مجھے کہیں نظر ہی نہیں آیا آج تیری پشت دیکھ کہ ہی اندازہ ہوگیا کہ تو ہے ___” اس لیے دیر نہ لگائی میں نے ___”
رازق چاچا نے اپنی بے تابی بڑے کھلم کھلا انداز میں اس پہ بیان کی ___”
ارے چھوڑو چاچا بھول جا یار ___” اتنا کوئی تیس مار کام نہیں کیا میں نے ___” اپنے ازلی لاپروائی سے کہتے اس نے چاچا کو دیکھا جو گاہک آنے کی وجہ سے کچھ اس کی طرف متوجہ ہوئے ساتھ ساتھ اس سے باتوں میں مصروف تھے __
تیری وجہ سے مجھے میرا سٹور مل گیا جس سے سالوں کی کمائی نہ سہی مہینوں کو تو آتی ہے نہ ___” میرے بیٹے بیٹیاں اب مطمن ہے اور تو اور میرا بھائی اور بھیتجا جو مجھے مارنے کے در پہ تھے اب ڈرتے ہوئے میرے گھر میں قدم تک نہیں رکھتے ___” لیکن ارباز دو بار سٹور میں آیا تھا کچھ دھمکیاں بھی دی وہ چاہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ اسے طے کر دوں وہ بہت معصوم ہے ابھی بمشکل سولہ سترہ سال کی ہے اور ارباز کو دیکھا ہے وہ پہلے سے شادی شدہ ہے __” وہ اب چاولوں کو تول رہے تھے چہرے پہ پیشانی کے گہرے سائے تھے ___
جانتا ہے چاچا اس دنیا میں جو سب سے بڑا یعنی جو دل کو چیر لینے والا غم ہے نا وہ کیا ہے ___؟؟؟ وہ چاچا کی آنکھوں سے تشکر کا آنسؤ ٹپکتا دیکھ سکتا تھا اس کا دھیان ان کے سٹور پہ گیا ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ہاتھ کف لنک بٹن کے ساتھ کھیلتا محو گفتگو تھا چاچا اس کے سوال پہ جزبز سے ہوگئے یعنی اس گلی کے موالی سے اتنی گہری بات کی اُمید نہیں تھی وہ بھی تھوڑے بہت پڑھے لکھے تھے مگر اس کے سوال پہ نفی میں سر ہلایا __”
غریبی __” یہ غربت بہت رسوا کرتی ہے یہ بس آنکھوں سے نظر آتی ہے چاچا__ ہر چیز کی مار بری ہے لیکن مفلسی کی مار بہت بری شے ہے ___” پیٹ میں جب کچھ نہ ہو تو دنیا کا ہر لطف بیکار ہے یہ اللہ کی طرف سے تو آزمائش ہے مگر دنیا کی نظر میں عیب ہے غریب کی بات پہ بھی زمانہ ہنستا ہے تمسخر اڑاتا ہے مفلسی لہجوں کی محتاج ہے زمانہ روایوں کی مار مارتا ہے ___
بالکل عام سا انداز ، عام سے شخص کے الفاظ تھے جو چاچا کو چونکانے پہ مجبور کرگئے رازق چاچا بغیر پلک جھپکاتا مانی کو دیکھتا رہا اور پھر اپنی جگہ سے ہلنے کا توقف برتا اس کے پاس آکھڑا ہوا اور اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا __”
تیرا حلیہ جیسا بھی ہو مگر تیری شخصیت کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تیرے لہجے کا انداز اگلے کی سوچ کے مطابق ہے کس کے آگے کیا بات کرنی ہے تجھے اس چیز کا بہت ڈھنگ ہے بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتا ہے اور بزرگوں کے ساتھ بزرگ __” مجھے علم ہے تو بہت کھرے کردار کا مالک ہے ایسا کر میرے سٹور میں میرا ہاتھ بٹا دے کچھ وقت لگے گا پھر کہیں اور شفٹ کرتے کاروبار بڑا کرلیں گے پیسے کی تُو فکر مت کرنا میں کوئی شے بیچ کے سارا سامان لے آؤں گا مگر تیرے ڈر سے وہ مجھے تنگ نہیں کرے گا بلکہ کچھ کہہ نہیں سکے گا دیکھ مانی اللہ کے بعد توُ میرا سہارا ہے ____”
وہ اپنی سوچوں سے پریشان اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی تیاگ دیتے ہوئے اسے کام کی پشکش دے گئے
اوہ چاچا ___پھر کیا سوچا توُ نے ___” وہ کچھ جواب دیتا ہی جب اسے ارباز کی آواز سنائی دی ارباز ابھی کاونٹر کے باہر تھا مانی رازق چاچا کو دبے دبے لفظوں میں اشارہ کرتے سٹول سے اترتے نیچے بیٹھ گیا اور انھیں باہر جانے کا اشارہ کیا ___”
چاچا یار بہت بد اخلاق انسان ہے داماد آج اتنے دنوں بعد آیا ہے کوئی خاطر مدارت نہیں ___کوئی مہمان نوازی نہیں ___” رزاق چاچا کے ایک طرف سے گزرتا وہ سٹور کے اندر گھس آیا _____”
دیکھ ارباز میں نے تجھے ایک دفعہ کہا ہے کہ میری معصوم بچی کا آئندہ نام نہ لینا ___نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ___”
کیا یار چاچا اتنا بھڑکتا کیوں ہے ____آج نہیں سہی تو کل وہ میری دلہن بن جائے گی پھر تیری معصوم بچی تو ساری زندگی میرے نام کی ہوئے پھر کیا کرے گا ___”
ایک نظر پیچھے دیکھتے خباثت سے کہتے بے دھیانی میں قدم آگے بڑھایا جب سخت چیز سے ٹکرایا آگے دیکھا تو آنکھوں میں بے یقینی وضح ہوئی خود بخود وہ ہی قدم پیچھے ہوا جو شاہانہ انداز میں آگے بڑھ رہا تھا اس کی حالت دیکھ کہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا جیسے اس نے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو___”
جانتے ہو__زبان کی خوبی کیا ہے ؟؟؟ نہیں پتہ اچھا چھوڑو__میں بتاتا ہوں __” کی یاد کروگے __ ابرو اچکا قدم ارباز کی طرف بڑھایا اس کی چمکتی آنکھوں کی چمک واضح تھی جو ارباز کے حواس بری طرح مختل کرگئی وہ ایک پل میں اس کی آنکھوں میں چھپی سرد مہری محسوس کرگیا جانتا تھا ہڈیاں توڑنا اسکا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اس لمحے تو مقابل کا لہجہ سرد موسم کی شال اوڑھے ہوئے تھا ____
زبان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہڈی نہیں ہوتی پر خامی یہ ہے کہ یہ “ہڈی ” تڑواسکتی ہے اور آج جو چیز تجھے ہسپتال پہنچائے گی وہ تیری یہ زبان ہے ___” کہتے ہی اس نے یکے بعد دیگرے مکوں کی برسات اس کے شروع کردی ___اس کے بعد ارباز کی چیخوں کی گونج سن کہ اردگرد کئی دکان دار نکل آئے تھے پر وہ بھی اپنا نام کا ایک تھا ارباز بمشکل اپنی جان بچا کہ باہر بھاگا وہ تو جیسے گھر کا راستہ بھول گیا__
********””
شام تک وہ گھر آیا تو ابا کی توپوں کا رخ اسکی طرف ہوگیا کیوں کہ ابا نے اسے مشین ٹھیک کروانے بھیجا تھا وہ تو آگیا لیکن مشین کا اتا پتہ نہیں تھا__”
بتا مجھے کیا بتایا مکینک نے ___؟؟ وہ ٹھیک تو ہوجائے گی نا ___” مانی ابا کا خدشہ محسوس کرسکتا تھا اس نے آدھ کھلی آنکھ سے ابا کو دیکھا جو بیٹھک کے دروازے پہ کھڑے جیسے اسی کے انتظار میں تھے ابا کی تو مانو ایسی طبعیت تھی جیسے آپریشن تھیٹر میں ان کی محبوبہ اپنی آخری سانسیں گن رہی ہو___” وہ ابا کی بے چینی دیکھتا بازؤں سینے پہ باندھے وہیں کھڑا ہوگیا___”
میں کچھ بکواس کر رہا ہوں کہ وہ ٹھیک ہوجائے گی _”ابا کا لہجہ آج بڑا ملتجیانہ سا تھا ___
یا تو آپ کی مشین ٹھیک ہو جائےگی ابا ___” یا پھر وہ لڑکے مکینک بن جائے گئے ___” بڑے سکون سے مسکراتے ہمیشہ کی طرح وہ ان کی ماتھے پہ شکنیں لے آیا__”
غلطی ہوگئی مجھ سے ___” مجھے تجھے بیجھنا ہی نہیں چاہیے تھا کونسا توُ خود کماتا ہے جو تجھے قدر ہوں گی __مجھے مکینک کا نام بتا دے میں صبح خود پاس بیٹھا کہ ٹھیک کرواؤں گا ___”
بے بسی سے جنجھلاتے اس کے پاس سے گزرتے کچھ لفظوں کے تیر پھینکتے وہ دروازے سے نکل گئے ____”







ٹھک ٹھک __” وہ بستر میں اوندھے منہ لحاف اوڑھے پڑی تھی جب دروازے پہ دستک کی آواز سنائی دی تو وہ
بیزار سا دل لیے وہیں لیٹی رہی اٹھنے کی ذرا بھی زحمت نہ کی دستک ایک بار پھر ہوئی اور پھر دستک کی مسلسل گونج سماعت کو ناگوار گزری تو کچھ طیش سے اٹھتے ہوئے اس نے دروازہ کھولا___”
مسئلہ کیا ہے آپ کے ساتھ مجھے بس یہ بتانے کی زحمت فرما دیجئے ___” ایمن فاروق کے لہجے سے جیسے دھواں اٹھتا محسوس ہوا وہ آج یوں پہلی بار اپنے اخلاق سے یوں مختلف نظر آئی پہلی اتنی بد تمیزی سے آیا سے پیش آئی ___”
ایمن میم ____وہ فاروق سر آپ سے ملنے کو بے تاب ہیں ان کی ادنیٰ سی درخواست ہے کہ آپ باہر آئیں ___”
بابا ______” زیرِ لب یک حرفی لفظ نکلا ___وہ جانتی تھی کیپٹن فاروق اس کے کمرے میں آنے کا کم تکلف برتا کرتے ویسے بھی جس دن سے اس نے جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا وہ بہت کم اس کے کمرے میں آتے بھی تو دستک دے کہ نام مخاطب کرتے اندر قدم رکھتے __”
کبھی کبھی کھکھلائٹ میں وہ کپٹن فاروق کو چڑاتی ___” وہ اسے ڈھکے چھپے لفظوں میں کچھ لوجک بھی دے دیا کرتے وہ جان گئی تھی کہ اس کی برتیب بیٹھنے ، سونے ، لیٹنے کے سبب وہ یوں اس کے کمرے میں نہیں آتے تھے اس کے بعد اس نے کبھی کوئی بے جواز سوال کرنا چھوڑ دیے ___”
آپ جائیں میں آ رہی ہوں ___” یہ کہتی وہ نرم مزاج سے ایمن فاروق لگ رہی تھی کیونکہ یہاں نام ایسی ہستی کا آگیا جس کے سامنے اس کی زبان پہ انکار کے سارے لفظ گریزاں رہتے __ وہ ملازمہ کو بھیجھتی خود تازہ دم ہونے کی نیت سے واشروم میں چلی گئی ___”
کچھ دیر گیلا چہرہ صاف کرتی وہ لاونج میں آئی تو بابا وہاں موجود نہیں تھے ہاں البتہ اس کی ماں اسے کتنے دنوں بعد یوں دیکھ کہ خوش ہوگئی آنکھوں سے مسرت دیکھی جاسکتی تھی ثمرین فاروقی چائے پیتی ٹی وی پہ کچھ مارننگ شو دیکھنے میں مصروف تھی وہ ان سے بابا کا پوچھتی ان کے کمرے کی طرف بڑھی دستک دے کہ کپٹن فاروق کی اجازت طلب پاتے ہی ان کے پاس گئی جو میگزین کے محفوں کو الٹ پلٹ رہے تھے اسکو دیکھتے ہی میگزین تہہ کرتے ٹیبل پہ رکھتے اٹھ کھڑے ہوئے اتنے دن بعد اس کو اپنے سامنے دیکھنے کی خوشی دیدنی تھی وہ سلام کرتی ان کے قریب ہوگئی جب وہ آگے بڑھتے اثبات میں سر ہلاتے اسے بانہوں کے حلقے میں لے گئے __”
میری پرنسسز کی مما بتا رہی تھیں کہ میری پرنسسز سینٹر نہیں جا رہیں ___” وجہ ___؟؟؟ اس کے سر پہ لب رکھتے وہ سنجیدگی سے ہمکلام ہوئے __
میری طبعیت خراب تھی بابا ___” آنکھیں چراتے لفظوں کی ردو بدل کرتی پہلی دفعہ جھوٹ بولا اتنی بے باک یا منہ پھٹ ہرگز نہیں تھی کہ یوں ہی منہ پہ یہ اعتراف کر دیتی کہ ارمغان عالم اس کے دل میں بستا ہے وہ ان ننانوے فیصد بیٹیوں کے جیسی تھی کہ جو اپنے خواب دفن کرنے میں ماہر تھی جب وہ اسے پرنسسز کے نام سے مخاطب کرتے تو اسکا دل کرب و الم کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا جاتا ___”
دل کرتا کہ چلا کہ کہے اگر میں آپکی شہزادی ہوں تو میرا نصیب کیوں نہیں شہزادیوں جیسا ___کیونکہ نہیں ارمغان عالم جیسا شہزادہ میرے نصیب میں لکھا گیا آپ بادشاہ ہیں تو اپنی سلطنت لٹا کہ اسے میرا بنا دیں ___پر وہ بے وقوف نہیں جانتی تھی کہ نصیب تقدیر سے لڑ کہ نہیں بنائے جاتے ___”
مانتا ہوں پرنسسز ___آپکی طبعیت خراب تھی پر اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ اپنے پیشے سے یوں دستبردار ہوں ہر کام میں دلی وابستگی اور باقدگی کا ہونا ضروری ہے ___” اس کے بازؤں پہ گرفت مضبوط کرتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے انھوں نے کچھ سرد لہجے میں احساس ذمہ داری کا احساس دلوایا ___”
آئی ایم سوری بابا ___” آئندہ ایسا نہیں ہوگا میں دھیان رکھوں گی اپنی صحت کا ___” وہ نگاہیں چراتے ان کو اطمینان دلاتی بولی جن کی نگاہیں فانوس پہ جمی ہوئی تھیں جب سے ارمغان عالم اس کے دل پہ قابض ہوا وہ تب سے کپٹن فاروق سے کھلے عام بات کرنے سے جھجکتی ان کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کہ بات نہیں کرتی اسے خوف آتا کہ کہیں اس کا باپ اس کی آنکھوں سے اسکے دل کا حال نہ جان لے اس کی آنکھوں میں چھپے ارمغان عالم کا عکس نہ دیکھ لے ____
دھیان نہیں رکھنا خیال رکھنا ہے مائی پرنسسز ___”
جی بابا ___اب میں جاؤں ____وہ جلد از کپٹن فاروق کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتی تھی جو جیسے اسے جانچنے میں مصروف تھے _
جن کو رب پہلے ہی کسی کے مقدر میں لکھ دے ان کےلیے ہم گداگر بن کہ کشکول لے کے بھی بیٹھ جائیں ___وہ ہمارے نہیں ہوتے پرنسسز جو مقدر میں نہ ہو وہ رونے سے بھی نہیں ملتاہم صبر تو کرسکتے ہیں لیکن مقدر سے نہیں لڑسکتے ___وہ توقف لیتے کچھ پل کےلیے ٹھہر گئے پھر بولنا شروع ہوئے ___بیٹیوں کو اپنی جنگیں خود لڑنی پڑتی ہے چاہے وہ الفاظ کی ہوں اعتبار کی ہو کی ہو یا کردار کی __” بیٹیوں کو رحمت ہی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرلیتی ہیں ____”
جس بات سے وہ ڈرتی تھی وہ سچ ثابت ہوگئی اس کا باپ اسے لمحوں میں بھانپ گیا اس کا دل کیا کہ کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے وہ اس وقت کی شرمندگی لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی تھی ___
صبر کرلینا مگر مقدر سے لڑنے کی کوشش ہرگزمت کرنا __” جس چیز کی لگن زیادہ کی جائے نہ وہ چیز تو اللہ عطا کر دیتا ہے پر بعض اوقات اس کے نتائج خطر ناک ثابت ہو جاتے ہیں اور مجھے پورا بھروسہ ہے کہ میری پرنسسز صبر کرلے گی مگر مقدر سے نہیں لڑے گی __
جی بابا ___” بمشکل اسکے لبوں سے یہ لفظ ادا ہوئے اس کے دل کا راز اس کی آنکھوں میں سما گیا تو کیا سچ میں ارمغان عالم اس کی آنکھوں میں بسا نظر آتا تھا __
وہ کچھ دیر بوجھل دل لیے ان سے باتیں کرتی رہی پھر ان کے کمرے سے دل میں اٹھتے طوفان کو لیے باہر نکل آئی ___”
تو کیا ارمغان عالم کسی اور کا مقدر ہے ___؟؟؟ تب ہی تو مجھے دھتکار دیتے ہیں____؟ بابا کو ان کے متعلق سب پتہ ہے تب ہی میں کہوں دونوں کی اتنی اٹیچ منٹ کیوں ہے آپس میں ___” وہ سوچوں کے تانے بانے الجھتی باہر نکل آئی اذیت کی لہریں اندر تک طلاطم برپاگئی ___ اندر کمرے میں میگزین کے صحفے پلٹتے کپٹین فاروق صاحب کے سفر میں گامزن تھے وہ بیٹی کی آنکھوں کو کب کا پڑھ چکے تھے اور اس کی اُداسی کا انھیں معلوم تھا وہ چاہنے کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر تھے
بھلے وہ نامور اور جانے مانے آفیسر تھے وہ پل میں بیٹی کو سونے میں تول دیتے ___” ارمغان عالم کو بس ایک بار کہنے کی دیر تھی وہ جانتے تھے وہ ان کی بات رد نہیں کرسکتا لیکن اُن کا ایک معیار تھا ساری زندگی پیشے سے وابستگی ایمانداری سے جڑی رہی نیت میں کھوٹ رائی کے دانے برابر بھی نہیں رہا تھا __
وہ ان باپوں میں سے تھے جو اولاد کی ناجائز خواہش پوری کرنا معیوب سجھتےتھے ویسے بھی انھوں نے اپنی بیٹی کی تربیت مثالی انداز میں کی اس لیے انھیں کوئی شک و شبہ یا خوف لاحق نہیں تھا کہ اُن کی بیٹی انکا کا سر جھکا دے گی مگر ایک دفعہ دبے چھپے لفظوں میں بتانا فرض سمجھا تھا ___”







آج کل سب شادی کی تیاریوں میں سب مصروف تھے کچھ دن بعد علیزے اور مانی اور ان دونوں بہن بھائیوں کی شادیاں اکھٹی طے پائیں ویسے آج سب علیزے کی نند کے نکاح مدعو تھے جمعہ کے بعد ابا کی جلدی جلدی کی رٹ گونج رہی تھی اماں بھی علیزے کو ڈانتی بر آمدے سے باہر نکلی تو کھڑی کی کھڑی رہ گئیں تقربیاً پانچ منٹ بعد سورتوں کا ورد کرتی بے اختیار اسکی طرف بڑھی __”
صالح میرا بچہ ____” سفید لباس کے اوپر سیاہ واسکٹ ، متناسب درجے کے گھنے بال ، ہلکی ہلکی ڈاڑھی ، کشادہ چہرہ آج واضح تھا چمکتی روشن آنکھیں ، بازؤ پہ بندھی گھڑی ،پیشانی پہ تین نشان آج واضح تھے جن کو وہ اعزاز سے کم نہیں سمجھتا تھا اور وہ عیاں ہوتے جیسے اسکی شان بڑھاگئے اماں نے اسے سر سےپاؤں تک کو دیکھا حتیٰ کہ پاؤں میں پہنی سینڈل تک پہ اماں نے غور و فکر کیا اس کی اچانک سے تبدیلی کا یہ راز اماں کو چونکا گیا بغیر کسی چیز کا ہوش کیے وہ اس کے قریب آئی اور اس کے چہرے کا پیالہ ہاتھوں میں لیے اس کی ہیشانی کو چومنے لگیں ٹھٹک تو برآمدے سے نکلتے ابا بھی گئے ___”
جاری ہے _____”