راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 22

اولاد جوانی کی محنت کے بدلے میں انعام کے طور پہ بڑھاپے کا صلہ ہوتی ہے عالم صاحب ہم جانتے ہیں آپکا ہونہار سپوت آپ کا بازو تھا یہ تکلیف کوئی کم نہیں کرسکتا رہتی حیات کا دکھ وہ آپ کے اندر چھوڑ کہ آپکو توڑ گیا ہر روز لاکھوں آتے ہیں اور لاکھوں چلے جاتے ہیں کوئی حادثے میں مر رہا ہے کوئی زندگی سے تنگ حرام موت کو گلے لگا رہا ہے تو کوئی موذی بیماری میں لاحق ہوتا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں بہت کم لوگ اپنے مقصد کو پاتے ہیں یاد وہیے رہتے ہیں جو کچھ خاص کر جاتے ہیں عالم صاحب___”
وہ خود کو نہیں چنتے بلکہ سیدھے راستے کو چنتے ہیں جس کی منزل دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں رب انھیں جنت کے طور پہ عطا کرتا ہے موت بر حق ہے اور وہ حق کے راستے میں مارا گیا اسکا نام آپ کےلیے فخر کا باعث بنا ہے آپ کا تو سر بلند ہونا چاہیے کہ آپ کا بیٹا وطن کےلیے قربان ہوا ___” شہید کہنا آسان نہیں ہوتا شہید کا مطلب تو معلوم ہے نہ آپکو کہ وہ خدا کی راہ میں مارا گیا __
عالم صاحب کے چہرے پہ رنج و الم کی گہری لہر دیکھ کہ وہ شخص ان کے پاس آئے ان کے کندھے پہ تھپکی دیتے پیچھے ہوتا اپنا فرض نبھا رہا تھا اور عالم صاحب کے چہرے پہ اذیت بھری مسکراہٹ رقم تھی مقابل کھڑا شخص گہری سانس بھر کہ رہ گیا اسے کیا معلوم تھا کہ جھکے کندھے لیے کھڑا یہ باپ بیٹے کےلیے نہیں بلکہ اپنی زیادتیوں پہ پریشان تھا__
ص___صالح کا جسدِ خاکی کہاں ہے مم__میں دیکھنا چاہتا ہوں اسے ____” پوری زندگی میں زبان پہلی دفعہ لڑکھراہٹ کا شکار ہوئی جیسے کہنا کچھ اور چاہتے ہوں مگر زبان سے لفظوں کی ادائیگی کچھ اور ہو رہی تھی وہ پہلی دفعہ اس خفیف صورتحال کا سامنا کر رہے تھے ___
بہت بہت معذرت ان کا چہرہ شناخت کے قابل نہیں ہے خطرناک مشن تھا جس بنا پہ ٹارگٹ خصوصا ان ہی کی شخصیت تھی ہاں اُن کی کچھ چیزیں اور جسدِ خاکی پوری عزت و شان سے اعزاز سے ہماری ٹیم لے کہ آئے گی __” ہماری ٹیم کے کچھ اصول و ضوابط پہ غورو فکر کریں گی کاغذی کاروائی کے مکمل ہوتے ہی آپ تک جسدِ خاکی پہنچایا گیا یہ تو ایک اطلاعی معلومات فراہم کرنی تھی آپکو ___” کل تک ہماری ٹیم پوری آپ کے ساتھ رابطے میں رہے گی بس صبرو تحمل سے کام لیں اپنی فیملی کا حوصلہ آپ ہیں عالم صاحب ٹوٹتا تو ہر کوئی ہے ٹوٹ کہ جڑے رہنے کا ہنر کسی کسی کے پاس ہے آپ کی ویران آنکھیں بتا رہیں ہیں کہ بیٹے کا بوجھ اٹھانے کےلیے پہاڑوں سے زیادہ حوصلہ چاہیے آپ کو صبر کرنا پڑے گا__” آپ سے کچھ ضروری بات ہوں گی ساتھ ساتھ __” اب ہمیں چلنا چاہیے اللہ آپ کا حامی و ناصر ہوں ___”
الوداعی کلمات کہتے ان سے مصحافہ کرتے بیٹھک کے بیرونی دروازے سے نکل گئے کانپتے ہاتھوں سے ہاتھ میں لیے خاکی رنگ کا لفافے میں سے ایک تہہ ہوا کاغذ نکال کہ پڑھنے لگے __”
السلام علیکم ابا ___
جب تک یہ خط آپ کو ملیں تب تک شاید میں نہ رہوں بہت کچھ کہنا چاہتا تھا کچھ باتیں کہنی تھی جو ضروری تھیں پر اپنی غفلتوں اور لاپراوئیوں کے سبب کچھ نہ کہہ سکا سمجھ نہیں آ رہی کیا کہوں قلم چلنے سے انکاری اور ذہن سوچنے سے مفلوج ہو رہا ہے لفظ پھوٹ کا شکار ہیں مانتا ہوں میں نے آپ کو بہت پریشان کی بہت بغاوت کی __”
میری وجہ سے لوگوں کی نگاہوں کا عتاب آپ نے جھیلا آپکی ساری زندگی کی محنت پہ پانی پھرگیا میں زعفران کے نقش و قدم پہ چلنے والا دوسرا زعفران نہ بن سکا ___بن بھی کیسے سکتا تھا کیونکہ میں مانی تھا اماں نے تو میرا نام صالح رکھا شاید اس نام کی کوئی خوبی اللہ کو پسند آگئی ایک دن اس نے میرا بھی نام صالحین کی فہرست میں لکھ دیا اس نے مجھے صبتغہ اللہ کا رنگ عطا کیا جس کےلیے میں اسکا بہت مشکور ہوں ___”
جو دنیا کی تمام رنگوں کی ظاہری خوبصورتی سے پاک باطن کا رنگ تھا اور اُس پاک ذات کا خاص کرم تھا مجھ پہ جس نے مجھے صبتغہ اللہ کا رنگ عطا کیا ___”
آپ کا مقصد اپنی اولاد کو اپنے پاؤں پہ کھڑا دیکھنے کا تھا باقی دو اولادیں آپ کا خواب بن گئی لیکن میں نہ بن سکا کچھ پیدائشی ڈھیٹ تھا کچھ آپ کی بے جا سختی نے مجھے باغی بنا دیا لیکن آپ کی سختی کا یہ فائدہ ہوا کہ میں زمانے کی آنکھوں کے رنگ پہچان گیا زمانہ آپ کے خلاف تھا ابو یہ بات میں نے دیکھی کیونکہ آپ منافق نہیں بلکہ شفاف و کھری شخصیت کے مالک تھے اس لیے لوگوں کی دشمنی آپ سے بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں وہ آپ کا بدلہ آپکی اولاد سے لینا چاہتے تھے باپ سے بیر اور بیٹے سے دوستی کی آڑ رکھ کہ وہ انتقام آپکی اولاد کو برائی کی ڈگر کی طرف لے کے لینا چاہتے تھے ہر وہ کام مجھ سے کروانے کی کوشش کی کہ جو آپ کی رسوائی کا باعث بنے میں زمانے کی ٹھوکروں میں رہ کہ بڑا ہوا اس لیے لوگوں کی عیاریاں مکاریاں جانچتا رہا بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی اپنے مقصد کےلیے کچھ کرنے سے قاصر رہا جنتا تھا آپ کی آنکھوں کی بے بسی ان کےلیے راحت کا باعث بنتی تھی یہ بات میرے لیے ناگوار تھی لیکن اپنے مقصد کےلیے آپ کو تکلیف پہ تکلیف دی آپ کے میرے متعلق مزید اختلافات بڑھتے گئے آپ جیسا دیکھنا چاہتے تھے وہ آپ دیکھ نہ سکے اور جیسا زمانہ مجھے بنانا چاہتے تھے وہ میں بن نہ سکا ___”
بہت کچھ بتانا چاہتا تھا آپکو پر انسان راز داں تو اپنے پیٹ کا بھی نہیں ہے یہ راز میرا مجھ تک تھا جس کو چاہنے کے باوجود بھی کسی کو بتا نہ سکا بتا دیتا تو یہ راز ، راز تھوڑی رہتا__” بتا دیتا تو میری زندگی کی سب سے بڑی بے وقوی ہوتی دل میں ٹھان لی تھی چاہے کچھ بھی ہو جائے وفا کا یہ راز نبھاؤں گا اس کےلیے مجھے بھیس بدل کہ یزیدوں کا یقین جیتنے کےلیے اپنے عزیزوں کا اعتماد بھی لوُٹنا پڑا وفا کا یہ راز مکمل کرنے کےلیے ریزہ ریزہ ہوگیا ابا میں آپ کو یقین دلانا چاہتا تھا ___”
بھیڑیوں کا اعتماد جتینے کےلیے بھیڑیے کی کھال پہننی پڑتی ہے جس جگہ شیر کے قدم کی آہٹ ہو جس جنگل میں شیر ہو تو اسکی ایک چنگھاڑ سے بھیڑیے رفو ہوجاتے ہیں اور اپنے مقصد کےلیے بھیڑیے کی کھال پہنی بھیڑیوں کے ہجوم میں ایک شیر کھڑا ہو تو ڈر سے ہجوم ہی ختم ہو جائے بھیڑیوں کے ہجموم میں کھڑا رہنے کےلیے بھیڑیوں بننا پڑتا ہے اور میں نے یہ سب کیا تاکہ ایک عہد نبھا سکوں ، ایک جنگ جیت سکوں ___” اور اس جیت کے چکر میں آپ کا اعتماد نہ جیت سکا اس راز کو وفا کرنے کےلیے جگہ جگہ پہ خود کو مضبوط رکھا مصائب کو جھیلا ہر جگہ خود سے جنگ لڑی یقین اعتماد ڈلونواں تب ہوا جب آپ نے مجھے بدکرار عزت کا لیٹرا کہا آپ کو ساری دنیا پہ یقین تھا بیٹے پہ نہیں تھا اس دن دل کیا کہ ضبط کہ سارے تالے توڑ دوں اور آپکے گلے لگ کہ بتا دوں کہ ابا جیسا نظر آتا ہوں ویسا ہوں نہیں اس دن دل مردہ ہوا تھا شاید اپنے کردار پہ داغ برداشت نہ کرسکا اس لیے __ یہ راز وفا کرنے کےلیے میرا دل تار تار ہوا لوگوں کی نگاہوں میں تمسخر ، آپ کی بے اعتباری بھی سہہ لی آپ کی مار سے فرق نہیں پڑا آپکی زبان کے الفاظ نشتر کی طرح چبھتے تھے ، جسم پہ زخم برداشت کرلیے ، روح خالی کرلی اپنی اس کے باوجود یہ راز وفا نہ ہوسکا پھر تو زیادتی ہے نہ میرے ساتھ __” طعنہ زنی ، مار گالم گلوچ مجھے نظر نہیں آیا مجھے صرف اپنا مقصد نظر آ رہا تھا جس کو کاملیت تک پہنچانا تھا شہد بھی ڈنگ کھائے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور یہ تو پھر وفا کا راز تھا زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں اور میں نے زندہ دلی سے جینے کی کوشش کی کہیں جگہ پہ ناکام ہوا تو کئی جگہ پہ کامیاب ___” آپ کہتے تھے نہ کہ توُ سمجھتا ہےکہ میں تیرا دشمن ہوں میں جانتا تھا آپ میرے دشمن نہیں ہیں باپ ہیں میرے پھر باپ کیسے دشمن ہوسکتا ہے مجھے یاد یے جب میں دس سال کا تھا میرے پاؤں میں کانچ چبھ گیا تھا اماں کی ایک کال کرنے کی دیر تھی آپ اپنا سارا کام چھوڑتے چھڑواتے بھاگتے ہوئے گھر آئے اس وقت میں نے دیکھا آپ کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے یعنی جس حال میں تھے اس حال میں مجھے بچانے آگئے میں نے اس وقت آپ کی وہ حالت دیکھی کہ مجھے اپنے پاؤں سے زیادہ درد دل میں ہوا __” دشمنی تو دور آپ سے نفرت نہیں کرسکا آپکی سختی کے خول کے پیچھے ایک ہی چہرہ دیکھ سکا اور وہ چہرہ صرف اور صرف محبت کا تھا فکر کا تھا پریشانی کا تھا __”
کوئی گلہ نہیں رکھ سکا آپ سے ماسوا ایک کہ __” بس ایک دفعہ اعتبار تو کرلیتے ایک دفعہ کہہ دیتے جو کچھ بھی ہوجائے میرا بیٹا بدکردار نہیں ہوسکتا مجھے معلوم تھا آپ برے نہیں تھے زمانہ برا تھا زندگی رہی تو اپنا راز وفا کرنے کے بعد ملوں گا آپ کہتے تھے کہ تم میرا بدلہ میری بھتیجی سے لے رہے ہو اسے ذلیل کرنا چاہتے ہو نہیں ابو میں اسے بدلہ کیسے لے سکتا تھا اسے کیسے ذلیل کرسکتا تھا آپکی بھتیجی آپکے بیٹے کے آنکھوں کا نور تھی ابو وہ نور دیدہ بصرِ چشم تھی میرے لیے __” آپکی بھتیجی نام کی نور نہیں تھی وہ نور کے سانچے میں ڈھلی سر تاپا نور تھی پھر آپکے بیٹے صالح کی آنکھوں کا نور کیسے نہ ہوتی __” میں جانتا ہوں آپ بہت غصہ ہوں گے علیزے نے مجھے غلط سمجھا ہوگا اور نورِ حرم اس کے سامنے میں اول روز سے کچھ نہیں تھا تائی امی نے بہت برا بھلا ہوگا اور رہ گئی میری ماں وہ فکر مند ہوگی پریشان ہوگی کہ ابھی تک گھر کیوں نہیں آیا ساری دنیا کےلیے غلط ہوسکتا ہوں لیکن اس کےلیے نہیں ___”
مجھ سے نفرت کی قطار میں سارے کھڑے ہوسکتے ہیں ابا لیکن محبت کی قطار شروع بھی ماں سے ہوتی ہے اور ختم بھی ماں پہ __” مجھے پورا یقین ہے کہ اس قطار میں زارا عالم اکیلی کھڑی ہوگی تنہائی کا ڈر نہیں تھا اسے __” نفرت کے ہجوم میں سب ہوں گے محبت کے ہجوم میں وہ اکیلی کھڑی رہی ہوگی ___”کیونکہ ساری دنیا پیٹھ پھیر سکتی ہے ایک ماں نہیں ___” بچپن میں زیادہ مارتی بھی وہ ہی تھی اور تھوڑی دیر بعد پکارتی بھی وہی تھی ساری دنیا کےلیے میں نشئی و بدکرادر تھا اور اس کےلیے غلافی آنکھوں والا شہزادہ تھا __
بہت کچھ کہنا تھا مگر وقت نہیں ہے مزید لکھنے کا ___ کچھ خواہش ادھوری رہیں گئیں تمنائیں لاحاصل دل میں رہ گئیں آج یہ لکھتےہوئے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ ادھوری خواہشوں کا ہی نام زندگی ہے ___کچھ خواہشوں کی تکمیل موت کے دہانے پر بھی کھڑے پوری نہیں ہوتیں __
نہ میں اماں کا فرمانبردار بیٹا ، نہ میں ابا کی آنکھوں کا خواب ، نہ بہن کا محافظ ، نہ بیوی کی پرچھائی بن سکا
بننا تو بہت کچھ چاہتا تھا پر کچھ بھی نہ بن سکا صرف آپکی تکلیف کی وجہ بنا رہا میرے بہت سے عیب جو آپکو ایذا پہنچاتے ریے جن لوگوں کو جنہم واصل کرنا چاہتا تھا ان کو کر دیا اور رہی بات میری سنگت کی تو وہ حقیقت نظر آنے والا محض نگاہوں کا سراب تھی سچ تو یہ ہے میرا کوئی یار بیلی نہ تھا نہ جیدا ، نہ بالی نہ محمود وہ بس مجھے میری منزل پہنچانے والی سیڑھی تھے ان کے ذریعے میں نے اپنا مقصد حاصل کیا جس کا مجھے کوئی دکھ نہیں ہے فورس کا حصہ اچانک سے بنا ہوسٹل میں کچھ ڈر”گز ایڈیکشن کے عادی ” لڑکوں اور اس میں ملوث پروفیسر تھے جن کی تحقیق کرتے ٹیم سے رجوع کیا اور چھ مہنیے کی محنت کے بعد ٹیم کے حصے میں چھوٹا سا فرد بن کہ شامل ہوگیا بس یہ ہی میری زندگی کا مقصد بن گیا ___” میرے ذات سے وابستہ لوگوں سے کہیے گا کہ وہ مجھے معاف کردیں ___” میری ماں ، بہن بیوی آپ کی ذمہ داری ہیں اپنا اور ان کا خیال رکھیے گا ___
؎ خط کے اس چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے _____”
اللہ حافظ آپکا بیٹا صالح
الفاظ پڑھ کہ ابا کی آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے آنکھیں دھندلی ہوئی تھی اس خط پڑھنے کے دوران کوئی بیس دفعہ عینک اتار کے آنسؤ صاف کیے گئے وقفے وقفے سے آنکھیں دھندلی ہوتی رہیں قمیض آنسوؤں سے تر ہوگئی نیلی روشنائی سے لکھے گئے لفظ پہ آنسؤں کے نشان تھے ان کی نگاہوں میں اپنی ذات معتبر کرتا ان کے اندر بہت سارے پچھتاؤں کی لہر چھوڑتا وہ چلا گیا وہ تھکے ماندے کمروں سے بیٹھک کا دروازہ کھولتے باہر نکل آئے ساری زندگی کا سرمایہ کوئی لے کہ جیسے رخصت ہوگئے __”
خواتین و بچوں کی شوروغل کی آوازیں ان کو متوجہ نہیں کرسکیں دل میں اتنا درد تھا ماضی کی ذیادتی مسقبل کےلیے سزا بن گئی تھیں __”
مانی کے ابا کہاں رہ گئے ہیں آپ کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی مگر آپ کو جو ذرا پرواہ ہے علیزے کی ساس کب سے رخصتی کا کہہ رہی ہے اور وہ کون لوگ تھے ___”
مانی کے ابا آپ رو کیوں رہے ہیں __ ان کے قریب پہنچتے وہ تشویش میں لاحق ہوئی چہرہ شکنیں سمیٹ لے آیا ___ان کے بازؤں پہ ہاتھ رکھتے جو باتیں کہنے آئی وہ ذہن سے نکل گئیں _پہلی دفعہ شوہر کی نم آنکھیں دیکھ نہ سکیں انھیں لگا بیٹی کی رخصتی کے غم میں آنکھیں نم ہیں ___”
ماسٹر صاحب پڑھے لکھے تہذیب یافتہ لوگ ہیں ہماری علیزے کا بہت خیال رکھیں گے آپ اسطرح روئیں گے تو وہ بھی پریشان ہوجائے گی صبر کریں __”
گلاب کے پھولوں کی کیاری کے پاس کھڑی وہ عورت ان کو تسلیاں دے رہی تھی جو نہیں جانتی تھا اسکا لاڈلا بیٹا انھیں کیا روگ لگا گیا ہے اور آج جیسے عالم صاحب اس عظیم عورت سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے بات بات پہ طعنہ دیتے کہ نہ جنتی نہ ڈھول بجتا ___” آنکھیں پھر سے نم ہوگئیں تھیں ___”
زارا تمھارا بیٹا تمھارے رکھے گئے نام کی لاج رکھ گیا ___” فقط زبان سے یہ ہی ادا ہوا __ہاتھ ابھی تک کپکپائٹ کا شکار تھے وہ بتانا چاہتے تھے پر یہ سب اتنا آساں تھی یہ گھڑی ان کےلیے بہت مشکل تھی __”
کیا کہہ رہے ہیں مانی کے ابا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ___” ان کے لہجے کی لرزاہٹ انھیں خوف میں مبتلا ہوگیا __”
زارا صالح شہید ہوگیا ___” میں نے اسے جس مقام پہ دیکھنے کی خواہش کی تھی وہ اس مقام سے ہوتا اگلے مقام پہ پہنچ گیا اور وہ مقام اوجِ کاملیت ہے میرا بیٹا وطن کےلیے جان کا نذارنہ پیش کر گیا ___آہستگی سے مختصر سے انداز میں وہ انھیں سب کچھ بتاتے چلے گیا __
ص__صالح ___” ایسا کک__کیسے ہوا کب ہوا وہ ایسے دور نہیں جاسکتا __” ان کے بازؤں سے ہاتھ ہٹاتی تڑپ کے دور ہوئیں جیسے دل پہ کسی نے خنجر چلا دیا ہو نفی میں سر ہلاتیں پیچھے ہوئے عورتیں اٹھ کھـڑی ہوئیں جیسے سارا معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہیں ہو __”
مم__میں کہتی تھیں کہ وہ غلط نہیں ہے سب میرے صالح کے دشمن تھے ___” سینے پہ ہاتھ رکھتے وہ پیچھے کو ہوتی جا رہیں تھیں صائمہ بیگم بھی ان کی اونچی آوازیں سنتی نورِ حرم کو ایک نظر دیکھا جو کل والے عروسی لباس میں بے رونق روپ لیے ہاتھوں پہ ہاتھ دھری یک بستہ بیٹھی تھی __”
میں نے کہا تھا کہ میرا صالح غلط نہیں ہوسکتا وہ کیسے غلط ہوسکتا ہے ___؟؟؟ دیکھو صالح کے ابا کہہ رہیں صالح مشن پہ شہید ہوگیا __ صائمہ بیگم کو دیکھتی اٹھ کھڑی بے چین سی وہ بار بار نفی میں سر ہلا رہیں تھیں صالح کے نام پہ نورِ حرم چونکی زارا بیگم کی آواز اس کے کانوں میں صور کی طرح پھونکی گئی ___
اس کے حواس جاتے رہے __وہ عورتوں کے ہجوم کو چیرتی بھاگتی ہوئی پہنچی کچھ دیر میں کل والی خاموشی ٹوٹ گئی __
❤❤❤❤❤
چاچو __چا__چاچی کیا کہہ رہیں ہیں صل__صالح کہاں گیا قدم بے اختیار پریشان کھڑے چاچو کی طرف بڑھی اس انا پرست لڑکی کو کسی کا ہوش رہا ___”
چاچو ___وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں اور چاچی کیوں رو رہی ہیں صالح ٹھیک تو ہے نا ___”
نور میری بچے صالح ___صالح ___” ان کی زبان سے الفاظ نکلنا ممکن ہو رہا تھا __
کیا صالح __” کیا ہوا چاچو آپ رو کیوں رہے ہیں __” اس نے ان کے بازؤں کو جنجھوڑا تپتے سورج کی شعاعیں جیسے یکدم ماند پڑھتی روٹھی روٹھی معلوم ہوئیں __”
انھوں نے جیب سے کاغذ نکال کہ اسکے ہاتھ میں تھمایا تو بے یقینی سے لیتے وہ پڑھنے لگیں دس منٹ میں زارا بیگم کی رونے کی آواز بھی اس نہ دیکھا پڑھتے وہ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی عروسی ڈوپٹہ سر سے اتر گیا آنسؤ حالت کو مزید زار کرگئے __ صائم کے سنگ بیٹھی علیزے سے باہر آتی آواز سن کہ بے ہوش ہوگئی صورتحال گمبھیر کے ساتھ غمگین ہوگئی وہ سب کے دلوں میں یاد بن کے رہ گیا تھا __
میں آج کے دن قیامت کے آنے کا یقین کرسکتی تھی مگر صالح کے بچھڑنا کا نہیں __” وہ __وہ کیسے کروں گی چاچو اسکی شہادت مجھے بے موت مار گئی حشر کے دن کیسے اسکا سامنا کروں گی ___وہ رو رہی تھی چلا رہی تھی اپنے بال کھینچ رہی تھی صبر کی طنابیں ٹوٹ گئی اور اس شخص کی خبر کا سن کہ ساری انا جھاگ بن کہ بیٹھ گئی اسکی حالت لٹی پٹی فقیرنی کی مانند تھی ___عالم صاحب نے زمین سے اٹھاتے گلے سے لگایا___” وہ بلکنے لگی رونے لگی سارے گھر میں کہرام سا مچ گیا سب کی زبان پہ ایک ہی ورد تھا کہ دولہن بے ہوش ہوگئی ___” باہر نورحرم کے سر پہ ڈوپٹہ کرواتے اسے صالح کے کمرے میں لے گئیں زارا بیگم کسی لٹے پٹے مسافر کی طرح گھٹنوں پہ ہاتھ رکھی تھیں بیٹے کی شہادت کا سن کہ جیسے چین نہیں آرہا تھا شہادت بے شک بلند رتبے کا مقام تھا لیکن اُس ماں کو کون سمجھاتا جس کا غلافی آنکھوں والا شہزادہ اچانک سے اس کی نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوگیا __
قدر نہ ہو تو پچھتاوے مقدر بن جاتے ہیں یہ پچھتاوا ہی تو تھا کہ کوئی بھی ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا وقت بھی گزرتا گیا سورج غروب ہوتا مغرب کی طرف روانہ ہوگیا تاریکی بھری رات پھر آگئی جو جیسے بھیانک محسوس ہو رہی تھی کوئی بھی ہوش میں نہیں تھا__
خوشیوں کا عوصہ بہت مختصر ہوتا ہے جبکہ غم صدیوں پہ محیط ہوتے ہیں ___”
❤❤❤❤
صبح کاذب کا وقت تھے نم چہروں سے آنسوؤں جیسے خوش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے گیارہ بجے تک تابوت میں بند صالح ارمغان عالم کا جسد خاکی فوج کی نفری سمیت گھر آیا گھنے بادلوں سے آسماں بھی ڈھکا ہوا تھا آج زعفران عالم کا وجود بھی عالم صاحب کو دلاسا نہ دے سکا ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں دل کو ویران کرگئیں اس محلے میں جس میں کبھی صالح ارمغان عالم کے قہقے گونجا کرتے تھے آج اس کی نام کے نعرے گونج رہے تھے فوجیوں نے اس کے تابوت کو ایمبولینس سے باہر نکالا عالم صاحب کو عزت مآب سے ہاتھوں سے پکڑ کے جسد خاکی کے قریب لایا گیا تابوت مکمل بند تھا لکڑی کے تابوت پہ شیشہ بھی نہیں لگوایا گیا کیونکہ عالم صاحب کے گوش سب گزار دیا گیا اس وجہ سے خاموش تھے مگر جوان بیٹے کی موت کا صدمہ تھا وہ ایوب نہیں تھے جن کا صبر زمانے میں مشہور تھے تابوت کے اوپر کلمہ شہادت کی چادر تھی پاکستانی جھنڈہ تابوت کے اوپر سلیق سے رکھا گیا تھا پھولوں سے جگہ بھری پڑی تھی صالح ارمغان عالم نام کے حروف کنندہ تھے کل سے سب کہ آنکھوں سے آنسؤں جھڑیوں کی مانند بہے جا رہے تھے گلی کوچے لوگوں سے بھرے پڑے تھے جابجا بھول بکھرے پڑے تھے__
؎ کہ جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
غم عاشقی سے پہلے ہمیں کون جانتا تھا
بس اُس نے خرید کہ مجھے انمول کردیا__”
تیرے عشق نے بنا دی میری زندگی فسانہ __”
دعائیں کریں اب اس گھر میں میرا تابوت ہی آئے __” اسکے الفاظ سماعت بن اچانک سے کانوں میں گونجے تفکر پریشانی میں ڈوبا چہرہ نگاہوں کی پتلی میں ایک بھوُلا بسرا سا منظر بن کہ ٹھہرا تھا آج وہ فولادی طبعیت کا شخص خون کے آنسؤ رو رہا تھا جوان اولاد کو خاک کے سپرد کرنا آساں تھوڑی تھا جب تک جسد خاکی گھر پہنچا تو ساری زندگی کا دردماں بہنوں کا دل چیرتا چلاگیا نورِ حرم نے ساری چوڑیاں توڑ دی تھی وہ تارک الدنیا کی باسی معلوم ہو رہی تھی دکھ یہ تھا اسکا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا عورتیں اسکے ہاتھوں پہ لگی مہندی کو افسوس سے دیکھ رہیں جو اسے اپنا نام کا کرکے چھوڑ گیا __
تدفین میں وقت بہت تھوڑا رہ گیا اس لیے اجازت لیتے نوجوان جسد خاکی کی جانب بڑھے تھے __”
نہیں ہے وقت میرے بیٹے کے جانے کا ابھی اُس کی عمر ہی کیا ہے __” زارا بیگم غم سے پرچور لہجے میں بولی __”
گھنے بادل مزید گھنے ہوگئے الوداعی منظر بہت تکلیف تھا بارش شروع ہوچکی تھی اور کوئی اپنے آخری سفر کی تیاریاں کیے ہوئے تھے ادھوری خواہشات کی راہ میں لاحاصل سی زندگی کھڑی تھی ___
؎ کوئی بن گیا رونق پکھیا دی
کوئی چھوڑ کہ شیش محل چلیا
کوئی بھل گیا مقصد آونٹر دا
کوئی کرکے مقصد حل چلیا
غم فریدہ ایتھے سب مسافر خانہ
کوئی اج چلیا کوئی کل چلیا __”
(غلام فرید )
❤❤❤❤❤❤❤
دن گزر گئے ڈیڑھ مہینے سے زیادہ عرصہ ہوگیا حالات نارمل تو بالکل نہیں ہوئے البتہ زندگی کی ڈگر پھر سے چل پڑی زندگی کہاں رکتی ہے چلتی رہتی ہے ____
علیزے کی رخصتی چھ مہینے ک ملتوی ہوگئی اب گلی کوچوں میں شور شرابہ نہیں ہوتا تھا نہ بے نام سے قہقوں کی آوازیں تھی رفیق چوان کا اڈے پہ اب کوئی سگریٹ کے کش نہیں لگاٹا ، لمبے بالوں والا کوئی لڑکا اپنے ماپ سے بڑی چپل بیٹھا دانت نکالے نظر نہ آتا ، گھر میں بے ترتیبی نام کی چیز ختم ہوگئی ابا کے سفید کُرتے راتوں کو غائب نہیں ہوتے بلکہ ایک ترتیب و سلیقے سے ٹنگے ملتے ، صبح صبح پہلے پراٹھے پہ بے وجہ سی جھڑپ نہیں ہوتی تھی صاف ستھرے کمرے کے گیلے فرش پہ شریر سے لڑکے کے قدموں کے نشان نہیں پائے جاتے ___ ابا کو آدھی رات کے وقت کسی کے قدموں کی معمولی سی آہٹ بھی سنائی نہیں دیتی ، ڈیڑھ مہینے سے کنگھی وہیں شیشے کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی اب انھیں ہر دوسرے تیسرے دن کنگھی شیشہ نہیں لانے پڑتے تھے __ کوئی اماں کو ابا کے خلاف بھڑکاتا نہیں تھا ہر وقت شوخیوں مستیوں پہ کوئی آمادہ نہیں رہتا تھا صبح صبح کی ابا کے مار کی ڈر سے اماں کے پیچھے کوئی نہیں چُھپتا مختصر یہ کہ اس کے بعد بہت سکون تھا اس بے سکون سی زندگی میں __”
دوسرے گھر کے مکین افراد نے مزید خاموشی کی پوشاک پہن لی ___اس انا پرست لڑکی کی آنکھوں کے گوشے ہر وقت نم رہتے تھے وہ شخص ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا وہ راتوں کو اٹھ جاتی تھیں سوتی نہیں تھی اس کی یادیں ہر جگہ بکھری پڑی رہتی __اب اسے کھڑکی سے کسی کے کمر پہ بجتے جوتوں کی کی آواز سنائی نہیں دیتی ، نہ شام کو تایا ابو کی دھاڑ نہ نما آواز اسے بے چین نہیں کرتی نہ بے ڈھنگے سے قہقے اسے بیزار کرتے __کوئی تایا سے لاحاصل بحث نہیں کر رہا ہوتا__سیڑھیوں پہ دگڑ دگڑ کی آوازوں کی آوازیں محض ماضی بن کہ رہ گئیں اپنے چھت پہ کریمی رنگ کے شیڈ کے نیچے کھڑا کوئی اسے عجیب نظروں سے بلاوجہ نہیں گھورتا تھا بالکونی کا دروازہ ہروقت بندہ رہتا تھا اب فضول سی مسسز مسز کی پکار بھی ختم ہوگئی ___
چھت پہ کسی کام کی غرض سے جاتی تو کوئی گلی کے نکڑ پہ موجود نہ ہوتا ، اس شخص کے بعد وہ شام کی رونقوں میں ڈوبا محلہ ویران ہوگیا ، وہ دیوانوں کی طرح ہر زوایے سے دیکھتی رہتی کہ کسی جگہ پہ وہ نظر آجائے گا کہیں پہ تو وہ کھڑا ہوئی جہاں اسکی موجودگی کا احساس بھی ہوتا وہاں کھڑے ہوکہ دیکھتی ___ ” اب کوئی شام کو مانگ کہ چائے پینے والا نہیں رہا، اندھیرے میں کھڑا ہیولہ نظر نہ آتا ، اب مسجدوں میں اس شخص کی سحر بکھیرنے والی اذان کی آواز نہیں گونجتی تھی جو پچھلے ڈیڑھ سالوں سے گونجتی تھی ____
اوائل دن تو عذابوں میں کٹے تھے صالح ارمغان عالم کی مانوس سی قدموں کی آواز کئی تخیل کی دنیا میں گم ہوگئیں ___صالح ارمغان عالم کا عکس محبت بن کہ آنکھوں میں اترتا دکھائی دیتا تو جدائی کے رنگ مزید گہرے ہوگئے ___اس کی شیروانی اس کے پاس تھی جسے وہ گھنٹوں دیکھا کرتی ، اسکے خط کے الفاظ پڑھتی تو پڑھتی رہتی ___” صائمہ بیگم اس کی زار زار حالت پہ پریشان تھی ___”
نورِ حرم __وہ اب بھی اسکی گھڑی کو دیوانوں کی طرح دیکھ رہی تھی جب علیزے کی آواز سنائی دی جو تیزی سے چلتی اسکے پاس بیڈ پہ آکہ بیٹھ گئی __”
کیا ہونا ہے جو انتظار نصیب میں رکھ کہ چھوڑ گیا ہے اسے سوچ رہی ہوں ___” ذرا بھی حرکت کیے بغیر وہ آہستگی سے بولی جیسے ذرا بھی سی ہلی تو صالح کی سوچوں کا سحر ٹوٹ جائے گا ___”
کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی ___” کچھ تو خیال کرلو ___” اپنا نہ سہی تو صائمہ تائی کا خیال کرلو ___” اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے تقربیاً اسے جنجھوڑا ___” وہ تقریبا ہر روز اس کے پاس آتی گھنٹوں اسے باتیں کرتی وہ خود اتنے بڑے صدمے میں مبتلا تھی مگر اسکو اس حالت میں دیکھ کہ دلاسہ دینے آجایا کرتی جس کی باتوں کا آغاز صالح سے شروع ہوتا اور اختتام بھی ___”
صالح نے مجھے زبان سے کبھی نہیں کہا میرا یقین کرو __” کبھی اپنی پارسائی کا حوالہ نہیں دیا لیکن جانتی ہو اسکی آنکھیں اسکے قلب کی پاکیزگی کا پتا دیتی تھیں چیخ چیخ کہ کہتی رہی کہ یقین کرو اس شخص کا ایسا نہیں ہے پر میری آنکھوں پہ برتری کی پٹی بندھی ہوئی تھی جانتے ہوئے بھی اسکی آنکھوں کے رنگ دیکھ کہ انجان بن جاتی __”
میرے ساتھ بالکل صیح ہوا ہے میں تھی اسی قابل ___” کبھی کبھی وہ خود کو کوستی پھر بچوں کی طرح رونے لگ جاتی اور آج بھی وہ ویسا ہی کر رہی تھی
میرے نزدیک وہ کوڑیوں کے بھاؤ پہ بکنے والی حقیر سی شے تھی اس لیے اسکی ناقدری اور ناشکری کی سزا مجھے مل رہی ہے مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ تو انمول پارس نکلا __
ناقدری خون کے آنسوؤں رلاتی ہے علیزے اور میں نے تو صالح جیسے ہیرے شخص کو کھویا ہے صیح کہتے ہیں ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے تم نے کہا تھا مانی بدنصیب ہے جو تمھاری قدر نہیں کرسکا بد نصیب تو میں ہوں جو صالح کی قدر نہیں کرسکی ___” وہ جدائی نہیں علیزے ساری زندگی کے پچھتاوے میرے مقدر میں لکھ کہ چلا گیا اس کے ہونے سے میں سکون سے سوتو جایا کرتی اب مجھے نیند نہیں آتی ___
کیا ہوگا تمھیں نورِ حرم وہ مرا نہیں ہے جو تم ماتم منا رہی ہو شہید ہوا ہے سب کی نگاہوں میں زندہ ہے وہ مر کہ بھی زندہ ہے ___خود کو ایذا دینا چھوڑ دو بس اس کے لیے دعا کیا کرو ___”
آج رات خواب میں دیکھا اسے ___” وہ بہت خوش لگ رہا تھا ایسا لگ رہا ہے جیسے جنت میں چلا گیا وہ تو کہتا تھا کہ میرا تمھارے بغیر دل نہیں لگے گا کیا جنت میں اسکا میرے بغیر دل لگ گیا ہے ___ آج ڈیڑھ مہنے سے زیادہ عرصہ ہوگیا صالح ارمغان عالم کو اسکی نگاہوں سے اوجھل ہوئے اور وہ جیسے جلتے صحراؤں پہ سفر کر رہیں تھی اس وقت بھی اہ ایسی رو رہی تھی علیزے کو اسے سنھبالنا مشکل ہورہا تھا__
❤❤❤❤❤❤❤
بہت بہت معذرت ماسٹر صاحب ___چاہنے کے باوجود بھی نہ آسکا میری بھتیجی کا نکاح تھا پہلے کچھ دن گاؤں میں پھر تبلیغ کے سلسلے میں دوسرے گاؤں چلا گیا آپ کے بیٹے کی شہادت کا علم ہی نہ ہوسکا ____”
حافظ صہیب ماسٹر صاحب سے معذرت انداز میں گویا ہوئے ماسٹر صاحب سے ان کی علیک سلیک اکثر جمعہ کے موقع پہ ہوجاتی جس بناء پہ جان پہچان ہوگئی اب فاتحہ کے بعد وہ ان سے کچھ سوال و جوابات پوچھ کے مخاطب ہوئے __”
صبر کریں عالم صاحب بے شک اللہ پاک کی ذات صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اس نے جو لیا ہے وہ اُسے بھی بہتر انداز میں آپ کو دے گا ___ اس وقت آپ پہ یہ صدمہ بہت بھاری ہے میں جانتا ہوں تسلیوں سے دل نہیں مانتے بلکہ جن صدموں سے گزرے ہوں وہ ہی جانتے ہیں
اور زندگی کا کیا بھروسہ کونسی رات قبر میں بسر ہوجائے آپ کا بیٹے کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ حسین بہت ساری یادوں کا مجموعہ ہے خلوص و محبت سے گزرا لمحے انساب بھول کیسے سکتا ہے شہادت تو وہ موت ہے جس میں حساب و کتاب کے متعلق پوچھے سیدھے جنت میں بھیج دیا جاتا ہے
زندگی وجود میں آتی ہے پروان چڑھتی ہے عروج کو پہنچتی ہے زوال آتا ہے اور بالاآخر اسکا اختتام ہوجاتا ہے جانے والے چلے جاتے ہیں پھر زندگی کی حسین یادوں کے لمحے ہمارے ہاتھ میں تھما جاتے ہیں __” جدائی کا دکھ تو یقینی ہے ___” ان کے بار بار ہوتی نم نگاہیں بیٹے کی جدائی میں سوکھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی انھوں نے کتنی دفعہ انھیں دیکھا ان کی شخصیت میں ایک خاص کا رعب و تمکنت موجود ہوتی مگر آج جیسے وہ موجود تھی ان کی شخصیت خالی ریزہ کر گئی ___ان کیا معلوم تھا انھیں بیٹے کی جدائی نہیں بلکہ اسکے ساتھ کی گئی سختیاں رُلاتی تھی ___
زعفران ٹرے میں چائے بسکٹ لے آیا ان کے سامنے ٹیبل پہ رکھتے مصافحہ کرتے پھر سے باہر نکل گیا حافظ صاحب کو اس شخص کی روکھا رویہ دیکھ کہ حیرت ہوئی ___” وہ کچھ دیر بیٹھے رہے پھر اٹھ کھڑے ہوئے تھے
چلیں عالم صاحب اجازت دیں اب مجھے چلنا چاہیے ___” وہ اٹھے تو عالم صاحب بھی ان کی تقلید میں اٹھ کھڑے ہوئے جب حافظ صہیب پلٹے تو ان کی نگاہیں پیچھے شیڈز پہ سلیقے سے رکھی صالح ارمغان کی وردی میں ملبوس تصویر پہ پڑی تو کچھ پل کےلیے ہل نہ سکے تھے یعنی تو پچھلے ڈیڑھ مہنیے سے اب مسجد کے ویران کونے کا منظر بہت کچھ سمجھا گیا اب مسجد کی باہر سیڑھیوں پہ کوئی گھنٹوں بیٹھا نہ دکھائی جو نہ رہتا ____”
ی___یہ کون ہے ____اندیشوں میں گھرتے انھوں نے پوچھا زبان لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوئی کے جیسا وہ سوچ رہیں ویسا کچھ نہ ہو ___صرف اک سوچ یا پھر کوئی وہم ہو ____”
یہ ___یہ صالح ہے یہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے مسجد نہیں آتا بہت نیک سلجھا ہوا بچہ تھا میرے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا مجھے لگتا تھا جیسے اسکو محبت کا روگ لگا یے جوانی میں زیادہ تر نوجوان محبت میں ناکام ہوتے ہیں لیکن اسکی باتوں کی مضبوطی بتاتی کہ چھوٹا روگ نہیں بلکہ بہت بڑا روگ ہے ___”
وہ اس کے تصویر کو دیکھتے اتنا روئے کے عالم صاحب کو حیرت و بے یقینی کے جھٹکے لگے در پہ در انکشافات جیسے روح کو ختم کرنے لگے ان کے آنسؤں سےپرُ چہرے کو دیکھ کہ وہ سوچنے لگے کہ ایسا کیا ہوا وہ جو انھیں صبر کی تلیقن کر رہے تھے خود ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں__تقربیاً آدھے گھنٹے وہ خاموش ہوئے ماسٹر صاحب انھیں صوفے پہ بیٹھایا تھا
اس کے بات پہ ان کے پاس بیٹھے صالح کی باتیں کرتے رہے تھے بڑی محبت سے وہ ایک ایک صالح کے بارے میں بتاتے رہے تھے ___”
❤❤❤❤❤❤❤
زعفران رک جاؤ یہاں ___” تمھارے علاوہ میرا کوئی سہارا نہیں رہا ارمغان کے بعد تم میرا آخری سہارا ہو __
ایک بیٹے کو کھو دیا اب دوسرے کو نہیں کھوسکتا ایوب جتنا صبر و ظرف نہیں مجھ میں __” مزید دس دن گزرے تو انھوں نے زعفران سے کہا جو شام کے وقت اپنی تیاری کے چکروں تھا دن میں دو بار اسے نے ابا کو لفظوں میں باور کروایا کہ وہ کل سے چلا جائے گا آگے ہی بہت ضیاع ہوگیا ہے ___” برآمدے کے باہر بارش کے بعد کی دھوپ کا ہلکا سا سنہری آنگن میں مزید سناٹے پھیلا رہا تھا زارا بیگم کچن میں چائے بناتی ان کی ہلکی سی سرگوشیاں سن رہیں تھیں __
ابو میں یہاں نہیں رک سکتا میری ڈیوٹی میرا بہت سارا کام ہے ___” وہ بڑے عام سے انداز میں بول رہا تھا علیزے کمرے سے باہر نکل آئی ___
اچھا ٹھیک ہے ہم انتظار کرلیں گے میں جانتا ہوں تمھاری نوکری مشکل ہے اسلیے اگلی بار جب آؤ گے میرا دل ہے کہ علیزے کی شادی ساتھ تمھارا نورِ حرم کے ساتھ نکاح _____
ابو اللہ کا واسطہ حد ختم ہے آپکی خودغرضی پہ ___آپ نے یہ سب سوچ بھی کیسے لیا میں شادی کر چکا ہوں میرے دو بچے ہیں مصروفیت کے سبب بتا نہ سکا آج بتا ہوں میرا پانچ سال کا بیٹا اور تین سال کی بیٹی ہے ___” وہ بڑے پرُسان انداز لیے ایسے بتا رہا تھا جیسے کوئی چیز خریدی ہو اور بتا نہ سکا ہو __” علیزے بھائی کی بات سن کہ سناٹے میں آگئی ___
تم نے شادی کرلی اور مجھے بتانا بھی گوارا نہیں کیا میں سگا باپ تھا تمھارا زعفران___ پانچ سال کا تمھارا بیٹا ہے اور تم کہہ رہے ہو مصروفیت کی وجہ سے نہیں بتا سکا اتنی بھی کیا مصروفیت ؟؟___” مجھے لگا تھا تم اپنی نوکری کی وجہ سے گھر نہیں آتے __” میرے پوتے پوتی کی شکل تک تم نہیں دکھائی اتنا بھی میرا حق نہیں رہا ___” در پہ در جھٹکے تھے جو ان کو لگ رہے تھے ان کی آواز کچھ اونچی ہوئی لیکن لہجہ کھوکھلا اور ٹوٹا پھوٹا سا تھا _
اب تو بتا دیا ہے نا ابو ___” ویسے اس جھوپنڑی میں انھیں کیا لاتا وہ ان مشکلات بھری زندگیوں کے عادی نہیں ہیں اس چھوٹے سے محلے میرا خود آنے کا دل نہیں کرتا انھیں کیا لاؤں ___کیا دیکھاؤں __؟؟ گاڑی یہاں تک مشکل سے پہنچتی ہے میرے بیوی بچے آسائشات کے عادی ہے وہ ایک دن بھی یہاں گزارا نہیں کرپائینگے __”
کہتا رہا آپ کو لیکن آپ کی جیسی سوچ یہ ہی اٹکی ہے ساری زندگی آپ نے اپنے اس چھوٹے سے محلے میں گزار دی آپ کی سوچ اسے محلے سے آگے جا ہی نہ سکی ___”
بھائی اب آپ یہ بہت بہت غلط کر رہے ہیں ابو کی حالت پہلے ہی دیکھ لیں وہ پہلے ہی کس صدمے سے دوچار ہیں آپ کو خیال کرنا چاہیے ان کا جوان بیٹا پہلے ہی چلا گیا ___” علیزے اس الزام پہ چپ نہ رہ سکی باپ کی آنکھوں کی ویرانگی اسے ذرا اچھا نہیں لگی اس لیے زعفران کو ٹوک دیا ___
تو خود بتاؤ علیزے ساری زندگی انھوں نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے ___” اس کی آواز مدھم تھی بدتمیزی نہ تھی اونچی آواز ذرا بھی نہ تھی لیکن باتمیز لہجے کی کاٹ اتنی تھی کہ عالم صاحب کے اندر کی بنیادوں کو ہلا گئیں ابا مسکرا دیے اتنی اذیت چھپی تھی بے اختیار ایک منظر نظروں میں اترا آیا کوئی جوتے کھاتا ڈھیٹ مسکراہٹ لیے سر جھکاتا نظرآیا اب رب اس شخص کو صبر دے سکتا جو اپنی حالتِ زار کہنے سے قاصر تھا اُن کےلیے اس فرمانبردار اولاد کے الفاظ نہیں بلکہ طمانچے تھے جو ان کی روح پہ پڑے تھے __
؎ اب خاک چھانو یا لہو روؤ _____
جو بچھڑے ہیں وہ سرِ محشر ہی ملیں گے
ابو ___” علیزے آگے ہوئیں تھیں ان کو روتے دیکھ کہ وہ ان کے پاس بیٹھی تھی__
ابو صبر کریں ____”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial