راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 21

اماں اسے بوُسے دیے جا رہی تھیں آج وہ بہت پیارا لگ رہا تھا کیونکہ آج وہ اس دنیا کے مطابق تھا جو اندر سے جیسی بھی تھی اسکا باہر سے اچھا ہونا اہم تھا ___
“بیگم ___تم تو ایسے چومے جا رہی ہو اپنے صاحبزادے کو جیسے حج کرکے آیا ہو___” ماسٹر صاحب زارا بیگم کی جذباتی محبت دیکھتے ان کے قریب آتے بولے بغیر نہ رہ سکے ___ کچھ لمحے تو ان کےلیے بے یقینی کے تھے کہ اچانک سے اس میں ایسی کونسی تبدیلی آگئی تھی ___
“تمھارا صاحبزداہ یہ سارے چونچلے اگر مجھے متاثر کرنے کےلیے کر رہا ہے تو اسے سمجھا دو میں اس نشئی سے ہرگز متاثر نہیں ہونے والا ___” وہ ناراضگی جتائے اسکی طرف اماں سے مخاطب تھے ___
“لو جی متاثر کرنا ہی ہوتا تو نو سال کی عمر سے مکے اور ٹھڈے نہ کھا رہا ہوتا ___” وہ اماں کی طرف دیکھتے سر کو کجھاتے ابا کو جتاتے لاپرواہ مگر صاف ستھرے انداز میں بولا۔ اس کی حرکت سے ماسٹر صاحب کے تاثرات ناگوار ہوئے __
“اماں آپ کے مزاجی خدا تو ایسے کتراتے ہیں مجھ سے جیسے میں ان کی زمانہ قدیم کی محبوبہ رہی ہوں۔ جنہیں یہ کبوتروں کے ذریعے خط بجھواتے رہے ہوں اور اتنے عرصے بعد جیسے گلی میں ان کو مل گئی ہو ___”
جھک کر اماں کے کان میں سرگوشی کرتا اسکے لہجے میں کافی مسخرہ پن سا تھا اماں نے گھورتے اس کے سر پہ چپیڑ ماری ___
ارے صائمہ توُ آگئی اور نورِ حرم کدھر ہے __؟؟
اماں نے تائی کو دیکھتے عجلت بھرے لہجے سے پوچھا جن کی حیران نظریں مانی کا پوسٹ مارٹم کرنے میں مصروف تھیں۔ گویا یقین نہیں آ رہا ہو کہ یہ وہ محلے کا آوارہ سا مانی ہے۔ قدم اماں کی طرف بڑھاتے انھوں نے اسکی پشت پہ ہاتھ پھیرا جو خصوصاً بلا شک و شبہ ان کے داماد کے رتبہ پہ فائز ہونے والا تھا __
“ارے تم تو جانتی ہو نہ اُسے بیاہ شادیوں میں جانے کا اتنا شوق نہیں ہے۔ صبح بھی بے عزتی کروائی ہے مجھ سے پر کہیں جانے کو رضا مند ہی نہیں ہے توُ بتا کیا کروں میں اس لڑکی کا ___؟؟؟ وہ اماں سے راز و نیاز میں مصروف ہوئیں۔ ابا انھیں گاڑی کے انتظام کا کہتے باہر نکل گئے جبکہ وہ وہاں کھڑا ماں اور تائی کی باتیں سنتا نورِ حرم کے نہ جانے کا سن کر آرام سے کھسکتا چھت کی جانب بڑھتے نیچے اترا ___
“سب جا رہے ہیں تم کیوں نہیں جا رہی ___” اسے کام میں مگن دیکھ کر وہ اسکا پیچھے آکھڑا ہوا۔ اس کے لباس سے نکلتی مہک اردگرد پھیلی۔ وہ پلٹی مگر بری طرح اس سے ٹکرا گئی۔ اس کے ارادے کو دیکھتی پیچھے ہوتے اسے کچھ کہنا چاہا مگر اس کو ایک نئے روپ میں دیکھ کر سارے الفاظ منہ میں ہی کہیں دم توڑ گئے۔ وہ اسے دیکھتی رہی جو آج بھی خندہ پیشانی لیے اس کے مقابل کھڑا ہوا تھا اسے دیکھ کر اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا اسے جیسے یہ منظر خوابیدہ سا لگا یا یہ جاگتی آنکھوں کا خواب تھا __
“کیا اتنا پیارا لگ رہا ہوں جو گھور گھور کر دیکھے جا رہی ہو __” ہلکا سا کنھکارتے مسکراتے ہوئے دیکھا۔ جس نے آج اسے دیکھ کر ڈوپٹہ ٹھیک بھی نہیں کیا۔ اسکے نزدیک تو حیرت کی ہی بات تھی۔ بڑی مشکل سے آنکھوں کوجھٹلاتے وہ ہوش میں آئی ___
“پیارے تو نہیں پر اچھے لگ رہے ہو ___ ” وہ اس سے کچھ فاصلے پہ کھڑا تھا آج اس نے اس سے فاصلہ بھی نہیں رکھا۔ بے اختیاری کی کیفیت میں سچ منہ سے نکلا جو صالح کو مسمرائز کرگیا۔ اسکے اظہار کا انداز آج بھی مختلف تھا اظہار میں بھی انا مقید تھی ___
“تم کیوں نہیں جارہیں ہمارے ساتھ ___؟؟ سیاہ آنچل میں لپٹے چہرے کو ایک نظر دیکھتا نظریں سامنے دیوار پہ مرکوز کرگیا جو بیزارگی سموئے ہوئے تھا ___
“میرا دل نہیں کر رہا ___” اسے ٹوکتی دو قدم پیچھے بھرتے نرم مگر سرد لہجے سے کہا ___
“میرا دل کیسے لگے گا میں کسے دیکھوں گا وہاں ___” بڑی سادہ سی بات تھی۔ جو نورِ حرم کو ناچاہتے ہوئے ایک دفعہ پھر سے اسے دیکھنے پہ مجبور کرگئی۔ وہ آگے سے کچھ جواب دیتی جب علیزے نے اسے ابا کا پیغام دیا وہ اسے کچھ کہتا تیزی سے نکل گیا۔ جو بے خیالی میں اسکی بات نہ سن سکی مگر اسکی چوڑی پشت دیکھتی رہ گئی ___
کچھ سوالوں کے جواب ، کچھ سوچیں اور داستانیں ادھوری رہ جاتی ہیں __
❤❤❤❤❤❤
ٹوٹنے والی چیز ٹوٹ گئی تم تو جیسے ماتم کرنے بیٹھ گئے میں نے اتنا تو تمھیں چاچو اور دادا کی وفات پہ اُداس نہیں دیکھا جتنا آج دوسرا دن دیکھ رہی ہوں ___” علیزے کمرے سے باہر نکلی تو خلاف معمول خاموش دیکھ کہ اس کے پاس آبیٹھی__ اس کو اُداس بیٹھے دیکھ کہ پرسوں رات کا وقعہ اسکے ذہن میں گھوم گیا جب ابا نے اسے دو دفعہ کسی کام کا کہا مگر وہ اپنی لاپروائی لیے لیپ ٹاپ اٹھائے بیٹھا رہا اور اپنی لاپروائی کی وجہ سے خیال نہیں کیا ابا اسکو ڈھیٹ بنے دیکھ کہ غصے سے تیسری بار کمرے میں قدم رکھتے ہی لیپ ٹاپ اٹھا کے ساتھ دیوار کے ساتھ دے مارا وہ ٹوٹ کہ بکھرگیا شاید وہ ٹھیک ہونے کے قابل بھی نہیں تھا جس وجہ مانی پرسوں رات سے گم صم خاموش سا بیٹھا ہوا تھا___”
سچی سچی بات بتاؤں کبھی کبھی مجھے وہ اپنی خوشیوں کے قاتل لگتے ہیں وہ چیزوں کو نہیں جیسے مجھے توڑتے ہیں __” لیکن کبھی کبھی لگتا ہے میری لاپروائیوں کی فکر انھیں کھائے جا رہی ہے وہ صرف چیز نہیں تھی بلکہ میری پوری زندگی کا سرمایہ تھا جو تم کبھی نہیں سمجھ سکتی ___” اسکا لہجہ ہمیشہ عام سا ہوتا تھا وہ بات بھی بڑی محضکہ خیز کرتا اب بھی لہجے میں تمسخر تھا بول اسے رہا تھا مگر نظریں غیر مرئی نقطے کو دیکھ رہی تھیں __”
آدھے پیسوں کا بندوسبست تم کرو آدھے پیسوں کا انتظام میں کردوں گی دوسرا سرمایہ لے لینا___” پر یہ کریلے کی شکل بنا کہ بیٹھے رہوں گے تو میں پیسے بالکل نہیں دوں گی __” اسکے کندھے پہ ہاتھ مارتے اس کے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کی خاطر بولی وہ اس وقت اس وقت سات سالہ علیزے لگی جو اپنی چیز اسے دے دیا کرتی اب اسکی بات سن کہ جیسے وہ ہلکا پھلکا سا ہوگیا قہقہ لگاتے اسکے سر پہ تھپڑ مار گیا بدلے میں وہ اسکے بال کھینچتی پیچھے ہٹ گئی ___”
ابا کہتے ہیں کہ تیرے جیسی اولاد کسی دشمن کی بھی نہ ہو مگر میرا ماننا یہ ہے کہ ایسی جگاڑی اولاد نصیب والوں کو ملتی ہے پر کوئی قدر کرے تو تب نا___” منہ پھیرے دوسری طرف سے لیپ ٹاپ اٹھا کہ اسے دکھاتے ہوئے بولا جو جگہ جگہ سے جوڑا گیا سکرین ٹوٹی ہوئی تھی پر آن تھی اور چل بھی رہی تھی پر یہ بات الگ تھی کہ نظر کچھ نہیں آ رہا تھا مکمل سیاہ تھی علیزے اسکے اناڑی پن پہ حیران تھی کہ وہ ابا کا چھوٹا سا لیپ ٹاپ ابا کا عتاب سہہ کہ بھی آن کیسے تھا اس شخص کی ناقص کارگردگی میں کوئی نہ کوئی ہنر چھپا نظر آتا تعریف نہ کی مگر اسکی ذہانت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکی ___”
جیسے اسکا حال ہے ایسا حال ابا میرا کرتے ہیں روز ایسے اپنی رفو گری کرتا ہوں ___” وہ ہنستے ہوئے فارمل سے انداز میں کہہ رہا تھا چمکتی آنکھوں میں چھپا حزن کوئی پڑھنے والا ہوتا تو سہی ___”
ٹھیک تو کرلیا ہے پراس میں تو کچھ بھی نظر نہیں آرہا چلاؤ گے کیسے ___” اب کی بار قریب سرکتے فکرمندی سے بولی __”
اندازے سے اور کیسے ___؟؟؟ اسکے جواب پہ وہ سر پیٹ کے رہ گئی
نہ بندہ تم سے پوچھے اتنی مار کھانے کے باوجود کیسے آرام سے بیٹھ جاتے ہو اُن کے پاس ___” مجھے تو ابا نے ایک دفعہ ڈانٹا میں تو دو دن ان سے خفا رہی تھی تمھاری مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیسے رہ لیتے ہو ___ یہ کہتے وہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد سیب کاٹتے چارپائی پی بیٹھ گئی
قسم خدا کی اگر ماسٹر صاحب کا کوئی دوسرا روپ ہوتا تو بخدا وہ میری محبوبہ کا ہوتا ابا تو مجھے میٹرک کی اردو کی غزلوں کی ظالم و دلربہ محبوبہ کا دوسرا عکس معلوم ہوتے ہیں محبوبہ ان کو جتنا بھی دھتکار لے لیکن عاشق بیچارے کا دل کرتا ہے کہ چاہے جتنا بھی دھتکار لے ایک بارہی سہی مگر مجھے اپنے گھٹنے کے ساتھ بیٹھا لے ___” اور ایک یہاں میں ہزار بار لعنتیں ملامتیں کھانے کے باوجود بھی دل ان کی طرف ہمکتا ہے وہ جب سامنے آتے ہیں دل دھڑکنے لگتا ہے کانپے ٹانکنے لگ پڑتی ہیں مگر محبوبہ کو دیکھ دیکھ کہ دل ہی نہیں بھرتا __” دکھی سا مظلوم بنا وہ اپنی داستاں علیزے کو سنا رہا تھا
دل اس لیے ڈھڑکتا ہے کیونکہ ابا کے ہاتھ میں تمھاری خاطر تواضح کرنے کےلیے چھتر ہوتے ہیں __” بے ساختہ علیزے نے قہقہ لگاتے اسے بیچ میں ٹوک دیا وہ ہنس ہنس کہ لوٹ پھوٹ ہوئی جا رہی تھی ___”
اے کملی اتنا منہ پھاڑ پھاڑ کہ نہ ہنس نظر لگ جائے گی کبھی کبھی خوشیاں راس نہیں آتی اماں نے صحن میں رک کہ باقدہ پیچھے مڑ کہ اسے ٹوکا ___”
انشااللہ اماں کچھ نہیں ہوگا ہر وقت برے گمان میں نہ رہا کریں __” وہ بھی اونچا سا زارا بیگم کے گوش گزارتی مانی کی طرف متوجہ ہوئی جو کہیں گم سا تھا__”
ایک بات کہوں ___؟؟؟ تم ابو کے معیار پہ پورا کیوں نہیں اترتے ان کو اتنا کیوں تنگ کرتے ہو __” یکدم ہنستے ہنستے سنجیدہ سی ہوگئی ___”
ابو کا صرف اور صرف وجہ سے خون کھولتا ہے اماں تمھارے وجہ سے علحیدہ پریشان ہے تمھارے دل میں اگر ذرا سی ابو کےلیے محبت ہے تو تمھارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں کئی محنت مزدوری ہی کرکے ان کی ذات کا بھرم ہی سلامت رکھ لو ___”
ادھر آؤ__ایک بات بتاؤں ___” وہ سرگوشی سے بولا بولا تو وہ اس کے قریب ہوگئی
پتہ ہے ایک ڈاکو جب کہیں ڈاکا ڈالتا ہے تو اس کے پاس جادوئی طاقت نہیں ہوتی چیزوں کو اور پیسوں کو غائب کرنے کی _ کہ وہ غائب کرسکے __” ہر چیز میں لگن کا ہونا بہت ضروری ہے ڈاکا لینے کےلیے بھی لگن کا ہونا ضروری ہے اور بھلا ڈاکو کب ڈالتا ہے ؟؟ اس نے پوچھا تو علیزے نے نفی میں سر ہلائے وہ دونوں ایسے جڑ کہ بیٹھے تھے جیسے صدیوں سے ان کے درمیان دوستی کا رشتہ ہو___” لگتا ہی نہیں تھا کہ دونوں بھائیوں میں کوئی اختلافات ہو__” بتاتا یوں___”
جب رات کو سب سوچکے ہیں سخت سردی بھی ہو اسے پرواہ نہیں ہوتی بس اسے اپنے کام سے اپنی لگن سے غرض ہے جو اسکا پیشہ ہے جہاں لگن نہ ہو وہاں سستیاں جنم لیتی ہے ہر کام کو عبادت کی طرح فرض سمجھ کہ کرنا چاہیے ___” اور عبادت کا دل تب کرتا ہے جب دل صاف ہو __”
تمھیں بڑا تجربہ ہے کہیں راتوں کو اس لیے گھر سے باہر تو نہیں رہتے بےبس لوگوں کو لوٹتے ہوں گے تبھی تو دو دو تین گھروں سے غائب رہتے ہو پہلے ہی تمھارے سوٹے کو ہم نے مشکل سے ہضم کیا پھر تم نے چھوٹے موٹے گھر سے ڈاکے ڈالنا شروع کردیے ، پھر تم نے لڑکی کو بھگالیا اور اب تم ڈاکو بنا گئے تم یقین مانو یہ بات میں ابا سے ہرگز نہیں چھپاؤں گی__” وہ آنکھیں پھاڑے اس کے کارناموں کو ملاحظہ کرنے لگی جو مشکوک نظروں سے باہر دیکھ رہا تھا ___”
؎ جو بھی تہمت ہو میرے نام کو چلی آتی ہے
جیسے بازار سے ہر گھر کی گلی آتی ہے __”
گہری سانس بھر کہ اس نے بلند آواز میں شعر پڑھا چہرے پہ بڑی جاندار مسکراہٹ تھی __”
دانت تو ایسے نکال رہے ہو جیسے کوئی بہت معرکہ مارا ہے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے تمھارےلیے __” اماں اگلے مہینے نواب صاحب کو دلہا بنانے کا سوچ بیٹھی ہے اور یہاں صاحبزادی ڈاکو بننے کے خواب دیکھ رہا ہے __”
عام ڈاکو نہیں بلکہ نامور ڈاکو___” وہ اس کے منہ کے آگے سے سیب کی دو قاشیں اٹھا کہ منہ میں ڈالتا ہاتھ کرتے سے رگڑتا سیٹیاں مارتا اس کے پاس سے گزرا __”
کمینہ باتیں تو ایسی کرتا ہے جیسے آفسر ہو __” وہ اس کی پشت کو دیکھتی بڑبڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی
♥️♥️♥️♥️♥️♥️
آج وہ یوں اماں کے بغیر رات اکیلی گھر میں ٹھہری تھی کیونکہ علیزے کی نند کی مہندی تھی اور اس لیے آج بھی سب مدعو تھے۔ اماں نے اسکی منت سماجت کی کہ وہ ان کے ساتھ چلے مگر اسکی ایک ہی رٹ تھی کہ میرا وہاں کیا کام ___؟؟؟ اسکا ہمیشہ سے دوٹوک الفاظ سنتے اماں خاموش ہوگئیں شاید اس کے مزاج کو دیکھ کر کہنا کچھ مناسب نہ سمجھا ___”
صائمہ بیگم اسے رات کو یوں اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں جاتیں اور آج اسے علم تھا کہ اس کی ماں مجبوری اور مروت کے ہاتھوں مجبور تھی۔ اس لیے چلی گئیں۔ جاتے وقت زارا بیگم اسے تاکید کرگئی کہ مانی اگر رات کو گھر آیا تو اسے تازہ کھانا دے دینا۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا مگر وہ جانتی تھی کہ وہ راتوں کو گھر سے غائب رہتا ہے۔ اس لیے بے فکر ہوتے اپنا کھانا بناتی برآمدے کی گرل کو بند کرتی نماز پڑھنے کےلیے کمرے میں چلی گئی __
نماز پڑھ کے اس نے کھانا کھایا تو گرل کے دروازے پہ دستک سنتی کمرے سے باہر نکل کر صالح کو دیکھا تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ وہ ساری گھر سے غائب رہتا اس کا ابھی یہاں ہونا حیرت کا مقام تو بنتا تھا___
“تم یہاں ____؟؟ ” نورِ حرم نے دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھنا ضروری سمجھا۔ وہ فطرت کھوجی طبیعت کی مالک تھی۔ سوال و پوچھ گچھ جاری رہتی جب تک مناسب جواب نہ مل جاتا ___
“علیزے نے فون پہ بتایا تھا کہ تم گھر میں اکیلی ہو۔ مجھے تمھارا گھر ممیں یوں اکیلا سن کر ناگوار گزرا اس لیے آگیا ___”
اسنے آگے بڑھتے جواب دیا۔ نورِ حرم کے چہرے پہ نامعلوم سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔ مسکراہٹ میں کچھ معنی خیزی کا عنصر نمایاں تھا۔ اس نے آگے بڑھتے کنڈی کھول دی۔ بر آمدے کی روشنی میں نمایاں چہرے کی بے اعتبار سی مسکراہٹ مقابل پل میں جانچ گیا۔ سمجھ گیا تھا کہ وہ اسکے دل پہ لگے بے اعتباری کے مقفل کواڑ کے زنگ آلودہ تالے کبھی نہیں کھول سکتا _
“میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتی صالح ناگوار نہیں خوشگوار کہنا مناسب تھا تھمارے لیے __ تمھارے لیے یہ موقع تو بہترین تھا سوچا ہوگا کہ گھر اکیلی ہے موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیے ___” دروازے کھولتے مسکراہٹ میں چھپے طنز کا راز بتاگئی۔ اسکے لہجے میں چھپی طنز کی کاٹ صالح سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ شخص حقیقتاً دل کے جذبوں میں کمال درجے کا ڈھیٹ ثابت ہوا۔ بات دل میں تیر کی طرح پیوست ہونے کے باوجود بھی تیر نکالنے کا ہنر تو اسے باخوبی تھا مگر اپنے زخم پہ میسحائی کے مرہم کا ڈھنگ اسکے پاس نہ تھا __
“اکیلی عورت مرد کےلیے موقع نہیں بلکہ ذمہ داری ہوتی ہے اور اس وقت تم میرے لیے خوشگوار موقع کی بجائے بھاری ذمہ داری ہو ___” اس کی تقلید میں اُس نے قدم کچن کی طرف بڑھائے۔ اس کی بات میں نجانے ایسا کیا طلسم تھا۔ کنڈی کھولنے سے پہلے حیرت و تصور کے خیالوں میں گم نظر بھر کر اسے دیکھا پھر اندر داخل ہوگئی __
“مجھے لگا تھا ہمیشہ کی طرح آج بھی تم گھر نہیں آؤ گے۔ اب تمھارے لیے مجھے آٹا گوندھ کر روٹی بنانی پڑے گی __” وہ آستنیں فولڈ کرتی آٹا چھان کر چھوٹا سا اسٹول زمین پہ رکھتی اسے آگاہ کر رہی تھی وہ بھی اسٹول اس سے کچھ فاصلے پہ رکھتا بیٹھ گیا __
“صالح ادھر کیوں بیٹھ رہے ہو ____” اسے ساتھ بیٹھتے دیکھ کر ناگواری کے کچھ ملے جلے تاثرات میں کہا__
“تم بھی تو نیچے بیٹھی ہوئی ہو تو پھر میں کیوں نہیں ؟ عام سے انداز میں کہتے اسکے کہنے کے باوجود بھی نہیں اٹھا ___”
” میں تو آٹا گوندھ رہی ہوں چلو تم اوپر بیٹھو بہت برا لگتا ہے اسطرح __” آنکھوں سے دیوار کی طرف نصب کرسیوں کی جانب اشارہ کر رہی تھی __
“ایک تو مجھے رزق کی بے حرمتی اچھی نہیں لگتی اور دوسرا مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم میرے قدموں میں بیٹھو ___” اپنے سادہ لفظوں پہ وہ اسے قدم قدم پہ حیران کردیتا. آج بھی کر رہا تھا اس کی سادگی میں گہرائی کا عکس نمایاں تھا. وہ خاموشی سے آٹا گوندھنے لگی مگر اسکی نظروں کی تپش باخوبی محسوس کر رہی تھی. نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ اپنے جہاں میں گم اسے ہی دیکھ رہا تھا __
” میری کولیگ کہتی ہیں یہ جو تمھیں لینے آتا ہے یا تو یہ بہت شریف ہے یا پھر بہت شرمیلا __” نظریں اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا نگاہ پڑے بھی تو دوسری طرف پھیر لیتا ہے ___ کاش وہ یہاں ہوتیں تو میں تمھاری شرافت اور شرم کے عملی مظاہرے دکھا پاتی __” ہنستے ہوئے وہ کاونٹر کے پاس جا کھڑی ہوئی ___
” آنکھوں کو دل کا دروازہ کہا گیا ہے نورِ حرم۔ جس کے راستے سے اچھی اور بری چیز گزر کر اس مقام تک پہنچتی ہے بھاتی ہمیں وہ ہی ہے جو ہمیں مقناطیس کی طرح کھنچتی ہے اپنی طرف۔ جس میں کشش ہوتی ہے کھینچتی ہمیں وہ ہی ہء پھر وہ بری ہو یا اچھی مگر ہمیں اچھی لگتی ہے اور جانتی ہو جس چیز میں شر چھپا ہو وہ ہمیں زیادہ جلدی اپنی طرف اٹریکٹ کرتی ہے۔ گناہ کی لذت ہمارے دل کو مردہ کر تی ہے روح کا سکون ختم کر دیتی ہے گناہ کی ابتدا ہی آنکھ سے کی جاتی ہے۔ اس لیے بس آنکھوں کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر جگہ دیکھنے سے اعتراز برتتا ہوں۔۔۔ تم تو میرا سکون ہو اس لیے تمھیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہوں ___حرام رشتتوں میں وقتی لذت تو مل سکتی ہے مگر دائمی سکون نہیں ___ سکون صرف حلال رشتوں میں رکھا گیا ہے اور رب نے تمھیں میرا سکون مقرر کیا ہے ___”روٹی بناتی اسکی باتیں اسکے دل پہ بری طرح اثر کر رہیں تھیں ___
” تم بدلتے جا رہے ہو اور سچ بتاؤں تمھاری یہ تبدیلی بہت حیرت انگیز ہے میرے لیے ۔ تم باتیں ایسی کرتے ہو کہ اب سننے کا دل کرتا ہے ___” سالن اور چپاتی وہ اس کے سامنے ٹیبل پہ رکھتی پانی اسے تھماتے بول رہی تھی لہجے میں حیرت کا اظہار یقینی تھا __
“تمھاری رائے بدلتی جا رہی ہے میرے متعلق اور یہ بات میرے لیے بہت حیرت کا باعث ہے کہ تمھارا نظریہ اس نشئی انسان کےلیے تبدیل ہوگیا ہے اور تم سنتی بہت اچھا ہو اب اس لیے اب بولنے کا دل کرتا ہے ___” وہ اسکا سنہری کندن روپ آنکھوں میں سماتے جواب دیتے نوالہ توڑا۔ جو جلدی جلدی سے پیڑہ بنا رہی تھی ایک دفعہ پھر پلٹ کے دیکھا تو وہ اسے آنکھ مار گیا __
” مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میری شادی ہونے والی ہے ___” مجھے یہ اندیشہ ہے کہ کہیں میں شادی سے پہلے خوشی سے ہی نہ مر جاؤں ___” اس کے سنجیدہ سے لہجے اس نے عجب سا مسخرہ پن محسوس کیا ___
” توبہ اتنی خوشی شادی کی ___؟ گرما گرم چپاتی رکابی میں رکھتے حیرت بھرا لہجہ تھا۔ صالح نے نوالہ توڑتے اسکے منہ کی طرف کیا جو اسکا چمکتی آنکھوں کی چمک دیکھتی نفی میں سر ہلانے کی بجائے لب واہ کرگئی مگر اسکی انگلیوں کے لمس سے عجب سا سکون دل میں اترا۔ جس کو وہ کوئی نام دینے سے قاصر ہوئی۔ اسکا دل کیا کہ کاش وہ کھلاتا رہے اور وہ کھاتی رہے وہ ٹیبل کی ایک جانب رکھی گئی کرسی پہ بیٹھ گئی
” تم سے شادی کی خوشی کہی جاسکتی ہے __ آج میں تمھیں دل کی بات بتاتا ہوں پتہ ہے جب دادا ابا نے ابا سے تمھارے اور میرے رشتے کی بات کی اس وقت تو میرے پاؤں زمین پہ ہی نہیں ٹک رہے تھے۔ ابا پہلے تو دادا کی اس بات سے خفا ہوگئے کہ میں ان کی بھتیجی کے قابل نہیں ہوں۔ مجھے لگا تھا ابا مزاج کے سخت ہیں اس لیے اپنے آگے کسی کی ایک نہیں چلنے دیں گے لیکن میرا اندازہ غلط ثابت ہو گیا۔ جان گیا کہ ابا کا مزاج مقدر کے کھیل سے زیادہ سخت نہیں ہے۔ دادا ابا کے سمجھانے پہ رضا مند ہوگئے پھر میرے اور تمھارے نکاح کا وقت بھی طے پاگیا اور نکاح والے دن میں بہت خوش تھا تم بہت اُداس تھی میں ہنس رہا تھا تم رو رہی تھی۔ مجھے مجبت تھی تمھیں نفرت تھی ___ نکاح نامے پہ دستخط کرتے وقت میرے ذہن میں اچانک آیات آئی ” فبای الا ربکما تکذبان “کہ بہت ساری نعمتوں میں ایک نعمت تم بھی تھی۔ آنکھوں سے نکلتا خوشی کا آنسو نکاح نامے پہ گرگیا کہ جو میرے دل میں تھی اللّٰہ نے اسے میری زندگی میں ، میرے حصے میں لکھ دیا وہ جس سے میری شادی کا دور دور تک علم نہیں تھا اچانک سے وہ میرے حصے میں کیسے آگئی۔ جب تمھیں میرے ساتھ بیٹھایا تو تم دور ہٹ کے بیٹھ گئی میں انگوٹھی پہنانے لگا تم گھن کھاتے ہوئے ہاتھ پیچھے کرگئی پھر نکاح کے بعد تائی اماں سے کہہ رہی تھی کہ میرے نصیب میں صرف یہی شرابی رہ گیا تھا۔ جس کے پاس سے بھی گزروں تو پیسنے کی بو آتی ہے __ میں یہ سنتے ہوئے بھی پہلی دفعہ خود غرض بن گیا ___” اسے اسکا لہجہ کم ازکم جتاتا ہوا ہرگز نہیں لگا وہ بڑی صفائی اپنی خوشی کے لمحےگنوا رہا تھا۔ اسکے گوش گزار کر رہا تھا مگر اسے نجانے کیوں برا لگا وہ اسے ٹوک گئی __
” کم از کم تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں تم سے نفرت کرتی تھی گھن کھاتی تھی __ یہ صرف تمھاری سوچ تھی __” نجانے اسے سچ بہت کڑوا لگا اسلیے بے اختیاری میں صفائی دی جو اس کی گُھٹی میں شامل نہ تھی __
I was quite, but i was not blind noor_e_haram .
اسکے چہرے کی طرف دیکھ کر کہتے وہ نگاہیں پھیر گیا شاید اپنی آنکھوں میں چھپی اذیت چھپا رہا تھا __
” تم غلط سمجھ رہے تھے مجھے ___؟؟ جرح کرتے نورحرم کی آواز اونچی تھی مگر لہجے میں عجیب کھوکھلا پن سا تھا۔ جو مقابل کے چہرے پہ بڑی خوبصورت سی مسکراہٹ لگا گئی۔ ایک ارادتاً نگاہ اس پہ مرکوز پھر سے چہرہ کا رخ پھیر گیا اور اسکے اگلے بول نورِ حرم پہ سکتہ طاری کرکے رکھ گئے __
؎میں لوگوں سے ملاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں
میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں
سر محفل مجھ پہ جن لوگوں کی نگاہیں پڑتی ہیں
نگاہوں کے معانی سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں
ذرا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایتوں سے___
کہ جن پہ بوجھ میں ڈالوں وہ کاندھے یاد رکھتا ہوں
یوں تو بھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی
پر جو زخم گہرے دیں وہ رویے یاد رکھتا ہوں __
میں اپنوں سے محبت میں انائیں چھوڑ دیتا ہوں
جفائیں بھول جاتا ہوں وفائیں یاد رکھتا ہوں ___”
گردن پہ ہاتھ رکھے وہ چہرہ اس کی طرف سے موڑے غزل پڑھتا اسے بری طرح شرمندہ کرکے رکھ گیا۔ اسکا مقصد ہرگز شرمندہ کرنا نہیں تھا مگر اسکی اُداسی اسکی غزل میں چھپی لفظوں کی گہرائی نورِ حرم کے ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ گئی۔ کاش وہ اس وقت بھی پہلے جیسے صبر کا مادہ رکھ لیتی وہ اس لمحے پہ بری طرح پچھتا رہی تھی __ بولتے وقت ہمیں یہ اندازہ بھلا کب ہوتا ہے ؟ کہ ہماری زبان سے نکلتے خنجر نما الفاظ دوسرے انسان کا سینہ چاک کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے یہ الفاظ ہی تو دوسروں کے زہن میں گہرا بھیانک تاثر چھوڑتے ہیں کہ وہ صدیوں اس رویے کو نہیں بھول پاتا ___” اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ وہ پرُ فریب شخص ہنس کر اسکی تذلیل و دھتکار سہنے والا اندر سے کیسے زخمی ہو جاتا تھا ___
” یقین جانو صالح مجھے صرف وقتی غصہ تھا نفرت نہیں تھی تم سے ____ اب ہماری شادی ہونے والی ہے اس لیے بھول جاؤ سب پرانی باتیں۔ تمھارے سب شکوے شکایات اپنی جگہ لیکن ہر چیز کا وقت مقرر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ نصیب سے پہلے اور وقت سے زیادہ نہیں ملتا۔ اس لیے میری زندگی میں اپنی اہمیت کےلیے مناسب وقت کا انتظار کرو۔ تم میرے لیے میرا سب سے پاک رشتہ ہو اور میرا اقرار محبت ، خوشی ، سکون، مسکراہٹیں شادی کے بعد سب تمھارے سنگ ہوگے صالح ___” اسے دیکھتے ہوئے وہ اسکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے اسے اپنی وفا کا راز بتا رہی تھی۔ جو نظریں موڑے سنجیدہ مگر چمکتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کھانے سے ہاتھ تو وہ پہلے ہی روک چکا تھا۔ نورِ حرم جو روانی میں بول رہی تھی اسکے خاموش لب مگر بولتی نگاہوں کے تقاضے کی تاب نہ لاتے ہوئے ۔ پانی کا گلاس لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ صالح خاموش یک ٹک اسے دیکھ کر وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا ___
آگے بڑھتے خاموشی سے اسے اپنے ساتھ لگالیا وہ اس وقت جذبوں کے پیکر کا اصل مفہوم لگی تھی۔ وہ پہلی دفعہ پرتکلف سا ہوتے اسے اپنے ساتھ لگائے کھڑا تھا۔ نورِ حرم بھی آج خلاف معمول خاموش تھی۔ کیوئی ہلچل نہیں مچا رہی تھی کیونکہ اسکا مضبوط پرُحدت حصار ہی ایسا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی کے چند قطرے تیر گئے جنھیں وہ کمالِ مہارت سے چھپاگئی ___
” اعتبار محبت کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے نور جوکہ تمھیں مجھ پہ ہمیشہ نہیں تھا __” اسکے ماتھے پہ پھونک مارتے وہ مخاطب تھا اس سے___
” چائے پینی ہے کہ نہیں ___؟ آنکھیں نکالتے وہ پہلے والی نورِ حرم بن گئی ” قہقہ لگاتے وہ اثبات میں سر ہلاتا اسکی پشت سے ہاتھ ہٹاگیا __
” تو پھر مجھے چھوڑو ___” تقریباً گھورتے ہوئے جیسے لڑنے کےلیے تیار کھڑی تھی __
” پر مسسز پکڑا تو تم نے مجھے ہے اصولاً کہنا تو مجھے چاہیے تھا ___؟؟؟ حیرت سے اسے متفسر ہوا ہنسی لبوں میں چھپائی ہوئی تھی۔ اسکی اتنا کہنے کی دیر تھی نورِ حرم فٹ سے ہاتھ اسکی پشت سے ہٹاتی۔ خفگان بھرے انداز میں زور سے مکہ اسکے کندھے پہ مارتی دور کھڑی ہوگئی گال دہک سے گئے ___
” جادوگر ہو تم باتوں میں لگاکر ہوش بھلا دیتے ہو__” ساس پین چولہے پہ چڑھاتی دل کی بھڑاس نکالتی۔ اپنی غصیلی طبیعت کے سبب اور کچھ اسکے لبوں پہ بکھری معنی خیز مسکراہٹ کو دیکھتی گبھراہٹ میں سچ بول گئی __
” ہامون جادوگر ___ صرف ہوش نہیں دوسرے کو اپنا آپ بھلا دیتا ہوں تم تو میری بیوی ہو تم سے چالاکی نہیں بلکہ ہنسی مذاق کرنے کا دل کرتا ہے ___” کاونٹر کے ساتھ کھڑا ہوتا بازؤں ٹکائے اپنی پرُ افروز طبیعت کے سبب اس سے محو گفتگو تھا___
” چائے پینی ہے تو خاموشی سے بیٹھو نہیں تو ساری خود پیئوں گی ایک گھونٹ نہیں ملے گی۔ وہ رات کو چائے کبھی کبھار پیتی تھی کیونکہ بعد میں نیند نہیں آتی تھی۔ اب تو صرف اسے دھمکی دی جو اسکی گفتگو سے نہیں بلکہ آنکھوں سے چڑ رہی تھی __”
اسکے بعد وہ ہنستا ہوا خاموش ہو گیا مگر اسے دیکھنا نہ چھوڑا نورِ حرم وقت دیکھتی چائے اسے تھما گئی تھی
” تم نہیں پیو گی __” اس کی آنکھوں میں تھکن دیکھتے حیرت سے پوچھا جسے شاید نیند آ رہی تھی ___
” نہیں مجھے بہت سخت نیند آ رہی ہے۔ چائے پی لی تو پھر ساری رات بے چین رہوں گی ___ اور تمھاری چائے تھرمس میں دو ڈھائی کپ مزید ڈال دی ہے۔ گھر لے جانا اور تھرمس واپس کردینا صبح__ اماں تو رات کو دیر سے ہی آئیں گی __” وہ تفیصلی ہدایت کرتی برتن سھنبالنے لگی __
” صرف دو ڈھائی کپ ___؟؟ بہت مایوس کیا ہے تم نے مجھے بیگم ایسا کوئی کرتا ہے ایک گھنٹے کے بدلے میں صرف ڈھائی کپ چائے __؟؟؟ وہ گھر مجھے ناپید لگتا ہے جہاں لوگ چائے کنجوسی سے پیتے ہیں۔ جس شام گھر میں چائے نہ بنی ہو میں پھر اس شام گھر نہیں رہتا__” افسوس سے نفی میں سر ہلائے وہ اُسکا دماغ ہی تو گھما کر رکھ گیا ___
” یہ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو نہ اللّٰہ کی قسم بالکل بھی گریز نہیں کروں گی ہسپتال پہنچانے میں ___ مجھے بس اتنا بتا دو کہ شادی کے بعد تمھارے پُڑی کا نشہ چھڑاؤں یا چائے کا ___؟؟ ” ایک ہاتھ کمر پہ ٹکائے اور دوسرے میں ساس پین اٹھائے وہ اسے آنے والے حالات سے خبردار کرنے کے ساتھ دوسرے سوالات کھول کر بیٹھ گئی__
” ایسا کرو ڈھابہ کھول لو چائے کا ____؟؟ پر جس طرح تمھارے لچھن ہیں وہ بھی ٹھپ ہوجائے گا کچھ دیر بعد خصوصی مشورے سے نوازا جو چائے کی چسکیاں لے رہا تھا ___”
” میں سونے جا رہی ہوں شبِ بخیر___” وہ چیزیں سمیٹتے یہ کہہ کر جانے لگی___”
” پر ابھی تو ساڑھے آٹھ بجے ہیں اتنی جلدی کیا ہے ___” حیرت سے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو دیکھتے اس سے پوچھا ___”
” میں جلدی سونے کی عادی ہوں تم تو الوؤں کی طرح ہر شجر پہ اپنا نشیمن ڈھونڈ لیتے ہو یا پھر گلی کے ہر کونے پہ بستر لگاکر بیٹھ جاتے ہو پر مجھے اپنے بستر کے علاوہ کہیں نیند نہیں آتی اور تاخیر ہوجائے تو پھر نیند بھی نہیں آتی __” سر پہ ڈوپٹہ ٹھیک کرتے کچن سے نکل گئی تھی جبکہ وہ اسکی پشت کو دیکھتا وہی بیٹھ گیا___
❤❤❤❤❤❤
نورِ حرم جو گہری نیند سوئی ہوئی تھی آنکھ کھلی وقت دیکھا تو گھڑی سوا بارہ بجا رہی تھی __
” اماں ابھی تک نہیں آئیں ___” اماں کا سوچتے جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ عجیب سی بدسکونی سی رگ رگ میں پھیل گئی۔ اماں اسطرح اسے کبھی لاپرواہ نہیں رہیں پھر آج کیوں ___؟؟ گھر میں سناٹا سا اترا ہوا تھا۔ پہلے یہ خاموشی کبھی محسوس ہی نہیں ہوئی اور آج جیسے ایک انجانا سا خوف کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بیٹھے رہنے کے بعد ڈوپٹہ اپنے گرد پھیلاتی ہلکے سے دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ باہر نکلی تو حیرت کی انتہا ہی نہ رہی صالح اس کے کمرے کے سامنے باہر رکھے گئے پلنگ پہ نیم دراز شاید سو رہا تھا۔ صالح کی پشت صرف اسے دکھائی دی اس پہ نگاہ پڑتے ہی وہ خوف پل میں کہیں زائل ہوگیا۔ سکون کا ایک احساس اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوا۔ تنہائی کا ڈر جیسے اسکے ہونے سے بھاپ بن کر کہیں اڑگیا اسے تو یہی تھا کہ وہ گھر چلاگیا ہوگا۔ ہمیشہ کی طرح شکنوں سے آلودہ سفید بے ترتیب لباس میں ملبوس وہ پرُشکستہ سا شخص اتنی دھتکار سہہ کر بھی کیسے سکون سے رہ لیتا تھا۔ سرد موسم کی ٹھنڈک اور خنک تک کا احساس تک اسے نہیں ہو رہا تھا۔ اسے تاسف نے گھیرلیا اس لیے کمرے سے کمفرٹ لاتے اس پہ ہلکے سے پھیلا یا۔ وہ آنکھوں سے ہاتھ ہٹاتا چہرہ ترچھا کیے اسے دیکھنے لگا۔ نگاہوں میں بے یقینی امڈ آئی موبائل آف کیے وہ اٹھ بیٹھا
” مجھے لگا تھا تم سورہے ہو ___” وہ اب دور کھڑے کہہ رہی تھی
” نہیں آج مجھے بھی اپنے نشیمن کے بغیر نیند نہیں آ رہی جو مزہ شیدے کے ہوٹل کے بینچ پہ سونے کا آتا ہے وہ کہیں نہیں ہے __
ویسے اتنا خیال __؟؟؟ کمفرٹ کی طرف اشارہ کرتے بڑی معنی خیزی سے پوچھا __
” میں نہیں کرتی تم زبردستی کرواتے ہو__ اب ظاہری سی بات ہے یہاں میری تنہائی کے خیال سے رکے ہو خیال کرنا تو بنتا ہے نا ___” یہ کہتے کچن سے پانی کی بوتل اور کرسی اٹھا کر لے آئی۔ صالح اسکی چھوٹی چھوٹی احتیاط کو دیکھ رہا تھا جو فاصلے رکھنے میں ماہر تھی۔ جسے یہ فرق نہیں پڑتا اگلا کیا سمجھتا ہے۔ وہ ظالم تھی یا محتاط رہتی تھی وہ فیصلہ نہیں کرپایا ___
” ویسے بندہ کچھ عقل پہ ہاتھ ہی مارلیتا ہے مجھے بتادیتے میں ہی کوئی رضائی وغیرہ دے دیتی لیکن نہ جی یہاں ہیرو کون بنے ___؟؟؟ وہ بڑی تپی ہوئی تھی اور مقابل ڈھیٹوں کی طرح ہنسنے لگا __
” ہاں تمھیں بتا دیتا تو تم مجھے یہاں رکنے دیتی ___” وہ یہ بات کرتے اسے لاجواب کرگیا یقیناً وہ ایسا ہی کرتی ___
” میں جا رہا ہوں کچھ کام ہے مجھے ___” تم سوجاؤ علیزے کہہ رہی تھی کہ سب کچھ دیر تک نکل رہے ہیں ___” ترکی بہ ترکی کہتے لباس کی سلوٹوں کو ٹھیک کرتے اٹھتا اسکے قریب آتا تھوڑا سا جھکتے اس کی آنکھوں کو چھوتا ہوا بغیر کچھ کہے نکل گیا۔ وہ جو اسکی کارکردگیوں کو دیکھ رہی تھی حیرت سے اسے دیکھا کہ کیسے ایکدم سنجیدہ ہوگیا تھا __
آنکھوں پہ اسکا لمس فراموش کرنے کے قابل ہرگز نہ تھا جو خامشی بن کر اسے بہت کچھ سمجھا کر چلا گیا۔ یخ سردی کو محسوس کرتے کرسی سے اٹھتے پلنگ پہ بیٹھی اماں کا انتظار کرتی صالح کو سوچے جا رہی تھی کہ کیسے وہ اس سردی میں بیٹھا رہا۔ وہ اسی کے سوچو کے سفر میں گامزن تھی جب نگاہ چھت پہ ٹہلتے ہیولے پر پڑی۔ یقیناً صالح ہی تھا۔ اب تک تو اسے ضروری کام تھا اور اب اپنی چھت پہ ایسے مٹر گشت کر رہا تھا جیسے ساری وہیں پہ پڑاؤ کا ارادہ طے کیے ہوئے تھااندھیرہ ہونے کے باعث ہیولہ سا دکھائی دے رہا تھا وہ تھوڑی تھوڑی بعد اسے دیکھتی رہی دروازے پہ دستک ہونے پہ اسکا ہیولہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا دروازہ کھولنے کی غرض سے باہر نکلی تو اندھیرے میں گم ہونے سے پہلے صالح کا عکس اسکی آنکھوں کی روشنی بن گیا جاتے جاتے وہ اعتبار کی کنجیاں اسے تھماکے خود انجان راستوں کا ہمراہی بن گیا __
بعض لوگ اندھیروں میں بھی ہمارے گرد روشنیوں کی مانند چمکتے ہیں جن کی چمک کی قیمت کا اندازہ ہم صحیح وقت پہ نہیں کرتے کسی نے صیح کہا ہے رزق ہو یا محبت قدر نہ کرو تو اللّہ چھین لیتا ہے جدائیاں مقدروں میں لکھ دی جاتی ہیں جس کے ناسور روح پہ بڑا گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں جو جان نکلنے تک ساتھ نہیں چھوڑتے۔
❤❤❤❤
شہنائیوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دی جاسکتی تھی کیونکہ آج ماسٹر صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔ گلی میں رونق کا سماں تھا
افرا تفری ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور جن موصوف کی شادی تھی وہ آج بھی دیر سے آئے تھے مہندی میں ڈھولک کی تھاپ کی آواز فضا میں بجتی پلٹ کے واپس آتی ___
زارا بیگم نورِ حرم پہ صدقے واری جا رہیں تھی سبز اور پیلے امتزاج کے روایتی لباس پہنے وہ مخلتف روپ بکھیر رہی تھی۔ مہندی کا فنکشن اکٹھا رکھا گیا اس وقت سب سے پُرجوش علیزے لگ رہی تھی۔ جو مانی کے کندھوں کے ساتھ کندھے مار کر اسے چھیڑے جا رہی تھی ___
علیزے کی سرگوشی سنتا مسکرا کے نورِ حرم کے سنگ بیٹھ گیا۔ نورِ حرم اسکی خیرہ سر کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے شرما کے نظریں جھکا گئی ___
” کیا اپنے چاند کو دیکھنے کےلیے آج اسکے گھر آسکتا ہوں __” اپنی دانست میں اسکی جانب سرگوشی کی جو مقابل کی پیشانی پہ شکنیں لاگئی
” ہرگز نہیں __” بغیر لوگوں کی پرواہ کیے بغیر اس نے آنکھیں دکھاتے جواب دیا __
” بس یہ آخری دفعہ ___” ڈھیٹوں کی طرح مسکراتے اس نے ہار نہیں مانی ___
” بالکل بھی نہیں ___” کل دیکھتے رہنا جی بھر کے کچھ نہیں کہوں گی __” دوٹوک انداز میں کہتے وہ انجانے میں قریب ہوتی اسے دیکھے گئی۔ جو آج بھی سفید سوٹ میں ملبوس تھا فرق صرف اتنا تھا اوپر سیاہ واسکٹ زیب تن کیے ہوئی تھی۔ وہ اسے سفید رنگ کا راز پوچھنا چاہتی تھی۔ جو شاید اسکا پسندیدہ تھا ویسے سفید رنگ میں وہ جچتا بھی بہت تھا __
کل بھی کبھی آئی ہے ___؟ ویسے کل کون دیکھتا ہے جو بھی انتظار کرنا __” اس دفعہ لہجے میں کچھ آہستہ سا کہا جو نورِ حرم کو بمشکل سنائی دیا __ پھر رسم تک ہی وہ اسکے پاس بیٹھا رہا اس کے بعد پورے فنکشن میں نظر نہیں آیا۔ نا جانے کیوں دل مضطرب ہوا کہ کیوں وہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ رات دیر تک ہلہ گلہ جاری رہا۔ فنکشن ختم ہوگیا تھا صبح کا سورج کیسے طلوع ہونا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا___
❤❤❤❤❤❤❤
دونوں گھروں میں ہر طرف گہماگہمی کا سماں تھا ماسٹر صاحب کے مانی سے لاکھ اختلافات سہی غصہ اپنی جگہ مگر اسکی شادی کی خوشی مسرت کے اس موقع پہ گھر پہ بہت خرچہ کروا کے سارا گھر سجایا ہوا تھا۔ ان کا بڑا بیٹا مصروفیت کے باعث آج بھی نہیں آیا تھا صبح پورے گھر میں افراتفری کا عالم تھا۔ اماں ناشتے کا کہنے صالح کے کمرے کی طرف آئیں وہ جو تیزی سے خود باہر آ رہا تھا اماں سے ٹکراگیا __” اماں نے عجلت میں دیکھتے اسے ٹوکا ___
“اوہ میرا باؤلا پتر ___ ” اتنی بھی کیا جلدی کہاں جا رہا ہے ___؟؟ اماں کی بات پہ چونکتے ہوا رکا پھررکتے زارا بیگم کو ساتھ لگاتے پیشانی چومی پھر جھک کر پاؤں پہ ہاتھ لگاتے دل پہ رکھا اسکی چمکتی آنکھیں بہت کچھ بتا رہی تھی وہ آج بہت خوش ہے __
” دعا کیجیے گا اماں میں کچھ دیر تک آتا ہوں ___”اماں کو اسکے چہرے پہ تفکر صاف دکھائی دے رہا تھا پر وہ نکل گیا__
یہ کہتے وہ تیزی سے باہر نکلا بیٹھک کے پاس سے گزرا تو ابا تسبیح اٹھائے اپنے دوست سے باتوں میں مصروف تھے۔ اسے دیکھتے ٹھہر سے گئے آگے بڑھتے گرم جوشی سے ابا کو گلے لگایا تھاجب ابا کے پاؤں پہ ہاتھ لگایا دل پہلی دفعہ دھڑکا تھا چھٹی حس جیسے کچھ خبردار کررہی تھی مگر پھر بھی سخت دل بنے رہے __” اس سے پہلے ابا اس سے کچھ وضاحت پوچھتے مگر وہ چھلاوے کی طرح ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا __
” مانی کدھر ___؟؟؟ علیزے نے پیچھے سے ہانک لگائی لہجے میں حیرت تھی۔ وہ جو دروازے سے نکل رہا تھا ہاتھ بلند کرتے ہلاتے ہوئے باہر نکل گیا تھا ___
تین چار گھنٹوں سے وقت اوپر بیت گیا مگر ابا جس کے انتظار میں تھے وہ نہیں آیا ___کال پہ کال کرتے رہے نمبر بند تھا۔ وقت مزید گزرتا جا رہا تھا اور ابا کی پریشانی کا عالم بھی بڑھتا رہا۔ مہمان گھر میں اکٹھے تھے۔ صائمہ بیگم بھی بارات کا پوچھ چکی تھیں مگر انکی طرف ست مکمل خاموشی تھی۔ تین بج چکے تھے۔ صالح کا نام و نشاں تک نہ تھا زارا بیگم نے جب معاملے کو بڑھتا دیکھا تو انھیں کونے پہ لے جاتیں تجویز دینے لگی کہ نکاح تو ہوچکا ہے رخصتی کرنا عیب تو نہیں ہے۔ ہم نورِ حرم کو رخصت کر لیتے ہیں بد نامی سے تو بچ جائیں گے اور شاید صالح بھی تب تک آجائے __” ان کی یہ بات ماسٹر صاحب کو طیش دلا گئی __
” یہ تجویزیں مجھے دینے کی بجائے اپنے لاڈلے کو دیتی تو زیادہ اچھا تھا آج یہ معاملات خراب نہ ہوتے۔ دولہے کے بغیر کس نے شادی کی ہے مجھے صرف یہ بتاؤ لوگ کیا کہیں گے اور صائمہ بھابی وہ ___” ان کو میں کیا جواب دوں گا کہ وہ بھگوڑا عین بارات کے موقع پہ بھاگ گیا ___
” پھر بھی آپ بات کریں تو سہی ___” انھوں نے ان کے پاس آتے ٹھوس انداز میں کہا تو ماسٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ صائمہ بیگم کو معاملے سے آگاہ کیا جو یہ سنتے ہتھے سے اکھڑ گئی۔ صاف کہہ دیا کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ غلط بیانی نہیں کروں گی۔ لوگ جو کہتے ہیں کہنے دیں ___” بھائی صاحب کل اگر صائم آپکی بیٹی کے ساتھ یہ سب کرے۔ بارات والے دن اتنا ذلیل کرے تو آپ اپنی بیٹی کی رخصتی کردیں گے نکاح تو ویسے بھی ہوچکا ہے ___” ان کی اس کڑوی مگر تلخ حقیقت پہ ماسٹر صاحب کا سر جھک گیا وہ بنا کچھ کہے خاموشی سے گھر آگئے ___
نورِ حرم جو عروسی لباس میں ملبوس تھی جب علیزے نے اسے پیغام دیا حیرت تو پہلے تھی کہ اتنی دیر ہوگئی اور بارات آئی ہی نہیں پوری بات کا اور پھر بے یقین ہوگئی کیونکہ اسکی آنکھوں میں اپنی محبت کے دیپ خود جو جلے دیکھے تھے آج ہی تو اپنے نصیب پہ ہی نازاں ہوئی تھی اور آج یہ سب ___؟؟؟
ابا چاہ رہے ہیں کہ ہم تمھیں گھر لے جائیں۔ یقین مانو نور حرم وہ بہت پریشان ہیں وہ کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہے۔ ہمیں ہرگز اندازہ نہیں مانی عین بارات کے موقع پہ یہ سب کرے گا۔ پلیز تم ابا کی بات ان کی عزت رکھ لو۔ ہم کہہ دیں گے کہ مانی کو کوئی کام پڑگیا وہ نہیں آسکتا۔ تائی امی تو بات سننے کی رضا مند نہیں ہیں پلیز تم مان جاؤ____” اس کی بات سن کر ایک درد بھری مسکراہٹ احاطہ کیے وہ خاموش سنگی مجسمے کی طرح بیٹھی تھی جسکے احساس و جذبات جیسے یکدم کہیں سوگئے۔ آنکھیں جو پتھرائی ہوئی اپنی ہتھیلی کے لکھے گئے نام پہ گئیں۔ جس پہ کل شب ہی تو صالح کنندہ کیا تھا جو اسکی روح کا امین تھا __” اسکے جنجھوڑنے پہ وہ ہوش میں آئی ___
” نہیں علیزے جب تک وہ خود نہیں آئے گا مجھے لینے میں نہیں جاؤں گی چاہے صدیاں گزر جائیں میں روز قیامت تک اسکا انتظار کرلوں گی ___” میں اپنی وفا کی قسم نبھاؤں گی کیوں یہ عہد میں نے دل سے اسے سونپا تھا اچھا ہے برا ہے مگر اب میرا ہے ___” اس نے آج جو بھی کیا میں نہیں جانتی مگر مجھے اس میں اپنا عکس نظر آتا ہے اور تمھیں ڈر ہے کہ میرے انکار کی وجہ سے رشتوں میں دراڑ پڑ جائے گی تو یہ سوچ ذہن سے نکال دو اور کل تمھاری شادی ہے۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں شرکت کروں اور اماں کی فکر مت کرو انھیں سمجھانا میرا کام ہے ___” علیزے اسکی بات سنتی بے یقین ہوئی تھی۔ نورِ حرم کی آنکھیں اسکے اطمینان بھرے لہجے کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ نور حرم کی شخصیت کبھی اتنی کھوکھلی نہیں تھی جتنی وہ آج نظر آرہی تھیں۔ آج ہی تو روپ ٹوٹ کے آیا تھا اُس کے پاس بیٹھنا اس کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے برابر تھا __
” مانی بہت بد نصیب ہے جو تم جیسے ہیرے کی قدر نہ کرسکا وہ بہت پچھتائے گا ابا صحیح کہتے ہیں اس نے جان بوجھ کر کیا ___” آنکھوں سے آنسؤں پونچھتے وہ دبے قدموں نکل آئی تھی اور نورِ حرم کا ظرف اسکے دروازے کے باہر قدم سے ٹوٹ گیا آنکھوں سے آنسؤں سجے سنورے روپ کو متاثر کرگئے ___”
❤❤❤❤❤❤
مہمان چہ میگوئیاں کرتے رخصت ہوگئے صبح تک جس گھر میں شادی کا سماں تھا اس گھر کو لوگوں کی باتیں ویران کر گئی رونقوں کو جیسے کوئی لے اڑا تھا ___”
دیکھ لیے نواب زادے کے کرتوت ____ابھی تک نہیں آیا میں نے کہا تھا کہ یہ کوئی چن چڑھائے گا۔ بتاؤ میں کیا منہ دیکھاؤں لوگوں کو کل میری بیٹی کی بارات ہے اور آج وہ کسی کی بیٹی کے ساتھ یہ کر رہا ہے ___؟؟؟ جانتی ہو وہ بدلہ لینا چاہتا تھا اور میرا نام مٹی میں رولنے کےلیے آج سے بہتر موقعہ نہیں تھا اُسکے پاس __؟
وہ بے غیرت مجھے اور میری بھتیجی کو ذلیل کرنا چاہتا تھا کرلیا ہے بتا دینا اسے ___ تمھاری حمایتوں کا نیتجہ ہے یہ سب__” میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ اس سے طلاق دلوا کر زعفران کے ساتھ شادی کروا دیں گے لیکن تمھیں ہی نواب زادے سے لاڈ کا بخار چڑھا ہوا تھا ___” زعفران نے دس لاکھ مجھے بجھوائے تھے کہ میں کچھ خود سے بندوبست کرکے دونوں کی شادی کر دوں اپنی خون پسینے کی کمائی وہ ہم پہ لٹا رہا ہے چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے وہ گھر نہیں آتا __ ” کہ کہیں نوکری سے ہاتھ نہ دھونے پڑے اور یہ باپ کو چکمہ دے کر بدلے لے رہا ہے __” ان کا قہر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہا تھا وہ اپنے لفظوں کے ذریعے اماں پہ زہر نکال رہے تھے___”
آپ بہت غلط سوچ رہے ہیں ماسٹر صاحب ___خدانخواستہ اسکے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہو __”
وہ ماں تھیں اسکی طرفداری کرتے ذرا نہ سوچا کہ شوہر کیا کہے گا ___
” ہاں آج ہی اسکے ساتھ حادثہ ہونا تھا پہلے نہیں ہوا کبھی ___” وہ کہتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھ گئی ڈھلتی شام کے بعد گہری مغرب کا یہ منظر گھر کے آنگن میں بہت سی اُداسیاں چھوڑ گیا __
وہ بیچاری سن رہیں تھی اسکے چمکتے چہرے کا سوچتے دل جیسے ماننے پہ راضی ہی نہیں تھا۔کل رات ابا کےلیے خوشیوں کی رات تھی اور آج جیسے رسوائیوں کی شہنائیاں بج رہی تھیں۔ ساری رات وہ جیسے صالح کو کوستے رہے تھے __
❤❤❤❤❤❤❤❤
آج کا سورج رخصت ہونے والی رونق کا جیسے خط دینے آیا تھا۔ کل کے سب ہنگامے سرد پڑے ہوئے تھے۔ علیزے کی بارات تھی لیکن عجیب کھینچے کھینچے سے تناؤ کی کیفیت تھی
سب ایک دوسرے سے نظریں چراتے پھر رہے تھے کیونکہ وجہ ایک ہی تھی اور وہ مانی کا گھر سے غائب ہونا تھا
انکا دل پریشان تھا وہ صبح صبح صائمہ تائی اور نورِ حرم کے پاس گئے معافیاں ، گزارشیں کچھ کام کرگئیں۔ نورِ حرم کا ظرف کمال کا تھا جو اسے اتنے دکھ کے بعد بھی یہاں لے آیا عورتیں اسے دیکھ کر افسوس نامہ لے کے پاس بیٹھ گئی ___
کل کے نسبت آج قدرے کم لوگ تھے کیونکہ ترتیب سے شادی کا سیٹ اپ تھا علیزے کی رخصتی کا ایک دن چھوڑ کر صالح کے ولیمے کا فنکشن رکھا گیا تھا۔ جس وجہ سے کثیر تعداد میں لوگ مدعو تھے رخصتی کی تقریب گھر تھی اسلیے گھر مین بہت ذیادہ شوروغل تھا لوگ سوئی رکھنےکی جگہ تک نہ تھی۔ کھانے کا بندوبست مردو عورت کےلیے علحیدہ علحیدہ ٹینٹ کا بندوبست کیاگیا۔ بارات آچکی تھی ماسٹر صاحب بمشکل چہرے کے تناؤ کو کم کیے علیزے کے سسرالیوں کے ساتھ مصروف تھے۔ دروازے پہ بیل بجی دروازہ کُھلا ہونے کے باوجود بھی دستک میں تہذیب کا پہلو نمایاں تھا ماسٹر صاحب کو کسی بچے نے دروازے پہ کسی کی آمد کا بتایا تو دروازے کی طرف بڑھتے انھیں حیرت ہوئی کہ کون ہوسکتا ہے کچھ دیر میں خدشات دور ہونے والے تھے۔ دروازے پہ دیکھا تو دو مرد حضرات پرُاثر سوٹڈ بوٹڈ شخصیت کے مالک نظر آ رہے تھے۔ چہرے پہ رعب ایک الگ داستاں چھوڑ رہا تھا سول کپڑوں میں ملبوس اپنی بارعب شخصیت کے سبب جیسے کسی تحقیقا”تی ادارے کے آفسر معلوم ہورہے تھے __”
السّلام علیکم ___” یہ عالم صاحب کا گھر ہے _؟ آگے ہاتھ بڑھاتے گرم جوشی سے مصافحہ کیا ماسٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا ___
” صالح ارمغان عالم کے متعلق کچھ ضروری بات ہوسکتی ہے ___” ابا چونک گئے اتنے مہذب انداز میں اسکا نام لیا گیا چونکنا فطرتی عمل تھا ماسٹر صاحب اثبات میں سر ہلاتے بیٹھک میں لے آئے۔ انھیں آئے بڑی عزت سے بٹھایا گیا __”گھر سے اندر کھلنے والا دروازہ نیم واہ کردیا گیا۔ ابا ان کی بات انکی طرف متوجہ ہوئے۔ خاطر تواضع کےلیے انھیں وقت نہ ملا کیونکہ وہ چہرے سے کچھ سنجیدہ طبیعت کے مالک لگ رہے تھے _” ابا کی طرف متوجہ ہوئے آج راز کھلنا نہیں ٹوٹنا تھا جیسے وہ بات کر رہے تھے ابا کے چہرے کا تناؤ کم ہوگیا ___
ماشا اللہ آپکا بیٹا بہت اچھا سلجھا ہوا ایمانتدار ذہین طبیعت کا مالک ، جس طرح انھوں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا بہت بے فکری اور نڈر مکمل راز دری کا چوغہ پہنے نشئیوں کے گروہ میں گُھستے بھیس بدل ان کا اعتماد جیت کر چھ بھاری گروہوں کو بازیاب کروایا ہے کئی کم عمر بچوں نشے کی لت بیماری سے بچانے کی تک ودود کوش کرتے خود اس گینگ میں گھس گیا بے خوف و خطر اس مشن میں حصہ لیتے انھوں نے پوری ٹیم کے ساتھ رازِ وفا کرتے کل رات بھی اپنے آخری وقت بھی شطرنج کا نقشہ کھینچتے دشمن کی تمام چا”لوں کو مات دی آخری مشن کے دوارن راز داری سے وفا کرتے شہادت کے رتبہ کے فائز ہوگیا۔ ہمیں اس ماں کے بہادر بیٹے پہ فخر ہے وہ اپنے اس عمل سے پوری ٹیم ، اس شعبے سے منسلک نوجوانوں کو بہادری کا سبق دے گیا __”
” بے شک آپ کا بہادر بیٹا صالح ارمغان عالم تخت نشینانِ خاک کا بھیس بدل کر یزیدوں کی صفت رکھنے والے تخت نشینوں کا تختہ الٹتا خود تختہ خاک ہوا اپنے اس عمل سے ثبوت دیا کہ بہادری کسے کہتے ہیں آپکے بیٹے نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کیا ___”
بات مکمل کرتے اٹھ کر سلیوٹ مارتے وہ ابا کے قریب آیا جن کے کانپتوں ہاتھوں سے چشمہ نیچے گرگیا ___
مانی ___صالح ___” وہ بڑبڑائے ایک ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں سماتا پانی بن کے گرتا سفید لباس میں تحلیل ہوگیا اسکا نام آج فخر کا باعث بنا تھا وہ پھر نظر نہیں آئے گا یہ سوچ ہی دل کو ریزہ ریزہ کرگئی
سخت ٹھٹھرتی سردی میں شیدے کے ہوٹل میں بکھرے سے حلیے میں سونا یاد آیا گرمیوں کی تپتی رفیق چوان کے اڈے میں موالیوں کے ساتھ بیٹھ کہ سگریٹ پینا اسکے ہاتھوں پہ لگی ّمیلا کرتا، پائینچوں کا تخنوں تک کا فولڈ کرنا ، سب مناظرات نگاہوں میں گھوم گئے گلی میں لفنگے دوستوں کے ساتھ اونچے قہقے اُنکی سماعت بن گئے _____”
؎ آج کے بعد عشرتِ مجلسِ شامِ غم کہاں
دل نہ لگے گا تیرے بعد پر تیرے بعد ہم کہاں
اپنے اس بیٹے کو گلیوں میں پھرنے والے آوارہ شخص سے تشبیہ دی اسے عزتوں کا لیٹرا کہا آنکھوں میں بغاوت دکھاتا سرکش گھوڑا,باپ کے سامنے ڈرتے ہوئے منمائٹ ، بیوی کےلیے لڑتا ہوا، ماں کا بگڑا ہوا لاڈلا سپوت لاکھوں بہنوں کے محافظوں کی حفاظت کرتا خود الوداع ہوگیا
جسے اپنی اولاد نہیں بلکہ قسمت کا سیاہ دھبہ سمجھتے رہے وہ ظلمت کی اندھیر کوٹھڑیوں میں درخشاں ستارہ بن کہ چمکا تھا جسے کھوٹا سکہ کہتے رہے وہ جرا”ئم کی دنیا میں آگ سے کھیلنے والا بےخطر کھلاڑی بن کہ کندن ہوتا اپنی قمیت کا اندازہ بتاگیا ___”
یہ اُن کی کچھ امانت ___” سامنے کھڑے آفسر کی بات سنتے اپنے واسکٹ سے خاکی لفافہ نکالتے ہلکا سا دباؤ ان کے کندھوں پہ ڈالا جو بُت بن کے کھڑے تھے ایک دم سے چونک گئے آگے بڑھے __
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial